نمسکار،
ویسے تو آپ سب کو معلوم ہوگا کہ بجٹ کے بعد، بھارت سرکار کے ذریعے مختلف علاقوں کے لوگوں کے ساتھ ویبینار کرکے اس پر بات چیت جاری ہے کہ بجٹ کو جلد از جلد کیسے نافذ کیا جائے، بجٹ کو نافذ کرتے ہوئے نجی کمپنیوں کو کیسے شراکت دار بنایا جائے اور بجٹ پر عمل درآمد کے لیے لائحہ عمل کیسے بنایا جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج مجھے وزارت دفاع کے ویبینار میں شریک تمام شراکت داروں اور اسٹیک ہولڈروں سے ملاقات کا موقع مل رہا ہے۔ میری طرف سے آپ سب کے لیے ڈھیر ساری نیک تمنائیں ہیں۔
آج کی بات چیت اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ بھارت دفاعی شعبے میں آتم نربھر کیسے بنے۔ بجٹ کے بعد دفاعی شعبے میں کیا نئے امکانات ہیں، ہماری آگے کی سمت کیا ہو، اس سلسلے میں معلومات اور غور و فکر دونوں ضروری ہیں۔ جہاں ہمارے جاں باز تربیت حاصل کرتے ہیں، ہم وہاں پر اکثر لکھا ہوا دیکھتے ہیں کہ امن کے دور میں بہایا جانے والا پسینہ جنگ کے دور میں خون بہنے سے بچاتا ہے۔ یعنی امن کی پیشگی شرط ہے بہادری، بہادری کی پیشگی شرط ہے صلاحیت اور صلاحیت کی پیشگی شرط ہے پہلے سے کی جانے والی تیاریاں، اور باقی سب اس کے بعد آتے ہیں۔ ہمارے یہاں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رواداری، معافی، رحم کی پرستش اسی وقت کی جاتی ہے جب اس کے پیچھے قوت کا چراغ روشن ہو۔
ساتھیو،
اسلحہ سازی اور فوجی ساز و سامان بنانے کا بھارت کا صدیوں پرانا تجربہ ہے۔ آزادی سے قبل ہمارے پاس آرڈیننس کے سینکڑوں کارخانے ہوا کرتے تھے۔ دونوں عالمی جنگوں میں بھارت سے بڑے پیمانے پر ہتھیار بھیجے گئے تھے۔ لیکن آزادی کے بعد بہت سی وجوہات کی بنا پر اس نظام کو اتنا مضبوط نہیں بنایا گیا جتنا اسے کیا بنایا چاہیے تھا۔ اب حالت یہ ہے کہ چھوٹے ہتھیاروں کے لیے بھی ہمیں دوسرے ممالک کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ آج بھارت دنیا کے سب سے بڑے دفاعی درآمد کنندگان میں سے ایک ہے اور یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بھارت کے عوام میں ٹیلنٹ نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بھارت کے عوام میں صلاحیت نہیں ہے۔
آپ دیکھیں کہ جب کورونا کی وبا کا آغاز ہوا تھا اس وقت بھارت ایک بھی وینٹی لیٹر نہیں بناتا تھا۔ آج بھارت ہزاروں وینٹی لیٹر بنا رہا ہے۔ مریخ تک پہنچنے کی صلاحیت کا حامل بھارت بھی جدید ہتھیار بنا سکتا ہے۔ لیکن باہر سے اسلحہ کی درآمد کرنا آسان طریقہ بن گیا۔ اور انسان کی فطرت ایسی ہے کہ جو آسانی سے مل جائے، چلو بھائی اسی راستے پر چل پڑو۔ آپ بھی آج اپنے گھر جاکر گنیں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ آپ برسوں سے ایسی غیر ملکی چیزیں استعمال کر رہے ہیں۔ دفاع کے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے۔ لیکن اب آج کا بھارت اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے کمر بستہ ہو کر کام کر رہا ہے۔
اب بھارت اپنی صلاحیتوں اور اہلیتوں کو تیز رفتاری سے آگے بڑھانے میں مصروف ہے۔ ایک وقت تھا جب ہمارے اپنے لڑاکا طیارے تیجس کو فائلوں میں بند کرنے کی نوبت آگئی تھی۔ لیکن ہماری حکومت نے اپنے انجینئروں اور سائنس دانوں اور تیجس کی صلاحیتوں پر بھروسا کیا اور آج تیجس آسمان میں اڑ رہا ہے۔ چند ہفتے قبل تیجس کے لیے 48 ہزار کروڑ روپے کا آرڈر دیا گیا ہے۔ کتنے بہت چھوٹی،چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے شعبے ملک کے ساتھ منسلک ہوں گے، کاروبار کتنا بڑا ہوگا۔ ہمارے جوانوں کو بلٹ پروف جیکٹوں کے لیے بہت انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آج ہم نہ صرف بھارت میں اپنے لیے بلٹ پروف جیکٹ بنا رہے ہیں بلکہ دوسرے ممالک کو سپلائی کرنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ کر رہے ہیں۔
ساتھیو،
چیف آف ڈیفنس اسٹاف کے عہدے کی تشکیل کے بعد خریداری کے عمل، ٹرائل اینڈ ٹیسٹنگ، آلات کی تیاری، خدمات کے عمل میں یکسانیت لانا بہت آسان ہو گیا ہے اور ہماری تمام دفاعی افواج کے تمام شعبوں کے تعاون سے یہ کام بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اس سال کے بجٹ نے فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے عزم کو مزید تقویت دی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ دہائی بعد دفاعی شعبے میں سرمائے میں 19 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ آزادی کے بعد پہلی بار دفاعی شعبے میں نجی شعبے کی حصہ داری بڑھانے پر اتنا زور دیا جا رہا ہے۔ نجی شعبے کو آگے لانے کے لیے، ان کے لیے کام کرنے میں مزید آسانی پیدا کرنے کے لیے حکومت ان کے کاروبار میں آسانی پر زور دے رہی ہے۔
ساتھیو،
میں دفاعی شعبے میں آنے والے نجی شعبے کی ایک تشویش بھی سمجھتا ہوں۔ دفاعی شعبے میں حکومت کا دخل معیشت کے دیگر شعبوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ حکومت واحد خریدار ہے، حکومت خود مینوفیکچرر بھی ہے اور حکومت کی اجازت کے بغیر برآمد کرنا بھی مشکل ہے۔ اور یہ فطری بھی ہے کیونکہ یہ شعبے کی قومی سلامتی سے جڑا ہوا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کی شراکت داری کے بغیر 21 ویں صدی کا دفاعی مینوفیکچرنگ ایکو سسٹم قائم نہیں رہ سکتا، اسے بھی میں تو اچھی طرح سمجھتا ہوں اور اب حکومت کے دیگر تمام شعبے بھی سمجھ رہے ہیں۔ اس لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ 2014 سے ہماری کوشش ہے کہ شفافیت، پیش گوئی کی اہلیت اور کاروبار میں آسانی کے ساتھ ہم ایک کے بعد ایک مضبوط قدم اٹھا کر اس شعبے میں مسلسل پیش رفت کر رہے ہیں۔ اس طرح کے متعدد اقدامات، ڈی لائسنسنگ، ڈی ریگولیشن، ایکسپورٹ پروموشن، فارن انویسٹمنٹ لبرلائزیشن کے ساتھ ہم نے یکے بعد دیگرے اس شعبے میں مضبوط اقدامات کیے ہیں۔ اور میں یہ بھی کہوں گا کہ مجھے ان تمام کوششوں میں سب سے زیادہ تعاون، سب سے زیادہ مدد یونیفارم فورسز کی قیادت سے ملی ہے۔ وہ بھی ایک طرح سے اس پر زور دے رہے ہیں اور اسے آگے بڑھا رہے ہیں۔
ساتھیو،
جب ڈیفنس فورس کی وردی پہنے کوئی شخص یہ کہتا ہے تو اس کی طاقت بہت بڑھ جاتی ہے کیونکہ جو لوگ وردی میں کھڑے ہوتے ہیں ان کے سامنے زندگی موت کی جنگ ہوتی ہے۔ وہ اپنی جان کو خطروں میں ڈال کر ملک کی حفاظت کرتے ہیں۔ جب وہ آتم نربھر بھارت کے لیے آگے آئیں گے تو مثبتیت اور جوش و خروش سے بھرپور ماحول پیدا ہوگا، آپ اس کا اچھی طرح تصور کرسکتے ہیں۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ بھارت نے دفاع سے متعلق 100 اہم دفاعی اشیا کی فہرست بنائی ہے، جنھیں نگیٹیو فہرست کہا جاتا ہے، جنھیں ہم اپنی مقامی صنعت کی مدد سے تیار کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے ٹائم لائن رکھی گئی ہے تاکہ ہماری صنعت ان ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کر سکیں۔
سرکاری زبان میں یہ ایک نگیٹیو فہرست ہے، لیکن میں اسے مختلف انداز میں دیکھتا ہوں جسے دنیا نگیٹیو فہرست کے نام سے جانتی ہے۔ میری نظر میں، آتم نربھرتا کی زبان میں، یہ ایک مثبت فہرست ہے۔ یہ وہ مثبت فہرست ہے جس پر ہماری اپنی مینوفیکچرنگ کی صلاحیت میں اضافہ ہونے والا ہے۔ یہ وہ مثبت فہرست ہے جس سے بھارت میں روزگار پیدا ہوگا۔ یہ وہ مثبت فہرست ہے جو ہماری دفاعی ضروریات کے لیے بیرونی ممالک پر انحصار کو کم کرنے جا رہی ہے۔ یہ وہ مثبت فہرست ہے جو بھارت میں بنائی گئی مصنوعات کے لیے بھارت میں فروخت کرنے کی بھی ضمانت ہے۔ اور یہ وہ چیزیں ہیں جو بھارت کی ضرورت کے مطابق، ہماری آب و ہوا کے مطابق، ہمارے عوام کی فطرت کے مطابق، جدت طرازی جاری رکھنے کا امکان اپنے اندر رکھتی ہیں۔
چاہے ہماری فوج ہو یا ہمارا معاشی مستقبل، یہ ہمارے لیے ایک طرح کی مثبت فہرست ہے۔ اور آپ کے لیے سب سے مثبت فہرست ہے اور میں آج اس ملاقات میں آپ سب کو یقین دلاتا ہوں کہ دفاعی شعبے سے متعلق ہر وہ سامان جسے ڈیزائن کرنے، جسے بنانے کی اہلیت ملک میں ہے، کسی سرکاری یا نجی کمپنی میں ہے، اسے باہر سے لانے کی اپروچ نہیں رکھی جائے گی۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ دفاع کے سرمائے کے بجٹ میں بھی گھریلو خریداری کے لیے ایک حصہ محفوظ کردیا گیا ہے، یہ ہمارا نیا اقدام ہے۔ میں نجی شعبے سے درخواست کروں گا کہ وہ مینوفیکچرنگ کے ساتھ ساتھ ڈیزائن اور ترقی میں بھی آگے آئیں، دنیا بھر میں بھارت کے پرچم کو لہرائیں، یہ موقع ہے، اسے ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ دیسی ڈیزائن اور ترقی کے شعبے میں ڈی آر ڈی او کا تجربہ ملک میں نجی شعبے کو بھی کرنا چاہیے۔ اصول و ضوابط سے بچنے کے لیے ڈی آر ڈی او میں بھی بہت تیزی سے اصلاحات کی جا رہی ہیں۔ اب منصوبوں کے آغاز میں نجی شعبے کو شامل کیا جائے گا۔
ساتھیو،
دنیا کے بہت سے چھوٹے چھوٹے ممالک نے اس سے پہلے کبھی اپنی حفاظت کے لیے اتنی فکر نہیں کی۔ لیکن بدلتے ہوئے عالمی ماحول میں نئے چیلنجوں کے ساتھ اب ایسے چھوٹے ممالک کو اپنی سلامتی کے بارے میں فکر کرنی پڑے گی، ان کے لیے بھی سلامتی ایک بہت اہم موضوع بنتا جا رہا ہے۔ یہ بہت فطری بات ہے کہ ایسے غریب اور چھوٹے ممالک قدرتی طور پر اپنی سلامتی کی ضروریات کے لیے بھارت کی طرف دیکھیں گے کیونکہ ہمارے پاس کم لاگت والی مینوفیکچرنگ کی طاقت ہے۔ ہمارے پاس معیاری مصنوعات کی طاقت ہے، صرف آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ان ممالک کی مدد کرنے میں بھارت کا بھی بہت بڑا کردار ہے، بھارت کے ترقی پذیر دفاعی شعبے کا بہت بڑا کردار ہے، یہ ایک بہت بڑا موقع ہے۔ آج ہم 40 سے زائد ممالک کو دفاعی سامان برآمد کر رہے ہیں۔ درآمد پر انحصار کرنے والے ملک کی شناخت سے اب ہمیں دنیا کے معروف دفاعی برآمد کنندہ کے طور پر اپنی شناخت پیدا کرنا ہوگی اور آپ کو ساتھ مل کر اس شناخت کو مضبوط بنانا ہوگا۔
ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ بڑی صنعتوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کی مینوفیکچرنگ اکائیوں کے لیے بھی ایک صحت مند دفاعی مینوفیکچرنگ ماحولیاتی نظام بہت اہم ہے۔ ہمارے اسٹارٹ اپس ہمیں بدلتے وقت کے ساتھ تیزی سے تبدیلیاں کرنے کے لیے درکار اختراعات دے رہے ہیں اور ہمیں اپنی دفاعی تیاری میں آگے رکھ رہے ہیں۔ بہت چھوٹی،چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے شعبے پورے مینوفیکچرنگ سیکٹر کے لیے ریڑھ کی ہڈی کے طور پر کام کرتی ہیں۔ آج جو اصلاحات ہو رہی ہیں ان سے بہت چھوٹی،چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے شعبے کو زیادہ آزادی مل رہی ہے، انھیں توسیع کرنے کا حوصلہ مل رہا ہے۔
یہ بہت چھوٹی،چھوٹی اور درمیانی صنعتیں میڈیم اور لارج مینوفیکچرنگ اکائیوں کی مدد کرتی ہیں، جو پورے ایکو سسٹم میں کو زبردست قوت فراہم کرتی ہیں۔ یہ نئی سوچ اور نیا انداز فکر ہمارے ملک کے نوجوانوں کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ آئی ڈیکس جیسے پلیٹ فارم اس سمت میں ہماری اسٹارٹ اپ کمپنیوں اور نوجوان کاروباری افراد کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ آج ملک میں جو دفاعی راہ داریاں تعمیر کی جا رہی ہیں ان سے مقامی کاروباری افراد، مقامی مینوفیکچرنگ کو بھی مدد ملے گی۔ یعنی آج ہمارے دفاعی شعبے میں آتم نربھرتا کو ہمیں جوان بھی اور نوجوان بھی، ان دونوں محاذوں پر بااختیار بنانے کے طور پر دیکھنا ہوگا۔
ساتھیو،
ایک وقت تھا جب ملک کی سلامتی کا تعلق پانی اور سمندر کی حفاظت سے تھا۔ اب سلامتی کا دائرہ زندگی کے ہر دائرے سے جڑا ہوا ہے۔ اور اس کی بڑی وجہ دہشت گردی جیسے ہتھکنڈے ہیں۔ اسی طرح سائبر اٹیک نے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے جس نے سیکیورٹی کی پوری جہت کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایک وقت تھا جب سیکیورٹی کے لیے بڑے ہتھیار منگوانے پڑتے تھے۔ اب ایک چھوٹے سے کمرے میں ایک چھوٹے سے کمپیوٹر سے بھی ملکی سلامتی کے کسی پہلو کو سنبھالنا پڑے ایسی صورت حال پیدا ہو چکی ہے اور اس لیے ہمیں روایتی دفاعی اشیا کے ساتھ ساتھ 21 ویں صدی کی ٹیکنالوجی اور ٹیکنالوجی سے چلنے والی ضروریات کے پیش نظر مستقبل کے وژن کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ اور سرمایہ کاری ابھی کرنی ہوگی۔
اس لیے آج یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں، تحقیقی اداروں میں، یونیورسٹیوں میں، ہماری تعلیمی دنیا میں دفاع سے متعلق کورسز، دفاعی مہارت کے کورسز پر بھی دھیان دیا جائے۔ تحقیق اور جدت طرازی کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔ بھارت کی ضروریات کے مطابق ان کورسز کو ڈیزائن کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ چنانچہ روایتی دفاع کے لیے جس طرح ایک وردی والا فوجی ہوتا ہے، ہمیں تعلیمی دنیا، تحقیق، سیکورٹی ماہرین کو بھی دیکھنا ہو گا، ہمیں اس ضرورت کو سمجھنے کے لیے بھی اقدامات کرنا ہوں گے۔ مجھے امید ہے کہ اب آپ لوگ اس سمت میں بھی آگے بڑھیں گے۔
ساتھیو،
میں وزارت دفاع اور آپ سب سے درخواست کروں گا کہ وہ متعین وقت کا ایکشن پلان اور آج کی بحث پر مبنی ایک بہترین روڈمیپ تشکیل دیں اور حکومت اور نجی شعبے دونوں کی شرکت سے اس پر عمل درآمد کریں۔ آپ کی بحث، آپ کے مشورے، ملک کو دفاعی شعبے میں نئی بلندیوں پر لے جائیں، اسی خواہش کے ساتھ میں آج کے ویبینار کے لیے، اور ملک کو دفاعی شعبے آتم نربھر بنانے کے عزم کے لیے آپ کو ڈھیروں نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
آپ کا بہت شکريہ۔