آپ سب سے بات کرنے کے بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک کی کھلونا انڈسٹری میں کتنی بڑی طاقت پوشیدہ ہے۔ اس طاقت کو بڑھانا، اپنی شناخت کو بڑھانا، آتم نربھر بھارت مہم کا ایک بڑا حصہ ہے۔ یہ ہم سب کے لیے خوشی کی بات ہے کہ آج ہم ملک کے پہلے ٹوائے فیئر کی شروعات کا حصہ بن رہے ہیں۔ میرے ٹوائے فیئر کے اس پروگرام میں جڑنے والے تمام کابینہ ساتھی، کھلونے کی صنعت کے تمام نمائندگان، تمام کاریگر بہن بھائی، والدین، اساتذہ، اور پیارے بچو !
یہ پہلا ٹوائے فیئر صرف ایک کاروباری یا معاشی پروگرام نہیں ہے۔ یہ پروگرام کھیلوں اور خوب صورتی والے ملک کی صدیوں قدیم ثقافت کو مضبوط بنانے کی ایک کڑی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس پروگرام کی نمائش میں کاریگروں اور اسکولوں سے لے کر کثیر قومی کمپنیوں تک کو شامل کیا گیا ہے۔اب تک 30 ریاستوں اور مرکزی علاقوں کے ایک ہزار سے زیادہ نمائش کار حصہ لے رہے ہیں۔ آپ سب کے لیے یہ ایک ایسا فورم بننے جارہا ہے جہاں آپ کھلونوں کے ڈیزائن، جدت طرازی، ٹکنالوجی سے لے کر مارکیٹنگ پیکیجنگ تک اپنے تجربات پر تبادلہ خیال کریں گے۔ ٹوائے فیئر 2021 میں آپ کو بھارت میں آن لائن گیمنگ انڈسٹری کے ایکو سسٹم اور ای کھیل کی صنعت کے بارے میں جاننے کا موقع ملے گا۔ مجھے یہ دیکھنا بھی اچھا لگا کہ یہاں بچوں کے لیے بہت سی سرگرمیاں ترتیب دی گئی ہیں۔ میں تمام ساتھیوں کو دلی مبارکباد دیتا ہوں جنہوں نے ٹوائے فیئر کے اس پروگرام میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔
ساتھیو،
کھلونوں سے بھارت کا تخلیقی رشتہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا اس خطے کی تاریخ پرانی ہے۔ دنیا نے سندھ تہذیب، موہنجو داڑو اور ہڑپہ کے دور کے کھلونوں پر تحقیق کی ہے۔ قدیم زمانے میں جب دنیا سے سیاح بھارت آتے تھے، تو وہ بھارت میں کھیلوں کو سیکھتے بھی تھے، اور اپنے ساتھ کھیل لے کر بھی جاتے تھے۔ شطرنج جو آج کی دنیا میں بہت مشہور ہے، وہ پہلے میں بھارت میں 'چتررنگ یا چادورنگا' کے نام سے کھیلا جاتا تھا۔ جدید لوڈو کو تب 'پچیسی' کہا جاتا تھا۔ آپ ہمارے مذہبی گرنتھوں میں یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ بال رام کے لیے کتنے مختلف قسم کے کھلونے دستیاب تھے۔ گوکل میں، گوپال کرشنا اپنے دوستوں کے ساتھ گھر کے باہر کنک یعنی گیند سے کھیلتے تھے۔ ہمارے قدیم مندروں میں کھیل، کھلونے اور دستکاری بھی کندہ کی گئی ہیں۔ خاص طور پر تمل ناڈو، چنئی میں اگر آپ وہاں کے مندروں کو دیکھیں تو ایسی کتنی مثالیں مل سکتی ہیں کہ مختلف کھیل، مختلف کھلونے، وہ ساری چیزیں آج بھی وہاں کی دیواروں پر دکھائی دیتی ہیں۔
ساتھیو،
جب کھیل اور کھلونے کسی بھی ثقافت میں عقیدت مندی کے مراکز کا حصہ بن جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ معاشرے کھیلوں کی سائنس کو گہرائی سے سمجھتے ہیں۔ کھلونے یہاں اس طرح تیار کیے گئے تھے کہ بچوں کی ہمہ جہت نشو و نما میں اہم کردار ادا کریں، ان میں تجزیاتی ذہن تیار کریں۔ آج بھی بھارتی کھلونے جدید فینسی کھلونوں سے کہیں زیادہ سہل اور سستے ہوتے ہیں، وہ سماجی جغرافیائی ماحول سے بھی وابستہ ہوتے ہیں۔
ساتھیو،
جس طرح سے باز استعمال اور ری سائیکلنگ بھارتی طرز زندگی کا ایک حصہ رہا ہے، وہ ہمارے کھلونوں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ بیشتر تر کھلونے قدرتی اور ماحول دوست چیزوں سے بنائے جاتے ہیں، ان میں رنگ قدرتی رنگوں کا استعمال کیا جاتا ہے جو محفوظ ہوتے ہیں۔ ہم ابھی وارانسی کے لوگوں سے بات کر رہے تھے۔ وارانسی کے لکڑی کے کھلونے اور گڑیا دیکھیں، راجستھان کے مٹی کے کھلونے دیکھیں، مشرقی مدینی پور کی گلر گڑیا ہے، کچھ میں کپڑا ڈنگلا اور ڈنگلی ہے، آندھرا پردیش کا ایٹیکوپکا بومالو اور بدھنی کے لکڑی کے کھلونے ہیں۔ جب ہم کرناٹک جائیں گے تو ہم وہاں کے چناپٹنا کے کھلونے بھی دیکھیں گے، تلنگانہ کے نرمل کھلونے، چترکوٹ کے لکڑی کے کھلونے، دھبری آسام کے ٹیراکوٹا کے کھلونے، یہ سب اپنے آپ میں کتنے متنوع کھلونے ہیں، کتنی مختلف خصوصیات سے بھرے ہوئے ہیں۔ لیکن ان میں ایک بات مشترک ہے کہ تمام کھلونے ماحول دوست اور تخلیقی ہیں۔ یہ کھلونے ملک کے نوجوان ذہنوں کو ہماری تاریخ اور ثقافت سے بھی جوڑتے ہیں، اور معاشرتی ذہنی نشو و نما میں بھی مدد کرتے ہیں۔ لہذا آج میں ملک کے کھلونا مینوفیکچروں سے بھی اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ایسے کھلونے بنائیں جو ماحولیات اور نفسیات دونوں کے لیے بہتر ہوں !کیا ہم کھلونوں میں کم پلاسٹک استعمال کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں؟ ایسی چیزوں کا استعمال کریں جو ری سائیکل کرسکیں؟ دوستو، آج دنیا کے ہر شعبے میں بھارتی نظریات اور بھارتی تصورات پر بات کی جارہی ہے۔ بھارت کو بھی دنیا کو دینے کے لیے ایک انوکھا نقطہ نظر ہے۔ ہماری روایات میں، ہمارے لباس میں، ہمارے کھانے میں، ہر جگہ ان مختلف حالتوں کو ایک قوت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسی طرح، بھارتی کھلونا صنعت بھی اس منفرد بھارتی تناظر، بھارتی فکر کو فروغ دے سکتی ہے۔ کھلونوں کو یہاں کی نسلوں کی میراث کے طور پر رکھا اور محفوظ کیا گیا ہے۔ دادی کے کھلونے اس خاندان کی تیسری نسل کو دیئے جاتے تھے۔ تہواروں میں، کنبے کے افراد اپنے کھلونے نکالتے، اور ایک دوسرے کو اپنے روایتی مجموعے دکھاتے تھے۔ جب ہمارے کھلونے اسی بھارتی جمالیات سے آراستہ ہوں گے، تب بھارتی خیالات، ہندوستانیت کا احساس بھی بچوں میں زیادہ مضبوطی سے پروان چڑھے گا، اس میں اس مٹی کی مہک ہوگی۔
پیارے بچو اور ساتھیو،
گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنی ایک نظم میں کہا ہے کہ "جب میں تمھارے پاس رنگین کھلونے لاتا ہوں، میرے بچے، تو میں سمجھتا ہوں کہ بادلوں پر، پانی پر رنگوں کا ایسا کھیل کیوں ہے، اور جب میں تمہیں کھلونے دیتا ہوں میرے بچے تو پھولوں پر کیوں رنگ ہوتے ہیں؟" یعنی ایک کھلونا بچوں کو خوشی کی لامحدود دنیا میں لے جاتا ہے۔ کھلونے کا ہر رنگ بچوں کی زندگیوں میں بہت سارے رنگ پھیلا دیتا ہے۔ آج یہاں بہت سارے کھلونے دیکھ کر، ہم یہاں موجود بچوں کی طرح محسوس کر رہے ہیں، ہم نے بھی اپنے بچپن کی یادوں میں یہی تجربہ کیا ہوا ہے۔ کاغذی ہوائی جہاز، لٹو، کنچے، پتنگیں، سیٹیاں، جھولے، کاغذ پنکھے، گڈے اور گڑیاں، اس طرح کے تمام کھلونے بچپن کے ساتھی رہے ہیں۔ سائنس کے کتنے ہی نظریات، کتنی باتیں، جیسے گردش، ارتعاش، دباؤ، رگڑ، یہ سب ہم کھلونوں سے کھیلتے ہوئے، ان کو بنا کر خود سیکھ جاتے تھے۔ یہ بھارتی کھیلوں اور کھلونوں کی ایک خصوصیت ہے کہ ان میں علم، سائنس، تفریح اور نفسیات شامل ہیں۔ ایک مثال لیں۔ جب بچے لٹو کے ساتھ کھیلنا سیکھتے ہیں تو انہیں اس کھیل میں کشش ثقل اور توازن کا درس مل جاتا ہے۔ اسی طرح، غلیل سے کھیلنے والے بچے نادانستہ طور پر کائینیٹک انرجی کی بنیادی باتیں سیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ پہیلی کے کھلونے اسٹریٹجک سوچ اور مسئلے کو حل کرنے کی سوچ تیار کرتے ہیں۔ اسی طرح، نوزائیدہ بچے بھی بازوؤں کو گھیر کر اور مروڑ کر سرکلر حرکت کو محسوس کرنے لگتے ہیں۔ آگے بڑھتے وقت، جب انہیں ان چیزوں کو ان کے کلاس روم میں، کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے، تب وہ ان کو اپنے کھیل سے مربوط کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ عملی پہلوؤں کو سمجھیں۔ یہ سمجھ صرف کتابی علم کے ساتھ تیار نہیں کیا جاسکتی۔
ساتھیو،
آپ سب نے بھی دیکھا ہوگا کہ تخلیقی کھلونے بچوں کے حواس کو کس طرح تیار کرتے ہیں، ان کے تصورات کو پنکھ دیتے ہیں! بچے اپنے کھلونوں کے آس پاس اپنی فنتاسیوں کی پوری دنیا کیسے تیار کرتے ہیں! مثال کے طور پر، اگر آپ کسی بچے کو کھلونوں والے برتن دیتے ہیں تو، وہ ایسا سلوک کرنا شروع کردے گا جیسے پورا باورچی خانے کے سسٹم کو سنبھال رہا ہو اور کنبہ کو آج وہی کھانا کھلا رہا ہے۔ انہیں آپ جانوروں والے کھلونے دیجیے، تو اپنے من میں ایک مکمل جنگل بنا دیتا ہے، خود بھی آوازیں نکالنے لگتا ہے، جو بھی ٹھیک لگے اسے لگتا ہے کہ اگر وہ شیر ہے تو وہ ایسی آواز نکالتا ہے۔ انہیں اسٹیتھوسکوپ دو، تھوڑی دیر میں دیکھیں گے، وہ ڈاکٹر بن جائے گا، فیملی ڈاکٹر بن جائے گا اور پورے خاندان کی صحت کی جانچ کرنا شروع کر دے گا، تشخیص کرنا شروع کردے گا۔اس طرح وہ گھر کے اندر فٹ بال کا پورا گراؤنڈ ایک گیند سے بنا دیتے ہیں، راکٹ کا کھلونا ملتے ہی وہ خلائی مشن کا آغاز کردیتے ہیں۔ ان کے خوابوں کی اس پرواز کی کوئی حد نہیں، نہ ہی کوئی اختتام ہے۔ انہیں صرف ایک چھوٹا سا کھلونا چاہیے جو ان کے تجسس، ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرے۔ اچھے کھلونوں کی خوب صورتی یہ ہے کہ وہ وقت اور عمر سے ماورا ہوتے ہیں۔ جب آپ بچوں کے ساتھ کھیلنا شروع کرتے ہیں تو، آپ ان کھلونوں کے ذریعے اپنے بچپن میں چلے جاتے ہیں۔ لہذا، میں تمام والدین سے گزارش کروں گا کہ آپ جس طرح بچوں کے ساتھ تعلیم میں شامل ہوتے ہیں، اسی طرح ان کے کھیلوں میں بھی شامل ہوجایا کریں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ اپنے گھر اور اپنے دفتر میں سارا کام چھوڑ دیں اور گھنٹوں بچوں کے ساتھ کھیلتے رہیں۔ لیکن آپ ان کے کھیل میں شامل ہوسکتے ہیں۔ آج کل، اسکرین ٹائم نے خاندانوں میں پلے ٹائم کی جگہ لے لی ہے۔ لیکن آپ کو کھیلوں اور کھلونوں کے کردار کو سمجھنا ہوگا۔ کھلونوں کے سائنسی پہلو، بچوں کی نشو و نما میں، ان کے سیکھنے میں کھلونوں کے کردار کو والدین کو بھی سمجھنا چاہیے، اور اساتذہ کو بھی اسے اسکولوں میں استعمال کرنا چاہیے۔ اب ملک بھی اس سمت میں موثر اقدامات کررہا ہے، نظام میں ضروری تبدیلیاں کر رہا ہے۔ کاس کی ایک مثال ہماری نئی قومی تعلیمی پالیسی بھی ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں بڑے پیمانے پر پلے پر مبنی اور سرگرمی پر مبنی تعلیم شامل ہے۔ یہ ایک ایسا نظام تعلیم ہے جس میں بچوں میں پہیلیوں اور کھیلوں کے ذریعے منطقی اور تخلیقی سوچ پروان چڑھے، اس پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔
ساتھیو،
کھلونوں کے میدان میں، بھارت میں روایت بھی ہے اور ٹکنالوجی بھی ہے، بھارت کے پاس تصورات بھی ہیں اور قابلیت بھی ہے۔ ہم دنیا کو ماحول دوست کھلونوں کی سمت واپس لے جاسکتے ہیں، ہمارے سافٹ ویئر انجینئرز کمپیوٹر گیمز کے ذریعے بھارت کی کہانیاں، وہ کہانیاں جو بھارت کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل ہیں دنیا تک پہنچا سکتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود، آج کھلونوں 100 بلین ڈالر کی عالمی منڈی میں ہمارا بہت کم حصہ ہے۔ ملک میں 85 فیصد کھلونے بیرون ملک سے آتے ہیں، بیرون ملک سے درآمد ہوتے ہیں۔ پچھلی 7 دہائیوں میں بھارتی کاریگروں کے بھارتی ورثے کے نظرانداز کرنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ غیر ملکی کھلونے بھارتی مارکیٹ سے لے کر کنبوں تک بھر گئے ہیں اور صرف کھلونا نہیں آیا بلکہ ہمارے گھروں میں فکری بہاؤ سر آیا ہے۔بھارتی بچے اپنے ملک کے بہادروں، اپنے ہیروز زیادہ باہر کے ستاروں بارے میں زیادہ باتیں کرنے لگے ہیں، یہ سیلاب، اس بیرونی سیلاب نے، ہماری مقامی تجارت کے ایک بہت ہی مضبوط سلسلے کو توڑ دیا ہے، تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ کاریگر اپنی آنے والی نسل کو اپنا ہنر دینے سے گریز کر رہے ہیں، ان کے خیال میں بیٹے کو اس کاروبار میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔آج ہمیں اس صورت حال کو بدلنے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔ ہمیں کھیلوں اور کھلونوں کے شعبے میں ملک کو آتم نربھر بنانا ہے، مقامی لوگوں کے لیے ایک آواز بننا ہے۔ اس کے لیے ، ہمیں آج کی ضروریات کو سمجھنا ہوگا۔ ہمیں عالمی منڈی، دنیا کی ترجیحات کو جاننا ہوگا۔ ہمارے کھلونوں میں بچوں کے لیے ہماری اقدار، تہذیب اور تعلیمات بھی ہونی چاہئیں اور ان کا معیار بھی بین الاقوامی معیار کے مطابق ہونا چاہیے۔ اس سمت میں ملک نے بہت سے اہم فیصلے کیے ہیں۔ پچھلے سال سے ہی کھلونوں کے کوالٹی ٹیسٹ کو لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ درآمد ہونے والے کھلونوں کی ہر کھیپ میں بھی نمونوں کی جانچ کی اجازت دی گئی ہے۔ اس سے قبل، حکومتوں نے کھلونوں کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت کے بارے میں بھی نہیں سوچا تھا۔ اسے سنجیدہ معاملہ نہیں سمجھا گیا تھا۔ لیکن اب اس ملک نے کھلونا صنعت کو 24 بڑے شعبوں میں مقام دیا ہے، اور اس کا اپنا درجہ دیا ہے۔ قومی کھلونا ایکشن پلان بھی تیار کیا گیا ہے۔ اس میں 15 وزارتیں اور محکمے شامل ہیں تاکہ ان صنعتوں کو مسابقتی بنایا جاسکے، کھلونوں میں آتم نربھر بنیں، بھارت کے کھلونوں کو دنیا میں بھی لے جائیں۔ اس پوری مہم میں، ریاستوں کو برابر کا شریک بنا کر کھلونا کلسٹر تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، ملک کھلونا سیاحت کے امکانات کو بھی مستحکم کر رہا ہے۔ بھارتی کھیلوں پر مبنی کھلونوں کی ترویج کے لیے ملک میں ٹوائکاتھون -2021 کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس ٹوائکاتھون میں 12 لاکھ سے زیادہ نوجوانوں، اساتذہ اور ماہرین نے رجسٹریشن کرایا ہے اور 7000 سے زیادہ نئے نئے آئیڈیاز آئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی دہائیوں کی نظراندازی اور مشکلات کے باوجود، بھارت کی صلاحیتیں، بھارت کا ہنر اب بھی غیر معمولی امکانات سے لبریز ہے۔ جس طرح بھارت نے ماضی میں انسانیت کی زندگی کو اپنے جوش و خروش، اپنی توانائی سے مجسم کیا تھا، وہ توانائی آج بھی زندہ ہے۔ آج ٹوائے فیئر کے اس موقع پر، ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس توانائی کو جدید اوتار دیں، ان امکانات کا ادراک کریں۔ اور ہاں! یاد رکھیں، اگر آج میڈ اِن انڈیا کا مطالبہ ہے تو بھارت میں ہینڈ میڈ کی مانگ بھی یکساں طور پر بڑھ رہی ہے۔ آج لوگ کھلونے نہ صرف بطور پراڈکٹ کے اس کھلونے سے وابستہ تجربے سے بھی جوڑنا چاہتے ہیں۔ لہذا ہمیں بھارت میں ہینڈ میڈ کو بھی فروغ دینا ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ جب ہم کھلونا بناتے ہیں تو ہم بچے کا دماغ بناتے ہیں، ہم بچپن کی لامحدود خوشیاں پیدا کرتے ہیں، اور اسے خوابوں سے بھر دیتے ہیں۔. یہ جوش ہمارے کل کو پیدا کرے گا۔ مجھے خوشی ہے کہ آج ہمارا ملک اس ذمہ داری کو بھانپ رہا ہے۔ ہماری کوششیں آتم نربھر بھارت کو بھی وہی روح عطا کریں گی، جو بچپن میں ہی ایک نئی دنیا کی تخلیق کرتی ہے۔ اس یقین کے ساتھ، آپ سب کو ایک بار پھر بہت ساری مبارکباد۔ اب دنیا میں بھارت کے کھلونوں کا ڈنکا بجانا ہم سب کی ذمہ داری ہے، ہمیں سخت جدوجہد کرنی ہوگی، مستقل کوششیں کرنا ہوں گی، نئے رنگوں میں کوشش کرنی ہوگی۔ نئی سوچ، نئی سائنس، نئی ٹیکنالوجی کا ہمارے کھلونوں سے تعلق ہے اور مجھے یقین ہے کہ ٹوائے فیئر ہمیں اس سمت میں لے جانے کے لیے ایک بہت ہی مضبوط قدم ثابت ہوگا۔ میں ایک بار پھر آپ سب کو بہت ساری نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ!