نئی دہلی،24/ستمبر۔ سکم کے گورنر جناب گنگا پرساد جی، ریاست کے وزیر اعلیٰ جناب پون چاملنگ جی، مرکز میں کابینہ کے میرے ساتھی جناب سریش پربھو جی، ڈاکٹر جتیندر سنگھ جی، ایس ایس اہلووالیہ جی، ریاستی اسمبلی کے اسپیکر جناب کے این رائے جی، ریاستی سرکار میں وزیر جناب دورجی شیرنگ لیپچیا جی، یہاں موجود دیگر سبھی معززین اور میرے پیارے بھائیو اور بہنو۔
ساتھیو، میں گزشتہ تین دنوں سے ہندوستان کے مشرقی علاقے میں، مشرقی ہندوستان میں دورے کررہا ہوں اور اس دوران بنیادی ڈھانچے اور انسانیت کی خدمت سے وابستہ بہت بڑے بڑے پروجیکٹوں کو ملک کے نام وقف کرنے کا مجھے موقع ملا ہے۔؎
کل جھارکھنڈ میں پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا، پی ایم جے اے وائی کی شروعات آیوشمان بھارت یوجنا کو لانچ کرنے کے بعد کل شام کو میں سکم آگیا تھا اور آج صبح سکم میں سکم کی صبح، اگتا سورج، ٹھنڈی ہوا، پہاڑوں کی قدرتی خوبصورتی، تو میں بھی آج صبح کیمرے پر ہاتھ لگانے لگ گیا تھا۔ یہاں کی خوبصورتی، عظمت کو کون پسند نہیں کرتا ہوگا۔ ہر کوئی اس کا مرید ہے۔ قدرت نے آپ کو اتنا سب دیا ہے، اس کو پانے کے لئے ہر کوئی یہاں دوڑا آتا ہے۔
بھائیو – بہنو، مشرقی سمت کا ہماری ثقافت اور روایات میں کیا اہمیت ہے، اس سے آپ بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ملک بھی اچھی جانتا ہے۔
مشرق میں بھی شمال مشرق کی تو الگ ہی اہمیت ہے۔ اس خوبصورت مشرقی ریاست میں رہنے والے آپ سبھی لوگوں کو میں احترام کے ساتھ سلام کرتا ہوں اور سکم کا، آپ سبھی کا پہلا پاکیانگ ہوائی اڈہ آپ کو نذر کرتا ہوں۔
آج کا یہ دن سکم کے لئے تو تاریخی ہے ہی، ملک کے لئے بھی بہت اہم ہے۔ پاکیانگ ہوائی اڈے کے کھلتے ہی آپ کو بھی فخر ہوگا۔ کرکٹ کے میدان میں لوگ سنچری لگاتے ہیں، آج ہندوستان نے سنچری لگائی ہے۔ یعنی اس ہوائی اڈے کے کھلنے کے بعد پورے ہندوستان میں سو ہوائی اڈے کام کرنے لگ گئے ہیں اور اس معنی میں ملک نے آج سنچری لگائی ہے۔ اور ملک کیسے بدل رہا ہے یہ ہمارا سکم فٹ بال کے لئے جانا جاتا ہے، ہر کوئی فٹبال کھیلتا ہے، لیکن وہی سکم اب کرکٹ میں بھی ہاتھ آزمانے لگا ہے۔
اور میں نے کل، آج کے اخبار میں پڑھا کہ یہاں کے کیپٹن نلیش لامیچھا نے سنچری لگائی۔ اگر سکم جب فٹبال کھیلتا تھا وہاں کا نلیش سنچری لگاتا، کرکٹ میں پہلا سکم باسی سنچری لگانے والا بن سکتا ہے تو یہاں کا ہوائی اڈہ ملک کے ہوائی اڈوں کی سنچری لگارہا ہے۔
بھائیو اور بہنو، یہ ہوائی اڈہ آپ کی زندگی کو اور آسان کرنے میں بہت اہم رول ادا کرنے والا ہے۔ آج تک ہم سبھی کو اگر ملک کے دوسرے حصے سے سکم آنا ہو اور پھر یہاں سے دوسرے علاقے میں جانا ہو، تو کتنی مشکل ہوتی تھی۔ یہ کہاں کے لوگ بھی جانتے ہیں اور یہاں آنے والے لوگ بھی جانتے ہیں۔
پہلے مغربی بنگال کے باغ ڈورہ تک ہوائی جہاز سے اترو، پھر وہاں سے تقریباً سوا سو کلومیٹر تک کے اونچے نیچے راستے پر پانچ چھ گھنٹہ تھکا دینے والا سفر اور تب جا کر کے گنگٹوک پہنچ پاتے تھے، لیکن اب پاکیانگ ہوائی اڈہ اس تھکا دینے والی دوری کو منٹوں میں سمیٹنے والا ہے۔
بھائیو اور بہنو، اس سے سفر تو آسان اور کم ہوا ہی ہے، حکومت نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ یہاں سے آنا جانا عام انسان کی پہنچ میں بھی رہے۔ اور اس لئے اس ہوائی اڈے کو اڑان منصوبے سے جوڑا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت 2500 سے 2600 روپئے تک ہی دینے ہوتے ہیں، ڈھائی ہزار روپئے قریب قریب۔
حکومت کے اسی ویژن اور کوششوں کی وجہ سے آج ہوائی جہاز کا سفر ریلوے کے ایئر کنڈیشنڈ کلاس جتنا سستا ہوگیا ہے اور ہمارے یہاں کہتے ہیں نا، ٹائم اِز منی، سنتے آئے ہیں نا! ٹائم از منی۔ ہوائی جہاز میں جانے سے ٹائم بچتا ہے۔ مطلب منی بچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے لاکھوں متوسط طبقے کے کنبے آج ہوائی سفر کرنے کے اہل ہوئے ہیں۔
ساتھیو، ابھی تو ہوائی اڈے کی شروعات ہوئی ہے، ابھی ابھی مجھے ہوائی اڈے کا افتتاح کرنے کا موقع ملا ہے، لیکن آئندہ ایک دو ہفتے کے اندر ہی یہاں سے گوہاٹی اور کولکاتہ کے لئے ریگولر فلائٹ شروع ہوجائے گی۔ آنے والے دنوں میں ملک کے دوسرے حصوں میں اور پڑوسی ملکوں کو بھی یہاں سے کنکٹ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
ساتھیو، پاکیانگ ہوائی اڈہ نہ صرف خوبصورتی بلکہ ہماری انجینئرنگ صلاحیت کی بھی علامت ہے۔ جو لوگ سوشل میڈیا سے جڑے ہوئے ہوں گے، انھوں نے گزشتہ تین دن سے اس ہوائی اڈے کی تصویر اور قدرت کی گود میں کس طرح سے جہاز اتر رہا ہے، یہ تصویریں شاید سوشل میڈیا میں اتنی وائرل ہوئی ہیں، کہ آپ نے دیکھا ہی ہوگا۔ افتتاح تو آج ہوا ہے لیکن لوگوں نے اس کا جے جے کار لگانا شروع کردیا ہے۔
ساڑھے پانچ سو کروڑ روپئے کی لاگت سے بنا یہ ہوائی اڈہ ہمارے انجینئروں، ورکروں اور ان کی صلاحیت کا ایک قابل فخر پہلو ہے۔ کیسے پہاڑوں کو کاٹا گیا، اس کے ملبے سے کھائی کو بھرا گیا، بھاری بارش کے چیلنجوں سے نمٹا گیا۔ یہاں سے گزرنے والی پانی کی دھاروں کو ہوائی اڈے کے نیچے سے گزارا گیا۔ سچ میں یہ غیرمعمولی انجینئرنگ کا کمال ہے۔
آج اس موقع پر میں ہوائی اڈے کی منصوبہ بندی اور تعمیر سے جڑے سبھی انجینئروں، سبھی محنت کشوں کو اس شاندار کام کے لئے دل کی گہرائیوں سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ سبھی نے واقعی کمال کرکے دکھایا ہے۔
بھائیو اور بہنو، سکم کو اور شمال مشرق میں بنیادی ڈھانچے اور جذباتی، دونوں ہی طرح کی کنیکٹیوٹی کو وسعت دینے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ گزشتہ چار برسوں کے دوران مختلف مواقع پر میں خود شمال مشرق کی ریاستوں میں آپ سبھی کا آشیرواد لینے، یہاں کی ترقی کی جانکاری لینے کے لئے آتا رہا ہوں۔
اتنا ہی نہیں، ہر ہفتے دو ہفتے میں کوئی نہ کوئی مرکزی حکومت کا وزیر شمال مشرق کے کسی نہ کسی ریاست کا دورہ کرتا ہے، آتا ہے، پوچھ تاچھ کرتا ہے، کام کاج کا حساب لیتا ہے، اس کا نتیجہ کیا ہوا، یہ بھی آپ سبھی آج زمین پر دیکھ رہے ہیں۔
سکم ہو، اروناچل پردیش ہو، میگھالیہ ہو، منی پور ہو، ناگالینڈ ہو، آسام ہو، تری پورہ ہو، میزورم ہو، شمال مشرق کی سبھی ریاستوں میں بہت سے کام آزادی کے بعد، بہت سے کام پہلی بار ہورہے ہیں۔ ہوائی جہاز پہلی بار پہنچے ہیں۔ ریل کنیکٹیوٹی پہلی بار پہنچی ہے۔ کئی جگہ بجلی بھی پہلی بار پہنچی ہے۔
چوڑے نیشنل ہائی وے بن رہے ہیں، گاؤں کی بھی سڑکیں بن رہی ہیں، ندیوں پر بڑے بڑے پل بن رہے ہیں۔ ڈیجیٹل انڈیا کی توسیع ہورہی ہے۔ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کے اصول پر چل رہی ہماری حکومت علاقائی عدم توازن، اس کو دور کرنے اور شمال مشرق اور مشرقی ہندوستان کی گروتھ اسٹوری کا انجن بنانے کے لئے پرجوش محنت کررہی ہے، ہم اس کے لئے پابند عہد ہیں۔
اسی ویژن کے تحت سکم کو ہم اپنا ایئر پورٹ دینے کا کام تیز کیا ۔ اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا اور آج کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا ہے ۔ ورنہ آپ بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ تقریباً 6 دہائی قبل ایک چھوٹے سے جہاز نے یہاں سے پرواز کی تھی اور اس کے بعد 6 دہائی تک آپ کو اپنے ہوائی اڈے کے لئے انتظار کرنا پڑا ۔
دوستوں ، سکم ہی نہیں اروناچل پردیش سمیت ملک کی کئی ریاستوں میں ہوائی اڈے بنے ہیں ، جیسا کہ میں نے پہلے شروع میں بتایا کہ آج ہمارے 100 ایئر پورٹ چالو ہو گئے ہیں اور آپ کو جان کر حیرت ہو گی کہ اس میں سے 35 ہوائی اڈے پچھلے چار سالوں میں بنے ہیں ۔
آزادی کے بعد سے 2014 ء تک تیز رفتار سے کام ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے ، چاروں سمت کام ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے ، ویژن کے ساتھ کام کرنے کا مطلب کیا ہوتا ہے ، اس ایک مثال سے آپ سمجھ پاؤگے کہ آزادی کے بعد 2014 ء تک یعنی 67 سالوں میں 65 ایئرپورٹ بنے تھے ۔ 65 ، 67 سالوں میں 65 ایئر پورٹ یعنی کہ ایوریج ایک سال میں ایک ہوائی اڈہ ، بات سمجھ میں آ رہی ہے آپ کو ۔ میری بات آپ کو سمجھ میں آ رہی ہے ، ایک سال میں ایک ہوائی اڈہ ، یہ اُن کی سوچ تھی ۔
گذشتہ چار برسوں کے دوران نئے ایئر پورٹ اڑان کے لئے تیار ہیں ۔ نو گنی رفتار سے یعنی اسی کام کو پورا کرنا ہوتا تو شاید وہ 40 سال اور لگا دیتے ، جو ہم نے چار سال میں کر دکھایا ہے ۔
بھائیو بہنو ، آج بھارت گھریلو پرواز کے معاملے میں دنیا کا تیسرا سب سے بڑا مارکٹ بن گیا ہے ، دنیا کا تیسرا ۔ بھارت میں ہوائی سیوا دینے والی کمپنیوں کے پاس طیارے کم پڑ گئے ہیں ، نئے طیاروں کے لئے آڈر دیئے جا رہے ہیں ۔ آپ کو ایک آنکڑا میں دیتا ہوں ۔ اس پر بھی آپ کو تعجب ہو گا ، آزادی کے 70 سالوں میں ملک میں قریب 400 ہوائی سروسز تھیں ۔ 400 طیارے تھے ۔ 70 سال میں 400 طیارے ۔ اب طیاروں کی سروسز دینے والی کمپنیوں نے اس ایک سال میں 1000 نئے طیاروں کے آڈر دیئے ہیں ۔ 70 سال میں 400 اور ایک سال میں 1000 نئے ۔ آپ تصور کر سکتے ہیں اور اسی سے پتہ چلتا ہے کہ جو میرا خواب ہے ، ہوائی چپل پہننے والے عام شخص کو ہوائی سفر کرانے کا ہمارا خواب کتنی تیزی سے شرمندۂ تعبیر ہو رہا ہے ۔
بھائیو بہنو ، آپ کا اپنا ہوائی اڈہ بننے سے آپ سبھی کو ملک کے دوسرے حصے میں آنے جانے کی سہولت تو ملے گی ہی ، آپ کی آمدنی بھی بڑھے گی ، انکم میں بھی اضافہ ہو گا ۔ سکم تو ویسے ہی دیسی اور غیر ملکی سیاحوں کی پسندیدہ جگہ رہا ہے ۔ یہاں کی آبادی سے زیادہ یہاں سیاح آتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کی ایئر پورٹ نہ ہونے کے باوجود ریاست کی کُل آبادی سے ڈیڑھ گنا زائد سیاح یہاں آتے ہیں ۔
اب یہ ہوائی اڈہ بن جانے کے بعد سیاحوں کی تعداد اتنی ہی محدود رہنے والی نہیں ہے ۔ یہ مان کر چلیئے ۔ اس دیوالی میں ہی دکھائی دے گا، اس درگا پوجا میں ہی دکھائی دے گا کہ کس طرح سے ٹورسٹوں کا میلہ یہاں لگنے والا ہے ۔
ایئر پورٹ سکم کے نو جوانوں کے لئے روز گار کا نیا گیٹ وے ثابت ہونے والا ہے اور اس کی وجہ سے یہاں ہوٹل ، موٹل ، گیسٹ ہاؤس، کیمپنگ سائٹس ، ہوم اسٹے ، ٹورسٹ ، گائڈ ، ریستوراں کتنے ہی اور ٹورازم ایسا ہے ، غریب سے غریب آدمی بھی کماتا ہے ، سینگھ - چنا بیچنے والا بھی کمائے گا ، پھول پودے بیچنے والا بھی کمائے گا ، آٹو رکشا والا بھی کمائے گا ، گیسٹ ہاؤس والا بھی کمائے گا اور چائے بیچنے والا بھی کمائے گا ۔
دوستو ، ٹرانسپورٹ اور ٹورازم کو حکومت نے ٹرانسفارمیشن کا ذریعہ بنایا ہے ۔ آستھا سے جڑے مقامات ہوں ، ادھیاتم ( روحانیت ) سے جڑے مقامات ہوں ، آدی واسی پہچان کے علاقے ہوں ، ان سبھی علاقوں پر خاص طور سے توجہ دی جا رہی ہے ۔ یہاں شردھالوؤں کے لئے ، سیاحوں کے لئے بنیادی ڈھانچے تعمیر کئے جا رہے ہیں ۔ اس خطے میں تو سب سے اونچی چوٹی کنچن چنگا بھی ہے اور یہاں پر ناتھولا درہ بھی ہے ، جسے ہماری حکومت نے ہی کیلاش مانسروور کی یاترا کے لئے کھولا ہے ۔
یہاں شردھالوؤں کے لئے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی غرض سے 40 کروڑ روپئے سے زائد کی مزدوری دی گئی ہے ۔ یہاں کے ماحول کو محفوظ رکھنے کے لئے سکم کو ہرا بھرا بنائے رکھنے کے لئے بھی ریاستی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
مرکزی حکومت نے نیشنل ریور کنزرویشن پلان کے تحت 350 کروڑ روپئے سے زائد کی رقم منظور کی ہے ۔ اس کے تحت ، جو 9 پروجیکٹ منظور کئے گئے ہیں ، ان میں سے 8 گینگٹاک اور سِنگٹم کے لئے ہیں ۔ تقریباً 150 کروڑ روپئے کے پروجیکٹ رانی چو ندی کو آلودگی سے بچانے والے ہیں ۔ اس کے علاوہ ، ماحولیات کے تحفظ کے لئے پورے شمال مشرق کے لئے تقریباً سوا سو کروڑ روپئے کی منظوری دی جا چکی ہے ، جس میں سے 50 کروڑ روپئے سے زائد کی رقم جاری بھی کی جا چکی ہے ۔
دوستو ، ماحول ، ٹرانسپورٹ اور سیاحت ، اس کا آپس میں گہرا رشتہ ہے ۔ اس لئے سکم کے لئے صرف ایئر کنکٹی وٹی پر ہی زور نہیں دیا جا رہا ہے بلکہ دوسرے وسائل بھی مستحکم کئے جا رہے ہیں ۔ تقریباً 1500 کروڑ روپئے سے زائد نیشنل ہائی وے پروجیکٹ پر بھی یہاں کام چل رہا ہے ۔ اس کے علاوہ ، تقریباً 250 کروڑ روپئے کی لاگت سے چھوٹی چھوٹی سڑکیں بنائی جا رہی ہیں اور ان کی توسیع کی جا رہی ہے ۔ سڑک کے ساتھ ساتھ سکم میں ریلوے کو بھی مضبوط بنایا جا رہا ہے ۔ گینگٹاک کو براڈ گیج سے جوڑنے کا کام تیزی سے چل رہا ہے ۔
سکم میں بجلی کا نظام بہتر بنانے کے لئے ٹرانسمیشن لائن کو ٹھیک کرنے کی غرض سے 1500 کروڑ روپئے سے زائد کی امداد دی گئی ہے ۔ مجھے بتایا گیا ہےکہ اس سال دسمبر تک اس کام کو مکمل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
اس کے علاوہ بجلی پیدا کرنے کے معاملے میں بھی سکم کو ملک کے اولین ریاستوں میں کھڑا کرنے کی جانب ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ تقریباً 14ہزار کروڑ روپئے کی لاگت سے 6ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹوں پر یہاں کام چل رہا ہے۔
بھائیو اور بہنو میں آپ سبھی سکم کے باشندوں کو، یہاں کی سرکار کو اور بالخصوص یہاں کے کسانوں کو مبارک باد دیتا ہوں کہ آپ نامیاتی زراعت کو لے کر ملک میں مثال بن کرکے سامنے آئے ہے۔سکم صد فی صد نامیاتی زراعت والی ریاست بننے والی پہلی ریاست ہے۔
نامیاتی زراعت کو ملک بھر میں بڑھاوا دینے کے لئے سرکار متعدد کوششیں کررہی ہے۔اس کے لئے روایتی ، زرعی ترقی کے منصوبے کے تحت کام کیا جارہا ہے نہ صرف نامیاتی زراعت پر زور دیا جارہا ہے بلکہ اس کے ویلیو ایڈیشن اور بازار کا انتظام بھی کیاجارہا ہے اور یہ جو ہوائی اڈہ ہے ، آج تو مسافروں کے لئے شروع ہورہا ہے لیکن وہ دن دور نہیں ہوگا جب یہاں سے پھل، گھنٹے بھر میں دہلی کے بازار میں پہنچ جائیں گے وہ دن دور نہیں ہوگا۔
ہندوستان کے کئی بھگوان ہوں گے۔ جن کے قدموں میں سکم کے کسانوں نے جو پھول تیار کئے ہیں وہ پہنچنے والے ہے۔ شمال مشرق کی ریاستوں میں سرکار نے مشن آرگینگ ویلیو ڈیولپمنٹ فار نارتھ ایسٹرن ریجن نام سے ایک خصوصی ا سکیم بھی چلائی ہے۔اس کے لئے تقریباً 400 کروڑ روپے کی تجویز رکھی گئی ہے۔
ساتھیو! نامیاتی پیداوار نہ صرف ہمارے ماحولیات کے لئے ، ہماری دھرتی کے لئے بھی محفوظ ہیں۔بلکہ ہمیں بیماریوں سے بھی دور رکھتے ہیں۔ ملک کے باشندوں کی صحت کی دیکھ بھال سرکار کی سب سے بڑی ترجیح ہے اور مجھے کل وزیراعلی بتا رہے تھے کہ یہاں پر پچھلے دس سال میں اس نامیاتی کی کامیابی کا ایک سیدھا رزلٹ دکھائی دے رہا ہے۔ یہاں آمدنی میں اب بڑھ رہی ہے۔پہلے کی دنیا میں پچھلے دس سال میں زندگی جینے کے عمر کی حد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس میں بھی مردوں سے زیادہ خواتین کی بڑھ رہی ہے۔مجھے یقین ہے کہ ملک کے لوگ بھی یہ کیمیکل فرٹیلائزر سے نجات حاصل کرکے، کتنی بہتر زندگی گزاری جاسکتی ہے۔وہ ضرور سکم سے سیکھیں گے،سمجھیں گے،
مجھے جانکاری ہے کہ سووچھتا ہی سیوا کی مہم کو سکم کے باشندوں نے ایک طرح سے گلے لگا لیا ہے بہت آگے بڑھایا ہے۔آپ سبھی کی کوششوں، آپ کی بیداری کی وجہ سے سکم نے 2016 میں سب سے پہلے سکم کو کھلے میں رفع حاجت سے پاک اور ممبرا ہونے کااعلان کیا۔کھلے میں رفع حاجت سے پاک، اتنا ہی نہیں پلاسٹک کے کچرے سے نجات کے لئے بھی آپ لوگوں نے بے حد قابل تعریف کام کئے ہیں۔
بھائیو اور بہنو! جیسے میں نے پہلے کہا کل ملک میں آیوشمان کی شکل میں دنیا کی سب سے بڑی حفظان صحت کی اسکیم، اس کاآغاز ہوا اور سکم کی بھی اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اس کے سبب سکم کے غریب خاندانوں کو فی سال پانچ لاکھ روپے تک بیماری ،مہلک بیماری کا خرچہ اب سرکار کی طرف سے دیا جائے گا اور یہاں کا باشندہ ہندوستان کے کسی بھی کونے میں جائے، اس کو وہاں اس کو اسپتال کی ضرورت پڑی تو وہاں بھی وہ پیسہ دیاجائے گا۔ بیمار شخص جہاں بھی جائے گا یہ جو آیوشمان بھارت کا حفاظتی ڈھال ہے،یہ اس کے ساتھ ساتھ چلے گا۔
ساتھیو! بیتے چار برسوں میں عام آدمی کےطرز زندگی کو اوپر اٹھانے کے لئے متعدد قسم کی اسکیمیں مرکزی سرکار چلارہی ہے۔جس کا سکم کو بھی فائدہ مل حاصل ہورہا ہے۔ جن دھن یوجنا کی وجہ سے یہاں کے تقریباً ایک لاکھ لوگوں کے بینک کھاتے کھلے ہیں۔ لگ بھگ80ہزار بھائی بہنو کو صرف ایک روپیہ مہینہ اور 90 پیسے فی دن زندگی بیمہ منصوبوں سے جوڑا گیا ہے۔
اجولا یوجنا کے تحت تقریبا ً 38 غریب کنبوں کو کچن تک مفت میں گیس کنکشن پہنچایا گیا ہے۔
ساتھیو! مشرقی بھارت شمال مشرق کی ریاستوں کی زندگی کو آسان بنانے یہاں کے مشکل حالت کو آسان بنانے کے لئے، آسان زندگی کو یقینی بنانے کے لئے این ڈی اے کی سرکار پورے عہد کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے ۔ہم اس خطے کو ترقی کے لئے نئے عہد کے ساتھ جوڑنا چاہتے ہیں۔ نیو انڈیا کی نئی شکل بنانا چاہتے ہیں۔
اس ہوائی اڈے کی وجہ سے یہاں متعدد آسانیاں یہاں فروغ پائیں گے جو سکم کو ترقی میں نئی اونچائی دیں گی۔ آپ سبھی کو پہلے یہ ہوائی اڈے کے لئے میں ایک بار دل سے بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔
وزیر اعلیٰ جی نے کئی موضوعات کا ذکر کیا ہے، ان سارے موضوعات پر میری ان کے ساتھ ذاتی طور پر بات چیت ہوتی رہتی ہے اور اس لئے اس کو منظر عام پر لانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس ملک کو نئی بلندیوں پر لے جانا ہے، سکم کو بھی آگے بڑھانا ہے، سکم کے ہر سماج کو، ہر شخص کو، ہر نوجوان کو، اس کے سپنوں کو پورا کرنے کے لئے کوشش کی جائے گی۔
اس یقین کے ساتھ میں پھر ایک بار آپ سب کو بہت بہت نیک خواہشات، بہت بہت مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
شکریہ۔