نئی دہلی، 28 /جون۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے وقت رہتے سمجھداری بھرے قدم اٹھائے اور زندگی کی ہر چنوتی کے لئے خود کو تیار کیا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آج جو باتیں بتائیں گے وہ ملک کے کروڑوں لوگوں کوترغیب دیں گی۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ زندگی میں ایک بات طے ہے اور وہ ہے زندگی کا غیریقینی ہونا۔ ہم میں سے کوئی یہ نہیں جانتا ہے کہ آنے والے کل، آنے والا پل، کیا لے کر کے آنے والا ہے۔
عوامی تحفظ کی اسکیمیں زندگی کی غیریقینی صورت حال اور حالات سے نبردآزما ہونے کی اور فتح یاب ہونے کی ہمت فراہم کرتی ہیں۔ اور یہ ہمت اب ملک کے کروڑوں لوگوں تک پہنچی ہے۔ پھر چاہے وہ پردھان منتری جیون بیمہ اسکیم ہو، پردھان سرکشا بیمہ یوجنا ہو، اٹل پنشن یوجنا ہو یا پردھان ویہ وندنا یوجنا ہو۔
عوامی تحفظات کی اسکیمیں عوام الناس کو اور خاص طور پر اقتصادی طور پر پسماندہ طبقات کو بااختیار بنارہی ہیں، جس سے مصیبت کے وقت وہ مضبوطی کے ساتھ کھڑے رہ سکیں، زندگی سے ہار نہ جائیں۔ جب ہماری حکومت قائم ہوئی، ہم اقتدار میں آئے تو اقتصادی امداد تو دور کی بات، غریب کے پاس اپنا بینک کھاتہ بھی نہیں تھا۔
ہم نے تین باتوں پر زور دیا- دلت، مظلوم، استحصال کے شکار، محروم، آدیواسی، خاتون۔ ان سب کو بااختیار بنانے کے لئے بینکنگ سہولت سے محروم افراد تک بینک کی سہولت کی بہم رسانی۔ چھوٹی صنعتوں اور چھوٹے کاروباریوں کو اقتصادی مدد فراہم کرانا اور اقتصادی لحاظ سے عدم تحفظ کے شکار افراد کو اقتصادی تحفظ فراہم کرنا ہے۔ یعنی جن کا بینکوں سے کوئی رابطہ نہیں ہے، ان کا بینکوں سے رابطہ قائم کرانا، جنھیں سرمایہ درکار ہے، انھیں سرمایہ فراہم کرانا اور مالی عدم تحفظ کے شکار افراد کو مالی تحفظ فراہم کرنا۔
اور آپ سب لوگو ں کو بہت خوشی ہوگی کہ عالمی بینک کی فنٹیکس رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیراعظم کی جن دھن یوجنا ایک کامیاب مالی شمولیت پروگرام رہا، جس میں تین سال میں 2014-17 کی مدت میں 28 کروڑ نئے بینک کھاتے کھولے گئے۔ یہ تعداد اس مدت کے دوران پوری دنیا میں کھولے گئے سبھی نئے بینک کھاتوں کا 55فیصد ہے- نصف سے زائد۔ پہلے ہمارے یہاں کہاوت ہوتی تھی، ایک بازو رام، ایک بازو گاؤں۔ یعنی ایک طرف ہندوستان اور ایک طرف دنیا۔
اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت میں بینک کھاتے رکھنے والوں کی تعداد میں 2014 میں یعنی ہماری حکومت قائم ہونے سے پہلے قریب قریب 50-52 فیصد تھی۔ ان تین برسوں میں 80 فیصد کو پار کرچکی ہے اور خاص طور سے خواتین کے بینک کھاتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ سالوں سے بات ہوتی آئی ہے کہ الگ الگ ملکوں میں سماجی تحفظ کا نظم ہے لیکن بھارت میں نہیں ہے۔
جب ہم برسراقتدار آئے تب حال کچھ ایسا ہی تھا۔ ملک کا عام انسان سماجی تحفظ سے محروم تھا۔ یہ بات صحیح ہے کہ بھارت میں روایتی طور سے مشترکہ خاندان کا نظام قائم رہا۔ ایک ایک کنبے میں 20-20، 25-25، 30-30 لوگ ساتھ رہتے تھے، تو سماجی نظام تھا، تحفظ تھا۔ لیکن اب کنبے چھوٹے ہوتے چلے جارہے ہیں، معمر والدین الگ رہتے ہیں، بچے الگ رہتے ہیں۔ سماجی نظام بدل رہا ہے۔
ہم نے اس صورت حال میں تبدیلی لانے کے لئے اس نئی صورت حال میں تحفظ فراہم کرنے کے لئے آج پردھان منتری جن دھن یوجنا کے تحت لائف کور اور روپئے کارڈ، ایکسیڈنٹ کور کے توسط سے بیمہ سہولت فراہم کرائی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام الناس کے تحفظ کی اسکیموں کے تحت دو بیمہ اور ایک پنشن اسکیم شروع کی گئی ہے۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ 2014 میں جہاں حکومت کی بیمہ اسکیموں کے تحت صرف 4 کروڑ 80 لاکھ یعنی پانچ کروڑ سے بھی کم سبسکرائبر تھے، آج 2018 میں عوام الناس کے تحفظ کی اسکیموں کے تحت یہ تعداد 10 گنا سے زیادہ بڑھ گئی ہے اور قریب قریب 50 کروڑ سبسکرائبر ہوچکے ہیں۔
عوام الناس کے تحفظ کے تحت شروع کی گئی اسکیمیں الگ الگ صورت حال کے لئے ہیں اور کافی کم پریمیم پر شروع کی گئی ہیں، تاکہ ملک میں ہر علاقے، ہر طبقے میں، ہر عمر کے لوگ ان سے استفادہ کرسکیں۔
میں آج جن لوگوں سے بات کرنے والا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ اسکیمیں ایسی ہیں جن کے ساتھ درد جڑا ہوا ہے، تکلیف جڑی ہوئی ہے، ایک بہت بڑا صدمہ جڑا ہوا ہے، لیکن جنھوں نے اس مصیبت کی گھڑی کو جھیلا ہے، سخت وقت سے گزرے ہیں، ان کو اس اسکیم سے کیسے مدد ملی ہے۔ اب ان کی بات ملک کے اور ہمارے بھولے غریب شہری سنتے ہیں تو ان کا اعتماد بڑھ کرکے ان کو بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہاں، اس اسکیم کا بھی مجھے فائدہ ملنا چاہئے اور اس طرح سے غم کو یاد کرنا بھی تکلیف دہ ہوتا ہے، لیکن کبھی کبھی کسی شخص کے دکھ میں، مصیبت کی گھڑی میں جو مدد ملی ہے، وہ اگراور لوگ جانتے ہیں تو وہ بھی ممکنہ مصیبتوں سے بچنے کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔
میرے پیارے دیش واسیو، دیکھا ہوگا آپ نے، کہ ان واقعات کو سن کر ہم سب کو افسوس تو ہوتا ہے، لیکن کسی فرد کے چلے جانے سے اس کے کنبے کو جو خسارہ لاحق ہوتا ہے، اس کی بھرپائی کوئی نہیں کرسکتا۔ بذات خود خدا بھی نہیں کرسکتا، لیکن ایسی مشکل گھڑی میں کنبے کو اقتصادی سہارا مل جائے، اس گھڑی میں وہ کچھ پل کے لئے ٹک جائیں، پھر وہ اپنا راستہ تلاش کرلیتا ہے اور اسی مقصد سے پردھان منتری جیون جیوتی بیمہ شروع کی گئی ہے۔
اس اسکیم کے تحت صرف، اور میں سمجھتا ہوں، میرے اہل وطن اس بات کو سمجھیں، صرف 330 روپئے، اتنے سے دو لاکھ روپئے کے بیمہ کا کور فراہم ہوجاتا ہے۔ 330 روپئے سالانہ مطلب کہ ایک دن میں ایک روپئے سے بھی کم، یعنی اتنے کم پیسوں میں آج بازار میں کچھ ملتا بھی نہیں ہے۔ ایسے وقت میں اس کا فائدہ کیسے لیں۔ اس اسکیم میں اب تک ساڑھے پانچ کروڑ لوگوں نے اس کے ساتھ اپنا فائدہ اٹھایا ہے اور مصیبت میں لوگوں کو کروڑوں روپئے کا کلیم بھی ملتا ہے۔ آئیے کچھ لوگ بھی ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، ہم ان کے ساتھ چلتے ہیں، ان کی باتیں سنتے ہیں۔
ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ مصیبت کچھ کہہ کرکے نہیں آتی۔ کبھی اطلاع دے کرکے مصیبت نہیں آتی، اور نہ ہی مصیبت آپ امیر ہیں تو آئے گی اور غریب ہیں تو نہیں آئے گی۔ اور غریب ہیں تو آئے گی اور امیر ہیں تو نہیں آئے گی۔ ایسا نہیں ہے۔ وہ توکہیں پر بھی آسکتی ہے، لیکن ہم ان حادثات کا سامنا کرنے کے لئے خود کو تیار کرسکتے ہیں۔ اقتصادی تحفظ یقینی بناسکتے ہیں۔
وزیراعظم کی سرکشا بیمہ اسکیم اسی مقصد سے شروع کی گئی تھی۔ اس کے تحت 12 روپئے سالانہ یعنی صرف ایک روپئے ماہ کے پریمیم سے دو لاکھ روپئے کا حادثہ بیمہ کور ملتا ہے۔ اب تک اس اسکیم کو قریب قریب 13-14 کروڑ سے زائد افراد نے اپنایا ہے۔ یہ تعداد یعنی 13-14 کروڑ روپئے، اگر دنیا میں ہم میکسیکو ملک کو دیکھیں یا جاپان کا ملک دیکھیں تو اس ملک کی جو مجموعی آبادی ہے، اس سے بھی ہمارے یہاں اس تحفظاتی حصار والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اتنا وسیع کوریج ہے اور اتنے کم وقت میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا اس سے مربوط ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں میں بیمہ اور اس کے فوائد کو لے کر کافی بیداری پیدا ہوئی ہے۔
جب بھی کسی شخص کے ساتھ کوئی ناشدنی ہوتی ہے تو اس کے پورے کنبے کے سامنے مصیبت کھڑی ہوجاتی ہے، سارے خواب بکھر جاتے ہیں۔ اسکیم بنائی ہو، دو سال میں کریں گے، تین سال میں کریں گے، سب دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ اس کے باوجود متعدد مرتبہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ بیمہ کو نظرانداز کرتے رہتے ہیں۔ کئی بار ایسے بھی رہتے ہیں، بیمہ کروالیں گے، ہوجائے گا، بہت وقت ہے، ضرورت ہی کیا ہے، آج پورا ملک دیکھ رہا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ بیمہ کو لے کر اس طرح کی ذہنیت میں تبدیلی واقع ہو۔ زیادہ سے زیادہ افراد سماجی تحفظ کی اسکیموں سے مربوط ہوں۔
چند سال قبل روز کمانے والے اور روز کماکر کھانے والا انسان بیمہ کے بارے میں سوچتا تک نہیں تھا اور اس کی وجہ تھی بیمہ کے پریمیم میں لگنے والی رقم۔ اب وہ اپنی آمدنی سے آج کی ضروریات کی تکمیل کریں گے یا اسے مستقبل کی فکر میں لگادیں۔ یہ تذبذب بنا ہی رہتا تھا۔ ایسے لوگ جو سبزی کا ٹھیلا لگاتے ہیں، آٹو رکشہ چلاتے ہیں یا دہاڑی مزدوری کرتے ہیں یا دوسرا کوئی چھوٹا موٹا کام کرکے گزر بسر کرتے ہیں، ان کے لئے انشورنس کے بارے میں سوچنا بھی ناممکن ہوگا۔
آج اس ناممکن کو ممکن بنایا گیا ہے۔ میرے دلت، مظلوم، استحصال کے شکار، محروم، غریب، ان کے لئے بنایا ہے۔ بس ایک روپئے ماہانہ پر لوگوں کو لائف انشورنس کی سہولت پہنچائی ہے۔ اب تک سماج کا جو طبقہ اپنا مستقبل رام بھروسے چھوڑکر چلتا تھا، اب اس نے اس میں بیمہ کا بھروسہ جوڑکر رکھا ہے۔ آئیے ہم کچھ اور لوگوں سے بات کرتے ہیں۔
دیکھئے، ضعیفی زندگی کا ایک اہم پڑاؤ ہے، یہ ایک ایسا وقت ہے جب ہمیں کئی چیزوں کے لئے دوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت میں اقتصادی طور پر ہم خودکفیل بھی رہیں، پنشن کے تصور کو اسی مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے عملی جامہ پہنایا گیا تھا۔ بڑے بزرگوں کی دعا ہمیشہ ملتی رہے، اور ان کی دعا کے بل پر ہم سب اس ملک کو آگے لے جانے کی سمت میں لگاتار کوشش کرتے رہیں۔ یہ حکومت ہمارے بزرگوں کے لئے عہدبند سرکار ہے۔ اور اس کے لئے سرکار نے ان کی صحت سے لے کر ان کے اقتصادی مورچے تک سبھی سہولتوں کو آسان بنانے کا کام کیا ہے۔
ضعیفی سے متعلق مسائل کی سنجیدگی کو محسوس کرتے ہوئے، ان سے نمٹنے کے لئے گزشتہ چار برسوں میں کئی پالیسیاں اور اسکیمیں بنائی گئی ہیں۔ گزشتہ برس سرکار نے پردھان منتری ویہ وندنا یوجنا کی شروعات کی ہے۔ اس یوجنا کے تحت 60 سال سے اوپر کے شہریوں کو 10 سال تک 8 فیصد طے شدہ ریٹرن ملتا ہے۔ سود میں اتار چڑھاؤ کچھ بھی ہو، اس کے اندر کوئی فرق نہیں آنے دیا جاتا۔
اگر ریٹرن آٹھ فیصد سے کم آتی ہے تو حکومت خود کی تجوری سے اس کی بھرپائی کردیتی ہے، پیمنٹ کردیتی ہے۔ اس اسکیم کے تحت معمر شہریوں، ماہانہ، سہ ماہی، ششماہی یا سالانہ بنیاد پر ریٹرن کا متبادل بھی چن سکتے ہیں۔ اس اسکیم کے تحت معمر شہری 15 لاکھ روپئے تک کی سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔ ابھی تک لگ بھگ تین لاکھ سے زیادہ لوگ اس اسکیم کا فائدہ حاصل کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ سرکار معمر شہریوں کو ٹیکس انسینٹیو بھی دے رہی ہے۔ ان کے لئے آمدنی پر ٹیکس میں چھوٹ کی بنیادی حد کو ڈھائی لاکھ سے بڑھاکر تین لاکھ کردیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سود پر تخفیف کی حدود جو پہلے 10 ہزار تھی، اسے بڑھاکر 50 ہزار کردیا گیا ہے۔ یعنی اب جمع رقم سے ملے 50 ہزار روپئے تک کے سود کو ٹیکس فری کردیا گیا ہے۔
اس طرح سے معمر شہریوں، ان کے لئے جتنی پہل کی گئی، ان کا سب کا فائدہ کیا ہوا، اسے اگر ہم اعداد و شمار میں حساب سے دیکھیں تو مان لیجئے کہ ایک معمر شہری، ایک ہمارا سینئر سٹیزن جن کی سالانہ آمدنی پانچ لاکھ ہے، تو 2013-14 میں، ہمارے آنے سے پہلے ان کولگ بھگ تیرہ ساڑھے تیرہ ہزار 390 روپئے ٹیکس بنتا تھا، لیکن جب سے ہم سرکار میں آئے، ہم نے اس کا سارا فارمولہ بدل دیا۔
2019-19 میں تو صرف دو ہزار 600 رہ گیا، یعنی 13 ہزار سے زیادہ تھا، اب صرف 2600 ہے، یعنی ایک تہائی ہوگیا ہے، یعنی کتنی بڑی تبدیلی آئی ہے۔ نہ صرف اقتصادی مورچے پر بلکہ معمر شہریوں اور ان کی فلاح و بہبود سے جڑے دیگر پہلوؤں پر بھی سرکار نے منصوبہ بند طریقے سے کام کیا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ صحت سے متعلق دقتیں بھی آنی شروع ہوجاتی ہیں۔ دوائیں اور علاج کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں، اسے دھیان میں رکھتے ہوئے جن اوشدھی یوجنا شروع کی گئی، تاکہ دوائیں سستی قیمتوں پر دستیاب ہوں۔ اسی طرح سے اسٹینٹ کی قیمتیں بھی کم کی گئیں۔ گھٹنے کا آپریشن بھی پہلے کے مقابلے سستا اور کفایتی ہوگیا ہے۔
پہلے سینئر سٹیزنس کو، معمر شہریوں کو، اپنےزندہ ہونے کا خود جاکر ثبوت دینا پڑتا تھا، لیکن اب اسے بھی آسان بناتے ہوئے لائف سرٹیفکیٹ کا انتظام شروع کیا گیا ہے۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ ملک کے معمر شہریوں کو مختلف سہولتیں آسانی سے دستیاب ہوں، ان کے آس پاس ہی مہیا ہوں تاکہ انھیں زیادہ بھاگ دوڑ نہ کرنی پڑے۔ وہ صحت مند رہیں اور عزت کے ساتھ اپنی زندگی جی سکیں۔ ہم نے اس بات کو یقینی بنانے کی سمت میں کام کیا ہے۔
ضعیفی میں اقتصادی طور سے کسی پر منحصر نہ رہنا پڑے اور زندگی فخریہ ہو۔ پنشن کی شکل میں ایک مقررہ رقم ملتی رہے۔ سرکار نے یہ یقینی بنانے کے لئے اٹل پنشن یوجنا شروع کی۔ اس اسکیم کے تحت اب تک ایک کروڑ سے زیادہ سبسکرائبر ہیں، جن میں سے قریب 40 فیصد سے زیادہ لوگ ہمارے گاؤوں کے ہیں، دیہی علاقوں سے ہیں۔
سبھی اسکیموں کے ضمن میں دو باتیں اہم ہیں، پہلی کہ سبھی کو بیمہ میں شامل کیا جائے اور کم سے کم پریمیم پر شامل کیا جائے، تاکہ غریب سے غریب شخص بھی اس کا فائدہ اٹھاسکے۔ ہماری سرکار غریبوں کے تئیں حساس ہے۔ غریبوں کی بہبود کو اہمیت دیتے ہوئے اور انھیں بااختیار بنانے کے لئے لگاتار کوشش کررہی ہے۔
ابھی ہم نے الگ الگ اسکیموں پر مستفیدین سے سنا کہ کیسے مشکل وقت میں ان کے اور ان کے کنبے کو معاشی مدد ملی، انھیں ایک سہارا ملا۔
میں مانتا ہوں کہ ان کی کہانیاں ہم سبھی کے لئے جذبے کا وسیلہ ہیں۔ یہ دکھاتا ہے کہ بیمہ تحفظ ہم سبھی کے لئے کتنا ضروری ہے۔ میری سبھی سے درخواست ہے کہ آپ سب بھی ان بیمہ اسکیموں کا فائدہ حاصل کریں اور ساتھ ہی ساتھ آپ کے گھر کے آس پاس کوئی شخص ہو، آپ کے آفس میں کوئی شخص ہو، آپ انھیں بھی ان اسکیموں کے بارے میں بتائیں۔ اس کا فائدہ اٹھانے کے لئے تحریک دیں۔
جتنے فائدہ اٹھانے والے افراد یہاں پر ہیں، آپ لوگ توان کے فائدے کی مجسم مثال ہیں۔ میں آپ لوگوں سے بھی اصرار کرتا ہوں کہ آپ اپنے آس پاس کے لوگوں کو اس کے لئے تحریک دیں۔ میں آپ کو بتادوں کہ پردھان منتری سرکشا بیمہ یوجنا اور پردھان منتری جیون جیوتی یوجنا کے لئے آپ کسی بھی بینک یا پوسٹ آفس جاکر اپنا نام درج کراسکتے ہیں، رجسٹرڈ کراسکتے ہیں۔ اپنا نام درج کراسکتے ہیں۔
اٹل پنشن یوجنا کے لئے آپ کسی بھی بینک کی شاخ میں اپنا نام درج کراسکتے ہیں اور پردھان منتری ویہ وندنا یوجنا کے لئے ملک بھر کے کسی بھی ایل آئی سی آفس میں جاکر اس کا آپ فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
میں ایک بات اور بھی بتانا چاہتا ہوں۔ معمر شہریوں کے لئے کیسی کیسی اسکیمیں ہیں، وہ باوقار طریقے سے اپنی زندگی بسر کریں، اس کے لئے ایسی اسکیمیں ہیں، لیکن میرے ملک کے معمر شہری بھی کتنے وقار سے جینے والے لوگ ہیں۔ بہت بڑی تحریک دیکھتے ہیں۔ آپ لوگوں کو شاید پتہ نہیں ہوگا، اس کا ابھی باہر ذکر بھی نہیں ہوا ہے۔ جب میں نے ملک کے لوگوں کو لال قلعہ سے کہا تھا کہ گیس کی سبسڈی کی کیا ضرورت ہے سب کو، چھوڑ دیجئے نا، اور اس ملک کے ایک کروڑ – سوا کروڑ لوگوں نے گیس کی سبسڈی چھوڑ دی تھی۔
ابھی ریلوے میں ہمارے جو سینئر سٹیزنس ہیں، ان کو ریلوے کے ٹکٹ میں کچھ پیسے کی راحت ملتی ہے، لیکن ریلوے والوں نے اپنے فارم میں لکھا ہے کہ کیا آپ اس سبسڈی کو چھوڑنا چاہتے ہیں؟ آپ پورا ٹکٹ کا پیسہ دینا چاہتے ہیں کیا؟
ہم سب کو فخر ہوگا، میرے ملک کے لاکھوں معمر شہری، جن کو اس کا فائدہ مل سکتا تھا، ریلوے کے ٹکٹ کا پیسہ کم میں وہ سفر کرسکتا تھا، لیکن ملک کے لئے لاکھوں ایسے معمر شہری آگے آئے، جنھوں نے ریلوے میں، جو ان کو سبسڈی ملتی تھی، ٹکٹ میں لینے سے وہ منع کردیا۔ پورا پیسہ دیا اور سفر کیا، کوئی ڈھول نہیں پیٹا گیا، کوئی اپیل نہیں کی گئی، نہ کبھی میں نے ذکر کیا۔ صرف ایک فارم پر لکھا تھا، لیکن انھوں نے وقار سے جینے والے ہمارے معمر شہریوں نے اتنی بڑی قربانی دی، یہ ملک کے لئے چھوٹی خبر نہیں ہے۔
اور جب میرے ملک کے لوگ اتنا سارا کرسکتے ہیں، میرے معمر شہری اتنا کرتے ہیں تو ہم سب کو بھی آپ کے لئے ہر دن کچھ نہ کچھ نیا کرنے کا دل چاہتا ہے، کچھ اچھا کرنے کا دل چاہتا ہے۔ آئیے ہم سب مل کر اپنے ملک کے غریبوں کا بھلا ہو، ہماری ماؤں بہنوں کی فلاح و بہبود ہو، ہمارے بزرگوں کو بھی اپنے تجربات کے ساتھ فخریہ انداز میں زندگی جینے کا موقع حاصل ہو، اس کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ میں پھر ایک بار آپ سب کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔
شکریہ۔