نئی دہلی،19 جولائی 2018؍آج مجھے ملک کے 18 ہزار مواضعات کے آپ سب بھائیوں سے ملاقات کا افتخار حاصل ہوا ہے، جنہیں پہلی بار بجلی دستیاب ہوئی ہے۔ صدیوں اندھیرے میں گزارا کیا اور شاید سوچا بھی نہیں ہوگا کہ آپ کے گاؤں میں کبھی اُجالا آئے گا۔ آج میرے لئے یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ مجھے آپ سب کی خوشیوں میں شامل ہونے کا موقع حاصل ہوا ہے۔ آپ کے چہروں کی مسکراہٹ بجلی آنے کے بعد آپ کی زندگی میں آئی تبدیلی کی باتیں، یہ اپنے آپ میں بہت بڑی بات ہے۔ جو لوگ پیدا ہوتے ہی اُجالا دیکھتے آئے ہیں، جنہوں نے کبھی اندھیرا نہیں دیکھا ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اندھیرا ختم ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ رات کو گھر یا گاؤں میں بجلی ہونے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ جنہوں نے کبھی اندھیرے میں زندگی نہیں گذاری ان کو پتا نہیں چل پاتا۔ ہمارے اُپنشدوں میں کہا گیا ہے، ’’تم سو ما جیوترگمے‘‘ یعنی تاریکی سے روشنی کی طرف لے چلو۔
آج مجھے ملک کے ان لوگوں سے ملنے کا موقع ملا ہے جنہیں اپنی زندگی میں تاریکی سے روشنی کا سفر طے کر نے کی خوش نصیبی حاصل ہوئی ہے۔ برسوں کے اندھیرے کے بعد ایک طرف اب اس گاؤں کی زندگی روشن ہوئی ہے۔ ہم سب کے پاس دن کے چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں۔ میرے پاس بھی چوبیس گھنٹے ہیں، آپ کے پاس بھی چوبیس گھنٹے ہیں۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ وقت کا بہتر سے بہتر استعمال کیا جائے تاکہ ہمارے، ہمارے کنبے، ہمارے سماج اور ہمارے ملک کی ترقی کا راستہ ہموار ہو سکے۔ لیکن آپ کے چوبیس گھنٹوں میں سے دس سے بارہ گھنٹے تک ہمیشہ کے لئے نکل جاتے ہیں۔ تب آپ کیا کرتے ہیں۔ کیا بچے ہوئے بارہ چودہ گھنٹے میں آپ اتنا ہی کام کر سکیں گے جتنا چوبیس گھنٹوں میں کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کسی کے پاس دن میں چوبیس گھنٹوں میں سے بارہ چودہ گھنٹوں کا وقت ہی ہو۔ میرے دیش واسیوں، گاؤں میں رہنے والے لاکھوں کنبوں نے کئی دہائیوں تک یہ زندگی جی ہے۔ ایسے گاؤں جہاں آزادی کے اتنے برس بعد بھی بجلی نہیں پہنچی تھی اور وہاں رہنے والوں کی زندگی سورج کے طلوع ہونے سے غروب ہونے تک درمیان سمٹ کر رہ گئی تھی۔ سورج کی روشنی ہی ان کے کام کرنے کے گھنٹے طے کرتی تھی۔ خواہ بچوں کی پڑھائی ہو، کھانا پکانا ہو، کھانا کھلانا ہو یا گھر کے اور چھوٹے موٹے کام ہوں۔ ملک کو آزاد ہوئے کتنی دہائیاں بیت چکی ہیں، لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جب ہم سرکار میں آئے اس وقت ملک کے اٹھارہ ہزار سے زائد مواضعات ایسے تھے جہاں بجلی تھی ہی نہیں۔ بڑی حیرانی ہوتی ہے یہ سوچ کر کہ آخر ایسی کون سی دشواری تھی جسے پار کرکے پچھلی سرکاریں تاریکی میں ڈوبے ہزاروں مواضعات تک بجلی نہیں پہنچا سکیں۔پچھلی سرکاروں نے بجلی پہنچانے کے وعدے تو بہت کیے لیکن وہ وعدے پورے نہیں کیے گئے۔ اس سمت میں کوئی کام نہیں ہوا۔ 2005 میں یعنی آج سے تقریباً تیرہ سال پہلے کانگریس کی سرکار میں منموہن سنگھ جی وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ 2009 تک ملک کے ہر گاؤں میں بجلی پہنچا دی جائے گی۔ اتنا ہی نہیں کانگریس کی صدر نے تو اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر کہا تھا کہ 2009 تک ملک کے ہر گاؤں کے ہر گھر میں بجلی پہنچا دی جائے گی۔ انہوں نے 2009 میں گاؤں جاکر پوچھ گچھ کی ہوتی، رپورٹ تیار کی ہوتی اور سول سوسائٹی کی بات کی ہوتی تو ہو سکتا ہے کہ 2009 میں نہیں تو 2010 میں ہی کام ہو جاتا ہے۔ یا زیادہ سے زیادہ 2011 میں یہ کا م ہو جاتا۔ لیکن اس وقت کے وعدے پورے نہیں کیے گئے۔ اس پر کوئی سنجیدگی سے غور ہی نہیں کرتا تھا۔ لیکن آج جب ہم وعدوں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں تو یہ تلاش کرنے کی کوشش ہوتی ہے کہ اس میں کمی کہاں ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہی جمہوریت کی طاقت ہوتی ہے۔ ہم لوگ اچھا کرنے کی مسلسل کوششیں کریں اور جہاں کمی رہ جاتی ہے اس کو اجاگر کرکے ٹھیک کرنے کی کوشش کریں۔ جب ہم سب مل کر کام کرتے ہیں تو اچھے نتیجے بھی نکلتے ہیں۔
15 اگست 2015 کو لال قلعے کی فصیل سے میں نے کہا تھا ہم نے نشانہ معین کیا تھا کہ ہم ایک ہزار دنوں کی مدت کے اندر ملک کے ہر گاؤں میں بجلی پہنچائیں گے۔ سرکار نے بغیر کسی قسم کی تاریخ کے اس سمت میں کام کرنا شروع کیا۔ اس میں کسی قسم کی تفریق و امتیاز نہیں کیا۔ شمال سے لے کر جنوب تک، اور مشرق سے لے کر مغرب تک ملک کے ہر حصے میں جو بھی گاؤں بجلی کی سہولت سے محروم تھے، پنڈت دین دیال اپادھیائے گرام جیوتی یوجنا کے تحت وہاں بجلی پہنچانے کے کام میں ہم سب مصروف ہو گئے۔ اس اسکیم کے تحت دیہی علاقوں میں بجلی کی سپلائی سے متعلق سبھی پہلوؤں کو شامل کیا گیا۔ اس یوجنا میں گاؤوں اور بستیوں کے الیکٹریفکیشن کے ساتھ ڈسٹریبیوشن سسٹم کو مضبوط کرنے اور کسانوں کو بجلی سپلائی کے لئے علاحدہ فیڈر دستیاب کرانے کا بھی کام شروع کر دیا گیا۔ یہ بات بھی یقینی بنائی گئی کہ ملک کے سبھی گاؤں اور اس سے جڑی بستیاں خواہ چھوٹی ہوں یا بڑی، انہیں اس اسکیم کے تحت ایک کے بعد ایک شامل کرتے جائیں اور اجالے کی توسیع ہوتی چلی گئی۔ کوئی بھی گاؤں یا بستی خواہ اس کی آبادی کتنی ہی کم کیوں نہ ہو، بجلی کی سہولت سے محروم نہ رہے، ہم اس نشانے کو لے کر کام کر رہے ہیں۔ جہاں پر گرڈ سے جڑنا ممکن نہیں ہے، ان گاؤوں اور ان بستیوں میں آف گرڈ ذریعہ سے بجلی کی سپلائی کرنے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ 28 اپریل 2018 کا دن ہندوستان کے سفر ترقی میں تاریخی دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ منی پور کا لائی سانگ گاؤں پاور گرڈ سے جوڑا جانے والا آخری گاؤں تھا۔ یہ دن ہر اہل وطن کے لئے لمحہ فخر و مسرت تھا اور مجھے خوشی ہے کہ آج آخر میں جہاں بجلی پہنچی ہے اس لائی سانگ گاؤں کے لوگوں سے میں بات چیت شروع کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے انہیں کی بات سنتے ہیں، ان کا کیا کہنا ہے۔ یہ گاؤں منی پور کے سینا پتی ضلع میں ہے۔
دیکھئے پیارے دیش واسیوں، ابھی ہم نے الگ الگ تجربات سنے، کہ کس طرح بجلی آنے سے زندگی آسان ہوگئی۔ جن اٹھارہ ہزار مواضعات میں بجلی نہیں پہنچ پائی تھی، ان میں سے بیشتر گاؤں دور دراز کے علاقوں میں واقع ہیں، جیسا کہ پہاڑی علاقوں کے برفیلے پہاڑوں میں، گھنے جنگلوں سے گھرے ہیں یا انتہا پسندی اور نکسل نوازوں کی حرکتوں کی وجہ سے بدامنی میں مبتلا ہیں۔ ان مواضعات میں بجلی پہنچانا کسی چیلنج سے کم نہیں تھا۔ یہ وہ گاؤں ہے جہاں آنے جانے کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہے۔ وہاں آسانی سے پہنچا نہیں جا سکتا۔ کچھ مواضعات ایسے بھی ہیں جہاں پہنچنے کے لئے تین چار دن پیدل چلنا پڑتا ہے۔ سامان کو الگ الگ وسائل سے گھوڑو پر، خچر پر، کندھوں پر لے کر ناؤوں سے لے جایا گیا۔ کئی گاؤوں مثلاً جموں کشمیر کے پینتس گاؤوں اور اروناچل پردیش کے سولہ گاؤوں میں ہیلی کاپٹروں سے سامان پہنچایا گیا۔ یہ میں مانتا ہوں کہ یہ محض سرکار کی کامیابی نہیں ہے، یہ ہر شخص کی کامیابی ہے۔ ان گاؤں والوں کی کامیابی جو اس کام سے جوڑے گئے تھے یا وہ چھوٹے موٹے سرکاری ملازم جو دن رات محنت کرتے رہے۔ ستون کھڑے کرنا ان چھوٹے چھوٹے سرکاری ملازمین کا ہی کام تھا۔ الیٹریشین ہو، ٹکنیشین ہو، مزدور ہو، یا اس کام سے جڑے دیگر لوگ۔ ان کی ان تھک کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج ملک کے ہر گاؤں میں بجلی پہنچائی جا چکی ہے۔ آج ہم ہندوستان کے ہر گاؤں تک روشنی پہنچا پائے ہیں۔ میں ان تمام لوگوں کا اپنے تمام اہالیانِ وطن کی جانب سے شکریہ ادا کرتا ہوں، نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
آپ دیکھئے ممبئی کی جب بھی بات آتی ہے تو ہمیں بڑی بڑی عمارتوں، روشنی سے جگمگاتے شہر اور سڑکیں یاد آتی ہیں۔ ممبئی سے تھوڑی دور پر الیپھنٹا کا جزیرہ واقع ہے۔ یہ سیاحت کا ایک بڑا اور پرکشش مرکز ہے۔ الیپھنٹا کے غار یونیسکو کے ورلڈر ہریٹج میں شامل ہیں۔ وہاں ملک اور غیر ملک سے ان گنت تعداد میں سیاح روزانہ آتے ہیں۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ممبئی کے اتنے پاس ہونے کے باوجود اور سیاحت کا اتنا بڑا مرکز ہونے کے باوجود آزادی کے بعد کے اتنے برسوں تک جزیرہ الیپھنٹا کے گاؤں میں بجلی نہیں پہنچی تھی۔ میں نے کبھی اخبار میں بھی نہیں پڑھا اور نہ ہی ٹی وی پر کوئی بڑا پروگرام دیکھا جس میں بتایا گیا ہو کہ وہاں بجلی نہیں ہے۔ کسی کو پرواہ نہیں تھی۔ ہاں اب خوشی کی بات ہے، اب ہم کام کر رہے ہیں تو لوگ پہنچ جاتے ہیں کہ بائیں جانب روشنی نہیں آئی، دائیں جانب نہیں آئی۔ پیچھے آئی آگے نہیں آئی۔ چھوٹی آئی بڑی نہیں آئی۔ سب ہو رہا ہے۔ اگر یہ چیزیں پہلے نہیں ہوئی ہوتیں تو کوئی سوچ سکتا ہے کہ ستّر سال تک ہم اپنے سیاحتی مقام جزیرے الیپھنٹا کے گاؤں کے لوگ اندھیرے میں زندگی گزار رہے تھے۔ سمندر میں کیبل کے ذریعہ وہاں تک بجلی پہنچائی گئی۔ آج ان گاؤں کا اندھیرا چھٹ چکا ہے۔ جب ارادے نیک ہوں، اور نیت صاف ہو، اور پالیسی واضح ہو تو مشکل سے مشکل نشانہ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
آیئے چلتے ہیں کچھ اور علاقوں میں، آیئے سب سے پہلے جھارکھنڈ چلتے ہیں ۔
دیکھئے بھائیو بہنو، پچھلی سرکاروں نے ملک کے مشرقی خطے کی ترقی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ یہ خطہ ترقی کی ان مختلف سہولتوں سے محروم رہا۔ اسی بات سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ملک 18000 سے زائد مواضعات جہاں بجلی نہیں پہنچی تھی ان میں سے یہ اعداد و شمار حیرت ناک ہیں۔ ان میں سے اٹھارہ ہزار یعنی ان اٹھارہ ہزار میں سے 14,582 یعنی تقریباً 15000 ایسے تھے جو ہمارے مشرقی علاقے کے تھے۔ آپ نے ٹی وی پر دیکھا ہوگا، میں ان کا نقشہ رکھا ہے، جو لال لال ٹائپ کے دکھائے دیتے ہیں، یہ سارے علاقے اندھیرے میں تھے۔ مجھے بتایئے اگر سب کا بھلا کرنے کے بارے میں سوچتے تو یہ حال ہوتا کیا۔ وہاں لوگ کم ہیں پارلیمنٹ کی سیٹیں بھی کم ہیں۔ تو ان سرکاروں کو زیادہ فائدہ نہیں دکھائی دیا۔ ملک کی خدمت سیاسی فائدوں سے جڑی نہیں ہوتی۔ ملک کی خدمت اہالیانِ وطن کے لئے ہوتی ہے۔ میرا ہمیشہ یہ ماننا رہا ہے کہ ہندوستان کے ترقی کے سفر میں اسی وقت تیز رفتاری پیدا ہوگی جب ہمارے مشرقی خطے کے لوگوں کا اور یہاں کے سماج کی متوازن ترقی تیز رفتاری سے ہوگی۔
جب ہماری سرکار اقتدار میں آئی تو ہم اسی نظریے کے ساتھ آگے بڑھے اور ہم نے شمال مشرقی خطے کی ترقی کو ملک کے مرکزی قومی دھارے سے جوڑنے کی سمت میں کوششیں شروع کی۔ اس کے لئے سب سے پہلے ضروری تھا کہ وہاں کے مواضعات میں بجلی پہنچے اور مجھے خوشی ہے کہ آج نہ صرف مشرقی ہندوستان بلکہ ملک کے ہر گاؤں میں بجلی پہنچ چکی ہے۔ گاؤں کا اندھیرا دور ہو چکا ہے۔ بجلی آتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔ زندگی میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں۔ آپ سے بہتر اس بات کو کون جان سکتا ہے۔ مجھے اہالیانِ وطن کے بہت سے خطوط آتے ہیں۔ لوگ مجھ سے اپنے تجربات بیان کرتے ہیں۔ مجھے ان کے خطوط کو پڑھ کر بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔
آپ تصور کر سکتے ہیں کہ بجلی آنے سے گاؤں کی عوامی زندگی میں کیسی تبدیلیاں آئی ہیں۔ اب گاؤں کے لوگوں پر تاریکی کا نہیں بلکہ ان کا اپنا حق ہوتا ہے۔ اب سورج غروب ہونے سے صرف سورج ہی غروب ہوتا ہے، لوگوں کا دن نہیں ڈوبتا۔ بچے دن ڈوبنے کے بعد بھی بلب کی روشنی میں آرام سے پڑھائی کر سکتے ہیں۔ خواتین اب رات کا کھانا جس کی تیاری پہلے دوپہر سے شروع ہو جایا کرتی تھی، جلدی جلدی شروع کر دو کا چکر چلا کرتا تھا۔ اب اندھیرے کے اس خوف سے نجات مل چکی ہے۔ ہاٹ بازار دیر تک رات کو کھلے ملیں گے۔ موبائل چارج کرنے کے لئے دور دراز کوئی دوکان تلاش نہیں کرنی پڑتی۔ اب رات کو دوسرے گاؤں میں موبائل چھوڑکر آؤ اور صبح لینے جاؤ اور اسی فون سے رات کو کوئی گڑبڑ کر دے ، تو سارا گناہ آپکا بن جاتا اور آپ جیل چلے جاتے۔ کیسی کیسی مصیبتیں تھیں۔ جموں کشمیر کے لوگ ہمارے درمیان ہیں۔ آیئے۔۔۔ وہاں تو بڑی مشکل سے ہیلی کاپٹر سے سارا سامان بھیجنا پڑتا تھا، تو میں چاہوں گا کہ جموں کشمیر کے بہنو بھائیو سے کچھ باتیں سنوں۔
دیکھئے آج جو لاکھوں لوگ ہمارے ساتھ جڑے ہیں، انہیں معلوم ہو رہا ہے کہ جب ترقی ہوتی ہے تو زندگی پر اس کے کتنے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کتنا بڑا بدلاؤ آتا ہے۔ آج ملک کے ہر گاؤں میں بجلی پہنچ چکی ہے۔ لیکن ہم بس اتنے سے ہی مطمئن نہیں ہیں۔ اس لئے اب گاؤں سے آگے بڑھ کر پنڈت دین دیال اپادھیائے جی کے انتودیہ کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کی ہماری سرکار نے کوششیں کرتے ہوئے ملک کے گھر گھر میں روشنی کرنے کا عہد کیا اور اس سمت میں سوبھاگیہ یوجنا سے کام شروع کیا گیا ہے۔ اس یوجنا کے تحت بچے ہوئے سبھی گھروں کو خواہ وہ گاؤں میں ہوں یا شہر میں، بجلی کا کنیکشن دستیاب کرایا جا رہا ہے اور اس کے تحت چار کروڑ غریب کنبوں کو بجلی کنیکشن دستیاب کرانے کا نشانہ معین کیا گیا ہے۔ ہم اس کے لئے ایک مشن موڈ میں کام کر رہے ہیں۔ ابھی تک اس یوجنا کے تحت تقریباً 80 85 90 لاکھ سے زائد گھروں میں بجلی پہنچ چکی ہے۔ غریب کنبوں کے لئے بجلی کنیکشن بالکل مفت ہے۔ جبکہ اہل کنبوں سے 500 روپئے لیے جائیں گے، جسے کنیکشن لگنے کے بعد دس آسان قسطوں میں آپ اپنے بجلی بل کے ساتھ ادا کر سکتے ہیں۔ گھروں میں بجلی پہنچانے کے نشانے کو معینہ مدت میں مکمل کرنے کے لئے جدید تکنیک کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ کم از کم وقت میں لوگوں کے گھر تک پہنچ سکے اس کے لئے گاؤں میں کیمپ بھی لگائے جا رہے ہیں۔ یہاں موقع پر ہی سارا عمل پورا کرکے نئے کنیکشن منظور کیے جا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ دور دراز کے اور دشوار گزار علاقوں میں رہنے والے کنبوں کے لئے شمسی توانائی پر مبنی نظام قائم کیے گئے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ بجلی صرف روشنی ہی نہیں دیتی بلکہ لوگوں میں خوداعتمادی پیدا کرتی ہے۔ توانائی دراصل ایک طرح سے غریبی کے خلاف لڑائی لڑنے کا اچھا وسیلہ بن سکتا ہے۔ گاؤں گاؤں تک پہنچی روشنی صرف سورج ڈوبنے کے بعد کا اندھیرا نہیں مٹا رہی ہے۔ یہ روشنی گاؤں کے لوگوں کی زندگی میں ترقی کا نور بھر رہی ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہےکہ آپ کی یہ باتیں جنہیں اس بدلاؤ کے بعد آپ نے تجربہ کیا اور یہاں ہم سے بیان کر رہے ہیں، سارے ملک نے آپ کو سنا ہے۔ کئی گاؤں اور بھی ہیں، وقت کی کمی ہے، پارلیمنٹ چل رہی ہے، مجھے پہنچنا ہے۔ لیکن کچھ گاؤں سے نمستے ضرور کرنا چاہوں گا۔ بستر کو نمستے، علی راج پور کو نمستے، سیہور کو نمستے، نوپاڑہ کو نمستے، سیتاپور کو نمستے اور کبھی کبھی آپ لوگ ٹی وی میں دیکھتے ہوں گے، اخباروں میں پڑھتے ہوں گے۔ ہمارے مخالفین کی تقریروں میں دیکھتے ہوں گے، دیکھو اتنے گھروں میں بجلی نہیں ہے۔ آپ یہ نہ سمجھئے کہ یہ ہمارا ٹیکہ یا ہماری سرکار کا ٹیکہ۔ یہ پچھلے 70 سال جو سرکار برسر اقتدار رہی، اس کا ٹیکہ ہے۔ یہ ہم پر تنقید نہیں ہے، ان کی نکتہ چینی ہے کہ اتنا کام باقی رکھا گیا ہے۔ ہم تو اس کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس لئے اگر آج چار کروڑ کنبوں میں بجلی نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کے گھر میں پہلے بجلی تھی، آپ کے گاؤں میں پہلے بجلی تھی۔ اور مودی سرکار نے آکر سب کاٹ دیا۔ کھمبے اکھاڑ کر لے گئے۔ تار سارے لے گئے۔ ایسا نہیں ہے۔ پہلے کچھ ہو یا نہ ہو۔ ہم لگانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس لئے وہ لوگ بڑے جوش میں آکر ہماری مخالفت کرتے ہیں اور ہمیں گالیاں دیتے ہیں کہ اس کنبے میں بجلی نہیں پہنچی، اس گھر میں بجلی نہیں ہے۔ ادھر کھمبا نہیں لگا ہے۔ پہلے کسی نے نہیں لگایا تھا۔ ہم کوشش کر رہے ہیں اور آپ کا تعاون ساتھ رہا اور چھوٹے چھوٹے لوگ جنہوں نے محنت کی ہے ہم ان کو مایوس کرنے کا کام نہیں کریں گے۔ مودی کو جتنی گالیاں دینی ہیں دیتے رہیئے، لیکن جو چھوٹے چھوے لوگ محنت کرتے ہیں، گاؤں میں روشنی لانے کے کوشش کرتے ہیں، ان کا مان سمنا بڑھایا جانا چاہئے تاکہ ان کا کام کرنے کا حوصلہ بلند ہو۔ اس کے لئے ہم سب مل کر کوشش کریں تو ملک میں جو مسائل ہیں، ایک کے بعد ایک سارے مسائل سے ہم اپنے گاؤں کو، اپنے کنبوں سے اپنے گاؤں سے اپنے دیش سے باہر نکال سکتے ہیں۔ کیونکہ آخر کار ہم سب کا کام ہے مسائل شمار کرتے جانا، یہ ہمارا کام نہیں ہے۔ ہمارا کام ہے مسائل سے نجات دلانے کے لئے راستے نکالنا۔
مجھے یقین ہے کہ خدا ہم سب کو طاقت دے گا۔ ہمارے ارادے نیک ہیں۔ آپ سب کے لئے ہمارے دل میں اتنا پیار ہے کہ جتنا ہم آپ کے لئے کریں کم ہے۔ ہم کرتے رہیں گے۔ میں آخر میں آپ کو ایک ویڈیو بھی دکھانا چاہتا ہوں۔ آیئے ہم ایک ویڈیو دیکھیں اس کے بعد میں اپنی بات ختم کروں گا۔