نئی دہلی،18/ستمبر۔ یہاں زبردست تعداد میں آئے ہوئے کاشی کے میرے جوان ساتھیو! کاشی کے آپ سبھی بھائیوں اور بہنوں کو میرا سلام۔
ہمارے کاشی کے لوگ اتنا پیار دیتے ہیں کہ دل مسرت سے جھوم اٹھتا ہے۔ آپ لوگوں کے بیٹے ہوں گے۔ وقت نکال کر بار بار کاشی آنے کا جی چاہتا ہوگا۔
بھائیو اور بہنو، ہر ہر مہادیو۔
میرے لئے انتہائی خوش قسمتی کی بات ہے کہ ملک و قوم کے لئے وقف اور اس کی نذر ایک اور برس کا آغاز، میں بابا وشوناتھ اور ماں گنگا کے مبارک آشیرواد سے کررہا ہوں۔ آپ سبھی کا یہ پیار اور آشیرواد ہر لمحہ میری حوصلہ افزائی کرتا ہے اور سبھی اہالیان وطن کی خدمت کے عزم کو اور مضبوط کرتا ہے۔
میرے لئے انتہائی خوش قسمتی کی بات ہے کہ ملک و قوم کے لئے وقف اور اس کی نذر ایک اور برس کا آغاز، میں بابا وشوناتھ اور ماں گنگا کے مبارک آشیرواد سے کررہا ہوں۔ آپ سبھی کا یہ پیار اور آشیرواد ہر لمحہ میری حوصلہ افزائی کرتا ہے اور سبھی اہالیان وطن کی خدمت کے عزم کو اور مضبوط کرتا ہے۔
ساتھیو، خدمت کے اسی جذبے کو آگے بڑھانے کے لئے آج یہاں ساڑھے پانچ سو کروڑ روپئے کے سرمایہ کے پروجیکٹس یا تو ملک و قوم کو پیش کئے جارہے ہیں یا ان کا سنگ بنیاد رکھا جارہا ہے۔ ترقی کے یہ کام بنارس شہر میں نہیں، بلکہ آس پاس کے مواضعات سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں بجلی و پانی جیسی بنیادی ضروریات سے جڑے منصوبے تو ہیں ہی، ساتھ ہی کسانوں، بنکروں اور دست کاروں کو نئے مواقع سے جوڑنے والے پروجیکٹ بھی شامل ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بنارس ہندو یونیورسٹی کو اکیسویں صدی کا اہم ترین مرکز علم بنانے کے لئے بھی متعدد پروجیکٹ شروع کئے گئے ہیں، ان پروجیکٹ کے لئے، میں بنارس کے لوگوں کو بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں، نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو، میں جب بھی آپ کے درمیان آتا ہوں تو ایک بات یاد دلاتا ہوں۔ ہم کاشی میں جو بھی تبدیلیاں لانے کی کوششیں کررہے ہیں وہ ان کی روایات کو محفوظ رکھتے ہوئے، اس کی تقدیس کو بچاتے ہوئے کیا جارہا ہے۔ روز ازل سے جو اس شہر کی پہچان رہی ہے، اسے محفوظ کرتے ہوئے اس شہر میں جدید انتظامات کی شمولیت کی جارہی ہے۔
اب سے چار سوا چار برس قبل جب اہالیان کاشی تبدیلی کے اس عزم کو لے کر نکلے تھے اس وقت اور آج میں فرق واضح طور سے دکھائی دیتا ہے۔ دکھائی دیتا ہے نا! فرق دکھائی دیتا ہے نا! تبدیلیاں نظر آرہی ہیں! زمین پر تبدیلیاں محسوس کی جارہی ہیں! شکریہ۔
ورنہ آپ تو اس نظام کے گواہ رہے ہیں جب ہماری کاشی کو بھولے بابا کے بھروسے اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا تھا، آج مجھے بہت اطمینان ہے کہ بابا وشوناتھ کے آشیرواد سے ہم وارانسی کو ترقی کی نئی سمت دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، ورنہ برسوں پہلے کے وہ دن بھی تھے جب کاشی کی بدحال ہوتی صورت حال کو دیکھ کر وہاں آنے والے ہر شخص کا دل اداس ہوجاتا تھا۔ بجلی کے تاروں کے جال کی طرح، یہ شہر بھی اپنی بدانتظامیوں میں الجھا ہوا تھا۔ اسی لئے میں نے اپنے دل میں ٹھان لیا تھا کہ کاشی کی چوطرفہ بدحالی کو چوطرفہ ترقی میں تبدیل کیا جائے گا۔
آج کاشی میں ہر سمت میں تبدیلی ہورہی ہے۔ مجھے یاد ہے میں جب ممبر پارلیمنٹ ہونے سے پہلے یہاں آیا تھا تو شہر بھر میں بجلی کے لچکتے تاروں کو دیکھ کر ہمیشہ سوچتا تھا کہ بنارس کو آخر کب اس سے نجات ملے گی۔ شہر کے ایک بڑے حصے میں لٹکتے ہوئے تار غائب ہوچکے ہیں۔ باقی مقامات پر بھی ان تاروں کو زیرزمین بچھانے کا کام تیزی سے جاری ہے۔
آج برق کاری سے جڑے جو پانچ بڑے پروجیکٹس کو ملک و قوم کی نذر کیا گیا ہے، ان میں پرانی کاشی کو بجلی کے لٹکتے تاروں سے نجات دلانے کا کام بھی شامل ہے۔ ان سبھی پروجیکٹس سے شہر بنارس کے علاوہ آس پاس کے متعدد مواضعات کو بھی خاطرخواہ مقدار میں بجلی فراہم کرنے کا نشانہ اور بھی توانا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ آج ایک اور الیکٹرک سب اسٹیشن کا بھی سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ جب یہ کام پایۂ تکمیل تک پہنچ جائے گا تو آس پاس کے بہت سے علاقوں کو کم وولٹیج کے مسئلے سے نجات مل جائے گی۔
ساتھیو، وارانسی کو مشرقی ہندوستان کے گیٹ وے کے طور پر ترقی دینے کی جی توڑ کوششیں ہورہی ہیں، اسی کے لئے سرکار کی ترجیح وارانسی کو عالمی درجے کے انفرااسٹرکچر سے جوڑنے کی ہے۔ اکیسویں صدی کی ضرورتوں کے مطابق ٹرانسپورٹ ہو، میڈیکل سہولیات ہوں، تعلیمی سہولیات ہوں، سبھی کو فروغ دیا جارہا ہے۔
آج کاشی ایل ایل ڈی کی روشنی سے جگمگارہی ہے۔ شہر کی سڑکوں- اُس پار رات میں بھی ماں گنگا کا قیام دکھائی دیتا ہے۔ ایل ای ڈی بلب سے روشنی تو ہوئی ہے، اس کے ساتھ ہی آپ لوگوں کے بجلی کے بلوں میں بھی بہت کمی آئی ہے۔ وارانسی شہر نے ایل ای ڈی بلب لگانے کے بعد کروڑوں روپے کی بچت کی ہے۔
ساتھیو، جو چار برس قبل کاشی آیا تھا، وہ آج کے کاشی کو دیکھتا ہے تو اسے کاشی میں نئی سڑکوں کی توسیع ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ برسوں سے بنارس میں رنگ روڈ کی باتیں چل رہی تھیں، لیکن اس کا کام فائلوں میں دبا ہوا تھا۔ 2014 میں سرکار بننے کے بعد کاشی میں رنگ روڈ کی فائل کو پھر سے نکالا گیا ہے، لیکن یوپی میں پہلے کی سرکار نے اس پروجیکٹ میں رفتار نہیں پیدا ہونے دی۔ ان کو فکر ہورہی تھی کہ کہیں یہ کام ہوگیا تو مودی کی جے جے کار ہوجائے گی، اسی وجہ سے وہ لوگ اسے دباکر بیٹھے ہوئے تھے۔
لیکن جیسے ہی آپ سب نے یوگی جی کی سرکار بنائی، سرکار بننے کے بعد اب یہ کام بہت تیزی سے مکمل کیا جارہا ہے۔ ہرہوا سے غازی پور تک چار لین کی سڑک کا کام تقریباً پورا ہونے والا ہے۔ ہرہوا سے راجا تالاب اور چندولی تک ایک نئے سرکٹ کو تیار کرنے پر تیزی سے کام جاری ہے۔ اس راستے میں دریائے گنگا پر ایک پل بھی تعمیر کیا جائے گا، جس سے بنارس آنے جانے والے ٹرکوں کی تعداد کم ہوجائے گی۔
ساتھیو، کاشی کے رنگ روڈ کی تعمیر سے صرف کاشی کو ہی نہیں بلکہ آس پاس کے متعدد اضلاع کو بھی فائدہ ہونے والا ہے۔ بہار، نیپال، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش جانے کے لئے یہاں سے نکالی جانے والی سڑکیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ وارانسی شہر کے اندر اور وارانسی کو دوسری ریاستوں سے جوڑنے والی سڑکوں کو چوڑا کیا جارہا ہے، ان کو فروغ دیا جارہا ہے۔ وارانسی ہنمنا یعنی نیشنل ہائی وے نمبر-7، وارانسی – سلطانپور روڈ، وارانسی- گورکھپور سیکشن، وارانسی- ہنڈیا سڑک رابطہ کاری پر بھی ہزاروں کروڑ روپئے خرچ کئے جارہے ہیں۔
بھائیو اور بہنو، بنارس کے اندر بھی ہزاروں کروڑ روپئے کے پروجیکٹس پر کام چل رہے ہیں۔ مہمورگنج سے منڈوا ڈیہہ آنے جانے والوں کو پہلے کتنی دقت ہوتی تھی۔ اسکول آنے جانے والے بچوں کو پریشانیاں جھیلنی پڑتی تھیں۔ یہ بھی آپ کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ برسوں کے انتطار کے بعدمنڈوا ڈیہہ فلائی اوور کا کام بھی پورا ہوچکا ہے۔ وہیں گنگا ندی پر بنے سامنیگاٹ پل کا کام پوراہونے سے رام نگر آنا جانا اور آسان ہوجائے گا۔ شہر کا ادھورا پل جتنا پرانا تھا اتنی ہی پرانی اسے چوڑا کرنے کی مانگ بھی تھی۔ کئی دہائیوں سے ادھورے پل کی چوڑائی پوری کرنے کا کام اٹکا ہوا تھا۔ اس کام کو بھی اب پورا کرلیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بوجووڈ- سندورا روڈ کو بھی چوڑا کرنے کا کام، شیوپور- پھلوریا روڈ کو چار لین بنانے کا کام، راجا تالاب پولس چوکی سے جکھنی تک سڑک کو چوڑا بنانےکا کام ہو، شہر کے مختلف حصوں میں آج تیز رفتاری کے ساتھ یہ تمام کام جاری ہیں۔ عقیدت اور سیاحت کی نظر سے اہم پنچ کوسی مارگ کو فروغ دیے جانے کا کام بھی تیز رفتاری سے جاری ہے۔
بھاوت پل سے کچہری روڈ تک تعمیر ہونے والی سڑک پر لگ بھگ 750 کروڑ روپئے کی لاگت سے تعمیراتی کام کئے جارہے ہیں۔ پہلے یہ سڑک کتنی تنگ تھی، اس سے آپ سب بخوبی واقف ہیں۔ کچھ ہی منٹوں کا راستہ طے کرنے میں گھنٹوں کا وقت لگ جاتا تھا۔ زبردست جام کی وجہ سے کئی بار فلائٹ تک، ٹرینیں تک چھوٹ جاتی تھیں۔ جب یہ سڑک پوری طرح تیار ہوجائے گی تو ان سبھی مسائل سے نجات یقینی ہوجائے گی۔
ساتھیو، بنارس میں جاری ترقیاتی کام کے شاہد یہاں کے ہوائی اڈے پرآنے والے لوگ بھی ہیں۔ ہوائی جہاز سے بنارس آنے والے لوگوں اور سیاحوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ چار سال قبل یہاں بابت پور ہوائی اڈے پر 8 لاکھ لوگ آتے تھے، اب یہ تعداد 21 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ اسمارٹ بنارس میں اسمارٹ تبدیلی ہو، اس کے لئے ٹرانسپورٹ کے ہر طریقے کو جدید بنائے جانے کا کام ہورہا ہے۔ ٹریفک کے نظام کو مربوط کیا جارہا ہے، تاکہ ایک ٹریفک نظام پر بوجھ نہ پڑے۔ یہاں تعمیر کئے جانے والے انٹیگریٹڈ کمانڈ اور کنٹرول سینٹر پورے شہر کے انتظامات اور عوامی سہولیات کو کنٹرول کریں گے۔
بنارس اور بنارس میں تیزی سے تعمیر کیا جانے والے ملٹی ماڈل ٹرمینل کا کام پورا ہونے پر یہ شہر ٹرانسپورٹ اور لاجسٹکس کے بڑے مرکز کے طور پر بھی ابھرنے والا ہے۔ اس سے سڑک، ریل اور دریائی آمد و رفت تینوں کی رابطہ کاری بڑھے گی، جس کا بڑا فائدہ یہاں کے کاروبار اور صنعتوں کو حاصل ہوگا۔
ساتھیو، کاشی آنے والوں کا وقت بچ سکے، اس لئے گنگا پر فیری چلانے کی اسکیم پر کام ہورہا ہے۔ وارانسی سے ہلدیا تک نیشنل واٹر وے نمبر1 کا کام بھی جاری ہے۔ سی این جی سے گاڑیاں چلانے کی سمت میں بھی تیزرفتاری سے کام ہورہا ہے۔
بھائیو اور بہنو، اب سوشل میڈیا پر لوگوں کو خوشی سے وارانسی کینٹ اسٹیشن کی تصویریں پوسٹ کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو میری خوشی دوگنی ہوجاتی ہے۔ کینٹ اسٹیشن ہومنڈوا ڈیہہ ہو یا پھر سٹی اسٹیشن، سبھی مقامات پر ترقیاتی کاموں کو رفتار دی گئی ہے۔ انھیں جدید بنانے کا کام کیا جارہا ہے۔ ریل سے کاشی آنے والوں کو اب اسٹیشن پر ہی نئی کاشی کی تصویر نظر آتی ہے۔
ساتھیو، اس کے علاوہ وارانسی کو الہ آباد اور چھپرا سے جوڑنے والے ٹریک کی ڈبلنگ کا کام بھی تیزی سے جاری ہے۔ وارانسی سے بلیا تک برق کاری کا کام پورا ہوچکا ہے۔ وارانسی- الہ آباد سٹی ڈویژن کی ڈبلنگ اور برق کاری کا کام بھی جاری ہے۔
انفرااسٹرکچر کے ساتھ ساتھ وارانسی کو ملک کے دیگر علاقوں سے رابطہ کاری میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ وارانسی سے متعدد نئی گاڑیاں پچھلے چار سال سے چلائی جارہی ہیں۔ وارانسی سے نئی دہلی، وڈوڈرا، پٹنہ جانے کے لئے الگ الگ مہامنا ایکسپریس، وارانسی – پٹنہ جن شتابدی ایکسپریس جیسی جدید سہولیات سے آراستہ گاڑیوں نے بھی سبھی کی توجہ اپنی طرف کھینچی ہوئی ہے۔ ہبلی ہو، میسور ہو، گوہاٹی ہو، ملک کے دیگر شہروں کے ساتھ وارانسی کا ریل رابطہ مزید مضبوط ہوا ہے۔
ساتھیو، آج کاشی میں نہ صرف آنا جانا آسان ہورہا ہے، بلکہ کاشی کے حسن کو بھی نکھارا گیا ہے۔ ہمارے گھاٹ اب گندگی سے نہیں، روشنیوں سے مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں۔ ماں گنگا کے پانی میں اب ناؤ کے ساتھ ساتھ کروز کی سواری بھی کی جارہی ہے۔ ہمارے مندروں اور پوجا کے مقامات تک عقیدت مندوں کو پہنچنے میں مشکل سے بچانے کے لئے تمام انتظامات کئے گئے ہیں۔ سیاحت سے تبدیلی کا یہ مشن مسلسل جاری ہے۔
بھائیو اور بہنو، گزشتہ چار برسوں سے کاشی کی وراثت، ہمارے وراثتی عمارتوں کے تحفظ اور انھیں سنوارنے کا کام کیا جارہا ہے۔ میداگرست ٹاؤن ہال وہ جگہ ہے جہاں گاندھی جی نے آزادی کی تحریک کا الکھ جگایا تھا، ہم نے ہریتیج بھون کے افتخار کو واپس لانے کا کام مکمل کردیا ہے۔ یہ عمارت ایک بار پھر سے اپنی حقیقی شکل میں دکھائی دینے لگی ہے۔
وارانسی کے بڑے اہم پارکوں کی بازبحالی ترقی اور حسن کاری بھی کی گئی ہے۔ سارناتھ میں سیاحوں کے لئے لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ سیاحت کے فروغ کے لئے بدھا تھیم پارک، سارنگ ناتھ تالاب، گرودھام مندر، مارکنڈے مہادیو مندر جیسے عقیدت سے جڑے متعدد مقامات کی حسن کاری کا کام جاری ہے۔
بھیرو کنڈ، سارنگ ناتھ کنڈ، لکشمی کنڈ اور درگا کنڈ کی صاف صفائی اور حسن کاری کا کام بھی پورا ہوچکا ہے۔ پچھلے چار برسوں میں دوسرے ملکوں کے متعدد بڑے لیڈروں کا استقبال اہالیان کاشی نے کیا ہے، بے نظیر خیرمقدم کیا ہے۔ جاپان کے وزیراعظم ژیوآبے، فرانس کے صدر مائیکرون اور جرمنی کے صدر فرینک والٹر نے کاشی کی میزبانی کی ساری دنیا میں تعریف کی ہے۔ جہاں گئے اسی کی بات کی ہے۔ جاپان نے تو کاشی کے لئے کنونشن سینٹر کا بھی تحفہ دیا ہے۔
ساتھیو، بنارس کی میزبانی پر اگلے برس کے شروع میں بھی دنیا بھر کی نظریں ہوں گی۔ جنوری میں دنیا بھر میں آباد ہندوستانی شہریوں کے کمبھ کا یہاں اہتمام ہونے والا ہے اور اس کے لئے سرکار اپنی سطح پر کام کررہی ہے، لیکن اس کے لئے آپ کا تعاون بھی ضروری ہوگا۔ ایک ایک کاشی واسی کو اس کے لئے آگے آنا ہوگا۔ کاشی کی گلی گلی، نکڑ، چوراہے پر بنارس کا رس، بنارس کا رنگ، بنارس کی ثقافتی وراثت نظر آنی چاہئے۔ صاف صفائی سے لے کر مہمانوں کی میزبانی کی ایسی مثال ہمیں بنانی ہے کہ ہمارے بیرون ملک آباد ہندوستانی بھائی بہن زندگی بھر یاد رکھ سکیں۔ میں تو چاہوں گا کہ غیرمقیم ہندوستانی شہریوں کے عالمی دن کی تقریب میں دنیا بھر کے جو لوگ یہاں آئیں گے وہ ایسے تجربے کرکے جائیں کہ وہ ہمیشہ کے لئے کاشی کی سیاحت کے سفیر بن جائیں۔ وہ جہاں جائیں کاشی کی تعریف کرتے رہیں۔
بھائیو اور بہنو، صفائی کے معاملے میں بھی کاشی نے تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ آج یہاں کے گھاٹوں، سڑکوں اور گلیوں میں صفائی ستھرائی مستقل ہوتی جارہی ہے۔ نہ صرف صاف صفائی بلکہ کوڑے کچرے کو بھی ٹھکانے لگانے کی ٹھوس تدبیریں کی جارہی ہیں۔ کوڑے کچرے سے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کھاد بنانے کا کام بھی کیا جارہا ہے۔ کرسرا میں کچرے سے کھاد بنانے کا بہت بڑا کارخانہ قائم کیا گیا ہے۔ یہاں روزانہ سیکڑوں میٹرک ٹن کوڑے کچروں کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ کوڑے سے کمپوسٹ کھاد بنانے کا کام ہورہا ہے۔ کرسرا میں ویسٹ اینڈ اینرجی پلانٹ بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ اس پلانٹ سے بجلی پیدا کرنے کا کام کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ بھونیا پوکھری، پہاڑیا منڈی اور آئی ڈی اے کیمپس میں بایو فیول بنانے والے پلانٹ قائم کئے گئے ہیں۔
ساتھیو، ماں گنگا کی صفائی کے لئے گنگوتری سے لے کر گنگا ساگر تک ایک ساتھ کوششیں جاری ہیں۔ صرف صاف صفائی ہی نہیں شہروں کی گندگی گنگا میں نہ گرے، اس کے لئے بھی انتظامات کئے جارہے ہیں۔ اس کے لئے اب تک تقریباً 21 ہزار کروڑ روپئے کی لاگت والے 200 کروڑ سے زائد پروجیکٹوں کو منظوری دی جاچکی ہے۔
بنارس میں بھی 600 کروڑ روپئے سے زائد کی اسکیمیں صرف اسی مقصد سے شروع کی گئی ہیں۔ بیناپور اور رامانا میں سیوریج ٹرپل پلانٹ کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے۔ سیور پلانٹ کے ساتھ ساتھ اس سے جڑے انفرااسٹرکچر پر بھی کام کیا جارہا ہے۔ شہر بھر میں ہمارے نئے سیور چیمبروں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ 150 سے زائد سماجی بیت الخلاؤں کی تعمیر کا کام بھی کیا جاچکا ہے۔ سیور کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی کے انتظام میں بھی سدھار کے کام جاری ہیں۔ ہزاروں گھروں میں پانی کے کنکشن اور پانی کے میٹر لگانے کا کام بھی آگے بڑھایا جارہا ہے۔
ساتھیو، وارانسی شہر ہی نہیں، بلکہ آس پاس کے مواضعات کو بھی سڑک، بجلی اور پانی جیسی سہولیات فراہم کرائی گئی ہیں۔ ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے جن مواضعات کو فروغ دینے کا کام میرے ذمے ہے، ان میں سے ایک ناگے پورہ گاؤں کے لئے آج پانی کے ایک بڑے پروجیکٹ کا آغاز کیا گیا ہے۔ ناگے پور ہو، جیاپور ہو، ککریا ہو یا ڈونگری ہو، سبھی گاؤں کو پوری طرح سڑک، پانی ، بجلی جیسی سہولیات سے جوڑا جارہا ہے۔ کھیل کود کے لئے میدان، خودروزگاری کے مراکز، کھیتی کسانی کے بہتر انتظام اور معقول طبی سہولیات جیسے متعدد انتظامات کئے جارہے ہیں۔
ساتھیو، آپ کے فعال تعاون سے کاشی آج مشرقی ہندوستان کے ایک ہیلتھ ہب کے روپ میں ابھرنے لگا ہے۔ الگ الگ علاقوں میں تعمیر کیے جانے والے نئے اسپتال آئندہ دنوں میں وارانسی کو پورے مشرقی ہندوستان کا بڑا میڈیکل سینٹر بنانے جارہے ہیں۔ بی ایچ یو میں قائم جدید ٹراما سینٹر ہزاروں لوگوں کی زندگی کو بچانے کا کام کررہا ہے۔ بنارس میں بن رہے نئے کینسر اسپتال، سپر اسپیشلٹی اسپتال، لوگوں کو علاج کی جدید سہولیات دینے میں اہم کردار ادا کرنے والے ہیں۔
حال ہی میں بی ایچ یو نے ایمس کے ساتھ ایک عالمی معیار کا ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ بھی بنانے کے لئے سمجھوتہ کیا ہے۔ ساتھیو، آج بی ایچ یو میں ریجنل اوپتھالمولوجی یعنی ریجنل آئی انسٹی ٹیوٹ کا بھی سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ 54 برس پہلے لال بہادر شاستری جی نے یہاں آئی ڈپارٹمنٹ یعنی شعبہ امراض چشم کا افتتاح کیا تھا۔ اس کو ریجنل سینٹر کے طور پر توسیع دینے کا موقع آج مجھے حاصل ہوا ہے۔ جب یہ سینٹر تیار ہوجائے گا تو مشرقی اترپردیش، بہار، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ اور نیپال تک کے کروڑوں لوگوں کو اس کا فائدہ ملے گا۔
اتنا ہی نہیں بلکہ کاشی کے باشندوں کو اب آنکھوں کی گمبھیر بیماری کے علاج کے لئے بڑے بڑے شہروں میں نہیں جانا پڑے گا۔ موتیابند سے لے کر آنکھوں کی بڑی سے بڑی بیماریوں میں ہونے والے علاج پر اخراجات بھی بہت کم ہوجائیں گے۔ اتنا ہی نہیں، یہ ادارہ اب اعلیٰ سطح کے آنکھوں کے ڈاکٹر بھی تیار کرے گا اور ریسرچ میں معیار کو یقینی بنائے گا۔
ساتھیو، بنارس میں نئے اسپتالوں کی تعمیر تو ہورہی ہے، پہلے سے جو اسپتال موجود تھے، ان کی بھی خبر لی گئی ہے۔ پانڈے پور میں 150 کروڑ کی لاگت سے ای ایس آئی اسپتال کی تجدیدکاری کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بنارس میں پہلے سے کام کررہے اسپتال میں بستروں کی تعداد میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ نجی شعبے کے اسپتال بھی کھولنے کے لئے حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ بلاک اور تحصیل سطح پر بھی ان کے ہیلتھ سینٹروں اور اسپتالوں کی تعمیر کی جارہی ہے۔
ساتھیو، یوپی میں بی جے پی کی یوگی جی کی سرکار بننے کے بعد ان سبھی کاموں میں بے مثال تیزی آئی ہے۔ میں یوگی جی اور ان کی پوری ٹیم کو آیوشمان بھارت، اس سے جڑنے کے لئے بھی مبارک باد دیتا ہوں۔ ملک کے 50 کروڑ غریب بھائی بہنوں کو پانچ لاکھ روپئے تک کے مفت علاج کو یقینی بنانے والے اس منصوبے کا ٹرائل یوپی سمیت ملک کے مختلف حصوں میں کیا جارہا ہے۔ 23 ستمبر سے اس منصوبے کو ملک بھر میں نافذ کیا جائے گا۔
بھائیو اور بہنو، صحت کے ساتھ ہی تعلیمی نظام کو مضبوط کرنے پر بھی سرکار نے زور دیا ہے۔ یہ مالویہ جی کا خواب تھا کہ ایک ہی کیمپس میں علوم قدیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی بھی تعلیم دی جائے۔ ان کے اسی خواب، یعنی ہماری بی ایچ یو کو توسیع دینے کے لئے آج متعدد سینٹرز کا آغاز ہوا ہے۔
وید کے علم سے لے کر اکیسویں صدی کی سائنس اور مستقبل کی ٹیکنالوجی کے مسائل کے حل والے خطوط آج یہاں جوڑے گئے ہیں۔ وید سے دور موجود تک کو جوڑ دیا گیا ہے۔ آج یہاں ایک طرف ویدک وگیان کیندر کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے تو دوسری طرف اٹل اِنکیوبیشن سینٹر کا بھی آغاز ہوا ہے۔
جوان ساتھیو، ہم سبھی کو جتنی اپنی قدیمی تہذیبوں اور روایات پر فخر ہے، اتنی ہی مستقبل کی تکنیک کے تئیں ہماری توجہ ہے۔ 80 کروڑ سے زیادہ نوجوانوں کی طاقت والا یہ ملک تیزی سے بدلتے ٹیکنالوجیکل لینڈاسکیپ میں اپنی چھاپ چھوڑ رہا ہے۔ مستقبل کی تکنیک کے ساتھ بھارت کے اسی قدم تال سے تال ملاتے ہوئے بی ایچ یو میں اٹل اِنکیوبیشن سینٹر کا آغاز کیا گیا ہے۔ بی ایچ یو کا یہ اِنکیوبیشن سینٹر آنے والے وقت میں یہاں اسٹارٹ اَپ کے لئے نئی توانائی دینے کا کام کرے گا۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ ملک بھر سے تقریباً 80 اسٹارٹ اپ سے جڑنے کی درخواستیں موصول ہوچکی ہیں اور 20 اسٹارٹ اپ یہاں جڑچکے ہیں۔ اس سینٹر کے لئے میں بنارس کے نوجوانوں اور خاص طور سے اس طرح کی ہمت اور سوچ رکھنے والوں کو مبارک باد دیتا ہوں۔
ساتھیو، کسانوں اور دیہی معیشتوں کو رفتار دینے کا کام بھی گزشتہ چار برسوں سے تیز ہوا ہے۔ راجا تالاب میں بنے پیریشیبل کارگو سینٹر کا کام جولائی میں ہی شروع کیا جاچکا ہے۔ یہ کارگو سینٹر وارانسی اور آس پاس کے کسانوں کی فصلوں کو نہ صرف خراب ہونے سے بچا رہا ہے، بلکہ آمدنی میں اضافہ اور ویلیو ایڈیشن میں بھی مدد کررہا ہے۔ یہاں نہ صرف آلو اور ٹماٹر سمیت دیگر تمام پھلوں اور سبزیوں کے اسٹوریج کی سہولت دستیاب ہے، بلکہ یہ سینٹر ریلوے اسٹیشن سے بھی متصل ہے، اس سے پھلوں اور سبزیوں کو دوسرے شہروں تک بھیجنے میں آسانی رہتی ہے۔
اس کارگو سینٹر کے علاوہ اب انٹرنیشنل رائس ریسرچ سینٹر کا کام بھی تقریباً تکمیل کے قریب ہے، یعنی مستقبل میں کاشی دھان کی ترقی یافتہ اقسام کے اسٹور میں بھی رہنمایانہ کردار ادا کرے گا۔ وارانسی کے کسان بھائی بہنوں کو کھیتی کے علاوہ دوسرے پیشوں اور کاروبار سے بھی آمدنی ہوسکے، اس کا بھی انتظام و انصرام جاری ہے۔ کسان بھائیوں اور بہنوں کو کھیتی کے ساتھ ساتھ مویشی پروری اور شہد کی مکھیاں پالنے کی بھی ترغیب دی جارہی ہے۔
تھوڑی دیر پہلے کسانوں کو شہد کی مکھیوں سے بھرے باکس آج یہاں دیے گئے۔ یہاں تو صرف تصویر دکھائی گئی ہے، لیکن ان کو یہ باکس دے دیے گئے ہیں۔ اس کے پس پشت مقصد بھی یہی ہے۔ شہد کی مکھی کی موجودگی نہ صرف ہماری پیداوار میں اضافہ کرتی ہے بلکہ شہد کی شکل میں بھی آمدنی کے اضافی ذرائع پیدا کئے جانے کا بھی انتظام کیا جارہا ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ آج ملک ریکارڈ مقدار میں اناج پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ریکارڈ مقدار میں شہد بھی پیدا کررہا ہے۔
بھائیو اور بہنو، بنارس اور مشرقی ہندوستان بنکروں، دست کاروں، مٹی کو سونا بنانے والے فن کاروں کی دھرتی ہے۔ وارانسی کی ہتھ کرگھا اور دست کاری کی صنعت کو تکنیکی امداد دینے اور کاریگروں کو نئے بازاروں سے جوڑنے کے لئے ٹریڈ فیسلٹیشن سینٹروں کی تعمیر کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بنکروں کو پیداوار کی بہتر سہولت کے لئے 9 مقامات پر، فیسلٹیشن سینٹر بھی قائم کئے گئے ہیں۔ اب بنکر بھائی بہنوں کو واپ مشینیں بھی دی جارہی ہیں، اس سے بنکروں کا کام اور آسان ہوجائے گا۔
بنکر ہی نہیں، مٹی کے برتن اور مٹی سے فن پارے تخلیق کرنے والے بھائی بہنوں کو بھی تکنیکی طاقت دی جارہی ہے۔ آج یہاں اس پروگرام میں کئی بھائی بہنوں کو الیکٹرک چارٹ دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ مٹی گوندھنے اور سکھانے کی جدید مشینیں انھیں دی جارہی ہیں۔ اس سے نہ صرف آپ کی محنت کی بچت ہوگی، بلکہ اچھی کوالٹی کے برتن یا زیبائشی فن پارے بہت ہی کم وقت میں بنائے جاسکیں گے۔
ساتھیو، وارانسی کے ہر زمرے اور ہر طبقے کا معیار زندگی اوپر اٹھانے کے لئے سرکار مسلسل کوششیں کررہی ہے۔ کاشی اب ملک کے ان چنندہ شہروں میں شامل ہے، جہاں کے گھروں میں پائپ سے کوکنگ گیس پہنچ رہی ہے، اس کے لئے الہ آباد سے بنارس تک پائپ لائن بچھائی گئی ہے۔ اب تک بنارس میں 8 ہزار سے زائد گھروں تک پائپ والی گیس کا کنکشن پہنچ چکا ہے۔ آئندہ دنوں میں اسے 40 ہزار سے زائد کنبوں تک پہنچانے کا کام جاری ہے۔ اس کے علاوہ اجولا اسکیم کے تحت دیے گئے 60 ہزار سے زیادہ گیس کنکشنوں نے بھی بنارس کے نواحی مواضعات میں خواتین کی زندگی کو آسان بنانے کا کام کیا ہے۔
ساتھیو، ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کے راستے پر چلتے ہوئے کاشی ایک نئے جوش ایک نئے حوصلے کے ساتھ اپنا مستقبل طے کررہا ہے۔ ہزاروں کروڑ روپئے کے پروجیکٹس پر کام جاری ہے۔ انفرااسٹرکچر کے لئے جن پروجیکٹس پر کام چل رہا ہے ان میں سے متعدد پروجیکٹ آئندہ مہینوں میں مکمل ہوجانے کی حالت میں ہیں۔ رنگ روڈ، ایئرپورٹ سے کچہری تک کی سڑک، رائس ریسرچ سینٹر، بیناپور- گوئٹھا کے سیور ٹریٹمنٹ پلانٹ، ملٹی مورل ٹرمینل، عالمی معیار کے کینسر اسپتال جیسے بڑے پروجیکٹ مکمل ہوں گے تو اس شہر کو ترقی کی نئی سمتیں حاصل ہوں گی۔
ساتھیو، یہ ساری اسکیمیں وارانسی میں یہاں کے نوجوانوں کو روزگار کے لاتعداد مواقع بھی فراہم کرارہی ہیں۔ بنارس میں جاری ترقی نے یہاں کے کاروباریوں کے لئے کاروبار کے نئے امکانات کے باب وا کئے ہیں۔ آئیے ہم پوری نیک نیتی اور لگن کے ساتھ بنارس میں ہونے والی تبدیلیوں کے اس عزم کو اور مضبوط کریں۔ نئی کاشی، نئے ہندوستان کی تعمیر میں آگے بڑھ کر اپنا تعاون دیں۔
ایک بار پھر آپ سبھی کو شروع ہونے والے تمام نئے پروجیکٹس کے لئے مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ یوں ہی مجھے اپنے پیار اور آشیرواد سے حوصلہ دیتے رہیں۔ اسی تمنا کے ساتھ اور بھائیو بہنوں، آپ نے بھلے مجھے وزیراعظم کے عہدہ کی ذمے داری دی ہے، لیکن میں ایک ممبر پارلیمنٹ ہونے کی حیثیت سے بھی آپ کو اپنے کام کا حساب دینے کے لئے ذمے دار ہوں۔ آج میں نے ایک ممبر پارلیمنٹ ہونے کی حیثیت سےآپ کو چار سال میں، میں نے جو کام کئے ہیں، اس کی ایک جھلک پیش کی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ عوامی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے، آپ کا خادم ہونے کی حیثیت سے، آپ میرے مالک ہیں، آپ میرے ہائی کمانڈ ہیں، اس لئے پائی پائی کا حساب دینا، پل پل کا حساب دینا، یہ میری ذمے داری ہے۔
ایک ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے آج مجھے خوشی ہے کہ آپ کے درمیان آکر ترقی کی باتوں کو آپ کے سامنے پیش کرنے کی خوش نصیبی حاصل ہوئی ہے۔ میں ایک بار پھر آپ کے پیار کے لئے، آپ کے آشیرواد کے لئے، آپ کی لامحدود محبت کے لئے، دل کی گہرائیوں سے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میرے ساتھ بولئے – بھارت ماتا کی – جئے۔
بھارت ماتا کی – جئے۔
بھارت ماتا کی – جئے۔
بہت بہت شکریہ۔