کورونا کے سلسلے میں بھارت کا رد عمل خود اعتمادی اور خود انحصاری کا رہا ہے: وزیر اعظم
دنیا نے اِس سطح کی ٹیکہ کاری کی مہم پہلے کبھی نہیں دیکھی ہے: وزیر اعظم
کورونا کے سلسلے میں بھارت کے رد عمل کو پوری دنیا میں تسلیم کیا گیا ہے: وزیر اعظم
کوروناوزیر اعظم نے کورونا کے صف اوّل کے جانبازوں کو خراج تحسین پیش کیا

میرے پیارے ہم وطنو،

نمسکار!

آج کے دن کا پورے ملک کو بے صبری سے انتظار رہا ہے۔ کتنے مہینوں سے ملک کے ہر گھر میں، بچے، بوڑھے، جوان سبھی کی زبان پر یہی سوال تھا کہ- کورونا کی ویکسین کب آئے گی؟ تو اب کورونا کی ویکسین آگئی ہے، بہت کم وقت میں آگئی ہے۔ اب سے کچھ ہی منٹ بعد بھارت میں دنیاکی سب سے بڑی ٹیکہ کاری مہم شروع ہونے جارہی ہے۔ میں سبھی ہم وطنوں کو اس کے لئے بہت بہت مبارکباد دے رہا ہوں، آج وہ سائنسداں ، ویکسین ریسرچ سے جڑے متعدد افراد  خصوصی طور سے تعریف کے حقدار ہیں، جو گزشتہ کئی مہینوں سے کورونا کے خلاف ویکسین بنانے میں مصروف تھے، دن –رات مصروف تھے، نہ انہوں نے تیوہار دیکھا ہے نہ انہوں نے دن دیکھا ہے، نہ انہوں نے رات دیکھی ہے۔ عام طور پر ایک ویکسین بنانے میں برسوں لگ جاتے ہیں لیکن اتنے کم وقت میں ایک نہیں دو دو میڈ اِن  انڈیا ویکسین تیار ہوئی ہیں۔ اتنا ہی نہیں کئی اور ویکسین پر بھی کام تیز رفتاری کے ساتھ چل رہا ہے۔ یہ بھارت کی طاقت، بھارت کی سائنسی مہارت، بھارت کی صلاحیتوں کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ ایسے ہی حصولیابیوں کیلئے قومی شاعر رام دھاری سنگھ دنکر نے کہا تھا۔ مانو جب زور لگاتا ہے، پتھر پانی بن جاتا ہے۔

بھائیو اور بہنو،

بھارت کی ٹیکہ کاری مہم بہت ہی انسانی اور اہم اصولوں پر مبنی ہے۔ جسے سب سے زیادہ ضروری ہے اسے سب سے پہلے کورونا کا ٹیکہ لگے گا۔ جسے کورونا انفیکشن کا خطرہ سب سے زیادہ ہے، اسے پہلے ٹیکہ لگے گا۔ جو ہمارے ڈاکٹرس ہیں، نرسیں ہیں، اسپتال میں صفائی کارکنان ہیں، میڈیکل-پیرامیڈیکل اسٹاف ہیں، وہ کورونا کی ویکسین کے سب سے پہلے حقدار ہیں۔ چاہے وہ سرکاری اسپتال میں ہوں یا پھر پرائیویٹ میں، سبھی کو یہ ویکسین ترجیحی بنیاد پر لگے گی۔ اس کے بعد ان لوگوں کو ٹیکہ لگایا جائے گا، جن پر ضروری خدمات اور ملک کی حفاظت یا قانون انتظام کی ذمہ داری ہے۔ جیسے ہمارے سیکورٹی اہلکار ہوگئے، پولیس کے جوان ہوگئے، فائربریگیڈ کے لوگ ہوگئے، صفائی ملازمین ہوگئے، ان سبھی کو یہ ویکسین ترجیحی بنیاد پر لگے گی۔ اور میں نے جیسا پہلے بھی کہا ہے۔ ان کی تعداد قریب قریب تین کروڑ ہوتی ہے۔ ان سبھی کے ویکسی نیشن کا خرچ بھارت سرکار کے ذریعے اٹھایا جائیگا۔

ساتھیو،

اس ٹیکہ کاری مہم کی پختہ تیاریوں کیلئے ریاستی حکومتوں کے تعاون سے  ملک کے کونے کونے میں ٹرائلس کئے گئے ہیں، ڈرائی رنس ہوئے ہیں۔ خصوصی طور پر بنائے گئے کو۔ون ڈیجیٹل پلیٹ فارم میں ٹیکہ کاری کیلئے رجسٹریشن سے لیکر ٹریکنگ تک کا انتظام ہے۔ آپ کو پہلا ٹیکہ لگنے کے بعد دوسری ڈوز کب لگے گی، اس کی جانکاری بھی آپ کے فون پر دی جائے گی۔ اور میں سبھی  ہم وطنوں کو یہ بات پھر یاد دلانا چاہتا ہوں کہ کورونا ویکسین کی دو ڈوز لگنی بہت ضروری ہے۔ ایک ڈوز لے لیا پھر بھول گئے، ایسی غلطی مت کرنا۔ اور جیسا ماہرین کہہ رہے ہیں، پہلی اور دوسری ڈوز کے درمیان لگ بھگ ایک مہینے کا وقفہ بھی رکھا جائیگا، آپ کو یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ دوسری ڈوز لگنے کے دو ہفتے بعد ہی آپ کے جسم میں کورونا کے خلاف ضروری طاقت پیدا ہوجائے گی۔ اس لئے ٹیکہ لگتے ہی آپ بداحتیاطی برتنے لگیں، ماسک نکال کر رکھ دیں، دو گز کی دوری بھول جائیں، یہ سب مت کریئے گا۔ میں التجا کرتا ہوں مت کریئے گا اور میں آپ کو ایک اور چیز بہت گزارش کے ساتھ کہنا چاہتاہوں۔ جس طرح حوصلے کے ساتھ آپ نے کورونا کا مقابلہ کیا،ویسا ہی حوصلہ اب ویکسی نیشن کے وقت بھی دکھانا ہے۔

ساتھیو،

تاریخ میں اس قسم کا اور اتنی بڑی سطح پر ٹیکہ کاری مہم پہلے کبھی نہیں چلائی گئی ہے۔ یہ مہم کتنی بڑی ہے، اس کا اندازہ آپ صرف پہلے مرحلے سے ہی لگا سکتے ہیں۔ دنیا کے 100 سے بھی زیادہ ایسے ملک ہیں جن کی کُل آبادی تین کروڑ سے کم ہے۔ اور بھارت ویکسی نیشن کے اپنے پہلے مرحلے میں ہی تین کروڑ لوگوں کی ٹیکہ کاری کررہا ہے۔ دوسرے مرحلے میں ہمیں اس کو 30 کروڑ کی تعداد تک لے جانا ہے۔ جو بزرگ ہیں، جو سنگین بیماری میں مبتلا ہیں، انہیں اگلے والے مرحلے میں ٹیکہ لگے گا۔ آپ تصور کرسکتے ہیں، 30 کروڑ کی آبادی سے اوپر کے دنیا کے صرف تین ہی ملک ہیں۔ خود بھارت، چین اور امریکہ۔ اور کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جن کی آبادی ان سے زیادہ ہو۔ اس لئے بھارت کی ٹیکہ کاری مہم اتنی بڑی ہے اور اس لئے یہ مہم بھارت کی طاقت کو دکھاتا ہے۔ اور میں ہم وطنوں کو ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں۔ ہمارے سائنسداں، ہمارے ایکسپرٹس جب دونوں میڈ اِن انڈیا ویکسین کے تحفظ اور اثر کو لیکر مطمئن ہوئے تبھی انہوں نے اس کے ایمرجنسی استعمال کی اجازت دی ہے۔ اس لئے ہم وطنوں کو کسی بھی طرح کے پروپیگنڈے، افواہوں اور غلط معلومات سے بچ کر رہنا ہے۔

ساتھیو،

بھارت کے ویکسین سائنسداں، ہمارا میڈیکل سسٹم، بھارت کے عمل کا پوری دنیا میں بہت بھروسہ ہے اور پہلے سے ہے۔ ہم نے یہ اعتماد اپنے ٹریک ریکارڈ سے حاصل کیا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو،

ہر ہندوستانی اس بات پر فخر کریگا کہ ہندوستان بھر کے قریب 60 فیصد بچوں کو جو زندگی بچانے والے ٹیکے لگتے ہیں، وہ بھارت میں ہی بنتے ہیں، بھارت کے سخت سائنسی عمل سے ہی ہوکر گزرتے ہیں۔ بھارت کے سائنسدانوں اور ویکسین سے وابستہ ہماری مہارت پر دنیا کایہ اعتماد میڈ اِن انڈیا کورونا ویکسین میں اور مضبوط ہونے والا ہے۔ اس کی کچھ اور خاص باتیں ہیں جو آج میں اپنے ہم وطنوں کو ضرور بتانا چاہتا ہوں۔ یہ بھارتی ویکسین غیرملکی ویکسینوں کے مقابلےبہت سستی ہیں اور ان کا استعمال بھی اتنا ہی آسان ہے۔ بیرون ملک تو کچھ ویکسین ایسی ہیں جس کی ایک ڈوزن پانچ ہزار روپئے تک میں ہے اور جسے منفی 70 ڈگری درجہ حرارت میں فریج میں رکھنا ہوتا ہے۔ وہیں، بھارت کی ویکسین ایسی تکنیک پر بنائی گئی ہے، جو بھارت میں برسوں سے ٹرائیڈ اور ٹیسٹیڈ ہیں۔ یہ ویکسین  اسٹوریج سے لیکر ٹرانسپورٹیشن تک بھارتی کے حالات اور صورتحال کے موافق ہیں۔ یہی ویکسین اب بھارت کو کورونا کے خلاف لڑائی میں فیصلہ کن فتح دلائے گی۔

ساتھیو،

کورونا سے ہماری لڑائی خود اعتمادی اور خود کفالت کی رہی ہے۔ اس مشکل لڑائی سے لڑنے کیلئے ہم اپنی خود اعتمادی کو کمزور نہیں پڑنے دیں گے، یہ عزم ہر بھارتی میں دکھائی دیا ہے۔ بحران کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، ہم وطنوں نے کبھی خوداعتمادی کو نہیں کھویا ہے۔ جب بھارت میں کورونا پہنچا تب ملک میں کورونا ٹیسٹنگ کی ایک ہی لیب تھی۔ ہم نے اپنی طاقت پر یقین رکھا اور آج 2300 سے زیادہ کا لیبس کا نیٹ ورک ہمارے پاس ہے۔ شروعات میں ہم ماسک، پی پی ای کٹ، ٹیسٹنگ کٹس، وینٹی لیٹرس جیسے ضروری سامان کیلئے بھی دوسرے ملکوں پر منحصر تھے۔ آج ان سبھی سامانوں کے بنانے میں ہم خود کفیل ہوگئے ہیں اور ان کا برآمدبھی کررہے ہیں۔ خود اعتمادی اور خود کفالت کی اسی طاقت کو ہمیں ٹیکہ کاری کے اس دور میں بھی مضبوط کرنا ہے۔

ساتھیو،

عظیم تیلگو شاعر جناب گوراجاڈا اپّاراؤ نے کہا تھا۔ سونت لابھ کونت مانوکو، پوروگوواڈیکی توڈو پڈویو دیشمنٹے مٹی کادویی، دیشمنٹے منوشولویے! یعنی ہم دوسروں کے کام آئیں بغیرمفاد کا یہ جذبہ ہمارے اندر رہنا چاہئے۔ قوم صرف مٹی، پانی، کنکڑ، پتھر سے نہیں بنتا، بلکہ قوم کا مطلب ہوتا ہے، ہمارے لوگ۔ کورونا کے خلاف لڑائی کو پورے ملک نے اسی جذبے کے ساتھ لڑا ہے۔ آج جب ہم گزشتہ سال کو دیکھتے ہیں تو، ایک شخص کی شکل میں، ایک خاندان کی شکل میں، ایک قوم کی شکل میں ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے، بہت کچھ دیکھا ہے، جانا ہے، سمجھا ہے۔

آج بھارت جب اپنا ٹیکہ کاری مہم شروع کررہا ہے، تو میں ان دنوں کو بھی یاد کررہا ہوں۔ کورونا بحران کا وہ دور جب ہر کوئی چاہتا تھا کہ کچھ کریں، لیکن اس کو اتنے راستے نہیں دکھائی دیتے تھے۔عام طور پر بیماری میں پورا کنبہ بیمار شخص کی دیکھ بھال کے لئے جٹ جاتا ہے۔ لیکن اس بیماری نے تو بیمار کو ہی اکیلا کردیا۔ کئی جگہوں پر چھوٹے چھوٹے بیمار بچوں کو ماں سے دور رہنا پڑا۔ ماں پریشان رہتی تھی، ماں روتی تھی، لیکن چاہ کر بھی کچھ کر نہیں پاتی تھی، بچے کو اپنی گود میں نہیں لے پاتی تھی۔ کہیں گزرباپ، اسپتال میں اکیلے، اپنی بیماری سے لڑنے کو مجبور تھے۔ بچے چاہ کر بھی اس کے پاس نہیں جاپاتے تھے۔ جو ہمیں چھوڑ کر چلے گئے، ان کو رواج کے مطابق وہ وداعی بھی نہیں مل سکی جس کے وہ حقدار تھے۔ جتنا ہم اس وقت کے بارے میں سوچتے ہیں، دل کانپ جاتا ہے، اُداس ہوجاتا ہے۔

لیکن ساتھیو،

بحران کے اسی دور میں، ناامیدی کے اسی ماحول میں، کوئی امید بھی پیداکررہا تھا، ہمیں بچانے کے لئے اپنی جانوں کو جوکھم میں ڈال رہا تھا۔ ہمارے ڈاکٹر، نرس، پیرامیڈیکل اسٹاف، ایمبولینس ڈرائیور، آشا ورکر، صفائی ملازمین، پولیس کے ساتھی اور دوسرے فرنٹ لائن ورکرس۔ انہوں نے ا نسانیت کے لئے اپنے فرائض کو ترجیح دی۔ ان میں سے زیادہ تر تب اپنے بچوں، اپنے خاندان سے دور رہے، کئی کئی دن تک گھر نہیں گئے۔ سینکڑوں ساتھی ایسے بھی ہیں جو کبھی گھر واپس لوٹ ہی نہیں پائے، انہوں نے ایک ایک زندگی کو بچانے کے لئے اپنی زندگی وقف کردی ہے۔ اس لئے آج کورونا کا پہلا ٹیکہ صحت خدمات سے جڑے لوگوں کو لگاکر، ایک طرح سے سماج اپنا قرض اداکررہا ہے۔ یہ ٹیکہ ان سبھی ساتھیوں کے لئے ممنون قوم کا خراج تحسین بھی ہے۔

بھائیو اور بہنو،

انسانی تاریخ میں متعدد مصیبتیں آئیں، وبائیں آئیں، سخت جنگ ہوئی، لیکن کورونا جیسے چیلنج کا کسی نے تصور نہیں کیا تھا۔ یہ ایک ایسی وبا تھی جس کا تجربہ نہ تو سائنس کو تھا اور نہ ہی سوسائٹی کو۔ تمام ملکوں سے جو تصویریں آرہی تھیں، جو خبریں آرہی تھیں، وہ پوری دنیا کے ساتھ ساتھ ہر ہندوستانی کو پریشان کررہی تھیں۔ ایسے حالات میں دنیا کے بڑے بڑے ماہرین بھارت کو لیکر تمام خدشات کا اظہار کررہے تھے۔

لیکن ساتھیو،

بھارت کی جس بہت بڑی آبادی کو ہماری کمزوری بتایا جارہا تھا، اس کو ہی ہم نے اپنی طاقت بنالیا۔ بھارت میں حساسیت اور ہم شرکت کو لڑائی کی بنیاد بنایا۔ بھارت نے چوبیس گھنٹے محتاط رہتے ہوئے، ہر واقعے پر نظر رکھتے ہوئے،صحیح وقت پر صحیح فیصلے لئے۔ 30 جنوری کو بھارت میں کورونا کا پہلا معاملہ ملا، لیکن اس کے دو ہفتے سے بھی پہلے بھارت ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بناچکا تھا۔ پچھلے برس آج کا ہی دن تھا جب ہم نے باقاعدہ نگرانی کاکام شروع کردیا تھا۔ 17 جنوری 2020 وہ تاریخ تھی جب بھارت نے اپنی پہلی ایڈوائزری جاری کردی تھی۔ بھارت دنیا کے ان پہلے ملکوں میں سے تھا جس نے اپنے ہوائی اڈوں پر مسافروں کی اسکریننگ شروع کردی تھی۔

ساتھیو،

کورونا کے خلاف لڑائی میں بھارت نے جیسی قوت ارادی دکھائی ہے، جو حوصلہ دکھایا ہے، جو اجتماعی قوت کا متعارف کروایا ہے، وہ آنے والی متعدد نسلوں کیلئے تحریک کاکام کریگا۔ یاد کیجئے جنتا کرفیو، کورونا کے خلاف ہمارے سماج کے صبر وضبط اور نظم ونسق کا بھی امتحان تھا، جس میں ہر شہری کامیاب ہوا۔ جنتا کرفیو نے ملک کو نفسیاتی اعتبار سے لاک ڈاؤن کیلئے تیار کیا۔ ہم نے تالی- تھالی اور دیا جلا کر، ملک کے خوداعتمادی کو بلند رکھا۔

ساتھیو،

کورونا جیسے انجان دشمن، جس کے ایکشن- ری ایکشن کو بڑے بڑے طاقتور ملک نہیں بھانپ رہے تھے، اس کے انفیکشن کو روکنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہی یہی تھا کہ جو جہاں ہے، وہ وہیں رہے۔ اس لئے ملک میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ یہ فیصلہ آسان نہیں تھا۔ اتنی بڑی آبادی کو گھر کے اندر رکھنا ناممکن ہے، اس کا ہمیں احساس تھا اور یہاں تو ملک میں سب کچھ بند ہونے جارہا تھا، لاک ڈاؤن ہونے جارہا تھا۔ اس کا لوگوں کی روزی روٹی پر کیا اثر پڑے گا، معیشت پر کیا اثر پڑے گا اس کااندازہ بھی ہمارے سامنے تھا۔ لیکن ملک نے ‘جان ہے تو جہان ہے’ کے منتر پر چلتے ہوئے ہر ایک بھارتی شہری کی زندگی بچانے کو اولین ترجیح دی۔ اور ہم سبھی نے یہ دیکھا ہے کہ کیسے فوراً ہی پورا ملک، پورا سماج، اس جذبے کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ کئی بار چھوٹی چھوٹی لیکن اہم چیزوں کی جانکاری دینے کے لئے میں نے بھی متعدد بارہم وطنوں کے ساتھ براہ راست گفتگو کی۔ ایک طرف جہاں غریبوں کو مفت کھانے کا انتظام کیا گیاتو وہیں دودھ، سبزی ، راشن، گیس ، دوا، ضروری اشیاءکی بلاروکاوٹ سپلائی یقینی بنائی گئی ملک میں انتظامات ٹھیک سے چلیں ، اس کے لئے وزارت داخلہ نے 24x7 کنٹرول روم شروع کیا جس پر ہزاروں کالس کا جواب دیا گیا ہے، لوگوں کو حل دیا گیا ہے۔

ساتھیو،

کورونا کے خلاف اس لڑائی میں ہم نے قدم قدم پر دنیا کے سامنے مثال پیش کیا ہے۔ ایسے وقت میں جب کچھ ملکوں نے اپنے شہریوں کو چین میں بڑھتے کورونا کے بیچ چھوڑ دیا تھا، تب بھارت، چین میں پھنسے ہر بھارتی کو واپس لیکر آیا۔ اور صرف بھارت کے ہی نہیں، ہم کئی دوسرے ملکوں کے شہریوں کو بھی وہاں سے واپس نکال کر لائے۔ کورونا کے دور میں وندے بھارت مشن کے تحت 45 لاکھ سے زیادہ بھارتیوں کو بیرون ملک سے بھارت لایاگیا۔ مجھے یاد ہے، ایک ملک میں جب بھارتیوں کو ٹیسٹ کرنے کے لئے مشینیں کم پڑرہی تھیں تو بھارت نے پورے ٹیسٹنگ لیب یہاں سے وہاں بھیج کرکے اس کو وہاں سجایا لگایا تاکہ وہاں سے بھارت آرہے لوگوں کو ٹیسٹنگ کی دقت نہ ہو۔

ساتھیو،

بھارت نے اس وبا سے جس طرح سے مقابلہ کیا،اس کا لوہا آج پوری دنیا مان رہی ہے۔ مرکز اور ریاستی حکومتیں، مقامی بلدیاتی ادارے، ہر سرکاری ادارے، سماجی ادارے، کیسےاکٹھا ہوکر بہتر کام کرسکتے ہیں، یہ مثال بھی بھارت نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اسرو، ڈی آر ڈی او ، فوج سے لیکر کسانوں اورمزدوروں تک، سبھی ایک عہد کے ساتھ کیسے کام کرسکتے ہیں، یہ بھارت نے دکھایا ہے۔ ‘دو گز کی دوری اور ماسک ہے ضروری’ اس پر فوکس کرنے والوں میں بھی بھارت سرکردہ ملکوں میں رہا۔

بھائیو اور بہنو،

آج انہیں سب کوششوں کا نتیجہ ہے کہ بھارت میں کورونا سے ہونےوالی اموات کی شرح کم ہے اور ٹھیک ہونے والوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔ ملک کے کئی ایسے ضلع ہیں جہاں ایک بھی شخص کو ہمیں کورونا کی وجہ سے کھونا نہیں پڑا۔ ان ضلعوں میں ہر شخص کورونا سے ٹھیک ہونے کے بعد اپنے گھر پہنچا ہے۔ بہت سے ضلع ایسے بھی ہیں، جہاں گزشتہ دو ہفتے سے کورونا انفیکشن کا ایک بھی معاملہ سامنے نہیں آیا ہے۔ یہاں تک کہ لاک ڈاؤن سے متاثرہ معیشت کی ری کوری میں بھی بھارت دنیا میں آگے نکل رہا ہے۔ بھارت ان گنے چنے ملکوں میں سے ہے جس نے مشکل کے باوجود دنیا کے 150 سے زیادہ ملکوں میں ضروری دوائیں اور ضروری میڈیکل امداد پہنچائی۔ پیراسیٹامول ہو، ہائیڈروکسی- کلوکوئن ہو، ٹیسٹنگ سے جڑا سامان ہو، بھارت نے دوسرے ملک کے لوگوں کو بھی بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ آج جب ہم نے اپنی ویکسین بنالی ہے، تب بھی بھارت کی طرف دنیا امید کی نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ ہماری ٹیکہ کاری مہم جیسے جیسے آگے بڑھے گی، دنیا کے متعدد ملکوں کو ہمارے تجربات کا فائدہ ملے گا۔ بھارت کی ویکسین، ہماری پیداواری صلاحیت، پوری انسانیت کے مفاد میں کام آئے، یہ ہمارا عزم ہے۔

بھائیو اور بہنو،

یہ ٹیکہ کاری ابھیان ابھی لمبا چلے گا۔ ہمیں ایک ایک فرد کی زندگی کو بچانے میں تعاون دینے کا موقع ملا ہے۔ اس لئے اس ابھیان سے وابستہ عمل کو، اس عمل کا حصہ بننے کیلئے بھی ملک میں رضاکار آگے آرہے ہیں۔ میں ان کا استقبال کرتا ہوں، اور بھی زیادہ رضاکاروں کو میں اپنا وقت اس خدمت کے کام میں جوڑنے کیلئے ضرور گزارش کروں گا۔ ہاں، جیسا میں نے پہلے کہا، ماسک، دو گز کی دوری اور صاف صفائی، یہ ٹیکے کے دوران بھی اور بعد میں بھی ضرور رہیں گے۔ ٹیکہ لگ گیا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کورونا سے بچاؤ کے دوسرے طریقے چھوڑ دیں۔ اب ہمیں نیا عہد لینا ہے۔ دوائی بھی، کڑائی بھی! آپ سبھی صحتمند رہیں، اسی تمنا کے ساتھ اس ٹیکہ کاری ابھیان کے لئے پورے ملک کو بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ملک کے سائنسدانوں ، محققین کا، لیب میں جڑے ہوئے سب لوگوں کا جنہوں نے پورے سال ایک رشی کی طرح اپنی لیب میں زندگی بسر کردی اور یہ ویکسین ملک اور انسانیت کو دی ہے۔ میں ان کو بھی خاص طور سے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں، ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میری آپ سب کو بہت بہت نیک تمنائیں ہیں۔ آپ جلد اس کا فائدہ اٹھائیں۔ آپ بھی صحتمند رہیں، آپ کاکنبہ بھی صحتمند رہے۔ پوری بنی نوع انساں اس بحران کی گھڑی سے باہر نکلے اور صحتمندی ہم سب کو حاصل ہو، اسی طرح تمنا کے ساتھ آپ کا سب کا بہت بہت شکریہ!

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address at the Parliament of Guyana
November 21, 2024

Hon’ble Speaker, मंज़ूर नादिर जी,
Hon’ble Prime Minister,मार्क एंथनी फिलिप्स जी,
Hon’ble, वाइस प्रेसिडेंट भरत जगदेव जी,
Hon’ble Leader of the Opposition,
Hon’ble Ministers,
Members of the Parliament,
Hon’ble The चांसलर ऑफ द ज्यूडिशियरी,
अन्य महानुभाव,
देवियों और सज्जनों,

गयाना की इस ऐतिहासिक पार्लियामेंट में, आप सभी ने मुझे अपने बीच आने के लिए निमंत्रित किया, मैं आपका बहुत-बहुत आभारी हूं। कल ही गयाना ने मुझे अपना सर्वोच्च सम्मान दिया है। मैं इस सम्मान के लिए भी आप सभी का, गयाना के हर नागरिक का हृदय से आभार व्यक्त करता हूं। गयाना का हर नागरिक मेरे लिए ‘स्टार बाई’ है। यहां के सभी नागरिकों को धन्यवाद! ये सम्मान मैं भारत के प्रत्येक नागरिक को समर्पित करता हूं।

साथियों,

भारत और गयाना का नाता बहुत गहरा है। ये रिश्ता, मिट्टी का है, पसीने का है,परिश्रम का है करीब 180 साल पहले, किसी भारतीय का पहली बार गयाना की धरती पर कदम पड़ा था। उसके बाद दुख में,सुख में,कोई भी परिस्थिति हो, भारत और गयाना का रिश्ता, आत्मीयता से भरा रहा है। India Arrival Monument इसी आत्मीय जुड़ाव का प्रतीक है। अब से कुछ देर बाद, मैं वहां जाने वाला हूं,

साथियों,

आज मैं भारत के प्रधानमंत्री के रूप में आपके बीच हूं, लेकिन 24 साल पहले एक जिज्ञासु के रूप में मुझे इस खूबसूरत देश में आने का अवसर मिला था। आमतौर पर लोग ऐसे देशों में जाना पसंद करते हैं, जहां तामझाम हो, चकाचौंध हो। लेकिन मुझे गयाना की विरासत को, यहां के इतिहास को जानना था,समझना था, आज भी गयाना में कई लोग मिल जाएंगे, जिन्हें मुझसे हुई मुलाकातें याद होंगीं, मेरी तब की यात्रा से बहुत सी यादें जुड़ी हुई हैं, यहां क्रिकेट का पैशन, यहां का गीत-संगीत, और जो बात मैं कभी नहीं भूल सकता, वो है चटनी, चटनी भारत की हो या फिर गयाना की, वाकई कमाल की होती है,

साथियों,

बहुत कम ऐसा होता है, जब आप किसी दूसरे देश में जाएं,और वहां का इतिहास आपको अपने देश के इतिहास जैसा लगे,पिछले दो-ढाई सौ साल में भारत और गयाना ने एक जैसी गुलामी देखी, एक जैसा संघर्ष देखा, दोनों ही देशों में गुलामी से मुक्ति की एक जैसी ही छटपटाहट भी थी, आजादी की लड़ाई में यहां भी,औऱ वहां भी, कितने ही लोगों ने अपना जीवन समर्पित कर दिया, यहां गांधी जी के करीबी सी एफ एंड्रूज हों, ईस्ट इंडियन एसोसिएशन के अध्यक्ष जंग बहादुर सिंह हों, सभी ने गुलामी से मुक्ति की ये लड़ाई मिलकर लड़ी,आजादी पाई। औऱ आज हम दोनों ही देश,दुनिया में डेमोक्रेसी को मज़बूत कर रहे हैं। इसलिए आज गयाना की संसद में, मैं आप सभी का,140 करोड़ भारतवासियों की तरफ से अभिनंदन करता हूं, मैं गयाना संसद के हर प्रतिनिधि को बधाई देता हूं। गयाना में डेमोक्रेसी को मजबूत करने के लिए आपका हर प्रयास, दुनिया के विकास को मजबूत कर रहा है।

साथियों,

डेमोक्रेसी को मजबूत बनाने के प्रयासों के बीच, हमें आज वैश्विक परिस्थितियों पर भी लगातार नजर ऱखनी है। जब भारत और गयाना आजाद हुए थे, तो दुनिया के सामने अलग तरह की चुनौतियां थीं। आज 21वीं सदी की दुनिया के सामने, अलग तरह की चुनौतियां हैं।
दूसरे विश्व युद्ध के बाद बनी व्यवस्थाएं और संस्थाएं,ध्वस्त हो रही हैं, कोरोना के बाद जहां एक नए वर्ल्ड ऑर्डर की तरफ बढ़ना था, दुनिया दूसरी ही चीजों में उलझ गई, इन परिस्थितियों में,आज विश्व के सामने, आगे बढ़ने का सबसे मजबूत मंत्र है-"Democracy First- Humanity First” "Democracy First की भावना हमें सिखाती है कि सबको साथ लेकर चलो,सबको साथ लेकर सबके विकास में सहभागी बनो। Humanity First” की भावना हमारे निर्णयों की दिशा तय करती है, जब हम Humanity First को अपने निर्णयों का आधार बनाते हैं, तो नतीजे भी मानवता का हित करने वाले होते हैं।

साथियों,

हमारी डेमोक्रेटिक वैल्यूज इतनी मजबूत हैं कि विकास के रास्ते पर चलते हुए हर उतार-चढ़ाव में हमारा संबल बनती हैं। एक इंक्लूसिव सोसायटी के निर्माण में डेमोक्रेसी से बड़ा कोई माध्यम नहीं। नागरिकों का कोई भी मत-पंथ हो, उसका कोई भी बैकग्राउंड हो, डेमोक्रेसी हर नागरिक को उसके अधिकारों की रक्षा की,उसके उज्जवल भविष्य की गारंटी देती है। और हम दोनों देशों ने मिलकर दिखाया है कि डेमोक्रेसी सिर्फ एक कानून नहीं है,सिर्फ एक व्यवस्था नहीं है, हमने दिखाया है कि डेमोक्रेसी हमारे DNA में है, हमारे विजन में है, हमारे आचार-व्यवहार में है।

साथियों,

हमारी ह्यूमन सेंट्रिक अप्रोच,हमें सिखाती है कि हर देश,हर देश के नागरिक उतने ही अहम हैं, इसलिए, जब विश्व को एकजुट करने की बात आई, तब भारत ने अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान One Earth, One Family, One Future का मंत्र दिया। जब कोरोना का संकट आया, पूरी मानवता के सामने चुनौती आई, तब भारत ने One Earth, One Health का संदेश दिया। जब क्लाइमेट से जुड़े challenges में हर देश के प्रयासों को जोड़ना था, तब भारत ने वन वर्ल्ड, वन सन, वन ग्रिड का विजन रखा, जब दुनिया को प्राकृतिक आपदाओं से बचाने के लिए सामूहिक प्रयास जरूरी हुए, तब भारत ने CDRI यानि कोएलिशन फॉर डिज़ास्टर रज़ीलिएंट इंफ्रास्ट्रक्चर का initiative लिया। जब दुनिया में pro-planet people का एक बड़ा नेटवर्क तैयार करना था, तब भारत ने मिशन LiFE जैसा एक global movement शुरु किया,

साथियों,

"Democracy First- Humanity First” की इसी भावना पर चलते हुए, आज भारत विश्वबंधु के रूप में विश्व के प्रति अपना कर्तव्य निभा रहा है। दुनिया के किसी भी देश में कोई भी संकट हो, हमारा ईमानदार प्रयास होता है कि हम फर्स्ट रिस्पॉन्डर बनकर वहां पहुंचे। आपने कोरोना का वो दौर देखा है, जब हर देश अपने-अपने बचाव में ही जुटा था। तब भारत ने दुनिया के डेढ़ सौ से अधिक देशों के साथ दवाएं और वैक्सीन्स शेयर कीं। मुझे संतोष है कि भारत, उस मुश्किल दौर में गयाना की जनता को भी मदद पहुंचा सका। दुनिया में जहां-जहां युद्ध की स्थिति आई,भारत राहत और बचाव के लिए आगे आया। श्रीलंका हो, मालदीव हो, जिन भी देशों में संकट आया, भारत ने आगे बढ़कर बिना स्वार्थ के मदद की, नेपाल से लेकर तुर्की और सीरिया तक, जहां-जहां भूकंप आए, भारत सबसे पहले पहुंचा है। यही तो हमारे संस्कार हैं, हम कभी भी स्वार्थ के साथ आगे नहीं बढ़े, हम कभी भी विस्तारवाद की भावना से आगे नहीं बढ़े। हम Resources पर कब्जे की, Resources को हड़पने की भावना से हमेशा दूर रहे हैं। मैं मानता हूं,स्पेस हो,Sea हो, ये यूनीवर्सल कन्फ्लिक्ट के नहीं बल्कि यूनिवर्सल को-ऑपरेशन के विषय होने चाहिए। दुनिया के लिए भी ये समय,Conflict का नहीं है, ये समय, Conflict पैदा करने वाली Conditions को पहचानने और उनको दूर करने का है। आज टेरेरिज्म, ड्रग्स, सायबर क्राइम, ऐसी कितनी ही चुनौतियां हैं, जिनसे मुकाबला करके ही हम अपनी आने वाली पीढ़ियों का भविष्य संवार पाएंगे। और ये तभी संभव है, जब हम Democracy First- Humanity First को सेंटर स्टेज देंगे।

साथियों,

भारत ने हमेशा principles के आधार पर, trust और transparency के आधार पर ही अपनी बात की है। एक भी देश, एक भी रीजन पीछे रह गया, तो हमारे global goals कभी हासिल नहीं हो पाएंगे। तभी भारत कहता है – Every Nation Matters ! इसलिए भारत, आयलैंड नेशन्स को Small Island Nations नहीं बल्कि Large ओशिन कंट्रीज़ मानता है। इसी भाव के तहत हमने इंडियन ओशन से जुड़े आयलैंड देशों के लिए सागर Platform बनाया। हमने पैसिफिक ओशन के देशों को जोड़ने के लिए भी विशेष फोरम बनाया है। इसी नेक नीयत से भारत ने जी-20 की प्रेसिडेंसी के दौरान अफ्रीकन यूनियन को जी-20 में शामिल कराकर अपना कर्तव्य निभाया।

साथियों,

आज भारत, हर तरह से वैश्विक विकास के पक्ष में खड़ा है,शांति के पक्ष में खड़ा है, इसी भावना के साथ आज भारत, ग्लोबल साउथ की भी आवाज बना है। भारत का मत है कि ग्लोबल साउथ ने अतीत में बहुत कुछ भुगता है। हमने अतीत में अपने स्वभाव औऱ संस्कारों के मुताबिक प्रकृति को सुरक्षित रखते हुए प्रगति की। लेकिन कई देशों ने Environment को नुकसान पहुंचाते हुए अपना विकास किया। आज क्लाइमेट चेंज की सबसे बड़ी कीमत, ग्लोबल साउथ के देशों को चुकानी पड़ रही है। इस असंतुलन से दुनिया को निकालना बहुत आवश्यक है।

साथियों,

भारत हो, गयाना हो, हमारी भी विकास की आकांक्षाएं हैं, हमारे सामने अपने लोगों के लिए बेहतर जीवन देने के सपने हैं। इसके लिए ग्लोबल साउथ की एकजुट आवाज़ बहुत ज़रूरी है। ये समय ग्लोबल साउथ के देशों की Awakening का समय है। ये समय हमें एक Opportunity दे रहा है कि हम एक साथ मिलकर एक नया ग्लोबल ऑर्डर बनाएं। और मैं इसमें गयाना की,आप सभी जनप्रतिनिधियों की भी बड़ी भूमिका देख रहा हूं।

साथियों,

यहां अनेक women members मौजूद हैं। दुनिया के फ्यूचर को, फ्यूचर ग्रोथ को, प्रभावित करने वाला एक बहुत बड़ा फैक्टर दुनिया की आधी आबादी है। बीती सदियों में महिलाओं को Global growth में कंट्रीब्यूट करने का पूरा मौका नहीं मिल पाया। इसके कई कारण रहे हैं। ये किसी एक देश की नहीं,सिर्फ ग्लोबल साउथ की नहीं,बल्कि ये पूरी दुनिया की कहानी है।
लेकिन 21st सेंचुरी में, global prosperity सुनिश्चित करने में महिलाओं की बहुत बड़ी भूमिका होने वाली है। इसलिए, अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान, भारत ने Women Led Development को एक बड़ा एजेंडा बनाया था।

साथियों,

भारत में हमने हर सेक्टर में, हर स्तर पर, लीडरशिप की भूमिका देने का एक बड़ा अभियान चलाया है। भारत में हर सेक्टर में आज महिलाएं आगे आ रही हैं। पूरी दुनिया में जितने पायलट्स हैं, उनमें से सिर्फ 5 परसेंट महिलाएं हैं। जबकि भारत में जितने पायलट्स हैं, उनमें से 15 परसेंट महिलाएं हैं। भारत में बड़ी संख्या में फाइटर पायलट्स महिलाएं हैं। दुनिया के विकसित देशों में भी साइंस, टेक्नॉलॉजी, इंजीनियरिंग, मैथ्स यानि STEM graduates में 30-35 परसेंट ही women हैं। भारत में ये संख्या फोर्टी परसेंट से भी ऊपर पहुंच चुकी है। आज भारत के बड़े-बड़े स्पेस मिशन की कमान महिला वैज्ञानिक संभाल रही हैं। आपको ये जानकर भी खुशी होगी कि भारत ने अपनी पार्लियामेंट में महिलाओं को रिजर्वेशन देने का भी कानून पास किया है। आज भारत में डेमोक्रेटिक गवर्नेंस के अलग-अलग लेवल्स पर महिलाओं का प्रतिनिधित्व है। हमारे यहां लोकल लेवल पर पंचायती राज है, लोकल बॉड़ीज़ हैं। हमारे पंचायती राज सिस्टम में 14 लाख से ज्यादा यानि One point four five मिलियन Elected Representatives, महिलाएं हैं। आप कल्पना कर सकते हैं, गयाना की कुल आबादी से भी करीब-करीब दोगुनी आबादी में हमारे यहां महिलाएं लोकल गवर्नेंट को री-प्रजेंट कर रही हैं।

साथियों,

गयाना Latin America के विशाल महाद्वीप का Gateway है। आप भारत और इस विशाल महाद्वीप के बीच अवसरों और संभावनाओं का एक ब्रिज बन सकते हैं। हम एक साथ मिलकर, भारत और Caricom की Partnership को और बेहतर बना सकते हैं। कल ही गयाना में India-Caricom Summit का आयोजन हुआ है। हमने अपनी साझेदारी के हर पहलू को और मजबूत करने का फैसला लिया है।

साथियों,

गयाना के विकास के लिए भी भारत हर संभव सहयोग दे रहा है। यहां के इंफ्रास्ट्रक्चर में निवेश हो, यहां की कैपेसिटी बिल्डिंग में निवेश हो भारत और गयाना मिलकर काम कर रहे हैं। भारत द्वारा दी गई ferry हो, एयरक्राफ्ट हों, ये आज गयाना के बहुत काम आ रहे हैं। रीन्युएबल एनर्जी के सेक्टर में, सोलर पावर के क्षेत्र में भी भारत बड़ी मदद कर रहा है। आपने t-20 क्रिकेट वर्ल्ड कप का शानदार आयोजन किया है। भारत को खुशी है कि स्टेडियम के निर्माण में हम भी सहयोग दे पाए।

साथियों,

डवलपमेंट से जुड़ी हमारी ये पार्टनरशिप अब नए दौर में प्रवेश कर रही है। भारत की Energy डिमांड तेज़ी से बढ़ रही हैं, और भारत अपने Sources को Diversify भी कर रहा है। इसमें गयाना को हम एक महत्वपूर्ण Energy Source के रूप में देख रहे हैं। हमारे Businesses, गयाना में और अधिक Invest करें, इसके लिए भी हम निरंतर प्रयास कर रहे हैं।

साथियों,

आप सभी ये भी जानते हैं, भारत के पास एक बहुत बड़ी Youth Capital है। भारत में Quality Education और Skill Development Ecosystem है। भारत को, गयाना के ज्यादा से ज्यादा Students को Host करने में खुशी होगी। मैं आज गयाना की संसद के माध्यम से,गयाना के युवाओं को, भारतीय इनोवेटर्स और वैज्ञानिकों के साथ मिलकर काम करने के लिए भी आमंत्रित करता हूँ। Collaborate Globally And Act Locally, हम अपने युवाओं को इसके लिए Inspire कर सकते हैं। हम Creative Collaboration के जरिए Global Challenges के Solutions ढूंढ सकते हैं।

साथियों,

गयाना के महान सपूत श्री छेदी जगन ने कहा था, हमें अतीत से सबक लेते हुए अपना वर्तमान सुधारना होगा और भविष्य की मजबूत नींव तैयार करनी होगी। हम दोनों देशों का साझा अतीत, हमारे सबक,हमारा वर्तमान, हमें जरूर उज्जवल भविष्य की तरफ ले जाएंगे। इन्हीं शब्दों के साथ मैं अपनी बात समाप्त करता हूं, मैं आप सभी को भारत आने के लिए भी निमंत्रित करूंगा, मुझे गयाना के ज्यादा से ज्यादा जनप्रतिनिधियों का भारत में स्वागत करते हुए खुशी होगी। मैं एक बार फिर गयाना की संसद का, आप सभी जनप्रतिनिधियों का, बहुत-बहुत आभार, बहुत बहुत धन्यवाद।