بھارت ماتا کی جے۔
بھارت ماتا کی جے۔
بھارت ماتا کی جے۔
آسام کے ہر دل عزیز وزیر اعلیٰ جناب سربانند سونووال جی، مرکزی کابینہ میں میرے معاون جناب رامیشور تیلی جی، آسام حکومت میں وزیر محترم بسوا سرما جی، جناب اتل بورا جی، جناب کیشو مہنتا جی، جناب رنجیت دتا جی، بوڈولینڈ ٹیری ٹورئیل خطے کے چیف جناب پرمود بورو جی، دیگر تمام اراکین پارلیمنٹ، اراکین اسمبلی، اورمیرے پیارے بھائیو اور بہنو۔
مور بھائی بہن سب، تہنی دیر کی کھبر، بھالئی تو؟ کھلمبائے۔ نونتھامونہا مابورے داں؟ گزشتہ ماہ مجھے آسام آکر غریب، دبے کچلے، مظلوم طبقے، محرومین کو زمین کے پٹے کی تقسیم کاری کے پروگرام کا حصہ بننے کی خوش نصیبی حاصل ہوئی تھی۔ تب میں نے کہا تھا کہ آسام کے لوگوں کی محبت اتنی گہری ہے کہ وہ مجھے بار بار یہاں لے آتی ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر میں آپ سب کو پرنام کرنےآیا ہوں۔ آپ سب کے درشن کرنے کے لئے آیا ہوں۔ میں نے کل سوشل میڈیا پر دیکھا، پھر میں نے ٹوئیٹ بھی کیا کہ ڈھیکیاجولی کو کتنی خوبصورتی سے سجایا گیا ہے۔ اتنے دیپ آپ لوگوں نے روشن کیے۔ اس اپنے پن کے لئے میں آسام کے عوام کے قدموں میں پرنام کرتا ہوں۔ میں آسام کے وزیر اعلیٰ سربانند جی، ہیمنت جی، رنجیت دتا جی، سرکار میں اور بھاجپا پارٹی میں بیٹھے ہوئے، ہر کسی کی ستائش کروں گا۔ وہ اتنی تیز رفتاری سے آسام کی ترقی میں، آسام کی خدمت میں مصروف ہیں کہ مجھے مسلسل یہاں ترقی کے پروگراموں میں آنے کا موقع ملتا رہا ہے۔ آج کا دن تو میرے لیے ایک اور وجہ سے بہت خاص ہے! آج مجھے سونیت پور۔ڈھیکیاجولی کی اس مقدس سرزمین کو پرنام کرنے موقع حاصل ہوا ہے۔ یہ وہی سرزمین ہے جہاں رودرپور مندر کے پاس آسام کی صدیوں پرانی تاریخ ہمارے سامنے آئی تھی۔ یہ وہی سرزمین ہے جہاں آسام کے لوگوں نے حملہ آوروں کو شکست دی تھی، اپنے اتحاد، اپنی طاقت، اپنی شجاعت کا ثبوت دیا تھا۔ 1942 میں اسی سرزمین پر آسام کے آزادی کے سپاہیوں نے ملک کی آزادی کے لئے، ترنگے کی عزت کے لئے خود کو قربان کر دیا تھا۔ ہمارے انہیں شہیدوں کی طاقت کو بھوپین ہزاریکا جی کہتے تھے۔
بھارت ہیں آجی جاگرت ہیے۔
پرتی رکت بندوتے،
ہہسر شوہیدر
ہاہت پرتگیاؤ اُجووَل ہیے۔
یعنی، آج بھارت کے شیر جاگ رہے ہیں۔ ان شہیدوں کے خون کی ایک بوند، ان کی ہمت ہمارے عزم کو مضبوط کرتی ہے۔ اس لیے، شہیدوں کی شجاعت کی گواہ سونیت پور کی یہ سرزمین، آسام کا یہ ماضی، بار بار من کو فخر سے بھر رہا ہے۔
ساتھیو،
ہم سب ہمیشہ سے یہ سنتے آئے ہیں، دیکھتے آئے ہیں کہ ملک کی پہلی صبح شمال مشرق سے ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ شمال مشرق اور آسا م میں ترقی کی صبح کو ایک طویل انتظار کرنا پڑا ہے۔ تشدد، قلت، تناؤ، بھید بھاؤ، طرفداری، جدوجہد، ان ساری باتوں کو پس پشت چھوڑ کر اب پورا شمال مشرق ترقی کی راہ پر آگے بڑھ رہا ہے۔ اور آسام اس میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ تاریخی بوڈو امن معاہدے کے بعد حال ہی میں بوڈولینڈ ٹیری ٹورئیل کونسل کے انتخابات نے یہاں ترقی اور اعتماد کا نیا باب رقم کیا ہے۔ آج کا دن بھی آسام کی قسمت اور آسام کے مستقبل میں اس بڑی تبدیلی کا گواہ ہے۔ آج ایک جانب بشوناتھ اور چرئی دیو میں دو میڈیکل کالجوں کا تحفہ آسام کو مل رہا ہے، تو وہیں ’آسام مالا‘ کے ذریعہ جدید بنیادی ڈھانچے کی بنیاد بھی رکھی گئی ہے۔
اکھمر بکاکھر آجی الیکھ جوگیہ دن۔ ایئی بکھیکھ دن ٹوت مئی اکھم باکھیک آنترک ابھینندن جنائیچھوں۔
ساتھیو،
متحدہ کوششوں سے، متحدہ عزم سے کیسے نتائج سامنے آتے ہیں، آسام اس کی ایک بہت بڑی مثال ہے۔ آپ کو پانچ سال قبل کا وہ وقت یاد ہوگا، جب آسام کے زیادہ تر دور دراز کے علاقوں میں اچھے ہسپتال صرف خوابوں کی بات ہوتی تھی۔ اچھے ہسپتال، اچھے علاج کا مطلب ہوتا تھا گھنٹوں کا سفر، گھنٹوں کا انتظار اور مسلسل لاتعداد مشکلات! مجھے آسام کے لوگوں نے بتایا ہے کہ انہیں ہمیشہ یہی فکر رہتی تھی کہ کوئی میڈیکل ایمرجنسی نہ آجائے! لیکن یہ مسائل اب تیزی سے حل ہو رہے ہیں۔ آپ اس فرق کو آسانی سے دیکھ سکتے ہیں، محسوس کر سکتے ہیں۔ آزادی کے بعد سے 7 دہائیوں میں، یعنی 2016 تک آسام میں صرف 6 طبی کالج ہوتے تھے۔ لیکن ان 5 برسوں میں ہی آسام میں 6 مزید میڈیکل کالج بنانے کا کام شروع کیا جا چکا ہے۔ آج شمالی آسام اور اپر آسام کی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے بسواناتھ اور چرئی دیو میں دو مزید میڈیکل کالج کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ یہ میڈیکل کالج اپنے آپ میں جدید صحتی سہولیات کے مرکز تو بنیں گے ہی، ساتھ ہی آئندہ کچھ برسوں میں یہاں سے ہی میرے ہزاروں نوجوان ڈاکٹر بن کر نکلیں گے۔ آپ دیکھئے، 2016 تک آسام میں مجموعی طور پر ایم بی بی ایس نشستیں تقریباً سوا سات سو ہی تھیں۔ لیکن یہ نئے میڈیکل کالج جیسے ہی شروع ہوں گے، آسام کو ہر سال 16 سو نئے ایم بی بی ایس ڈاکٹر ملنے لگیں گے۔ اور میرا تو ایک اور خواب ہے۔ بڑا ہی ہمت والا خواب لگتا ہوگا، تاہم میرے ملک کے گاؤں میں، میرے ملک کے غریب کے گھر میں صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہوتی ہے۔ انہیں موقع نہیں حاصل ہوا ہوتا ہے۔ آزاد بھارت اب جبکہ 75 ویں برس میں داخل ہو رہا ہے۔ تو میرا ایک خواب ہے۔ ہر ریاست میں کم سے کم ایک میڈیکل کالج، کم سے کم ایک تکنیکی کالج، وہ مادرِ زبان میں پڑھانا شروع کریں۔ آسامی زبان میں پڑھ کر کوئی اچھا ڈاکٹر نہیں بن سکتا کیا؟ آزادی کے 75 برس ہونے آئے اور اس لیے انتخابات کے بعد جب آسام میں نئی حکومت تشکیل ہوگی، میں یہاں آسام کے لوگوں کی طرف سے آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آسام میں بھی ایک میڈیکل کالج مقامی زبان میں ہم شروع کریں گے۔ ایک تکنیکی کالج علاقائی زبان میں شروع کریں گے، اور دھیرے دھیرے یہ بڑھے گا۔ کوئی روک نہیں پائے گا اس کو۔ یہ ڈاکٹرس آسام کے مختلف علاقوں میں، دور دراز علاقوں میں اپنی خدمات فراہم کریں گے۔ اس سے بھی علاج میں آسانی پیدا ہوگی، لوگوں کو علاج کے لئے بہت دور نہیں جانا ہوگا۔
ساتھیو،
آج گواہاٹی میں ایمس کا کام بھی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کا کام آئندہ ڈیڑھ دو برسوں میں مکمل ہو جائے گا۔ ایمس کے موجودہ کیمپس میں اسی تعلیمی سیشن سے ایم بی بی ایس کا پہلا بیچ شروع بھی ہوگیا ہے۔ جیسے ہی آئندہ کچھ برسوں میں اس کا نیا کیمپس تیار ہوگا، آپ دیکھیں گے کہ گواہاٹی جدید صحتی خدمات کے مرکز کے طور پر ابھر کر سامنے آئے گا۔ ایمس گواہاٹی صرف آسام ہی نہیں، بلکہ پورے شمال مشرق میں ایک بڑی تبدیلی برپا کرنے والا ہے۔ آج جب میں ایمس کی بات کر رہا ہوں، تو ایک سوال آپ کے درمیان رکھنا چاہتا ہوں۔ ملک کی سابقہ حکومتیں یہ کیوں نہیں سمجھ پائیں کہ گواہاٹی میں ہی ایمس ہوگا تو آپ لوگوں کو کتنا فائدہ ہوگا۔ وہ لوگ شمال مشرق سے اتنا دور تھے کہ آپ کی تکلیفیں کبھی سمجھ ہی نہیں پائے۔
ساتھیو،
آج مرکزی حکومت کے ذریعہ آسام کی ترقی کے لئے پوری تابعداری سے کام کیا جا رہا ہے۔ آسام بھی ملک کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر آگے بڑھ رہا ہے۔ آیوشمان بھارت یوجنا ہو، جن اوشدھی کیندر ہوں، پردھان منتری نیشنل ڈائیلیسس پروگرام ہو، یا صحت اور چاق چوبند رہنے سے متعلق مراکز ہوں، عام انسان کی زندگی میں جو تبدیلی آج پورا ملک دیکھ رہا ہے، وہی تبدیلی، وہی سدھار آسام میں بھی نظر آرہے ہیں۔ آج آسام میں آیوشمان بھارت اسکیم کا فائدہ تقریباً سوا کروڑ غریبوں کو حاصل ہو رہا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ آسام کے ساڑھے تین سو سے زائد ہسپتال اس اسکیم سے مربوط ہو چکے ہیں۔ اتنے کم وقت میں آسام کے ڈیڑھ لاکھ نادار آیوشمان بھارت کے تحت اپنا مفت علاج کروا چکے ہیں۔ ان سبھی اسکیموں سے آسام کے غریبوں کے سینکڑوں کروڑ روپئے علاج پر خرچ ہونے سے بچے ہیں۔ غریب کا پیسہ محفوظ رہا۔ آیوشمان بھارت اسکیم کےساتھ ہی لوگوں کو آسام حکومت کے ’اٹل امرت ابھیان‘ سے بھی فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔ اس اسکیم میں غریب کے ساتھ ہی عام طبقے کے شہریوں کو بھی ازحد کم قسط پر صحتی بیمہ کا فائدہ بہم پہنچایا جا رہاہے۔ اس کے ساتھ ہی آسام کے کونے کونے میں صحت و تندروستی کے مراکز بھی کھولے جا رہے ہیں، جو گاؤں کے غریب کی صحت کی فکر کر رہے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ان مراکز پر اب تک 55 لاکھ سے زیادہ آسام کے بھائی بہنوں نے اپنا علاج کرایا ہے۔
ساتھیو،
صحتی خدمات کو لے کر حساسیت اور جدید سہولتوں کی اہمیت کو ، کورونا کے دور میں ملک نے بخوبی محسوس کیا ہے۔ ملک نے کورونا سے جس طرح جنگ لڑی ہے، جتنے مؤثر انداز سے بھارت اپنا ٹیکہ پروگرام چلا رہا ہے، اس کی تعریف آج پوری دنیا کر رہی ہے۔ کورونا سے سبق لیتے ہوئے ملک نے ہر ہندوستانی کی زندگی کو محفوظ اور آسان بنانے کےلئے اور تیزی سی کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کی جھلک آپ نے اس مرتبہ کے بجٹ میں بھی دیکھی ہے۔ بجٹ میں اس مرتبہ صحت پر ہونے والے صرفے میں غیر معمولی اضافہ کیا گیا ہے۔ حکومت نے یہ بھی طے کیا ہے کہ اب ملک کے 6 سو سے زیادہ اضلاع میں مربوط تجربہ گاہیں بنائی جائیں گی۔ اس کابہت بڑا فائدہ چھوٹے قصبات اور مواضعات کے لوگوں کو ہوگا جنہیں میڈیکل ٹیسٹ کے لئے دور جانا پڑتا ہے۔
ساتھیو،
آسام کی خوشحالی، یہاں کی ترقی کا ایک بہت بڑا مرکز آسام کے چائے کے باغات بھی ہیں۔سونیت پور کی لال چائے تو ویسے بھی اپنے منفرد ذائقے کے لئے جانی جاتی ہے۔ سونیت پور اور آسام کی چائے کا ذائقہ کتنا خاص ہوتا ہے، یہ مجھ سے بہتر بھلا کون جانے گا؟ اس لیے میں ہمیشہ سے چائے کارکنان کی ترقی کو پورے آسام کی ترقی سے جوڑکر ہی دیکھتا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ اس سمت میں آسام حکومت کئی مثبت کوششیں کر رہی ہے۔ ابھی کل ہی آسام چاہ بغیچہ دھن پروسکار میلہ اسکیم کے تحت آسام کے ساڑھے سات لاکھ چائے باغات کے کارکنان کے بینک کھاتوں میں کروڑوں روپئے راست طور پر منتقل کیے گئے ہیں۔ چائے کے باغات میں کام کرنے والی حاملہ خواتین کو ایک خصوصی اسکیم کے تحت سیدھے مدد پہنچائی جا رہی ہے، چائے باغات کے کارکنان اور ان کے کنبوں کی صحتی دیکھ بھال کے لئے، جانچ اور علاج کے لئے چائے کے باغات میں ہی موبائل میڈیکل یونٹ بھی بھیجی جاتی ہیں، مفت ادویہ کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔ آسام حکومت کی انہیں کوششوں سے جڑ کر اس مرتبہ ملک کے بجٹ میں بھی چائے کے باغات میں کام کرنے والے ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے لئے ایک ہزار کروڑ روپئے کے بقدر کی خصوصی اسکیم کا اعلان کیا گیا ہے۔ چائے باغات کے کارکنان کے لیے ایک ہزار کروڑ روپئے۔ یہ پیسہ حاصل ہونے والی سہولتوں کو آگے بڑھائے گا، ہمارے چائے کے باغات کے کارکنان کی زندگی اور آسان ہو جائے گی۔
ساتھیو،
آج جب میں آسام کے چائے کے باغات کے کارکنان کی بات کر رہا ہوں، تو میں ان دنوں ملک کے خلاف چل رہی سازشوں کی بھی بات کرنا چاہتا ہوں۔ آج ملک کو بدنام کرنے کے لئے سازش رچنے والے اس سطح تک پہنچ گئے ہیں کہ بھارت کی چائے کو بھی نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ آپ نے خبروںمیں سنا ہوگا، یہ سازش کرنے والے کہہ رہے ہیں کہ بھارت کی چائے کی شبیہ کو بدنام کرنا ہے۔ منصوبہ بند طریقے سے۔ بھارت کی چائے کی شبیہ کو دنیا بھر میں بدنام کرنا ہے۔ کچھ دستاویز سامنے آئے ہیں جن سے خلاصہ ہوتا ہے کہ غیر ممالک میں بیٹھی کچھ طاقتیں، چائے کے ساتھ بھارت کی جو شناخت وابستہ ہے، اس پر حملہ کرنے کی فراق میں ہیں۔کیا آپ کو یہ حملہ منظور ہے؟ اس حملے کے بعد چپ رہنے والے لوگ منظور ہیں آپ کو؟ حملے کرنے والے کی تعریف کرنے والے منظور ہیں کیا آپ کو؟ ہر کسی کو جواب دینا پڑے گا۔ جنہوں نے ہندوستان کی چائے کو بدنام کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اور ان کے لیے یہاں جو خاموش بیٹھے ہیں، یہ چائے کے باغات سبھی سیاسی جماعتوں سے جواب طلب کریں گے۔ ہندوستان کی چائے پینے والا ہر شخص جواب مانگے گا۔ میں آسام کی سرزمین سے ان سازش کاروں سے کہنا چاہتا ہوں، یہ جتنا مرضی چاہے سارش کر لیں، ملک ان کے ناپاک منصوبوں کو کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ میرا چائے باغات کا کارکن اس لڑائی میں فتح حاصل کرکے رہے گا۔ بھارت کی چائے پر کیے جا رہے ان حملوں میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ ہمارے چائے کے باغات کے کارکنان کی محنت کا مقابلہ کر سکیں۔ ملک اسی طرح ترقی اور پیش رفت کے راستے پر بڑھتا رہے گا۔آسام اسی طرح ترقی کی نئی بلندیوں کو چھوتا رہے گا۔ آسام کی ترقی کا یہ پہیہ اسی تیز رفتاری سے گھومتا رہے گا۔
ساتھیو،
آج جب آسام میں ہر شعبے میں اتنا کام ہو رہا ہے، ہر طبقے اور ہر میدان میں ترقی ہو رہی ہے، تویہ بھی ضروری ہے کہ آسام کی طاقت میں مزید اضافہ ہو۔ آسام کی طاقت کو بڑھانے میں یہاں کی جدید سڑکوں اور بنیادی ڈھانچہ کا بڑا کردار ہے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے آج ’بھارت مالا پروجیکٹ‘ کی طرز پر آسام کے لئے ’آسام مالا‘ کی شروعات کی گئی ہے۔ اگلے 15 برسوں میں آسام میں چوڑی شاہراہوں کا جال ہو، یہاں کے سبھی مواضعات اہم سڑکوں سے جڑیں، یہاں کی سڑکیں ملک کے بڑے شہروں کی طرح جدید ہوں، آسام مالا پروجیکٹ آپ کے خوابوں کو پورا کرے گا، آپ کی طاقت میں اضافہ کرے گا۔ گذشتہ چند برسوں میں ہی آسام میں ہزاروں کلو میٹر سڑکیں بنائی گئی ہیں، نئے نئے پل بنائے گئے ہیں۔ آج بھوپین ہزاریکا برج اور سرائے گھاٹ برج آسام کی جدید شناخت کا حصہ بن رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ کام اور بھی تیز ہونے والا ہے۔ ترقی اور پیش رفت کی رفتار کو مہمیز کرنے کے لئے اس بجٹ میں بنیادی ڈھانچے پر غیرمعمولی طور پر زور دیا گیا ہے۔ ایک طرف جدید بنیادی ڈھانچہ پر کام تو دوسری طرف ’آسام مالا‘ جیسے پروجیکٹوں سے کنکٹیویٹی میں اضافے کا کام، آپ تصور کیجئے، آنے والے دنوں میں آسام میں کتنا کام ہونے والا ہے، اور اس کام میں کتنے نوجوانوں کو روزگار حاصل ہونے والا ہے۔ جب شاہراہیں بہتر ہوں گی، کنکٹیویٹی بہتر ہوگی، تو کاروبار اور صنعتوں میں بھی اضافہ ہوگا، سیاحت کا شعبہ بھی ترقی سے ہمکنار ہوگا۔ اس سے بھی ہمارے نوجوانوں کے لئے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے، آسام کی ترقی کو نئی رفتار حاصل ہوگی۔
ساتھیو،
آسام کے مشہور شاعر روپ کنور جیوتی پرساد اگروال کے چند سطور ہیں۔
میری نیا بھارت کی،
نیا چھوی،
جاگا رے،
جاگا رے،
آج انہیں سطور کو حقیقت کی شکل دے کر ہمیں نئے بھارت کو بیدار کرنا ہے۔ یہ نیا بھارت آتم نربھر بھارت ہوگا، یہ نیا بھارت، آسام کو ترقی کی نئی بلندی پر پہنچائے گا۔ انہیں نیک خواہشات کےساتھ، آپ سب کا بہت بہت شکریہ! بہت بہت نیک خواہشات۔ میرے ساتھ دونوں مٹھی بند کرکے پوری طاقت سے بولیے، بھارت ماتا کی ۔ جے۔ بھارت ماتا کی ۔ جے۔ بھارت ماتا کی ۔ جے۔ بھارت ماتا کی ۔ جے۔ بہت بہت شکریہ۔