گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب وجے روپانی جی، پنڈت دین دیال پیٹرولیم یونیورسٹی بورڈ آف گورنینس کے چیئرمین جناب مکیش امبانی جی، اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین جناب ڈی راج گوپالن جی، ڈائرکٹر جنرل پروفسیر ایس سندر منوہر جی، فیکلٹی کے اراکین، والدین اور میرے سبھی نوجوان ساتھیو!
پنڈت دین دیال اپادھیائے پیٹرولیم یونیورسٹی کے 8ویں کانووکیشن کے موقع پر آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد! جو ساتھی آج گریجویوٹ ہو رہے ہیں، ان کو اور ان کے والدین کو بھی بہت بہت مبارکباد۔ آج ملک کو آپ جیسے صنعت کے لئے تیار گریجویٹ حضرات حاصل ہو رہے ہیں۔ آپ کو مبارکباد، آپ کی محنت کے لئے آپ نے جو اس یونیورسٹی میں سیکھا ہے، اس کے لئے، اور ملک کی تعمیر کے جس بڑے نصب العین کو لے کر آج آپ یہاں سے رخصت ہو رہے ہیں اس منزل کے لئے، نئے سفر کے لئے نیک خواہشات۔
مجھے یقین ہے کہ آپ اپنے ہنر، اپنی اہلیت، اپنی پیشہ وارانہ صلاحیت سے آتم نربھر بھارت کی بڑی طاقت بن کر ابھریں گے۔ آج پی ڈی پی یو سے متعلق 5 الگ الگ پروجیکٹوں کا بھی افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ یہ نئی سہولیات، پی ڈی پی یو کو ملک کے توانائی شعبے کا ہی نہیں، بلکہ پیشہ وارانہ تعلیم، اہلیت سازی اور اسٹارٹ اپ ایکو نظام کا ایک اہم مرکز بنانے والی ہیں۔
ساتھیو،
میں بہت شروعاتی دور سے اس یونیورسٹی کے پروجیکٹوں سے وابستہ رہا ہوں اور اس لیے مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ آج پی ڈی پی یو ملک ہی نہیں بلکہ دنیا میں بھی اپنی ایک جگہ بنا رہا ہے، اپنی شناخت درج کرا رہا ہے۔ میں آج یہاں مہمان خصوصی کے طور پر نہیں بلکہ آپ کی اس عظیم عہد بستگی کا، جو کنبہ ہے اس کنبے کے رکن کے طور پر آپ کے درمیان آیا ہوں۔
اور مجھے یہ دیکھ کر بہت فخر ہوتا ہے کہ یہ یونیورسٹی اپنے وقت سے بہت آگے چل رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب لوگ سوال اٹھاتے تھے کہ اس طرح کی یونیورسٹی کتنا آگے بڑھ پائے گی؟ لیکن یہاں کے طلبا نے، فیکلٹی اراکین نے، یہاں سے نکلے پیشہ واران نے، اپنے فرائض سے ان سارے سوالوں کے جواب دے دیے ہیں۔
گذشتہ ڈیڑھ دہائی میں پی ڈی پی یو نے ’پیٹرولیم‘ شعبے کے ساتھ ساتھ پورے توانائی شعبے اور دیگر شعبوں میں بھی اپنی وسعت میں اضافہ کیا ہے۔ اور پی ڈی پی یو کی پیش رفت دیکھتے ہوئے آج میں گجرات حکومت سے بھی گذارش کرتا ہوں کہ جب میں اس کام کے شروع میں سوچ رہا تھا تب میرے من میں تھا کہ پیٹرولیم یونیورسٹی چونکہ گجرات پیٹرولیم شعبہ میں آگے بڑھنا چاہتا تھا، لیکن اب جس طرح سے ملک اور دنیا کی ضرورتیں ہیں، جس طرح سے اس یونیورسٹی نے اپنی شکل بدلی ہے، میں گجرات حکومت سے درخواست کروں گا کہ قانون میں اگر ضروری ہو تو تبدیلی کرکے اس کو صرف پیٹرولیم یونیورسٹی کے بجائے، اچھا ہوگا اب اس کو ہم ایک اینرجی یونیورسٹی کے شکل میں تبدیل کریں ۔
کیونکہ اس کا دائرہ بہت وسیع ہونے والا ہے۔ اور آپ لوگوں نے اتنے کم وقت میں جو کمایا ہے، جو ملک کو دیا ہے، اس سے ملک کو ہی فائدہ ہوگا۔ پیٹرولیم یونیورسٹی کا تصور میرا ہی تھا اور اپنے ہی تصور کو وسعت دیتے ہوئے میں پیٹرولیم کی جگہ پر پورے توانائی شعبے کو اس کے ساتھ جوڑنے کے لئے آپ سے درخواست کر رہا ہوں۔ آپ لوگ سوچئے اور اگر میرا سجھاؤ ٹھیک لگتا ہے تو اس پر غور کیجئے۔
یہاں قائم ہونے جا رہا 45 میگا واٹ کا شمسی پینل مینوفیکچرنگ پلانٹ ہو یا سینٹر آف ایکسلینس آن واٹر ٹکنالوجی، ملک کے لئے پی ڈی پی یو کے بڑے ویژن کو بھی یہ ظاہر کرتا ہے۔
ساتھیو،
آج آپ ایسے وقت میں صنعت میں قدم رکھ رہے ہیں، یونیورسٹی سے نکل کرکے صنعت کی طرف بڑھ رہے ہیں، جب وبائی مرض کے چلتے پوری دنیا کے توانائی شعبے میں بھی بڑے تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں آج بھارت میں توانائی شعبے میں نمو کے، کاروباری جذبہ کے، روزگار کے، زبردست مواقع ہیں۔ یعنی آپ سبھی صحیح وقت پر، صحیح شعبے میں پہنچے ہیں۔ اس دہائی میں صرف تیل اور گیس شعبے میں ہی لاکھوں کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری ہونے والی ہے۔ اس لیے آپ کے لئے تحقیق سے لے کر مینوفیکچرنگ تک مواقع ہی مواقع ہیں۔
ساتھیو،
آج ملک اپنے کاربن اخراج کو 30 سے 35 فیصد تک کم کرنے کا ہدف لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔ دنیا کے سامنے جب میں یہ بات لے کر گیا تو دنیا کو حیرت ہوئی کہ کیا بھارت یہ کر سکتا ہے؟ کوشش یہ ہے کہ اس دہائی میں اپنی توانائی ضرورتوں میں قدرتی گیس کی حصہ داری کو ہم 4 گنا تک بڑھائیں گے۔ ملک کی تیل صاف کرنے کی صلاحیت کو بھی آنے والے پانچ برسوں میں تقریباً دوگنا کرنے کے لئے کام کیا جا رہا ہے۔ اس میں بھی سبھی کے لئے مختلف مواقع ہیں۔ ملک کی توانائی سلامتی سے متعلق اسٹارٹ اپ ایکو نظام کو مضبوط کرنے کے لئے مسلسل کام ہو رہا ہے۔ اس شعبے کے آپ جیسے طلبا اور پیشہ واران کے لیے ایک خصوصی فنڈ بھی قائم کیا گیا ہے۔ اگر آپ کے پاس بھی کوئی تجویز ہو، کوئی پروڈکٹ ہے یا کوئی خیال ہے، جسے آپ ترقی دینا چاہتے ہیں تو یہ فنڈ آپ کے لئے ایک بہترین موقع بھی ہے، حکومت کی جانب سے ایک تحفہ بھی ہے۔
ویسے مجھے احساس ہے کہ آج جب میں آپ سے یہ باتیں کر رہا ہوں تو تھوڑی فکر بھی ہوگی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کورونا کا وقت ہے، پتہ نہیں کب سب ٹھیک ہوگا۔ اور ان میں سے آپ کے دل میں پریشانیاں آتی ہیں وہ فطری بھی ہیں۔ ایک ایسے وقت میں گریجویٹ ہونا جب پوری دنیا بڑے بحران سے نبردآزما ہے، یہ کوئی آسان بات نہیں ہے۔ لیکن یاد رکھئے، آپ کی طاقت، آپ کی اہلیت ان چنوتیوں سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ اس یقین کو کبھی کھونا مت۔
پریشانیاں کیا ہیں، اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ آپ کا مقصد کیا ہے، آپ کی ترجیجات کیا ہیں اور آپ کا منصوبہ کیا ہے؟ اور اس لیے، یہ ضروری ہے کہ آپ کے پاس ایک مقصد ہو، ترجیحات طے ہوں اور اس کے لئے مکمل منصوبہ بھی ہو۔ کیونکہ ایسا نہیں ہے کہ آپ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ کسی مشکل کا سامنا کر رہے ہوں گے۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ چنوتی بھی آخری چنوتی ہوگی۔ ایسا نہیں ہے کہ کامیاب افراد کے پاس پریشانیاں نہیں ہوتیں۔ لیکن جو چنوتیوں کو قبول کرتا ہے، جو چنوتیوں کا مقابلہ کرتا ہے، جو چنوتیوں کو شکست دیتا ہے، پریشانیوں کو حل کرتا ہے، بالآخر زندگی میں وہ کامیاب ہوتا ہے۔ کوئی بھی کامیاب شخص دیکھ لیجئے، ہر کوئی مصیبتوں سے مقابلہ کرکے ہی آگے بڑھا ہے۔
ساتھیو،
اگر آپ سو برس پہلے کے وقت کو یاد کریں گے، اور میں چاہتا ہوں کہ آج میرے ملک کے نوجوان اس وقت کو یاد کریں۔ آج ہم 2020 میں ہیں، سوچ لیجئے 1920 میں جو آپ کی عمر کا تھا، آپ آج 2020 میں اس عمر کے ہیں۔ 1920 میں جو آپ کی عمر کا تھا اس کے سپنے کیا تھے؟ 1920 میں جو آپ کی عمر کا تھا اس کا جذبہ کیا تھا، اس کی سوچ کیا تھی؟ ذرا سو سال پرانے امتحان پر نظر کریں۔ یاد کریں گے تو 1920 سے شروع ہوا وقت بھارت کی آزادی کے لئے بہت اہم رہا۔
ویسے تو آزادی کی لڑائی غلامی کے دور میں کوئی سال ایسا نہیں کہ آزادی کی جنگ لڑی نہ گئی ہو، 1857 کی جنگ آزادی اس کا ایک اہم موڑ ثابت ہوئی لیکن 1920 سے لے کر 1947 کا جو وقت تھا، وہ بالکل ہی الگ تھا۔ ہمیں اس دور میں اتنے واقعات نظر آتے ہیں، ملک کے ہر کونے میں، ہر علاقے میں، ہر طبقے میں، یعنی پورے ملک کا بچہ بچہ، ہر طبقے کے لوگ، گاؤں ہو، شہر ہو، پڑھے لکھے افراد ہوں، امیر ہو، غریب ہو، ہر کوئی آزادی کی جنگ کا سپاہی بن گیا تھا۔ لوگ متحد ہوگئے تھے۔ خود کی زندگی کے خوابوں کو لوگوں نے قربان کر دیا تھا اور عہد کیا تھا آزادی کا۔ اور ہم نے دیکھا ہے کہ 1920 سے 1947 تک کی نوجوان نسل نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا۔ آج جب ہم تب کی نوجوان نسل کے بارے میں سوچتے ہیں تو دل میں خیال آتا ہے کہ کاش! ہم بھی 1920 سے 1947 کے دور میں پیدا ہوئے ہوتے۔ ہم بھی ملک کے لئے بھگت سنگھ بن کر چل پڑے ہوتے۔ لیکن دوستو، ہمیں اس وقت ملک کے لئے مرنے کا موقع نہیں ملا، آج ہمیں ملک کے لئے جینے کا موقع حاصل ہوا ہے۔
اس وقت کے نوجوان بھی ملک کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرکے، صرف ایک مقصد کے لئے کام کر رہے تھے اور مقصد کیا تھا، ایک ہی مقصد تھا، بھارت کی آزادی۔ ماں بھارتی کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانا اور اس میں مختلف نظریات کے حامل افراد شامل تھے، لیکن سارے نظریات ایک ہی سمت میں چل رہے تھے اور وہ سمت تھی ماں بھارتی کی آزادی کی۔ خواہ مہاتما گاندھی کی قیادت ہو، خواہ سبھاش بابو کی قیادت ہو، خواہ بھگت سنگھ، سکھ دیو، راج گورو کی قیادت ہو، خواہ ویر ساورکر کی قیادت ہو، ہر کوئی؛ نظریات الگ الگ ہوں گے۔ راستے مختلف ہوں گے، لیکن منزل ایک تھی، ماں بھارتی کی آزادی۔
کشمیر سے لے کر کالا پانی تک، ہر کال کوٹھری میں، ہر پھانسی کے پھندے پر سے ایک ہی آواز اٹھتی تھی، دیواریں ایک ہی بات سے گونجتی تھیں، پھانسی کی رسیاں ایک ہی نعرے سے مزین ہوتی تھیں، اور وہ نعرہ ہوتا تھا، وہ عزم ہوتا تھا، وہ زندگی کی عقیدت ہوتی تھی، ماں بھارتی کی آزادی۔
میرے نوجوان ساتھیو،
آج ہم اس دور میں نہیں ہیں لیکن آج بھی مادر وطن کی خدمت کا موقع ویسا ہی ہے۔ اگر اس وقت نوجوانوں نے اپنی جوانی آزادی کے لئے وقف کی تو ہم آتم نربھر بھارت کے لئے جینا سیکھ سکتے ہیں، جی کر دکھا سکتے ہیں۔ آج ہمیں آتم نربھر بھارت کے لئے خود ہی ایک تحریک بن جانا ہے، ایک تحریک کا سپاہی بن جانا ہے، ایک تحریک کی قیادت کرنی ہے۔ آج ہمیں آتم نربھر بھارت کے لئے ہر بھارتی کو، خاص طور پر میرے نوجوان ساتھیو، آپ سے میری امیدیں وابستہ ہیں، ہمیں اپنے آپ کو وقف کرنا ہے۔
آج کا بھارت، تبدیلی کے ایک بڑے دور سے گزر رہا ہے۔ آپ کے پاس حال کے ساتھ ساتھ مستقبل کے بھارت کو تعمیر کرنے کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ آپ سوچئے، کیسے سنہرے دور میں ہیں آپ۔ شاید آپ نے بھی نہیں سوچا ہوگا کہ بھارت کی آزادی کے 75 برس 2022 میں ہو رہے ہیں اور بھارت کی آزادی کے 100 سال 2047 میں ہو رہے ہیں، مطلب کہ یہ 25 سال آپ کی زندگی کے سب سے اہم سال ہیں۔ ملک کے 25 اہم برس اور آپ کے اہم 25 برس ایک ساتھ ہیں۔ ایسی خوش قسمتی شاید ہی کسی کو ملے گی جو آپ کو نصیب ہوئی ہے۔
آپ دیکھئے زندگی میں وہی لوگ کامیاب ہوتےہیں، وہی لوگ کچھ کر دکھاتے ہیں جن کی زندگی میں احساس ذمہ داری ہوتی ہے۔ کامیابی کی سب سے بڑی شروعات، اس کا سرمایہ احساس ذمہ داری ہی ہوتی ہے۔ اور کبھی باریکی سے آپ دیکھوگے کہ جو لوگ ناکام ہوتے ہیں ان کے دل میں ہمیشہ احساس ذمہ داری کے بجائے بوجھ کا احساس ہوتا ہے، جس کے بوجھ تلے وہ دبے ہوئے ہیں۔
دیکھئے دوستو، احساس ذمہ داری انسان کی زندگی میں موقع کے احساس کو بھی جنم دیتی ہے۔ اس کو راستے میں رکاوٹیں نہیں بلکہ موقع ہی موقع نظر آتے ہیں۔ احساس ذمہ داری انسان کے زندگی کے مقصد کے ساتھ ہم آہنگ ہو، ان کے درمیان تضاد نہیں ہونا چاہئے۔ ان کے درمیان جدوجہد نہیں ہونی چاہئے۔ احساس ذمہ داری اور زندگی کا مقصد یہ ایسی دو پٹریاں ہیں جن پر آپ کے عزائم کی گاڑی بہت تیزی سے دوڑ سکتی ہے۔
میری آپ سے درخواست ہے کہ اپنے اندر ایک احساس ذمہ داری کو ضرور بنائے رکھیئے گا۔ یہ احساس ذمہ داری، ملک کے لئے ہو، ملک کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ہو، آج ملک مختلف شعبوں میں تیزی سے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
ساتھیو،
خواہشات کے ڈھیر سے، عزم کی طاقت زبردست ہوتی ہے۔ کرنے کو بہت کچھ ہے، ملک کے لئے حاصل کرنے کو بہت کچھ ہے، لیکن آپ کا عزم، آپ کا مقصد ٹکڑوں میں منقسم نہیں ہونا چاہئے۔ آپ عہدبستگی کے ساتھ آگے بڑھیں گے، آپ خود میں توانائی کا انبار محسوس کریں گے۔ آپ کے اندر توانائی کا جو ذخیرہ ہے، وہ آپ کو دوڑائے گا، نئے نئے سجھاؤ دے گا، نئی بلندیوں پر پہنچائے گا۔ اور ایک بات کو آپ کو ذہن نشین کر لینا چاہئے، آج ہم جو بھی ہیں، جہاں بھی پہنچے ہیں، اپنے دل سے پوچھئے کہ کیا اس لیے آپ اس مقام تک پہنچے ہیں کہ آپ اچھے نمبرات لے کر آئے تھے، کیا اس لیے پہنچے ہیں کہ آپ کے والدین کے پاس پیسے بہت تھے، کیا اس لیے پہنچے ہیں کہ آپ کے صلاحیت تھی۔ ٹھیک ہے، ان ساری چیزوں کا تعاون ہوگا، لیکن اگر یہ سوچ ہے تو یہ نامکمل سوچ ہے۔ آج ہم جہاں بھی ہیں، جو بھی ہیں، اس میں ہم سے زیادہ ہمارے آس پاس کے لوگوں کا تعاون ہے، سماج کا تعاون ہے، ملک کا تعاون ہے، ملک کے غریب سے غریب کا تعاون ہے، تب جاکر ہم یہاں پہنچے ہیں ۔ کبھی کبھی ہمیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا ہے۔
آج بھی جس یونیورسٹی میں ہیں، اسے بنانے میں کتنے ہی مزدور بھائی ۔ بہنوں نے اپنا پسینہ بہایا ہے، کتنے ہی متوسط طبقے کے کنبوں نے اپنا ٹیکس دیا ہوگا، تب جا کر یہ یونیورسٹی تیار ہوئی ہوگی، اس یونیورسٹی میں آپ نے تعلیم حاصل کی، ایسے کئی لوگ ہوں گے جن کے نام آپ کو معلوم بھی نہیں ہوں گے تاہم ان کا بھی آپ کی زندگی میں کچھ نہ کچھ تعاون ہوگا۔ ہمیں ہمیشہ یہ احساس ہونا چاہئے کہ ہم ان لوگوں کے بھی مقروض ہیں، ہم پر ان کا بھی قرض ہے۔ ہمیں سماج نے، ملک نے یہاں تک پہنچایا ہے۔ اس لیے ہمیں بھی عہد کرنا ہوگا کہ ہم بھی، ملک کا جو قرض مجھ پر ہے اس قرض کو میں ادا کروں گا، میں اسے سماج کو واپس کروں گا۔
ساتھیو، انسانی زندگی کے لئے رفتار اور ترقی لازمی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں نئی نسل کے لئے فطرت اور ماحولیات کا تحفظ کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ جیسے صاف ستھری توانائی روشن مستقبل کی امید ہے، ویسے ہی زندگی میں بھی دو باتیں ضروری ہیں، ایک صاف ذہن اور دوسرا صاف دل۔ ہم اکثر و بیشتر سنتے ہیں، آپ بھی بولتے ہوں گے، آپ بھی سنتے ہوں گے، چھوڑو یار، یہ تو ایسا ہی ہے، چھوڑو یار کچھ نہیں ہوگا، ارے یار اپنا کیا ہے چلو ایڈجسٹ کرلو، چلو، چلتے چلو۔ نہیں ہو پائے گا۔ کئی مرتبہ لوگ کہتے ہیں کہ ملک میں یہ سب ایسے ہی چلے گا، ہمارے یہاں تو ایسے ہی ہوتا رہا ہے، ارے بھائی یہ ہی تو اپنی روایت ہے، ایسے ہی ہونا ہے۔
ساتھیو،
یہ ساری باتیں شکست خوردہ من کی باتیں ہیں، ٹوٹے ہوئے من کی باتیں ہیں، زنگ آلود ذہن کی باتیں ہیں۔ یہ ساری باتیں کچھ لوگوں کے دل و ذہن میں چسپاں ہو جاتی ہیں، وہ اسی سوچ کے ساتھ ہر کام کرتے ہیں۔ لیکن آج کی یہ نسل 21ویں صدی کی ہے۔ آج کا جو نوجوان ہے، اس کو ایک صاف ذہن کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ کچھ لوگوں کے من میں یہ جو پتھر کی لکیر بنی ہوئی ہے کہ کچھ بدلے گا نہیں، اس لکیر کو صاف کرنا ہوگا۔ اسی طرح سے صاف دل، اس کا مطلب مجھے نہیں سمجھانا پڑے گا۔ صاف دل کا مطلب ہے صاف نیت۔
ساتھیو،
جب آپ بغیر دیکھے کسی چیز کے بارے میں پہلے سے ہی ایک تصور پیدا کرکے آگے بڑھتے ہیں تو کسی بھی نئی چیز کے لئے دروازے آپ خود ہی بند کر دیتے ہیں۔
ساتھیو،
20 برس قبل جب میں پہلی مرتبہ گجرات کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوا تھا۔ مختلف چنوتیاں درپیش تھیں، مختلف سطحوں پر کام ہو رہا تھا۔ میں نیا نیا وزیر اعلیٰ بنا، اس سے قبل میں دہلی میں رہتا تھا، اچانک گجرات آنا پڑا، میرے پاس رہنے کے لئے تو کوئی جگہ نہیں تھی تو گاندھی نگر کے سرکٹ ہاؤس میں میں نے ایک کمرہ بک کر لیا، ابھی حلف برداری کا عمل باقی تھا۔ لیکن طے ہو چکا تھا کہ میں وزیر اعلیٰ بننے جا رہا ہوں۔ تو فطری بات ہے کہ لوگ گلدستے لے کر ملنے آتے ہیں۔ اسی دور میں جب لوگ میرے پاس ملنے کے لئے آتے۔ جو بھی آتے تھے وہ بات چیت میں اکثر مجھے کہتے تھے کہ مودی جی آپ وزیر اعلیٰ بن رہے ہیں، ایک کام ضرور کیجئے۔ تقریباً تقریباً 70 سے 80 فیصد لوگ یہی کہتے تھے، آپ کو بھی سن کر حیرت ہوگی۔ وہ کہتے تھے کہ مودی جی کچھ بھی کیجئے، کم سے کم شام کو کھانا کھاتے وقت بجلی ملے، اتنا تو کریئے۔ اس سے آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس وقت بجلی کی کیا حالت تھی۔
اب میں بھی جس طرح کے خاندان سے تعلق رکھتا ہوں، مجھے بھی یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ بجلی کا ہونا اور نہ ہونا کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ میں نے سوچا کہ اس مسئلے کو مستقل طور پر حل کیا جائے؟ اب میں افسران سے بات کر رہا تھا، تبادلہ خیال کر رہا تھا لیکن وہی بات دوہرائی جاتی تھی کہ ارے بھائی یہ تو ایسا ہی رہے گا۔ ہمارے پاس بجلی جتنی ہے، اس میں ہم ایسا ہی کر سکتے ہیں۔ جب زیادہ بجلی پیدا کریں گے تب دیکھیں گے، یہی جواب آتے تھے۔ میں نے کہا بھائی دیے گئے حل میں کوئی حل ہے کیا؟ اب ایشور کی مہربانی سے، صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک خیال من میں آیا ۔ میں نے کہا بھائی ایک کام کر سکتے ہیں کیا؟ جو ایگریکلچر فیڈر ہیں اور جو ڈومیسٹک فیڈر ہیں کیا ہم دونوں کو الگ کر سکتے ہیں ؟ کیونکہ لوگ ایک ایسی ہوا بنا کر بیٹھے تھے کہ صاحب کھیتی میں بجلی کی چوری ہوتی ہے، یہ ہوتا ہے، وہ ہوتا ہے، طرح طرح کی باتیں میں سنتا تھا۔ اب میں ویسے نیا تھا تو مجھے ہر بات سمجھانے میں دقت بھی رہتی تھی، کہ یہ بڑے بڑے بابو لوگ بات سمجھیں گے کہ نہیں سمجھیں گے۔
میری اس بات سے افسران متفق نہیں ہوئے۔ کیونکہ پہلے سے ہی قائم شدہ تصورات تھے، یہ نہیں ہو سکتا۔ کسی نے کہا، یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ کسی نے کہا مالی حالت ایسی نہیں ہے، کسی نے کہا بجلی نہیں ہے۔ آپ حیران ہو جائیں گے اس کے لئے جو فائلیں چلیں، ان فائلوں کا وزن بھی شاید 5 سے 10 کلو تک پہنچ گیا ہوگا۔ اور ہر مرتبہ، ہر متبادل منفی ہوتا تھا۔
اب میں سوچ رہا تھا کہ مجھے کچھ کرنا ہے۔ اس کے بعد میں نے ایک دوسرے متبادل پر کام کرنا شروع کیا۔ میں نے شمالی گجرات میں ایک سوسائٹی ، جن کے ساتھ 45 گاؤں وابستہ تھے، ان کو بلایا۔ میں نے کہا، میرا ایک خواب ہے، کیا آپ کر سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہمیں سوچنے دیجئے۔ میں نے کہا انجینئرنگ وغیرہ کی مدد لیجئے۔ میری اتنی خواہش ہے کہ گاؤں میں جو بجلی جاتی ہے، وہاں میں ڈومسٹک اور ایگریکلچر میں فیڈر الگ کرنا چاہتا ہوں۔ وہ دوبارہ آئے، انہوں نے کہا صاحب ہمیں کوئی مدد کی ضرورت نہیں۔ ہمیں 10 کروڑ روپئے اس پر خرچ کرنے کی ضرورت ہے، گجرات حکومت ہمیں منظوری دے دے۔ میں نے کہا یہ میری ذمہ داری ہے۔ ہم نے منظوری دے دی۔
انہوں نے یہ کام شروع کیا۔ میں نے انجینئروں سے درخواست کی کہ ذرا اس کام کو کیجئے۔ اور ان 45 مواضعات میں ڈومیسٹک فیڈر اور ایگریکلچر فیڈر کو الگ کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کھیتی میں جتنا وقت بجلی دینی تھی، دیتے تھے، وہ الگ وقت تھا، گھروں میں 24 گھنٹے بجلی پہنچنے لگی۔ اور پھر میں نے تعلیمی یونیورسٹیوں کی مدد سے نوجوانوں کو بھیج کر اس کا تیسرے فریق سے جائزہ کروایا۔ آپ حیران ہو جائیں گے کہ جس گجرات میں رات کو کھانے کے وقت بجلی ملنا مشکل تھی، 24 گھنٹے بجلی ملنے کے ساتھ ساتھ ایک معیشت شروع ہوئی۔ درزی بھی اپنی سلائی مشین کو پیر سے نہیں الیکٹرک مشین سے چلانے لگا۔ دھوبی بھی الیکٹرک پریس سے کام کرنے لگا۔ کچن میں بھی بہت ساری الیکٹرک چیزیں آنے لگ گئیں۔ لوگ اے سی خریدنے لگے، پنکھا خریدنے لگے، ٹی وی خریدنے لگے۔ ایک طرح سے پوری زندگی تبدیل ہونی شروع ہوگئی۔ حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا۔
اس تجربے نے ہمارے اس وقت کے سبھی افسران کی سوچ کو تبدیل کیا۔ آخرکار فیصلہ ہوا کہ راستہ صحیح ہے۔ اور پورے گجرات میں ایک ہزار دن کا پروگرام بنایا۔ ایک ہزار دن میں ایگری کلچر فیڈر اور ڈومیسٹک فیڈر الگ کیے گئے اور ایک ہزار دن کے اندر پورے گجرات میں 24 گھنٹے بجلی پہنچنا ممکن ہوا۔ اگر میں نے وہ پہلے سے قائم شدہ تصور پر عمل کیا ہوتا تو یہ نہیں ہوتا، کلین سلیٹ تھا میں۔ میں نئے سرے سے سوچتا تھا اور اسی کا نتیجہ سامنے آیا۔
ساتھیو، ایک بات مان کر چلئے، اصل چیز رکاوٹیں نہیں، اصل چیز آپ کا ردعمل ہے۔ میں آپ کے سامنے ایک اور مثال پیش کرتا ہوں۔ گجرات پہلی ریاست تھی جس نے اپنی سطح پر شمسی پالیسی بنائی تھی۔ تب یہ بات آئی تھی کہ شمسی بجلی کی قیمت فی یونٹ 13۔12 روپئے تک آئے گی۔ یہ قیمت اس وقت کے حساب سے بہت زیادہ تھی کیونکہ تھرمل کی جو بجلی تھی وہ دو ڈھائی تین روپئے تک مل جاتی تھی۔ وہی بجلی اب 13 روپئے، اب آپ جانتے ہیں آج کل جس طرح سے شور برپا کرنے کا فیشن ہے، ہر چیز میں نقص نکالنے کا رواج ہے، اس وقت تو میرے لئے اور بھی بڑی پریشانیاں رہتی تھیں۔ اب میرے سامنے مسئلہ آیا کہ صاحب یہ تو بڑا طوفان کھڑا ہو جائے گا۔ کہاں 3۔2 روپئے والی بجلی اور کہاں 13۔12 روپئے والی بجلی۔
لیکن ساتھیو، میرے سامنے ایک ایسا لمحہ تھا مجھے اپنی شہرت کی فکر کرنی ہے کہ آنے والی نسل کی فکر کرنی ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ اس طرح کے فیصلے کی میڈیا میں بہت برائی ہوگی۔ طرح طرح کے بدعنوانی کے الزامات عائد ہوں گے، بہت کچھ ہوگا۔ تاہم میرا دل صاف تھا۔ میں یہ مانتا تھا کہ معیار زندگی تبدیل کرنے کے لئے ہمیں کچھ نہ کچھ تو بدلنا ہی پڑے گا۔
آخرکار ہم نے فیصلہ لیا۔ شمسی توانائی کی طرف جانے کا فیصلہ لیا۔ اور ہم نے ایمانداری کے ساتھ فیصلہ کیا۔ روشن مستقبل کے لئے کیا، ایک ویژن کے لئے کیا۔
گجرات میں شمسی پلانٹ کی شروعات ہوئی، بہت بڑے پیمانے پر ہوئی۔ تاہم اسی وقت جب گجرات نے پالیسی بنائی، تو بھارتی حکومت نے بھی فل اسٹاپ کاما کے ساتھ وہی پالیسی اس وقت بنائی۔ لیکن انہوں نے کیا کیا، انہوں نے 19۔18 روپئے قیمت طے کی۔ اب ہمارے افسر آئے، بولے صاحب ہم 13۔12 دیں گے، یہ 19۔18 دیں گے تو ہمارے یہاں کون آئے گا۔ میں نے کہا بالکل نہیں، میں 13۔12 پر ہی ٹکا رہوں گا۔ 19۔18 میں دینے کو تیار نہیں ہوں، لیکن ہم ترقی کے لئے ایک ایسا ایکو نظام دیں گے، شفافیت دیں گے، رفتار دیں گے کہ دنیا ہمارے پاس آئے گی، ایک اچھی حکمرانی کے ماڈل کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور آج دیکھ رہے ہیں آپ کہ گجرات نے جو شمسی بجلی کی پہل قدمی کی، آج گجرات شمسی بجلی پیداوار میں کہا پہنچا ہے، وہ آپ کے سامنے ہے۔ اور آج خود یونیورسٹی اس کام کو آگے بڑھانے کے لئے آگے آئی ہے۔
جو 13۔12 روپئے سے شروع ہوا تھا وہ پورے ملک میں شمسی تحریک بن گیا۔ اور یہاں آنے کے بعد تو میں نے بین الاقوامی شمسی اتحاد، ایک ایسا ادارہ قائم کیا ہے جس میں دنیا کے تقریباً 85۔80 ممالک اس کے رکن بن گئے ہیں اور پوری دنیا میں تحریک کا باعث بن گئے ہیں۔ تاہم یہ عزم نیک نیتی کے ساتھ کرنا چاہئے کہ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ آج ہندوستان شمسی بجلی کے شعبے میں بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ آج فی یونٹ قیمت 13۔12 روپئے سے کم ہوکر دو روپئے سے بھی کم پر پہنچ گئی ہے۔
شمسی بجلی ملک کی بھی ایک ترجیح بن گئی ہے۔ اور ہم نے 2022 تک 175 گیگا واٹ قابل احیاء توانائی کے لئے عہد کیا ہوا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم 2022 سے قبل اس کو مکمل کر لیں گے۔ اور 2030 تک قابل احیاء توانائی کا ہمارا ہدف ہے 450 گیگا واٹ، بہت بڑا ہدف ہے۔ یہ بھی قبل از وقت پورا ہوگا، یہ میرا یقین ہے۔
’نہیں ہوسکتا ‘جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس کے بجائے، میں اسے کر دکھاؤں گا، یا میں اسے ہونے نہیں دوں گا۔ یہ یقین ہمیشہ آپ کے کام آئے گا۔
ساتھیو،
تبدیلی خواہ اپنے اندر لانی ہو یا دنیا میں، تبدیلی کبھی ایک دن، ایک ہفتے یا ایک سال میں نہیں آتی ۔ تبدیلی کے لئے تھوڑی ہی کوشش، لیکن تھوڑی تھوڑی مسلسل کوشش ہمیں ہر دن کرنی پڑتی ہے۔ تسلسل کے ساتھ کیے گئے چھوٹے چھوٹے کام، بہت بڑی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ اب جیسے کہ آپ اگر ہر دن کم سے کم 20 منٹ کچھ نیا پڑھنے یا لکھنے کی عادت ڈال سکتے ہیں۔ اسی طرح آپ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ کیوں نہ ہر دن 20 منٹ کچھ نیا سیکھنے کے لئے صرف کیے جائیں۔
ایک دن میں اگر آپ دیکھیں گے تو یہ صرف 20 منٹ کی بات ہے۔ لیکن یہی بیس منٹ ایک سال میں 120 گھنٹوں کے برابر ہو جائیں گے۔ یہ 120 گھنٹوں کی کوشش آپ کے اندر کتنی بڑی تبدیلی لے کر آئے گی، یہ محسوس کرکے آپ خود بھی حیران ہو جائیں گے۔
ساتھیو،
آپ نے کرکٹ میں بھی دیکھا ہوگا۔ جب کسی ٹیم کو بہت بڑے ہدف کا تعاقب کرنا ہوتا ہے تو وہ یہ نہیں سوچتی کہ اسے مجموعی طور پر کتنے رن بنانے ہیں۔ بلے باز یہ سوچتے ہیں کہ اسے ہر اووَر میں کتنے رن بنانے چاہئیں۔
یہی اصول مالی منصوبہ بندی میں بھی بہت سے لوگ اپناتے ہیں۔ ہر مہینے پانچ ہزار روپئے جمع کرتے ہیں اور دو برس میں ایک لاکھ سے زیادہ روپئے جمع ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کی مسلسل کوشش، آپ کے اندر وہ اہلیت پیدا کردیتی ہے جس کا اثر مختصر مدت میں تو نہیں نظر آتا، تاہم طویل مدت میں یہ آپ کی بہت بڑی امانت بن جاتا ہے، بہت بڑی طاقت بن جاتا ہے۔
قومی سطح پر جب ملک بھی ایسے ہی مسلسل کوششوں کے ساتھ چلتا ہے تو اس کے بھی ایسے ہی نتائج سامنے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر سووَچھ بھارت ابھیان کو ہی لیجئے۔ ہم صفائی کے بارے میں صرف گاندھی جینتی پر، محض اکتوبر میں ہی نہیں سوچتے ہیں، بلکہ ہم ہر دن اس کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ میں نے بھی 2014 سے 2019 کے درمیان من کی بات کے تقریباً ہر پروگرام میں صفائی کو لے کر اہل وطن سے مسلسل بات کی ہے، ان سے درخواست بھی کی ہے۔ ہر مرتبہ الگ الگ موضوعات پر تھوڑی تھوڑی گفتگو ہوتی رہی۔ تاہم لاکھوں کروڑوں لوگوں کی چھوٹی چھوٹی کوششوں سے سووَچھ بھارت ایک عوامی تحریک بن گیا۔ مسلسل کوششوں کا یہی اثر ہوتا ہے۔ ایسے ہی نتائج سامنے آتے ہیں۔
ساتھیو،
21ویں صدی میں دنیا کی آرزوئیں اور امیدیں بھارت سے وابستہ ہیں اور بھارت کی آرزوئیں اور امیدیں آپ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ہمیں تیز رفتار سے چلنا ہی ہوگا، آگے بڑھنا ہی ہوگا۔ پنڈت دین دیال اپادھیائے جی نے انتیودے کا ویژن پیش کیا، ملک کو اولیت کے جن اصولوں کو لے کر وہ چلے، ہمیں مل کر انہیں مزید مضبوط کرنا ہے۔ ہمارا کام، ملک کے نام ہو، اسی جذبے کے ساتھ ہمیں آگے بڑھنا ہے۔
ایک مرتبہ پھر آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد اور روشن مستقبل کے لئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ!!