جناب راجیو مہارشی، دونوں ڈپٹی سی اے جی صاحبان، ملک بھر سے آئے ہوئے سبھی ساتھیو، دوستو،
اکاؤنٹنٹ جنرل میں مجھے ایک بار پھر آنے کا موقع ملا ہے۔ زیادہ تو موقع نہیں ملتا ہے، بات چیت کرنے کا کچھ، لیکن کچھ وقت میں بھی اچھے تجربات ہو ہی جاتے ہیں۔ گاندھی جی کے 150 ویں یوم پیدائش کے سال میں یہ پروگرام ہونا، یہ بھی اپنے آپ میں باعث مسرت ہے۔ اور گاندھی جی کہتے تھے کہ جس طرح کوئی شخص اپنی پیٹھ نہیں دیکھ سکتا، اپنا بیک نہیں دیکھ سکتا، اسی طرح کسی شخص کے لئے اپنی غلطیوں، ناکامیوں کو دیکھنا بھی بڑا مشکل ہوتا ہے۔
لیکن آپ سبھی حضرات ہیں، جو ایک آئینہ لے کر سرکاری انتظامات کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ کمیاں ہیں، یہ غلطیاں ہیں، یہ عمل ٹھیک نہیں ہے، اور آپ حساب کتاب رکھنے والوں کا حساب کتاب رکھتے ہیں۔ لیکن ابھی جو مہارشی جی نے سپاس نامہ دکھایا، اس میں مجھے خوشی ہے کہ آپ نے اپنے حساب کتاب دکھایا ہے، یہ ایک اچھی پہل ہے۔
ساتھیو، تین سال پہلے جو کانفرنس ہوئی تھی، اس میں آپ سبھی کے درمیان تفصیل سے بات چیت کرنے کا مجھے موقع ملا تھا، اور اس وقت بات چیت کے متعدد موضوعات پر جیسا میں دیکھ رہا تھا، بہت سی باتوں کو آپ نے پکڑ کر کے اس کو لاگو کرنے کا کام کیا اور آگے بھی آپ کی تحریک چل رہی ہے۔ اور مجھے یاد ہے کہ تب میں نے کہا تھا، سی اے جی کو ٹکڑوں میں سوچنے کے بجائے مکمل طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف اعداد و شمار اور سرگرم عمل تحریک تک ہی یہ تنظیم محدود نہیں رہ سکتی ہے، بلکہ واقعی میں گڈ گورننس کے ایک کیٹیلسٹ کے طور پر آگے آنا ہے۔ سی اے جی کو سی اے جی پلس بنانے کے مشورے پر آپ سنجیدگی سے عمل کر رہے ہیں، یہ میرے لئے خوشی کی بات ہے۔ اور اس کے متعدد خوش کن، مسرت آمیز نتائج بھی ملک کو مل رہے ہیں۔ ملک میں جواب دہی اور ایمان داری کا ماحول بنانے میں اس کے باعث مدد ملتی ہے، ایک ماحول بنتا ہے۔ ملک میں معینہ مدت میں پیداوار کے طریقے سے کام کرنے کے جو انتظامات ترقی کر رہے ہیں۔ اس میں سی اے جی کا بہت بڑا اور اہم رول ہے۔ یہ سب ممکن ہو پا رہا ہے تو اس کے پیچھے آپ اور آپ کے جو ساتھی ہیں، اور خاص طور پر جن کو باہر جا کر کام کرنا ہوتا ہے،باہر جاکر آڈٹ کرنا ہو تا ہے، کہیں کان کنی ہو رہی ہے، تو وہاں جانا پڑتا ہے، جا کر دیکھنا پڑتا ہے۔ اور ریاستوں میں جا کر کے بھی مہینوں مہینوں تک اے جی آفس کے ساتھ ہی فیلڈ میں ڈٹے رہتے ہیں، وہاں بیٹھے رہتے ہیں، ایک ایک کاغذ کی چھان بین کرتے رہتے ہیں۔ اور کبھی کبھی تو گھر والوں کے ساتھ بھی لمبے عرصے کی دوری ہو جاتی ہے، اور تب جا کر کے سارا عمل نکلتا ہے۔ اور ایسے مخلص ساتھیوں کی وجہ سے سی اے جی پر اعتماد بنا ہے اور مضبوط ہوا ہے۔
ساتھیوں، دہائیوں سے کھڑے ہوئے سسٹم میں بہت تیزی سے تبدیلی لانا اپنے آپ میں ایک بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ کیونکہ شائد سرکاری انتظامات میں جس کی سب سے زیاددہ عمر ہے، ایسا کوئی ادارہ ہے تو وہ ہے سی اے جی، 1860 میں ہوا؟ اور وہ بھی 1857 کے بعد ہوا تھا تو، اس کی ایک تاریخ ہے۔ کبھی آپ لوگ گہرائی میں جائیں گے تو کافی کچھ ملے گا اس میں سے۔ آج کل تو اصلاح کو ایک بہت بڑا ہی نفیس لفظ مانا جاتا ہے۔ اصلی اصلاح تو تب آتی ہے، جب کسی تنظیم میں پورا رینک اور فائل پوری ایمان داری سے اس کے لئے تیار ہوتی ہے، ترغیب ہوتی ہے۔ اور یہ بات ملک کی ہر حکومت، ہر تنظیم، ہر ادارے پر لاگو ہو تی ہے اور جس میں سی اے جی بھی ہے۔ سی اے جی کی ذمہ داری بھی زیادہ ہے کیونکہ آپ ملک اور معاشرے کے اقتصادی طور طریقوں کو صاف ستھرا رکھنے میں ایک اہم کردار نبھاتے ہیں۔ اور اس لئے آپ سے امید بھی ذرا زیادہ رہتی ہے۔
ساتھیو، پالیسی کے، اقتصادیات اور آڈیٹنگ کے محرک چانکیہ کہا کرتے تھے ”گیانم بھارم : کر یام بنا “ یعنی اگر آپ کے پاس نالج ہے لیکن آپ اس کو صحیح جگہ پر، صحیح سمت میں نہیں لگا تے ہیں تو وہ اپنے آپ میں ایک بوجھ بن جاتی ہے۔ وہ بے معنی ہو جاتی ہے۔ اس لئے آپ کے پاس ایک طرح سے دوہری ذمہ داری ہے۔ آپ کو اپنے علم اور تجربات کو پھیلانا ہے تو ساتھ ساتھ اخلاقیات کو بھی مضبوط بنانا ہے۔ اور جسے چانکیہ نے اپنے پورے نیتی شاستر کے اندر سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ اور اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ آج کے ڈیجیٹل ورلڈ میں بدلتی ہوئی تکنالوجی کے اس دور میں آڈٹ اور ایشورنس یعنی یقین دہانی کا رول اور اس میں تبدیلی بہت اہم ہو چکی ہے۔
ساتھیو، تبدیلی کو بنیاد بنا پر شفافیت لانے کی کوشش آپ سبھی گزرے پانچ برسوں سے لگا تار دیکھ رہے ہیں۔ حکومت کا حساب کتاب کھلا اور شفاف رہا ہے۔ بلکہ ایک ڈیش بورڈ کی طرح رہے ہیں۔ جوبھی ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ جتنا بھی ہے وہ واضح دکھتا ہے۔ ٹینڈر سے لے کر کے پیداواریت تک ایک شفاف عمل حکومت نے پیش کیا ہے۔ اب زیادہ تر ٹینڈر آن لائن ہوتے ہیں۔ بنیادی ڈھانچہ سے وابستہ پروجیکٹوں کی نگرانی بھی سائنسی طریقے سے ہو تی ہے۔ جے اے ایم یعنی جن۔ دھن آدھار موبائل۔ اس سے عام آدمی تک سرکاری اسکیموں کا فائدہ براہ راست پہنچ رہا ہے اور جی ای ایم یعنی گورنمنٹ ای۔ مارکیٹ پلیس، اس سے حکومت اپنی پیداوار براہ راست کرتی ہے۔ آج حکومت کی 425 سے زائد اسکیموں کا فائدہ براہ راست استفادہ کنند گان تک پہنچ رہا ہے۔ جس کے باعث قریباً ڈیڑھ لاکھ کروڑ روپئے غلط ہاتھوں میں جانے سے بچ گئے ہیں۔ خاص طور پر جی ایس ٹی جیسے پُر چیلنج اور دشوار گزار سدھار سے ملک کی کاروباری ثقافت کا حصہ بنانے میں تو آپ نے بھی قابل ستائش کر دار ادا کیا ہے۔
ساتھیو، آج بھارت دنیا کی سب سے اگلی صف کی ڈیجیٹل اقتصادیات میں سے ایک ہے اور یہاں تیزی سے ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچہ تعمیر ہو رہا ہے۔ ڈیجیٹل انتظامات نے شہری اور حکومت کے درمیان کے رابطے کو، تعلقات کو اور اعتماد کو مضبوط کیا ہے۔ سرکاری کام کاج پر بھی اس کا موافق اثر پڑا ہے۔ ہمارے ریکارڈ کو بر قرار رکھنے کے طور طریقے بھی بدلتے جاتے ہیں۔ اور میں ایک مثال آپ کو دیتا ہوں۔ پہلے جو حکومت کو ادائیگی ہو تی تھی، اس کے چالان شہریوں کو، سرکاری دفاتر کو، ٹریژری کو، سبھی کو الگ الگ رکھنے پڑتے تھے۔ لیکن اب فزیکل کاپی کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ وہ ایک ایپ میں ہی پیپر لیس طریقے سے اسٹور ہو جاتی ہے۔ اس سے عوام کو تو سہولت ہو ئی ہے ہی، سی اے جی کے آڈٹ پروسیس میں بھی بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔
ساتھیو، آج جب بھارت پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت کی حامل طاقت بننے کی راہ پر گامزن ہے، اس میں بھی آپ سب ہی کا بہت اہم رول ہے۔ کیونکہ آپ جو کچھ بھی کریں گے، اس کا سیدھا اثر حکومت کی صلاحیت پر پڑے گا، حکومت کے فیصلے لینے اور پالیسی سازی پر پڑے گا۔ آپ جو کچھ بھی کریں گے، اس کا سیدھا اثر تجارتی اداروں پر پڑے گا، ایز آف ڈو ئنگ بزنس پر پڑے گا، آج جتنے بھی شراکت دار ہیں، انہیں نپا تلا آڈٹ بھی چاہئیے، تاکہ وہ اپنے منصوبوں پر صحیح ڈھنگ سے عمل کر سکیں۔ وہیں وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ آڈٹ کے عمل میں بہت زیادہ وقت لگے۔ یہیں سے آپ کے چیلنج شروع ہوجاتے ہیں۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے دو کام بہت ضروری ہیں۔ ایک ہنر مندی اور تربیت سے جڑا ہوا ہے اور دوسرا ٹول سے جڑا ہوا ہے۔ جو نئے ساتھی اس پیشے سے جڑ رہے ہیں، ان کو تو تازہ ترین تکنالوجی سے ہمیں لیس کرنا ہی ہے، جو بھی کام کر رہے ہیں، ان کی ہنر مندی کو اپ گریڈ کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اب جیسے پوری دنیا میں جو آڈتنگ سے وابستہ ادارے ہیں، وہ کراؤڈ بیسڈ سولوشن یعنی مجمع پر مبنی حل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اسی طرح تکنالوجی کو لے کر جو بیسٹ گلوبل پریکٹس یعنی بہترین عالمی کار کردگی ہے، ان کو ہمیں اپنے سسٹم کا حصہ تو بنانا ہی ہے، انڈیا پیسیفک ٹولز پر بھی ہمیں کام کرنا ہے۔
ساتھیو، ہمارا نشانہ ہے کہ سال 2022 تک ایویڈنس بیسڈ پالیسی میکنگ یعنی شواہد پر مبنی پالیسی سازی کو گورننس کا اٹوٹ حصہ بنایا جائے۔ یہ نیو انڈیا کی پہچان بنانے میں بھی ہماری مدد کرے گا۔ ایسے میں آڈٹ اور ایشورنس سیکٹر کے ٹرانسفارمیشن کے لئے بھی یہ صحیح دور ہے۔ اب سی اے جی کو بھی سی اے جی 2.0 کی جانب بڑھنا ہو گا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ اس جانب تیزی سے آگے بڑھ بھی رہے ہیں۔ یہ کام ہم تیزی سے تب ہی کر پائیں گے جب کچھ خلاء کو، کچھ کڑیوں کو تیزی سے جوڑ پائیں۔ ابھی ہمارے یہاں جو ڈاٹا جنریٹ ہو رہا ہے، وہ بہت وسیع ہے اور متعدد ایجنسیاں، متعدد محکموں کے پاس اسٹور ہے۔ یہ ڈاٹا بھی ان ایجنسیوں اور محکموں نے اپنے استعمال کے لئے اسٹور کیا ہے۔ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ اکثر یہ ڈاٹا ایک دوسرے کے ساتھ شیئر نہیں کیا جاتا ہے۔ یہ وسیع ڈاٹا لنک نہیں ہو تا ہے۔ اس لئے جوابدہی کا خلا بھی فطری عمل میں آتا ہے۔ ہمیں اسے پاٹنا ہے۔ اور اس کے لئے سرکاری سطح پر بھی کچھ کوشش ہو رہی ہے، قدم اٹھائے جا رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ سب بھی اس موضوع پر آپس میں غو و فکر کریں گے اور دیگر ایجنسیوں اور محکموں کے ساتھ بھی شراکت داری کریں گے۔ اور مجھے یاد ہے کہ پچھلی بار میں نے آپ کے درمیان ایک ہی ضلع میں سڑک کی تعمیر کی مثال دی تھی۔ یہ بتایا تھا کہ کیسے ایک ہی ضلع میں ایک ہی لمبائی کی سڑک جب دو الگ الگ محکمے بناتے ہیں تو، کئی بار قیمت میں کتنا فرق رہتا ہے۔ اب الگ الگ آڈٹ کے وقت میں تو دونوں ٹھیک لگتے ہیں۔ لیکن تمام تر تصویر کو دیکھیں تو صحیح نہیں پائے جاتے ہیں۔ ایسی کتنی ہی مثالیں ہیں سرکاری محکموں میں جہاں پر بڑے ڈاٹا انالیسس میں سدھار کئے جا سکتے ہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ جب آپ بڑے ڈاٹا بیس کو اپنے آڈٹ کے لئے انالیسس کرتے ہیں تو آپ کی واقفیت ثبوتوں پر مبنی پالیسی سازی میں بہت کام آ سکتی ہے۔ اگر اس میں سی اے جی اس ڈاٹا سے جڑی واقفیت کی بنیاد پر مشورہ دے، کچھ ادارہ جاتی حل پیش کر سکے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے ملک کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔ اور میری تو یہ بھی در خواست ہوگی کہ آپ صرف آڈٹ کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ تھنک ٹینک کے نظرئیے سے بھی سوچیں۔
ساتھیو، میں نے گزشتہ بار ادارہ جاتی میموری کی بھی بات کی تھی، ڈیجیٹل آڈٹ اور ڈیجیٹل گورننس، الگ الگ اداروں میں اس ادارہ جاتی میموری کو بھی مضبوط کرنے کا کام کرسکتی ہے۔ ایک اور کام آپ آسانی سے کر سکتے ہیں، سی اے جی متعدد بین الاقوامی اداروں کا آڈٹ کرتی ہے، دیگر ممالک کو آڈٹ میں تکنیکی مدد دیتی ہے۔ آپ ایک ایسا ادارہ جاتی میکنزم تیار کر سکتے ہیں، جس میں بین الاقوامی آڈٹ کرنے والی ٹیموں کو اپنے تجربات میں شریک کر سکیں، وہاں کی پریکٹس کو شیئر کر سکیں۔ سی اے جی کی آڈٹ رپورٹ زیادہ ساز گار ہو۔ اس کے لئے کیا ہم آڈٹ کے موضوع پر غور و فکر کے لئے منتخب کر سکتے ہیں کیا ؟ اس پر ہمیں ضرور غور کرنا چاہئیے۔ آپ مختلف طرح کے آڈٹ کر کے آ رہے ہیں۔ میرا ایک مشورہ ہے کہ آپ پروسیس آڈٹ پر بھی غور کریں۔ ابھی تک تو آپ صرف یہی دیکھتے ہیں کہ پروسیس پر عمل ہوا یا نہیں۔ لیکن کیا اس پروسیس پر کوئی سدھار ممکن ہے، تاکہ معینہ نشانے تک پہنچا جا سکے۔ یہ مشورہ آئے گا اور میں سمجھتا ہوں کہ بہت مدد گار ثابت ہو گا۔ ایک اور شکایت محکموں کی جانب سے رہتی ہے کہ سی اے جی آڈٹ بہت جلدی جلدی ہو تا ہے، جس کے باعث جو نتائج بر آمد ہو تے ہیں وہ اتنے کام نہیں آ پاتے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ محکموں کے اندرونی آڈٹ، اس میں کیسے مضبوطی آئے، اور وہ ان ٹیون ود سی اے جی کیسے ہو، تاکہ ہم وقت بھی بچا سکیں اور صلاحیت بھی بڑھ سکے۔ اور اس سے ہو گا یہ کہ حسب معمول آڈٹ محکمہ خود جب کرتے ہیں تو ان تمام باریکیوں کو مد نظر رکھیں تاکہ جب سی اے جی وہاں جائے تو اس کو جو ریڈی میڈ میڑیل ملے گا، اس میں کم چیزوں کی ضرورت پڑے گی اور ہم صلاحیت کو بڑھا سکتے ہیں، ہم رفتار بھی بڑھا سکتے ہیں۔
ساتھیو، یہ چیلنج ہمیں اس ٹیکنالوجی سے نمٹنے کا ہے جو غلط کام کرنے والوں کے پاس ہے۔ اب سی اے جی کے ساتھ ساتھ تمام آڈیٹرز کو خواہ وہ اندرونی ہو یا بیرونی ہو، نئے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اختراعات کے طریقے ڈھونڈنے ہی پڑیں گے۔ اور اس کے لئے سب سے پہلے ہم آڈیٹروں کی کور ویلیو کی ستائش کرنا ہو گی، تب ہی ہم پیشہ ورانہ فراڈ پر نکیل کس پائیں گے۔ کچھ برسوں میں سرکاری محکموں میں فراڈ سے نمٹنے کے لئے متعدد کوششیں کی گئی ہیں۔ اب سی اے جی کو ایسے تکنیکی ٹول تیار کرنے ہوں گے تاکہ اداروں میں فراڈ کے لئے کوئی گنجائش نہ بچے۔ اور میں آپ کو مشورہ دینا چاہتا ہوں۔ میں نے پچھلے دنوں اس کا استعمال کیا ہے، کیا سی اے جی اس پر سوچ سکتا ہے کیا؟ میں نے حکومت ہند کے الگ الگ محکموں سے در خواست کی ہے کہ آپ کے پاس ایسا کون سا مسئلہ ہے، کہ جس کے حل میں یا اس مسئلے کو سلجھانے میں یا ادائیگی میں آپ کو دقت ہو تی ہے؟ شروع میں تو محکموں کے لئے ایسا قبول کرنا مشکل ہو تا ہے، تو سب کی پہلی رپورٹ یہی آتی ہے کہ نہیں، ہمارے یہاں کوئی تکلیف نہیں ہے، سب بہت اچھا ہے، کوئی تکلیف نہیں ہے۔ بہت بڑھیا چل رہا ہے۔ میں ذرا پیچھے لگا رہا، بار بار پوچھتا رہا، تو الگ الگ محکموں سے قریب قریب 400 مسائل آئے۔ انہیں لگتا تھا کہ اس کا تکنیکی حل نکلے تو اچھا ہو۔
ان??? مسائل کو میں نے الگ الگ یونی ورسٹیوں کے آئی ٹی کی بنیاد پر کام کرنے والے طلباء کو دیا اور پورے ملک میں ہیکاتھان چلایا۔ لاکھوں نوجوانوں نے اس میں حصہ لیا۔ کم از کم 36 گھنٹے ان ٹولیوں نے بغیر رکے کام کیا۔ اس میں سے نکلتے نکلتے نکلتے اوپر جب دس بارہ ہزر بچے بچے، تو میں نے خود ان سے بات چیت کی۔ اور آپ حیران ہو جائیں گے کہ ان 400 جو مسائل نکالے تھے، زیادہ تر کا حل تو ان 18-20-22 سال کی عمر کے بچوں نے نکال کر دے دیا، تکنالوجی کی بنیاد پر حل، اور حکومت کا بھی خیر مقدم کروں گا کہ اس میں سے قریب قریب 80 فیصد انہوں نے پہلے ہی اپنے انتظام میں شامل کر لیا، لاگو کر لیا۔ کیا سی اے جی کو آج جو چیلنج در پیش ہیں، جیسے کہ آپ نے اپنے سپاس نامے میں بتایا کہ یہ اسپتال کا آڈٹ کرنا انہیں کتنا بڑا تکنیکی کام ہے، کیسے کرنا ہے۔ اب آپ تو اس فیلڈ کے ہیں نہیں، کوئی ایک ڈاکٹر مل جائے، وہ آپ کو کہے تو آپ اس سمت میں جا کر کے دیکھ لیں گے۔ کیا ہم اس قسم کی چیزوں کے لئے نشان دہی کر کے اتنے اتنے مسائل ہیں، تکنیکی حل نکالے جا سکتے ہیں۔
تو آپ اگر اس طرح کے مسائل ان نو جوانوں کو دیں اور میں ایچ آر ڈی کی وزارت کو کہہ سکتا ہوں کہ بھئی، اس کے ساتھ تعاون کریں۔ اور اس قسم کے ہیکا تھان ہوں، جو سی اے جی کے لئے ایسے ٹول بنائیں، سی اے جی کے لئے اس قسم کے حل لے کر آئیں۔ آپ کے کچھ لوگوں کو متعدد بار غور و فکر کرنے کا موقع ملے، تو میں سمجھتا ہوں ایک اچھا میکنزم اور یہ سالانہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہیکاتھان، اس سے بھی یہ فائدہ ہو گا کہ ہمارے ملک کی نو جوان نسل ہے اس کو بھی پتہ چلے گا کہ ہندوستان کی انتظامیہ کے سب سے عمر رسیدہ ، تجربہ کار یہ ادارے کیسے کیسے کام کر رہے ہیں اور کتنے چیلنجوں کو لے کر چلتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کام کی جانب سوچا جا سکتا ہے۔ اور دیکھنا چاہئیے۔ اور ایسی کوششوں سے ملک کے عام آدمی کی پریشانی کم ہو گی اور ملک کے تمام اداروں پر اس کا بھروسہ بھی مضبوط ہو گا۔
مجھے یقین ہے کہ سی اے جی ملک کی تمام امیدوں پر کھرا اترے گا اور نیو انڈیا کو کلین انڈیا، کلین انڈیا وہ والا نہیں جو میں کرتا ہوں، آپ والا دوسرا ہے، بنانے میں آپ کے کردار کو مستحکم کرے گا۔ اور میری آپ سے در خواست ہے کہ ایک تو ہو تا ہے ہم آڈٹ کریں۔ لیکن کیا آڈٹ کسی کو کٹ گھرے میں کھڑا کرنے کے لئے، تو ٹھیک ہے، لیکن کیا ہم وہیں رکنے کے لئے ہیں کیا؟ جی نہیں، ہم کہیں پر بھی ہوں،کسی بھی چھتری کے نیچے کام کرتے ہوں، ہماری آنے والی نسلوں کے لئے کام کرتے ہیں۔ اور اس لئے ہم یہ جو محنت کرتے ہیں، کیا وہ گڈ گورننس کے لئے کام آ سکتی ہے کیا؟ صلاحیت سازی کے لئے کام آ سکتی ہے کیا؟ اور یہ کیا جا سکتا ہے۔ جیسے ہر بار ضروری نہیں ہے کہ جو ہے اس میں سے ہم خامیاں تلاش کریں، ہر بار ضروری نہیں ہے۔ لیکن اگر سال کے شروع میں ہی آپ ایک دس محکمے پکڑ لیں۔ دس محکموں کے تعلق سے برین اسٹارمنگ (دماغ میں کھلبلی) ہو، محکمے کے ساتھ آپ کے لوگبوں کے ساتھ، جس کس میں مہارت ہے، زمینی سطح پر کوئی بھی کام کرنے والا ہو، وہ بھی ہو، ضلعی سطح پر کام کرنے والا ہو، ریاستی سطح پر کام کرنے والا ہو، قومی سطح پر کام کرنے والا ہو، وہ بھی دماغی کھلبلی کژر کے مان لیجئے براہ راست آپ 100 پوائنٹ نکالتے ہیں، اور انہیں کہا جائے کہ دیکھئے بھئی ہم ایک سال کے بعد آڈٹ کے لئے آئیں گے۔ یہ ہم سب نے مل کر جو 100 پوائنٹ نکالے ہیں، آپ اپنے کام کا اس 100 پوائنٹ کے ترازو پر ذرا تولئیے۔ آپ جو چیزیں ریکارڈ رکھیں گے، ان 100 پہلوؤں کو اس میں ضرور دھیان رکھیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو آڈٹ ذہن ہے وہ پہلے سے آگاہ رہے گا کہ دیکھئے آپ کو غلطی نہ ہو، اس کے لئے میں آپ پروفارما دیتا ہوں۔ آپ دیکھئے، اس سے فرق یہ پڑے گا کہ صلاحیت بڑھے گی، گورننس کے پہلو میں نئی باتیں اجاگر ہوں گی، سرکار کی اپنے آپ میں ایک قوت بن جائے گی اور میں چاہوں گا کہ کیا ہم ایسی کچھ کوششیں کر سکتے ہیں کیا؟ دوسرا آپ نے دیکھا ہو گا، ہم بجٹ میں، ہاؤس میں آؤٹ کم رپورٹ بھی رکھتے ہیں۔ جو پہلے ہمارے یہاں نہیں تھا۔ کیونکہ آؤٹ پٹ پر بحث تو بہت آسان ہو تی ہے، کہ دس روپئے تھا، دس روپئے دے دیا۔ کیا کیا، کیسے کیا، کس کے لئے کیا، کب کیا، کرنا چاہئیے تھا یا نہیں کرنا چاہئیے تھا۔ ساری باتیں وہ آپ مکے شعبے میں چلی جاتی ہیں۔ اور وہ آؤٹ کم شروع ہو تا ہے۔ اور اس لئے ہاؤس کے اندر ان دنوں آؤٹ کم کا انتظام ہم نے تیار کیا ہے اور ادارہ جاتی ہے۔
لیکن کبھی کبھی عمل عمدہ، پیداوار عمدہ، آؤٹ کم کیا؟ کہاں کم ہوتا ہے، جہاں پر چوری ہوتی ہے وہاں آؤٹ کم، کم ہوتا ہے، بات الگ ہے، زیادہ تر بیڈ گورننس اس کے لئے ذمہ دار ہوتا ہے۔ اگر گورننس صحیح ہو تو فطری عمل میں بھی آؤٹ کم اور صلاحیت نظر آتی ہے۔ اور اس لئے میں کہوں گا کہ کیا ٹارگیٹ تھا، کیا کامیابی حاصل کی، اور اس کو لے کر آپ کا نظریہ باریک ہوتے ہوئے بھی میں ضرور چاہوں گا کہ ہم ایڈوانس میں اپنے اپنے اداروں کو مضبوط بنانے کے لئے کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ہم کوشش کریں۔
میں ایک بار پھر، آج آپ کے درمیان آنے کا مجھے موقع ملا ہے۔ آپ سب کو ملک کی اعلی ترین خدمت کرنے کے لئے بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔ 2022 میں آزادی کے 75 سال ہوں گے۔ کیا سی اے جی 2022 آزادی کے 75 سال ایک ادارے کے طور پر ہمارے نشانے کیا ہوں گے۔ ہم اس ادارے کو مزید فرینڈلی کیسے بنائیں گے۔ پیداواری کیسے بنائیں گے۔ گڈ گورننس میں معاون کیسے بنیں گے۔ ہمارے ان تجربات کا استعمال خامیوں کو ڈھو نڈنے کی جس کی طاقت ہے، اس کی خامیوں کو روکنے کی بھی طاقت ہوتی ہے۔ کیا ہم ان سبھی پہلوؤں کے ساتھ وابستہ ہو کر اس بڑے ادارے کا ہم مزید متاثر کن استعمال کر سکتے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ یہ ممکن ہے۔
آپ کو لگے گا کہ فائلیں دیکھ دیکھ کر کے تنگ آ جاتے ہیں اور یہ وزیر اعظم چار کام نئے دے کر کے جا رہا ہے۔ لیکن میں مانتا ہوں کہ پھر آپ کا جو یہ بوجھ ہے، وہ اپنے آپ کم ہو جائے گا اور آپ کو بھی اطمینان ہو گا کہ آپ نے جو تعاون دیا ہے وہ ادارہ جاتی ہوا ہے جس طرح ملک کے نقشے کو جو ایک سوچ ہے، اس کو بدلنے میں بہت بڑا رول ادا کیا ہے اور یہ ہو سکتا ہے۔
ان ہی امیدوں کے ساتھ میری آپ کو بہت بہت مبارک باد۔ بہت بہت شکریہ۔