نمسکار۔
گجرات کے گورنر جناب آچاریہ دیوورت جی، وزیر داخلہ و وزیر تعاون جناب امت بھائی شاہ، زراعت اور کسانوں کی فلاح و بہبود کے مرکزی وزیر نریندر سنگھ تومر جی، گجرات کے وزیر اعلی بھوپندر بھائی پٹیل جی، اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ جی، دیگر تمام معززین، میرے کسان بھائیو اور بہنو، ملک کے کونے کونے سے ہزاروں کی تعداد میں جڑے میرے کسان بھائی بہن، ملک کے زراعت کے شعبے سے جڑے افراد۔ آج کھیتی باڑی کے لیے ایک بہت اہم دن ہے۔ میں نے ملک بھر کے کسان ساتھیوں پر زور دیا تھا کہ وہ قدرتی کاشت کاری کے قومی کنکلیو میں شامل ہوں۔ اور جیسا کہ وزیر زراعت تومر جی نے ابھی بتایا ہے کہ ملک کے کونے کونے سے تقریباً 8 کروڑ کسان ٹکنالوجی کے ذریعے ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ میں تمام کسان بھائیوں اور بہنوں کا خیرمقدم کرتا ہوں اور انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں آچاریہ دیوورت جی کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں آج ایک طالب علم کی طرح بہت غور سے ان کی بات سن رہا تھا۔ میں خود کسان نہیں ہوں، لیکن بہت آسانی سے سمجھ پا رہا تھا کہ قدرتی زراعت کے لیے کیا ضروری ہے، کیا کرنا ہے، بہت آسان الفاظ میں انھوں نے سمجھایا ہے اور مجھے یقین ہے کہ آج کی یہ رہ نمائی، اور میں جان بوجھ کر آج سارا وقت ان کی بات سننے بیٹھا تھا، کیوں کہ میں جانتا تھا کہ انھوں نے جو کام یابیاں حاصل کی ہیں انھوں نے اس تجربے کو کام یابی سے آگے بڑھایا ہے۔ ہمارے ملک کے کسان اپنے فائدے کے اس نکتے کو کبھی کم نہیں سمجھیں گے، اسے کبھی نہیں بھولیں گے۔
ساتھیو،
یہ کنکلیو گجرات میں ہو رہا ہے لیکن اس کا دائرہ کار، اس کااثر پورےبھارت، بھارت کے ہر کسان کے لیے ہے۔ فوڈ پروسیسنگ ہو، قدرتی کاشت کاری ہو، یہ مضامین اکیسویں صدی میں بھارتی زراعت کو دوبارہ زندہ کرنے میں بہت مدد گار ہوں گے۔ اس کنکلیو کے دوران ہزاروں کروڑ روپے کے معاہدوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا اور ان پر پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ یہاں ایتھنول، نامیاتی کاشت کاری اور فوڈ پروسیسنگ میں دکھائے گئے جوش و خروش نظر آیا ہے، نئے امکانات نظر آئے ہیں۔ میں اس بات سے بھی مطمئن ہوں کہ گجرات میں ٹکنالوجی اور قدرتی کاشت کاری میں ہم نے جو تجربات کیے وہ پورے ملک کی رہ نمائی کر رہے ہیں۔ میں ایک بار پھر گجرات کے گورنر آچاریہ دیوورت جی کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے خود تجربے کے ذریعے ملک کے کسانوں کو قدرتی کاشت کاری کے بارے میں اتنے آسان الفاظ میں بہت تفصیل سے سمجھایا ہے۔
ساتھیو،
آزادی کے امروت مہوتسو میں آج ماضی کا مشاہدہ کرنے اور ان کے تجربات سے سبق سیکھنے اور نئے طریقے تخلیق کرنے کا بھی وقت ہے۔ آزادی کے بعد کی دہائیوں میں ملک میں جس طرح کاشتکاری ہوئی ہم سب نے اسے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اب آزادی کے 100 ویں سال تک ہمارا سفر، آنے والے 25 برسوں کا سفر، اپنی کاشت کاری کو نئی ضرورتوں، نئے چیلنجوں کے مطابق ڈھالنے کا ہے۔ گذشتہ 6-7 برسوں میں کاشتکار کی آمدنی بیج سےمارکیٹ تک بڑھانے کے لیے یکے بعد دیگرے کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ مٹی کی جانچ سے لے کر سیکڑوں نئے بیج تیار کرنے تک، پی ایم کسان سمان ندھی سے لے کر ایم ایس پی کی لاگت کو 1.5 گنا کرنے تک، آبپاشی کے مضبوط نیٹ ورک سے لے کر کسان ریل تک، کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ اور تومر جی نے بھی اپنی تقریر میں اس بارے میں کچھ ذکر کیا ہے۔ کسانوں کو مسلسل آمدنی کے متعدد متبادل ذرائع جیسے مویشی پالنے، شہد کی مکھی پالنے، ماہی گیری اور شمسی توانائی، کاشت کاری کے ساتھ بائیو فیول جیسے متعدد متابدلوں سے کسانوں کی اضافی آمدنی کے ذرائع کو جوڑا جا رہا ہے۔ دیہات میں ذخیرہ اندوزی، کولڈ چین اور فوڈ پروسیسنگ کو مستحکم کرنے کے لیے لاکھوں کروڑ روپے فراہم کیے گئے ہیں۔ یہ تمام کوششیں کسان کو وسائل دے رہی ہیں جس سے کسان کو اپنی پسند کا اختیار مل رہا ہے۔ لیکن ان سب کے ساتھ ہمارا ایک اہم سوال ہے۔ جب مٹی جواب دے جائے گی تب کیا ہوگا؟ جب موسم ان کے ساتھ نہیں ہوگا تب کیا ہوگا؟ جب دھرتی ماں کے پیٹ میں پانی محدود ہوجائےگا ؟ آج دنیا بھر میں کاشتکاری کو ان چیلنجوں کا سامنا ہے۔ یہ سچ ہے کہ سبز انقلاب میں کیمیکلز اور کھادوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن یہ بھی اتنا ہی سچ ہے کہ ہمیں اس کے اختیارات کے ساتھ ساتھ زیادہ توجہ پر کام کرتے رہنا ہوگا۔ ہمیں کاشتکاری میں استعمال ہونے والی بڑی مقدار میں کیڑے مار ادویات اور کیمیائی کھاد درآمد کرنی ہوگی۔ باہر سے دنیا کے ممالک سے اربوں اور کھربوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ اس سے کاشت کی لاگت میں بھی اضافہ ہوتاہے، کسان کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے اور غریبوں کا باورچی خانہ مہنگا ہو جاتا ہے۔ یہ مسئلہ کسانوں اور تمام ہم وطنوں کی صحت سے بھی متعلق ہے۔ اس لیے چوکس رہنے، باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔
ساتھیو،
گجراتی میں ایک کہاوت ہے، "ہر گھر میں بولا جاتا ہے، "پانی آوے تے پہیلا پال باندھے" یعنی پانی آنے سے پہلے باندھ باندھو، یہ ہمارے یہاں ہر فرد کہتا ہے ... اس کا مطلب یہ ہے کہ علاج سے پرہیز بہتر ہے۔ پہلے کاشتکاری سے متعلق مسائل خراب ہونے سے پہلے بڑے اقدامات اٹھانے کا یہ صحیح وقت ہے۔ ہمیں اپنی کاشت کاری کو کیمسٹری لیب سے ہٹا نا ہوگا اور اسے قدرت کی لیبارٹری سے جوڑنا ہوگا۔ جب میں فطرت کی تجربہ گاہ کے بارے میں بات کرتا ہوں تو یہ مکمل طور پر سائنس پر مبنی ہوتا ہے۔ آچاریہ دیوورت جی نے ابھی تفصیل سے وضاحت کی ہے کہ یہ کیسے ہوتا ہے۔ ہم نے ایک چھوٹی سی فلم میں بھی دیکھا ہے۔ اور اپنی کتاب ملنے کے بعد بھی وہ یوٹیوب پر آچاریہ دیوورت جی کے نام سے اپنی تقریریں پائیں گے۔ کھاد، فرٹیلائزر، جو طاقت ہے وہ بیج وہ عناصر فطرت میں بھی موجود ہیں۔ ہمیں صرف بیکٹیریا کی مقدار میں اضافہ کرنا ہے جو زمین میں اس کی زرخیزی میں اضافہ کرتے ہیں۔ بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ دیسی گائے بھی اس میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گوبر ہو، گائے کا پیشاب ہو، اس سے آپ کو ایک ایسا محلول بنانے میں مدد مل سکتی ہے جو فصل کی حفاظت کرے گا اور زرخیزی میں بھی اضافہ کرے گا۔ بیج سے لے کر مٹی تک، آپ ہر چیز کا قدرتی علاج کر سکتے ہیں۔ اس کاشت میں نہ تو کھاد اور نہ ہی کیڑے مار ادویات خرچ ہوں گی۔ یہ آبپاشی کی ضرورت کو بھی کم کرتا ہے اور سیلاب اور خشک سالی سے نمٹنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ خواہ کم پانی والی زمین ہو یا زیادہ پانی والی زمین، قدرتی کاشت کاری کسانوں کو سال میں بہت سی فصلیں لینے کے قابل بنا سکتی ہے۔ یہی نہیں گندم، دھان اور دالیں یا کھیت سے جو بھی کچرا نکلتا ہے، جو بھوسا نکلتا ہے، اس کا بھی صحیح استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی کم لاگت، زیادہ منافع۔ یہ قدرتی کاشت کاری ہے۔
ساتھیو،
آج دنیا جتنی جدید ہوتی جا رہی ہے اتنی ہی وہ 'بیک ٹو بیسک' کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس کا بنیادی مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے اپنی جڑوں سے جڑنا! اس بات کو آپ سب کسان ساتھیوں سے بہتر کون سمجھتا ہے؟ ہم جڑوں کو جتنا زیادہ سیراب کریں گے، پودا اتنا ہی زیادہ ترقی کرے گا۔ بھارت ایک زرعی ملک ہے۔ کھیتی باڑی کے ارد گرد ہی ہمارے معاشرے نے ترقی کی ہے، روایات کو پروان چڑھایا گیا ہےاور تہوار بنائے گئے ہیں۔ یہاں کسان ساتھی ملک کے کونے کونے سے وابستہ ہیں۔ آپ مجھے بتائیں کہ کیا آپ کے علاقےمیں کوئی ایسی چیز ہے جو ہماری کھیتی باڑی اور فصلوں سے متاثر نہ ہو؟ زراعت کے بارے میں ہمارا علم کتنا مالا مال رہا ہوگا جب ہماری تہذیب ہی نے کاشت کاری کے ساتھ ترقی کی ہے؟ ہماری سائنس کتنی مستحکم رہی ہوگی؟ یہی وجہ ہے کہ بھائیو اور بہنو، آج جب دنیا نامیاتی کی بات کرتی ہے، قدرتی کی بات کرتی ہے تو اس کی جڑیں بھارت سے جڑی ہوئی نظر آتی ہیں۔
ساتھیو،
زراعت سے وابستہ بہت سے دانش ور ہیں جنہوں نے اس موضوع پر وسیع تحقیق کی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم نے اپنی زراعت پر رگ وید اور اتھرو وید سے لے کر اپنے پرانوں تک، کرشی پراشر اور کاشیہ پی کرشی سوکت جیسے قدیم گرنتھوں اور جنوب میں تمل ناڈو کے سنت تھروولور جی سے لے کر شمال میں کسان شاعر گھاگھ تک کتنی باریک بینی سے تحقیق کی ہے۔ جیسا کہ ایک شلوک ہے:
गोहितः क्षेत्रगामी च,
कालज्ञो बीज-तत्परः।
वितन्द्रः सर्व शस्याढ्यः,
कृषको न अवसीदति॥
یعنی
ایک کسان جو گائے کے ریوڑ، مویشی کے مفادات جانتا ہے، موسم کے بارے میں جانتا ہے، بیجوں کے بارے میں جانتا ہے، اور سستی نہیں کرتا، ایسا کسان کبھی پریشان، غریب نہیں ہوسکتا۔ یہ شلوک قدرتی کاشت کاری کا فارمولا بھی ہے اور قدرتی کاشت کاری کی طاقت کی وضاحت بھی کرتا ہے۔ اس میں مذکور تمام وسائل قدرتی طور پر دستیاب ہیں۔ اسی طرح مٹی کو کھاد کیسے دی جائے، کس فصل پر پانی کب لگانا ہے، پانی کیسے بچانا ہے، کتنے فارمولے دیے گئے ہیں۔ ایک اور بڑا مقبول شلوک یہ ہے:
नैरुत्यार्थं हि धान्यानां जलं भाद्रे विमोचयेत्।
मूल मात्रन्तु संस्थाप्य कारयेज्जज-मोक्षणम्॥
یعنی فصل کو بیماری سے بچانے کے لیے بھادوں کے مہینے میں پانی نکال دیا جائے۔ پانی صرف جڑوں کے لیے میدان میں رہنا چاہیے۔ اسی طرح شاعر گھاگھ نے بھی لکھا ہے:
گیہوں باہیں، چنا دلائے
دھان گاہیں، مکا نرائے
اوکھ کسائے
یعنی خوب بانہ کرنے سے گہیوں کھونٹنے سے چنا، بار بار پانی ملنے دھان، نرانے سے مکا اور پانی میں چھوڑ کر بعد میں گنا بونے سے اس کی فصل اچھی ہوتی ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ تقریباً دو ہزار سال پہلےتمل ناڈو میں سنت تھروولور جی نے کاشتکاری سے متعلق بہت سے فارمولے بھی دیے تھے۔ آپ نے فرمایا تھا:
तोड़ि-पुड़ुडी कछ्चा उणक्किन,
पिड़िथेरुवुम वेंडाद् सालप पडुम
ساتھیو،
زراعت کے بارے میں ہمارے قدیم علم کو دوبارہ سیکھنے کی ضرورت ہے، لیکن جدید دور میں بھی اسے تراشنے کی ضرورت ہے۔ اس سمت میں ہمیں نئے سرے سے قدیم علم کو جدید سائنسی فریم میں ڈھالنا ہوگا۔ ہمارے آئی سی اے آر، کرشی وگیان کیندر، زرعی یونیورسٹیوں جیسے ادارےاس سمت میں بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہمیں معلومات کو صرف تحقیقی مقالات اور نظریات تک محدودرکھنے کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں اسے عملی کام یابی میں تبدیل کرنا ہوگا۔ لیب سے لینڈ تک کا یہ ہمارا سفر ہو جائے گا۔ اس کا آغاز ہمارے ادارے بھی کر سکتے ہیں۔ آپ یہ عزم کرسکتے ہیں کہ آپ قدرتی کاشت کاری کو زیادہ سے زیادہ کسانوں تک لے جائیں گے۔ جب آپ یہ ظاہر کریں گے کہ کام یابی کے ساتھ یہ ممکن ہے تو عام آدمی بھی جلد از جلد اس سے وابستہ ہو جائے گا۔
ساتھیو،
نئی تعلیم کے ساتھ ہمیں ان غلطیوں کو بھلانا بھی پڑے گا جو ہمارے کاشت کاری کے طریقے میں در آئی ہیں۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ کھیت میں آگ لگانے سے زمین اپنی زرخیزی کھو بیٹھتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب مٹی کو تپایا جاتا ہے تو وہ اینٹ کی شکل لے لیتی ہے، اور اینٹ اتنی مضبوط ہو جاتی ہے کہ عمارت کی شکل لے لیتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں فصلوں کے باقیات جلانے کی روایت ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ جب مٹی جلتی ہے تو وہ اینٹ بن جاتی ہے، پھر بھی ہم مٹی جلاتے رہتے ہیں۔ اسی طرح یہ وہم بھی ہے کہ کیمیکل کے بغیر فصل اچھی نہیں ہوگی۔ جب کہ سچ بالکل برعکس ہے۔ پہلے کیمیکل نہیں تھے، لیکن فصل اچھی ہوتی تھی۔ انسانیت کے ارتقا کی تاریخ اس کا ثبوت ہے۔ تمام تر چیلنجوں کے باوجود زرعی دور میں انسانیت تیز ترین رفتار سے پروان چڑھی ہے۔ کیوں کہ اس وقت قدرتی کاشت کاری صحیح طریقے سے کی جاتی تھی، لوگ مسلسل سیکھتے تھے۔ آج صنعتی دور میں ہمارے پاس ٹکنالوجی کی طاقت ہے، ہمارے پاس کتنے وسائل ہیں، موسم بھی معلوم ہے! اب ہم کسان مل کر ایک نئی تاریخ رقم کرسکتے ہیں۔ جب دنیا گلوبل وارمنگ کے بارے میں پریشان ہو تو بھارت کا کسان اپنے روایتی علم کے ذریعے کوئی راستہ تلاش کرنے کے لیے اقدامات کر سکتا ہے۔ ہم مل کر کچھ کر سکتے ہیں۔
بھائیو اور بہنو،
قدرتی کاشت کاری سے سب سے زیادہ فائدہ جس کا ہوگا وہ ہیں ہمارے ملک کے 80 فیصد چھوٹے کسان۔ چھوٹے کسان جن کے پاس 2 ہیکٹر سے کم زمین ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کسان کیمیائی کھادوں پر بہت خرچ کرتے ہیں۔ اگر وہ قدرتی کاشت کاری کی طرف رجوع کریں گے تو ان کی حالت بہتر ہوگی۔
بھائیو اور بہنو،
قدرتی کاشت کاری کے بارے میں گاندھی جی کا نکتہ بالکل فٹ بیٹھتا ہے جہاں شوشن ہوگا، وہاں پوشن نہیں ہوگا۔ گاندھی جی کہا کرتے تھے کہ مٹی کو الٹنا پلٹنا بھول جانا،کھیت کی گڑائی کو بھول جانا ایک طرح سے اپنے آپ کو بھولنے کے مترادف ہے۔ میں مطمئن ہوں کہ گذشتہ چند برسوں میں ملک کی بہت سی ریاستوں میں اس میں بہتری آئی ہے۔ حالیہ برسوں میں ہزاروں کسانوں نے قدرتی کاشت کاری کو اپنایا ہے۔ ان میں سے بہت سے اسٹارٹ اپ اور نوجوان ہیں۔ انھوں نے مرکزی حکومت کے ذریعے شروع کی گئی روایتی کرشی وکاس یوجنا سے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔ کسانوں کو تربیت بھی دی جارہی ہے اور اس کاشت کی طرف بڑھنے میں مدد فراہم کی جارہی ہے۔
بھائیو اور بہنو،
جن ریاستوں میں لاکھوں کسان قدرتی کاشت کاری سے جڑ چکے ہیں ان کے کسانوں کے تجربات حوصلہ افزا ہیں۔ ہم نے بہت پہلے گجرات میں قدرتی کاشت کاری کے لیے کوششیں شروع کی تھیں۔ آج گجرات کے بہت سے حصوں میں اس کے مثبت اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ اسی طرح ہماچل پردیش بھی تیزی سے اس قدرتی کاشت کی طرف راغب ہو رہا ہے۔ آج میں ملک کی ہر ریاستی حکومت سے درخواست کروں گا کہ وہ قدرتی کاشت کاری کو عوامی تحریک بنانے کے لیے آگے آئے۔ ہر پنچایت کے کم از کم ایک گاؤں کو اس امروت مہوتسو میں قدرتی کاشت کاری سے وابستہ ہونا چاہیے۔ اور میں کسان بھائیوں کو بھی بتانا چاہتا ہوں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اگر آپ کے پاس 2 ایکڑ زمین یا 5 ایکڑ زمین ہے تو اسے پوری زمین پر استعمال کریں۔ آپ خود اس کا تھوڑا سا تجربہ کریں۔ آئیےاس کا ایک چھوٹا سا حصہ لیتے ہیں، آدھا کھیت لیتے ہیں، ایک چوتھائی کھیت لیتے ہیں، ایک حصے کا فیصلہ کرتے ہیں اور اس میں استعمال کرتے ہیں۔ اگر فائدہ نظر آئے تو تھوڑا سی توسیع کریں۔ ایک یا دو سال میں، آپ آہستہ آہستہ پورے کھیت کی طرف بڑھیں گے۔ دائرہ کار کو بڑھاتے رہیں گے۔ میں سرمایہ کاری کے تمام شراکت داروں سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی مصنوعات پر پروسیسنگ میں نامیاتی اور قدرتی کاشت کاری میں بھاری سرمایہ کاری کریں۔ اس کے لیے نہ صرف ملک میں بلکہ دنیا بھر کی مارکیٹ ہمارا انتظار کر رہی ہے۔ ہمیں آنے والے امکانات کے لیے آج کام کرنا ہوگا۔
ساتھیو،
اس امروت کال میں ہمیں بھارت کو دنیا کے لیے غذائی تحفظ اور فطرت کی ہم آہنگی کا بہترین حل دینا ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی کے سربراہ اجلاس میں میں نے دنیا سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ماحولیات کے لیے طرز زندگی برائے ماحولیات، یعنی لائف کو ایک عالمی مشن بنائے۔ اس کی قیادت اکیسویں صدی میں بھارت کرنے والا ہے، بھارت کا کسان کرنے والا ہے۔ لہٰذا آئیے آزادی کے امرت مہوتسو میں ماں بھارتی کی دھرتی کو کیمیائی کھادوں اور کیڑے مار ادویات سے آزاد کرانے کا عزم کریں۔ دنیا کو صحت مند زمین، صحت مند زندگی کا راستہ دکھائیں۔ آج ملک نے خود کفیل بھارت کا خواب دیکھا ہے۔ خود کفیل بھارت اسی وقت تشکیل پا سکتا ہے جب اس کی زراعت خود کفیل ہو جائے، ہر کسان خود کفیل ہو جائے۔ اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم غیر فطری کھاد اور ادویات کے بجائے گوبر دھن سے، قدرتی عناصر کے ساتھ ماں بھارتی کی مٹی کو زرخیز بنائیں گے۔ ملک کا ہر باشندہ، ہر شے کے مفاد میں، ہر جاندار کے مفاد میں قدرتی کاشتکاری کو ہم عوامی تحریک بنائیں گے۔ اسی یقین کے ساتھ میں گجرات کے وزیر اعلیٰ کو، ان کی پوری ٹیم کو، اس پہل کے لیے، پورے گجرات میں اس کو عوامی تحریک کی شکل دینے کے لیے، آج پورے ملک کے کسانوں کو جوڑنے کے لیے میں متعلقہ تمام لوگوں کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ آپ سب کا بہت بہت شکريہ!