جے بابا کیدار، جے بابا کیدار!
روحانیت کی روشنی سے مزین اس پروگرام میں ہمارے ساتھ ڈائس پر موجود تمام اہم شخصیتیں، اس مقصد سرزمین پر پہنچے ہوئے عقیدت مند صاحبان آپ تمام کو میرا نمسکار ۔
آج تمام مٹھوں، تمام 12 جیوترلنگوں ، مختلف شیوالیہ ، متعدد شکتی دھام ، متعدد تیرتھ کے مراکز پر ملک کے عزت مآب اشخاص ، قابل احترام سنت صاحبان، قابل احترام شنکراچاریہ روایت سے جڑے ہوئے تمام بزرگ رشی – منی رشی اور متعدد عقیدت مند بھی ملک کے ہر کونے میں آج کیدار ناتھ کی اس مقدس سرزمین کے ساتھ اس پاکیزہ ماحول کے ساتھ جسمانی طور پر نہ صحیح لیکن روحانی طور سے ورچوئل ذرائعے سے ، ٹکنالوجی کی مدد سے وہ وہاں سے ہمیں آشرواد دے رہے ہیں۔
آپ تمام آدی شنکراچاریہ جی کی سمادھی کی از سر نو قیام کے گواہ بن رہے ہیں۔ یہ بھارت کی روحانی خوشحالی اور وسعت کا بہت ہی روحانی منظر ہے۔ ہمارا دیش تو اتنا عظیم ہے ، رشی روایت اتنی عظیم ہے ، ایک سے بڑھ کر ایک عبادت گزار آج بھی بھارت کے ہر کونے میں روحانی بیداری پیدا کرتے رہتے ہیں۔ ایسے متعدد سنت صاحبان آج ملک کے ہر کونے میں اور یہاں بھی ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ لیکن خطاب میں اگر میں صرف ان کے نام کا تذکرہ کرنا چاہوں تو بھی شاید ایک ہفتہ کم پڑ جائے گا اور اگر ایک آدھ نام چھوٹ گیا تو میں زندگی بھی کسی گناہ کے بوجھ تلے دب جاؤں گا۔ خواہش ہوتے ہوئے بھی میں اس وقت ان تمام لوگوں کے نا موں کا تذکرہ نہیں کر پا رہا ہوں لیکن میں اُن سب کو انتہائی عقیدت بھرا سلام کرتا ہوں۔ وہ جہاں سے بھی اس پروگرام سے جڑے ہیں ان کا آشرواد ہماری بہت بڑی طاقت ہے۔ ان کے مقدس کام کرنے کے لیے ان کا آشرواد ہمیں طاقت فراہم کرے گا۔ مجھے پورا یقین ہے، ہمارے یہاں کہا بھی جاتا ہے۔
آباہنم نا جانامی
ناجانامی وِسرجنم،
پوجام چیو نا
جانامی چھمسو پرمیشورہ۔
اس لیے میں تہہ دل سے ایسی تمام شخصیتوں سے معافی مانگتے ہوئے اس مقدس موقعے پر ملک کے کونے کونے سے جڑے شنکراچاریہ رشی گن عظیم سنت روایت کے تماممعتقیدین میں آپ سب کو یہیں سے پرنام کر کے آپ سب کا آشرواد مانگتا ہوں۔
ساتھیو،
ہمارے اُپ نشدوں میں آدی شنکرا چارجی کی تخلیقیات میں کئی جگہ ’نیتی – نیتی جب بھی دیکھو نیتی – نیتی ایک ایسا جذبہ نیتی –نیتی کہہ کر ایک دنیا کی توسیع کی گئی ہے۔ رام چرت مانس کو بھی اگر ہم دیکھیں تو اس میں بھی اس بات کو دوہرایا گیا ہے ، الگ طریقے سے کہا گیا ہے ، رام چرت مانس میں کہا گیا ہے کہ :
ابی گت اکتھ اپار،ابی گت اکتھ اپار،
نیتی -نیتی نت نگم کہہ، نیتی نیتی نت نگم کہہ،
یعنی کچھ تجربات اتنے غیر مرعی ،اتنے زندہ ہوتے ہیں کہ انہیں لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ بابا کیدار ناتھ کے قدموں میں آکر یہاں کے ذرے ذرے سے جڑ جاتا ہوں۔ یہاں کی ہوائیں ، ہمالیہ کی چوٹیاں ، یہ بابا کیدار ناتھ سے قربت نا جانے کیسی کیفیت کی طرف کھینچ کر لے جاتاہے جس کے لیے میرے پاس لفظ ہی نہیں ہیں۔ دیپاولی کے مقدس موقعے پر میں سرحد پر اپنے فوجیوں کے ساتھ تھا اور آج فوجیوں کی زمین پر ہوں میں نے تیوہاروں کی خوشیاں ملک کے جوان بہادر فوجیوں کے ساتھ تقسیم کی ہیں۔ ملک کے عوام کا محبت بھرا پیغام ، ملک کے عوام کے تئیں ان کی عقیدت ، ملک کے عوام کا ان کے لیے آشرواد ، 130 کروڑ دعائیں لے کر میں کل فوج کے جوانوں کے درمیان گیا تھا اور آج مجھے گووردھن پوجا کے دن کیدار ناتھ جی میں درشن – پوجا کرنے کی سعادت ملی ہے۔ اور گجرات کے لوگوں کے لیے تو آج نیا سال ہے۔ بابا کیدار ناتھ کے درشن کے ساتھ ہی ابھی میں نے آدی شنکرا چاریہ کی سمادھی کی جگہ پر کچھ لمحے گزارے ۔ ایک عجیب روحانی احساس کا وہ پل تھا ۔ سامنے بیٹھے ہی لگ رہا تھا کہ آدی شنکر کی آنکھوں سے وہ روشنی کی شعائیں نکل رہی ہیں جو عظیم بھارت کے اعتماد کو جگا رہی ہیں ۔ شنکرا جی کی سمادھی پر ایک بار پھر مزید روحانی شکل کے ساتھ ہم سب کے درمیان ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سرسوتی کے ساحل پر گھاٹ کی تعمیر بھی ہو چکی ہے اور مداکنی پر بننے والے پل سے گروڑ چٹی راستہ بھی آسان ہو گیا ہے۔ گروڑ چٹی سے تو میرا خصوصی رشتہ بھی رہا ہے یہاں ایک دو لوگ ہیں پرانے دور کے جو پہچان جاتے ہیں میں نے آپ کے درشن کیے بہت اچھا لگا۔ سادھو کو چلتا بھلا یعنی پرانے لوگ تو اب چلے گئے ہیں۔ کچھ لوگ تو اس جگہ کو چھوڑ کر جا چکے ہیں اب منداکنی کے کنارے سیلاب سے حفاظت کے لیے جس دیوار کی تعمیر کی گئی ہے اس سے عقیدت مندوں کا سفر مزید محفوظ ہوگا۔ تیرتھ – پروہیتوں کے لیے نوتعمیر شدہ رہائش گاہوں سے انہیں ہر موسم میں سہولت ہوگی ۔ بھگوان کیدار ناتھ کی خدمت ان کے لیے اب کچھ آسان ہوگی اور پہلے تو میں نے دیکھا ہے جب قدرتی آفات کی تباہی آتی تھی تو مسافر یہاں پھنس جاتے تھے۔ اس وقت ان پروہیتوں کے ہی گھروں میں ایک ایک کمرے میں بہت سارے لوگ اپنا وقت گزارتے تھے اور میں دیکھتا تھا ہمارے یہ پروہیت خود باہر ٹھنڈ میں ٹھٹھرتے تھے لیکن اپنے یہ جو یجمان آتے تھے ان کی فکر کرتے تھے ۔ میں نے سب دیکھا ہوا ہے اب ان مصیبتوں سے ان کو نجات ملنے والی ہے۔
ساتھیو،
آج یہاں سفری خدمات اور سہولتوں سے جڑے کئی پروجیکٹوں کا افتتاح بھی ہوا ہے۔ سیاحوں کی سہولت والے مراکز کی تعمیر ہو، مسافروں اور اس علاقے کے لوگوں کی سہولت کے لیے جدید اسپتال ہوں ، جن میں ہر طرح کی سہولیات دستیاب ہوں ، ریل شیلٹر ہو، یہ تمام سہولتیں عقیدت مندوں کی خدمت کا ذریعہ بنیں گی۔ ان کے مذہبی سفر کو اب پریشانی سے آزاد ، جے بھولے کے قدموں میں لین ہونے کا انہیں ایک خوبصورت احساس ہوگا۔
ساتھیو،
برسوں پہلے جو یہاں پر تباہی آئی تھی ، جس طرح کا نقصان ہوا تھا ، اُس کا تصور ہیں کیا جاسکتا۔ میں وزیر اعلیٰ تو گجرات کا تھا لیکن میں اپنے آپ کو روک نہیں پایا تھا۔ میں یہاں دوڑا چلا آیا تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے اس تباہی کو دیکھا تھا ، اس درد کو محسوس کیا تھا جو لوگ یہاں آتے تھے وہ سوچتے تھے کہ کیا اب یہ ہمارا کیدار دھام ، یہ کیدار پوری پھر سے اٹھ کھڑی ہوگی ، لیکن میرے اندر کی آواز کہہ رہی تھی کہ یہ پہلے سے زیادہ آن بان اور شان کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ میرا یہ یقین بابا کیدار کے سبب تھا ۔ آدی شنکر کی سادھان کے سبب تھا۔ رشیوں ، منیوں کی عبادت کے سبب تھا۔ لیکن ساتھ ساتھ کچھ کے زلزلے کے بعد کَچھ کو از سر نو کھڑا کرنے کا میرے پاس تجربہ بھی تھا۔اس لیے مجھے یقین تھا اور آج اس یقین کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے ہوئے دیکھنا اس سے بڑا زندگی کا سنتوش کیا ہوسکتا ہے ، میں اسے اپنی خوش نشیبی تصور کرتا ہوں کہ بابا کیدار ناتھ نے ، سنتوں کے آشرواد نے اس مقدس سرزمین نے جس کی ہواؤں نے کبھی مجھے پالا پوسا تھا اس کے لیے خدمات کرنے کی سعادت ملنا اس سے بڑی زندگی کی سعادت کیا ہوسکتی ہے۔ اس آدی بھومی پر روایت کے ساتھ جدت کا یہ میل ، ترقی کے یہ کام بھگوا ن شنکر کی کرپا کا ہی نتیجہ ہیں۔یہ اشور ہی کریڈٹ نہیں لے سکتا انسان کریڈٹ لے سکت اہے۔ اشور کرپا ہی اس کی حقدار ہے۔ میں ان نیک کوششوں کے لیے اتراکھنڈ سرکار کا ، ہمارے ولولے سے بھرپور نوجوان وزیر اعلیٰ دھامی جی کا اور ان کاموں کی ذمہ داری اٹھانے والے تمام لوگوں کا بھی آج دل سے شکریہ اداکرتا ہوں جنہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ان خوابوں کو پورا کیا۔ مجھے پتا ہے یہاں برفباری کے درمیان بھی کس طرح پورے سال کام کرنا مشکل ہے۔ یہاں بہت کم وقت ملتا ہے لیکن برفباری کے درمیان بھی ہمارے مزدور بھائی بہن جو پہاڑوں کے نہیں باہر سے آئے تھے وہ اشور کا کام مان کر کے برفبار ی کے درمیان بھی صفر درجۂ حرارت میں بھی کام چھوڑ کر نہیں جاتے تھے۔ بلکہ کام کرتے رہتے تھے۔ تب جا کر کے یہ کام پورا ہو پایا ہے۔ میرا من یہاں لگا رہتا تھا میں بیچ بیچ میں ڈرون کی مدد سے ، ٹکنالوجی کی مدد سے ایک طرح سے یہاں کا ورچوئل سفر کرتا تھا ۔ مسلسل میں کام کی باریکیوں کو دیکھتا تھا ۔ کتنا کام ہوا ، مہینہ بھر پہلے کام کہاں پہنچا تھا ، اس مہینے کہاں پہنچے یہ سب مسلسل دیکھتا تھا، ہاں۔ میں کیدار ناتھ مندر کے راول اور تمام پجاریوں کا کے تئیں آج خصوصی طور سے ممنونیت کا اظہار کرتا ہوں کیوں کہ ان کے مثبت رویے اور ان کی مثبت کوششوں کے سبب، ساتھ ہی انہوں نے ہماری جو رہنمائی تھی اس کے سبب ہم اس پرانی وراثت کو بچا پائے اور اسے جدید شکل دے سکے اس کے لیے میں ان پجاریوں کا ، راول خاندان کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
آدی شنکرا چاریہ کے بارے میں ہمارے عالموں اور مفکروں نے کہا ہے کہ ’’شنکرو، شنکرہ ،ساکچھات ‘‘ یعنی آچاریہ شنکر ساکچھات بھگوان شنکر کا ہی روپ تھے یہ عظمت ، یہ روحانیت آپ ان کی زندگی کے ہر لمحے میں محسوس کر سکتے ہیں ۔ اس کی طرف ذرا نظر کریں تو تمام یادداشتیں سامنے آجاتی ہیں۔ چھوٹی سی عمر سے ہی شاستروں کا علم - سائنس پر غور و فکر اور اس عمر میں ایک عام آدمی عام طور پر دنیا کی باتوں کو تھوڑا دیکھنا اور سمجھنا شروع کرتا ہے، تھوڑی بیداری کا آغاز ہوتا ہے اُس عمر میں ویدانت کی گہرائی کو ، اٹھئے گڈہاتھ کو ، سانگو پاد وویچن اس کی تفسیر حقیقی شکل میں کیا کرتے تھے۔ یہ شنکر کے اندر ساکچھات شنکرتوو کی بیداری کے سِوا کچھ نہیں ہو سکتا۔
ساتھیو،
یہاں سنسکرت اور دیوں کے بڑے بڑے پنڈت بیٹھے ہیں اور ورچوئل طور پر بھی ہمارے ساتھ جڑے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ شنکر کا مطلب سنسکرت میں بڑا آسان ہے ’’شن کروتی سہ شنکر‘‘ یعنی جو بھلا کرے وہی شنکر ہے۔ اس بھلائی کو بھی آچاریہ شنکر نے براہ است ثابت کر دیا۔ ان کی پوری زندگی جتنی سادہ تھی اتنا ہی وہ عوام کی فلاح کے لیے وقف تھے۔ بھارت اور دنیا کی بھلائی کے لیے وہ مسلسل اپنی فکر کو وقف کرتے رہتے تھے۔ جب بھارت راگ ، دویش کے بھنور میں پھنس کر اپنا اتحاد کھو رہا تھا تب شنکرا چاریہ جی نے کہا ’’نا مے دویش راگو نا مے لوگ موہو مدو نیو مے نیو ماتسر بھاوہ ‘‘ یعنی آپسی اختلاف و تفریق ، خود غرزی فائدہ ، جلن یہ سب ہماری فطرت نہیں ہے ، جب بھارت کو ذات پرستی کی سرحدوں سے باہر دیکھنے کے خدشات سے اوپر اٹھنے کی عام لوگوں کو ضرورت تھی تب انہوں نے سماج میں بیداری کی روح پھونکی۔ آدی شنکر نے کہا کہ ’’نامے مرتیو شنکا، نامے جاتی بھیدہ‘‘ یعنی تباہی و بربادی کے خدشات ، ذات پات کی تفریق سے ہمارے روایت کا کوئی لینا دینا نہیں ہے ہم کیا ہیں ، ہمارا فلسفہ اور فکر کیا ہے یہ بتانے کے لیے آدی شنکر نے کہا ’’سدانند روپہ ، شیو ہم ، شیوہم ‘‘ یعنی آنند سوروپ شیو ہم ہی ہیں، زندہ طور پر بھی، شیوتو ہے اور وحدانت کے فلسفے کو سمجھانے کے لیے بڑی بڑی مذہبی کتابوں کی ضرورت پڑتی ہے۔میں تو اتنا بڑا عالم نہیں ہوں ، میں تو آسان زبان میں اپنی بات سمجھتا ہوں اور اتنا ہی کہتا ہوں جہاں دویت نہیں ہے وہاں ادویت ہے۔ شنکرا چاریہ جی نے بھارت کی فکر میں پھر سے روح پھونکی اور ہمیں ہماری اقتصادی - معاشی ترقی کا منتر بتایا۔ انہوں نے کہا ہے ’’گیان وہینا ‘‘، دیکھیے گیان کی اپاسنا کی اہمیت کتنی ہے ’’گیان وہینا سرو متینو، مکتم نا بھجتیہ جنم ستین‘‘ یعنی دکھ پریشانی اور مشکلات سے ہماری آزادی کی ایک ہی راہ ہے اوروہ ہے علم ۔ بھارت کی علم ، سائنس اور فلسفے کی جو قدیم روایت ہے اُسے آدی شنکرا چاریہ جی نے پھر سے زندہ کیا، اس میں نئی روح پھونکی ۔
ساتھیو،
ایک وقت تھا جب روحانیت کو ، مذہب کو صرف غلط روایت سے جوڑ کر کچھ ایسے غلط اصول اور تصورات سے جوڑ کر دیکھا جانے لگا تھا ۔ لیکن بھارتیہ فلسفہ تو انسانی بھلائی کی بات کرتا ہے ، زندگی کو مکمل طور سے مجموعی نقطۂ نظر اور جامع طریقے سے دیکھتا ہے۔ آدی شنکرا چاریہ جی نے سماج کو اس سچائی سے رو برو کرانے کا کام کیا تھا انہوں نے مقدس مٹھوں کا قیام کیا۔ چار دھام قائم کیے ،دوادش جیوتر لنگموں کو از سر نو زندہ کرنے کا کام کیا ، انہوں نے سب کچھ ترک کر کے ملک ، سماج اور انسانیت کے لیے ، جینے والوں کے لیے ایک مضبوط روایت کھڑی کی۔ آج ان کے یہ ادارے بھارت اور بھارتیتا کا ایک طرح سے شناخت بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے لیے مذہب کیا ہے ، مذہب اور علم کا تعلق کیا ہے اسی لیے تو کہا گیا ہے اتھاتو برہم جگیاسہا، اس کا منتر دینے والی اپنشدوں کی روایت کیا ہے جو ہمیں ہر لمحہ سوال کرنا سکھاتی ہے اور تبھی تو بالک نچیکیتا یم کے دربار میں جا کر یم کی آنکھوں میں آنکھیں ملا کر پوچھ لیتا ہے کہ موت کیا ہے؟ بتاؤ سوال پوچھنا ، معلومات حاصل کرنا ’اتھاتو برہم جگیاسہ بھوو‘ اس وراثت کو ہمارے مٹھ ہزاروں سال سے زندہ رکھے ہوئے ہیں جو سنسکرت کو ، سنسکرت زبان میں ویدک حساب جیسے سائنس ان مٹھوں میں ہمارے شنکراچاریہ کی روایت کا تحفظ ہو رہا ہے ۔ نسل در نسل انہوں نے راہ دکھانے کا کام کیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں آج کے اس دور میں آدی شنکرا چاریہ جی کے اصول اور بھی زیادہ اہمیت کے حامل ہو گئے ہیں۔
ساتھیو،
ہمارے یہاں صدیوں سے چار دھا م یاترا کی اہمیت رہی ہے ، دودش جیوترلنگم کے درشن کی، شکتی پیٹھوں کے درشن کی ، اشٹھ ونایک جی کے درشن کی یہ ساری یاترا کی روایت ، یہ مذہبی سفر ہمارے یہاں زندگی کے عہد کے کا حصہ مانا گیا ہے۔ یہ مذہبی سفر ہمارے لیے سیاحت یا سیر سپاٹا نہیں ہے یہ بھارت کو جوڑنے والی ، بھارت کو متعارف کرانے والی ایک زندہ روایت ہے ۔ ہمارے یہاں ہر کسی کو یہ خواہش ہوتی ہے کہ زندگی میں کم سے کم ایک بار چار دھام ضرور ہو آئے۔ دوادش جیوتر لنگم کے درشنکر لے۔ ماں گنگا میں ایک بار ڈبکی ضرور لگا لیں۔ بچوں کو گھروں میں یہ سکھانے کی روایت تھی، ’’سوراشٹرے سوم ناتھم چہ شری سیلے ملیکّاارجنم‘‘ بچپن میں سکھایا جاتا تھا۔ دوادش جیوترلنگم کا یہ منتر گھر بیٹھے بیٹھے ہی ایک عظیم بھارت کا ہر دن سفر کرا دیتا تھا۔ بچپن سے ہی ملک کے الگ الگ حصے سے جڑاؤ ایک روایت بن جاتی تھی۔ یہ عقیدت ، یہ تصور مشرق سے مغرب تک ، شمال سے جنوب تک بھارت کو ایک زندہ اکائی میں بدل دیتے ہیں۔ قومی اتحاد کی طاقت کو بڑھانے والا ، ایک بھارت شریسٹھ بھارت کا وسیع فلسفہ ، ہاں آسان زندیگ کا حصہ تھا ۔ بابا کیدار ناتھ کے درشن کر کے ہر عقیدت مند ایک نئی توانائی لے کر جاتا ہے ۔
ساتھیو،
آدی شنکراچاریہ کی وراثت کو ، اس فکر کو آج ملک اپنے لیے ایک تحریک کی شکل میں دیکھتا ہے۔ جب ہماری ثقافتی وراثت کو ، عقدت کے مراکز کو اُسی احترام کے جذبے سے دیکھا جا رہا ہے جیسا دیکھا جانا چاہیے تھا۔ آج ایودھیا میں بھگوان شری رام کا عظیم مندر پورے وقار کے ساتھ بن رہا ہے ۔ ایودھیا کو اس کا وقار صدیوں کے بعد واپس مل رہا ہے ۔ ابھی دو دن پہلے ہی ایودھیا میں دیپ اتسو کا وسیع پیمانے پر انعقاد پوری دنیا نے دیکھا۔ بھارت کی قدیم ثقافتی شکل کیسی رہی ہوگی، آج ہم اس کا تصور کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اتر پردیش میں ہی کاشی کا بھی کایا کلپ ہو رہا ہے۔ وشوناتھ دھام کا کام تیز رفتاری سے تکمیل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بنارس میں سار ناتھ ، نزدیک میں کشی نگر، بودھ گیا، تمام مقامات پر ایک بودھ سرکٹ بین الاقوامی سطح پر سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لیے پوری دنیا کے بدھ کے عقیدت مندوں کو متوجہ کرنے کے لیے بہت تیزی سے کا م چل رہا ہے۔ بھگوان رام سے جڑے جتنے بھی مذہبی مقام ہیں انہیں جوڑ کر ایک پورا سرکٹ بنانے کا کام بھی چل رہا ہے۔ متھرا ، ورندا ون میں بھی ترقی کے ساتھ ساتھ وہاں کے تقدس کو لے کر سنتوں کی فکر کو جدیدیت کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ جذبات کا خیال رکھا جا رہا ہے ۔ اتنا سب کچھ آج اس لیے ہو رہا ہے کیوں کہ آج کا بھارت آدی شنکرا چاریہ جیسے ہمارے منی شیوں کے احکامات میں عقیدت رکھتے ہوئے ان پر فخر کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔
ساتھیو،
اس وقت ہمارا دیش آزادی کا امرت مہوتسو بھی منا رہا ہے ۔ دیش اپنے مستقبل کے لیے اپنی تعمیری نو کے لیے نیا عہد لے رہا ہے ۔ امرت مہوتسو کے ان عہدوں میں سے آدی شنکرا چاریہ جی کو ایک بہت بڑی تحریک کی شکل میں دیکھتا ہوں ۔
جب ملک اپنے لیے بڑے ہدف تیار کرتا ہے ، مشکل وقت اور صرف مشکل ہی نہیں وقت کی حد مقرر کرتا ہے توکچھ لوگ کہتے ہیں کہ اتنے کم وقت میں یہ سب کیسے ہوگا۔ اور تب میرے اندر سے ایک ہی آواز آتی ہے 130 کروڑ ملک کے عوام کی آواز مجھے سنائی دیتی ہے ۔ میرے منھ سے یہی نکلتا ہے کہ وقت کے دائرے میں باندھ کر خوف زدہ ہونا اب بھارت کو منظور نہیں۔ آپ دیکھیے آدی شنکرا چاریہ جی کو چھوٹی سی عمر تھی ، گھر بار چھوڑ دیا ، سنیاسی بن گئے ، کہاں کیرل کا کال لڑی اور کہاں کیدار۔ کہاں سے کہاں چل پڑے ۔ سنیاسی بنیں بہت ہی کم عمر میں اس پوتر بھومی میں ان کا جسم تحلیل ہو گیا ، اپنے اتنے کم وقت میں انہوں نے بھارت کے جغرافیا کو زندہ کر دیا۔ بھارت کے لیے نئے مستقبل کی بنیاد رکھ دی۔ انہوں نے جو توانائی پھیلائی وہ آج بھی بھارت کو سرگرام بنائے ہوئے ہے اورآنے والے ہزاروں سال تک اسے سرگرم بنائے رکھے گی۔ اسی طرح سوامی وویکانند جی کو دیکھیے ، جنگ آزادی کے متعدد فوجیوں کو دیکھیے ایسی کتنی ہی عظیم روحیں ، عظیم شخصیتیں اس سرزمین پر پید اہوئی ہیں۔ انہوں نے وقت کی سرحدوں کی خلاف ورزی کر کے چھوٹے سے عہد میں کئی کئی عہد تیار کیے۔ یہ بھارت ان عظیم شخصیتوں کی تحریکوں پر چلتا ہے۔ ہم روایت کو ایک طرح سے تسلیم کرتے ہوئے چلتے رہنے پر یقین کرتے ہیں۔ اسی یقین کو لے کر ملک آج اس امرت کال میں آگے بڑھ رہا ہے ۔ میں ملک کے عوام سے ایک اور گزارش کرنا چاہتا ہوں ، جنگ آزادی کی لڑائی سے جڑے تاریخی مقامات کو دیکھنے کےساتھ ساتھ ایسے مقدس مقامات کو بھی دیکھنے کےلیے زیادہ سے زیادہ جائیں ۔ نئی نسل کو لے کر جائیں ،انہیں واقف کرائیں، ماں بھارتی سے ملاقات کرائیں ۔ ہزاروں سال کی عظیم روایت کی تعلیمات کو محسوس کریں۔ آزادی کی امرت کال میں ،آزادی کا یہ بھی ایک مہوتسو ہو سکتا ہے۔ ہر ہندوستانی کے دل میں ہندوستان کے ہر کونے میں ، ذرے ذرے میں شنکر کا حاساس جاگ سکتا ہے۔ اس لیے یہ نکل پڑنے کا وقت ہے۔ جہنوں نے غلامی کے سینکڑوں برسوں کے عہد میں ہمارے اعتقادا کو باندھ کر رکھتا ، ہمارے اعتقاد کو کبھی کھرونچ تک نہیں آنے دی یہ کوئی چھوٹی خدمت نہیں تھی۔آزادی کے عہد میں اس عظیم خدمت کی پرستش ، اس کا ذکر کرنا ، وہاں عبادت کرنا، سادھنا کرنا کیا یہ ہندوستان کے شہری کا فرض نہیں ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں ایک شہری کے طور پر ہمیں ان مقدس مقامات کا بھی درشن کرنا چاہیے۔ ان مقامات کی عظمت کو جاننا چاہیے۔
ساتھیو،
دیو بھومی کے تئیں لا محدود عقیدت کو پیش کرتے ہوئے یہاں کے وسیع امکانات پر اعتماد کرتے ہوئے اترا کھنڈ کی سرکار ،یہاں ترقی کے مہا یگیہ میں جٹی ہے اور پوری طاقت سے جڑی ہے۔ چار دھام سڑک پروجیکٹ پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ چاروں دھام ہائی وے سے جڑ رہے ہیں ۔ مستقبل میں کیدار ناتھ جی تک عقیدت مند کیبل کار کے ذریعے آسکے۔ اس سے جڑا عمل بھی شروع ہو گیا ہے۔ یہاں قریب میں ہی پوتر ہیمکنڈ صاحب جی بھی ہیں ،۔ ہیمکنڈ صاحب جی کے درشن آسان ہوں اس کے لیے وہاں بھی روپ وے بنانے کی تیاری ہے ۔اس کے علاوہ رشی کیس اور کرن پرگیا کو ریل سے بھی جوڑنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ابھی وزیراعلیٰ جی کہہ رہے تھے پہاڑ کے لوگوں کو ریل دیکھنا بھی مشکل ہوتا ہے ۔ اب ریل پہنچ رہی ہے۔دہلی – دہرہ دون ہائی وے بننے کے بعد دہرہ دون سے دلی آنے والون کے لیے وقت اور کم ہونے والا ہے۔ ان سب کاموں کا اترا کھنڈ کو یہاں کی سیاحت کو بہت بڑا فائدہ ہوگا۔ اور میرے الفاظ اترا کھنڈ کے لوگ لکھ کر رکھ لیں ۔ جس تیز رفتاری سے بنیادی ڈھانچہ بن رہا ہے ، پچھلے سو سال میں جتنے عقیدت مند یہاں آئے ہیں آنے والے دس سال میں اس سے بھی زیادہ آنے والے ہیں۔ آپ تصور کر سکتے ہیں۔ یہاں کی معیشت کو کتنی بڑی طاقت ملنے والی ہے۔ 21ویں صدی کی یہ تیسری دہائی اترا کھنڈ کی دہائی ہے۔ میں پوتر دھرتی سے بول رہا ہوں ۔ حال کے دنوں میں ہم سب نے دیکھا ہے کہ کس طرح چار دھام یاترا میں آنے والے عقیدت مندوں کی تعداد لگاتار ریکارڈ توڑ رہی ہے۔ کووڈ نہ ہوتا تو نا جانے یہ تعداد کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہوتی۔ میری مائیں بہنیں اور پہاڑ میں تو ماؤں بہنوں کی طاقت کا ایک الگ ہی مفہوم ہوتا ہے۔ جس طرح سے اترا کھنڈ کے چھوٹے چھوٹے مقامات پر فطرت کی گود میں ہوم اسٹے کا نیٹ ورک بن رہا ہے جو مسافر آتے ہیں وہ ہوم اسٹے کو پسند کرنے لگے ہیں۔ روز گار بھی ملنے والا ہے ۔ عزت سے جینے کا موقع بھی ملنے والا ہے ۔ یہاں کی سرکار جس طرح ترقیاتی کاموں میں مصروف ہے اس کا ایک اور فائدہ ہوا ہے ۔ یہاں تو ہمیشہ کہا کرتے تھے پہاڑ کا پانی اور پہاڑ کی جوانی کبھی پہاڑ کے کام نہیں آتی۔ میں نے اس بات کو تبدیل کر دیا اب پانی بھی پہاڑ کے کام آئے گا اور جوانی بھی پہاڑ کے کام آئے گی۔ نقل مکانی کا سلسلہ اب رکنا ہے ۔
ساتھیو،
میرے نوجوان ساتھیو، یہ دہائی اب آپ کی ہے ۔ اترا کھنڈ کی ہے ۔ روشن مستقبل کی ہے۔ بابا کیدار کا آشرواد ہمارے ساتھ ہے۔
یہ دیو بھوم محض ماتر بھوم کا تحفظ کرنے والے متعدد بہادر بیٹے بیٹیوں کی جنم استھلی بھی ہے ۔ یہاں کوئی گھر کوئی گاؤں ایسا نہیں ہے جہاں بہادری کے قصے سے تعارف نہ ہو۔ آج ملک جس طرح اپنی فوجوں کی جدیدکاری کر رہا ہے ، انہیں آتم نربھر بنا رہا ہے اس سے ہمارے بہادر فوجیوں کی طاقت اور بڑھ رہی ہیں۔ آج ان کی ضرورت ، ان کی خواہشات کو ان کے اہل خانہ کی ضروریات کو زیادہ اولیت دینے کا کام ہو رہا ہے۔ یہ ہماری حکومت جس نے ’ون رینک ، ون پنشن‘ کے چار دہائی پرانے مطالبےکو ، پچھلی صدی کے مطالبے کو اس صدی میں پورا کیا۔ مجھے اطمینان ہے ، میرے ملک کے فوجی جوانوں کے لیے مجھے خدمت کرنے کا موقع ملا۔ اس کا فائدہ اترا کھنڈ کے ہزاروں خاندانوں کو ملا ہے ۔
ساتھیو،
اترا کھنڈ نے کورونا کے خلاف لڑائی میں جس طرح ڈسپلین کا مظاہرہ کیا وہ بہت قابل ستائش ہے۔ جغرافیائی مشکلات کو پار کر کے آج اترا کھنڈ نے صد فی صد پہلی خوراک کا ہدف حاصل کر لیا ہے۔ یہ اترا کھنڈکی طاقت کو دکھاتا ہے۔ اترا کھنڈ کی اہلیت کو دکھاتا ہے۔ جو لوگ پہاڑوں سے واقف ہیں انہیں پتا ہے یہ کام آسان نہیں ہوتا ہے ۔ گھنٹوں پہاڑ کی چوٹیوں پر جا کر دویا پانچ خاندانوں کو ویکسین دے کر رات رات بھر چل کر گھر پہنچنا ہوتا ہے۔ کتنی تکلیف ہوتی ہے میں اس کا اندازہ لگا سکتا ہوں۔ اس کے بعد بھی اترا کھنڈ نے کام کیا ہے۔ کیونکہ اترا کھنڈ کے ایک ایک شہری کی زندگی بچانی ہے۔ اس کے لیے وزیراعلیٰ جی میں آپ کو اور آپ کی ٹیم کو مبارک باد دیتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ جس بلندی پر اترا کھنڈ آباد ہے اس سے بھی زیادہ بلندیاں یہ حاصل کر کے رہے گا۔ بابا کیدار کی سرزمین سے آپ سب کے آشرواد سے ، ملک کے کونے کونے سے سنتوں کے ، مہنتوں کے ، رشی منیوں کے ، آچاریہ کے آشروادکے ساتھ آج اس مقدس سرزمین سے متعدد عہد کے ساتھ ہم آگے بڑھیں۔ آزادی کے امرت مہوتسو میں ملک کو نئی بلندی پر پہنچانے کا عہد ہر کوئی کرے۔ دیوالی کے بعد ایک نئے ولولے ، ایک نئی روشنی ، نئی توانائی ہمیں نیا کرنے کی طاقت دے۔ میں ایک بار پھر بھگوان کیدار ناتھ کے قدموں میں ، آدی شنکرا چاریہ کے قدموں میں پرنام کرتے ہوئے آپ سب کو ایک بار پھر دیوالی کے اس عظیم تہوار سے لے کر چھٹ پوجا تک متعدد تہواروں کے لیے ہاں، مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ میرے ساتھ پیار سے بولیے، طاقت سے بولیے، جی بھر کے بولیے۔
جے کیدار!
جے کیدار!
جے کیدار!
شکریہ۔