نئی دہلی،14 جولائی 2018؍ وزیر اعظم نے کہا، ’’اتر پردیش کے گورنر جناب رام نائک جی یہاں کے اولوالعزم، نیک نام اور جفاکش وزیر اعلیٰ جناب یوگی آدتیہ ناتھ جی، مرکزی کابینہ میں میرے رفیق جناب منوج سنہا، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی اور میرے بہت پرانے دوست، اترپردیش بی جے پی کے صدر جناب مہیندر ناتھ پانڈے جی، جاپانی صفارت خانہ کے چارج دی افیئر جناب ہریکا اساری صاحب اور بنارس کے میرے بھائیو اور بہنو!‘‘
’’میں سب سے پہلے ہمارے ملک کے افتخار میں اضافہ کرنے والی ایک بیٹی کے افتخار کی تعریف کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ آسام کے نوگاؤں ضلع کے موضع دین گرام کی ایک چھوٹی سی بیٹی ہیما داس نے کمال کر دیا۔ آپ سب نے ٹی وی پر دیکھا ہوگا، میں نے آج خاص طور سے ایک ٹوئیٹ کیا تھا۔ اس اسٹیڈیم میں جو کمینٹیٹر کے لئے، ان کے لئے بھی عجوبہ تھا کہ عالمی چیمپئن شپ کو شکست دے کر ہندوستان کی ایک بیٹی ہر لمحہ آگے بڑھ رہی ہے۔ وہ مبصر یا کمینٹیٹر جس جوش و جذبے کے ساتھ بول رہے تھے اسے سن کر سبھی ہندوستانیوں کا سینہ چوڑا ہو گیا ہوگا۔ بعد میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہیما داس نے ایک بہت بڑا کام کرکے بھارت کا نام روشن کر دیا اور طے ہوا کہ وہ جیت گئی ہیں تو وہ اپنا ہاتھ اُٹھا کر ترنگے جھنڈے کا انتظار کرتے ہوئے دوڑ رہی تھیں، اور دوسرا یہ کہ وہ اپنے دل میں جیت کا عزم لیے بیٹھی تھیں۔ اپنی جیت کے ساتھ ہی انہوں نے ترنگا جھنڈا پھیرایا اور جب ان کو میڈل سے نوازا جا رہا تھا، اس وقت ہندوستان کا ترنگا جھنڈا لہرا رہا تھا اور قومی ترانہ جن گن من گایا جا رہا تھا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اٹھارہ سال کی ہیما داس کی آنکھوں سے گنگا جمنا بہہ رہی تھی۔ انہوں نے اپنے آپ کو ہندوستان کے لئے وقف کر دیا تھا۔ سوا سو کروڑ ہندوستانیوں کے لئے یہ منظر ایک نیا حوصلہ اور توانائی دینے والا منظر تھا۔ آسام کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں دھان کی کھیتی کرنے والے کسان کنبے کی بیٹی اٹھارہ ماہ پہلے ضلع میں کھیلتی تھی۔ کبھی ریاستی سطح پر نہیں کھیلا تھا۔ وہ آج اٹھارہ مہینے کی مدت کے اندر دنیا بھر میں ہندوستان کا نام روشن کرکے آگئی۔ میں ہیما داس کو بہت مبارکباد دیتا ہوں اور بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں اور آپ سے بھی کہتا ہوں کہ آپ پورے ملک میں آسام کا نام روشن کرنے والی اس بیٹی کو مبارکباد دیں۔‘
’’بھائیوں اور بہنوں، بابا بھولے ناتھ کا پسندیدہ مہینہ ساون شروع ہونے والا ہے۔ کچھ ہی دنوں میں کاشی میں ملک اور دنیا بھر کے شِو بھکتوں کا میلا لگنے والا ہے۔ اس میلے کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ بھائیو اور بہنو آج جب ہم اس میلے کی تیاریوں میں مصروف ہیں تو سب سے پہلے میں ان کنبوں کی تکلیف اور اذیت کو بانٹنا چاہتا ہوں جنہوں نے گذشتہ روز ہوئے حادثوں میں اپنوں کو کھو دیا ہے۔ بنارس میں جو حادثہ ہوا، انمول انسانی زندگی کا جو نقصان ہوا، وہ بہت ہی افسوسناک ہے۔ اس حادثے سے متاثر ہونے والے سبھی کنبوں کے تئیں میں دل کی گہرائیوں سے تعزیت کرتا ہوں۔ دوسروں کی تکلیف اور اذیت بانٹنا اور خیر سگالی کا جذبہ ہی تو کاشی کی خصوصی پہچان ہے۔ بھولے بابا کے جیسا بھولاپن سب کے دکھ درد کو اپنی ذات میں جذب کرنے والی ماں گنگا جیسی عادت اور فطرت ہی بنارس کی پہچان ہے۔ دیش اور دنیا میں بنارسی کہیں بھی رہے وہ ان قدروں کو اور وہ مقدس رسم و رواج کو بھولتا نہیں ہے۔ ساتھیو، بنارس صدیوں سے یوں ہی بنا ہوا ہے۔ روایات میں رچا بسا ہوا ہے۔ اس کی دیومالائی شناخت کو بلندیاں دینے والے کاشی کو اکیسویں صدی کی ضرورت کے حساب سے فروغ دینے کی کوششیں گذشتہ چار برسوں سے مسلسل جاری ہیں۔ نیو انڈیا کے لئے ایک نئے بنارس کی تعمیر ہو رہی ہے۔ جس کی روح تو قدامت پرست ہے لیکن جسم نیا بنایا جائے گا۔ یہاں کے ذرے ذرے میں تہذیب اور قدریں ہوں گی، لیکن انتظامات اسمارٹ سسٹم سے لیس ہوں گے۔ بدلتے ہوئے بنارس کی یہ تصویر اب ہر طرف دکھائی دینے لگی ہے۔ ‘‘
’’آج میڈیا میں، سوشل میڈیا میں کاشی کی سڑکوں، چوراہوں، چوپالوں، گلیوں، گھاٹوں اور تالابوں کی تصویر جو بھی دیکھتا ہے اس کا دل خوش ہو جاتا ہے۔ سر پر لٹکتے بجلی کے تار اب غائب ہو چکے ہیں۔ سڑکیں روشنی میں نہا رہی ہیں۔ رنگ برنگی روشنی کے درمیان فواروں کا منظر دل کو چھو لینے والا ہوتا ہے۔ ساتھیو، گذشتہ چار برسوں کے دوران بنارس میں ہزاروں کروڑ کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے اور یہ سلسلہ مسلسل جاری رہے گا۔ 2014 کے بعد کے دنوں میں ہمیں کئی چیلینجز درپیش تھے۔ سابقہ سرکار سے کاشی کی ترقی کے لئے بہت زیادہ تعاون حاصل نہیں ہو سکا، تعاون تو چھوڑیئے رکاوٹیں پیدا کردی گئیں۔ لیکن جب سے آپ نے زبردست اکثریت سے لکھنؤ میں بھاجپا کی حکومت کو حمایت دی ہے، تب سے پورے اترپردیش میں کاشی کی ترقی کی رفتار بھی تیز ہو گئی ہے۔ اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے ابھی ابھی میں نے تقریباً ایک ہزار کروڑ روپئے کی اسکیمیں ملک و قوم کو پیش کی ہیں اور ان کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ مرکز اور ریاستی سرکار کے یہ تیس سے زائد پروجیکٹ یہاں کی سڑکوں، ٹرانسپورٹ، پانی کی سپلائی، سیویج، رسوئی گیس، صفائی ستھرائی اور اس شہر کی حسن کاری، اس سے وابستہ ہے۔ اس کے علاوہ انکم ٹیکس ٹریبیون کی سرکٹ بینچ اور مرکزی سرکار کے ملازمین کے لئے سی جی ایچ ایس کے ویلنیس سینٹر کی سہولت بھی یہاں کے لوگوں کو دستیاب کرائی جانے والی ہے۔‘‘
’’بھائیو اور بہنو، بنارس میں جو بھی تبدیلیاں آ رہی ہیں، ان کا فائدہ آس پاس کے مواضعات کوحاصل ہو رہا ہے۔ ان مواضعات میں پینے کے پانی سے جڑی کئی اسکیموں کا بھی آج آغاز ہوا ہے۔ میں آج یہاں موجود تمام کسان بہنو اور بھائیو کو خاص طور سے مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔ اس جلسۂ عام کے پاس ہی پیریشیبل کارگو سینٹر قائم ہے جو تعمیر کے بعد پوری طرح تیار ہے۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے اس کا سنگِ بنیاد رکھنے کا موقع ملا تھا اور آج اسے ملک و قوم کو پیش کرنے کی خوش نصیبی مجھے حاصل ہوئی ہے۔ ساتھیو، کارگو سینٹر یہاں کے کسانوں کے لئے بہت بڑا عطیہ ثابت ہونے والا ہے۔ آلو، مٹر، ٹماٹر، جیسی سبزیاں جو بہت کم وقت میں خراب ہو جاتی تھیں، ان کو محفوظ طریقے سے رکھے جانے کی سہولت یہاں تیار کی گئی ہے۔ اب آپ کو یہاں پھلوں اور سبزیوں کے سڑنے گلنے کا نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا۔ ریلوے اسٹیشن بھی بہت دور نہیں ہے جس سے سبزیوں اور پھلوں کو دوسرے شہروں کو بھیجنے میں بھی آسانی پیدا ہوگی۔‘‘
’’بھائیو اور بہنو، ٹرانسپورٹیشن سے ٹرانسفورمیشن یعنی نقل و حمل اور آمدورفت سے تبدیلی تک کے راستے پر یہ سرکار تیز رفتار سی آگے بڑھ رہی ہے۔ خاص طور سے ملک کے اس مشرقی علاقے پر ہمارا سب سے زیادہ فوکس رہا ہے۔ کچھ دیر قبل اعظم گڑھ میں ملک کے سب سے طویل ایکسپریس وے کا سنگِ بنیاد بھی اسی ویژن کا حصہ ہے۔‘‘
’’ساتھیو، کاشی کی نگری ہمیشہ نجات دہندہ رہی ہے اور زندگی کی تلاش و جستجو میں یہاں آنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ لیکن اب زندگی میں آنے والی مصیبتوں کو میڈیکل سائنس کے وسیلے سے کم کرنے کا مرکز بھی یہ بستی بنتی جا رہی ہے۔ آپ کے تعاون سے بنارس مشرقی ہندوستان کے ایک ہیلتھ ہب کی شکل میں ابھرنے لگا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں ہمارا جانی مانی معروف بنارس ہندو یونیورسٹی آج علاج و معالجے کے شعبے میں بھی پہچانی جانے لگی ہے۔ آپ کو یہ جان کرکے خوشی ہوگی کہ ابھی حال ہی میں بی ایچ یو نے ایمس کے ساتھ ایک ورلڈ کلاس ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ بنانے کا معاہدہ کیا ہے۔ اس ادارے کی تعمیر شروع ہو گئی ہے اور جلد ہی اس کے نتائج آپ کے سامنے آنے لگیں گے۔ ایسے میں بنارس والوں کے ساتھ ہی یہاں آنے جانے والوں کے لئے بھی رابطہ کاری بہت اہم ہے۔ اس لئے سڑک ہو یا ریل، آج متعدد نئی سہولتیں کاشی میں دستیاب ہیں۔ اسی سمت میں یہاں کے کینٹ ریلوے اسٹیشن کو نیا رنگ روپ دینے کا کام چل رہا ہے۔ وارانسی کو الہٰ آباد اور چھپرا سے جوڑنے والے ٹریک کی ڈبلنگ کا کام تیز رفتاری سے جاری ہے۔ وارانسی سے بلیا تک برق کاری کا کام پورا ہوچکا ہے اور آج سے اس سیکشن پر نینو گاڑیوں کی آمد بھی شروع ہو گئی ہے۔ ابھی میں نے ہری جھنڈی دکھا کر ایسی ایک ٹرین کو روانہ کیا ہے۔ اب صبح اس گاڑی سے بلیا اور غازی پور کے لوگ یہاں آ سکیں گے اور شام کو اپنا کام کرکے اسی ٹرین سے واپس بھی جا سکیں گے۔ اب طویل دوری کی ٹرینوں کی بھیڑ بھاڑ سے یہاں کے لوگوں کو راحت ملنے والی ہے۔‘‘
’’ساتھیو، یہاں کاشی میں بھکتوں کو، عقیدت مندوں کو بہتر سہولتیں دستیاب کرانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ دیش اور دنیا سے بابا بھولے
کے بھکت یہاں کاشی آتے ہیں۔ ان کو یہاں آنے جانے میں کوئی دشواری نہ ہو، ایسا انتظام کیا جا رہا ہے۔ پنچ کوشی مارگ کو چوڑا کرنے کا کام بھی آج سے شروع ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عقیدے اور تہذیبی اہمیت کے
جتنے بھی مقامات کاشی میں ہیں ان کو جوڑنے والی دو درجن سڑکوں کو یا تو بہتر بنایا گیا ہے یا پھر نئے سرے سے ان کی تعمیر کی گئی ہے۔ یہ سڑکیں بھی اب سے تھوڑی دیر قبل ملک و قوم کے نام وقف کی جا چکی ہیں۔‘‘
’’بھائیو بہنو، کاشی سیاحت کے عالمی نقشے پر خصوصیت کے ساتھ ابھر رہا ہے۔ آج یہاں انٹرنیشنل کنورژن سینٹر رودراکش کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ اب سے دو سال قبل جاپان کے وزیر اعظم اور میرے قریبی دوست جناب شنجو آبے جب میرے ساتھ کاشی آئے تھے تو انہوں نے یہ تحفہ ہندوستان کو اور کاشی والوں کو دیا تھا۔ آپ سبھی کاشی والوں کی طرف سے، اہالیان وطن کی طرف سے میں اس تحفے کے لئے جاپان کے وزیراعظم جناب شنجو آبے کا دل کی گہرائیوں سے ممنون ہوں۔‘‘
’’ساتھیو، مجھے خوشی ہے کہ کاشی ہی نہیں بلکہ پورے یوپی میں سیاحت کو یوگی جی اور ان کی ٹیم فروغ دے رہی ہے۔ اس کے لئے صفائی اور وراثتوں کی حسن کاری کا کام تیزی سے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ خاص طور سے صفائی ستھرائی کے سوَچھ بھارت مشن کو جس طرح آپ سبھی نے اتر پردیش کے عوام نے آگے بڑھایا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ سوَچھ، صاف ستھرے، خوبصورت اور تندروست ہندوستان کے لئے آپ کا یہ تعاون قابلِ تعریف ہے۔ ساتھیو، کاشی کی عظمت اس کی تاریخی حیثیت کو بنائے رکھنے کے لئے آپ جو کر رہے ہیں وہ بے نظیر ہے۔ ‘‘
’’لیکن ہمیں اب سے چار برس پہلے کا وہ وقت بھی نہیں بھولنا چاہئے جب وارانسی کا نظام مصیبتوں سے دوچار تھا۔ ہر طرف کوڑا کچرا، گندگی، ٹوٹے پھوٹے پارک، خراب سڑکیں، اووَر فلو ہوتے سیور، کھمبوں سے لٹکتے بجلی کے تار، جام سے پریشان پورا شہر، بابر پورا ائیرپورٹ سے شہر کو جوڑنے والی اس سڑک کو آپ بھولے نہیں ہوں گے جس پر آپ کا انحصار ہوتا تھا۔ نہ جانے کتنے لوگوں کو پریشانی ہوئی ہوگی۔ کتنوں کی فلائٹ مِس ہوئی ہوگی۔ حالت یہ تھی کہ لوگ پریشانی سے بچنے کے لئے ائیرپورٹ کے بجائے کینٹ ریلوے اسٹیشن کا رخ کرتے تھے۔ گنگا جی کا، گھاٹوں کا کیا حال تھا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کس طرح پورے شہر اور گاؤں کی گندگی، کوڑا کرکٹ، سب گنگا جی میں بہایا جا رہا تھا۔ لیکن پہلے کی سرکار کی اس کی طرف سے بالکل لاپرواہ تھی۔ گنگا جی کے نام پر کتنا پیسہ پانی میں بہہ گیا۔ اس کا کوئی حساب نہیں۔ ایک طرف گنگا جی کے بہاؤ پر مصیبت تھی۔ گنگا کے پانی کی صفائی کی مصیبت تھی، وہیں دوسری طرف لوگوں کی تجوریاں اوپر سے نیچے تک بھری رہتی تھیں۔ ایسی حالت میں گنگا جی کو صاف کرنے کا بیڑا اٹھایا گیا۔ آج ماں گنگا کو صاف کرنے کی مہم تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔ بنارس ہی نہیں بلکہ گنگوتری سے گنگا ساگر تک بیک وقت کوششیں جاری ہیں۔ صرف صاف صفائی نہیں بلکہ شہروں کی گندگی گنگا میں نہ گرے، اس کا بھی انتظام کیا جا رہا ہے۔ اس کے لئے اب تقریباً اکیس ہزار کروڑ روپئے کی دو سو سے زائد اسکیموں کا سنگ بنیاد رکھا جا چکا ہے اور انہیں ملک و قوم کے لئے وقف کیا جا چکاہے۔ ساتھیو، سرکار اس بات کو بھی یقینی بنا رہی ہے کہ جو سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹ بنائے جائیں وہ ٹھیک سے چلیں، بے روک طریقے سے کام کرے۔ کیونکہ پہلے کی سرکار کا تو یہ ورک کلچر رہا ہے کہ ٹریٹمنٹ پلانٹ تو بنائے جاتے تھے لیکن نہ تو وہ اپنی اہلیت کے مطابق کام کرتے تھے اور نہ ہی طویل مدت تک چل پاتے تھے۔ اب جو بھی پلانٹ تعمیر کیے جا رہے ہیں ان کے ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنایا جا رہا ہے کہ وہ کم سے کم پندرہ سال تک چل سکیں۔ یعنی ہمارا زور صرف سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹ بنانے پر ہی نہیں بلکہ انہیں چلانے پر بھی ہے۔ اس میں وقت اور محنت زیادہ لگتی ہے لیکن ایک مستقل نظام تیار کیا جا رہا ہے۔ آنے والے وقت میں اس کا نتیجہ بنارس کے لوگوں کو بھی دکھائی دینے لگے گا۔‘‘
’’بھائیو اور بہنو، یہ جو بھی کام آج ہو رہا ہے۔ وہ بنارس سٹی کو اسمارٹ سٹی میں بدلنے والا ہے۔ یہاں انٹیگریٹڈ کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر پر تیزی سے کام کیا جا رہا ہے۔ پورے ملک کے انتظام کا، عوامی سہولتوں کا انتظام اور نگرانی یہیں سے ہونے والی ہے۔ ایسے تقریباً دس پروجیکٹوں پر کام جاری ہے۔ ساتھیوں، اسمارٹ سٹی صرف شہروں کی انفراسٹرکچر کو سدھارنے کی مہم ہی نہیں ہے بلکہ یہ ملک کو ایک نئی شناخت اور ایک نئی پہچان دینے کا مشن ہے۔ یہ ینگ انڈیا نیو انڈیا کی علامت ہے۔ اسی طرح میک ان انڈیا اور ڈجیٹل انڈیا مشن بھی عام زندگی کو سہل اور آسان بنانے کا کام کر رہے ہیں۔ اس میں ہمارا اتر پردیش بھی سرفہرست کردار ادا کر رہا ہے۔ میں یوگی جی اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں کہ آپ نے جو صنعتی پالیسی بنائی ہے۔ سرمایہ کاری کے لئے جو ماحول تیار کیا ہے، اس کے نتائج آج سامنے آنے لگے ہیں۔ کچھ دن پہلے نوئیڈا میں سیم سنگ کی فون بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی فیکٹری کا افتتاح کرنے کا موقع مجھے حاصل ہوا تھا۔ اس سے روزگار کے ہزاروں مواقع پیدا ہوں گے۔ آپ کو یہ جان کر انتہائی فخر ہوگا کہ گذشتہ چار برسوں میں موبائل فیکٹریاں، موبائل بنانے والی فیکٹریوں کی تعداد ملک میں دو سے بڑھ کر ایک سو بیس ہو گئیں ہیں جس میں سے پچاس فیصد سے زائد فیکٹریاں ہمارے اترپردیش میں ہیں۔ آج یہ فیکٹریاں چار لاکھ سے زائد نوجوانوں کو روزگار فرام کرا رہی ہیں۔‘‘
’’ساتھیوں، میک ان انڈیا کے ساتھ ساتھ ڈجیٹل انڈیا بھی روزگار کا روشن وسیلہ ثابت ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں آج یہاں پر ٹاٹا کنسلٹینسی سروسز یعنی ٹی سی ایس کے بی پی او کے کام کا آغاز ہوا ہے۔ یہ سینٹر بنارس کے نوجوانوں کے لئے روزگار کے نئے مواقع لے کر آئے گا۔ بھائیوں اور بہنوں، جب روزگار کی بات آتی ہے تو یہاں بھی سرکار ماتاؤں اور بہنوں پر خصوصی سے توجہ دے رہی ہے۔ سواراج روزگار کے لئے مُدرا یوجنا کے وسیلے سے گارنٹی کے بغیر قرض اور ایل پی جی کا مفت سلینڈر۔ غریب ماؤں اور بہنوں کی زندگی میں تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ سبھی تک صاف ستھرا ایندھن پہنچانے کے لئے یہاں کاشی میں ایک بہت بڑے پروجیکٹ پر کام جاری ہے۔ آج سٹی گیس ڈسٹری بیوشن سسٹم کا افتتاح اسی کا ایک حصہ ہے۔ اس کے لئے الہٰ آباد سے بنارس تک پائپ لائن بچھائی گئی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اب تک بنارس میں آٹھ ہزار گھروں سے زیادہ گھروں تک اسے پہنچانے کا کام جاری ہے اور مستقبل میں اسے چالیس ہزار گھروں تک پہنچانے کے منصوبوں پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔ ساتھیوں، یہ صرف ایک ایندھن سے جڑا انتظام نہیں ہے، بلکہ شہر کے پورے فضائی نظام کو بدلنے کی ایک مہم ہے۔ پی این جی ہو یا سی این جی یہ انفراسٹرکچر شہر کی آلودگی میں بھی کمی لائے گا۔ آپ سوچئے جب بنارس کی بسیں، کاریں اور آٹو سی این جی سے چلیں گے تو اس سے جڑے کتنے نئے روزگار پیدا ہوں گے۔‘‘
’’ساتھیو، جب بھی میں جاپان کے وزیر اعظم سے ملتا ہوں یا کوئی بھی ہندوستانی جاپان کے وزیر اعظم سے ملتا ہے تو میں مسلسل دیکھ رہا ہوں کہ میرے دوست جاپان کے وزیر اعظم سے جو بھی ملتا ہے اس کو کاشی کے تجربات ضرور بتائے جاتے ہیں۔ وہ بار بار دوہراتے ہیں کہ کاشی نے کس طرح ان کا استقبال کیا۔ پچھلے دنوں فرانس کے صدر مملکت میرے ساتھ یہاں آئے تھے۔ اور اب کاشی والوں نے پلکے بچھا کر فرانس کے صدر مملکت کا باوقار استقبال کیا۔ پورا فرانس آج فخر کے ساتھ اس کا تذکرہ کرتا ہے۔ فرانس کے صدر مملکت جس کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یہ کاشی کی روایت رہی ہے، یہ کاشی کا اپنا پن ہے۔ یہ کاشی نے دنیا میں اپنی خوشبو پھیلائی ہے۔ کاشی کا یہ دلار اور یہ محبت بے مثال ہے۔ میرے کاشی کے بھائیو بہنو، آپ کو پھر ایک بار ایک بہت بڑا موقع کاشی کے دلار کو کاشی کی محبت کو، کاشی کے اپنے پن کو اور کاشی کی مہمان نوازی دنیا کو دکھانے کا موقع ملنے والا ہے۔ آپ پوری تیاریاں کریں گے۔ دیکھئے جنوری میں اکیس جنوری سے تئیس جنوری تک کاشی میں ہند نجات ہندوستانی شہریوں کے دن کا اہتمام کیا جائے گا۔ دنیا بھر سے ہندوستانی شہری اس پرواسی بھارتی دِوَس میں شرکت کے لئے آنے والے ہیں۔ دنیا بھر میں جہاں ہندوستانی لوگ صنعت کار ہیں، سیاست میں ہیں یا سرکار چلاتے ہیں، یہ سب لوگ پوری دنیا سے ایک ساتھ اکیس سے تئیس جنوری تک کاشی میں آنے والے ہیں۔ کچھ لوگ تو ایسے بھی آئیں گے جن کے اجداد تین یا چار یا پانچ نسلوں قبل بیرونِ ملک جا کر آباد ہو گئے تھے۔ اس کے بعد کبھی لوٹ کر نہیں آئے۔ ایسے لوگوں کی اولادیں بھی پہلی بار اس مٹی کے درشن کرنے کے لئے آنے والی ہیں۔ مجھے بتایئے کہ اتنا بڑا اہتمام کاشی کے لئے باعثِ افتخار ہے کہ نہیں۔ ان لوگوں کے خیر مقدم کی ہمیں تیاری کرنی چاہئے۔ ہر محلے میں دنیا بھر سے آنے والے ان لوگوں کی مہمان نوازی کا ماحول بننا چاہئے۔ پوری دنیا میں کاشی کی تعریف ہونی چاہئے۔ ابھی سے تیاریاں شروع کر دیجئے اور اکیس سے تئیس جنوری تک یہاں رہیں اور دنیا بھر سے آئے مہمان یہاں چوبیس تاریخ کو پریاگ راج کنبھ کے درشن کے لئے جائیں گے اور چھبیس جنوری کو دہلی پہنچیں گے۔ میں کاشی والوں سے مہمان نوازی کرنے کی گذارش کرتا ہوں۔ میں بھی ایک کاشی واسی کی حیثیت سے آپ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر اس اکیس تاریخ کو آپ کے بیچ میں رہوں گا۔ اس پروگرام میں شامل ہونے کے لئے پوری دنیا کے لوگ آ رہے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا اہتمام ہے، ایک بہت بڑا واقعہ ہے اور اس لئے آپ سب کو میں ان کا خیر مقدم کرنے کی تیاری کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔‘‘
’’میرے کاشی کے بھائیو اور بہنو، آج مجھے آپ کے بیچ آنے کا موقع ملا۔ آپ سبھی کو آج یہاں متعدد اسکیمیں پیش کی گئیں اور متعدد اسکیموں کا سنگِ بنیاد رکھنے کا موقع مجھے حاصل ہوا۔ آپ کے ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے یہ میری ذمہ داری بنتی ہے کہ میں آپ کے جتنا کام آ سکوں، جتنی محنت آپ کے لئے کر سکوں، وہ کرتا رہا ہوں اور کرتا رہوں گا۔ میں ایک بار پھر اپنے کاشی واسی بھائیوں کو دل کی گہرائیوں سے سلام کرتا ہوں۔ میرے ساتھ زور سے بولئے – ہر ہر مہادیو۔ بہت بہت شکریہ۔‘‘