مغربی بنگال کے گورنر، جناب جگدیپ دھنکھڑ جی، ثقافت اور سیاحت کے مرکزی وزیر، جناب کشن ریڈی، وکٹوریہ میموریل ہال سے وابستہ تمام معززین، یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز، آرٹ اور ثقافت کی دنیا کے ماہرین، خواتین و حضرات!
سب سے پہلے میں مغربی بنگال کے بیر بھوم میں ہونے والی پرتشدد واردات پر افسوس اور غم کا اظہار کرتا ہوں۔میں امید کرتا ہوں کہ ریاستی حکومت بنگال کی عظیم سرزمین پر ایسے گھناؤنے گناہ کرنے والوں کو ضرور سزا دلوائے گی۔ میں بنگال کے لوگوں سے بھی اپیل کروں گا کہ ایسی واردات انجام دینے والوں کو ، ایسے مجرموں کاحوصلہ بڑھانے والوں کو کبھی معاف نہ کریں۔ مرکزی حکومت کی جانب سے میں ریاست کو اس بات کی یقین دہانی کراتا ہوں کہ مجرموں کو جلد سے جلد سزا دلوانے میں جو بھی مدد وہ چاہے گی، حکومت ہند فراہم کرے گی۔
ساتھیو،
’’آزادی کا امرت کا مہوتسویر، پنّو پالون لاگنے، موہان بپلبی۔ دیراوئی تہاشک، آتّو بلیدانیر پروتی، شوماگرو بھارت باشر، پوکھو تھیکے آ۔ بھومی پرونام جناچھی شہید دیوس پر میں ملک کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے والے سبھی بہاد مرد و خواتین کو ممنون قون کی جانب سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ شریمد بھگوت گیتا میں بھی کہا گیا ہے – نینم چھندنتی شسترانی، نینم دہتی پاوکہ، یعنی نہ شستر جسے کاٹ سکتے ہیں، نہ آگ جسے جلا سکتی ہے۔ ملک کے لیے قربانیاں دینے والے ایسے ہوتے ہیں۔ وہ امر ہو جاتے ہیں۔ وہ تحریک دینے والے پھول بن کر نسل در نسل اپنی خوشبو پھیلاتے رہتے ہیں۔ اس لئے آج اتنے برسوں بعد بھی امر شہید بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کی قربانی کی داستان ملک کے بچے بچے کی زبان پر ہے۔ ہم سب کو ان بہادر کی داستانیں ملک کے لیے دن رات محنت کرنے کے لئے تحریک دیتی ہیں اور آزادی کے امرت مہوتسو کے دوران اس بار شہید دیوس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ ملک آج آزادی کے لئے قربانی دینے والے بہادر مرد و خواتین کو نمن کررہا ہے، ان کی خدمات کی یاد کو تازہ کررہا ہے۔ باگھا جتن کی وہ ہنکار - آمرا موربو، جات جوگبے، یا پھر خودی رام بوس کی پکار - ایک بار بدائی دے ما، گھرے آشی۔ پورا ملک آج پھر یاد کر رہا ہے۔ بنکم بابو کا بندے ماترم تو آج ہم بھارت کے باشندوں کا توانائی کا منتر بن گیا ہے۔ جھانسی کی رانی لکشمی بائی، جھلکاری بائی، کتور کی رانی چیننما، ماتنگنی ہاجرا، بینا داس، کملا داس گپتا، کنک لتا بروا، ایسی کتنی بہادر خواتین نے جنگ آزادی کی مشعل کو خواتین کی طاقت سے روشن کیا۔ ایسے تمام بہادروں کی یاد میں آج صبح سے ہی متعدد مقامات پر پربھات پھیریاں نکالی گئی ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں ہمارے نوجوان ساتھیوں نے خصوصی پروگراموں کا انعقاد کیا ہے۔ امرت مہوتسو کے اسی تاریخی دور میں شہید دیوس پر وکٹوریہ میموریل میں ’بپلوبی بھارت گیلری‘ کو عوام کے لئے وقف کیا گیا ہے۔ آج نیتا جی سبھاش چندر بوس، اروبندو گھوش، راس بہاری بوس، خودی رام بوس، باگھا جتن، بنوئے، بادل، دنیش ایسے عظیم مجاہدین آزادی کی یادوں سے یہ جگہ پاک ہوئی ہے۔ بے نربھیک سبھاش گیلری کے بعد آج بپلوبی بھارت گیلری کی شکل میں بنگال کی، کولکتہ کی ہریٹیج میں ایک خوبصورت موتی اور شامل ہو گیا ہے۔
ساتھیو،
بپلوبی بھارت گیلری گزشتہ برسوں میں مغربی بنگال کی خوشحال ثقافتی اور تاریخی ورثے کوسنوارنے اور اسے خوبصورت بنانے کے ہمارے عزم کا بھی ثبوت ہے۔ یہاں کی آئیکونک گیلریاں ہوں، اولڈ کرنسی بلڈنگ ہو، بیلویڈیئر ہاؤس ہو، وکٹوریہ میموریل ہو یا پھر میٹکاف ہاؤس، ان کو مزید شاندار اور خوبصورت بنانے کا کام قریب قریب پورا ہو چکا ہے۔ دنیا کی سب سے پرانی میوزیم میں سے ایک کلکتہ کی ہی انڈین میوزیم کو ایک نئے رنگ روپ میں دنیا کے سامنے لانے کے لیے ہماری حکومت کام کر رہی ہے۔
ساتھیو،
ہمارے ماضی کی وراثتیں ہمارے حال کی رہنمائی کرتی ہے، ہمیں بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے تحریک دیتی ہیں۔ اسی لئے آج ملک اپنی تاریخ کو ، اپنے ماضی کو توانائی کے ایک زندہ ذریعہ کے طور پر محسوس کرتا ہے۔ آپ کو وہ وقت بھی یاد ہوگا جب ہمارے یہاں آئے دن قدیم مندروں کی مورتیاں چوری ہونے کی خبریں آتی تھیں۔ ہمارے فن پارے بے دھڑک بیرون ممالک میں اسمگل ہوتے تھے، جیسے ان کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔ لیکن اب بھارت کی ان وراثتوں کو واپس لایا جا رہا ہے۔ ابھی ہمارے کشن ریڈی جی نے تفصیل سے اس کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ دو دن پہلے ہی آسٹریلیا نے درجنوں ایسی مورتیاں، پینٹنگز اور دیگر فن پارے بھارت کے حوالے کیے ہیں۔ ان میں سے کئی مغربی بنگال سے متعلق ہیں ۔ گزشتہ سال بھارت کو امریکہ نے بھی تقریباً 150 بوادرات واپس کئے تھے۔ جب ملک کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے، جب دو ملکوں کے درمیان تعلق بڑھتا ہے تو اس طرح بہت سی مثالیں سامنے آتی ہیں۔ آپ اس کا اندازہ اسی سے لگا سکتے ہیں کہ 2014 سے پہلے کی کئی دہائیوں میں صرف درجن بھر مورتیوں کو بھی بھارت لایا جاسکا تھا۔ لیکن گزشتہ 7 برسوں میں یہ تعداد بڑھ سوا دو سو سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔ اپنی ثقافت، اپنی تہذیب کی یہ نشانیاں بھارت کی موجودہ اور آنے والی نسلوں کو مسلسل تحریک دیں، اس سمت میں یہ ایک بہت بڑی کوشش ہے۔
بھائی بہنو،
آج ملک جس طرح سے اپنے قومی اور روحانی ورثے کو ایک نئی خود اعتمادی کے ساتھ فروغ دے رہا ہے، اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ یہ پہلو ہے – ’ہیریٹیج ٹورزم‘۔ ہیریٹیج ٹورزم میں مالی اعتبار سے تو بہت زیادہ امکانات ہیں ہی ، اس میں ترقی کے نئے راستے بھی کھلتے ہیں۔ ڈانڈی میں نمک ستیہ گرہ کی یاد میں تیار کی گئی یادگار ہو یا پھر جلیانوالہ باغ کی یادگار کی تعمیر نو ہو ، ایکتا نگر کیوڑیہ میں اسٹیچو آف یونٹی ہو یا پھر پنڈت دین دیال اپادھیائے جی کی یادگار کی تعمیر، دہلی میں بابا صاحب میموریل ہو یا پھر رانچی میں بھگوان برسا منڈا میموریل پارک اور میوزیم، ایودھیا - بنارس کے گھاٹوں کی تذئین کاری ہو یا پھر ملک بھر میں تاریخی مندروں اور عقیدت کے مقامات کی بحالی ہو، ’ہیریٹیج ٹورزم‘ کو فروغ دینے کے لیے بھارت ایک قومی سطح کی مہم چل رہی ہے۔ سودیش درشن جیسی کئی اسکیموں کے ذریعے ہیریٹیج ٹورزم کو رفتار دی جارہی ہے۔ اور پوری دنیا کا تجربہ یہی ہے کہ کیسے ہیریٹیج ٹورزم لوگوں کی آمدنی بڑھانے میں ، روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے میں بڑا رول ادا کرتا ہے۔ 21ویں صدی کا بھارت اپنے اس پوٹینشیل کو سمجھتے ہوئے ہی آگے بڑھ رہا ہے۔
ساتھیو،
بھارت کو غلامی کے سینکڑوں برسوں کے دور سے آزادی، تین دھاروں کی مشترکہ کوششوں سے ملی تھی۔ ایک دھارا انقلاب کا تھا، دوسرا دھارا ستیہ گرہ کا تھا اور تیسرا دھارا تھا عوامی بیداری اور تخلیقی کاموں کا۔ میرے ذہن میں یہ تینوں ہی دھارے ترنگے کے تینوں رنگوں میں ابھر رہے ہیں۔ یہ احساس میرے ذہن و دماغ میں بار بار یہ خیال ظاہر ہو رہا ہے۔ ہمارے ترنگے کا کیسریا رنگ انقلاب کے دھارے کی علامت ہے۔ سفید رنگ ستیہ گرہ اور عدم تشدد کے دھارے کی علامت ہے۔ سبز رنگ، تخلیقی رجحانات کا دھارا، بھارتی اقدار پر مبنی تعلیم کو فروغ دینے کا، حب الوطنی سے متعلق ادبی تخلیقات، بھگتی تحریک، یہ ساری باتیں اس میں پنہاں ہیں۔ اب ترنگے کے اندر نیلے چکر کو میں بھارت کے ثقافتی شعور کی علامت کے طور پر دیکھتا ہوں۔ وید سے وویکانند تک، بدھ سے گاندھی تک، یہ چکر چلتا رہا، متھرا کے ورنداون، کروکشیتر کا موہن، ان کا سدرشن چکر اور پوربندر کے موہن کا چرخہ دھاری چکر، یہ چکر کبھی رکا نہیں۔
اور ساتھیو،
آج جب میں بپلوبی بھارت گیلری کا افتتاح کر رہا ہوں، ترنگے کے تین رنگوں میں، نئے بھارت کا مستقبل بھی دیکھ رہا ہوں۔ کیسریا رنگ اب ہمیں محنت، فرض اور قومی سلامتی کی تحریک دیتا ہے۔ سفید رنگ اب ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پرایاس‘ کا مترادف ہے۔ ہرا رنگ آج ماحولیات کے تحفظ کے لیے، قابل تجدید توانائی کے لئے بھارت کے بڑے اہداف کی علامت ہے۔ گرین انرجی سے لے کر گرین ہائیڈروجن تک، بائیو فیول سے لے کر ایتھنول بلینڈنگ تک، نیچرل فارمنگ سے لے کر گوبردھن یوجنا تک، سب اس کے عکس بن رہے ہیں۔ اور ترنگے میں لگا نیلا چکر آج بلیو اکانومی کا مترادف ہے۔ بھارت کے پاس موجود بے پناہ سمندری وسائل، وسیع ساحلی پٹی، ہماری جل شکتی، بھارت کی ترقی کو مسلسل رفتار دے رہی ہے۔
اور ساتھیو،
مجھے خوشی ہے کہ ترنگے کی اس آن بان اور شان میں مزید اضافے کا بیڑا ملک کے نوجوانوں نے اٹھایا ہواہے۔ یہ ملک کے نوجوان ہی تھے جنہوں نے ہر دور میں بھارت کی جنگ آزادی کی مشعل اپنے ہاتھ میں تھام رکھی تھی۔ آپ یاد کیجئے کہ آج کے دن جب بھگت سنگھ، سکھ دیو، راج گرو کو پھانسی ہوئی تو یہ 23-24 سال کے نوجوان تھے۔ خودی رام بوس کی عمر تو پھانسی کے وقت ان سے بھی بہت کم تھی۔ بھگوان برسا منڈا 25-26 سال کے تھے، چندر شیکھر آزاد 24-25 سال کے تھے، اور انہوں نے انگریز حکومت کو دہلا کر رکھ دیا تھا۔ بھارت کے نوجوانوں کی صلاحیت نہ اس وقت کم تھی اور نہ آج کم ہے۔ میں ملک کے نوجوانوں سے کہنا چاہتا ہوں - کبھی اپنی طاقتوں، اپنے خوابوں کو کم نہیں آنکئے گا۔ ایسا کوئی کام نہیں جو بھارت کا نوجوان نہ کر سکے۔ ایسا کوئی ہدف نہیں جو بھارت کا نوجوان حاصل نہ کر سکے۔ آزادی کے 100 برس ہونے پر بھارت جس بھی بلندی پر ہوگا، 2047 میں بھارت جہاں جس اونچائی پر پہنچے گا۔ وہ آج کے نوجوانوں کے دم پر ہی ہوگا۔ اس لیے آج جو نوجوان ہیں ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہونا چاہیے نئے بھارت کی تعمیر میں اپنا تعاون۔ آئندہ 25 برسوں میں بھارت کے نوجوانوں کی محنت، بھارت کی تقدیر بنائے گی، بھارت کے مستقبل کو سنوارے گی۔
ساتھیو،
بھارت کی آزادی کی تحریک نے ہمیں ہمیشہ ایک بھارت - شریشٹھ بھارت کے لیے کام کرنے کی تحریک دی ہے۔ آزادی کے متوالے الگ الگ علاقوں سے تعلق رکھتے تھے، ان کی زبانیں اور بولیاں الگ الگ تھیں۔ یہاں تک کہ ذرائع اور وسائل بھی مختلف تھے۔ لیکن قوم کی خدمت جذبے اور حب الوطنی یکساں تھی۔ وہ ’بھارت بھگتی‘ کے دھاگے سے بندھے تھے، ایک عزم کے لیے لڑے تھے، کھڑے تھے۔ بھارت بھگتی کا یہی ہمیشہ رہنے والا جذبہ ، بھارت کی یکجہتی، سالمیت آج بھی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ آپ کی سیاسی سوچ کچھ بھی ہو، آپ کسی بھی سیاسی پارٹی کے ہوں ، لیکن بھارت کی یکجہتی اور سالمیت کے ساتھ کسی بھی طرح کا کھلواڑ بھارت کے مجاہدین آزادی کے ساتھ سب سے بڑی غداری ہوگی۔ یکجہتی کے بغیر ہم ایک بھارت شریشٹھ بھارت کے جذبے کو بھی مستحکم نہیں کر پائیں گے۔ ملک کے آئینی اداروں کا احترام، آئینی عہدوں کا احترام، تمام شہریوں کے تئیں یکساں جذبات، ان کے ساتھ ہمدردی، ملک کی یکجہتی کو تقوجیت دیتی ہے۔ آج کے اس دور میں ہمیں ملکی یکجہتی کے خلاف کام کرنے والے ہر ایک عنصر پر نظر رکھنی ہے، اور اس کا سختی سے مقابلہ کرنا ہے۔ آج جب ہم آزادی کا امرت مہوتسر منا رہے ہیں تو یکجہتی کے اس امرت کی حفاظت کرنا ، یہ بھی ہماری بڑی ذمہ داری ہے۔
بھائی بہنو،
ہمیں نئے بھارت میں نئے نظریئے کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ یہ نیا نظریہ بھارت کی خود اعتمادی کا ہے، خود کفیلی کا ہے، قدامت کی شناخت کرنے کا ہے، مستقبل کے فروغ کا ہے۔ اور اس میں فرض کے جذبے کی ہی سب سے زیادہ اہمیت ہے۔ ہم آج اپنے فرائض پر جس جذبے سے عمل کریں گے، ہماری کوششیں میں جتنی شدت ہو گی، ملک کا مستقبل اتنا ہی شاندار ہوگا۔ اس لیے آج ’فرائض کی ادائیگی‘ ہی ہماری قومی تحریک ہونی چاہیے۔’فرائض ہی بھارت کا قومی کردار ‘ ہونا چاہیے۔ اور یہ فرض کیا ہے؟ ہم بہت آسانی سے اپنے آس پاس اپنے فرائض کے بارے میں فیصلہ بھی کر سکتے ہیں، کوششیں بھی کر سکتے ہیں، نتیجہ بھی لاسکتے ہیں۔ جب ہم سڑکوں پر چلتے ہوئے، ٹرینوں میں، بس اڈوں پر، گلیوں میں، بازاروں میں ، گندگی نہیں پھیلاتے، سووچھتا کا خیال رکھتے ہیں، تو ہم اپنے فرض کو ادا کرتے ہیں۔ وقت پر ویکسینیشن کرانا، پانی کے تحفظ میں تعاون کرنا، ماحولیات کے تحفظ میں مدد کرنا بھی فرض کی ایک مثال ہی تو ہے۔ جب ہم ڈیجیٹل ادائیگی کرتے ہیں، دوسروں میں اس کے بارے میں بیداری پھیلاتے ہیں، ان کی تربیت کرتے ہیں، تو بھی اپنا فرض ہی ادا کرتے ہیں۔ جب ہم کوئی مقامی پروڈکٹ خریدتے ہیں، ووکل فار لوکل ہوتے ہیں ، تب بھی ہم اپنا فرض ہی ادا کرتے ہیں۔ جب ہم آتم نربھر بھارت مہم کو رفتار دیتے ہیں تو اپنا فرض ہی ادا کرتے ہیں۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ آج بھی بھارت نے 400 بلین ڈالر یعنی 30 لاکھ کروڑ روپے کی مصنوعات کی برآمدات کا نیا ریکارڈ بنایا ہے۔ بھارت کا بڑھتا ہوا ایکسپورٹ ، ہماری صنعت کی طاقت، ہمارے ایم ایس ایم ایز ، ہماری مینوفیکچرنگ صلاحیت، ہمارے زرعی سیکٹر کی صلاحیت کی علامت ہیں۔
ساتھیو،
جب ایک ایک بھارت کا باشندہ اپنے فرائض کو اولین ترجیح دے گا، پوری لگن کے ساتھ ان پر عمل کرے گا، تو بھارت کو آگے بڑھنے میں کوئی مصیبت نہیں آئے گی، آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔ ہم اپنے آس پاس دیکھیں تو لاکھوں نوجوان، لاکھوں خواتین، ہمارے بچے، ہمارے خاندان، فرض کے اس جذبے کو جی رہے ہیں۔ یہ جذبہ جیسے جیسے ہر ایک بھارتی باشندے کا کردار بنتا جائے گا، بھارت کا مستقبل اتنا ہی روشن ہوتا جائے گا۔ میں کوی مکند داس جی کے الفاظ میں کہوں ’’ ''की आनंदोध्वनि उठलो बौन्गो-भूमे बौन्गो-भूमे, बौन्गो-भूमे, बौन्गो-भूमे, भारौतभूमे जेगेच्छे आज भारौतबाशी आर कि माना शोने, लेगेच्छे आपोन काजे, जार जा नीछे मोने''‘‘۔ کروڑوں بھارتی شہریوں کا یہ جذبہ مسلسل تقویت پاتا رہے، انقلاب کے بہادروں کے جذبے سے ہمیں ہمیشہ تحریک ملتی رہے، اسی خواہش کے ساتھ بپلوبی بھارت گیلری کے لیے میں پھر سے آپ سب کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں! وندے ماترم! شکریہ!