وزیراعظم جناب نریندر مودی نے ایسکان مندر میں دنیا کی سب سے بڑی بھگوت گیتا کی نقاب کشائی کی تقریب میں جو تقریر کی تھی اس کا متن حسب ذیل ہے:
ہرے کرشا، ہرے کرشنا
ایسکان کے چیئرمین عزت مآب گوپال کرشن مہاراج جی، مرکزی وزارت میں میرے ساتھی جناب مہیش شرما جی، پارلیمنٹ میں میری معاون محترمہ میناکشی لیکھی جی، ایسکان کے دیگر اہم ممبران اور یہاں تشریف فرما دیویو اور سجّنو!
مجھے بتایا گیا ہے کہ اس پروگرام میں امریکہ، برطانیہ، روس اور ہنگری سمیت متعدد ملکوں کے لوگ شرکت کرنے آئے ہیں۔ آپ سبھی کو بھی میرا بہت بہت سلام۔
ساتھیو! آج کا دن انتہائی اہمیت کا حامل ہے، ہرے کرشنا ، ہرے کرشنا۔ آج کا دن اس لئے انتہائی اہم ہے کہ آج صبح ہی میں نے گاندھی پیس ایوارڈ کے پروگرام میں شرکت کی اور ابھی مجھے دنیا کا عظیم صحیفہ یعنی سب سے بڑی بھگوت گیتا کو ملک وقوم کو پیش کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ یہ موقع میرے لیے اور بھی خاص ہے کیونکہ میں اس جگہ کھڑا ہوں جہاں اب سے تقریباً دو دہائی قبل آنجہانی اٹل بہاری واجپئی جی نے اس مندر کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ ساتھیو، دنیا کی یہ سب سےبڑی بھگوت گیتا تین میٹر لمبی اور 800 کلو وزن کی ہے۔ یہ صرف اپنی شکل کی وجہ سے ہی خاص نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ صحیفہ صدیوں تک پوری دنیا کو دی جانے والی عظیم ہندوستانی تعلیمات کی علامت بن کر قائم رہے گا۔ اس گیتا کو بنانے میں ایسکان سے وابستہ آپ سبھی نے اپنی تمام تر طاقت اور تخلیقیت لگائی ہے ، یہ گیتا بھگوان شری کرشن اور سوامی پوروادر کے عقیدتمندوں کی بھگتی اور خود کو اس کی نذر کرنے کی علامت ہے۔ اس لائق ستائش کوشش کیلئے آپ سبھی مبارکباد کے مستحق ہیں ، اس سے ہندوستان کے قدیمی اور اُلوہی علم کی روایت میں دنیا کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوگا۔
ساتھیو! بھگوت گیتا کو عام سے عام لوگوں تک پہنچانے کی اب تک متعدد کوششیں ہوچکی ہیں، سب سے چھوٹی گیتا سے لیکر سب سے بڑی گیتا تک اس اُلوہی علم کو سہل اور بآسانی قابل حصول بنانے کیلئے مسلسل کوششیں ہوئی ہیں۔ ملک وبیرون ملک کی متعدد زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔
ساتھیو! لوک مانیہ بال گنگا دھر تلک جی نے تو جیل میں رہ کر گیتا رہسیہ لکھا ہے۔ اس میں لوک مانیہ تلک نے بھگوان شری کرشن کے بے لوث کرم یوگ کی بہت ہی آسان تفہیم کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ گیتا کے پیغام کا اثر صرف فلسفیوں یا عالموں کے گفتگو تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہمارے روز مرہ کے رہن سہن کے شعبے میں بھی ہمیشہ زندہ وجاوید محسوس ہوتا ہے۔ لوک مانیہ تلک نے مراٹھی میں گیتا کے علم کو عام لوگوں تک پہنچایا اور گجراتی میں بھی اس کا ترجمہ کرایا۔ اسی گجراتی ترجمے کو بابائے قوم مہاتما گاندھی نے جیل میں پڑھا اور اس سے گاندھی جی کو بھگوت گیتا لکھنے میں بہت مدد ملی۔ اس تخلیق کے ذریعے گاندھی جی نے گیتا کا ایک اور رُخ دنیا کے سامنے رکھا۔ گاندھی جی کی یہ تصنیف میں نے امریکہ کے سابق صدر جناب بارک اوبامہ کو تحفتاً پیش کی تھی۔
ساتھیو! شریمد بھگوت گیتا دنیا کو ہندوستان کا سب سے حوصلہ افزا تحفہ ہے، گیتا پوری دنیا کی وراثت ہے، گیتا کی تعلیمات ہر دور میں قابل اطلاق رہی ہیں۔ عالمی لیڈروں سے لیکر عام آدمی تک سبھی کو گیتا نے عوامی مفاد میں کام کرنے کا راستہ دکھایا ہے۔ ہندوستان کے قریب قریب ہر گھر میں تو کسی نہ کسی شکل میں بھگوت گیتا تشریف فرما ہے ہی، ساتھ ہی دنیا بھر کی عظیم شخصیات بھی اس میں موجود منفرد اُلوہیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ علم سے لیکر سائنس تک ہر شعبے کے متعدد لوگوں کیلئے حوصلہ افزا کروکشیتر کے میدان پر کہی گئی یہ لافانی آواز ہے۔
ساتھیو! مشہور جرمن فلسفی شوپین ہاور نے لکھا تھا ، ’’گیتا اور اُپنیشد کے مطالعے سے زیادہ فائدے مند دنیا کی کسی کتاب کا مطالعہ نہیں ہے جس نے میری زندگی کو امن سے روشنا س کرایا اور میری موت کو بھی لافانی عمل کا بھروسہ دیا۔‘‘ یہ باتیں انہوں نے اس دور میں کہی تھیں جب ہمارا ملک غلامی کی بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا ، ہماری تہذیب اور ہماری روایات کو پامال کرنے کی متعدد کوششیں کی جارہی تھیں ، ہندوستان کے فلسفے کو نیچا دکھانے کیلئے بھرپور کوششیں کی جارہی تھیں۔
ساتھیو! دنیا کو ہندوستان کے اس قدیمی علم کے ذریعے پاکیزگی سے متعارف کرانے کی ایک بڑی کوشش اس منچ پر تشریف فرما عظیم شخصیات نے کی ہے اور میرے سامنے موجود متعدد عالموں اور بھکتوں نے بھی یہ عظیم کام کیا ہے۔ شریمد بھکتی ویدانت سوامی پربھوناتھ جی نے تو اپنے آپ کو بھگوت گیتا کیلئے وقف کردیا ہے۔ جس طرح گاندھی جی کیلئے گیتا اور ستیہ کرہ زندگی کا اہم حصہ رہا ہے اسی طرح سوامی جی کیلئے بھی انسانیت کی خدمت کیلئے دو راستے ہمیشہ پسندیدہ رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ انہوں نے پہلے گاندھی جی کی قیادت میں بھارت چھوڑو تحریک میں حصہ لیا تھا اور ملک کے آزاد ہونے کے بعد وہ انسان کی نجات کا الکھ جگانے کیلئے پوری دنیا کے دورے پر نکل پڑے تھے۔ اپنی مضبوط قوت ارادی سے ہر قسم کے چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے انہوں نے ایسکان جیسی ایک مہم شروع کی تھی جو آج بھگوان شری کرشن کے دکھائے گئے راستے سے دنیا کو واقف کرانے میں مصروف ہے۔ ساتھیو ! گیتا مذہبی صحیفہ تو ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ صحیفہ زندگی بھی ہے۔ ہم کسی بھی ملک کے ہوں ، کسی بھی عقیدے کے ماننے والے ہوں، لیکن مسائل تو ہمیشہ ہمیں گھیرے رہتے ہیں، ویر ارجن کی طرح جب ہم غیریقینیت کے دوراہے پر کھڑے ہوتے ہیں تو شریمدبھگوت گیتا ہمیں خدمت اور اپنی شخصیت کو وقف کرنے کے راستے ان مسائل کے حل دکھاتی ہے۔ اگر آپ ایک طالب علم ہیں اور غیریقینی صورتحال سے دوچار ہیں ، آپ کسی ملک کے قائداعلیٰ ہیں یا پھر نجات کی تمنا رکھنے والے یوگی ہیں ، آپ کو اپنے ہر سوال کا جواب شریمدبھگوت گیتا میں مل جائے گا۔ میں تو مانتا ہوں کہ گیتا انسانی زندگی کی سب سے بڑی رہنما تصنیف ہے۔ زندگی کے ہرمسئلے کا حل گیتا میں کہیں نہ کہیں مل جاتا ہے، پربھو نے تو صاف الفا ظ میں کہا ہے۔
परित्राणाय साधूनां विनाशाय च दुष्कृताम्
धर्मसंस्थापनार्थाय संभवामि युगे-युगे।।
مطلب یہ کہ بدمعاشوں سے، انسانیت کے دشمنوں سے ، دھرتی کو بتانے کیلئے پربھو کی طاقت ہمارے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے۔ یہی پیغام ہم پوری صداقت کے ساتھ بدمعاش آتماؤں اور راکششوں کو دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
بھائیو اور بہنو! جب پربھو کہتے ہیں کہ کیوں فضول کی فکر کرتے ہوئے، کس سے بیکار میں ڈرتے ہو، کون تمہیں مار سکتا ہے، تم کیا لیکر آئے تھے اور کیا لیکر جاؤگے تو اپنے آپ میں خود کو عوامی خدمت اور ملک وقوم کی خدمت کیلئے نذر اور وقف ہونے کا حوصلہ خود بخود مل جاتا ہے۔
ساتھیو! ہم نے کوشش کی ہے کہ سرکار کے ہر فیصلے ، ہر پالیسی کی بنیاد میں انصاف ہو ، مساوات ہو اور مساوات کی اصلیت ہو، سب کا ساتھ سب کا وکاس کاحصول اسی جذبے کانتیجہ ہے اور ہماری ہر اسکیم ، ہر فیصلہ اسی جذبے کی عکاسی کرتا ہے۔ خواہ وہ بدعنوان چال چلن کے خلاف اٹھائے گئے اقدام ہو، یا پھر غریبوں کی فلاح سے جڑے ہمارے مسلسل کام ۔ ہماری مسلسل کوشش رہی ہے کہ اپنے پرائے کے چکّرسے سیاست کو باہر نکالا جائے۔
ساتھیو! ہماری سرکار کا ہمیشہ یہ مضبوط بھروسہ رہا ہے کہ ہندوستانی تہذیب ، ہندوستانی قدروں اور ہندوستانی روایات میں دنیا کے متعدد مسائل کا حل موجود ہے۔ تشدد ہو، کنبوں کے بحران ہوں، ماحولیات سے جڑے مسائل ہوں، ایسے ہر چیلنج جس کا دنیا آج سامنا کررہی ہے اس کا حل ہندوستانی فلسفے میں موجود ہے۔ یوگ اور آیوروید کی مہم کو دنیا بھر میں پہچان کرانے والے اور اس سے وابستہ آپ جیسے ادارے اور ملک کے متعدد سنتوں کی ریاضت کو ہماری سرکار نے بلند آواز دی ہے جس کے نتیجے میں آج ہیلتھ اینڈ ویل نیس کیلئے دنیا تیزی سے یوگ اورآیوروید کی طرف متوجہ ہورہی ہے۔
ساتھیو! میرا یہ بھی ماننا ہے کہ یوگ آیوروید سے لیکر ہمارے قدیمی علم اور سائنس سے ابھی دنیا کا صحیح معنوں میں تعارف ہونا باقی ہے۔ ہماری بہترین باتیں ابھی دنیا کے سامنے آنی باقی ہے۔ میری آپ سبھی سے قدیمی علم اور سائنس سے جڑے تمام کرم یوگیوں سے پُرزور درخواست ہے کہ وہ اپنی کوششوں کو اور رفتار دیں اور نئی نسل کو بھی تحقیق سے جوڑیں، سرکار آپ کی مدد کیلئے ہمیشہ تیار ہے۔ ایک بار پھر ایسکان سے جڑے ہر بھگت ، ہر ہندوستانی کو ، انسانیت میں یقین رکھنے والے دنیا کے ہر شخص کو اس مقدس بھگوت گیتا کیلئے میری طرف سے بہت بہت مبارکباد۔ آپ نے مجھے یہاں دعوت دی ، اس مقدس موقع کا ساجھیدار بنایا اس کے لئے میں آپ سب کا بہت بہت ممنون ہوں۔
بہت بہت شکریہ۔ ہرے کرشنا