نئیدہلی11 مارچ ۔وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے، سی آئی ایس ایف کے پچاسویں یوم تاسیس کی تقریب میں ،جو تقریر کی تھی ،اس کا متن حسب ذیل ہے :
ملک کے اثاثے اور وقار کی حفاظت
او رسلامتی کرنے والے سی آئی ایس ایف کےسبھی ساتھی
یہاں موجود سبھی بہادر کنبوں اورخواتین وحضرات:
گولڈن جوبلی کے اس اہم پڑاؤ پر پہنچنے کے لئے آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد !
ایک تنظیم ہونے کی حیثیت سے آپ نے جو 50 برس مکمل کئے ہیں ، وہ انتہائی کامیاب اور لائق ستائش ہیں۔ اس کا م کو یہاں تک پہنچانے کے لئے آْج سی آئی ایس ایف کے نظام میںشامل ہیں، ان کی خدمات تو ہیں ہی ،ساتھ ہی 50 برس کی مدت میں جن جن محترم شخصیات نے اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہیں ، اس تنظیم کی قیادت کی ہے ، اس ادارے کو مسلسل نئی بلندیوں پر لے جانے کا کام کیا ہے ،اس سے جڑے انسانی وسائل کے فروغ کی بھرپور کوشش کی ہے ۔اس کے نتیجے میں آج ہم جب یہ 50سالہ تقریب منارہے ہیں ،تو وہ تمام حضرات بھی مبارکباد کے مستحق ہیں ، جنہوں نے گزشتہ 50 برس کے دوران اس ادارے کو آگے بڑھانے کی خدمات انجام دی ہیں ۔ان میں سے کچھ حضرات تو یہاں موجود بھی ہیں ، میں ان کی ستائش کرتا ہوں اور مبارکباد دیتا ہوں ۔ ملک کے اس عظیم ترین ادارے کو اس قدر بلندیوں پر لے جانے لئے وہ واقعی مبارکباد کے مستحق ہیں۔
بھائیو اور بہنو!
آپ کی یہ کامیابی اس لئے اور اہم ہوجاتی ہے کہ جب پڑوس کا ملک دشمن ہو،لڑائی لڑنے کی اس کی اہلیت نہ ہو اور لڑائی لڑنے کی طرح طرح کی سازشوں کو وہاں سے پناہ ملتی ہو ،طاقت ملتی ہو ،دہشت گردی کا یہ گھناؤنا چہرہ الگ الگ طریقوں سے ظاہر ہوتا ہے ، اس وقت ایسے مشکل بھرے چیلنج کے دوران ملک کی حفاظت ،ملک کے وسائل کی حفاظت اور سلامتی ، یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے ۔ابھی کچھ دیر پہلے جب یہا ں پریڈ ہورہی تھی تو میں وہ توانائی اور اس عزم کا احساس کررہا تھا، جو آج تمام آسائشوں سے آراستہ اس عظیم ملک ہندوستان کی تعمیر کے لئے ضروری ہے ۔ پریڈ کے اس شاندار مظاہرے کے لئے میں پریڈ کمانڈر ،پریڈ میں شامل سبھی جوانوں اورافسران کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔آج یہاں متعددساتھیوں کو ان کی مثالی خدمات کے اعتراف میں میڈل سے بھی نوازا گیا ہے ،اس کے لئے آپ کو مبارکباد! علاوہ ازیں یوم جمہوریت کے موقع پر اعلان کئے جانے والے پولیس میڈل اور لائف سیور میڈل حاصل کرنے والوں کو بھی مبارکباد دیتا ہوں ۔
سی آئی ایس ایف میں شامل آپ سبھی لوگوں نے ملک اوراس کے اثاثوں کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔نئے ہندوستان کے نئے اور جدید نظاموں کو محفوظ کرنے کے لئے اور ملک کی امیدوںاور عزائم کو طاقتور بنانے کے لئے آپ مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں ۔ ہمیں معلوم ہے کہ سلامتی اور تحفظ کے متعدد نظام ہیں ۔ا ن کی تشکیل ، ان کا میکانزم اور اسٹرکچر ، انگریزوں کے زمانے سے ہمیں رواثت میں ملے ہیں تاہم وقتاََ فوقتا ََ ان میں تبدیلیاں بھی ہوئی ہیں لیکن بہت کم ادارے ایسے ہیں جو ضرورت کے مطابق آزادی کے بعد وجود میں آئے تھے ۔ایک طرح سے وہ آزادہندوستان کی پیدائش ہیں ، آزاد ہندوستان کی سوچ کی پیدائش ہیں ، آزاد ہندوستان کے خوابوں کو پورا کرنے کے عمل کی پیدائش ہیں، ان میں سی آئی ایس ایف ایک بہت ہی اہم ادارہ ہے ۔ اس لئے اس کا قیام ،اس کی پروری ،اس کی ترقی اور اس کی توسیع ۔ یہ ساری باتیں رفتہ رفتہ ایک طرح سے پروگریسیو انفولڈ منٹ کی شکل میں جن جن لوگوں نے اس کی قیادت کی ہے،اسے آگے بڑھایا ہے ۔ یہ گولڈن جوبلی سال میں سب سے بڑے افتخار کی بات ہے ۔
ایسا ادارہ حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ ، کیبنیٹ میں بیٹھ کر ایک فائل کو منظور کردیں ،ایسا نہیں ہوتا ،50 سال تک ہزاروں لوگوں نے اس کی ضرورتوں کو ذہن میں رکھ کر اسے فروغ دیا ہے تب جاکر ہی ایسا ادارہ بنتا ہے جو ملک کے لئے اعتماد اور بھروسے کی بہت بڑی طاقت بن جاتا ہے ،اس لئے آپ کو جتنی بھی مبارکباد دو ں کم ہے ۔ راجیش رنجن جی کہہ رہے تھے کہ ہمارے لئے یہ بات انتہائی خوشگوار اور حیرت ناک ہے کہ وزیر اعظم ہمارے پروگرام میں آئے ، لیکن میرا دل کہتا ہے کہ اگر میں اس پروگرام میں نہ آتا تو بہت کچھ سے محروم رہ جاتا ۔
50سال کی ریاضت کم نہیں ہوتی ، بہت بڑی تپسیا ہوتی ہے اور ایک آدھ واقعہ یعنی 365 دن آنکھیں کھلی رکھ کر دماغ کو ہوشیاررکھتے ہوئے پیروںاورجسم کو بھی مسلسل آٹھ آٹھ نو نو گھنٹے تک تیار رکھ کر سیکڑوں حادثات اور خطرناک سانحات سے ملک کو بچایا ہو اور اگر کوئی ایک آٓدھ واقعہ ایسا ہوجائے جو اس سارے کئے دھرے پر پانی پھیردے ۔ ایسے سخت دباؤ کے حالات میں آپ کو کام کرنا پڑتا ہے ۔ یہ آسان کام نہیں ہے ۔ میں اس بات سے بخوبی واقف ہوں کیونکہ وزیر اعظم کی حیثیت سے ہمیں بھی حفاظتی خدمات فراہم کرائی جاتی ہیں۔ لیکن کسی بھی شخص کو حفاظتی خدمات فراہم کرانا بہت مشکل کام نہیں ہوتا ۔ایک شخص کی حفاظت کرنا اور اس کی حفاطت کا انتظام کرنا ،مشکل کام نہیں ہے لیکن ایک ادارے کی حفاظت کرنا ، جہاں 30 لاکھ لوگ آتے جاتے ہوں ، جہاں 8 لاکھ لوگ آتے جاتے ہوں ، جہاں ہر چہرہ نیا ہو ،ہر ایک کا طریقہ الگ ہو ، ان کےسامنے اس ادارے کی حفاظت کرنا شاید کتنے ہی بڑی اہم شخصیات کی حفاظت سے لاکھو ں گنا مشکل کام ہے ،جو آپ لوگ کررہے ہیں۔آپ اس ادارے کی دیواروںکو سنبھالتے ہیں ، ایسا نہیں کہ آپ اس کے دروازے پر کھڑے رہتے ہیں بلکہ آپ لوگ ہندوستان کے سفر ترقی کی حفاظت کررہے ہیں ۔ آپ ہندوستان کے سفر ترقی کو ایک نیا بھروسہ دے رہے ہیں ۔ میرا تجربہ ہے کہ آپ لوگوں کی سروس میں اگر کوئی سب سے بڑی دشوار گزار مصیبت ہے تو میرے جیسے لوگ ہیں ، میری برادری کے لوگ ہیں ، جو اپنے آپ کو بڑا شہنشا ہ مانتے ہیں ۔ بڑا وی آئی پی مانتے ہیں ، ہوائی اڈے پر اگر آپ کا جوان ان کو روک کر پوچھ لیتا ہے تو ان کا پارہ چڑھ جاتا ہے ، غصہ کرنے لگتے ہیں۔آپ ہاتھ پیر جوڑ کر سمجھاتے ہیں کہ صاحب میں یہ میرا فرض ہے ۔ میری ڈیوٹی ہے ۔لیکن اس کا تو پتہ نہیں ۔ یہ وی آئی پی کلچر ہوتا ہے ۔
میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں ۔ میں پارٹی کا کام کرتا تھا تو پورے ملک میں آنا جانا رہتا تھا ۔ ایک بار ہمارے سنیئر لیڈر بھی ہمارے ساتھ تھے ۔ ہمارے ملک میں کچھ ہوائی اڈے ایسے بھی ہیں جہاں سکیورٹی کی وجہ سے ڈبل چیک ہوتا ہے ۔ جیسے سری نگر ہے ۔ پہلے گواہاٹی ہوا کرتا تھا۔ آجکل ہے کہ نہیں ہے لیکن پہلے ہوا کرتا تھا یعنی ایسا ہوائی اڈہ جہاں سکیورٹی کی وجہ سے ڈبل چیک ہوا کرتے تھے۔میرے ساتھ جو میرے سینئیر نیتا تھے ، ان کا چہرہ بھی جانا پہچانا تھا لیکن جو جوان ائیر پورٹ پر کھڑا تھا وہ ان کو پہچان نہیں پایا ۔وہ ان کوروک کر اپنی ڈرل کے مطابق چیک کرتا رہا جیسے جیسے وہ چیک کرتا رہا ان کا پارہ گرم ہوتا رہا ۔اپنی سیٹ پربیٹھنے کے بعد بھی ان کا پارہ کم نہیں ہوپایا ۔ مجھ سے بھی بات نہیں کررہے تھے ۔ میں نے دیکھا کہ ان کی سائیکلوجی کیا ہے ۔ ہمیں جب اگلی جگہ جاناتھا تو میں نے کہا کہ آپ آگے نہ چلیں میرے پچھلے چلئے میں پہلے چیکنگ کرواتا ہوں ۔ میں گیا جہاں آپ کا جوان کھڑا تھا ۔ میں نے اس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ اوپر کرکے کہا کہ چلو بھائی آرتی اتارو ۔ اس نے کہا کہ میں تو آپ کو جانتا ہوں ۔ میں نے کہا کہ پہچانتے ہو تو کیا ہوا ۔ آرتی نہیں اتاروگے تو میں نہیں جاؤں گا۔ آپ لوگ جو یہ میٹل ڈٹیکٹر گھماتے ہو تو آپ آپنے دل میں کیا رکھتے ہو، جب چیکنگ ہورہی ہوتی ہے ۔ تو آپ یہ سوچیں کہ آرتی اتاررہے ہیں۔ فخر کیجئے ان حفاظت کرنے والے جوانوں کے ساتھ تعاون کیجئے ۔ یہ وی آئی پی کلچر سلامتی کے لئے کبھی سب سے بڑا بحران پیدا کردیتا ہے اور اسی لئے آج میں اس جگہ پر یہ کہنے کی ہمت کرتا ہوں کیونکہ میں خود ڈسپلن کو فالو کرنے والا انسان رہا ہوں ۔ لیکن میرا ڈسپلن کبھی میرے درمیان نہیں آتا ۔ یہ ہم سب شہریوں کا فرض ہوتا ہے ۔آج آپ ڈیڑھ لاکھ لوگ ہیں لیکن اگر 15 لاکھ بھی ہوجائیں لیکن جب شہر ی ڈسپلن میں نہیں رہتے ، آپ سے تعاون نہیں کرتے تو آپ کا کام اور مشکل ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اس گولڈن جوبلی ائیر میں ہم شہریوں کو کیسے تربیت دیں ، شہریوں کو اتنے بڑے نظام کے بارے میں کیسے سمجھائیں یہ بہت ضروری ہے اس لئے جب میں پڑیڈ کا معائنہ کررہا تھا ت میرے دل میں بھی کچھ خیالات آرہےتھے کہ آج آپ کے ساتھ کیا بات کروں گا تو مجھے خیال آیا کہ ائیر پورٹ پر ، میٹرو اسٹیشن پر ہم ایک ڈجیٹل میوزیم بنائیں جو اسکرین پر مسلسل چلتا رہے ،جس میں بتایا جائے کہ سی آئی ایس ایف کی پیدائش کیسے ہوئی ، اس کا فروغ اور توسیع کیسے ہوئی ، وہ کس طرح خدمت کررہا ہے ۔شہریوں سے اسے کیا امید ہے ۔ میٹرو میں جانے والے 30 لاکھ لوگ کبھی نہ کبھی تو دیکھیں گے ۔ ان کی سمجھ میں آئے گا کہ یہ 24 گھنٹے کام کرنے والے لوگ ہیں ۔ذرا ان کی عزت کیجئے ، ان کا احترام کیجئے ، یہ 24 گھنٹے کام کرنے والے لوگ ہیں ، ان کو تربیت دینا بہت ضروری ہے ۔شہریوں کو جس قدر تربیت دی جائے گی،سلامتی دستوں کی طاقت اتنی ہی بڑھے گی۔اس کام میں، میں آپ کو پورا تعاون دیتا رہوں گا۔
سی آئی ایس ایف میں دیگر حفاظتی دستوں کے مقابلے میں بیٹیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔ یہ بیٹیا ں ملک کی طاقت کو ایک نئی شکل دے رہی ہیں ۔اسی لئے میں اس شعبے میں آنے کے لئے ان کو مبارکباددیتا ہوں ۔ ان کے ماں باپ کو مبارکباد دیتا ہوں ۔اس ماں کو مبارکباد دیتا ہوں جس نے بیٹی کو یونیفارم پہناکر ملک کے سفر ترقی کو محفوظ کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔ یہ بیٹیاں لاکھ لاکھ مبارکباد کی مستحق ہیں ۔ ساتھیو، حفاظت اور خدمت کے جس جذبے سے آپ آگے بڑھ رہے ہیں وہ بہت اہم ہے ۔
اس نئے ہندوستان کے لئے جو نیا انفراسٹرکچر تیار کیا جارہا ہے
پورٹ بن رہے ہیں
ائیر پورٹ بن رہے ہیں
میٹرو کی توسیع ہورہی ہے
بڑی بڑی صنعتیں قائم کی جارہی ہیں
ان کی حفاظت کی ذمہ داری آپ سبھی پر ہے
ڈیڑھ لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل یہ مضبوط طاقت
آج اہالیان وطن کو
ہندوستان کو
اور دنیا بھر کے شہریوں کو
محفوظ فضا دستیاب کرانے میں میں مصروف ہیں ۔
ساتھیو !
ائیر پورٹ اور میٹرو میں مکمل تحفظ کااحساس ہر شہری ہو ہوتا ہے۔
یہ سب کچھ آپ کی نیک نیتی اور لگن سے ہی ممکن ہے ۔ آپ کی مستعدی سے ، آپ عوام کے اعتبار سے ، ابھی تو ائیر پورٹ ہو یا پھر میٹرو سیوا ۔ اس کی زبردست توسیع ہورہی ہے ۔دونو ں میدانوں میں ہم دنیا میں اس طرح کی خدمت دینے والا سب سے بڑا ملک بننے کی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں ۔
ساتھیو !
مجھے بھی متعدد بار میٹرومیں سفر کرنے کا موقع ملا ہے
میں دیکھتا ہوں کہ آپ سب کتنی محنت کرتے ہیں
کس طرح آپ کو پہروں مسلسل ہر شخص پر ہر سامان پر نظر جمائے رکھنی پڑتی ہے۔
عام شخص جو اس طرح میٹرو یا ہوائی جہاز میں سفر کرتا ہے ، اس ک آپ کی محنت دکھائی دیتی ہے ۔
لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ اکثر کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ آپ کا کام بس اتنا ہے ۔ کوئی آیا اور اس کو چھوڑ دیا ، آپ کا کام بس اتنا ہے ۔ملک کو یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ سی آئی ایس ایف کا ہر محافظ جوان
صرف چیکنگ کے کام سے نہیں جڑا ہے بلکہ حفاظت کے ہر پہلو بلکہ تمام انسانی احساسات کا شراکتدار ہے ۔
ساتھیو!
قدرتی آفات کی صورت میں بھی آپ کی خدمات لائق ستائش رہی ہیں۔
پچھلے برس کیرل میں آنے والے بھیانک سیلاب میں آپ میں سے متعددساتھیو نے راحت کا قابل ذکر کام کیا ۔ بچاؤ کے کام میں دن رات ایک کرکے ہزاروں لوگوں کی زندگی بچانے میں مدد کی ۔
ملک میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی جب انسانیت پر مصیبت آئی ہے تب سی آئی ایس ایف نے اپنی ذمہ داری بخوبی نبھائی ہے ۔
نیپال اور ہیتی میں زلزلے کے بعد آپ کی خدمات کی ستائش بین الاقوامی سطح پر ہوئی ہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ سفر کے دوران کنبے سے بچھڑے لوگوں کو ،بچوںکو ، ان کے کنبے سے ملانے یا پھر ان کو صحیح جگہ تک پہنچانے کا کام آپ سبھی نیک نیتی کے ساتھ کررہے ہیں۔
اسی طرح بیٹیوں کو محفوظ فضا فراہم کرانے کے لئے بھی آپ کی کوششیں انتہائی لائق ستائش ہیں۔ انہی سب باتوں سے آپ کو ملک وقوم کا اتنا بڑا اعتماد حاصل ہوا ہے ۔
ساتھیو!
آج کے اس موقع پر جب ہم اس اہم پڑاؤ پر پہنچے ہیں تو
ہمیں اپنے ان ساتھیوں کو بھی یاد کرنا چاہئے جو اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے
ملک کی حفاظت کے لئے
عظیم ترین قربانیاں دی ہیں۔ ملک کی حفاظت کے لئے شہید ہوگئے ہیں۔دہشت گرد ی اورتشدد کو بڑھاوادینے والی طاقتوں سے اپنے ملک کو ، اپنی بیش قیمت وراثت کو ، اپنی املاک کو بچانے کے لئے عظیم ترین قربانیاں دی ہیں۔
سی آئی ایس ایف ہو
سی آر پی ایف سمیت دوسرے مسلح دستے ہوں ،آپ کی نیک نیتی اور لگن
اور آپ کی قربانی سے ہی آج ہم نئے بھارت کا سپنا دیکھ پارہے ہیں
اب تک پولیس فورس کے 4000 سے زائد شہیدوں سمیت
پولیس کے 35000سے زائد ساتھیوں نے اپنی عظیم قربانیاں دی ہیں
میں ان سبھی شہیدوںکو گلہائے عقیدت پیش کرتا ہوں۔
لیکن میں حفاظتی دستوں سے وابستہ ان لوگوں سے کہنا چاہوں گا کہ میں دل سے اور جذباتی طور سے محسوس کرتا ہوں کہ خاکی وردی میں ملبوس جو یہ لوگ ہیں ، ان کی محنت کو ملک میں جتنی عزت واحترام ملنا چاہئے وہ ان کو نہیں ملا ہے ۔عام لوگوں نے ان کی خدمات کا اتنا اعتراف نہیں کیا ہے جس کے وہ مستحق رہے ہیں ۔اسلئے آزادی کے بعد پہلی بار لال قلعہ پر ایسا وزیر اعظم آیا جس نے 35000 سے زائد شہید پولیس جوانوںکی شہادت کی وکالت کی ۔ میں نے یہ اس لئے کیا کہ عام لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا ، ان کے دل میں تو ، کانسٹیبل نے ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا ،اسی کی بنیاد پر پورے نظام کی قدروقیمت کا تعین کیا جاتاہے ۔ ہم جتنا افتخابر بڑھائیں گے ، اپنےحفاظتی دستوں کا جتنا وقار بڑھائیں گے ، جتنا ان کا اقبال بلند کریں گے ، یہ ملک کے لئے بہت ضروری ہے اور اسی کا ایک ہے حصہ یہ پولیس میموریل ۔میں چاہتا ہوں کہ اسکول کے ہربچے کو کبھی نہ کبھی وہاں جانا چاہئے تاکہ وہ یہ تو دیکھ سکے کہ ہمارے لئے مرنے والے لوگ کون ہیں ۔ ہمیں اسی سلسلے میں مسلسل کوششیں کرنی ہیں ، ان کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے ۔ مجھے خوشی ہوئی کہ جب میں یہاں کھلی جیپ سے جارہا تھا ، مجھے تین نسلوں کے درشن کرنے کا موقع ملا ۔ یہاں آپ کے کنبوں کی تین تین نسلیں موجود ہیں ۔ بزرگ بھی ہیں اور محنت کش بزرگ بھی موجودہیں۔ آج اس موقع پر یہاں موجود ہیں کچھ پرانے ریٹائرڈ لوگ بھی ، مجھے ان کے بھی درشن کرنے کا موقع ملا ۔ میں سبھی کنبے والوں کو بصد احترام سلام کرتا ہوں کیونکہ ان کنبوں کی قربانی اور ایثار ، ڈیوٹی پر لگے لوگوں کو کام کرنے کی طاقت دیتا ہے۔
ساتھیو !
گرمی ہو
سردی ہو
برسات ہو
آپ اپنے مورچے پر مضبوطی کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں
ملک کے لئے ہولی
دیپا ولی اور عید ہوتی ہے
تمام تہوار ہوتے ہیں
لیکن آپ سبھی کے لئے آپ کی ڈیوٹی ہی تہوار بن جاتی ہے
ہمارے مسلح دستوں کے جوانوں کا کنبہ بھی تودوسروں کی طرح ہوتا ہے
اس کے بھی خواب ہیں
اس کے عزائم ہیں
اس کی تشاویش ہیں
خدشات ہوتے ہیں
لیکن ملک کی حفاظت کا جذبہ دل میں آجاتا ہے تو وہ ہر مشکل پر جیت حاصل کرلیتا ہے ۔ جب کسی معصوم کے ذریعہ ترنگے میں لپٹے اپنے باپ کو سلامی دینے کی تصویریں سامنے آتی ہیں ، جب کوئی بہادر بیٹی اپنے ساتھے کے جانے کے دکھ کے آنسووں کو پی کر !