نئیدہلی۔26؍فروری۔
وزیراعظم جناب نریندر مودی نے نیوز 18 کے پروگرام رائزنگ انڈیا سمٹ میں جو تقریر کی تھی اس کا متن حسب ذیل ہے:
نیٹ ورک 18 کے گروپ ایڈیٹر انچیف راہل جوشی جی،
نیٹ ورک 18 سے وابستہ سبھی صحافی ساتھی،
مینجمنٹ سے جڑے لوگ،
یہاں موجود دیگر حضرات ، نیٹ ورک 18 کے ناظرین اور میرے عزیز ساتھیو،
ابھی کچھ دیر پہلے ہی مجھے نیشنل وار میموریل کو ملک کی خدمت میں پیش کرنے کی خوش نصیبی حاصل ہوئی ہے۔ یہ بھی ایک عجیب خوش اتفاقی ہے کہ اس کے ٹھیک بعد رائزنگ انڈیا سمٹ میں ایک ایسے موضوع پر بولنے کا موقع ملا ہے جو میرے دل سے بہت قریب ہے۔ میں نیٹ ورک18 کی ٹیم کو بیونڈ پالیٹکس: ڈیفائننگ نیشنل پرائیوریٹیزطے کرنے کیلئے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں تعمیر قوم کی سمت میں کیا ہو، ایک قوم کے طور پر ہماری ترجیح کیا ہو، اس پر مسلسل غوروخوض بہت ضروری ہے۔
اب جب میں میڈیا کے ساتھیوں کے درمیان ہوں تو اس گفتگو کو آگے بڑھانے کیلئے آپ کا پسندیدہ طریقہ ہی اپناؤں گا۔ یعنی پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے۔ اسی سے آپ کو بھی واضح ہوجائیگا کہ پہلے ترجیح کیا تھی اور اب کیا ہے اور اسی سے یہ بھی پتہ چلے گا کہ سیاست سے الگ ہٹ کر جب قومی پالیسی کو ترجیح دی جاتی ہے تو کس طرح کے نتائج نکلتے ہیں۔
ساتھیو! 2014 سے پہلے ملک کی صورتحال یہ تھی کہ جو بڑھنا چاہئے تھا وہ گھٹ رہا تھا اور جو گھٹنا چاہئے تھا وہ بڑھ رہا تھا۔ اب جیسے مہنگائی کی ہی مثال لے لیجئے ۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ مہنگائی کی شرح قابو میں رہنی چاہئے لیکن اصلیت کیا تھی ، پچھلی سرکار میں ضروری اشیاء کے دام آسمان چھو رہے تھے۔ مہنگائی سُرسا کی طرح منہ کھول رہی تھی۔ آپ سبھی کواور خاص طور سے نیوز روم کے پروڈیوسرس کو یاد ہوگا کہ ’مہنگائی ڈائن کھائے جات ہے‘ آپ کو کتنی بار اپنے شوز میں چلانا پڑا تھا۔
ساتھیو! آپ نے اس وقت خوب رپورٹنگ کی تھی کہ مہنگائی کی شرح دس فیصد کا آنکرا بھی پار کرچکی تھی، لیکن آج ہماری سرکار میں مہنگائی کی شرح 2-4 فیصد کے آس پاس ہی رہ گئی ہے۔ یہ فرق تب آتا ہے جب سیاست سے بالاتر ہوکر قومی پالیسی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہی صورتحال انکم ٹیکس کے معاملے میں بھی تھی۔ میڈکل کلاس مسلسل چھوٹ کیلئے آواز دیتا رہتا تھا لیکن راحت کے طور پر کچھ نہیں ملتا تھا۔ ہماری سرکار نے انکم ٹیکس پر چھوٹ کی حد پہلے ڈھائی لاکھ روپئے تک کی ، پھر پانچ لاکھ تک کی ، آمدنی کیلئے ٹیکس کی شرح کو دس فیصد سے گھٹا کر پانچ فیصد کیا گیا اور اس بار تو پانچ لاکھ تک کی ٹیکسیبل انکم کو ٹیکس کے دائرے سے باہر کردیا گیا ہے۔ ساتھیو! اب جی ڈی پی گروتھ ریٹ (مجموعی گھریلو شرح نمو ) کی ہی بات کروں تو آپ پہلے کی سرکار اور اب کی سرکار پہلے کی ترجیح اور اب کی ترجیح کا فرق صفائی کے ساتھ سمجھ پائیں گے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ اٹل جی کی سرکار نے سال 2004 میں یوپی اے کو آٹھ فیصد شرح نمو والی معیشت سونپی تھی لیکن سال 2013-14 میں یوپی اے کی رخصتی ہورہی تھی اس وقت شرح نمو پانچ فیصد کے قریب پہنچ گئی تھی۔ 2014 میں ہم نے ایک بار پھر اس چیلنج کو قبول کیا ، آج ایک بار پھر ہماری سرکار نے جی ڈی پی گروتھ ریٹ (مجموعی گھریلو شرح نمو) کو سات سے آٹھ فیصد کے بیچ پہنچا دیا ہے۔ وہ بڑھے ہوئے کو گھٹا گئے اور ہم نے گھٹے ہوئے کو پھر بڑھا دیا یہ ہماری ترجیح ہے۔ یہی حال ہندوستان کی گلوبل اسٹینڈنگ (عالمی حیثیت ) کا رہا ۔ ہم سب پڑھتے آئے تھے کہ اکیسویں صدی ہندوستان کی صدی ہے لیکن یوپی اے سرکار میں کیا ہوا، ہندوستان تو 2013 تک آتے آتے فریگائیل فائیو ( پانچ کمزور ملکوں) میں پہنچا دیا گیا۔ آج ایک بار پھر سرکار کے عزم محکم اور سواسو کروڑ اہلیان وطن کی محنت کے دم پر ہندوستان فاسٹیسٹ گروئنگ میجر اکونومی (تیزی سے ترقی کرتی بڑی معیشت) بن گیا ہے۔ ایز آف ڈیوئنگ کی رینکنگ میں بھی پچھلی سرکار نے جاتے جاتے ملک کا نام ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ، یہ کانگریس کی کلچر کا ہی نتیجہ تھا کہ سال 2011 کے 132ویں نمبر سے پھسل کر ہندوستان کی رینکنگ 2014 میں 142 تک چلی گئی تھی۔ آپ سوچئے کہ اس وقت ملک میں بزنس کی فضا کیسی بنا دی گئی تھی۔ اس رینکنگ میں سدھار کرکے ملک کو 77ویں مقام پر پہنچانے کا کام ہماری سرکار نے کیا ہے۔
ساتھیو، پچھلی سرکار کے دوران ایز آف ڈوئنگ بزنس میں ملک کی رینکنگ اس لئے بھی پھسل رہی تھی کیونکہ اس وقت بدعنوانی کا گراف آسمان چھو رہا تھا۔ اسپیکٹرم سے لیکر سب میرین تک اور کول سے لیکر سی ڈبلیو جی تک کوئی بھی بدعنوانی سے اچھوتانہیں تھا۔ اس دور میں ہر ادارہ خواہ وہ سپریم کورٹ ہو، سی اے جی ہو یا میڈیا ہو ہر جگہ سرکار کی بدعنوانی کی فائلیں کھل رہی تھیں۔ آج حالت یہ ہے کہ سیاسی مخالفت کیلئے اپوزیشن کے ہمارے ساتھی فرضی طریقے سے کورٹ جاتے ہیں اور وہاں ان کو پھٹکار لگائی جاتی ہے اور سرکار کی بھی ستائش کی جاتی ہے۔ سرکاری قدروں میں یہ بامعنی بدلاؤ ہماری سرکار کے دوران ہی آیا ہے۔
بھائیو اور بہنو! سیاست سے الگ ہماری سرکار کی ترجیحات کیسے الگ رہیں، کیسے ہم ایک اسکیم کو دوسری اسکیم سے جوڑتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں اور اس سے سسٹم کیسے سموتھ اور ٹرانسپیرینٹ ہورہا ہے اس کی ایک مثال پر میں آپ سے تفصیل سےبات کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب ہم نے چار سال پہلے جن دھن اسکیم شروع کی تھی تو کتنا مذاق اڑایا گیا تھا ۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ غریبوں کا بینک کھاتا کھلواکر ہم نے کون سا تیر مار دیا۔ کئی لوگوں نے تو یہاں تک کہا کہ جن کے پاس کھانے کیلئے کچھ نہیں ہے وہ بینک میں کھاتا کھلواکر کیا کریں گے۔ ایسی ہی ذہنیت کی وجہ سے ہمارے ملک میں آزادی کے اتنے برسوں بعد بھی نصف سے زائد لوگوں کے بینک کھاتے نہیں تھے ، آج ہماری سرکار کی کوششوں کی وجہ سے ملک میں 34 کروڑ سے زیادہ لوگوں کے بینک کھاتے کھلے ہیں۔ جن دھن اکاؤنٹ کھلنے کے بعد ہم نے انہیں آدھار نمبروں سے جوڑا، کوشش کی کہ زیادہ سے زیادہ اکاؤنٹ موبائل نمبر سے بھی جڑ جائے۔ ادھر ہم ملک میں جن دھن کھاتے کھول رہے تھے اُدھر ان سرکاری اسکیموں کو بھی کھنگالا جارہا تھا جن میں استفادہ کنندگان کو پیسے دیے جانے کا ضابطہ تھا۔ پہلے یہ پیسے کیسے ملتے تھے ، کون بیچ میں انہیں ہضم کرجاتا تھا یہ بھی آپ کو معلوم ہے۔ ہم ایک ایک کرکے اسکیمیں کھنگالتے گئے اور انہیں جن دھن کھاتوں سے جوڑتے گئے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ سرکار کی سواچار سو سے زیادہ اسکیموں کا پیسہ استفادہ کنندگان کے کھاتوں میں ٹرانسفر ہورہا ہے۔ ہماری سرکار کے دوران قریب قریب چھ لاکھ کروڑ روپئے مرکزی سرکار نے راست طور سے استفادہ کنندگان کے کھاتوں میں بھیجے ہیں۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے انتہائی فخر کااحساس ہورہا ہے کہ پہلے کی طرح 100 میں سے پندرہ پیسے نہیں بلکہ پورے پیسے استفادہ کنندگان کو پہنچ رہے ہیں۔ سرکار کی ان کوششوں کا اثر بدعنوانی اورکالے دھن پر کیا پڑا ہے یہ بھی آپ کو جاننا ضروری ہے۔
ساتھیو! جن دھن اکاؤنٹ ،آدھار اور موبائل کو جوڑنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک کے بعد ایک کرکے کاغذوں میں دبے ہوئے فرضی نام سامنے آنے لگے۔ آپ سوچیے اگر آپ کے گروپ میں یا چینل میں پچاس لوگ ایسے ہوں، جن کی ہر مہینے سیلری تو جارہی ہو لیکن وہ حقیقت میں ہوہی نہیں تو کیا ہوگا؟ اب یہاں ایچ آر والے لوگ کہیں گے کہ ہمارے یہاں ایسا ہوہی نہیں سکتا۔ لیکن پہلے کی سرکاروں نے ملک میں جو انتظام بنا رکھا تھا ان میں ایک دو نہیں آٹھ کروڑ ایسے فرضی نام تھے جن کے نام پر سرکاری فائدہ ٹرانسفر کیا جارہا تھا۔ سرکار کی ان کوششوں سے ایک لاکھ دس ہزار کروڑ سے زائد رقم غلط ہاتھوں میں جانے سے بچ گئی۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ ایک لاکھ دس ہزار کروڑ روپئے بچے ہیں تو یہ بھی سوچیئے کہ پہلے یہی پیسے کسی اور کے پاس جابھی تو رہے تھے۔ سال بہ سال یہ پیسے ان بچولیوں کے پاس جارہے تھے ، ان لوگوں کے پاس جارہے تھے جو اس کے مستحق نہیں تھے۔ اب ہماری سرکار ی نے یہ ساری لیکیج بند کردی ہے۔ آج جس آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت ملک کے تقریباً 50 کروڑ غریبوں کو پانچ لاکھ روپئے تک کے مفت علاج کی سہولت فراہم کرائی جارہی ہے اس میں بھی لیکیج کی گنجائش نہیں ہے۔ علاج کا پورا پیسہ سیدھے اسپتال کے اکاؤنٹ میں جاتا ہے ۔ جس کے استفادہ کنندگان آدھار نمبر سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کا چناؤ 2015 میں پبلش کیے گئے سوشیوایکونومک سروے کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ قریب قریب ہر ویلفیئر اسکیم کے لئے یہی طریقہ اپنایا جارہا ہے جس سے بے ایمانی اور لیکیج دونوں پر شکنجہ کسا جاسکا ہے۔
ساتھیو!آپ کو معلوم ہوگا کہ کل ہی ہماری سرکار نے پردھان منتری کسان سمّان ندھی یوجنا شروع کی ہے۔ ملک کے تقریباً بارہ کروڑ کسان کنبوں کو ان کی چھوٹی چھوٹی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے یعنی چارہ خریدنے کیلئے، بیج خریدنے کیلئے، جراثیم کش دوائیں خریدنے کیلئے، کھاد خریدنے کیلئے، سرکار سال بھر میں تقریباً 75 ہزار کروڑ روپئے سیدھے کسانوں کے کھاتے میں ٹرانسفر کرنے جارہی ہے۔ اس اسکیم میں بھی لیکیج ممکن نہیں ہے۔ اب سوچئے کسی کو چارہ گھوٹالہ کرنا ہو تو کیسے کریگا؟ کیوں کہ اب تو سیدھے موبائل پر میسج آتا ہے۔ کچی پکی پرچی کا تو سارا انتظام ہی مودی نے ختم کردیا۔ اسی لئے تو مجھے پانی پی پی کر گالیاں دی جاتی ہے۔ میں نے جس جس کیلئے لوٹ کے راستے بند کیے ہیں وہ آج کل مجھ سے اتنی محبت جتا رہے ہیں کہ پوچھو مت۔ ایک اسٹیج پر جمع ہوکر اتنی گالیاں شاید ہی کسی کو دی گئی ہو جتنی مجھے دی جاتی ہے۔ ساتھیو ! ان کے لئے مودی کو گالی دینا ترجیح ہے۔ لیکن میری ترجیح ہے کہ ملک کا ایماندار محنت سے کام کرنے والے ،ٹیکس پیئر سے سرکار کو ملی ایک ایک پائی کا صحیح استعمال ہو۔ ہمارے یہاں کس طرح عوام کے پیسے کو ، عوام کا پیسہ نہ سمجھنے کی روایت عرصے تک جاری رہی ہے ، آپ بھی جانتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو سینکڑوں اسکیمیں برسوں تک ادھوری نہ رہتی۔ اٹکتی بھٹکتی نہ رہتی۔ اس لئے ہی ہماری سرکار اسکیموں میں تاخیر کو مجرمانہ لاپروہی سے کم نہیں مانتی۔ میں آپ کو صرف دو تین مثالیں دیتا ہوں کہ پہلے کے دہائیوں میں کیسے کام ہوا ہے اور کیسے اس کا اثر لوگوں کی زندگی پر اور ٹیکس پیئر کے پیسے پر پڑا ہے۔
ساتھیو! یوپی میں بان ساگر کے نام سے ایک ایریگیشن (سینچائی) اسکیم ہے ، یہ اسکیم تقرباً چار دہائی پہلے شروع ہوئی تھی ، اس وقت اندازہ لگایا گیا تھا کہ 300 کروڑ روپئے میں اس کا کام پورا ہوجائیگا لیکن یہ اٹکی رہی ، لٹکی رہی۔ 2014 میں ہماری سرکار بننے کے بعد اس پر پھر کام شروع کیا گیا تب اس کی لاگت کی رقم تین ہزار کروڑ روپئے ہوگئی۔ ایسا تو نہیں تھا کہ کوئی پہلے کی سرکاروں کو کام کرنے سے روک رہا تھا، منع کررہا تھا ۔ اس وقت 300 کروڑ روپئے کی قلت ہو میں یہ بھی نہیں مانتا۔ دراصل کام کو بروقت پورا کرنے کی خواہش ہی ہیں ہوتی تھی ، یہی تھا کہ ٹھیک ہے دیر ہوتی ہے تو ہوتی رہے میرا کیا نقصان ہے۔ ایک اور ڈیم اسکیم ہے جھارکھنڈ کی منڈل ڈیم ۔ یہ بھی چار دہائی سے ادھوری پڑی تھی۔ جب یہ شروع کی گئی تو اس کی لاگت تھی صرف 30 کروڑ اور اب یہ باندھ تقریباً 2400 کروڑ روپئے خرچ کرکے پورا کیاجارہا ہے یعنی یہ اسکیم لٹکنے کی 80 گنا قیمت ملک کے ایماندار ٹیکس دہندہ کو چکانی پڑرہی ہے۔
بھائیو اور بہنو! آپ لوگ گھوٹالے کی خبریں سنتے تھے تو الرٹ ہوجاتے تھے لیکن ملک میں اس طرح کی سینکڑوں اسکیموں میں تاخیر کی وجہ سے ملک کا جو لاکھوں کروڑ روپئے کا آپ جیسے ایماندار ٹیکس دہندہ کا لگاتار برباد ہورہاتھا اس کی کسے پرواہ تھی۔ اس پیسے کا احترام کرنا ہماری سرکار کی ترجیح تھی اور اس لئے ہی سرکاری نظام میں لیٹ لطیفے کے کلچر کو بدلنے کی میں نے پہلے دن سے کوشش کی ہے۔ میں ایک ایک ریاست کے چیف سکریٹری کو لیکر بیٹھا ہوں ، ایک ایک وزارت کے سکریٹری کو لیکر بیٹھا ہوں کہ کچھ بھی ہو لیکن اسکیموں میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ عوام کا پیسہ برباد نہیں ہونا چاہئے۔ ساتھیو! بارہ لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ مالیت کی پرانی اسکیموں کا جائزہ میں نے خود لیا ہے۔ جتنے بھی پروجیکٹس کا تکمیل کے وسیلے سے جائزہ لیا گیا ان میں بیشتر مشرقی ہندوستان کی ہیں، شمال مشرقی ہندوستان کی ہیں، یہ بھی ہماری سرکار کی ترجیحات کا ایک اور بڑا حصہ رہا ہے۔ مشرقی ہندوستان کو نئے ہندوستان کی ترقیاتی نمو کے ساتھ تعمیر سب کا ساتھ سب کا وکاس کے ہمارے وژن کا اہم پہلو رہا ہے۔ آپ نے متعدد بار یہ رپورٹنگ کی ہے کہ کس طرح مشرقی اور شمال مشرقی ہندوستان میں کئی دہائیوں بعد پہلی بار ریل پہنچ رہی ہے۔ پہلی بار ایئرپورٹ بن رہے ہیں، پہلی بار بجلی پہنچ رہی ہے، ہماری کوشش ہے کہ سماج یاملک کا ہر وہ طبقہ جو اپنے آپ کو کسی نہ کسی وجہ سے محروم محسوس کررہا تھا اس کے پاس پہنچا جائے ، اس کی تشویش دور کرنے کی کوشش کی جائے ، عام زمرے کے غریبوں کو دس فیصد ریزرویشن دیے جانے کا فیصلہ ہو یا پھر مزدوروں کیلئے پنشن کی تاریخ اسکیم ہو، گھومنتو فرقے کے لوگوں کیلئے ویلفیئرڈیورلپمنٹ بورڈ بنانے کا فیصلہ ہو یا پھر ملک کے کروڑوں ماہی گیروں کیلئے ایک الگ ڈپارٹمنٹ ، ہم سب کا ساتھ سب کا وکاس کے اصول پر کام کررہے ہیں ، ملک کے ہر شخص ، ہر زمرے ، ہر گوشے تک ترقی اور اعتماد کی روشنی پہنچانے کی ہماری ترجیح ہی نیو انڈیا کی نئی خود اعتمادی کا سبب بن رہی ہے اسی خود اعتمادی کے ساتھ میں آپ سے اس معاملے پر بھی کچھ بات کرناچاہتا ہوں جو آپ کا بہت ہی فیوریٹ موضوع رہا ہے اور یہ فیوریٹ موضوع ہے روزگار۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ نیٹ ورک 18 میں سال 2014 کے بعد سے کسی بھی ایک فرد کو نوکری نہیں ملی ہے، راہل جی یہ معلومات صحیح ہے نا؟ خیر حیران مت ہوں، میں جواب کا سوال بنانے کی کوشش آپ ساتھیو کو لیکر کررہا تھا۔ اب ذرا سوچیے ہندوستان جب سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت بن گیا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ ملازمت کے مواقع پیدا کیے بغیر یہ ممکن ہوجائے جب ملک میں ایف ڈی آئی (راست غیرملکی سرمایہ کاری) ، آل ٹائم ہائی (آج سب سے زیادہ )ہے ، تو کیا یہ ممکن ہے کہ نوکریاں پیدا نہیں ہورہی ہوں۔ جب متعدد غیرملکی رپورٹوں میں کہا جارہا ہے کہ ہندوستان میں بہت تیزی سے غریبی ختم ہورہی ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ نوکری کے بغیر ہی لوگ غریبی سے باہر آرہے ہوں۔ ذرا سوچیے جب ملک میں پہلے کے مقابلے میں کئی گنا تیز رفتار سے سڑکیں بنانے کاکام جاری ہے ، ریل روٹس کو توسیع دی جارہی ہے ،غریبوں کیلئے لاکھوں مکان تعمیر کیے جانے سے لیکر نئے پُل ، نئے باندھ اور نئے ہوائی اڈے جیسے ڈھانچہ جاتی سہولیات کے پروجیکٹس پر ریکارڈ کام ہورہا ہے ، سیاحت کے میدان میں سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے، تو کیا یہ ممکن ہے کہ ان ساری سرگرمیوں سے روزگا رپیدا نہ ہوئے ہوں۔ آپ نےاپنے آس پا س کے ماحول میں ڈاکٹر ، انجینئر یا چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ کو آگے بڑھتے دیکھا ہوگا، محکمہ انکم ٹیکس کے اعداد وشمار کے مطابق پچھلے چار مالی برسوں کے دوران سسٹم سے چھ لاکھ پروفیشنلز جڑے ہیں، ان میں سے ہر پروفیشنلز کو سپورٹ اسٹاف کی بھی ضرورت پڑی ہوگی ایسے میں ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انہیں پروفیشنلز نے پچھلے چار برسوں میں لاکھوں لوگوں کو روزگار دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ سڑک دوڑنے والی گاڑیاں بھی ایک نئی تصویر پیش کرتی ہیں۔ کوئی مجھے بتارہا تھا کہ آپ کے فلم سٹی نوئیڈا میں پہلے جہاں نصف سے زائد جگہ خالی رہ جاتی تھیں اب وہاں گاڑیوں کی پارکنگ کی جگہ بھی نہیں بچی۔ مطلب یہ ہے کہ پچھلے پانچ برسوں میں ٹرانسپورٹ سیکٹر میں زبردست بوم آیا ہے۔ کمرشیل گاڑیوں کی ہی بات کریں تو پچھلے سال ہی ہندوستان میں تقریباً ساڑھے سات لاکھ گاڑیاں فروخت کی گئی ہیں کیا یہ ممکن ہے کہ نوکریوں کے بغیر اتنی کمرشیل گاڑیاں فروخت ہورہی ہیں۔ اب پردھان منتری مدرا یوجنا کو ہی لیجیے ، میں نے میڈیا میں ہی اس سے جڑی ایک سے بڑھ کر ایک حوصلہ افزا کہانیاں دیکھی ہیں، ان میں سے کئی استفادہ کنندگان سے تو میں خود بھی مل چکا ہوں۔ ان کی کامیابی کہانیاں میں نے خود جانی ہیں کس طرح انہوں نے لون لیکر اپنا روزگار شروع کیا اور آج درجنوں کو روزگار دے رہے ہیں۔ ساتھیو اس اسکیم کے تحت پندرہ کروڑ سے زائد کاروباریوں کو سات لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ کا لون دیا گیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس میں سے چار کروڑ سے زائد جواں سال کاروباری ایسے ہیں جنہوں نے اپنے بزنس کیلئے پہلی بار لون لیا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں چھوٹے کاروباریوں کو لون دیا گیا ہو اور اس سے لوگوں کو روزگار نہ ملا ہو۔ ساتھیو ! روزگار کو لیکر سرکار کو ای پی ایف او سے بھی زبردست معلومات حاصل ہوتی ہے جہاں تک ای پی ایف او کی بات ہے تو کروڑوں لوگوں کا پیسہ کٹ رہا ہے سرکار ان کے کھاتے میں اپنے حصے کا پیسہ جمع کرارہی ہے تب جاکر یہ اعداد وشمار مرتب ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہزار دس ہزار لوگوں کا سروے کرکے اعداد وشمار بتائے جارہے ہوں ۔ ستمبر 2017 سے نومبر 2018 کے درمیان ہر مہینے تقریباً پانچ لاکھ سبسکرائبرس ای پی ایف او سے جڑے ہیں۔ اسی طرح ایمپلائیز اسٹیٹ انشورنس کارپوریشن یعنی ای ایس آئی سے بھی ہر ماہ تقریباً دس سے گیارہ لاکھ سبسکرائبر جڑے ہیں۔ اگر ہم اسے ای پی ایف او کے اعداد وشمار سے پچاس فیصد زیادہ بھی مانیں تب بھی رسمی افرادی طاقت میں ہر ماہ تقریباً دس لاکھ لوگ شامل ہوئے ہیں۔ یعنی ایک کروڑ بیس لاکھ نوکریاں ہر سال پیدا ہوئی ہیں۔ گزشتہ چار برسوں میں غیرملکی سیاحوں کی تعداد میں بھی تقریباً پچاس فیصد کا تاریخی اضافہ ہوا ہے۔ سیاحت سے ہونے والی غیرملکی زرمبادلہ کی کمائی بھی گزشتہ چار برسوں میں 50فیصد بڑھ گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہندوستان کے ہوا بازی کے شعبے میں بھی تاریخی اضافہ ہوا ہے ۔ پچھلے برس دس کروڑ سے زائد لوگوں نے ہوائی سفر کیا ۔ کیا ان سب سے روزگا رکے مواقع نہیں پیدا ہوئے ہیں۔ ان اعداد وشمار سے یہ بات صاف طور پر معلوم ہوتی ہے کہ ملک کے ہر شعبے میں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں اور لوگوں کو ملازمتیں ملی ہیں ، ممکن ہے کہ کچھ لوگ مودی کی بات نہ مانیں لیکن یہ بھی تو یاد رکھیے کہ مغربی بنگال سرکار کہہ رہی ہے کہ پچھلے سال اس نے 9 لاکھ ملازمتیں فراہم کرائی ہیں اور 2012 سے 2016 تک 68 لاکھ نوکریاں دی گئی ہیں۔ کرناٹک سرکار کا کہنا ہے کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران 53 لاکھ ملازمتیں دی گئی ہیں ۔ کیا ممکن ہے کہ مغربی بنگال اور کرناٹک میں ملازمتوں کے مواقع تو پیدا ہورہے ہیں لیکن ہندوستان میں نہیں پیدا ہورہے ہیں۔
ساتھیو! میں روزگار کو لیکر مانتا ہوں کہ ابھی بھی ملک میں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ لیکن جس سمت میں اور جس تیزی سے ہم آگے بڑھ رہے ہیں مجھے پورا یقین ہے کہ جابس کو لیکر بھی ہندوستان پوری دنیا کے سامنے ایک مثال بن کر اُبھرے گا۔ ساتھیو، اس نیو انڈیا کو بنانے میں طاقتور کرنے میں میڈیا کی اور آپ سبھی کی خدمات بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ سرکار کی ، سسٹم کی خامیوں کو اُجاگر کرنا آپ کا فطری حق ہے۔ لیکن ملک میں مثبت ماحول کو بھی طاقتور بنانا آپ سبھی کی ذمہ داری ہے۔
میں آپ سب کو مبارکباد دیتا ہوں کہ کیا آپ نے اپنے مثبت کردار کو ذمہ دار ی کے ساتھ نبھایا بھی ہے اور سماج اور نظام سے جڑے سدھار کے کاموں کے بارے میں اپنی پوری ایمانداری کے ساتھ عوامی بیداری پیدا کرنے کاکام کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ نیو انڈیا کے رائز ہونے میں آپ کا یہ کردار اور طاقتور بننے والا ہے اور مضبوط ہونے والا ہے۔ آخر میں آپ سبھی کو اس سمٹ کے اہتمام کیلئے اور یہاں مجھے دعوت دینے کیلئے میں بہت بہت ممنون ہوں۔
شکریہ