PM Modi inaugurates the new headquarters building of the Archaeological Survey of India in New Delhi
We need to device new ways to promote civil and social involvement in preserving and promoting our historical heritage: PM
Until we feel proud of our heritage we will not be able to preserve it, says PM Modi
PM Modi says that India must take pride in the rich history of our nation

نئی دہلی،13 جولائی 2018؍ میں سب سے پہلے آپ سب کو اس شاندار عمارت کے لئے اور جدید ترین بھون کے لئے بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔ جس ادارے کی عمر 150 سال ہوگئی ہے ، یعنی یہ ادارہ اپنے آپ میں آثار قدیمہ کا موضوع بن گیا ہے اور 150 سال میں کیسے کیسے کہاں سے نکلی ہوگی ، کہاں پہنچی ہوگی، کیسی پھیلی ہوگی، کیا کچھ پایا ہوگا، کیا کچھ پنپا ہوگا، یعنی اپنے آپ میں 150 سال ایک ادارے کی زندگی میں بہت بڑا وقت ہوتا ہے۔

میں نہیں جانتا ہوں کہ اے ایس آئی کے پاس اپنے 150 سال کی مدت کار کی بھی کوئی تاریخ ہے کہ نہیں۔ آثار قدیمہ کا یہ کام بھی کرنے جیسے ہوگا اگرنہیں ہے تو ہوگا۔ بہت اچھی بات ہے۔ کئی لوگوں میں اس ذمہ داری کو سنبھالا ہوگا ،کس تصور سے شروع ہوا ہوگا، کیسے کیسے اس کی توسیع ہوئی ہوگی۔ ٹکنالوجی اس میں کیسے کیسے داخل ہوئی ہوگی، ایسی بہت سے باتیں ہوں گی اور اے ایس آئی کے ذریعہ کئے گئے کام ، اس وقت کے سماج پر کیا اثرات مرتب کئے ہوں گے اس نے دنیا کے اس خطے کے لوگوں کو کس طرح راغب کیا ہوگا۔ آج بھی دنیا میں ہمارے ملک کی یا اثار قدیمہ کی چیزیں ہیں۔ دنیا کو جو اندازہ ہے اس میں سے حقیقتوں پر لے جانے کے لئے بہت سی اشیا ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ جیسے جیسے سائنس کی ترقی ہوئی اسپیس ٹیکنالوجی آئی، جو پرانے تصورات تھے ، انسانی زندگی کے تعلق سے اور جس کو لے کر سختی سے تحریک چلتی تھی ، دو دہارائیں چلتی تھیں، تاریخ کی دنیا میں ان کو تباہ کردینے کا کام ٹکنالوجی نے کیا۔ سرسوتی کے وجود کو قبول نہ کرنا یہ بھی ایک طبقہ تھا۔ لیکن اسپیس ٹکنالوجی راستے دکھا رہی ہے کہ نہیں جی، ایسا نہیں تھا۔ یہ تصوراتی نہیں تھا۔ آریہ باہر سے آئے ، نہیں آئے ، دنیا بھر میں تنازع رہا اور کچھ لوگ اس کے جیسے پسندیدہ موضوعات کو لے کر کے بیٹھے ہوئے ہیں ، یہ بڑا طبقہ ہے لیکن جیسے ٹکنالوجی کی مدد سے آثار قدیمہ کے شعبے میں کام ہوا تو ایک بہت بڑا طبقہ پیدا ہوا جو ایک نئی چرچہ لے کر آیا ہے۔

میں سمجھتا ہو ں کہ یہ پرانے مخطوطات یا کچھ پرانی یا کچھ پتھر یہ بیکار دنیا نہیں ہے۔ یہاں کا ہر پتھر بولتا ہے ۔ آثار قدیمہ سے جڑے ہوئے ہر کاغذ کی اپنی ایک کہانی ہوتی ہے ۔ آثار قدیمہ سے نکلی ہوئی ہر چیز میں انسان محنت ، ریاضت، سپنوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ پیوست ہوتا۔ اس لئے آثارقدیمہ میں جو لوگ ہیں ایسے ویران زمین میں کام شروع کرتے ہیں ، کئی برسوں تک دنیا کا دھیان نہیں جاتا ہے۔ جس طرح ایک سائنٹسٹ اپنے موضوع کو لے کر اپنی لے میں ڈوبا رہتا ہے ، اب دنیا کے سامنے جب جاتا ہے تو چمتکار کی شکل میں نظر آتا ہے۔ آثار قدیمہ کے میدان میں کام کرنے والا ایک شخص بھی ویران جنگلوں میں ، پہاڑ میں، کہیں پتھروں کے بیچ میں اپنے آپ کو کھو کر رہتا ہے اور دس دس بیس بیس سال وہ تھک جاتا ہے۔ پتہ تک نہیں ہوتا ۔ اور اچانک جب وہ کچھ نئی چیز دنیا کے سامنے اپنا تحقیقی مقالہ لے کر آتا ہے تو اس طرف دنیا کا دھیان جاتا ہے کہ کیا ہے۔ اس لئے ہمارے یہاں چندی گڑھ کے پاس ایک چھوٹا سا ٹیلہ، لوگوں کے لئے وہ ٹیلہ ہی تھا، لیکن فرانس کے کچھ اور یہاں کے کچھ لوگ اور عمرانیات کو جاننے والے لوگ، آثار قدیمہ کے لوگ لگ گئے اور انہوں نے کھوج کرکے یہ نکالا کہ دنیا کا سب سے پرانا ، لاکھوں سال پرانے جاندار کے باقیات اس ٹیلے میں دسیتاب ہیں۔ فرانس کے صدر جب یہاں آئے تو انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ مجھے وہاں جانا ہے جہاں میرے ملک کے لوگوں نے کچھ کام کیا ہے۔ اور میں ان کو لے کر گیا تھا۔ کہنے کا یہ مطلب ہے کہ یہ چیزیں امیدوں سے پرے جانے کے لئے ہیں۔ نئے طریقے سے سوچنے کے لئے آثار قدیمہ کا ایک ماہر اس میدان میں کام کرنے والا شخص ایک بہت بڑا بدلاؤ لے کر آتا ہے۔

تاریخ کو کبھی کبھی چنوتی دینے کی طاقت ا س پتھر سے پیدا ہوجاتی ہے جو شاید شروع میں کوئی تسلیم نہیں کرتا ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں کبھی کبھی ہم ان چیزوں سے اتنے متعارف ہوتے ہیں ، اس قدر عادی ہوتے ہیں کہ کبھی کبھی اس کی قیمت بھی کم ہوجاتی ہے۔

دنیا میں جس کے پاس کچھ ہوتا نہیں ہے وہ اس کو بہت سمیٹ کر رکھتا ہے بھائی مجھے برابر یاد ہے میں ایک بار امریکہ حکومت کی دعوت پر ایک وفد میں امریکہ گیا تھا تو سفر کے دوران پوچھا گیا کہ کہاں جانا چاہیں گے ، کیا دیکھنا چاہیں گے کیا جاننا چاہیں گے ، وغیرہ ۔ سب بھرواتے ہیں ، تو میں نے لکھا تھا کہ وہاں چھوٹے سے گاؤں کا اسپتال کیا ہوتا ہے وہ مجھے دیکھنا ہے۔ چھوٹے سے گاؤں کا اسکول کیا ہوتا ہے وہ دیکھنا ہے۔ اور میں نے یہ لکھا تھا کہ آپ کی جو سب سے پرانی چیز ہو جس پر آپ فخر کرتے ہیں ایسی جگہ پر مجھے لے جایئے۔ جب مجھے وہ لوگ لے گئے تو وہ شاید پنی سلوانیہ ریاست میں لے گئے تھے ۔ وہ ایک بڑا کھنڈ تھا ۔ وہ مجھے دکھایا گیا اور بڑے فخر سے وہ کہہ رہے تھے کہ یہ چارسو سال پرانا ہے۔ ان کے لئے یہ بہت پرانا اور فخر کا باعث تھا۔ ہمارے یہاں کوئی دو ہزار ، پانچ ہزار سال کے بعد اچھا اچھا ہوگا۔ یعنی یہ جو ہمارا کٹ آف ہے اس نے ہمارا بہت نقصان کیا ہے۔

ملک آزاد ہونے کے بعد اس من اور مزاج سے باہر آنا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے ایک ایسی سوچ نے ہندستان کو جکڑ کر رکھا ہے جو ہمارے پرانے فخر کو غلام مانتی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ ہمیں جب تک ان وراثت بھر اپنی اس ثقافتی ورثے پر فخر نہیں ہوگا تو اس ثقافتی ورثے کو سنبھال کر رکھنا اور سنوارنے کا من بھی نہیں بنتا ہے۔ اسی چیز کو سنوارنے کا من تب ہوتا ہے جب فخر ہوتا ہے۔ ورنہ وہ ایسا ہی ایک ٹکڑا ہوتا ہے ۔ میں جب چھوٹا تھا تومیری ایک خوش قسمتی رہی میں اس گاؤں میں پیدا ہوا ہوں جس کی رہائش کی یہ تاریخ ہے کہ صدیوں سے مسلسل انسانی نظام ترقی کررہا ہے اور ہیووین سانگ نے بھی لکھا تھا کہ وہاں بھکشوؤں کی ایک بہت بڑی یونیورسٹی ہوا کرتی تھی ، اور وہ ساری چیزیں وہاں ہیں لیکن ہمارے گاؤ ں میں جب ہم پڑھتے تھے تو ایک ٹیچر تھے وہ ہم کو سمجھاتے تھے کہ آپ کہیں بھی جاتے ہیں ،کوئی بھی پتھر جس پر کوئی نہ کوئی کام ہوا ہے ، ایسا دکھتا ہے تواسے اکٹھا کر کے اسکول کے کونے میں ڈال دیجئے۔ ایسا لاکر چھوڑ دیجئے۔ ہم بچوں کی عادت ہوگئی تھی کہیں ایسی چیز نظر آتی تھی ، جس پر ، پتھر پر دو لفظ بھی نظر آتے ، تو اٹھا کر لاتے تھے۔ اور اس کونے میں ڈال دیتے تھے، خیر اب تو مجھے معلوم نہیں بعد میں اس کا کیا ہوا لیکن بچوں میں اس کی عادت لگ گئی تھی۔ تب مجھے سمجھ آیا تھا کہ جو دیکھنے والا پتھر ہے جس کا کوئی ہم ایسے روڈ پر پڑا ہوا اس کی بھی کتنی قیمت ہوتی ہے۔ ایک استاد کی بیداری تھی جس نے یہ سنسکار دیئے۔ اور تب سے لے کر کے من کے بیک گراؤنڈ میں یہ چیزیں پڑی ہوئی ہیں اور ہم اس کو کرتے رہے ہیں۔

مجھے برابر یاد ہے ایک احمد آباد میں ڈاکٹر ہری بھائی گودھانی رہتے تھے وہ تو میڈیکل پریکٹشنر تھے اسی ایک عادت کے سبب جب میں نے ان کے بارے میں سنا تھا تو میں ان سے ملنے گیا تھا انہوں نے کہا کہ دیکھئے بھائی میں نے اپنی زندگی کی 20 فیایٹ کار ، تو اس وقت فیاٹ کار ہوا کرتی تھی، یہ نئی نئی گاڑیاں تو ہوتی نہیں تھیں میں نے 20 گاڑیاں تباہ کردی ہیں۔ بولے میں سنیچر اتوار اپنی فیاٹ کار لے کر کے چل پڑتا ہوا اور جنگلوں میں جاتا ہوں، پتھروں کے بیچ چلا جاتا ہوں کچے راستے ہوتے ہیں ایک سال سے زیادہ میری گاڑی چلتی نہیں ہے ، میں مانتا ہوں کہ ایک انفرادی شخص کا اتنا بڑا ذخیرہ شاید ہی بہت کم لوگوں کے پاس ہوگا میں نے اس وقت جو دیکھا تھا ا تنا ان کے پاس ذخیرہ تھا آثار قدیمہ کا ۔ خود تو وہ میڈیکل پروفیشنل تھے اور مجھے انہوں نے کچھ سلائیڈیں دکھائیں میری عمر بہت چھوٹی تھی ، لیکن تجسس تھا ، اس میں انہوں نے مجھے ایک پتھر کا تراشا ہوا ٹکڑا دکھایا جس میں ایک حاملہ عورت تھی اور ان کا کہنا تھا کہ وہ شاید وہ 800 سال پرانا ہے ۔ حاملہ عورت کا سرجری کیا ہوا ایک سائیڈ کٹ کرکے اس کا پیٹ دکھایا گیا تھا ۔ چمڑی کے کتنے لیئر تھے وہ پتھر پر تراشا ہوا تھا، پیٹ میں جنین کس شکل میں سویا ہوا تھا وہ پتھر سے تراشا ہوا تھا۔

مجھے کوئی بتارہا تھا کہ میڈیکل سائنس نے یہ دریافت کچھ ہی صدیوں پہلے کی ہے۔ یہ ہمارے ایک مجسمہ ساز تقریباً 8 سو سال پہلے جو ہے پتھر میں جوچیزیں تراشی تھیں۔ بعد کے سائنس اس کو ثابت کردیا کہ ہاں چمڑی کے اتنے پرت ہوتے ہیں۔ بچہ ماں کے پیٹ میں اس طرح سے ہوتا ہے۔ اب ہم تصور کرسکتے ہیں کہ ہمارے یہاں گیان کتنے نیچے تک پہنچا ہوگا اور کس طرح سے کام ہو یہ سلائیڈ انہوں نے مجھے دکھائی تھی۔

یعنی ہمارے پاس ایسی وراثت ہے اس کا مطلب اس زمانے میں کوئی نہ کوئی تو گیان ہوگا ورنہ ان کو کیسے معلوم ہوتا کہ چمڑی کے اتنے پرت ہوتے ہیں اور وہ پتھر پر کیسے تراشا ہوتا۔ مطلب وہاں سے سائنس ہمارا کتنا پرا ہوگا۔ اس کا گیان ہمیں دستیاب ہوتا ہے۔

دنیا میں ایک اچھی بات ہم محسوس کرتے ہیں کہ جو بھی لوگ دنیا میں ان چیزوں میں دلچپسی رکھتے ہیں وہاں پر عوامی شراکت داری اور عوامی تعاون ان شعبوں میں بہت ہوتا ہے۔ آپ دنیا میں کسی بھی یادگار میں جائیے ، سبکدوش لوگ سیوا بھا ؤ سے یونیوفارم پہن کر وہاں آتے ہیں، گائیڈ کی شکل میں کام کرتے ہیں، لے جاتے ہیں ، دکھاتے ہیں ، سنبھالتے ہیں، سماج اٹھاتا ہے یہ ذمہ داری ۔ ہمارے ملک میں ہم نے جو سینئر سیٹنز ہیں ان کی ایسی کلب بناکرکے ہم اس چیز کو کیسے پرکولیٹ کریں۔ سماج کی حصہ داری سے ہمارے یادگار کو بچانے کا کام اچھا ہوگا، بہ نسبت یہ کہ سرکار کا کوئی ملازم کھڑا ہوجائے اور ہوگا۔ طریقہ وہی ہوتا ہے۔ کوئی کتنا ہی چوکیدار ہوگا باغ کو نہیں سنبھال سکتا۔لیکن وہاں آنے والے شہری طے کریں کہ اس باغ کا ایک پودا بھی ٹوٹنے نہیں دینا ہے۔ ہوگا اس باغ کو صدیوں تک کچھ نہیں ہوتا ہے، عوامی حصے داری کی ایک طاقت ہوتی ہے اور اس لئے ہم اگر ہماری سماجی زندگی میں ان چیزوں کو ادارہ جاتی کریں، لوگوں کو جو اس طرح کی خدمات دیتے ہیں ان کو مدعو کریں اپنے آپ میں بہت بڑا کام ہوگا۔

ہمارے یہاں کارپوریٹ دنیا ہے جس کی مدد لی جاسکتی ہے۔ان کے ملازموں کو کہہ سکتے ہیں کہ بھائی اگر آپ کو خدمت قیمت سے دس گھنٹے ، پندرہ گھنٹے کام کرنا ہے مہینے میں یہ یادگار ہے اس کو سنبھالنے میں آئیے، میدان میں آیئے، دھیرے دھیرے ان چیزوں کی قیمت بنتی ہے۔ دوسرا ایک شعبہ ہے جس پر مجھے سوچنے کی محسوس ہوتی ہے۔ مان لیجئے ہم طے کریں اور یہ ضروری نہیں ہے کہ صرف اے ایس وائی والے کریں۔ سیاحتی محکمہ جڑ سکتا ہے، ثقافتی محکمہ جڑ سکتاہے۔ حکومت کے اور محکمے بھی جڑ سکتے ہیں۔ ریاستی حکومتوں کے محکمے جڑ سکتے ہیں۔

لیکن مان لیجئے ہم طے کریں کہ ہم ملک میں 100 شہر پکڑیں۔100 شہر جو یادگار کے نقطہ نظر سے بہت قیمتی ہے۔ سیاحت کے شعبے سے بہت اچھے مقامات ہیں، اور اس شہر کے بچوں کے جو سیلبس ہوتے ہیں ان کو ان کے شہر کے سلیبس میں پڑھائی میں اس شہر کا آرکیالوجیکل مضمون پڑھایاجائے، اس شہر کی تاریخ پڑھائی جائے تو جاکر کے نسل در نسل جس شہر میں وہ ہوا ہے ۔ اگرآگرہ کے بچے کے نصاب میں تاج محل کی پوری کہانی ہوگی تو پھر کبھی ڈیلوژن ڈائیورزن نہیں آئے گا۔ وہ نسل در نسل تیار ہوتے جائیں گے اسی صلاحیت کے ساتھ۔

دوسرا ادارہ جاتی طورپر ایسے 100 شہر میں ، مان لیجئے ہم اسی کے شہر کا آن لائن سرٹیفکیٹ کورس شروع کرسکتے ہیں کیا اور اس میں جو ہوتا ہے تاکہ ان کو پتہ چلے ایک ایک باریکی۔ سال یاد ہوگا اور پھر ہم دی بیسٹ کوالٹی ٹورسٹ گائیڈ تیار کرسکتے ہیں۔

میں نے کبھی ایک بار ٹی وی چینل والوں سے بات چیت کی تھی تب تو میں وزیر اعظم نہیں تھا۔ میں ان سے ایک بار بات کی ، میں نے کہا بھائی یہ ٹیلنٹ ہنٹنگ کا کام کرتے ہیں۔ گانے والے بچے ، ناچنے والے بچے اور بہت ہی اچھا پرفارم کرتے ہیں۔ ملک کے بچوں میں ایک ایسا ٹیلنٹ ہے وہ ٹی وی کے ذریعے ہم کو پتہ چلنے لگے گا۔ میں نے کہا کہ بیسٹ گائیڈ اس کی ٹیلنٹ کمپٹیشن کرسکتے ہیں کیا؟ اور اس کو کہا جائے کہ وہ اسکرین پر جس شہر کا وہ گائیڈ کی شکل میں کام کرنا چاہتا ہے وہ لاکر کے دکھائے۔ گائیڈ کے وہ اپنے اچھے سے کسٹیوم پہن کر آئے۔ زبانوں کو سیکھیں اور کوئی کیسے ٹورسٹ گائیڈ کی شکل میں دنیا کو دکھائے، کمپٹیشن کیا جائے ، اس سے فائدہ ہوگا۔ یہ تو ہندوستان کی سیاحت کو بھی فروغ دے گا، تشہیر ہوگی ، دھیرے دھیرے گائیڈ نام کے لوگ تیار ہوں گےا ور بغیر گائیڈ کے ان چیزوں کو چلانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔

لیکن جب ذہن میں بھر جاتا ہے اس کے پیچھے یہ تاریخ ہے تو اس کے تئیں ایک لگاؤ ہوتاہے۔ آپ کو کوئی کمرے میں بند کر دے اور کوئی آدمی کمرے میں بند ہو اور کمرے کے دروازے پر ایک چھوٹا سا سراخ کیا جائے اور اندر سے کوئی ہاتھ باہر نکالے اور ایک لمبی قطار لگائی جائے اور سب کو کہا جائے کہ ان کو شیک ہینڈ کیجئے۔ کون انسان ہے پتہ نہیں ہے۔ سراخ کیا ہے ہاتھ لٹکا ہوا ہے آپ جا رہے ہیں تو ایسا ہی لگے گا جیسے یہاں پر ڈیڈ باڈی کو ہاتھ لگاکر چلے جارہے ہیں، لیکن جب آپ کو بتایا جائے کہ ارے بھئ یہ تو سچن تیندولکر کا ہاتھ ہے تو آپ چھوڑیں گے ہی نہیں۔ یعنی جب جانکاری ہوتی ہے تو اپنا پن کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔ ہمارے ان چیزوں کی یادگار کی جانکاری ہونا بہت ضروری ہے۔

میں ایک بار کچھ کے سامنے ریگستان میں ڈیولپ کرنا چاہتا تھا۔ اب ریگستان میں سیاحتی ڈیولپ کرنا ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے تو شروع میں میں نے وہاں کے بچوں کو ٹرینڈ کیا۔ گائیڈ کی شکل میں اور ان کو سکھایا کہ نمک کیسے بنتا ہے، لوگوں کو سکھانا ہے۔ ریگستان میں نمک کیا ہوتا ہے اور آپ حیران ہوں گے ۔ جی آٹھویں، نویں کلاس کے بچے، بچیاں اتنے بہترین طریقے سے کسی کو بھی سمجھا پاتے ہیں کہ علاقہ کیسا ہے، یہاں پر کس طرح سے نمک کی کھیتی ہوتی ہے، پروسیس کیا ہوتی ہے۔ سب سے پہلے کون آئے تھے۔ کسی انگریز نے آکر کے کیسے .......تو بہت اچھے ڈھنگ سے سمجھاتے تھے۔ لوگوں کو اس میں مزا آنے لگا۔ ان بچوں کو روزگار مل گیا۔ میں تو حیران ہوں جی، ٹیکنالوجی بدل گئی ہے۔ معاف کرنا آپ لوگ مجھے، میں کچھ باتیں بتاؤں گا، برا مت مانیے آپ لوگ۔ دنیا کیسے چل رہی ہے جی آج اسپیس ٹیکنالوجی سے ہزاروں میل اوپر سے دہلی کی کس گلی میں کون سا اسکوٹر پارک کیا ہوا ہے اس کا نمبر کیا ہے وہ فوٹو لے سکتے ہیں آپ۔ لیکن یادگار میں بورڈ پر لکھا ہے کہ یہاں فوٹو کھینچنا منع ہے۔ اب وقت بدل چکا ہے جی، ٹیکنالوجی بدل چکی ہے۔

میں نے ایک بار جو ہمارے یہاں سردار سروور ڈیم بن رہا تھا۔ اس ٹائم پر لوگ آنا چاہتے تھے ۔ کبھی کبھی اوور فلو ہوتا ہے لوگ دیکھنا چاہتے تھے۔ وہاں پر بڑے بڑے بورڈ لگے تھے۔ تصویر کھینچنا منع ہے وغیرہ وغیرہ تو میں الٹا کیا میں وزیر اعلیٰ تھا تو کرسکتا تھا، میں نے کہا کہ یہاں جو فوٹو اچھا کھینچے گا اس کو انعام دیا جائے گا اور شرط یہ تھی کہ وہ فوٹو اپلوڈ کرنی ہوگی اپنی ویب سائٹ پر۔ آپ حیران ہوں گے لوگوں کی حصہ داری س لوگ فوٹو کھینچنے لگے۔ لوگ فوٹو اپنا آن لائن ڈالنے لگے اور پھر میں نے کہا کہ یہاں اب ٹکٹ رہے گا۔ جو بھی ڈیم دیکھنے کے لئے آئے اس کو ٹکٹ لگے گا اور ٹکٹ میں رجسٹریشن ہوگا۔ پھر میں نے کہا جب پانچ لاکھ ہوں گے تو ڈجیٹل میں پانچ لاکھواں جس کا نمبر ہوگا اس کو اعزا زدیا جائے گا اور میرے لیے حیرانی تھی کہ جب پانچ لاکھواں نمبر تھا تو کشمیر کے بارہ مولہ کا ایک جوڑا پانچ لاکھواں ہوا تھا۔ تب پتہ چلا کہ کتنی بڑی طاقت ہوتی ہے اور اس کو ہم نے اعزاز سے بھی نوازا تھا۔ تو یہ جو پرانے، وہاں بھی میں نے دیکھا کہ ہمارے کچھ بچوں کو تیار کیا آٹھویں دسویں کے تھے ۔ میں نے کہا کہ گائیڈ کے ناطے کام کرو ، پھر یہ ڈیم بننا کب شروع ہوا، کیسے اجاز ت ملی، کتنے سیمنٹ کا استعمال ہوا، کتنا لوہا ہوا، کتنا پانی اکٹھا ہوگا، کتنے اچھے طریقے سے قبائلی بچے ہیں۔کتنے اچھے طریقے سے وہ گائیڈ کا کام کرتے تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں کم از کم 100 شہروں میں جو بھی ہم طے کریں۔ ویسے اس طرح کی نئی نسل کو ہم تیار کریں،جو گائیڈ کے پیشے کے لیے دھیر دھیرے آگے آئیں۔ جن کی انگلیوں پر تاریخ پنپتی ہوں، تاریخ ٹھہر گئی ہو جن کی انگلیوں پر ۔ ایسا اگر ہم کر پاتے ہیں تو آپ دیکھئے کہ دیکھتے دیکھتے ہی یہ بھار ت کے جو عظیم وراثت ہے دنیا کے لئے عجوبہ ہے اور ہمیں دنیا کو مزید کچھ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ جو ہمارے آباء و اجداد چھوڑ کر گئے ہیں، صر ف اس کو دکھانا ہے۔ ہندوستان کی سیاحت کو کوئی روک نہیں سکتا اور ہم ایسی اولاد تو نہیں ہیں کہ ہم اپنے آباء اجداد کے کاموں کو بھلادیں۔ یہ ہم لوگوں کا فریضہ ہے کہ ہمارے آباء و اجداد کی جو وراثت ہے اس کو ہم دنیا کے سامنے پیش کریں۔ بڑے فخر کے ساتھ پیش کریں۔ بڑی شان سے پیش کریں اور دنیا کو اس عظیم تاریخی ورثے کو چھونے کا من کرجائے ، اس کی پوجا کرنے کی خواہش ہوجائے۔ ہم اس یقین کے ساتھ چل پڑیں ۔ اس جذبے کے ساتھ ساتھ میں بہت بہت نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
Snacks, Laughter And More, PM Modi's Candid Moments With Indian Workers In Kuwait

Media Coverage

Snacks, Laughter And More, PM Modi's Candid Moments With Indian Workers In Kuwait
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Joint Statement: Official visit of Shri Narendra Modi, Prime Minister of India to Kuwait (December 21-22, 2024)
December 22, 2024

At the invitation of His Highness the Amir of the State of Kuwait, Sheikh Meshal Al-Ahmad Al-Jaber Al-Sabah, Prime Minister of India His Excellency Shri Narendra Modi paid an official visit to Kuwait on 21-22 December 2024. This was his first visit to Kuwait. Prime Minister Shri Narendra Modi attended the opening ceremony of the 26th Arabian Gulf Cup in Kuwait on 21 December 2024 as the ‘Guest of Honour’ of His Highness the Amir Sheikh Meshal Al-Ahmad Al-Jaber Al-Sabah.

His Highness the Amir of the State of Kuwait Sheikh Meshal Al-Ahmad Al-Jaber Al-Sabah and His Highness Sheikh Sabah Al-Khaled Al-Sabah Al-Hamad Al-Mubarak Al-Sabah, Crown Prince of the State of Kuwait received Prime Minister Shri Narendra Modi at Bayan Palace on 22 December 2024 and was accorded a ceremonial welcome. Prime Minister Shri Narendra Modi expressed his deep appreciation to His Highness the Amir of the State of Kuwait Sheikh Meshal Al-Ahmad Al-Jaber Al-Sabah for conferring on him the highest award of the State of Kuwait ‘The Order of Mubarak Al Kabeer’. The leaders exchanged views on bilateral, global, regional and multilateral issues of mutual interest.

Given the traditional, close and friendly bilateral relations and desire to deepen cooperation in all fields, the two leaders agreed to elevate the relations between India and Kuwait to a ‘Strategic Partnership’. The leaders stressed that it is in line with the common interests of the two countries and for the mutual benefit of the two peoples. Establishment of a strategic partnership between both countries will further broad-base and deepen our long-standing historical ties.

Prime Minister Shri Narendra Modi held bilateral talks with His Highness Sheikh Ahmad Abdullah Al-Ahmad Al-Jaber Al-Mubarak Al-Sabah, Prime Minister of the State of Kuwait. In light of the newly established strategic partnership, the two sides reaffirmed their commitment to further strengthen bilateral relations through comprehensive and structured cooperation in key areas, including political, trade, investment, defence, security, energy, culture, education, technology and people-to-people ties.

The two sides recalled the centuries-old historical ties rooted in shared history and cultural affinities. They noted with satisfaction the regular interactions at various levels which have helped in generating and sustaining the momentum in the multifaceted bilateral cooperation. Both sides emphasized on sustaining the recent momentum in high-level exchanges through regular bilateral exchanges at Ministerial and senior-official levels.

The two sides welcomed the recent establishment of a Joint Commission on Cooperation (JCC) between India and Kuwait. The JCC will be an institutional mechanism to review and monitor the entire spectrum of the bilateral relations between the two countries and will be headed by the Foreign Ministers of both countries. To further expand our bilateral cooperation across various fields, new Joint Working Groups (JWGs) have been set up in areas of trade, investments, education and skill development, science and technology, security and counter-terrorism, agriculture, and culture, in addition to the existing JWGs on Health, Manpower and Hydrocarbons. Both sides emphasized on convening the meetings of the JCC and the JWGs under it at an early date.

Both sides noted that trade has been an enduring link between the two countries and emphasized on the potential for further growth and diversification in bilateral trade. They also emphasized on the need for promoting exchange of business delegations and strengthening institutional linkages.

Recognizing that the Indian economy is one of the fastest growing emerging major economies and acknowledging Kuwait’s significant investment capacity, both sides discussed various avenues for investments in India. The Kuwaiti side welcomed steps taken by India in making a conducive environment for foreign direct investments and foreign institutional investments, and expressed interest to explore investment opportunities in different sectors, including technology, tourism, healthcare, food-security, logistics and others. They recognized the need for closer and greater engagement between investment authorities in Kuwait with Indian institutions, companies and funds. They encouraged companies of both countries to invest and participate in infrastructure projects. They also directed the concerned authorities of both countries to fast-track and complete the ongoing negotiations on the Bilateral Investment Treaty.

Both sides discussed ways to enhance their bilateral partnership in the energy sector. While expressing satisfaction at the bilateral energy trade, they agreed that potential exists to further enhance it. They discussed avenues to transform the cooperation from a buyer-seller relationship to a comprehensive partnership with greater collaboration in upstream and downstream sectors. Both sides expressed keenness to support companies of the two countries to increase cooperation in the fields of exploration and production of oil and gas, refining, engineering services, petrochemical industries, new and renewable energy. Both sides also agreed to discuss participation by Kuwait in India's Strategic Petroleum Reserve Programme.

Both sides agreed that defence is an important component of the strategic partnership between India and Kuwait. The two sides welcomed the signing of the MoU in the field of Defence that will provide the required framework to further strengthen bilateral defence ties, including through joint military exercises, training of defence personnel, coastal defence, maritime safety, joint development and production of defence equipment.

The two sides unequivocally condemned terrorism in all its forms and manifestations, including cross-border terrorism and called for disrupting of terrorism financing networks and safe havens, and dismantling of terror infrastructure. Expressing appreciation of their ongoing bilateral cooperation in the area of security, both sides agreed to enhance cooperation in counter-terrorism operations, information and intelligence sharing, developing and exchanging experiences, best practices and technologies, capacity building and to strengthen cooperation in law enforcement, anti-money laundering, drug-trafficking and other transnational crimes. The two sides discussed ways and means to promote cooperation in cybersecurity, including prevention of use of cyberspace for terrorism, radicalisation and for disturbing social harmony. The Indian side praised the results of the fourth high-level conference on "Enhancing International Cooperation in Combating Terrorism and Building Resilient Mechanisms for Border Security - The Kuwait Phase of the Dushanbe Process," which was hosted by the State of Kuwait on November 4-5, 2024.

Both sides acknowledged health cooperation as one of the important pillars of bilateral ties and expressed their commitment to further strengthen collaboration in this important sector. Both sides appreciated the bilateral cooperation during the COVID- 19 pandemic. They discussed the possibility of setting up of Indian pharmaceutical manufacturing plants in Kuwait. They also expressed their intent to strengthen cooperation in the field of medical products regulation in the ongoing discussions on an MoU between the drug regulatory authorities.

The two sides expressed interest in pursuing deeper collaboration in the area of technology including emerging technologies, semiconductors and artificial intelligence. They discussed avenues to explore B2B cooperation, furthering e-Governance, and sharing best practices for facilitating industries/companies of both countries in the policies and regulation in the electronics and IT sector.

The Kuwaiti side also expressed interest in cooperation with India to ensure its food-security. Both sides discussed various avenues for collaboration including investments by Kuwaiti companies in food parks in India.

The Indian side welcomed Kuwait’s decision to become a member of the International Solar Alliance (ISA), marking a significant step towards collaboration in developing and deploying low-carbon growth trajectories and fostering sustainable energy solutions. Both sides agreed to work closely towards increasing the deployment of solar energy across the globe within ISA.

Both sides noted the recent meetings between the civil aviation authorities of both countries. The two sides discussed the increase of bilateral flight seat capacities and associated issues. They agreed to continue discussions in order to reach a mutually acceptable solution at an early date.

Appreciating the renewal of the Cultural Exchange Programme (CEP) for 2025-2029, which will facilitate greater cultural exchanges in arts, music, and literature festivals, the two sides reaffirmed their commitment on further enhancing people to people contacts and strengthening the cultural cooperation.

Both sides expressed satisfaction at the signing of the Executive Program on Cooperation in the Field of Sports for 2025-2028. which will strengthen cooperation in the area of sports including mutual exchange and visits of sportsmen, organising workshops, seminars and conferences, exchange of sports publications between both nations.

Both sides highlighted that education is an important area of cooperation including strengthening institutional linkages and exchanges between higher educational institutions of both countries. Both sides also expressed interest in collaborating on Educational Technology, exploring opportunities for online learning platforms and digital libraries to modernize educational infrastructure.

As part of the activities under the MoU between Sheikh Saud Al Nasser Al Sabah Kuwaiti Diplomatic Institute and the Sushma Swaraj Institute of Foreign Service (SSIFS), both sides welcomed the proposal to organize the Special Course for diplomats and Officers from Kuwait at SSIFS in New Delhi.

Both sides acknowledged that centuries old people-to-people ties represent a fundamental pillar of the historic India-Kuwait relationship. The Kuwaiti leadership expressed deep appreciation for the role and contribution made by the Indian community in Kuwait for the progress and development of their host country, noting that Indian citizens in Kuwait are highly respected for their peaceful and hard-working nature. Prime Minister Shri Narendra Modi conveyed his appreciation to the leadership of Kuwait for ensuring the welfare and well-being of this large and vibrant Indian community in Kuwait.

The two sides stressed upon the depth and importance of long standing and historical cooperation in the field of manpower mobility and human resources. Both sides agreed to hold regular meetings of Consular Dialogue as well as Labour and Manpower Dialogue to address issues related to expatriates, labour mobility and matters of mutual interest.

The two sides appreciated the excellent coordination between both sides in the UN and other multilateral fora. The Indian side welcomed Kuwait’s entry as ‘dialogue partner’ in SCO during India’s Presidency of Shanghai Cooperation Organisation (SCO) in 2023. The Indian side also appreciated Kuwait’s active role in the Asian Cooperation Dialogue (ACD). The Kuwaiti side highlighted the importance of making the necessary efforts to explore the possibility of transforming the ACD into a regional organisation.

Prime Minister Shri Narendra Modi congratulated His Highness the Amir on Kuwait’s assumption of the Presidency of GCC this year and expressed confidence that the growing India-GCC cooperation will be further strengthened under his visionary leadership. Both sides welcomed the outcomes of the inaugural India-GCC Joint Ministerial Meeting for Strategic Dialogue at the level of Foreign Ministers held in Riyadh on 9 September 2024. The Kuwaiti side as the current Chair of GCC assured full support for deepening of the India-GCC cooperation under the recently adopted Joint Action Plan in areas including health, trade, security, agriculture and food security, transportation, energy, culture, amongst others. Both sides also stressed the importance of early conclusion of the India-GCC Free Trade Agreement.

In the context of the UN reforms, both leaders emphasized the importance of an effective multilateral system, centered on a UN reflective of contemporary realities, as a key factor in tackling global challenges. The two sides stressed the need for the UN reforms, including of the Security Council through expansion in both categories of membership, to make it more representative, credible and effective.

The following documents were signed/exchanged during the visit, which will further deepen the multifaceted bilateral relationship as well as open avenues for newer areas of cooperation:● MoU between India and Kuwait on Cooperation in the field of Defence.

● Cultural Exchange Programme between India and Kuwait for the years 2025-2029.

● Executive Programme between India and Kuwait on Cooperation in the field of Sports for 2025-2028 between the Ministry of Youth Affairs and Sports, Government of India and Public Authority for Youth and Sports, Government of the State of Kuwait.

● Kuwait’s membership of International Solar Alliance (ISA).

Prime Minister Shri Narendra Modi thanked His Highness the Amir of the State of Kuwait for the warm hospitality accorded to him and his delegation. The visit reaffirmed the strong bonds of friendship and cooperation between India and Kuwait. The leaders expressed optimism that this renewed partnership would continue to grow, benefiting the people of both countries and contributing to regional and global stability. Prime Minister Shri Narendra Modi also invited His Highness the Amir of the State of Kuwait, Sheikh Meshal Al-Ahmad Al-Jaber Al-Sabah, Crown Prince His Highness Sheikh Sabah Al-Khaled Al-Sabah Al-Hamad Al-Mubarak Al-Sabah, and His Highness Sheikh Ahmad Abdullah Al-Ahmad Al-Jaber Al-Mubarak Al-Sabah, Prime Minister of the State of Kuwait to visit India.