نئی دہلی، 11 /اکتوبر 2020 ۔ آج جن ایک لاکھ لوگوں کو اپنے گھروں کا سوامتو پتر یا پراپرٹی کارڈ ملا ہے، جنھوں نے اپنا کارڈ ڈاؤنلوڈ کیا ہے انھیں میں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ آج جب آپ اپنے کنبے کے ساتھ بیٹھیں گے، شام کو جب کھانا کھاتے ہوں گے۔۔۔ تو مجھے پتہ ہے کہ پہلے کبھی اتنی خوشی نہیں ہوتی ہوگی جتنی آج آپ کو ہوگی۔ آپ اپنے بچوں کو فخر سے بتاسکیں گے کہ دیکھئے اب ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ آپ کی پراپرٹی ہے، آپ کو یہ وراثت میں ملے گی۔ ہمارے آباء و اجداد نے جو دیا تھا کاغذ نہیں تھے، آج کاغذ ملنے سے ہماری طاقت بڑھ گئی۔ آج کی شام آپ کے لئے بہت خوشیوں کی شام ہے، نئے نئے سپنے بننے کی شام ہے اور نئے نئے خوابوں کے بارے میں بات چیت کرنے کی شام ہے۔ اس لئے آج جو حق ملا ہے میری بہت مبارک باد ہے آپ کو۔
یہ حق ایک طرح سے قانونی دستاویز ہے۔ آپ کا گھر آپ کا ہی ہے، آپ کے گھر میں آپ ہی رہیں گے۔ آپ کے گھر کا کیا استعمال کرنا ہے، اس کا فیصلہ آپ ہی کریں گے۔ نہ سرکار کچھ دخل کرسکتی ہے نہ اڑوس پڑوس کے لوگ۔
یہ اسکیم ہمارے ملک کے گاؤں میں تاریخی تبدیلی لانے والی ہے۔ ہم سبھی اس کے گواہ بن رہے ہیں۔
آج اس پروگرام میں کابینہ کے میرے ساتھی جناب نریندر سنگھ تومر جی ہیں، ہریانہ کے وزیر اعلیٰ جناب منوہر لال جی ہیں، نائب وزیر اعلیٰ جناب دشینت چوٹالہ جی ہیں، اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ جناب ترویندر سنگھ راوت جی ہیں، اترپردیش کے وزیر اعلیٰ جناب یوگی آدتیہ ناتھ جی ہیں، مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان جی ہیں، مختلف ریاستوں کے وزراء بھی ہیں، سوامتو اسکیم کے دیگر مستفیدین ساتھی بھی آج ہمارے بیچ موجود ہیں۔ اور جیسے نریندر سنگھ جی بتارہے تھے۔۔۔ سوا کروڑ سے زیادہ لوگ، انھوں نے رجسٹری کروائی ہے اور اس پروگرام میں ہم سے جڑے ہیں۔ یعنی آج اس ورچول میٹنگ میں گاؤں کے اتنے لوگوں کا جڑنا، یہ سوامتو اسکیم کا کتنا پرکشش ہے، کتنی طاقت ہے اور کتنا اہم ہے، اس کا ثبوت ہے۔
آتم نربھر بھارت ابھیان میں آج ملک نے ایک اور بڑا قدم اٹھا دیا ہے۔ سوامتو اسکیم، گاؤں میں رہنے والے ہمارے بھائی بہنوں کو خودکفیل بنانے میں بہت مدد کرنے والی ہے۔ آج ہریانہ، کرناٹک، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، اتراکھنڈ اور اترپردیش کے ہزاروں کنبوں کو ان کے گھروں کے قانونی کاغذ سونپے گئے ہیں۔ اگلے تین چار سال میں ملک کے ہر گاؤں میں، ہر گھر کو اس طرح کے پراپرٹی کارڈ دینے کی کوشش کی جائے گی۔
اور ساتھیو، مجھے بہت خوشی ہے کہ آج اتنا بڑا کام ایک ایسے دن ہورہا ہے۔۔۔ یہ دن بہت اہم ہے۔ آج کے دن کی ہندوستان کی تاریخ میں بھی بہت بہت بڑی اہمیت ہے۔ اور وہ ہے آج ملک کے دو دو عظیم سپوتوں کا یوم پیدائش ہے۔ ایک بھارت رتن لوک نائک جے پرکاش نارائن اور دوسرے بھارت رتن ناناجی دیشمکھ۔ ان دونوں عظیم شخصیتوں کا صرف یوم پیدائش ہی ایک تاریخ کو نہیں پڑتا، بلکہ یہ دونوں عظیم ہستیاں ملک میں بدعنوانی کے خلاف، ملک میں ایمانداری کے لئے، ملک میں غریبوں کا، گاؤں کی فلاح و بہبود ہو، اس کے لئے دونوں کی سوچ ایک تھی۔۔۔ دونوں کے آئیڈیل ایک تھے۔۔۔ دونوں کی کوشش ایک تھی۔
جے پرکاش بابو نے جب سمپورن کرانتی یعنی مکمل انقلاب کی اپیل کی، بہار کی سرزمین سے جو آواز بلند ہوئی، جو خواب جے پرکاش جی نے دیکھے تھے۔۔۔ جن خوابوں کی ڈھال بن کرکے ناناجی دیشمکھ نے کام کیا۔ جب ناناجی نے گاؤوں کی ترقی کے لئے اپنے کاموں کی توسیع کی، تو ناناجی کی تحریک جے پرکاش بابو رہے۔
اب دیکھئے کتنا بڑا بے مثال تعاون ہے گاؤں اور غریب کی آواز کو بلند کرنا، جے پرکاش بابو اور ناناجی کی زندگی کا مشترکہ عظیم رہا ہے۔
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ جب ڈاکٹر کلام، چترکوٹ میں ناناجی دیشمکھ سے ملے تو ناناجی نے انھیں بتایا کہ ہمارے یہاں آس پاس کے درجنوں گاؤں، مقدموں سے پوری طرح آزاد ہیں، یعنی کوئی کورٹ کچہری نہیں ہے۔ کسی کے خلاف کوئی ایف آئی آر نہیں ہے۔ ناناجی کہتے تھے کہ جب گاؤں کے لوگ تنازعات میں پھنسے رہیں گے تو نہ اپنی ترقی کرپائیں گے اور نہ ہی سماج کی۔ مجھے یقین ہے، سوامتو اسکیم بھی ہمارے گاؤں میں متعدد تنازعات کو ختم کرنے کا بہت بڑا ذریعہ بنے گی۔
ساتھیو، پوری دنیا میں بڑے بڑے ماہرین اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ زمین اور گھر کے مالکانہ حق کا ملک کی ترقی میں بڑا رول ہوتا ہے۔ جب جائیداد کا ریکارڈ ہوتا ہے، جب جائیداد پر حق ملتا ہے تو جائیداد بھی محفوظ رہتی ہے اور شہریوں کی زندگی بھی محفوظ رہتی ہے اور شہریوں میں خوداعتمادی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ جب جائیداد کا ریکارڈ ہوتا ہے تو سرمایہ کاری کے لئے، نئے نئے حوصلے کرنے کے لئے، معاشی اکتساب کی نئی اسکیمیں بنانے کے لئے بہت ساری راہیں کھلتی ہیں۔
جائیداد کا ریکارڈ ہونے پر بینک سے قرض آسانی سے ملتا ہے، روزگار – خود کے روزگار کے راستے بنتے ہیں، لیکن مشکل یہ ہے کہ آج دنیا میں ایک تہائی آبادی کے پاس ہی قانونی طور سے اپنی جائیداد کا ریکارڈ ہے۔ پوری دنیا میں دو تہائی لوگوں کے پاس یہ نہیں ہے۔ ایسے میں بھارت جیسے ترقی پذیر ملک کے لئے بہت ضروری ہے کہ لوگوں کے پاس ان کی جائیداد کا صحیح ریکارڈ ہو۔ اور جن کے نصیب میں بڑھاپا آگیا ہے، پڑھے لکھے نہیں ہیں، بڑی مشکل سے زندگی گزاری ہے لیکن اب یہ آنے کے بعد ایک نئے اعتماد والی زندگی ان کی شروع ہورہی ہے۔
سوامتو اسکیم اور اس کے تحت ملنے والا پراپرٹی کارڈ اسی سمت میں، اسی سوچ کے ساتھ مظلوم ہو، استحصال زدہ ہو، محروم ہو، گاؤں میں رہتا ہو۔۔۔ ان کی بھلائی کے لئے اتنا بڑا قدم اٹھایا گیا ہے۔
پراپرٹی کارڈ، گاؤں کے لوگوں کو بغیر کسی تنازع کے جائیداد خریدنے اور فروخت کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔ پراپرٹی کارڈ ملنے کے بعد گاؤں کے لوگ اپنے گھر پر قبضے کا جو اندیشہ رہتا تھا، اس سے وہ آزاد ہوجائیں گے۔ کوئی آ کرکے اپنا حق جتائے گا۔۔۔ جھوٹے کاغذ دے جائے گا۔۔۔ لے جائے گا۔۔۔ سب بند۔ پراپرٹی کارڈ ملنے کے بعد گاؤں کے گھروں پر بھی بینک سے آسان قرض مل جائے گا۔
ساتھیو، آج گاؤں کے ہمارے کتنے ہی نوجوان ہیں جو اپنے دم پر کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ خوداعتمادی سے خودکفیل بننا چاہتے ہیں، لیکن گھر ہوتے ہوئے بھی، زمین کا ٹکڑا اپنے پاس ہوتے ہوئے بھی کاغذ نہیں تھے، سرکاری کوئی دستاویز نہیں تھا۔ دنیا میں کوئی ان کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں تھا، ان کو کچھ ملتا نہیں تھا۔ اب ان کے لئے قرض حاصل کرنے کا، حق کے ساتھ مانگنے کا یہ کاغذ ان کے ہاتھ میں آیا ہے۔ اب سوامتو اسکیم کے تحت بنے پراپرٹی کارڈ کو دکھاکر، بینکوں سے بہت آسانی کےساتھ قرض ملنا یقینی ہوا ہے۔
ساتھیو، اس سوامتو کارڈ کا ایک اور فائدہ گاؤں میں نئی نظامات کی تعمیر کو لے کر ہونے والا ہے۔ ڈرون جیسی نئی ٹیکنالوجی سے جس طرح میپنگ اور سروے کیا جارہا ہے، اس سے ہر گاؤں کا درست لینڈ ریکارڈ بھی بن پائے گا۔ اور میں جب افسروں سے بات کررہا تھا۔۔۔ جب پروجیکٹ شروع ہوا۔۔۔ تو مجھے افسروں نے بتایا کہ گاؤں کے اندر ہم جب پراپرٹی کے لئے ڈرون چلاتے ہیں تو گاؤں والے کا اپنی زمین کے بارے میں دلچسپی ہونا بہت فطری ہے۔۔۔ لیکن سب کی خواہش رہتی تھی کہ ڈرون سے ہمیں ہمارا اوپر سے ہمارا پورا گاؤں ہمیں دکھائیے، ہمارا گاؤں کیسا دِکھتا ہے، ہمارا گاؤں کتنا خوبصورت ہے۔ اور ہمارے وہ افسر کہتے تھے کہ ہمیں تھوڑا وقت تو سب گاؤں والوں کو ان کا گاؤں اوپر سے دکھانا لازمی ہوگیا تھا۔ گاؤں کے تئیں محبت بیدار ہوجاتی تھی۔
بھائیو، بہنو! ابھی تک زیادہ تر گاؤں میں اسکول، اسپتال، بازار یا دوسری عوامی سہولتیں کہاں کرنی، کیسے کرنی، سہولتیں کہاں ہوں گی۔۔۔ زمین کہاں ہے۔۔۔ کوئی حساب ہی نہیں تھا۔ جہاں مرضی پڑے۔۔۔ جو بابو وہاں بیٹھا ہوگا۔۔۔ یا جو گاؤں کا پردھان ہوگا، اور جو کوئی ذرا دمدار آدمی ہوگا۔۔۔ جو چاہے کروا لیتا ہوگا۔ اب سارا کاغذ کے اوپر نقشہ تیار ہے۔۔۔ اب کون سی چیز کہاں بنے گی، بڑے آرام سے طے ہوگا۔۔۔ تنازعات بھی نہیں ہوں گے ۔۔۔ اور درست لینڈ ریکارڈ ہونے سے گاؤں کی ترقی سے جڑے سبھی کام بڑی آسانی کے ساتھ ہوں گے۔
ساتھیو، گزشتہ ۶ برسوں سے ہمارے پنچایتی راج نظام کو مضبوط کرنے کے لئے متعدد کوششیں ہورہی ہیں اور ان کو بھی سوامتو یوجنا سے تقویت ملے گی۔ متعدد اسکیموں کی منصوبہ بندی سے لے کر ان کے عمل اور رکھ رکھاؤ کی ذمے داری گرام پنچایتوں کے ہی پاس ہے۔ اب گاؤں کے لوگ خود طے کررہے ہیں کہ وہاں کی ترقی کے لئے کیا ضروری ہے اور وہاں کے مسائل کا حل کیسے کرنا ہے۔
پنچایتوں کے کام کاج کو بھی اب آن لائن کیا جارہا ہے۔ یہی نہیں، پنچایت، ترقی کے جو کام بھی کرتی ہے اس کی Geo tagging (جیو ٹیگنگ) کو لازمی کردیا گیا ہے۔ اگر کنواں بنا ہے تو آن لائن یہاں میرے آفس تک پتہ چل سکتا ہے کہ کس کونے میں کیسا کنواں بنا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کی مہربانی ہے۔ اور یہ ضروری ہے۔ بیت الخلاء بنا ہے تو جیو ٹیگنگ ہوگی۔ اسکول کی تعمیر ہوئی ہے تو جیو ٹیگنگ ہوگی۔ پانی کے لئے چھوٹا سا باندھ بنا ہے تو جیو ٹیگنگ ہوگی۔ اس کے سبب روپئے پیسے غائب ہونے والا کام بند، دکھانا پڑے گا اور دیکھا جاسکتا ہے۔
ساتھیو، سوامتو یوجنا سے ہماری گرام پنچایتوں کے لئے بھی نگر پالیکاؤں اور نگر نگموں کی طرح منظم طریقے سے گاؤں کا بندوبست آسان ہوگا۔ وہ گاؤں کی سہولتوں کے لئے سرکار سے مل رہی مدد کے ساتھ ساتھ، گاؤں میں ہی وسائل بھی جٹا پائیں گی۔ ایک طرح سے گاؤں میں رہنے والوں کو مل رہے دستاویز گرام پنچایتوں کو مضبوط کرنے میں بھی بہت مدد کریں گے۔
ساتھیو، ہمارے یہاں ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ بھارت کی روح گاؤں میں بستی ہے، لیکن سچائی یہی ہے کہ بھارت کے گاؤں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ بیت الخلاء کی دقت سب سے زیادہ کہاں تھی؟ گاؤں میں تھی۔ بجلی کی پریشانی سب سے زیادہ کہاں تھی؟ گاؤں میں تھی۔ اندھیرے میں گزارا کس کو کرنا پڑتا تھا – گاؤں والوں کو۔ لڑکی کے چولھے، دھوئیں میں کھانا پکانے کی مجبوری کہاں تھی؟ گاؤں میں تھی۔ بینکنگ نظام سے سب سے زیادہ دوری کس کو تھی؟ گاؤں والوں کو تھی۔
ساتھیو، اتنے برسوں تک جو لوگ اقتدار میں رہے، انھوں نے باتیں تو بڑی بڑی کیں، انھوں نے گاؤں اور گاؤں کے غریب کو ایسی ہی مصیبتوں کے ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ میں ایسا نہیں کرسکتا۔۔۔ آپ کے آشیرواد سے جتنا بھی بن پڑے گا، مجھے کرنا ہے۔۔۔ آپ کے لئے کرنا ہے۔۔۔ گاؤں کے لئے کرنا ہے، غریب کے لئے کرنا ہے۔ مظلوم، استحصال زدہ، محروم کے لئے کرنا ہے، تاکہ ان کو کسی کے اوپر منحصر نہ رہنا پڑے۔ دوسروں کی خواہش کے وہ غلام نہیں ہونے چاہئیں۔
لیکن ساتھیو، پچھلے 6 برسوں میں ایسی ہر پرانی کمی کو دور کرنے کے لئے ایک کے بعد ایک کاموں کو شروع کیا اور گاؤں تک لے گئے، غریب کے گھر تک لے گئے۔ آج ملک میں بغیر کسی تفریق، سب کی ترقی ہورہی ہے، پوری شفافیت کے ساتھ سب کو اسکیموں کا فائدہ مل رہا ہے۔
اگر سوامتو جیسی اسکیمیں بھی پہلے بن پاتیں۔۔۔ ٹھیک ہے اس وقت ڈرون نہیں ہوگا۔۔۔ لیکن گاؤں کے ساتھ مل بیٹھ کر راستے تو نکالے جاسکتے تھے۔۔۔ لیکن نہیں ہوا۔ اگر یہ ہوجاتا نہ بچولئے ہوتے، نہ رشوت خوری ہوتی، نہ یہ دلال ہوتے، نہ یہ مجبوری ہوتی۔ اب جو اسکیم بنی ہے اس کی طاقت ٹیکنالوجی ہے، ڈرون ہیں۔ پہلے زمین کی میپنگ میں دلالوں کی نظر حاوی ہوتی تھی، اب ڈرون کی نظر سے میپنگ ہورہی ہے۔ جو ڈرون نے دیکھا وہی کاغذ پر درج ہورہا ہے۔
ساتھیو، بھارت کے گاؤں کے لئے، گاؤں میں رہنے والوں کے لئے جتنا کام گزشتہ 6 برسوں میں کیا گیا ہے، اتنا آزادی کی 6 دہائیوں میں بھی نہیں ہوا۔ 6 دہائیوں تک گاؤں کے کروڑوں لوگ بینک کھاتوں سے محروم تھے۔ یہ کھاتے جب جاکر کھلے ہیں۔ 6 دہائیوں تک گاؤں کے کروڑوں لوگوں کے گھر بجلی کا کنکشن نہیں تھا۔ آج ہر گھر تک بجلی پہنچ چکی ہے۔ 6 دہائیوں تک، گاؤں کے کروڑوں کنبے بیت الخلاء سے محروم تھے۔ آج گھر گھر میں بیت الخلاء بھی بن گئے ہیں۔
ساتھیو، دہائیوں تک گاؤں کا غریب گیس کنکشن کے لئے سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آج غریب کے گھر بھی گیس کنکشن پہنچ گیا ہے۔ دہائیوں تک گاؤں کے کروڑوں کنبوں کے پاس اپنا گھر نہیں تھا۔ آج تقریباً 2 کروڑ غریب کنبوں کو پختہ گھر مل چکے ہیں اور آنے والے بہت ہی کم وقت میں جو بچے ہوئے ہیں ان کو بھی پختہ مکان ملیں، اس کے لئے میں جی جان سے لگا ہوں۔ دہائیوں تک گاؤں کے گھروں میں پائپ سے پانی۔۔۔ کوئی سوچ نہیں سکتا تھا۔۔۔ تین تین کلومیٹر تک ہماری ماؤں – بہنوں کو سر پر اتنا بوجھ اٹھاکر پانی لینے جانا پڑتا تھا۔ اب ہر گھر میں پانی پہنچا ہے۔ آج ملک کے ایسے 15 کروڑ گھروں تک پائپ سے پینے کا پانی پہنچانے کے لئے جل جیون مشن چلایا جارہا ہے۔
ملک کے ہر گاؤں تک آپٹیکل فائبر پہنچانے کی بھی ایک بہت بڑی مہم تیزی سے چل رہی ہے۔ پہلے لوگ کہتے تھے بجلی آتی جاتی ہے۔۔۔ اب لوگ شکایت کرتے ہیں موبائل فون میں کنکشن آتا ہے جاتا ہے۔ ان مسائل کا حل آپٹیکل فائبر میں ہے۔
ساتھیو، جہاں فقدان ہوتا ہے، وہاں ایسی ایسی طاقتوں کا اثر اور ایسی ایسی طاقتوں کا دباؤ پریشان کرکے رکھ دیتا ہے۔ آج گاؤں اور غریب کو فقدان میں رکھنا کچھ لوگوں کی سیاست کی بنیاد رہی ہے – یہ تاریخ بتاتی ہے۔ ہم نے غریب کو محروموں سے آزاد کرنے کی مہم چلائی ہے۔
بھائیو – بہنو! ایسے لوگوں کو لگتا ہے کہ اگر گاؤں، غریب، کسان، آدیواسی بااختیار ہوگئے تو ان کو کون پوچھے گا، ان کی دکان نہیں چلے گی، کون ان کے ہاتھ پیر پکڑے گا؟ کون ان کے سامنے آکرکے جھکے گا؟ اس لئے ان کا یہی رہا کہ گاؤں کے مسائل جس کے تس رہیں، لوگوں کے مسائل جس کے تس رہیں تاکہ ان کا کام چلتا رہے۔ اس لئے کام کو اٹکانا، لٹکانا، بھٹکانا یہی ان کی عادت ہوگئی تھی۔
آج کل ان لوگوں کو کھیتی سے متعلق جو تاریخی اصلاحات کی گئی ہیں، ان سے بھی دقت ہورہی ہے۔ وہ لوگ بوکھلائے ہوئے ہیں۔ یہ بوکھلاہٹ کسانوں کے لئے نہیں ہے۔ نسل در نسل، بچولیوں، رشوت خوروں، دلالوں کا نظام کھڑا کرکے جو ایک طرح سے مایاجال بناکر رکھ دیا تھا۔ ملک کے لوگوں نے ان کے مایاجال کو، ان کے منصوبوں کو مسمار کرنا شروع کردیا ہے۔
کروڑوں بھارتیوں کے بازو جہاں ایک طرف بھارت کی تعمیرنو میں مصروف ہیں، وہیں ایسے لوگوں کی سچائی بھی اجاگر ہورہی ہے۔ ملک کو لوٹنے میں لگے رہے لوگوں کو ملک اب پہچاننے لگا ہے۔ اس لئے ہی یہ لوگ آج کل ہر بات کی مخالفت کررہے ہیں۔ انھیں نہ غریب کی فکر ہے، نہ گاؤں کی فکر ہے، نہ ملک کی فکر ہے۔ ان کو ہر اچھے کام سے پریشانی ہورہی ہے۔ یہ لوگ ملک کی ترقی کو روکنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ نہیں چاہتے ہیں کہ ہمارے گاؤں، غریب، ہمارے کسان، ہمارے محنت کش بھائی بہن بھی خودکفیل بنیں۔ آج ہم نے ڈیڑھ گنا ایم ایس پی کرکے دکھایا ہے، وہ نہیں کرپائے تھے۔
چھوٹے کسانوں، مویشی پالنے والوں، ماہی گیروں کو کسان کریڈٹ کارڈ ملنے سے جن کی کالی کمائی کا راستہ بند ہوگیا ہے، ان کو آج مسئلہ ہورہا ہے۔ یوریا کی نیم کوٹنگ سے جن کے غیرقانونی طور طریقے بند ہوگئے، دقت انھیں ہورہی ہے۔ کسانوں کے بینک کھاتوں میں براہ راست پیسہ پہنچنے سے جن کو پریشانی ہورہی ہے، وہ آج بے چین ہیں۔ کسان اور کھیت مزدور کو مل رہی بیمہ، پنشن جیسی سہولتوں سے جن کو پریشانی ہے، وہ آج زراعت اصلاحات کی مخالفت کررہے ہیں، لیکن کسان ان کے ساتھ جانے کے لئے تیار نہیں، کسان ان کو پہچان گئے ہیں۔
ساتھیو، دلالوں، بچولیوں، رشوت خوروں، کمیشن بازوں کے دم پر سیاست کرنے والے کتنا بھی چاہیں، کتنے ہی خواب دیکھ لیں، کتنا ہی جھوٹ پھیلالیں، لیکن ملک رکنے والا نہیں ہے۔ ملک نے ٹھان لیا ہے کہ گاؤں اور غریب کو خودکفیل بنانا، بھارت کی اہلیت کی پہچان بنانا ہے۔
اس عزم کی تکمیل کے لئے سوامتو یوجنا کا رول بھی بہت بڑا ہے۔ اور اس لئے آج جن ایک لاکھ کنبوں کو اتنے کم وقت میں سوامتو یوجنا کا فائدہ مل چکا ہے۔ اور میں آج خاص طور سے نریندر سنگھ جی اور ان کی پوری ٹیم کو بھی مبارکباد دوں گا۔ ان کو بھی مبارکباد دوں گا جنھوں نے اتنے کم وقت میں اتنا بڑا کام کیا ہے۔ کام چھوٹا نہیں ہے، گاؤں گاؤں جانا اور وہ بھی اس لاک ڈاؤن کے وقت جانا اور اتنا بڑا کام کرنا۔ ان لوگوں کا جتنا خیرمقدم کریں اتنا کم ہے۔
اور مجھے یقین ہے جو ہمارے اس سرکار کے چھوٹے بڑے سب ملازموں نے جو کام کیا ہے، مجھے نہیں لگتا کہ چار سال انتظار کرنا پڑے گا۔ اگر وہ چاہیں گے تو پورے ملک کو اس سے بھی پہلے شاید دے سکتے ہیں۔ کیونکہ اتنا بڑا کام۔۔۔ اور جب میں نے اپریل میں اس کی بات کہی تب مجھے لگتا تھا کہ میں تھوڑا زیادہ ہی کہہ رہا ہوں۔ میں نے دیکھا، میں نے کہا اس سے بھی زیادہ کردیا۔ اور اس لئے یہ پوری ٹیم نریندر سنگھ جی اور ان کے محکمہ کے سبھی لوگ بہت بہت مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اور ساتھ ساتھ آج جن کو یہ فائدہ ملا ہے ان کنبوں کی تو ایک سوامتو یعنی ملکیت جگ گئی ہے، خوداعتمادی جگ گئی ہے، آپ کے چہرے کی خوشی میرے لئے سب سے زیادہ باعث مسرت ہوتی ہے، آپ کی خوشی میری خوشی کا باعث ہوتی ہے۔ آپ کی زندگی میں مستقبل کے خواب سجنے کا جو موقع پیدا ہوا ہے وہ میرے خوابوں کی تکمیل کرتا ہوا مجھے دکھائی دے رہا ہے۔
اور اس لئے بھائیو – بہنو! جتنے خوش آپ ہیں اس سے زیادہ خوش میں ہوں، کیونکہ آج میرے ایک لاکھ کنبے خوداعتمادی کے ساتھ، عزت نفس کے ساتھ اپنی جائیداد کے کاغذ کے ساتھ دنیا کے سامنے اعتماد کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ انتہائی عمدہ موقع ہے۔ اور وہ بھی جے پی کے یوم پیدائش پر ہے، نانا جی کے یوم پیدائش پر ہے۔ اس سے بڑی خوشی اور کیا ہوسکتی ہے۔
میری آپ کو بہت بہت مبارکباد، لیکن ساتھ ساتھ ان دنوں پورے ملک میں ہم مہم چلا رہے ہیں۔ اس کورونا کے دور میں ماسک پہننے کے لئے، دو گز کی دوری رکھنے کے لئے، بار بار ہاتھ صابن سے دھونے کے لئے۔۔۔ اور آپ بھی بیمار نہ ہوں، آپ کے کنبہ کا بھی کوئی بیمار نہ ہو، آپ کے گاؤں میں بھی کوئی بیماری داخل نہ ہو، اس کے لئے ہم سب کو فکر کرنی ہے اور ہم جانتے ہیں یہ ایسی بیماری ہے جس کی دنیا میں کوئی دوا نہیں بنی۔
آپ میرے افرادِ کنبہ ہیں۔۔۔ اور اس لئے آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ ’جب تک دوائی نہیں ، تب تک ڈھلائی نہیں‘، اس اصول کو نہ بھولیں اور پوری طرح اس کا خیال رکھیں۔ اسی ایک اعتماد کے ساتھ میں پھر ایک بار آج بہت ہی خوش کن لمحات، مسرت افزا لمحات، خوابوں کے لمحات، عزم کے لمحات میں بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ۔