نئی دہلی ،یکم اکتوبر :گجرات کے تحت آنند میں امول کے چاکلیٹ پلانٹ اوردیگرپروجیکٹوں کے افتتاح کے موقع پرکی گئی وزیراعظم کی تقریرکا متن درج ذیل ہے:
اسٹیج پرتشریف فرماں تمام حضرات اوربڑی تعداد میں تشریف لائے ہوئے میرے پیارے بھائیواوربہنو!
کیم چھو؟میں دیکھ رہاہوں کہ اتنا بڑاپنڈال بھی چھوٹا پڑگیا۔ وہاں بہت لوگ باہردھوپ میں کھڑے ہیں ۔ آپ سب اتنی بڑی تعداد میں آشیرواد دینےکے لئے آئے ، اس کے لئے ہم سب آپ کے بہت بہت ممنون ہیں ۔ آج قریب قریب 1100کروڑروپے کے کام کاافتتاح ، قوم کے نام وقف کرنے اورسنگ بنیاد رکھنے کا آپ سب نے مجھے موقع فراہم کیاہے ۔ آپ نے میری جو عزت افزائی کی ہے ، اس کے لئےبھی امداد باہمی کی تحریک سے جڑے ہوئے میرے سبھی کسان کنبوں کا میں عزت کے ساتھ نمن کرکے شکریہ اداکرتاہوں ۔
آج دنیا کے 40سے بھی زیادہ ملکوں میں امول برانڈ، اس کی ایک پہچان بن گئی ہے ۔ اورمیں حیران تھا کچھ ملکوں میں جب مجھے جانے کا موقع نصیب ہوا تو کچھ جو وفود ملناچاہتے تھے ، کچھ ہندوستانی سماج سے وہاں رہنے والے لوگ تھے ، کچھ وہاں کے لوگ تھے اور ایک بات کہنے والے مل جاتےتھے کہ ہمارے یہاں بھی امول کے پروڈکٹ کی سپلائی کا کچھ انتظام کیجئے ۔ اور یہ بات جب سنتاتھا تو اتنا فخرہوتاتھا کہ کاشتکاروں کی امداد باہمی کی تحریک سے قریب قریب سات دہوں کے لگاتارجواں مردی کا نتیجہ ہے کہ آج ملک اورملک کے باہرامول ایک پہچان بن گیاہے ، امول ایک ترغیب بن گیاہے ، امول ایک لازمیت بن گیاہے ۔ یہ حصولیابی چھوٹی نہیں ہے ۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔ یہ ایک صرف کو ئی پیداکرنے والی صنعتی اکائی نہیں ہے ، یہ کوئی صرف ملک پروسیسنگ کے طریقہ ہی نہیں ہے ، یہ ایک معیشت کا متبادل ماڈل بھی ہے ۔
ایک طرف سماج وادی اقتصادی ڈھانچہ ، دوسری طرف پونجی وادی اقتصادی ڈھانچہ ، ایک طرف حکومت کے قبضے والی معیشت ، دوسری طرف دھنا سیٹھوں کے قبضے والی معیشت ۔ دنیا ان ہی دونوں نظاموں سے واقف رہی ہے ۔ سردارصاحب جیسی عظیم شخصیات نے اس بیج کو بویاجو آج تیسری معیشت کا نمونہ بن کر کے ابھراہے ، جہاں نہ سرکارکا قبضہ ہوگا ، نہ دولت مندوں کا قبضہ ہوگا ، وہ امداد باہمی تحریک ہوگی اورکاشتکاروں کے ، شہریوں کے ، عوام الناس سے ہی امداد باہمی سے معیشت کی تشکیل نو ہوگی ، پنپے گی ، بڑھے گی اورہرکوئی اس کا حصہ دارہوگا۔
یہ معیشت کا ایک ایسا ماڈل ہے جو سماجواداور پونجی واد کو ایک متبادل فراہم کرتاہے ۔ ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ آزادی کے قریب ایک سال پہلے اس امول کی ایک باقاعدہ طریقے سے تشکیل ہوئی تھی ، لیکن امداد باہمی تحریک اس سے بھی پہلے وجودمیں تھی ۔ بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا جب سردارولبھ بھائی پٹیل احمد آباد میونسپلٹی کے اس وقت کارپوریشن نہیں تھا ، نگرپالیکاتھی ، اس نگرپالیکا کے چیئرمین ا ن کاانتخاب ہوا، وہ نگرپالیکاکے صدربنے ۔ اور دریاپور سے انتخاب جیت کرکے آئے تھے ،جہاں کبھی ہمارے کوشک بھائی جیتتے تھے ۔ اورسردار صاحب میونسپلٹی میں صرف ایک ووٹ سے جیت کرکے آئے تھے ، ایک ووٹ سے ۔ اوربعد میں چیئرمین بنے ۔
گجرات میں پہلی بار شہری ترقی کا منصوبہ ہونا چاہیئے ، شہری ترقی کی منصوبہ بند ی ہونی چاہیئے ، اس نظریے کے جب سرداد صاحب احمدآباد میونسپلٹی کے صدر تھے ، تب پہلی بار گجرات میں تعارف ہوا۔ اوراسی وقت انھوں نے سب سے پہلا تجربہ کیا کوآپریٹوہاؤسنگ سوسائٹی کا ۔ امداد باہمی کی بنیاد پر مکانات کی تعمیر کاکام ، متوسط طبقے کو مکان ملے ۔اور اس وقت ایک پریتم رائے دیسائی ہواکرتے تھے ، جن کو سردار صاحب نے کام دیا اورگجرات میں وردیش میں پہلی ہاؤسنگ سوسائٹی بنی ۔ جس کی قیادت ، رہنمائی ، رچنا سردارصاحب کی رہنمائی میں پریتم دیسائی نے کی تھی ۔ اور 28جنوری ، 1927کو سردار صاحب نے اس کا افتتاح کیاتھا۔ اورافتتاح کرنے کے ساتھ انھوں نے ایک نیا ماڈل ہے ترقی کا ، اس بات کو لوگ یادرکھیں اس لئے پریتم رائے دیسائی کی عزت افزائی کرتے ہوئے انھوں نے اس سوسائٹی کانام پریتم نگررکھاتھا۔ آج بھی احمدآباد میں پریتم نگراس امداد باہمی کی پہلی کامیاب یعنی ایک طریقے سے کامیابی کی پہلی یادگارموجود ہے ۔ اوراسی میں سے آگے جاتے جاتے ہرشعبے میں امداد باہمی کے رجحان کو اورخاص کرکے گجرات اورمہاراشٹر، کیونکہ اس وقت وسیع ترمہاراشٹرتھا۔ اس پورے علاقے میں امدادباہمی ، یہ انتظام نہیں ، امداد باہمی ۔یہ اصولوں سے بندھی ہوئی کو ئی تخلیق نہیں ، امداد باہمی ایک سنسکارکے طورپرہمارے یہاں جن مانس میں قائم ہوئی اوراسی کا نتیجہ ہے کہ آج گجرات کی امداد باہمی تحریک سے جڑے لوگ پورے ملک کے لئے ایک ماڈل کے طورپر کام کرتے ہیں ۔
آج امول سے آگے جنوبی گجرات میں اس میں اپنا قدم رکھا۔ دودھ ساگرڈیری بناس ڈیری بنی۔ کبھی کبھی میں سوچتاہوں کہ اس اعلیٰ نظریات کے حامل ہمارے یہاں امداد باہمی کے لوگ نہ ہوتے تو گجرات جو دس سال میں سات سال قحط کے حالات میں جینے کے لئے مجبورہواکرتاہے ، اس وقت وہ مصیبت تھی ، آج وہ کم ہواہے ۔ وہ کاشتکار، وہ مویشی پالنے والے ، اس پریشانیوں سے کیسے گذاراکرتاہے ۔ یہ دودھ پیداوارمنڈلی نے کسانوں کے اس مسئلے کا حل تلاش کیااورقحط پڑجائے تو بھی مویشی پروری اور دودھ فروخت کرکے کاشتکاراپنا گذاراکرلیتاتھا، مویشی پالنے والے گذاراکررہے تھے اور زندگی چل پڑتی تھی ۔
لیکن بعد میں ایک ایسا بھی وقت آیا ، کسی نہ کسی وجہ سے گاندھی نگر میں ایسے لوگ بیٹھے کہ جنھوں نے اس امداد باہمی ڈیری صنعت کو رکاوٹیں پیداکرنے والے اصول بنائے ۔ کچھ ۔ سوراشٹرمیں ایک طریقے سے ڈیری بنانا چلانا ایک بوجھ بن گیا ، جب کہ مویشی پروری کچھ سوراشٹرمیں زیادہ تھی۔
جب ہم لوگوں کو خدمت کرنے کا موقع ملا ہم نے روپ بدل دیا۔ہم نے کہا۔ ہرجگہ پر حوصلہ افزائی کی جائے ۔ اورمیں محسوس کررہاہوں آج قریب قریب گجرات کے سبھی ضلعو ں میں مویشی پروری کے لئے ، کاشتکارکے لئے ، دودھ کی پیداوارکے لئے ایک بہت بڑاموقع فراہم ہواہے ۔
کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو بڑے قابل مانتے ہیں ، عالم مانتے ہیں اورجب ان کے دائرے کے باہر کی چیز آتی ہے ان کا من ، ان کا تکبراسے تسلیم کرنے کے لئے تیارنہیں ہوتا۔ مخالفت کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ہے اور اس لئے اس کا مضحکہ اڑانا ، مذاق اڑانا اور ایسی ہلکی ہلکی باتیں کرنا ، جس کا آپ تصوربھی نہیں کرسکتے ۔
ایسے لوگ ہوتے ہیں اورمجھے برابر یاد ہے جب کچھ میں وہائٹ ڈیزرٹ رنوتسوکا آغاز کررہے تھے ، رنوتسوکو بڑھا رہے تھے ، زلزلے بعد کچھ کی معیشت کو وایبرنٹ کرنے کے لئے متعدد منصوبے وضع کررہے تھے تو ایک باروہاں اپنی تقریرمیں میں نے کہاتھا کہ ۔ میں نے کہاتھا کہ جہاں تک میری جانکاری ہے ، جو اونٹ کا دودھ ہوتاہے اونٹی کا دودھ وہ بہت زیادہ تغذیاتی اہمیت والا ہوتاہے ۔ ہمارے بچوں کی صحت کے لئے بہت کام آسکتاہے ۔ ہم پتہ نہیں اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرمودی نے کیاگناہ کردیاکہ اونٹ کے دودھ کو لے کرکے جہاں جاتا ، میری مذاق اڑائی جاتی تھی ، کارٹون بنتے تھے ، مکھول اڑایاجاتاتھا ، پتہ نہیں ایسے ایسے بھدے فقرے بولے جاتے تھے ۔ آج مجھے خوشی ہوئی کہ امول کی کیمل کے دودھ سے بنی ہوئی چاکلیٹ ، بہت بڑی اس کی مانگ ہے ۔اورابھی مجھے رام سنگھ بھائی بتارہے تھے کہ گائے کے دودھ سے ڈبل قیمت اونٹ کے دودھ کی آج ہوگئی ہے ۔
کبھی کبھی انجانے میں لوگ کیاحال کردیتے ہیں ، اس کی یہ مثال ہے ۔ اب ریگستان کے اندراونٹ کو پرورش کرنے والے انسان کو جب اتنا بڑا مارکیٹ ملے گا تو اس کی روزی روٹی کا ایک نیا سہارا تیارہوجائیگا، اورمجھے خوشی ہے کہ آج اتنے سالوں کے بعد امول نے میرے اس خواب کو شرمندہ ٔ تعبیرکردیا۔تغذیہ کے لئے ، نیوٹریشن کے لئے ہمارے ملک میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہم محسوس کرتے آئے ہیں ۔
جب میں گجرات میں وزیراعلیٰ تھا ، تب میں تغذیہ مشن کو لے کرکے بہت کچھ چیزیں شروع کرتاتھا۔ کیونکہ میر ا یہ فیصلہ رہاہے کہ ہمارے یہاں ماں اوربچہ ، اگریہ صحت مندہوں گے توہندوستان کبھی بیمارنہیں ہوسکتاہے ، ہمارا بھارت بھی صحت مندرہ سکتاہے ۔
مجھے آج ایک اورخوشی ہوئی کہ یہاں پر شمسی توانائی اور امداد باہمی پرمبنی تحریک ، اس دونوں کا ملن کیاگیاہے۔ اگرکھیت میں فصل پیداہوتی ہے تب کھیت میں بجلی بھی پیدا ہوگی ۔ اورمیں ان کاشتکاروں کا احترام کرتاہوں ، ان 11کاشتکاروں نے مل کرکے ، کوآپریٹوبناکرکے بجلی پیداکی ، کھیتی میں امداد کی ، جو زائد تھی وہ ریاستی سرکارکی پالیسی کی وجہ سے اب خریدی جارہی ہے ۔ اورمجھے بتایاگیاہے کہ اس امداد باہمی کو سال بھر میں 50ہزارروپے کی علاوہ آمدنی ہوگی ۔ امداد باہمی کے شعبے میں یہ چروترکی سر زمین ہروقت ، سدانئے استعمال کرنے کے لئے ہمت رکھتی ہے ۔
حکومت ہند نے تین اہم منصوبوں کو آگے بڑھا یا ، ایک جن دھن ، ون دھن اور تیسرا گوبردھن ۔ جن دھن ، ون دھن ، گوبردھن ۔ فضلے میں سے دولت ،مویشی کا جوفضلے ہیں اس میں سے بھی دولت اورگوبردھن میں سے گیس بنانا ، بجلی بنانا، فرٹیلائزربنانا، اورمجھے برابریاد ہے کہ ڈاکور امریتھ کے پاس ہمارے ایک بڑے جوشیلے کام کرنے والے ساتھی تھے ، انھوں نے 12-10گاوؤں سے سارا گوبر جمع کرنے کا پروجیکٹ شروع کیا۔ اورایک بڑا گوبرگیس پلانٹ بناکر کے آس پاس کے گاوؤں میں وہ گیس پہنچانے کا منصوبہ اس وقت کرتے تھے ۔ آج بھی جیسے 11کاشتکار یکجاہوکرکے ایک سولار پمپ کے لئے بجلی پیداکرنے کا کام اور بعد میں بجلی بیچنے کا کام ، کھیتی بھی چلتی رہے اورسولار کی بھی کھیتی ہوتی رہے ، ویسا ہی ، 11-11گاوں جمع ہوکرکے بہت بڑا عمدہ گوبردھن کا بھی مشن موڈ میں کام کرسکتے ہیں ۔
آج میں چروترکی سرزمین پرآیاہوں ، سردارصاحب کی جدوجہد سے ، متعدد امدادی شعبے کی عظیم شخصیات کی جدوجہد سے یہاں جو کام ، یہاں جو روایت ہیں ، میں امید کرتاہوں کہ آنے والے دنوں میں امول مارگ درشن کرے ، اورلوگ مارگ درشن کریں اوراس گوبردھن یوجنا کو ہم حقیقی معنوں میں صاف وشفاف بھارت مہم بھی ہوگی، فضلے میں دولت ہوگی ،صاف توانائی ملے گی اور ملک کو بیرونی ممالک سے جو چیزی لانی پڑرہی ہیں ، اس پرانحصارنہیں کرنا پڑے گا ۔ ہم اس میں ملک کی خدمت کا ایک اچھا راستہ کھلے گا ۔ آنے والے دنوں میں اس کا م کوبھی یہاں کے لوگ اگرکریں گے تو ملک کے لئے ایک بڑا نمونے کے طورپر ، کام ہوسکتاہے ، ایسا میرا یقین ہے ۔
اب دوسال کے بعد امول کو 75سال ہوجائیں گے ۔ اور2022میں بھارت کی آزادی کو 75سال ہوجائیں گے ۔ میں نے دیکھاہے کہ امول ، کبھی رکنے کا نام نہ لینا ، یہ امول نہیں ہے ۔ وہ نیا سوچنا ، نیا کرنا ، حوصلہ کرنا ، یہ امول کی فطرت میں ہے ۔ یہاں کی پوری جو ٹولی ہے ، یہاں کا جو ورک کلچرہے ، اس کو سنبھالنے والے جو پیشہ ورہیں ، یہاں کے جو امدادباہمی کی تحریک کے رہنماہیں ، سب کا میں نے کیونکہ میں اس کے ساتھ سالوں سے جڑا ہواہوں ، اس کو سمجھنے کا ہمیشہ میں نے کوشش کی ہے ۔ وہ حوصلہ مندہیں ، نئی چیز کرنے کی فطر ت رکھتے ہیں ۔
میں امول میں بیٹھے ہوئے سبھی پیشہ وروں سے ، امول کی قیادت کرنے والے امدادباہمی تحریک کے تمام رہنماوں سے آج گذارش کرنے آیاہو ۔ جب امول کے 75سال ہوں گے اور جب ہندوستان کی آزادی کے 75سال ہوں گے ، دونوں برسوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے کیاامول کوئی نئے مقاصد حاصل کرسکتاہے ۔ نئے نشانے معین کرسکتاہے کیا؟اوراس 75سال کے اندر ہم ایسا 75سال بنائیں گے کہ ہم ابھی سے ، ہمارے پاس دوتین سال کا وقت ہے ۔ ملک کی آزادی کے درمیان میں ہمارے پاس وقت ہے75سال میں ۔ تو ہم کچھ ایسے مقاصد طے کرکے ہمارے جتنے بھی لوگ ہمارے ساتھ جڑے ہیں ، ان کو لے کرکے ملک اوردنیا کو کوئی نئی چیزدے سکتے ہیں کیا؟
آج پوری دنیا میں دودھ پروسیسنگ میں ہم دسویں نمبر ہیں ۔ اگرامول چاہے ، عہدکریں کی آزادی کے 75سال ہوتے ہوتے ہم دس نمبر سے بڑھ کرکے تین نمبر پرپہنچنے کاتعین کرکے چل سکتے ہیں کیا؟مجھے مشکل نہیں لگ رہاہے ۔
ہمارے ملک میں ایک وقت تھا جب ہم فقدان کے زیر اثرزندگی گذارتے تھے ۔ فقدان کے مسائل سے پریشان تھے ۔ اورتب انتظامیہ کے فیصلے کا طریقہ ، سوچنے کا طریقہ کام کرنے کے طریقے ، الگ ہواکرتے تھے ۔ ہم نے بہت تیزی سے اس میں سے باہر آناملک کے لازمی ہوگیاہے ۔ آج ہمارے سامنے خطرے کا فقدان نہیں ہے ۔ آج ملک کے سامنے چنوتی ہے بہتات کی ۔ اتنی بڑی مقدار میں کاشتکارپیداوارکرتاہے کہ کبھی کبھی بازارگرجاتاہے ، کاشتکارکابھی نقصان ہوجاتاہے کیونکہ بہتات ہے ۔
پہلے وقت تھا کہ پیداواربہت کم ہوتاتھا ، باہرسے ہم۔ گیہوں تک باہرسے لاکرکے پیٹ بھرتے تھے ۔ جیسے سفید انقلاب ہواویسے ہی زراعتی انقلاب آیا، ملک کے اناج کے ذخائربھرے ۔لیکن اب ہماری ضرورت سے بھی زیادہ کچھ چیزوں میں ہم زیادہ ہیں ۔ ایسی صورت حال کا ذریعہ ، اس کا پروسیسنگ ہوتاہے ، ویلیوایڈیشن ہوتاہے ۔ اگرہم اس ڈیری صنعت کو فروغ نہ دیتے ،دودھ کے نئے نئے طریقے ، نئے نئے پروڈکٹ نہ بناتے تو شاید یہ دودھ کی پیداواربھی کاشتکارچھوڑدیتا ، مویشی پروری چھوڑ دیتا کیونکہ اس کو ٹکنے کے امکانات ہی نہیں تھے ۔ لیکن یہ انتظام ہونے کے وجہ سے کاشتکاردودھ پیداوارمیں آج بھی اسی جوش کے ساتھ جڑاہواہے ۔
اسی طرح سے ہمارے لئے زرعی مصنوعات ، اس میں بھی ویلیوایڈیشن ہمارے لئے بہت ضروری ہے ۔ جب میں گجرات کا وزیراعلیٰ تھا ، تو یہی آنند میں ایک روز زراعتی میلہ لگاتھا تو میں اس میں آیاتھا ۔تومیرا ایک پرانا ساتھی مجھے وہاں مل گیا ۔ اب میں بھی بڑا حیران تھا ، کوٹ پینٹ ،ٹائی پہن کرکے کھڑاتھا ، میں نے کہاکیابات ہے بھائی ، تم توبہت بدل گئے ہو، کیاکررہے ہو آج کل ؟تو اس نے مجھ کیا کہا۔ آپ نے یہاں سردہوئے جنا، سدرمانو پاندڑا،اینوپاوڈربناوری بیچوسوں ، انے بہت موٹی کمائی کروں سوں !اس کو کہتے ہیں ویلیوایڈیشن ۔ یعنی پہلے سرد وہ پہلاپڑھوں تھوں ، پاندرہ پہلے پڑھا تھا نیچے پڑھتاتھا، پن اینی نیوٹریشن ولیونی خبر نوتھی ۔کوئی اے کام میں لوگیونے تو۔ ہماری ہرایگرو پروڈکٹ میں وہ طاقت ہے ۔ ٹماٹرپیدازیادہ ہوتے ہیں ،ٹماٹرکا مارکیٹ ڈاون ہوجاتاہے ، ٹماٹردودن ، تین دن میں خراب ہوجاتے ہیں ، لیکن اگرٹماٹرکا ویلیوایڈیشن ہوتاہے ، پرووسینسگ ہوتاہے ، کیچ اپ بن جاتاہے ، بڑھیا سی بوتل میں پیک ہوجاتاہے ، مہینوں تک خراب نہیں ہوتاہے اوردنیا کے بازارمیں بک جاتاہے ۔ ہمارے کاشتکارکو کبھی نقصان نہیں ہوتاہے ۔ اوراس لئے جس طرح سے دودھ کا پروسیسنگ ، اس نے ہمارے کاشتکاروں کو ایک بڑی طاقت دی ہے ۔ آنے والے دنوں میں ہم نے زرعی مصنوعات کا بھی پروسیسنگ ، ویلیوایڈیشن ، قیمت میں اضافہ ، اس کو ہمیں بل دینا ہے ۔ اوراسی لئے حکومت ہند نے وزیراعظم کرشی سمپدا یوجنا کے تحت ہندوستان میں ہمارے زرعی پیداوارکو اورزیادہ طاقت ملے ، اس سمت میں ہم کام کررہے ہیں ۔
میں نے کبھی ہمارے اس ڈیری والوں سے کہاتھا ۔ امریلی اور بناس ڈیری نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ شاید اوروں نے کیاہوگا لیکن مجھے شاید جانکاری نہ ہو۔ ان کو میں نے کہاتھا کہ جیسے ہم نے سفید انقلاب کیا ویسے ہمیں سویٹ ریولیشن بھی کرنا چاہیئے ۔ اورجو ہمارے کاشتکاربھائی اس دودھ منڈلی سے جڑے ہیں ، ان کو شہد کی مکھی پروری کی بھی تربیت دینی چاہیئے ۔اوروہ جو شہد کی پیداوار کریں ، جب ہم دودھ لینے جائیں ، اس کے ساتھ شہد بھی لے کرکے آئیں ۔ اورجیسے اس پلانٹ میں اس کا پیکیجنگ کرتے ہیں ، ویسا ہی ایک پیکیجنگ کریں ۔ امریلی ضلع اور بناس ، دونوں ڈیری آج شہد پیداوارکی سمت میں بہت بڑا تعاون کررہے ہیں ۔ ہندوستان میں پہلے جتنا شہد پیداہوتاتھا، اس سے آج کئی گنا شہد پیداہونا شروع ہوا ہے اوروہ بیرونی ممالک میں جانے لگاہے ۔ اگروہ بکے گانہیں ، گھرمیں کھایاجائیگا توبھی بچو ں کی تغذیہ کے کام میں آئیگا۔ اس سمت میں الگ سے محنت نہیں ہے ۔ جیسے وہ ہی کھیت چھوٹا ساکیوں نہ ہو، اگراس پرسولرپینل لگائیں ، زیادہ قیمت مل جائیگی ۔ اسی کے اندر شہدکی مکھی پروری کی کچھ چیزیں لگادیں ، اورزیادہ کمائی ہوجائیگی ۔ اس کے لئے ہم 2022، آزادی کے 75سال تک ہندوستا ن کے کاشتکاروں کی آمدنی میں دوگنی کرنے کے لئے ایسے متعدد نئے نئے تصوراتی خاکوں کو مربوط کررہے ہیں ۔
میں امید کرتاہوں کہ ہم اس کے ساتھ جڑیں ۔ اورایک خیال میں نےپہلے ظاہرکیاتھا ، میں اس کو کرنہیں پایا، جب میں یہاں تھا، لیکن ہم کرسکتے ہیں ۔ جیسے یہاں ٹیک ہوم راشن ، اس کے موضوع پراچھا کام ہواہے ۔ یہاں پربچوں کی تغذیہ کے لئے بال امول کی رچنا کے بارے میں بہت اچھاکام ہواہے ۔ ہم دوپہرکے کھانے کی سمت میں بھی بڑا کام کرسکتے ہیں ۔ جن گاوؤں میں ہم دودھ لینے جاتےہیں ،سینٹرلی اگرہم بڑا ککنگ پلانٹ لگائیں ، اورجب ہماری گاڑی دودھ لینے جاتی ہےصبح توساتھ میں وہاں جو اسکول ہوگی ، ان بچوں کے لئے بہت بڑھیا ٹیفن کے اندردوپہرکاکھانالے کرکے جائیں ۔ اسکول کے بچوں کے لئے وہاں ٹیفن چھوڑدیاجائے ۔ ٹیفن بھی ایسا بڑھیا ہو کہ گرم گرم کھانا ملے اور جب دوسرے دن جب دودھ واپس آتاہے تو ساتھ میں خالی ٹیفن بھی چلاآئے ۔کوئی زیادہ نقل وحمل کا خرچ کئے بنا ہم آرام سے ، ہماری جہاں جہاں دودھ منڈلی ہے وہاں کے اسکولوں میں سرکارپیسے دیتی ہے ، ہم صرف منیجمنٹ کریں ۔
میں یقین دلاتاہوں کہ جس طرح سے اسکان کے ذریعہ دوپہرکے کھانے کے منصوبے کو تقویت ملی ہے ، ہماری سبھی ڈیری بہت عمدہ طریقے سے ہمارے ان بچوں کو اسی نظام کے تحت کھانا پہنچاسکتی ہے ۔ ایک ہی نظام کا ملٹی پل یوٹلٹی ، اس کو دھیان میں رکھ کرکے اگرہم منصوبے بنائیں گے ، میں یقین سے کہتاہوں کہ ہم صرف کچھ محدود شعبوں میں ہی نہیں ، زندگی کے ہرشعبے میں اثرپیداکرنے کا کام کرسکتے ہیں ۔
مجھے یاد ہے کہ دھرمچ کے ہمارے لو گ، پورے ملک میں میں نے دیکھا ہے کہ جو گوچر کی زمین ہوتی ہے ، اس پرہمیشہ جھگڑا ہوتاہے ۔ کسی نے ان کروچ منٹ کردیا ، ڈھکناکردیا ، فلانا کردیا۔ لیکن ہمارے دھرمچ کے بھائیوں نے سالوں پہلے کوآپریٹوسوسائٹی بنائی اورگوچر کی ترقی کوآپریٹوپرکیا اورروزانہ ، گرین گراس ہوم ڈیلیوری دیتے تھے اس وقت ۔ آج تو مجھے معلوم نہیں ۔ میں پہلے کبھی آیاکرتاتھا ۔ ہو م ڈیلیووری دیتے تھے گرین گراس ، اگردو مویشی ہیں ، توآپ کو اتناکلوچاہیے ، پہنچادیتے تھے ۔ اوراس میں سے جوکمائی ہوتی تھی اس سے وہ گوچر کی سرزمین کے ڈیولپمنٹ کا جدید کام انھوں نے کھڑا کیا۔
میراکہنا کا مقصد یہ ہے کہ یہاں کی سوچ میں امدادباہمی کے روایات پڑی ہیں ۔ ہم اس امداد باہمی کی وسیع شکل کیسے بنائیں ، ہم کیسے اورچیزوں کے ساتھ جڑیں اور اس کو آگے بڑھانے کی سمت میں ہم کیسے کام کریں ۔
میں پھرایک بار آج امول کنبے کو اس چروترکی سرزمین کے میرے پرگتی شیل کاشتکارکے بیٹوں کو ، اس سرزمین کے جواں مرد سردارولبھ بھائی پٹیل کو یادکرتے ہوئے اورانھوں نے جو عمدہ روایت قائم کی ہے اس روایت سے وابستہ امداد باہمی کے شعبے کو وقف تمام افراد کو بصد احترام یاد کرتے ہوئے میں آج اس بہت بڑی اسکیم کو، مختلف النوع اسکیموں کو، گجرات کی سرزمین کو ، ملک کی سرزمین کو وقف کرتے ہوئے ازحد فخرکے احساس کے ساتھ ،آپ سب کو بہت بہت نیک تمنائیں پیش کرتاہوں ۔ اورحکومت ہند کی جانب سے یقین دلاتاہوں کہ ، ان تمام کاموں میں اسے آگے بڑھانے میں دہلی کی حکومت کبھی پیچھے نہیں رہےگی ۔ حکومت ہند کندھے سے کندھا ملاکرکے اس کی ترقی کے لئے آپ کی شراکت داربنے گی ۔ اسی گذارش کے ساتھ آپ سب کا بہت بہت شکریہ ۔ میرے ساتھ پوری طاقت سے بولیں گے :
بھارت ماتا کی ۔جئے
کیوں بھائی ، کیاہوگیا، یہ میراچروترہے ،آواز ایسی نہیں ہوتی ۔
بھارت ماتاکی ۔جئے ۔
یہ بات ہوئی ، شاباش ۔
شکریہ