کابینہ کے میرے ساتھی جناب نریندر سنگھ جی تومر، ڈاکٹر ہرش وردھن جی، رمیش پوکھریال نشنک جی اور اس پوری مہم کی جو قیادت سنبھال رہے ہیں، جناب كرن رجیجو جی، یہاں موجود سبھی سینئر معززین، کھیل کی دنیا کے سارے ستارے اور میرے پیارے طالب علم بھائیو اور بہنو،
بعض لوگوں کا خیال ہوگا کہ ہم تو اسکول جاتے نہیں ہیں، کالج جاتے نہیں ہیں، لیکن مودی جی نے صرف طلباء کو کیوں کہا۔ آپ لوگ یہاں آئے ہیں، عمر کوئی بھی ہو،لیکن مجھے یقین ہے آپ کے اندر کا طالب علم زندہ ہے۔
آپ سب کو قومی یوم کھیل کی بہت بہت نیک خواہشات۔ آج کے ہی دن ہمیں میجر دھیان چند کے طور پر ایک عظیم اسپورٹ پرسن ملے تھے. اپنی فٹ نیس، اسٹیمنااور ہاکی اسٹکس سے دنیا کو انہوں نے مسحورکر دیا تھا۔ ایسے میجر دھیان چند جی کو میں آج احترام کے ساتھ سلام کرتا ہوں۔
آج کے دن فٹ انڈیا موومنٹ، ایسی مہم کا آغاز کرنے کے لئے ایک صحت مند بھارت کی سمت میں ایک اہم قدم ہے اور اس کنسیپٹ سے موومنٹ کےلئے، میں کھیل کود کی وزارت کو، نوجوان امور کے محکمہ کو بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔
یہاں جو آج پریزنٹیشن ہوئی، اس ڈیمو میں ہر پل فٹنیس کا کوئی نہ کوئی میسج تھا۔ روایات کو یاد کراتے ہوئے بدیہی طور پر ہم اپنے آپ کو فٹ کیسے رکھ سکتے ہیں،بہت بہترین طریقے سے ان چیزوں کوپیش کیا گیا اور یہ چیزیں اتنے اچھے طریقے سے پیش کی گئی ہیں کہ مجھے میری تقریر کی کوئی ضرورت نہیں لگتی۔ یہاں پریزنٹیشن میں جتنی باتیں بتائی گئی ہیں، اسی کو اگر ہم گانٹھ باندھ لیں اور ایک دو کو زندگی کا حصہ بنا لیں؛ میں نہیں مانتا ہوں کہ فٹنیس کے لئے مجھے کوئی تعلیم دینے کی ضرورت پڑے گی۔
اس شاندار کارسازی کے لئے، اس بہترین قسم کی پریزنٹیشن کے لئے، جنہوں نے اس کا تصور پیش کیا ہوگا، جنہوں نے اس میں نئے نئے رنگ نظر بھرے ہوں گے، اور جنہوں نے محنت کرکے اس کو پیش کیا جاتا ہے؛ آپ سبھی بہت شکریہ کے مستحق ہیں۔ میں مستقبل میں چاہوں گا کہ اسی میں سے ایک اچھا پیشہ ویڈیو بناکر کے سبھی اسکولو، کالجوں میں دکھایا جائے تاکہ بدیہی طور پر اسے ایک عوامی تحریک بنایا جاسکے۔
ساتھیو،
آج کا یہ دن ہمارے ان نوجوان کھلاڑیوں کو مبارکباد دینے کا بھی ہے جو مسلسل دنیا کے اسٹیج پر ترنگے کی شان کو نئی بلندی دے رہے ہیں۔ بیڈمٹن ہو، ٹینس ہو، ایتھلیٹکس ہو، باکسنگ ہو، کشتی ہو یا پھر دوسرے کھیل، ہمارے کھلاڑی ہماری توقعات اور خواہشات کو نئے پنکھ لگا رہے ہیں۔ ان کا جیتا ہوا میڈل، ان کی محنت اور تپسیا کا نتیجہ تو ہے ہی، یہ نئے بھارت کے نئے جوش اور نئے اعتماد کا بھی پیمانہ ہے.۔مجھے خوشی ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں بھارت نے اسپورٹس کے لئے بہتر ماحول بنانے کی جو کوششیں ہوئی ہیں، اس کا فائدہ آج ہمیں دکھائی دے رہا ہے۔
ساتھیو، اسپورٹس کا براہ راست تعلق ہے فٹنیس سے۔ لیکن آج جس فٹ انڈیا موومنٹ کی شروعات ہوئی ہے، اس کی توسیع اسپورٹس سے بھی بڑھ کر آگے ہونی ہے۔ فٹنیس ایک لفظ نہیں ہے بلکہ صحت مند اور خوشحال زندگی کی ایک ضروری شرط ہے۔ ہماری ثقافت میں تو ہمیشہ ہی فٹنیس پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ کسی بیماری کے بعد پرہیز سے ہم نے زیادہ بہتر صحت کے لئے کئے جانے والے اقدامات کو ترجیح دی ہے، ان کو بہتر مانا ہے۔ فٹنیس ہماری زندگی کا فطری حصہ رہی ہے اور ہمارے یہاں تو ہمارے ابا و اجدادنے، ہمارے ساتھیوں نے بار بار کہا ہے ۔
व्यायामात् लभते स्वास्थ्यं दीर्घायुष्यं बलं सुखं।
आरोग्यं परमं भाग्यं स्वास्थ्यं सर्वार्थसाधनम्॥
یعنی ورزش سے ہی صحت، لمبی عمر، طاقت اور خوشی حاصل ہوتی ہے۔ صحت مند ہونا بڑی خوش قسمتی بات ہے، اور صحت سے ہی دیگر سبھی کام انجام پاتے ہیں۔ لیکن وقت رہتے تعریفیں تبدیل ہوگئیں۔ پہلے ہمیں سکھایا جاتا تھا، ہمیں سننے کو ملتا تھا کہ صحت سے ہی سبھی کام انجام پاتے ہیں، اب سننے کو ملتا ہے خود غرضی سے ہی سبھی کام انجام پاتے ہیں، اور اس لئے اس خود غرضی جذبے کو صحت جذبے تک دوبارہ واپس لے جانے کی ایک اجتماعی کوشش ضروری ہو گئی ہے۔
ساتھیو،
میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ فٹنیس ضروری ہے ،یہ تو ہمیں بھی پتہ ہے، پھر اچانک اس طرح کے موومنٹ کی ضرورت کیا ہے؟ ساتھیو، ضرورت ہے اور آج شاید بہت زیادہ ضرورت ہے۔ فٹنیس ہماری زندگی کے طور طریقوں، ہمارے رہن سہن کا اٹوٹ حصہ رہی ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وقت کے ساتھ فٹنیس کو لے کر ہمارے معاشرتی زندگی میں، ہماری سوسائٹی میں ایک بے حسی آ گئی ہے۔
وقت کس طرح بدلا ہے، اس کی ایک مثال میں آپ کو دیتا ہوں۔ چند دہائی پہلے تک ایک عام انسان ایک دن میں 8،10 کلومیٹر پیدل چل لیتا تھا، کچھ ایک آدھ گھنٹے بھر سائیکل چلا لیتا تھا، کبھی بس پکڑنے کے لئے بھاگتا تھا۔ یعنی زندگی میں جسمانی سرگرمی آسانی ہوا کرتی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ ٹیکنالوجی بدلی، جدید ذرائع آئے اور انسان کا پیدل چلنا کم ہو گیا۔ جسمانی سرگرمیاں کم ہو گئیں، اور اب صورت حال کیا ہے؟ ٹیکنالوجی نے ہماری یہ حالت کر دی ہے کہ ہم چلتے کم ہیں اور وہی ٹیکنالوجی ہمیں گن گن کے بتاتی ہے کہ آج آپ اتنے قدم چلے، اب 5 ہزار قدم نہیں ہوئے، 2 ہزار قدم نہیں ہوئے، اور ہم موبائل فون دیکھتے رہتے ہیں۔ یہاں موجود آپ میں سے کتنے لوگ 5 ہزار، 10 ہزار قدم چلنے والا کام کرتے ہیں؟ بہت سے لوگ ہوں گے جنہوں نے اس قسم کی گھڑی پہنی ہوگی یا موبائل فون پرایپ ڈال کر رکھی ہوگی۔ موبائل پر چیک کرتے رہتے ہیں کہ آج کتنے قدم ہوئے۔
ساتھیو،
آپ میں سے بہت سے لوگ بیدار ہیں، محتاط ہیں، لیکن ملک میں بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو اپنی روز مرہ کی زندگی میں اتنا ،مشغول ہیں کہ آپ کی فٹنیس پر توجہ ہی نہیں دے پاتے۔ ان میں سے کچھ لوگ تو اور بھی خاص طرح کے ہیں، اور آپ نے دیکھا ہو گا کچھ چیزیں فیشن اسٹیٹ منٹ ہو جاتی ہیں، اور اس وجہ سے فٹنیس کی ذرا بات کرنا دوستوں میں، کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے ہیں، بھرپور کھا رہے ہیں، ضرورت سے ڈبل کھا چکے ہیں اور بڑے آرام سے ڈایٹنگ کی بحث کرتے ہیں۔ مہینے میں کم از کم دس دن آپ کواحساس ہوتا ہوگا کہ آپ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے ہیں، بھرپور کھا رہے ہیں اور بڑے مزے سے ڈایٹنگ پر عمدہ عمدہ نصیحتیں دے رہے ہیں۔ یعنی یہ لوگ جوش میں آکر باتیں بھی کرتے ہیں اور اس سے وابستہ گیجٹ خریدتے رہتے ہیں اور ان کو ذہن میں رہتا ہے ایساکوئی نیا گیجٹ ہوگا، شاید میری فٹنیس ٹھیک ہو جائے گی، اور آپ نے دیکھا ہو گا، گھر میں تو بہت بڑا جم ہوگا، فٹنیس کے لئے سب کچھ ہوگا، لیکن اس کی صفائی کے لئے بھی نوکر رکھنا پڑتا ہے، کیونکہ کبھی جاتے نہیں ہیں اور کچھ دن بعد وہ سامان گھر کے سب سے کنارے والے کمرے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ لوگ موبائل پر فٹنس والے ایپ بھی ڈاؤن لوڈ کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں، لیکن کچھ دن بعد اس ایپ کو کبھی دیکھتے بھی نہیں ہیں یعنی ڈھاک کے تین پات۔
میری پیدائش گجرات میں ہوئی۔ ہمارے یہاں گجرات میں ایک جیوتیندر بھائی دبے کرکے بہت ہی عمدہ طرح کے مزاحیہ ادیب تھے۔ طنزومزاح لکھتے تھے اور بڑا دلچسپ لکھتے تھے اور زیادہ تر وہ اپنے خود پر طنزومزاح لکھتے تھے۔ اچھا، ان کے جسم کی وضاحت کرتے۔ وہ کہتے تھے میں کہیں کھڑا رہتا ہوں، دیوار کے پاس کھڑا ہوں تو لوگوں کو لگتا تھا کہ ہینگر پر کچھ کپڑے ٹنگے ہوئے ہیں۔ یعنی وہ اتنے دبلے تھے کہ ایسا لگتا تھا کہ جیسے ہینگر پر کپڑے لٹکا ہو، تو کوئی ماننے کو تیار نہیں ہوتا تھا کہ میں کوئی انسان وہاں کھڑا ہوں۔ پھر وہ لکھتے تھے کہ میں گھر سے نکلتا ہوں تو میری جیب میں پتھر بھر کر چلتا ہوں۔ وہ کوٹ پہنتے تھے، سبھی جیب کے اندر پتھر بھرتے تھے، تو لوگ مجھے مناتے تھے ، شاید میں تشدد کربیٹھوں گا، ماردوں گا، تو لوگ مجھے پوچھتے تھے۔ اتنے سارے پتھر لے کر کیوں چلتے ہو۔ تو انہوں نے کہا کہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہوا آئے اڑ نہ جاؤں، ایسی بڑی مزہ دار چیزیں لکھتے تھے وہ۔ ایک بار کسی نے ان کو کہا کہ پتھر وتھر لے کر کے گھومنے کے بجائے آپ تھوڑا ذرا کسرت کرتے رہئے۔ اکھاڑے میں جائیے تو انہوں نے اس شخص کو پوچھا کہ کتنی کسرت کرنی چاہئے۔ بولے بس پسینہ ہوجائے، اتنا تو شروع کرو پہلے۔ اکھاڑے میں جاؤ اور پسینہ ہوجائے، اتنا کرئیے، تو بولے ٹھیک ہے، کل سے جاؤں گا۔ تو دوسرے دن بولے میں اکھاڑے پہنچ گیا اور یہ ہمارے جو کشتی باز ہوتے ہیں وہ لوگ اکھارے میں اپنی کشتی کررہے تھے۔ بولے۔ جا کرکے میں دیکھنے لگا اور دیکھتے ہی میرا پسینہ چھوٹ گیا تو مجھے لگا کہ میری ورزش تو گئی۔ یعنی یہ بات ہنسی کی ضرور ہے، مذاق اپنی جگہ ہے، لیکن صحت کے لئے اچھا بھی ہے۔ لیکن کچھ تشویش اس سے بھی بڑھی ہے۔
آج ہندوستان میں ذیابیطس اور ہائپر ٹینشن جیسی متعدد لائف اسٹائل بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں۔ کبھی کبھی تو سنتے ہیں کہ کنبے میں 15-12 تک کا بچہ ذیابیطس کا مریض ہوگیا ہے۔ آس پاس دیکھئے تو آپ کو متعدد لوگ ان بیماریوں سے مل جائیں گے۔پہلے ہم سنتے تھے کہ 60-50 سال کی عمر کے بعد ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، لیکن آج کبھی کبھی خبر آتی ہے کہ 30 سال، 35 سال، 40 سال کا نوجوان بیٹا بیٹی چلے گئے۔ ہارٹ اٹیک آرہا ہے۔ یہ صورتحال واقعی کافی تشویشناک ہے، لیکن ان تمام صورتحال کے باوجود امید کی ایک کرن بھی ہے۔اب آپ سوچیں گے کہ ان بیماریوں کے بیچ بھی امید کی کرن کی بات کیسے کہہ رہا ہوں۔ میں دراصل بہت ہی مثبت سوچ رکھنے والا انسان ہوں۔ اس لئے میں اس میں سے بھی کچھ اچھی چیزیں ڈھونڈ کر نکال لاتا ہوں۔
ساتھیو،
لائف اسٹائل بیماری ہورہی ہے۔ لائف اسٹائل ڈی آرڈر کی وجہ سے اب لائف اسٹائل ڈی آرڈر کو ہم طرز حیات بدل کے، اس میں بدلاؤ کرکے اس کو ٹھیک بھی کرسکتے ہیں۔ تمام ایسی بیماریاں ہیں، جنہیں ہم اپنے ڈیلی روٹین میں چھوٹے چھوٹے بدلاؤ کرکے، اپنی لائف اسٹائل میں بدلاؤ کرکے اس سے ہم بچ سکتے ہیں، اس کو دور رکھ سکتے ہیں۔ ان بدلاؤ کے لئے ملک کو ترغیب کرنے کا نام ہی فٹ انڈیا موومنٹ ہے اور یہ کوئی سرکاری موومنٹ نہیں ہے۔ سرکار تو ایک کیٹالٹک ایجنٹ کی شکل میں اس موضوع کو آگے بڑھائے گی، لیکن ایک طرح سے ہر کنبے کا ایجنڈا بننا چاہئے۔ یہ ہر کنبے کی چرچا کا موضوع بننا چاہئے۔ اگر تاجر ہر مہینے حساب لگاتا ہے، کتنی کمائی کی، تعلیم میں دلچسپی رکھنے والے کنبے میں چرچا کرتے ہیں، بیٹوں کو کتنے مارکس آئے، اسی طرح سے کنبے کے اندر قدرتی طور سے جسمانی مزدوری، جسمانی کسرت، فزیکل فٹنس یہ روزہ مرہ کی زندگی کے چرچا کے موضوع بننے چاہئیں۔
اور ساتھیو، ہندوستان میں ہی اچانک اس طرح کی ضرورت محسوس ہوئی ، ایسا نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ یہ بدلاؤ صرف ہندوستان میں ہی آرہا ہے، ایسا بھی نہیں ہے۔ پوری دنیا میں آج اس طرح کے اقدامات کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ متعدد ملک اپنے یہاں فٹنس کے تئیں بیداری بڑھانے کے لئے بڑے بڑے اقدامات اور مہم چلا رہے ہیں۔ ہمارے پڑوس میں چین ہیلدی چائنا 2030 اسکو مشن موڈ میں کام کررہا ہے۔ یعنی 2030 تک چین کا ہر شہری تندرست ہو، اس کے لئے انہوں نے پورا ٹائم ٹیبل بنایا ہے۔ اسی طرح آسٹریلیا اپنے شہریوں کی جسمانی سرگرمی بڑھانے اور ان ایکٹو یعنی آلس پن جو ہے، کچھ کرنا دھرنا نہیں، اس سوچ کو بدلنے کے لئے انہوں نے نشانہ طے کیا ہے کہ 2030 تک ملک کے 15 فیصد شہریوں کو آلس سے باہر نکال کر فٹنس کے لئے ایکٹونیس کے لئے ہم کام کریں گے۔ برطانیہ میں زور شور سے مہم چل رہی ہے کہ 2020 تک 5 لاکھ نئے لوگ ڈیلی ایکسرسائز کے روٹین سے جڑیں، یہ انہوں نے ٹارگیٹ طے کیا ہے۔ امریکہ 2021 تک اپنے ایک ہزار شہروں کو فری فٹنس مہم سے جوڑنے کا کام کررہا ہے۔ جرمنی بھی فٹ انسٹیڈ آف فیٹ، اس کی بڑی مہم چلا رہا ہے۔
ساتھیو، میں نے آپ کو کچھ ہی ملکوں کے نام گنائے ہیں۔ متعدد ملک بہت پہلے سے اس پر کام شروع کرچکے ہیں۔ ان سارے ملکوں میں لوگ فٹنس کی ضرورت کو سمجھتے ہیں، لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے یہاں مخصوص مہم شروع کی ہوئی ہے۔ سوچئے آخر کیوں؟ کیونکہ صرف کچھ لوگوں کو فٹ رہنے سے نہیں، بلکہ پورے ملک کے فٹ رہنے سے ہی ملک کا فائدہ ہوگا۔ نئے ہندوستان کا ہر شہری فٹ رہے، اپنی توانائی بیماریوں کے علاج میں نہیں بلکہ خود کو آگے بڑھنے میں اپنے کنبے، اپنے ملک کو آگے بڑھانے میں لگائے۔ اس سمت میں ہمیں آگے بڑھنا ہوگا۔
ساتھیو،
زندگی میں جب آپ ایک نشانہ طے کرلیتے ہیں تو اس نشانوں کے مطابق ہی ہماری زندگی ڈھلنا شروع ہوجاتی ہے۔ زندگی ڈھل جاتی ہے، ہماری عادتیں ویسی ہی بن جاتی ہے۔ ہمارا معمول ویسا ہی بن جاتا ہے۔ ہم کو صبح 8 بجے اٹھنے کی عادت ہو، لیکن کبھی صبح 6 بجے اگر جہاز پکڑنا ہے، 6 بجے ٹرین پکڑنی ہے تو ہم اٹھتے ہی ہیں۔ تیار ہوکر چلتے ہی ہیں۔ کسی طالب علم نے اگر یہ طے کیاکہ مجھے 10 ویں یا 12 ویں کے بورڈمیں کم سے کم اتنے فیصد لانے ہیں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ اپنے آپ اپنے میں ایک بہت بڑا بدلاؤ لانا شروع کردیتا ہے۔ اپنے نشانے کو حاصل کرنے کی دھن میں اس کا آلس پن ختم ہوجاتا ہے۔ اس کی سٹنگ کیپی سیٹی بڑھ جاتی ہے۔ اس کی توجہ کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ وہ دوستوں سے دھیرے دھیرےملنا کم کردیتا ہے۔تھوڑا کھانے کی عادت کم کرتا جاتا ہے، ٹی وی دیکھنا بند کردیتا ہے، یعنی زندگی کو ڈھالنے لگ جاتا ہے، کیونکہ من میں نشانہ ہوگیا کہ مجھے یہ کرنا ہے۔
اسی طرح کوئی اگراپنی زندگی کا نشانہ ویلتھ کریشین بناتا ہے تو اس کی زندگی بھی بدل جاتی ہے۔ وہ 24 گھنٹے اپنے نشانے کو حاصل کرنے میں جٹا رہتا ہے۔ ایسا ہی جب زندگی میں فٹنس کے تئیں بیداری آتی ہے، صحت بیداری آتی ہے تو من ایک بار طے کرے کہ بھائی میں بالکل ہی کبھی تھکوں گا نہیں، کبھی سانس پھولے گا نہیں، چلناپڑے گا تو چلوں گا، دوڑنا پڑے گا تو دوڑوں گا، چڑھنا پڑھے گا تو چڑھوں گا، رکوں گا نہیں، آپ دیکھئے دھیرے دھیرے آپ کی زندگی معمول بھی ویسی بننا شروع ہوجاتی ہے اور پھر ایسی چیزیں تو جسم کو نقصان کرتی ہیں، اس سے وہ شخص دور رہتا ہے، کیونکہ اس کے اندر ایک بیداری آجاتی ہے۔ وہ بیدار ہوجاتا ہے، جیسے وہ ڈرگس کی گرفت میں کبھی نہیں آئے گا۔اس کے لئے کبھی ڈرگس کول نہیں ہوگی، اسٹائل اسٹیٹ منٹ نہیں بنے گی۔
ساتھیو،
سوامی وویکانند جی بھی کہتے تھے کہ اگر زندگی میں مقصد ہو، پورے پیشن کے ساتھ اس کے لئے کام کیا جائے تو اچھی صحت، سکھ خوشحالی، اس کے بائی پروڈکٹ کی شکل میں آپ کی زندگی میں آجاتی ہیں۔ اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے اندر ایک جنون، ایک امنگ، ایک لگن کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ جب ایک مقصد کے ساتھ پیشن کے ساتھ ہم کام کرتے ہیں، آگے بڑھتے ہیں تو کامیابی ہمارے قدم چومنے کے لئے تیار ہوجاتی ہے اور کامیابی پر آپ نے وہ کہاوت بھی سنی ہوگی،دیئر از نو الیویٹر تو سکسیس یو ہیو تو ٹیک دی اسٹیئرس یعنی اس کہاوت میں بھی آپ کو سیڑھی کے قدم چلنےکے لئے کہا گیا ہے۔ قدم تو آپ تبھی چڑھ پائیں گے جب فٹ ہوں گے، ورنہ لفٹ بند ہوگئی تو سوچیں گے ، یار آج نہیں جائیں گے۔ کون چوتھی منزل پر جائے گا۔
بھائیو، اور بہنو،
کامیابی اور فٹنس کا رشتہ بھی ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ آج آپ کوئی بھی شعبہ لیجئے ، اپنے آئی کونس کو دیکھئے، ان کی کامیابی کی کہانی کو دیکھئے، چاہئے وہ کھیل کود میں ہوں ، فلموں میں ہوں، بزنس میں ہوں، ان میں زیادہ تر فٹ ہیں۔ یہ صرف محض اتفاق نہیں ہے۔ اگر آپ ان کی طرز زندگی کے بارے میں پڑھیں گے تو پائیں گے ایک چیز ایسے ہر شخص میں مشترک ہے، کامیاب لوگوں کا مشترکہ کیریکٹر ہے، فٹنس پر ان کی توجہ، فٹنس پر ان کا بھروسہ۔ آپ نے بہت سے ڈاکٹر وں کو بھی دیکھا ہوگا ، بہت مشہور ہوتے ہیں اور د س دس ، بارہ بارہ گھنٹے بہت سے مریضوں کے آپریشن کرتے ہیں، بہت سے بزنس مین صبح ایک میٹنگ ایک شہر میں کرتے ہیں تو دوسری میٹنگ دوسرے شہر میں۔ ان کے چہرے پر شکن تک نہیں آتی، اتنی الرٹ نیس کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ آپ کسی بھی پیشے میں ہوں، آپ کو اپنے پیشے میں اچھی کارکردگی لانی ہے تو ذہنی اور جسمانی فٹنس بہت ضروری ہے، چاہئے بورڈ روم ہو ، یا بالی ووڈ، جو فٹ ہے وہ آسمان چھوتا ہے۔ باڈی فٹ ہے تو مائنڈ ہٹ ہے۔
ساتھیو!
جب فٹنس کی طرف ہم دھیان دیتے ہیں ، ہم فٹنس پر دھیان دیتے ہوئے اپنے آپ کو فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں ہمیں اپنی باڈی کو بھی سمجھنے کا موقع ملتا ہے، یہ حیرانی کی بات ہے لیکن ہم اپنے جسم کے بارے میں ، اپنی طاقت ، اپنی کمزوریوں کے بارے میں بہت ہی کم جانتے ہیں۔ اس لئے جب ہم فٹنس کے اپنے سفر پر نکلتے ہیں تو اپنی باڈی کو بہتر ڈھنگ سے سمجھنا شروع کرتے ہیں اور میں نے ایسے کئی لوگوں کو دیکھا ہے جنہوں نے ایسے ہی اپنی باڈی کی طاقت کو جانا ہے، پہچانا ہے ، اس سے ان کی خود اعتمادی بھی بڑھی ہے، جس سے ایک بہتر شخصیت کی تشکیل میں انہیں مدد ملی ہے۔
ساتھیو!
فٹ انڈیا مہم بھلے ہی سرکار نے شروع کی ہے لیکن اس کی قیادت آپ سبھی کو کرنی ہے۔ ملک کے عوام ہی اس مہم کو آگے بڑھائیں گے اور کامیابی کی بلندی پر پہنچائیں گے۔ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ اس میں انویسمنٹ زیرو ہے لیکن ریٹرن لامحدود ہے۔
یہاں اسٹیج پر انسانی وسائل کے فروغ کے وزیر ، دہی ترقی کے وزیر بھی ہیں، میری ان سے خاص اپیل ہے کہ ملک کے ہر گاؤں میں ، ملک کی ہر پنچایت میں ، ملک کے ہر اسکول میں یہ مہم پہنچنی چاہئے۔ یہ مہم صرف ایک وزارت کی نہیں ہے، صرف سرکار کی نہیں ہے، یہ سرکار چاہئے مرکز کی ہو ، ریاست کی ہو، نگر پالیکا ہو ، پنچایت ہو ، کوئی بھی پارٹی ہو ، کوئی بھی نظریات ہوں، فٹنس کے تعلق سے کسی کو بھی کوئی پرابلم نہیں ہونی چاہئے۔ پورا ملک ہر خاندان اس پر زور دے۔ ابھی ہم نے پروگرام میں دیکھا ، ہمارے یہاں فٹنس کے ساتھ بہاری کی بھی اہمیت ہے لیکن بدقسمتی سے محدود سوچ کی وجہ سے مکمل سوچ کی کمی کی وجہ سے ہم نے اپنی روایتوں سے ایسی گاڑی ڈریل کردی ہے، جیسے کبھی ہمارے یہاں جو ، 80-70-60 سال کی عمر کے لوگ ہوں گے ، جب وہ اسکول میں پڑھتے تھے تب تلوار کا ت پڑھایا جاتا تھا۔ ت سے تلوار ، بعد میں کچھ عقل مند لوگوں نے تنازع کھڑا کیا ، محدود سوچ کا نتیجہ تھا کہ بھائی تلوار بچوں کو پڑھانے سے اس کے اندر تشدد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، تو کیا کریں، تو تلوار کو نکال دو۔ ت سے تربوز پڑھاؤ یعنی ہم نے جس طرح سے نفسیاتی طور سے بھی ہماری عظیم روایتوں سے بہادری کو بھی ، جسمانی قوت کو بھی ، فٹنس کو بھی بہت گہری چوٹ پہنچائی ہے۔
اور اس لئے میں چاہوں گا کہ ہر طرح سے ہم فٹنس کو ایک تقریب کے طور پر، زندگی میں ایک حصے کے طور پر، خاندان میں کامیابی کے جتنے بھی معیار ہوں، اس میں فٹنس بھی ایک خاندان کی کامیابی کا پیمانہ ہونا چاہئے۔ انسان کے زندگی کی کامیابیوں میں بھی فٹنس اس کا ایک پیمانہ ہونا چاہئے، اگر ان اصولوں کو لے کر ہم چلتے ہیں اور ریاستی سرکاریں ہوں، میں ان کو بھی کہوں گا کہ فٹ انڈیا مومنٹ کو زیادہ سے زیادہ توسیع دینے، اسے ملک کے دور دراز علاقوں میں پہنچانے کے لئے ہر کوئی آگے آئے۔ اپنے اسکولوں میں، اپنے دفتروں میں ، اپنی ریاست کے لوگوں میں فٹنس کے کئی بیداری بڑھا کر ، ان کے لئے ضروری وسائل مہیا کرکے ہمیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ڈیلی اپنا کچھ وقت فٹنس کو دینے کے لئے تحریک دلانی ہوگی۔ صحت مند شخص ، صحت مند خاندان اور صحت مند سماج ، یہی نئے بھارت کو عظیم بھارت بنانے کا راستہ ہے۔ جیسے آپ نے سوچھ بھارت مہم کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہے ، اسی طرح فٹ انڈیا مومنٹ کو بھی اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہے۔
آئیے آپ آج یہ عہد کریں، یہ وعدہ کریں کہ آپ خود بھی فٹ رہیں گے ، اپنے خاندان، دوستوں اور ان کو بھی ، جنہیں آپ جانتے ہیں، ان سبھی کو فٹ رہنے کے لئے حوصلہ افزائی کریں گے۔ میں فٹ تو انڈیا فٹ۔
اسی ایک گزارش کے ساتھ ایک بار پھر اس مہم کے لئے ہم وطنوں کو میری بہت بہت نیک خواہشات ہیں اور سماج کے ہر طبقے میں قیادت کرنے والے لوگوں سے میری اپیل ہے کہ آپ آگے آئیے ، اس تحریک کو طاقت دیجئے، سماج کے سحت مند ہونے میں آپ بھی حصے دار بنئے اسی ایک امید کے ساتھ بہت بہت نیک خواہشات کے ساتھ آپ سب کا بہت بہت شکریہ!