نئی دہلی، 04 جنوری2021: مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی ڈاکٹر ہرش وردھن جی، پرنسپل سائنٹیفک ایڈوائزر ڈاکٹر وجے راگھون جی ، سی ایس آئی آر کے سربراہ ڈاکٹر شیکھر سی مانڈے جی ، سائنس کی دنیا کے دیگر سبھی معزز شخصیات ،خواتین وحضرات!
نیشنل فزیکل لیباریٹری کی پلاٹینم جوبلی تقریب کی آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد!آج ہمارے سائنسداںنیشنل ایٹمک ٹائمزاسکیل اور ’بھارتیہ نردیشک درویہ پرنالی ‘ ملک کے نام وقف کررہے ہیں اورساتھ ہی ملک کی پہلی نیشنل اینوائرنمنٹل اسٹینڈرڈ لیباریٹری کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا ہے ۔ نئی دہائی میں یہ آغاز ملک کی شان بڑھانے والے ہیں۔
ساتھیو ،
نیا سال اپنے ساتھ ایک اور بڑی کامیابی لے کر آیا ہے۔بھارت کے سائنسدانوں نے ایک نہیں دو دو میڈ ان انڈیا کووڈویکسین تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ بھارت میں دنیا کا سب سے بڑا کووڈ ویکسین پروگرا م بھی شروع ہونے جارہا ہے اس کے لئے ملک کو اپنے سائنسدانوں کی خدمات پر بڑا فخر ہے۔ملک کا ہر باشندہ آپ سبھی سائنسدانوں کا ، ٹیکنیشینوں کا ،سب کا ممنون ہے۔
ساتھیو ،
آج اس وقت کو بھی یاد کرنے کا دن ہے جب ہمارے سائنسی اداروں نے ، آپ سب نے کوروناسے مقابلے کے لئے ویکسین کو تیار کرنے کے لئے دن رات ایک کردیا ۔سی ایس آئی آر سمیت دیگر اداروں نے ایک ساتھ آکر ہر چیلنج کا سامنا کیا، نئی صورتحال کا حل تلاش کیا ۔ آپ کے خودسپردگی کے اسی جذبے سے آج ملک میں اپنے ان سائنسی اداروں کے بارے میں بیداری اور احترام کا ایک نیا جذبہ پیدا ہوا ہے۔ہمارے نوجوان آج سی ایس آئی آر جیسے ادارو ں کے بارے میں اور زیادہ جاننا اور سمجھنا چاہ رہے ہیں ۔اس لئے میں چاہوںگا کہ سی ایس آئی آر کے سائنسداں ملک کے زیادہ سے زیادہ اسکولوں کے ساتھ ،طلبا اور طالبات کےساتھ بات چیت کریں۔کورونادور کے اپنے تجربات کو اور اس تحقیقی شعبے میں کئے گئے کاموں سے نئی نسل کو متعارف کرائیں ۔اس سے آنے والے کل میں آپ کو نوجوان سائنسدانوں کی نئی نسل تیار کرنے میں ، انہیں تحریک دینے میں بڑی مدد ملے گی۔
ساتھیو،
تھوڑی دیر پہلے ساڑھے سات دہائیوں کی آپ کی حصولیابیوں کا یہاں ذکر ہوا ہے۔ان برسوںمیں اس ادارے کی متعدد عظیم شخصیات نے ملک کی اچھی سے اچھی خدمت کی ہے۔ یہاں سے نکلنے والے حلوں نے ملک کی راہ روشن کی ہے ۔ سی ایس آئی آر این پی ایل نے ملک کی ترقی کے سائنسی ارتقا اور اندازہ قدر دونوں میں اپنا اہم رول نبھایا ہے۔ گزشتہ برسوں کی حصولیابیوں اور مستقبل کے چیلنجوں پر بات چیت کے لئے آج یہاں کنکلیو ہورہا ہے۔
ساتھیو ،
آپ جب پیچھےدیکھتے ہیں تو ، آپ کی شروعات غلامی سے باہر نکلے ، بھارت کی تعمیر نو کے لئے کی گئی تھی۔ وقت کےساتھ ساتھ آپ کے رول میں مزید توسیع ہوئی ہے۔ اب ملک کے سامنے نئے نشانے ہیں، نئی منزلیں بھی ہیں ، ملک سال 2020 میں اپنی آزادی کے 75 سال پورے کررہا ہے، سال 2047 میں ہماری آزادی کے 100سال پورے ہوں گے۔اس مدت میں ہمیں خودکفیل بھارت کے نئے عزائم کو ذہن میں رکھتے ہوئے نئے معیارات ، نئے پیمانوں – نیو اسٹینڈرڈ ز ، نیو بینچ مارکس تیار کرنے کی سمت میں آگے بڑھنا ہی ہے۔
ساتھیو،
سی ایس آئی آر این پی ایل تو ایک طرح سے بھارت کا ٹائم کیپر ہے۔ یعنی بھارت کے وقت کی دیکھ بھال ، انتظام آپ کے ہی ذمہ ہے۔ جب وقت کی ذمہ داری آپ کی ہے تو وقت کی تبدیلی بھی آپ سے شروع ہوگی۔ نئے وقت کی نئے مستقبل کی تعمیر بھی آپ سے ہی سمت حاصل کرے گی۔
ساتھیو ،
ہمارا ملک دہائیوں سے کوالٹی اور پیمائش کے لئے غیر ملکی معیارات پر انحصار کرتا رہا ہے لیکن اس دہائی میں بھارت کو اپنے معیارات کو نئی اونچائی دینی ہوگی ۔ اس دہائی میں بھارت کی رفتار ، بھارت کی ترقی ، بھارت کا فروغ ، بھارت کی امیج ، بھارت کی صلاحیت ، ہماری صلاحیت سازی ، ہمارے معیارات سے ہی طے ہوں گے۔ ہمارے ملک میں خدمات کا معیار ہو ، سرکاری شعبہ ہو یا نجی شعبے میں ہمارے ملک میں مصنوعات کی کوالٹی ہو، چاہے سرکار بنائے یا پرائیویٹ سیکٹر ، ہمارے کوالٹی اسٹینڈرڈ ہی یہ طے کریں گے کہ دنیا میں بھارت اور بھارت کی مصنوعات کی طاقت کتنی زیادہ بڑھے ۔
ساتھیو ،
یہ میٹرولوجی عام زبا ن میں کہیں تو ماپنے ناپنے کی سائنس یہ کسی بھی سائنسی حصولیابی کے لئے بھی بنیاد کی طرح کام کرتی ہے۔ کوئی بھی ریسرچ ماپ اور ناپ کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ یہاں تک کہ ہمیں اپنی حصولیابی کی بھی کسی نہ کسی پیمانے پر پیمائش کرنی ہی پڑتی ہے ، اسی لئے میٹرولوجی جدید یت کا سنگ بنیاد ہے۔جتنی بہتر آپ کی میتھڈولوجی ہوگی اتنی ہی بہتر میٹرولوجی ہوگی اور جتنی قابل اعتماد میٹرولوجی جس ملک کی ہوگی ، اتنا ہی دنیا میں وہ ملک قابل اعتماد ہوگا۔ میٹرولوجی ہمارے لئے مرر کی طرح ہوتی ہے ۔ دنیا میں ہماری مصنوعات کہاں اسٹینڈ کررہی ہیں ، ہمیں کیا اصلاح کرنے کی ضرورت ہے ، یہ پہچان ، یہ سیلف انٹرواسپیکشن میٹرولوجی سے ہی تو ممکن ہوتا ہے۔ اس لئے آج جب ملک آتم نربھر بھارت ابھیان ، اس کا عز م لے کر آگے بڑھ رہا ہے، تو ہمیں یاد رکھنا ہے کہ اس کا مقصد کوانٹیٹی بھی ہے لیکن ساتھ ساتھ کوالٹی بھی اتنی ہی اہم ہے ۔ یعنی اسکیل بھی بڑھے اور ساتھ ساتھ اسٹینڈرڈ بھی بڑھے ، ہمیں دنیا کو صرف بھارتی مصنوعات سے بھر نا نہیں ہے ، ڈھیر نہیں کھڑے کرنے ہیں ، ہمیں بھارتی مصنوعات کو خرید نے والے ہر ایک کسٹمر کا دل بھی جیتنا ہے اور دنیا کے ہرکونے میں دل جیتنا ہے۔ میڈ ان انڈیا کی نہ صرف عالمی مانگ ہو بلکہ عالمی ایکسپٹنس بھی ہو ، ہمیں یہ یقینی بنانا ہے ، ہمیں برانڈ انڈیا کو کوالٹی ، کریڈی بلٹی کے مضبوط ستونوں پر اور مضبوط بنانا ہے ۔
ساتھیو ،
مجھے خوشی ہے کہ بھارت اب اس سمت میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ۔آج بھارت دنیا کے ان ملکوں میں جن کے پاس اپنا نیوی گیشن سسٹم ہے۔ناوک سے بھارت نے یہ کامیابی حاصل کرکے دکھائی ہے۔ آج اسی جانب ایک اور بڑا قدم اٹھایا گیا ہے ۔ آج جس بھارتی نردیشک درو یہ کو ملک کے نام وقف کیا گیا ہے ، یہ ہماری صنعتوں کی دنیا کو معیاری مصنوعات تیار کرنے کے لئے تحریک دے گا۔ اب فوڈ ،خوردنی تیل ، معدنیات ، ہیوی میٹلس ،جراثیم کش ادویات فارما اور ٹیکسٹائل جیسے متعددشعبوں میں اپنے ’سرٹیفائیڈ ریفرینس میٹریل سسٹم ‘ کو مضبوط کرنے کی طرف ہم تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اب ہم اس حالت کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں انڈسٹری ریگولیشن سینٹرک اپروچ کے بجائے کنزیومر اور ینٹیڈ اپروچ کی طرف بڑھے۔ ان نئے معیارات سے ملک کے ضلعوں میں وہاں کے لوکل پروڈکٹ کو عالمی پہچان دلانے کی مہم ہے ، اس کو بہت فائدہ ملے گا ۔اس سے ہمارے ایم ایس ایم ای سیکٹر کو خصوصی فائدہ ہوگا کیونکہ باہر کی جو بڑی مینوفیکچرنگ کمپنیاں بھارت آرہی ہیں ، ان کو یہیں پر بین الاقوامی معیار کی لوکل سپلائی چین ملے گی۔سب سے بڑی بات نئے معیارات سے برآمداور درآمد دو نو ں کی کوالٹی متعین ہوگی۔ اس سے بھارت کے عام صارفین کو بھی اچھا سامان ملے گا ، برآمدکار کی پریشانی بھی کم ہوگی، یعنی ہمارا پروڈکشن ، ہمارے پروڈکٹس ، کوالٹی میں جس قدر بہتر ہوں گے ،اتنی ہی طاقت ملک کی معیشت کو ملے گی۔
ساتھیو ،
ماضی سے لے کر دور حاضر تک آپ کبھی بھی دیکھیں ،جس ملک نے سائنس کو جس قدر آگے بڑھایا ہے وہ ملک اتنا ہی آگے بڑھا ہے۔ یہ سائنس ،ٹکنالوجی اور صنعت کا ’ویلیو کریئیشن سائیکل ‘ ہے ۔ سائنس سے کوئی ایجاد ہوتی ہے تو اسی کی روشنی میں ٹکنالوجی فروغ پاتی ہے اور ٹکنالوجی سے صنعت کھڑی ہوتی ہے ،نئی مصنوعات تیار ہوتی ہیں، نئے آئٹم نکلتے ہیں ، نئے پروڈکٹس نکلتے ہیں ۔ صنعت پھر نئی ریسرچ کے لئے سائنس میں انویسٹ کرتی ہے اور یہ سائیکل نئے امکانات کی سمت میں آگے بڑھتی جاتی ہے۔ سی ایس آئی آر ایم پی ایل نے بھارت کے اس ویلیو سائیکل کو آگے بڑھانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ آج جب ملک آتم نربھر بھارت کے نشانے کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے ، تب سائنس سے ماسک مینوفیکچرنگ کی اس ویلیو کریئشن سائیکل کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے،اس لئے سی ایس آئی آر کو اس میں بڑا رول نبھانا ہوگا ۔
ساتھیو ،
سی ایس آئی آر ایم پی ایل نے آج جس نیشنل ایٹمک ٹائم اسکیل کو ملک کے سپرد کیا ہے ، اس سے بھارت نینو سیکنڈ یعنی ایک سیکنڈ کے ایک ارب حصے تک وقت کو ماپنے میں بھی آتم نربھر بن گیا ہے۔2.8 نینو سیکنڈ کا یہ ایکسیوریسی لیبل حاصل کرنا اپنے آپ میں بہت بڑی صلاحیت ہے ،اب بین الاقوامی معیاری وقت کو ہمارے بھارتی معیاری وقت تین نینو سیکنڈ سے بھی کم کی ایکیوریسی لیبل سے میچ کررہا ہے ،اس سے اسروسمیت ہمارے جتنے بھی ادارے جدید ٹکنالوجی میں کام کررہے ہیں ان کو بہت مدد ملنے والی ہے۔ اس سے بینکنگ ،ریلوے ڈیفینس ،صحت ، ٹیلی کام ،موسم کی پیش گوئی ، آفات کا بندوبست ، بے شمار شعبوں سے منسلک جدید ٹکنالوجی میں بہت مدد ملے گی۔ اتنا ہی نہیں ہم جو انڈسٹری 4.0 کی بات کرتے ہیں ، اس انڈسٹری 4.0 کے لئے بھی بھارت کے رول کو مستحکم کرے گا۔
ساتھیو ،
آج کا بھارت ماحولیات کی سمت میں دنیا کی قیادت کی طرف بڑھ رہا ہے، لیکن ائیر کوالٹی اور اخراج کو ناپنے کی ٹکنالوجی سے لے کر ٹولز تک میں ہم دوسروں پر انحصار کررہے ہیں ۔آج اس میں بھی خود کفیلی کے لئے ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔اس سے بھارت میں آلودگی سے نمٹنے کے لئے زیادہ سستے اور موثر نظام تو تیار ہی ہوں گے،ساتھ میں ائیر کوالٹی اور اخراج سے جڑی ٹکنالوجی کے عالمی بازار میں بھارت کی حصہ داری بڑھ جائے گی۔ہمارے سائنسدانوں کی ہی مسلسل کوششوں سے بھارت آج یہ کامیابی حاصل کررہا ہے۔
ساتھیو ،
کسی بھی ترقی پذیر معاشرے میں ریسرچ زندگی کی ایک عام فطرت بھی ہوتی ہے اور ایک عام عمل بھی ہوتی ہے۔ ریسرچ کمرشیل اثرات بھی ہوتے ہیں،سوشل بھی ہوتے ہیں اور ریسرچ ہمارے علم کو ، ہمارے فہم کو وسعت دینے کے لئے کام آتی ہیں۔کئی بار ریسرچ کرتے وقت یہ اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ فائنل گول کے علاوہ بھی وہ اور کس سمت میں جائے گی۔مستقبل میں وہ اور کس کام آئے گی لیکن اتنا طے ہے کہ ریسرچ ،علم کا نیا باب کبھی بھی رائیگاں نہیں جاتا ہے۔ہمارے یہاں شاستروں میں جیسے کہا ہے نہ کہ آتما کبھی مرتی نہیں ہے ۔ میں مانتا ہو ں کہ ریسرچ بھی کبھی نہیں مرتی ہے۔ تاریخ میں ایسی کتنی ہی مثالیں ہیں کہ بابائے جینٹک مینڈل کے کام کو شناخت کب ملی ؟ ان کے جانے کے بعد ملی ۔ نکولا ٹیکسلا کے کام کی اہمیت بھی کافی بعد میں دنیا پوری طرح سمجھ سکی ۔ کئی ریسرچ ہم جس سمت میں ،جس مقصدکے لئے کررہے ہوتے ہیں وہ پورا نہیں ہوتا لیکن وہی ریسرچ کسی دوسرے سیکٹر میں معرکتہ الآرا ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر دیکھئے جگدیش چندر بوس جی نے کولکتہ کے پریڈینسی کالج میں مائیکرویو کا اصول پیش کیا ۔ سربوس اس کے کمرشیل استعمال کی جانب نہیں بڑھے لیکن آج ریڈیو کمیونی کیشن سسٹم اسی اصول پر کھڑا ہے ۔ عالمی جنگ کے وقت جو ریسرچ جنگ کے لئے تھی یا فوجیوں کو بچانے کے لئے ہوئی بعد میں انہوں نے ہی الگ الگ شعبوں کو ریولیوشنائز کردیا ۔ ڈرون بھی پہلے جنگ کے لئے ہی بنائے گئے تھے لیکن آج ڈرون سے فوٹو شوٹ بھی ہورہا ہے اور سامان کی ڈلیوری بھی ہورہی ہے۔ اسلئے آج یہ ضروری ہے کہ ہمارے سائنسداں خاص طور سے نوجوان سائنسداں تحقیق کے استعمال کے ہر امکان کا پتہ لگائیں ۔ ان کے شعبے سے باہر ان کی تحقیق کا استعمال کیسے ہوسکتا ہے۔ یہ سوچ ہمیشہ رہنی چاہئے ۔
ساتھیو ،
آپ کی چھوٹی سی ریسرچ کیسے دنیا کا مستقبل بدل سکتی ہے۔ کئی مثالیں ہیں دنیا میں ، دنیا میں اگر بجلی کی ہی مثال لے لیں تو آج زندگی کا کوئی ایسا حصہ نہیں ہے ، کوئی پہلو نہیں ہے ، جہاں بجلی کے بغیر گزارہ ہوسکے ۔ ٹرانسپوٹیشن ہو ، ترسیل ہو ، صنعت ہو یا پھر روز مرہ کی زندگی سب کچھ بجلی سے جڑا ہوا ہے۔ ایک سیمی کنڈکٹر کی ایجاد سے دنیا اتنی بدل گئی ہے ، ایک ڈجیٹل انقلاب نے ہماری زندگی کو کتنا مالامال کردیا ہے۔ ایسے کتنے ہی امکانات اس نئے مستقبل میں ہمارے نوجوان محققین کے سامنے کھڑے ہیں ۔آنےوالا مستقبل آج سے بالکل علیحدہ ہوگا اور اس سمت میں وہ ایک تحقیق ، وہ ایک ایجاد آپ کو ہی کرنی ہے۔ پچھلے چھ برسوں میں بھارت نے اس کے لئے نئے سرے سے مستقبل کے لئے تیار ایکوسسٹم بنانے کی سمت میں کام کیا ہے۔ آج بھارت عالمی اختراع کی رینکنگ میں دنیا کے ٹاپ 50 ملکوں میں شامل ہوگیا ہے۔ بھارت میں آج بنیادی تحقیق پر بھی زور دیا جارہا ہے اور پئیر ریویو سائنس اینڈ انجنئیرنگ پبلی کیشن کی تعداد میں بھارت دنیا کے ٹاپ تین ملکوں میں ہے۔آج بھارت میں صنعت اور اداروں کے درمیان تعاون بھی مستحکم کیا جارہا ہے ۔دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں بھی بھارت میں اپنے ریسرچ سینٹر اور سہولیات قائم کررہی ہیں ۔ گزشتہ برسوں میں ان فیسلٹیز کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے ۔
اس لئے ساتھیو ،
آج بھارت کے نوجوانوں کے پاس ریسرچ اوراختراع میں لامحدود امکانات ہیں۔لیکن آج ہمارے لئے جتنا اختراع اہمیت رکھتا ہے اتنا ہی اہم ہے اختراع کو انسٹی ٹیوشنلائز کرنا ۔یہ کیسے ہو ، اور انٹلیکچوول پراپرٹی کا تحفظ کیسے ہو، یہ بھی آج نوجوانوں کو سیکھنا ہے کہ ہمارے جتنے پیٹنٹ ہوں گے ، اتنی ہی افادیت ہمارے ان پیٹنٹ کی ہوگی۔ ہماری ریسرچ جتنے شعبوں میں لیڈ کرے گی، اتنی ہی آپ کی پہچان مضبوط ہوگی ، اتناہی برانڈ انڈیا مضبوط ہوگا۔ہم سب کو کرمنیہ وادھیکارستے ماپھلیشو کداچن کےمنتر سے اورجا لےکر کر م میں جٹے رہنا ہے اور شاید اس منتر کو جیون میں کسی نے اتارا ہے تو مجھے ہمیشہ لگتا ہے سائنسدانوں نے اتاراہے ۔ان کا یہی من رہتاہے وہ تجربہ گاہ میں ایک رشی کی طرح تپسیا کرتے رہتے ہیں۔ کرمنیہ وادھیکارستے ماپھلیشو کداچن کرم کرتے رہو پھل ملے یا نہ ملے وہ لگارہتا ہے۔ آپ صرف بھارت کی سائنس اور ٹکنالوجی کے ہی کرم یوگی نہیں ہیں بلکہ آپ 130 کروڑ سے زیادہ ہندوستانیوں کی امیدوں اورتوقعات کو پورا کرنے کے بھی سادھک ہیں ۔ آپ کامیاب ہوتے رہیں ، اسی خواہش کے ساتھ آپ کو نئے سال کی ایک بار پھر سے بہت بہت نیک خواہشات دیتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ !