Technology is the bridge to achieve ‘Sabka Saath Sabka Vikas’: PM
Challenge of technology, when converted into opportunity, transformed ‘Dakiya’ into ‘Bank Babu’: PM

نئی دلّی، 20 اکتوبر /  ملک کی سماجی اور تجارتی قیادت کو ہمیشہ ترغیب اور توانائی دینے والے رتن ٹاٹا جی، ان کی اس وراثت کو آگے بڑھانے والے این چندر شیکھرن جی، روپا جی، خواتین و حضرات !!

رتن ٹا ٹا جی، چندر شیکھرن جی سے ملنا، ان کے ساتھ بات چیت کرنا ہمیشہ ایک نیا تجربہ دیتا ہے۔ ان پر ملک کی سب سے بڑی تنظیموں میں سے ایک کی قیادت کرنے کی ذمہ داری ہے۔

            اتنی بڑی ذمہ داری کے با وجود مسکراہٹ اور بغیر دباؤ کے یہ کیسے رہتے ہیں، مجھے لگتا ہے، کہ آنے والے وقت میں اس پر بھی ایک کتاب چندر شیکھرن جی کو لکھنی چاہئیے۔ اور ہاں، اس آئیڈیا کا میرا کوئی پیٹنٹ بھی نہیں ہے۔ آپ بغیر کسی دباؤ کے یہ کام کر سکتے ہیں!!!

            ساتھیو،

            وہ کتاب لکھیں گے یا نہیں، یہ میں نہیں کہہ سکتا، لیکن مسکراہٹ اور بغیر دباؤ ذہن سے کیا ہوتا ہے، اس کا نتیجہ، بریجیٹل نیشن‘  نامی کتاب کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔

            مثبت سوچ، خلاقیت اور تعمیری ذہن سے ملک کے مسائل کا حل نکل سکتا ہے، اس کا یہ ثبوت ہے۔

            یہی اثبات، یہی نظریہ اپنے ہنر اور وسائل پر یہی اعتماد نئے بھارت کی سوچ ہے۔

            مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب خواہش مند بھارت کو تو ترغیب دے گی ہی، سماج کے کچھ پیشہ ور مایوس افراد کو بھی نئی رسائی اور نئے آؤٹ لک کے لئے بھی ترغیب دے گی۔ میں چندر شیکھر جی اور روپا جی کو ان نظریاتی دستاویز کے لئے بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔

            ساتھیو،

            یہ کتاب ایسے وقت میں آئی ہے، جب تکنالوجی کو شیطنیت کے طور پر پیش کرنے کے لئے ایک بہت بڑی کوشش ہو رہی ہے۔ ڈر کا ایک ماحول کھڑا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

            خاص طور پر بھارت کے پس منظر میں تکنالوجی کو ہماری آبادیاتی منفعت کے لئے چیلنج کے طور پر پیش کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

            اس کتاب نے حکومت کے اس نظرئیے کو مزید مضبوط کیا ہے، جس کے مطابق تکنالوجی جوڑنے کا کام کرتی ہے، نہ کہ توڑنے کا۔

            تکنالوجی ایک برج یعنی رابطہ کار، یا پل ہے نہ کہ تقسیم کار۔

            تکنالوجی اور ٹیلنٹ فورس ملٹی پلائیر یعنی قوت افزا ہے نہ کہ خطرہ یا دھمکی۔

            تکنالوجی، امید اور کامیابی کے درمیان کا رابطہ کار پُل ہے۔

            تکنالوجی، مانگ اور ادائیگی کے درمیان کا پُل ہے۔

            تکنالوجی، حکومت اور حکمرانی کے درمیان کا پُل ہے۔

            تکنالوجی، سب کے ساتھ کو سب کے وکاس سے جوڑنے والا پُل ہے۔

            ساتھیو،

            یہ جذبہ گزرے ہوئے پانچ برسوں کے ہمارے دور حکومت میں کار فرماں رہا ہے، اور یہی مستقبل کے لئے ہماری رسائی ہے۔

            اس کتاب میں بہترین طریقے سے یہ بتایا گیا ہے کہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس، مشین لرننگ، روبوٹ جیسی جدید تکنالوجیاں کیسے ڈیولپمنٹ کے ٹول کے طور پر، مدد گار بننے والے ہیں۔

            یہی بات میں اپنے تجربات کی بنیاد پر بھی کہہ سکتا ہوں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں تکنیکی مداخلت سے بھارت میں گورننس کو کیسے ریفارم اور ٹرانسفارم کیا گیا ہے، اس کو آپ محسوس کر پا رہے ہیں۔ یہ سب کیسے ہو پارہا ہے، اس کی ایک مثال میں آپ کو دیتا ہوں۔

            ساتھیو،

            ہمارے ملک میں ایل پی جی گیس کنکشن دینے کی اسکیم، سبسڈی دینے کا کام دہائیوں سے چل رہا ہے۔

            ہم نے اب اجولا یوجنا کو لانچ کیا تو، کئی لوگوں کو لگا کہ شائد یہ بھی ویسی ہی اسکیم ہو گی، جیسی کہ بنتی آئی ہیں۔ لیکن اس کے لئے ہم نے سوچ کو بھی بدلا، اپروچ کو بھی بدلا اور اس میں تکنالوجی کو بھی متعارف کرایا۔

            ساتھیو،

            ہم پہلے کی طرح چلتے،تو پھر کمیٹی بنتی، کمیٹی بیٹھتی رہتی، الگ الگ شراکت داروں سے بات چیت کرتی رہتی اور ڈیڈ لائن کو ہم کبھی میٹ کر ہی نہیں پاتے۔ لیکن کمیٹی کے بجائے ہم نے تکنالوجی والی اپروچ پر بھروسہ کیا۔

            اس ڈیٹا کو دوسرے ڈیٹا پوائنٹ، جیسے فروخت رپورٹ، ایل پی جی سپلائی کی جانے والی آبادی، سماجی۔ اقتصادی حالات، سب کا تجزیہ کیا گیا۔

            لاکھوں گاؤوں سے تقریباً 64لاکھ ڈائیورس ڈیٹا پوائنٹ کے تجزئیے کی بنیاد پر یہ طے کیا گیا کہ تقسیم کار مراکز کہاں کہاں بننے چاہئیں۔ لیکن ہمارا کام یہیں ختم نہیں ہوا۔ ایک اور بڑا مسئلہ تھا جس کا  حل اسی تکنالوجی نے دیا۔

            ڈیش بورڈ پر ایپلی کیشن اور ڈسٹری بیوشن کی ریئل ٹائم مانیٹرنگ کے دوران پتہ چلا کہ بہت سی خواتین کی درخواستیں نا منظور ہو رہی ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس بینک اکاؤنٹ نہیں تھا۔

            اس مسئلے سے نمتنے کے لئے جن دھن  کیمپ لگائے گئے اور ایسی خواتین کے بینک اکاؤنٹ کھولے گئے۔

            نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے تین سال میں 8 کروڑ کنکشن دینے کا،جو  نشانہ مقرر کیا تھا، اس کو ڈیڈ لائن سے کافی پہلے ہی پورا کر لیا گیا۔

            آیوش مان بھارت یوجنا، اس صورت حال کو بدلنے کی سمت میں بہت بڑا رول نبھا رہی ہے۔ پہلے جو غریب اس فکر میں علاج کرانے سے کتراتاتھا، کہ اس کا سب کچھ بک جائے گا، وہ اب اسپتال پہنچنے لگا ہے۔ وہ غریب جو پہلے پرائیویٹ اسپتال کے در وازے پر دستک دینے سے بھی ہچکچاتا تھا، اس کو وہاں رسائی مل رہی ہے۔

            آج، صورت حال یہ ہے کہ غریبوں میں برتاؤ میں تبدیلی بھی آئی ہے، طبی خدمات کی مانگ بھی بڑھی ہے، غریبوں کا علاج بھی ہو رہا ہے اور اسپتالوں کو حکومت سے پیسہ بھی مل رہا ہے۔ یہ بھی اگر ممکن ہو پا رہا ہے تو صرف تکنالوجی کے ذریعہ سے۔

            ساتھیو،

            اسی تکنالوجی سے آیوش مان بھارت کو ہیلتھ کیئر کے مکمل پیکیج کے طور پر ہم ترقی یافتہ کر رہے ہیں۔ پہلے تحفظاتی طبی دیکھ بھال پر توجہ مرکوز ہی نہیں تھی، ابتدائی طبی دیکھ بھال صرف سر درد اور پیٹ درد تک محدود تھی اور  ٹرٹیئری طبی دیکھ بھال پوری طرح سے ایک الگ ہی ٹریک پر تھی۔

            اب اس کے لئے پورے ملک میں ڈیڑھ لاکھ ہیلتھ اور ویل نیس سینٹر تیار کئے جا رہے ہیں اور ان کو ٹرٹیئری ہیلتھ کیئر کی بنیاد کے طور پر جدید بنایا جا رہا ہے اور ترقی دی جا رہی ہے۔

            بہت ہی کم وقت میں اب تک 21 ہزار سے زیادہ ایسے سینٹر تیار بھی ہو چکے ہیں۔

            آپ حیران رہ جائیں گے کہ اتنے کم وقت میں ان سینٹروں پر ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ لوگوں کو ہائپر ٹینشن، سوا کروڑ سے زیادہ ذیابیطس، ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ کینسر کے کیس تشخیص کئے جا چکے ہیں۔

            پہلے پرائمری ہیلتھ کیئر سینٹروں میں یہ ممکن ہی نہیں تھا۔  اب ہیلتھ اور ویل نیس سینٹروں سے ہی یہ کیس آگے ریفر ہو پا رہے ہیں۔ اور ٹرٹیئری ہیلتھ کیئر نیٹ ورک میں وہاں کے ڈیٹا کی بنیاد پر سیدھا اور تیز علاج ممکن ہونے کی شروعات ہوئی ہے۔

            ساتھیو،

            تکنالوجی جب برج بنتی ہے تو ہمیں شفافیت اور نشان زد ادائیگی کا بھی حل ملتا ہے۔ بھارت میں بچولیوں اور دلالوں کا کیا رول تھا، اس سے آپ اچھی طرح واقف رہے ہیں۔

            حکومت ملک چلاتی ہے،

            متوسط آدمی حکمرانی چلاتا ہے،

            اس کو ایک رول مان لیا گیا تھا۔ یہ اس لئے ہوتا تھا کیونکہ عوام اور عمل کے درمیان میں خلا تھا۔ پیدائش سے لے کر موت تک، سرٹی فکیٹ کا ایک طویل سلسلہ تھا، جس میں عام آدمی پستا رہتا تھا۔

            آج پیدائش سے کے جیون پرمان پتر تک سینکڑوں خدمات آن لائن ہیں۔ آج سیلف سرٹی فکیشن کا ملک میں عام چلن بن رہا ہے۔ اب ہم سیلف اسسمنٹ، سیلف ڈکلیریشن اور فیس لیس ٹیکس اسسمنٹ جیسے سسٹم کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

            اسی طرح گاؤں گاؤں میں آن لائن سروس ڈیلیوری دینے والا عام سروس سینٹر نیٹ ورک 12 لاکھ سے زائد نو جوانوں کو روز گار دے رہا ہے۔

            ساتھیو،

            انٹر پرائز کے جذبے کو، ایم ایس ایم ای کو مضبوط کرنے اور انہیں روزگار پیدا کرنے کے اہم مرکز بنانے کے لئے جو بھی تجاویز کتاب میں دیئے گئے ہیں، اس سے بھی میں موٹے طور پر متفق ہوں۔ یہاں آنے والے مسائل کو دور کرنے کے لئے ہم تکنالوجی کا بھر پور استعمال کر رہے ہیں۔

            پبلک پروکیورمنٹ کے لئے حکومت ای۔ مارکیٹ مقام کے بارے میں آپ جانتے ہی ہیں۔ یہ حکومت کی مانگ اور ایم ایس ایم ای کے سپلائی ایکو۔ سسٹم کے درمیان برج بنتا ہے۔

            اس سسٹم کی کامیابی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رواں سال اس کے ذریعہ سے قریب 50 ہزار کروڑ روپئے کی خریداری کا نشانہ مقرر کیا گیا ہے۔

            ساتھیو،

            اسی طرح اسٹارٹ اپ انڈیا، لوکل ڈیمانڈ اور سپلائی کو تو میک ان انڈیا، لوکل سپلائی اور گلوبل ڈیمانڈ کے درمیان پُل کا کام کر رہا ہے۔

            آپ نے اس کتاب میں ڈیمانڈ اور سپلائی کے مسائل پر بہت باریکی سے سمجھایا ہے۔ اسٹارٹ اپ انڈیا بھی انہیں مسائل کو حل کر رہا ہے۔

            بھارت کو جو چیلنج در پیش ہیں، ان کو مد نظر رکھتے ہوئے خیالات کو انڈسٹری کی شکل میں بدلنے کی یہ ایک کوشش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج زیادہ تر اسٹارٹ اپس ٹیئر۔2، ٹیئر۔ 3 شہروں میں تیار ہو رہے ہیں۔

            ساتھیو،

            ان سبھی باتوں کے درمیان یہ بھی صحیح ہے کہ صرف تکنالوجی حل نہیں ہوتی، انسانی ارادہ اور صحیح ارادہ، بہت ضروری ہے۔ یہی بات آرٹی فیشل انٹیلی جنس پر بھی لاگو ہو تی ہے۔ بحث یہ نہیں ہونی چاہئیے کہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس سے کیا خطرہ ہے ؟ روبوٹ انسان سے اسمارٹ کب تک ہو گا ؟

            بلکہ بحث یہ ہونی چاہئیے کہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور انسانی ارادے کے درمیان ہم رابطے کا پُل کیسے بنائیں / اپنی ہنر مندی کو نئی مانگ کے مطابق اپ گریڈ کیسے کریں؟

            کہنے کو تو

بہت کچھ ہے لیکن دیگر لوگوں کو کتاب پڑھنے کے لئے بھی مجھے وقت دینا ہے۔ ایک بار پھر اس بہترین کتاب، بہترین کوشش کے لئے بہت بہت مبارک باد اور نیک خواہشات۔ شکریہ۔

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
Snacks, Laughter And More, PM Modi's Candid Moments With Indian Workers In Kuwait

Media Coverage

Snacks, Laughter And More, PM Modi's Candid Moments With Indian Workers In Kuwait
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM to attend Christmas Celebrations hosted by the Catholic Bishops' Conference of India
December 22, 2024
PM to interact with prominent leaders from the Christian community including Cardinals and Bishops
First such instance that a Prime Minister will attend such a programme at the Headquarters of the Catholic Church in India

Prime Minister Shri Narendra Modi will attend the Christmas Celebrations hosted by the Catholic Bishops' Conference of India (CBCI) at the CBCI Centre premises, New Delhi at 6:30 PM on 23rd December.

Prime Minister will interact with key leaders from the Christian community, including Cardinals, Bishops and prominent lay leaders of the Church.

This is the first time a Prime Minister will attend such a programme at the Headquarters of the Catholic Church in India.

Catholic Bishops' Conference of India (CBCI) was established in 1944 and is the body which works closest with all the Catholics across India.