نئی دہلی،02 جنوری / قابلِ احترام ، جناب سِدھ لنگیشورا سوامی جی ، کرناٹک کے وزیر اعلیٰ جناب بی ایس یدی یورپاّ جی ، مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی ، جناب ڈی وی سدانند گوڑا جی ، جناب پرہلاد جوشی جی ، کرناٹک حکومت کے وزراء صاحبان ، یہاں موجود قابلِ احترام سَنت سماج ، عقیدت مند ، خواتین و حضرات ، آپ سبھی کو نمسکار ۔ تمکورو میں ڈاکٹر شیو کمار سوامی جی کی سرزمین سِدھ گنگا مَٹھ میں آکر مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے ۔ سب سے پہلے آپ سبھی کو نئے سال کی مبارکباد ۔
سال 2020 آپ سب کو مبارک !
یہ میری خوش قسمتی ہے کہ سال 2020 ء کی شروعات ، اِس مقدس زمین سے ، آپ سبھی کے درمیان سے کر رہا ہوں ۔
میری دعاء ہے کہ سِدھ گنگا مَٹھ کی یہ مقدس توانائی سبھی اہلِ وطن کی زندگی کو خوش حال بنائے ۔
ساتھیو ، آج کئی سال بعد یہاں آیا ہوں تو ایک سونا پن سا بھی محسوس ہو رہا ہے ۔ قابلِ احترام سوامی شری شری شیو کمار جی کی جسمانی غیر موجودگی ، ہم سب محسوس کرتے ہیں ۔ میں نے تو بذاتِ خود محسوس کیا ہے کہ اُن کےدرشن سے ہی زندگی توانائی سے بھر جاتی تھی ۔ اُن کی متاثر کن شخصیت سے یہ مقدس جگہ دہائیوں سے سماج کو سمت دیتی رہی ہے ۔ خاص طور پر ایک تعلیم یافتہ اور مساوی مواقع والے سماج کی تعمیر کی گنگا یہاں سے مسلسل بہتی رہی ہے ۔ اپنی زندگی میں سوامی جی نے جتنے لوگوں کی زندگیوں پر اثر ڈالا ، ویسا کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے ۔
یہ میری خوش قسمتی ہے کہ شری شری شیو کمار جی کی یاد میں بننے والے میوزیم کا سنگِ بنیاد رکھنے کا موقع ملا ۔ یہ میوزیم نہ صرف لوگوں کو تحریک دے گا ، بلکہ سماج اور ملک کی سطح پر ہمیں سمت دینے کا بھی کام کرے گا ۔ میں قابلِ احترام سوامی جی کو پھر یاد کرتے ہوئے ، اُن کے قدموں میں سر جھکاتا ہوں ۔
ساتھیو ، میں یہاں ایسے وقت میں آیا ہوں ، جب کرناٹک کی سرزمین سے ایک اور عظیم سنت کا ساتھ چھوٹ گیا ہے ۔ پیجاوَر مَٹھ کے سربراہ وِشویش تیرتھ سوامی کا انتقال بھارتی سماج کے لئے ایک کمی پیدا کر گیا ہے ۔ ہماری روحانی اور سماجی زندگی کے ایسے ستونوں کا ہمارے بیچ سے جانا ایک بڑا خلاء چھوڑ جاتا ہے ۔ ہم جسمانی زندگی کی اِس رفتار کو تو نہیں روک سکتے لیکن ہمارے اِن سنتوں کے دکھائے راستے کو روشن ضرور کر سکتے ہیں ۔ انسانیت کی خدمت اور ماں بھارتی کی خدمت میں خود کو وقف کر سکتے ہیں ۔
ساتھیو ، یہ اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ بھارت نے نئی توانائی اور نئے جوش کے ساتھ 21 ویں صدی کی تیسری دہائی میں قدم رکھا ہے ۔ آپ کو یاد ہو گا کہ گذشتہ دہائی کی شروعات کس طرح کے ماحول سے ہوئی تھی لیکن 21 ویں صدی کی یہ تیسری دہائی امیدوں کی ، آرزوؤں کی مضبوط بنیاد کے ساتھ شروع ہوئی ہے ۔
یہ امنگیں نئے ہندوستان کی ہیں ۔ یہ امنگیں جوان خوابوں کی ہیں ۔ یہ امنگیں ملک کی بہنوں بیٹیوں کی ہیں ۔ یہ امنگیں ملک کے غریب ، دلت ، محروم ، مظلوم ، پسماندہ آدی واسیوں کی ہیں ۔ یہ امنگیں کیا ہیں ؟ ہندوستان کو خوش حال ، اہل اور سب کے مفادات کا خیال رکھنے والی عالمی طاقت کی شکل میں دیکھنے کی ہیں ۔ دنیا کے نقشے پر بھارت کو اپنا فطری مقام پاتے ہوئے دیکھنے کی ہیں ۔
ساتھیو ، کسی امنگ کی تکمیل کے لئے ، قوم کی شکل میں بڑی تبدیلیوں کو ملک کے لوگوں نے اعلیٰ ترین ترجیح دی ہے ۔ اب یہ ہر ہندوستانی کا مزاج بن چکا ہے کہ وراثت میں ، جو مسائل ہمیں ملے ہیں ، انہیں حل کرنا ہی ہو گا ۔ سماج سے نکلنے والا یہی پیغام ہماری حکومت کو بھی تحریک دیتا ہے ، حوصلہ بخشتا ہے ۔ یہ سبب ہے کہ 2014 ء کے بعد سے ہی عام ہندوستانی کی زندگی میں با معنیٰ تبدیلی لانے والی غیر معمولی کوششیں ملک نے کی ہیں ۔
گذشتہ سال نے تو ایک سماج کے طور پر ، ایک قوم کی شکل میں ہماری اُن کوششوں کو بلندی پر پہنچایا ہے ۔ آج ملک کو کھلے میں رفع حاجت سے پاک کرنے کا عزم پورا ہو رہا ہے ۔ ملک کی غریب بہنوں کو دھوئیں سے آزاد کرنے کے عہد کی تکمیل ہو رہی ہے ۔ ملک کے ہر کسان کنبے کو راست مدد ، کھیت مزدوروں ، محنت کشوں ، چھوٹے تاجروں کو سماجی تحفظ کا ، پنشن جیسے نظام سے جوڑنے کا عہد مکمل ہو رہا ہے ۔
دہشت گردی کے خلاف بھارت کی پالیسی اور طریقۂ کار میں تبدیلی کا عہد بھی مکمل ہو رہا ہے ۔ جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کو ہٹاکر وہاں کی زندگی سے دہشت اور غیر یقینی کو دور کرنے کا ، جموں و کشمیر اور لداخ کے لوگوں کی قیادت میں ترقی کے نئے عہد کے آغاز کا عہد بھی مکمل ہو رہا ہے اور ان سب کے درمیان بھوان رام کی جائے پیدائش پر ایک شاندار مندر کی تعمیر کی راہ بھی پورے امن اور تعاون سے روشن ہو چکی ہے ۔
ساتھیو ، چند ہفتہ قبل ہی ہماری جمہوریت کے سب سے بڑے ادارے ، ہماری پارلیمنٹ نے شہریت ترمیمی قانون بنانے کا بھی تاریخی کام کیا ہے لیکن کانگریس کے لوگ ، اُن کی ساتھی جماعتیں اور اُن کا بنایا ماحولیاتی نظام ، ہندوستان کی پارلیمنٹ کے خلاف ہی اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔ جس طرح کی نفرت ، وہ ہم لوگوں سے کرتے ہیں ، ویسی ہی آواز اب ملک کی پارلیمنٹ کے خلاف سنائی دے رہی ہے ۔ ان لوگوں نے ہندوستان کی پارلیمنٹ کے خلاف ہی تحریک شروع کر دی ہے ۔ یہ لوگ پاکستان سے آئے دلتوں ، مظلوموں ، محروموں کے ہی خلاف تحریک چلا رہے ہیں ۔
ساتھیو ، پاکستان کا قیام مذہب کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا ۔ ملک مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوا تھا اور تقسیم کے وقت سے ہی پاکستان میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مظالم شروع ہو گئے تھے ۔ وقت کے ساتھ پاکستان میں چاہے ہندو ہوں ، سِکھ ہوں ، عیسائی ہوں ، جین ہوں ، اُن پر مذہب کی بنیاد پر مظالم میں اضافہ ہی ہوا ہے ۔ ہزاروں ایسے لوگوں کو وہاں سے اپنا گھر چھوڑ کر پناہ گزینوں کی شکل میں ہندوستان آنا پڑا ہے ۔
پاکستان نے ہندوؤں پر ظلم کیا ، سِکھوں پر ظلم کیا ، جین اور عیسائیوں پر ظلم کیا لیکن کانگریس اور اس کے ساتھی پاکستان کے خلاف نہیں بولتے ۔ آج ہر اہلِ وطن کے مَن میں سوال ہے کہ جو لوگ پاکستان سے اپنی جان بچانے کے لئے ، اپنی بیٹیوں کی زندگی بچانے کے لئے یہاں آئے ہیں ، اُن کے خلاف تو جلوس نکالے جا رہے ہیں لیکن جس پاکستان نے اُن پر یہ ظلم کیا ، اُس کے خلاف اِن لوگوں کے منہ پر تالے کیوں لگے ہوئے ہیں ؟
ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ پاکستان سے آئے پناہ گزینوں کی مدد کریں ، اُن کے ساتھ کھڑے نظر آئیں ، ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ پاکستان سے آئے ہندوؤں ، دلتوں ، مظلوموں ، محروموں کو ، اُن کے مقدر پر نہ چھوڑیں ، اُن کی مدد کریں ۔ ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ پاکستان سے آئے سکھوں کو ، اُن کے مقدر پر نہ چھوڑیں ، اُن کی مدد کریں ۔ ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ پاکستان سے آئے جین اور عیسائیوں کو ، اُن کے مقدر پر نہ چھوڑیں ، اُن کی مدد کریں ۔
ساتھیو ، جو لوگ آج ہندوستان کی پارلیمنٹ کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں ، میں انہیں کہنا چاہتا ہوں کہ آج ضرورت بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی اس حرکت کو بے نقاب کرنے کی ہے ۔ اگر آپ کو تحریک ہی چلانی ہے تو پاکستان کے گذشتہ 70 برس کے کارناموں کے خلاف آواز اٹھائیے ۔ اگر آپ کو نعرے لگانے ہی ہیں تو پاکستان میں جس طرح اقلیتوں پر ظلم ہو رہا ہے ، اس سے وابستہ نعرے لگائیے ۔ اگر آپ کو جلوس نکالنا ہی ہے تو پاکستان سے آئے ہندوؤں ، دلتوں ، مظلوموں ، محروموں کی حمایت میں جلوس نکالیئے ۔ اگر آپ کو دھرنا دینا ہی ہے تو پاکستان کے خلاف دھرنا دیجئے ۔
ساتھیو ، ہماری حکومت ، ملک کو درپیش دہائیوں پرانے چیلنجوں کا حل نکالنے کے لئے دن رات ایک کر رہی ہے ۔ ملک کے لوگوں کی زندگی آسان ہو ، یہ ہماری ترجیح ہو ۔ ملک کے ہر غریب کے پاس پختہ چھت ہو ، ہر گھر میں گیس کنکشن ہو ، ہر گھر میں پائپ سے پانی پہنچیں ، ہر شخص کو صحت سہولتیں دستیاب ہوں ، ہر شخص کے پاس بیمہ سکیورٹی کا غلاف ہو ، ہر گاؤں میں براڈ بینڈ ہو ، ایسے متعدد اہداف پر ہم کام کر رہے ہیں ۔
سال 2014 ء میں ، جب میں نے آپ سے سووچھ بھارت مشن میں شراکت داری کی درخواست کی تو آپ نے پوری صلاحیت کے ساتھ ہاتھ آگے بڑھایا تھا ۔ آپ جیسے کروڑوں ساتھیوں کے تعاون کے سبب ہی گاندھی جی کی 150 ویں جینتی پر بھارت نے خود کو کھلے میں رفع حاجت سے پاک کر لیا ۔
آج میں سنت سماج سے تین عہد میں سرگرم تعاون چاہتا ہوں ۔ پہلا – اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو اہمیت دینے کی اپنی قدیم ثقافت میں پھر مضبوط کرنا ہے ۔ لوگوں کو اس بارے میں مسلسل بیدار کرنا ہے ۔ دوسرا – فطرت اور ماحولیات کا تحفظ اور تیسرا – آبی تحفظ ، پانی کے ذخیرے کے لئے عوامی بیداری میں تعاون ۔
ساتھیو ، ہندوستان نے ہمیشہ سنتوں کو ، رِشیوں کو ، گروؤں کو ، صحیح راستے کے لئے ایک مینارۂ نور کی شکل میں دیکھا ہے ۔ نیو انڈیا میں بھی سِدھ گنگا مَٹھ ، روحانیت اور عقیدت سے وابستہ ملک کی ہر قیادت کا رول اہم ہے ۔
آپ سبھی سنتوں کا آشِرواد ، ہم سبھی پر بنا رہے ، آپ کے آشرواد سے ہم اپنے عزائم کی تکمیل کریں ، اسی دعاء کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں ۔
آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ !
بھارت ماتا کی جے !