نئیدہلی۔24؍ستمبر۔
اڈیشہ کے گورنر عالی جناب پروفیسر گنیشی لال جی ، ریاست کے وزیراعلیٰ جناب نوین بابو ، مرکز میں وزیروں کی کونسل کے میرے ساتھ جوئیل اورام جی، دھرمیندر پردھان جی، یہاں موجود سبھی تجربہ کار حضرات۔
آج میں تالچیر سے آرہا ہوں۔ لمبے عرصے سے بند پڑا کیمیاوی کھادوں کا کارخانہ ، اس کا احیاء کرنے کا آغا ز آج وہاں کیا گیا۔ قریب 13 ہزار کروڑ روپئے کی لاگت سے۔ ایک طرح سے اس علاقے کی اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز بنے گا۔
اسی طرح سے آج مجھے یہاں پر جدید اڈیشہ ، جدید بھارت، اس میں جدید بنیادی ڈھانچہ ہوتا ہے، اور اسی کی طرح آج یہاں ویر سریندر سائیں ہوائی اڈے کی شروعات کرنے کا موقع ملا ہے۔ ویر سریندر سائیں ایئرپورٹ پر آنے والے مسافر ویر سریندر سائیں کا نام سنتے ہی اڈیشہ کی بہادری، اڈیشہ کی قربانی ، اڈیشہ کو خود کو پیش کرنے کی داستان، اس کی طرف بھی قدرتی طور پر راغب ہو ں گے۔
آج یہاں مجھے ایک ساتھ بہت سے پروجیکٹوں اور اسکیموں کا بھی مبارک آغاز کرنے کا موقع ملا ہے۔ یہ ہوائی اڈہ ایک طرح سے اڈیشہ کا دوسرا بڑا ہوائی اڈہ بن رہا ہے۔ اب اتنے سال کیوں نہیں بنا، اس کا جواب آپ لوگوں کو کھوجنا ہے، ہوسکتا ہے میرا انتظار ہورہا تھا۔
میں گجرات سے آتا ہوں، ہمارے یہاں ایک ضلع ہے ’کچھ‘ ۔ ایک طرح سے ریگستان ہے، اُدھر پاکستان ہے، اس ایک ضلع میں پانچ ہوائی اڈے ہیں، ایک ضلع میں۔ آج اتنے برسوں کے بعد اڈیشہ میں دوسرا ہوائی اڈہ بن رہا ہے ۔ جبکہ ابھی سریش جی بتا رہے تھے کہ ملک میں جس طرح سے ہوائی اڑان کے شعبے میں ترقی ہورہی ہے ، آپ کو جان کر حیرانی ہوگی، ہمارے ملک میں، ملک آزاد ہوا، تب سے اب تک جو کُل ہوائی جہاز اُڑ رہے ہیں ان کی تعداد قریب ساڑھے چار سو ہے، آزادی سے اب تک۔ اور اس ایک برس میں نئے ساڑھے نو سو ہوائی جہاز کا آرڈر بک ہوا ہے۔ کوئی تصور کرسکتا ہے کہ ہم کہاں سے کہاں پہنچ رہے ہیں، کس تیزی سے پہنچ رہے ہیں۔
اور میں سمجھتا ہوں کہ ویر سریندر ہوائی اڈہ ایک طرح سے ایک ایسے سہ رخی سنگم پر واقع ہے جو بھوبنیشور ، رانچی ، رائے پور، تینوں کے ساتھ ایک دم مرکزی نکتہ پر بن رہا ہے۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ترقی کے کتنے امکانات کے پَر اس کے سبب لگنے والے ہیں۔ ایک نئی اڑان اس کے سبب بھرنے والے ہیں۔
جھارسوگوڈا ، سمبل پور اور چھتیس گڑھ کے آس پاس کے علاقوں کو ، اس کی صنعتی دنیا کے لوگوں کو جو سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، ان کے لئے سہولت بہت ضروری ہوتی ہے۔ کبھی جاکر کے وہ آسانی سے آنا جانا ایک بار ہوتا ہے تو پھر وہ اپنا بزنس کی نظریے سے بھی رِسک لیتے ہیں، اس کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ہم لوگوں کی سوچ رہی ہے کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا مطلب علاقائی توازن بھی ہونا چاہئے۔ مغربی ہندوستان کی ترقی ہوتی رہے اور مشرقی ہندوستان کی ترقی نہ ہو تو یہ عدم توازن ملک کیلئے بحران پیدا کرتا ہے۔ اور اس لئے ہماری لگاتار کوشش ہے کہ مشرقی ہندوستان کی ترقی ہو۔ اڈیشہ کی ترقی اس کا ایک اہم حصہ ہے۔ چاہے مشرقی اترپردیش ہو، اڈیشہ ہو، مغربی بنگال ہو، آسام ہو، شمال مشرق ہو، اس سارے علاقے کی ترقی ، یہ اپنے آپ میں بہت بڑی اہمیت ہے۔
جیسے آج میں یہاں ایک ہوائی اڈے کا افتتاح کررہا ہوں ۔ دو دن کے بعد پرسوں میں سکم میں ہوائی اڈے کا افتتاح کرنے جارہا ہوں۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ کتنی تیزی سے کام ہورہا ہے ، کتنا ۔ آج مجھے ایک کوئلے کی کان کو بھی قوم کے نام وقف کرنے کا موقع ملا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ آج زندگی کی سرگرمیوں کے مرکز میں توانائی ہے اور اڈیشہ خوش قسمت ہے۔ اس کے پاس کالے ہیرے کی کان ہے لیکن وہ اگر پڑا رہتا ہے تو بوجھ ہے نکلتا ہے تو رونق ہے۔ اور اس لئے اسے نکالنے کاکام، اس میں سے توانائی پیدا کرنے کاکام ، اس میں سے ترقی کے امکانات کو تلاشنے کاکام ، اس کی بھی آج یہاں شروعات ہورہی ہے اور حرارتی بجلی ، اس کی جو کوئلے کی دستیابی ہورہی ہے ، اس کی بھی اس کے ساتھ۔
آج ایک ریلوے کی بھی، ہوائی رابطے کی بھی اہمیت ہے، ریل رابطے کی بھی اہمیت ہے اور بدلے ہوئے دور میں رابطہ یہ سب سے بڑا لازمی حصہ ہوگیا ہے ترقی کا۔ چاہے شاہراہ ہو ، چاہے ریلوے ہو، چاہے ہوائی راستے ہوں یا چاہے آبی راستے ہوں، انٹرنیٹ رابطوں میں شاہراہ بھی اتنی ہی ضروری ہوگئی ہے۔
آج پہلی مرتبہ قبائلی خطے کے ساتھ ریل کا جڑنا ، یہ اپنے آپ میں ایک بڑا قدم ہے۔ میں مانتا ہوں کہ آنے والے دنوں میں یہ رابطہ اڈیشہ کی چاروں سمتوں میں ترقی کیلئے ہوگا۔ میں پھر ایک بار یہاں کے سبھی شہریوں کو ویر سریندر سائیں ہوائی اڈے کو قوم کے نام وقف کرتے ہوئے انتہائی فخر محسوس کرتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ۔