نمسکار!
میں آنجہانی ہرموہن سنگھ یادو جی کو ان کی برسی پر بصد احترام نمن کرتا ہوں اور خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ میں سکھرام جی کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے مجھے اس تقریب کے لیے بہت پیار سے مدعو کیا۔ میری دلی خواہش بھی تھی کہ میں اس پروگرام کے لیے کانپور آؤں اور آپ سب کے درمیان موجود رہوں۔ لیکن آج ہمارے ملک کے لیے ایک بہت بڑا جمہوری موقع بھی ہے۔ آج ہمارے نئے صدر نے حلف لیا ہے۔ آزادی کے بعد پہلی بار قبائلی سماج کی ایک خاتون صدر ملک کی قیادت کرنے جا رہی ہیں۔ یہ ہماری جمہوریت کی طاقت، ہمارے ہمہ گیر خیال کی ایک زندہ و جاوید مثال ہے۔ اس موقع پر آج دہلی میں بہت سی اہم تقریبات منعقد ہو رہی ہیں۔ میرے لیے آئینی ذمہ داریوں کے لیے دہلی میں موجود رہنا فطری اور ضروری ہے۔ چنانچہ میں آج ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے آپ سے رابطہ کر رہا ہوں۔
ساتھیو،
ہمارا ماننا یہ ہے کہ جسم ختم ہونے کے بعد بھی زندگی ختم نہیں ہوتی ہے۔ گیتا میں بھگوان شری کرشن کا قول ہے جسکا مفہوم ہے کہ "روح ابدی اور لازوال ہے۔" یہی وجہ ہے کہ جو لوگ معاشرے اور خدمت کے لیے جیتے ہیں وہ موت کے بعد بھی امر رہتے ہیں۔ آزادی کی جدوجہد میں مہاتما گاندھی ہوں یا پنڈت دین دیال اپادھیائے جی، رام منوہر لوہیا جی، جے پرکاش نارائن جی، ایسی کتنی ہی مہان آتماؤں کے امر خیالات آج بھی ہمیں تحریک دیتے ہیں۔ لوہیا جی کے خیالات کو ہرموہن سنگھ یادو جی نے اپنی طویل سیاسی زندگی میں اترپردیش اور کانپور کی سرزمین سے آگے بڑھایا۔ انھوں نے ریاست اور ملک کی سیاست میں جو حصہ ڈالا ہے، معاشرے کے لیے جو کام کیا ہے، آنے والی نسلوں کو ان سے مسلسل رہ نمائی مل رہی ہے۔
ساتھیو،
چودھری ہرموہن سنگھ یادو جی نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز گرام پنچایت سے کیا تھا۔ انھوں نے گرام سبھا سے راجیہ سبھا تک کا سفر کیا۔ وہ پردھان بنے، قانون ساز کونسل کے رکن بنے، رکن پارلیمنٹ بنے ۔ ایک وقت تھا جب مہربان سنگھ کے پوروا سے یوپی یوپی کی سیاسی سمت ملتی تھی۔ سیاست کے اس عروج پر پہنچنے کے بعد بھی ہرموہن سنگھ جی کی ترجیح سماج ہی رہی۔ انھوں نے معاشرے کے لیے اہل قیادت بنانے کے لیے کام کیا۔ انھوں نے نوجوانوں کو آگے بڑھایا، لوہیا جی کے عزائم کو آگے بڑھایا۔ ہم نے 1984 میں بھی ان کی فولادی شخصیت کو دیکھا۔ ہرموہن سنگھ یادو جی نے نہ صرف سکھ نسل کشی کے خلاف سیاسی موقف اختیار کیا بلکہ وہ باہر آئے اور سکھ بھائیوں اور بہنوں کے تحفظ کے لیے لڑے۔ اپنی جان پر کھیل کر انھوں نے بہت سے سکھ خاندانوں، معصوموں کی جانیں بچائیں۔ ملک نے ان کی اس قیادت کا بھی اعتراف کیا، انھیں شوریہ چکر دیا گیا۔ ہرموہن سنگھ یادو جی نے سماجی زندگی میں جو مثال قائم کی ہے وہ بے نظیر ہے۔
ساتھیو،
ہرموہن جی نے قابل احترام اٹل جی جیسے رہنماؤں کے دور میں پارلیمنٹ میں کام کیا تھا۔ اٹل جی کہا کرتے تھے کہ حکومتیں آئیں گی، حکومتیں جائیں گی، پارٹیاں بنیں گی، بگڑیں گی لیکن یہ ملک باقی رہے گا۔ "یہی ہماری جمہوریت کی روح ہے۔ فرد سے بڑی پارٹی، پارٹی سے بڑا ملک۔ کیونکہ پارٹیوں کا وجود جمہوریت کی وجہ سے ہے اور جمہوریت ملک کی وجہ سے ہے۔ ہمارے ملک کی بیشتر پارٹیوں خصوصاً تمام غیر کانگریسی پارٹیوں نے بھی اس خیال کو ملک کے لیے تعاون اور ہم آہنگی کا آئیڈیل بنایا بھی ہے۔ جب ملک نے پہلا جوہری تجربہ کیا تو تمام پارٹیاں اس وقت کی حکومت کے ساتھ ثابت قدم رہیں۔ لیکن ایمرجنسی کے دوران جب ملک کی جمہوریت کو کچل دیا گیا تو سب اہم پارٹیاں ایک ہو گئیں اور آئین کو بچانے کے لیے جدوجہد کرنے لگیں۔ چودھری ہرموہن سنگھ یادو جی بھی اس جدوجہد کے ایک جاں باز سپاہی تھے۔ یعنی یہاں کے ملک اور معاشرے کے مفادات نظریات سے بڑے رہے ہیں۔ تاہم حالیہ دنوں میں نظریے یا سیاسی مفادات کو معاشرے اور ملک کے مفاد سے بالاتر رکھنے کا رجحان شروع ہو چکا ہے۔ کئی بار حزب اختلاف کی کچھ پارٹیاں حکومت کے کام میں خلل ڈالتی ہیں کیونکہ جب وہ اقتدار میں تھیں تو وہ اپنے لیے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کر سکیں۔ اب اگر ان پر عمل درآمد ہوتا ہے تو وہ اس کی مخالفت کرتی ہیں۔ اس ملک کے عوام کو یہ سوچ پسند نہیں ہے۔ یہ ہر سیاسی جماعت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پارٹی کی مخالفت، فرد کی مخالفت، کہیں ملک کی مخالفت نہ بن جائے۔ نظریات کی اپنی جگہ ہے اور ہونی چاہیے۔ سیاسی عزائم ہو سکتے ہیں۔ لیکن ملک سب سے پہلے ہے، معاشرہ سب سے پہلے ہے۔ قوم سب سے پہلے ہے۔
ساتھیو،
لوہیا جی کا ماننا تھا کہ سوشلزم مساوات کا اصول دیتا ہے۔وہ متنبہ کرتے تھے کہ سوشلزم کا زوال اسے عدم مساوات میں بدل سکتا ہے۔ ہم نے بھارت میں یہ دونوں حالات دیکھے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بھارت کے بنیادی خیالات میں معاشرے بحث و مباحثے کا موضوع نہیں رہے۔ ہمارے لیے معاشرہ ہماری اجتماعیت اور تعاون کا ڈھانچہ ہے۔ ہمارے لیے معاشرہ ہماری ثقافت ہے، تہذیب ہے، مزاج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوہیا جی بھارت کی ثقافتی طاقت کی بات کرتے تھے۔ انھوں نے رامائن میلہ شروع کرکے ہمارے ورثے اور جذباتی اتحاد کے لیے زمین تیار کی۔ وہ کئی دہائیاں پہلے گنگا جیسے ثقافتی دریاؤں کے تحفظ کے بارے میں فکر مند تھے۔ آج نمامی گنگے مہم کے ذریعے ملک اس خواب کو پورا کر رہا ہے۔ آج ملک اپنے معاشرے کی ثقافتی علامات کو زندہ کر رہا ہے۔ یہ کوششیں معاشرے کے ثقافتی شعور کو زندہ کر رہی ہیں، معاشرے کی توانائی کو مضبوط کر رہی ہیں، ہماری باہمی وابستگی کو تقویت دے رہی ہیں۔ اسی طرح ایک نئے بھارت کے لیے ملک آج اپنے حقوق سے بالاتر ہو کر فرائض کی بات کر رہا ہے۔ جب فرض شناسی کا یہ احساس مضبوط ہوتا ہے تو معاشرہ اپنے آپ مستحکم ہوتا ہے۔
ساتھیو،
معاشرے کی خدمت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم سماجی انصاف کے جذبے کو قبول کریں۔ آج جب ملک اپنی آزادی کے 75 ویں سال میں امرت مہوتسو منا رہا ہے تو اس بات کو سمجھنا اور اس سمت میں آگے بڑھنا بہت ضروری ہے۔ سماجی انصاف کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کے ہر طبقے کو یکساں مواقع ملنے چاہئیں، کسی کو بھی زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم نہیں رہنا چاہیے۔ دلت، پس ماندہ طبقات، آدی واسی، خواتین، دویانگ، جب یہ طبقات آگے آئیں گے تبھی ملک آگے بڑھے گا۔ ہرموہن جی نے اس تبدیلی کے لیے تعلیم کو اہم ترین ذریعہ سمجھا۔ انھوں نے تعلیم کے شعبے میں جو کام کیا، اس نے کتنے ہی نوجوانوں کا مستقبل بنایا۔ آج ان کے کاموں کو سکھرام جی اور بھائی موہت آگے بڑھا رہے ہیں۔ ملک تعلیم سے بااختیار بنانے کے منتر اور خود تعلیم کو بااختیار بنانے کے منتر پر بھی آگے بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ جیسی مہمات اتنی کامیاب ہورہی ہیں۔ ملک نے قبائلی علاقوں میں رہنے والے بچوں کے لیے ایکلویہ اسکول شروع کیے ہیں۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی کے تحت مادری زبان میں بھی تعلیم کا التزام کیا گیا ہے۔ کوشش یہ ہے کہ دیہات سے آنے والے بچے، غریب خاندان، انگریزی کی وجہ سے پیچھے نہ رہ جائیں۔سب کو رہائش دینا، سب کے لیے بجلی کا کنکشن، جل جیون مشن کے تحت سب کے لیے صاف پانی، کسانوں کے لیے سمان ندھی، یہ کوششیں آج غریبوں، پسماندہ، دلت قبائلیوں کے خوابوں کو طاقت بخش رہی ہیں، یہ سب ملک میں سماجی انصاف کی زمین کو مضبوط بنا رہی ہیں۔ امرتکال کے اگلے 25 سال سماجی انصاف کی ان قراردادوں کی تکمیل کے سال ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم سب ملک کی اس مہم میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ ایک بار پھر معزز آنجہانی ہرموہن سنگھ یادو جی کو عاجزانہ خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔