نئی دہلی،13 جولائی 2018؍ میں سب سے پہلے آپ سب کو اس شاندار عمارت کے لئے اور جدید ترین بھون کے لئے بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔ جس ادارے کی عمر 150 سال ہوگئی ہے ، یعنی یہ ادارہ اپنے آپ میں آثار قدیمہ کا موضوع بن گیا ہے اور 150 سال میں کیسے کیسے کہاں سے نکلی ہوگی ، کہاں پہنچی ہوگی، کیسی پھیلی ہوگی، کیا کچھ پایا ہوگا، کیا کچھ پنپا ہوگا، یعنی اپنے آپ میں 150 سال ایک ادارے کی زندگی میں بہت بڑا وقت ہوتا ہے۔
میں نہیں جانتا ہوں کہ اے ایس آئی کے پاس اپنے 150 سال کی مدت کار کی بھی کوئی تاریخ ہے کہ نہیں۔ آثار قدیمہ کا یہ کام بھی کرنے جیسے ہوگا اگرنہیں ہے تو ہوگا۔ بہت اچھی بات ہے۔ کئی لوگوں میں اس ذمہ داری کو سنبھالا ہوگا ،کس تصور سے شروع ہوا ہوگا، کیسے کیسے اس کی توسیع ہوئی ہوگی۔ ٹکنالوجی اس میں کیسے کیسے داخل ہوئی ہوگی، ایسی بہت سے باتیں ہوں گی اور اے ایس آئی کے ذریعہ کئے گئے کام ، اس وقت کے سماج پر کیا اثرات مرتب کئے ہوں گے اس نے دنیا کے اس خطے کے لوگوں کو کس طرح راغب کیا ہوگا۔ آج بھی دنیا میں ہمارے ملک کی یا اثار قدیمہ کی چیزیں ہیں۔ دنیا کو جو اندازہ ہے اس میں سے حقیقتوں پر لے جانے کے لئے بہت سی اشیا ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ جیسے جیسے سائنس کی ترقی ہوئی اسپیس ٹیکنالوجی آئی، جو پرانے تصورات تھے ، انسانی زندگی کے تعلق سے اور جس کو لے کر سختی سے تحریک چلتی تھی ، دو دہارائیں چلتی تھیں، تاریخ کی دنیا میں ان کو تباہ کردینے کا کام ٹکنالوجی نے کیا۔ سرسوتی کے وجود کو قبول نہ کرنا یہ بھی ایک طبقہ تھا۔ لیکن اسپیس ٹکنالوجی راستے دکھا رہی ہے کہ نہیں جی، ایسا نہیں تھا۔ یہ تصوراتی نہیں تھا۔ آریہ باہر سے آئے ، نہیں آئے ، دنیا بھر میں تنازع رہا اور کچھ لوگ اس کے جیسے پسندیدہ موضوعات کو لے کر کے بیٹھے ہوئے ہیں ، یہ بڑا طبقہ ہے لیکن جیسے ٹکنالوجی کی مدد سے آثار قدیمہ کے شعبے میں کام ہوا تو ایک بہت بڑا طبقہ پیدا ہوا جو ایک نئی چرچہ لے کر آیا ہے۔
میں سمجھتا ہو ں کہ یہ پرانے مخطوطات یا کچھ پرانی یا کچھ پتھر یہ بیکار دنیا نہیں ہے۔ یہاں کا ہر پتھر بولتا ہے ۔ آثار قدیمہ سے جڑے ہوئے ہر کاغذ کی اپنی ایک کہانی ہوتی ہے ۔ آثار قدیمہ سے نکلی ہوئی ہر چیز میں انسان محنت ، ریاضت، سپنوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ پیوست ہوتا۔ اس لئے آثارقدیمہ میں جو لوگ ہیں ایسے ویران زمین میں کام شروع کرتے ہیں ، کئی برسوں تک دنیا کا دھیان نہیں جاتا ہے۔ جس طرح ایک سائنٹسٹ اپنے موضوع کو لے کر اپنی لے میں ڈوبا رہتا ہے ، اب دنیا کے سامنے جب جاتا ہے تو چمتکار کی شکل میں نظر آتا ہے۔ آثار قدیمہ کے میدان میں کام کرنے والا ایک شخص بھی ویران جنگلوں میں ، پہاڑ میں، کہیں پتھروں کے بیچ میں اپنے آپ کو کھو کر رہتا ہے اور دس دس بیس بیس سال وہ تھک جاتا ہے۔ پتہ تک نہیں ہوتا ۔ اور اچانک جب وہ کچھ نئی چیز دنیا کے سامنے اپنا تحقیقی مقالہ لے کر آتا ہے تو اس طرف دنیا کا دھیان جاتا ہے کہ کیا ہے۔ اس لئے ہمارے یہاں چندی گڑھ کے پاس ایک چھوٹا سا ٹیلہ، لوگوں کے لئے وہ ٹیلہ ہی تھا، لیکن فرانس کے کچھ اور یہاں کے کچھ لوگ اور عمرانیات کو جاننے والے لوگ، آثار قدیمہ کے لوگ لگ گئے اور انہوں نے کھوج کرکے یہ نکالا کہ دنیا کا سب سے پرانا ، لاکھوں سال پرانے جاندار کے باقیات اس ٹیلے میں دسیتاب ہیں۔ فرانس کے صدر جب یہاں آئے تو انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ مجھے وہاں جانا ہے جہاں میرے ملک کے لوگوں نے کچھ کام کیا ہے۔ اور میں ان کو لے کر گیا تھا۔ کہنے کا یہ مطلب ہے کہ یہ چیزیں امیدوں سے پرے جانے کے لئے ہیں۔ نئے طریقے سے سوچنے کے لئے آثار قدیمہ کا ایک ماہر اس میدان میں کام کرنے والا شخص ایک بہت بڑا بدلاؤ لے کر آتا ہے۔
تاریخ کو کبھی کبھی چنوتی دینے کی طاقت ا س پتھر سے پیدا ہوجاتی ہے جو شاید شروع میں کوئی تسلیم نہیں کرتا ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں کبھی کبھی ہم ان چیزوں سے اتنے متعارف ہوتے ہیں ، اس قدر عادی ہوتے ہیں کہ کبھی کبھی اس کی قیمت بھی کم ہوجاتی ہے۔
دنیا میں جس کے پاس کچھ ہوتا نہیں ہے وہ اس کو بہت سمیٹ کر رکھتا ہے بھائی مجھے برابر یاد ہے میں ایک بار امریکہ حکومت کی دعوت پر ایک وفد میں امریکہ گیا تھا تو سفر کے دوران پوچھا گیا کہ کہاں جانا چاہیں گے ، کیا دیکھنا چاہیں گے کیا جاننا چاہیں گے ، وغیرہ ۔ سب بھرواتے ہیں ، تو میں نے لکھا تھا کہ وہاں چھوٹے سے گاؤں کا اسپتال کیا ہوتا ہے وہ مجھے دیکھنا ہے۔ چھوٹے سے گاؤں کا اسکول کیا ہوتا ہے وہ دیکھنا ہے۔ اور میں نے یہ لکھا تھا کہ آپ کی جو سب سے پرانی چیز ہو جس پر آپ فخر کرتے ہیں ایسی جگہ پر مجھے لے جایئے۔ جب مجھے وہ لوگ لے گئے تو وہ شاید پنی سلوانیہ ریاست میں لے گئے تھے ۔ وہ ایک بڑا کھنڈ تھا ۔ وہ مجھے دکھایا گیا اور بڑے فخر سے وہ کہہ رہے تھے کہ یہ چارسو سال پرانا ہے۔ ان کے لئے یہ بہت پرانا اور فخر کا باعث تھا۔ ہمارے یہاں کوئی دو ہزار ، پانچ ہزار سال کے بعد اچھا اچھا ہوگا۔ یعنی یہ جو ہمارا کٹ آف ہے اس نے ہمارا بہت نقصان کیا ہے۔
ملک آزاد ہونے کے بعد اس من اور مزاج سے باہر آنا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے ایک ایسی سوچ نے ہندستان کو جکڑ کر رکھا ہے جو ہمارے پرانے فخر کو غلام مانتی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ ہمیں جب تک ان وراثت بھر اپنی اس ثقافتی ورثے پر فخر نہیں ہوگا تو اس ثقافتی ورثے کو سنبھال کر رکھنا اور سنوارنے کا من بھی نہیں بنتا ہے۔ اسی چیز کو سنوارنے کا من تب ہوتا ہے جب فخر ہوتا ہے۔ ورنہ وہ ایسا ہی ایک ٹکڑا ہوتا ہے ۔ میں جب چھوٹا تھا تومیری ایک خوش قسمتی رہی میں اس گاؤں میں پیدا ہوا ہوں جس کی رہائش کی یہ تاریخ ہے کہ صدیوں سے مسلسل انسانی نظام ترقی کررہا ہے اور ہیووین سانگ نے بھی لکھا تھا کہ وہاں بھکشوؤں کی ایک بہت بڑی یونیورسٹی ہوا کرتی تھی ، اور وہ ساری چیزیں وہاں ہیں لیکن ہمارے گاؤ ں میں جب ہم پڑھتے تھے تو ایک ٹیچر تھے وہ ہم کو سمجھاتے تھے کہ آپ کہیں بھی جاتے ہیں ،کوئی بھی پتھر جس پر کوئی نہ کوئی کام ہوا ہے ، ایسا دکھتا ہے تواسے اکٹھا کر کے اسکول کے کونے میں ڈال دیجئے۔ ایسا لاکر چھوڑ دیجئے۔ ہم بچوں کی عادت ہوگئی تھی کہیں ایسی چیز نظر آتی تھی ، جس پر ، پتھر پر دو لفظ بھی نظر آتے ، تو اٹھا کر لاتے تھے۔ اور اس کونے میں ڈال دیتے تھے، خیر اب تو مجھے معلوم نہیں بعد میں اس کا کیا ہوا لیکن بچوں میں اس کی عادت لگ گئی تھی۔ تب مجھے سمجھ آیا تھا کہ جو دیکھنے والا پتھر ہے جس کا کوئی ہم ایسے روڈ پر پڑا ہوا اس کی بھی کتنی قیمت ہوتی ہے۔ ایک استاد کی بیداری تھی جس نے یہ سنسکار دیئے۔ اور تب سے لے کر کے من کے بیک گراؤنڈ میں یہ چیزیں پڑی ہوئی ہیں اور ہم اس کو کرتے رہے ہیں۔
مجھے برابر یاد ہے ایک احمد آباد میں ڈاکٹر ہری بھائی گودھانی رہتے تھے وہ تو میڈیکل پریکٹشنر تھے اسی ایک عادت کے سبب جب میں نے ان کے بارے میں سنا تھا تو میں ان سے ملنے گیا تھا انہوں نے کہا کہ دیکھئے بھائی میں نے اپنی زندگی کی 20 فیایٹ کار ، تو اس وقت فیاٹ کار ہوا کرتی تھی، یہ نئی نئی گاڑیاں تو ہوتی نہیں تھیں میں نے 20 گاڑیاں تباہ کردی ہیں۔ بولے میں سنیچر اتوار اپنی فیاٹ کار لے کر کے چل پڑتا ہوا اور جنگلوں میں جاتا ہوں، پتھروں کے بیچ چلا جاتا ہوں کچے راستے ہوتے ہیں ایک سال سے زیادہ میری گاڑی چلتی نہیں ہے ، میں مانتا ہوں کہ ایک انفرادی شخص کا اتنا بڑا ذخیرہ شاید ہی بہت کم لوگوں کے پاس ہوگا میں نے اس وقت جو دیکھا تھا ا تنا ان کے پاس ذخیرہ تھا آثار قدیمہ کا ۔ خود تو وہ میڈیکل پروفیشنل تھے اور مجھے انہوں نے کچھ سلائیڈیں دکھائیں میری عمر بہت چھوٹی تھی ، لیکن تجسس تھا ، اس میں انہوں نے مجھے ایک پتھر کا تراشا ہوا ٹکڑا دکھایا جس میں ایک حاملہ عورت تھی اور ان کا کہنا تھا کہ وہ شاید وہ 800 سال پرانا ہے ۔ حاملہ عورت کا سرجری کیا ہوا ایک سائیڈ کٹ کرکے اس کا پیٹ دکھایا گیا تھا ۔ چمڑی کے کتنے لیئر تھے وہ پتھر پر تراشا ہوا تھا، پیٹ میں جنین کس شکل میں سویا ہوا تھا وہ پتھر سے تراشا ہوا تھا۔
مجھے کوئی بتارہا تھا کہ میڈیکل سائنس نے یہ دریافت کچھ ہی صدیوں پہلے کی ہے۔ یہ ہمارے ایک مجسمہ ساز تقریباً 8 سو سال پہلے جو ہے پتھر میں جوچیزیں تراشی تھیں۔ بعد کے سائنس اس کو ثابت کردیا کہ ہاں چمڑی کے اتنے پرت ہوتے ہیں۔ بچہ ماں کے پیٹ میں اس طرح سے ہوتا ہے۔ اب ہم تصور کرسکتے ہیں کہ ہمارے یہاں گیان کتنے نیچے تک پہنچا ہوگا اور کس طرح سے کام ہو یہ سلائیڈ انہوں نے مجھے دکھائی تھی۔
یعنی ہمارے پاس ایسی وراثت ہے اس کا مطلب اس زمانے میں کوئی نہ کوئی تو گیان ہوگا ورنہ ان کو کیسے معلوم ہوتا کہ چمڑی کے اتنے پرت ہوتے ہیں اور وہ پتھر پر کیسے تراشا ہوتا۔ مطلب وہاں سے سائنس ہمارا کتنا پرا ہوگا۔ اس کا گیان ہمیں دستیاب ہوتا ہے۔
دنیا میں ایک اچھی بات ہم محسوس کرتے ہیں کہ جو بھی لوگ دنیا میں ان چیزوں میں دلچپسی رکھتے ہیں وہاں پر عوامی شراکت داری اور عوامی تعاون ان شعبوں میں بہت ہوتا ہے۔ آپ دنیا میں کسی بھی یادگار میں جائیے ، سبکدوش لوگ سیوا بھا ؤ سے یونیوفارم پہن کر وہاں آتے ہیں، گائیڈ کی شکل میں کام کرتے ہیں، لے جاتے ہیں ، دکھاتے ہیں ، سنبھالتے ہیں، سماج اٹھاتا ہے یہ ذمہ داری ۔ ہمارے ملک میں ہم نے جو سینئر سیٹنز ہیں ان کی ایسی کلب بناکرکے ہم اس چیز کو کیسے پرکولیٹ کریں۔ سماج کی حصہ داری سے ہمارے یادگار کو بچانے کا کام اچھا ہوگا، بہ نسبت یہ کہ سرکار کا کوئی ملازم کھڑا ہوجائے اور ہوگا۔ طریقہ وہی ہوتا ہے۔ کوئی کتنا ہی چوکیدار ہوگا باغ کو نہیں سنبھال سکتا۔لیکن وہاں آنے والے شہری طے کریں کہ اس باغ کا ایک پودا بھی ٹوٹنے نہیں دینا ہے۔ ہوگا اس باغ کو صدیوں تک کچھ نہیں ہوتا ہے، عوامی حصے داری کی ایک طاقت ہوتی ہے اور اس لئے ہم اگر ہماری سماجی زندگی میں ان چیزوں کو ادارہ جاتی کریں، لوگوں کو جو اس طرح کی خدمات دیتے ہیں ان کو مدعو کریں اپنے آپ میں بہت بڑا کام ہوگا۔
ہمارے یہاں کارپوریٹ دنیا ہے جس کی مدد لی جاسکتی ہے۔ان کے ملازموں کو کہہ سکتے ہیں کہ بھائی اگر آپ کو خدمت قیمت سے دس گھنٹے ، پندرہ گھنٹے کام کرنا ہے مہینے میں یہ یادگار ہے اس کو سنبھالنے میں آئیے، میدان میں آیئے، دھیرے دھیرے ان چیزوں کی قیمت بنتی ہے۔ دوسرا ایک شعبہ ہے جس پر مجھے سوچنے کی محسوس ہوتی ہے۔ مان لیجئے ہم طے کریں اور یہ ضروری نہیں ہے کہ صرف اے ایس وائی والے کریں۔ سیاحتی محکمہ جڑ سکتا ہے، ثقافتی محکمہ جڑ سکتاہے۔ حکومت کے اور محکمے بھی جڑ سکتے ہیں۔ ریاستی حکومتوں کے محکمے جڑ سکتے ہیں۔
لیکن مان لیجئے ہم طے کریں کہ ہم ملک میں 100 شہر پکڑیں۔100 شہر جو یادگار کے نقطہ نظر سے بہت قیمتی ہے۔ سیاحت کے شعبے سے بہت اچھے مقامات ہیں، اور اس شہر کے بچوں کے جو سیلبس ہوتے ہیں ان کو ان کے شہر کے سلیبس میں پڑھائی میں اس شہر کا آرکیالوجیکل مضمون پڑھایاجائے، اس شہر کی تاریخ پڑھائی جائے تو جاکر کے نسل در نسل جس شہر میں وہ ہوا ہے ۔ اگرآگرہ کے بچے کے نصاب میں تاج محل کی پوری کہانی ہوگی تو پھر کبھی ڈیلوژن ڈائیورزن نہیں آئے گا۔ وہ نسل در نسل تیار ہوتے جائیں گے اسی صلاحیت کے ساتھ۔
دوسرا ادارہ جاتی طورپر ایسے 100 شہر میں ، مان لیجئے ہم اسی کے شہر کا آن لائن سرٹیفکیٹ کورس شروع کرسکتے ہیں کیا اور اس میں جو ہوتا ہے تاکہ ان کو پتہ چلے ایک ایک باریکی۔ سال یاد ہوگا اور پھر ہم دی بیسٹ کوالٹی ٹورسٹ گائیڈ تیار کرسکتے ہیں۔
میں نے کبھی ایک بار ٹی وی چینل والوں سے بات چیت کی تھی تب تو میں وزیر اعظم نہیں تھا۔ میں ان سے ایک بار بات کی ، میں نے کہا بھائی یہ ٹیلنٹ ہنٹنگ کا کام کرتے ہیں۔ گانے والے بچے ، ناچنے والے بچے اور بہت ہی اچھا پرفارم کرتے ہیں۔ ملک کے بچوں میں ایک ایسا ٹیلنٹ ہے وہ ٹی وی کے ذریعے ہم کو پتہ چلنے لگے گا۔ میں نے کہا کہ بیسٹ گائیڈ اس کی ٹیلنٹ کمپٹیشن کرسکتے ہیں کیا؟ اور اس کو کہا جائے کہ وہ اسکرین پر جس شہر کا وہ گائیڈ کی شکل میں کام کرنا چاہتا ہے وہ لاکر کے دکھائے۔ گائیڈ کے وہ اپنے اچھے سے کسٹیوم پہن کر آئے۔ زبانوں کو سیکھیں اور کوئی کیسے ٹورسٹ گائیڈ کی شکل میں دنیا کو دکھائے، کمپٹیشن کیا جائے ، اس سے فائدہ ہوگا۔ یہ تو ہندوستان کی سیاحت کو بھی فروغ دے گا، تشہیر ہوگی ، دھیرے دھیرے گائیڈ نام کے لوگ تیار ہوں گےا ور بغیر گائیڈ کے ان چیزوں کو چلانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔
لیکن جب ذہن میں بھر جاتا ہے اس کے پیچھے یہ تاریخ ہے تو اس کے تئیں ایک لگاؤ ہوتاہے۔ آپ کو کوئی کمرے میں بند کر دے اور کوئی آدمی کمرے میں بند ہو اور کمرے کے دروازے پر ایک چھوٹا سا سراخ کیا جائے اور اندر سے کوئی ہاتھ باہر نکالے اور ایک لمبی قطار لگائی جائے اور سب کو کہا جائے کہ ان کو شیک ہینڈ کیجئے۔ کون انسان ہے پتہ نہیں ہے۔ سراخ کیا ہے ہاتھ لٹکا ہوا ہے آپ جا رہے ہیں تو ایسا ہی لگے گا جیسے یہاں پر ڈیڈ باڈی کو ہاتھ لگاکر چلے جارہے ہیں، لیکن جب آپ کو بتایا جائے کہ ارے بھئ یہ تو سچن تیندولکر کا ہاتھ ہے تو آپ چھوڑیں گے ہی نہیں۔ یعنی جب جانکاری ہوتی ہے تو اپنا پن کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔ ہمارے ان چیزوں کی یادگار کی جانکاری ہونا بہت ضروری ہے۔
میں ایک بار کچھ کے سامنے ریگستان میں ڈیولپ کرنا چاہتا تھا۔ اب ریگستان میں سیاحتی ڈیولپ کرنا ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے تو شروع میں میں نے وہاں کے بچوں کو ٹرینڈ کیا۔ گائیڈ کی شکل میں اور ان کو سکھایا کہ نمک کیسے بنتا ہے، لوگوں کو سکھانا ہے۔ ریگستان میں نمک کیا ہوتا ہے اور آپ حیران ہوں گے ۔ جی آٹھویں، نویں کلاس کے بچے، بچیاں اتنے بہترین طریقے سے کسی کو بھی سمجھا پاتے ہیں کہ علاقہ کیسا ہے، یہاں پر کس طرح سے نمک کی کھیتی ہوتی ہے، پروسیس کیا ہوتی ہے۔ سب سے پہلے کون آئے تھے۔ کسی انگریز نے آکر کے کیسے .......تو بہت اچھے ڈھنگ سے سمجھاتے تھے۔ لوگوں کو اس میں مزا آنے لگا۔ ان بچوں کو روزگار مل گیا۔ میں تو حیران ہوں جی، ٹیکنالوجی بدل گئی ہے۔ معاف کرنا آپ لوگ مجھے، میں کچھ باتیں بتاؤں گا، برا مت مانیے آپ لوگ۔ دنیا کیسے چل رہی ہے جی آج اسپیس ٹیکنالوجی سے ہزاروں میل اوپر سے دہلی کی کس گلی میں کون سا اسکوٹر پارک کیا ہوا ہے اس کا نمبر کیا ہے وہ فوٹو لے سکتے ہیں آپ۔ لیکن یادگار میں بورڈ پر لکھا ہے کہ یہاں فوٹو کھینچنا منع ہے۔ اب وقت بدل چکا ہے جی، ٹیکنالوجی بدل چکی ہے۔
میں نے ایک بار جو ہمارے یہاں سردار سروور ڈیم بن رہا تھا۔ اس ٹائم پر لوگ آنا چاہتے تھے ۔ کبھی کبھی اوور فلو ہوتا ہے لوگ دیکھنا چاہتے تھے۔ وہاں پر بڑے بڑے بورڈ لگے تھے۔ تصویر کھینچنا منع ہے وغیرہ وغیرہ تو میں الٹا کیا میں وزیر اعلیٰ تھا تو کرسکتا تھا، میں نے کہا کہ یہاں جو فوٹو اچھا کھینچے گا اس کو انعام دیا جائے گا اور شرط یہ تھی کہ وہ فوٹو اپلوڈ کرنی ہوگی اپنی ویب سائٹ پر۔ آپ حیران ہوں گے لوگوں کی حصہ داری س لوگ فوٹو کھینچنے لگے۔ لوگ فوٹو اپنا آن لائن ڈالنے لگے اور پھر میں نے کہا کہ یہاں اب ٹکٹ رہے گا۔ جو بھی ڈیم دیکھنے کے لئے آئے اس کو ٹکٹ لگے گا اور ٹکٹ میں رجسٹریشن ہوگا۔ پھر میں نے کہا جب پانچ لاکھ ہوں گے تو ڈجیٹل میں پانچ لاکھواں جس کا نمبر ہوگا اس کو اعزا زدیا جائے گا اور میرے لیے حیرانی تھی کہ جب پانچ لاکھواں نمبر تھا تو کشمیر کے بارہ مولہ کا ایک جوڑا پانچ لاکھواں ہوا تھا۔ تب پتہ چلا کہ کتنی بڑی طاقت ہوتی ہے اور اس کو ہم نے اعزاز سے بھی نوازا تھا۔ تو یہ جو پرانے، وہاں بھی میں نے دیکھا کہ ہمارے کچھ بچوں کو تیار کیا آٹھویں دسویں کے تھے ۔ میں نے کہا کہ گائیڈ کے ناطے کام کرو ، پھر یہ ڈیم بننا کب شروع ہوا، کیسے اجاز ت ملی، کتنے سیمنٹ کا استعمال ہوا، کتنا لوہا ہوا، کتنا پانی اکٹھا ہوگا، کتنے اچھے طریقے سے قبائلی بچے ہیں۔کتنے اچھے طریقے سے وہ گائیڈ کا کام کرتے تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں کم از کم 100 شہروں میں جو بھی ہم طے کریں۔ ویسے اس طرح کی نئی نسل کو ہم تیار کریں،جو گائیڈ کے پیشے کے لیے دھیر دھیرے آگے آئیں۔ جن کی انگلیوں پر تاریخ پنپتی ہوں، تاریخ ٹھہر گئی ہو جن کی انگلیوں پر ۔ ایسا اگر ہم کر پاتے ہیں تو آپ دیکھئے کہ دیکھتے دیکھتے ہی یہ بھار ت کے جو عظیم وراثت ہے دنیا کے لئے عجوبہ ہے اور ہمیں دنیا کو مزید کچھ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ جو ہمارے آباء و اجداد چھوڑ کر گئے ہیں، صر ف اس کو دکھانا ہے۔ ہندوستان کی سیاحت کو کوئی روک نہیں سکتا اور ہم ایسی اولاد تو نہیں ہیں کہ ہم اپنے آباء اجداد کے کاموں کو بھلادیں۔ یہ ہم لوگوں کا فریضہ ہے کہ ہمارے آباء و اجداد کی جو وراثت ہے اس کو ہم دنیا کے سامنے پیش کریں۔ بڑے فخر کے ساتھ پیش کریں۔ بڑی شان سے پیش کریں اور دنیا کو اس عظیم تاریخی ورثے کو چھونے کا من کرجائے ، اس کی پوجا کرنے کی خواہش ہوجائے۔ ہم اس یقین کے ساتھ چل پڑیں ۔ اس جذبے کے ساتھ ساتھ میں بہت بہت نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں