PM Modi dedicates Bansagar Canal Project to the nation, move to provide big boost to irrigation in the region
PM Modi lays foundation stone of the Mirzapur Medical College, inaugurates 100 Jan Aushadhi Kendras
Previous governments left projects incomplete and this led to delay in development: PM Modi
Those shedding crocodile tears for farmers should be asked why they didn’t complete irrigation projects during their tenure: PM Modi

نئی دہلی۔16؍جولائی۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے مرزا پور میں باناساگر کینال پروجیکٹ اور مختلف ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھے جانے کی تقریب میں جو تقریر کی تھی اس کا متن حسب ذیل ہے:

’’آج ہمارے لئے بہت ہی فخر کی بات ہے ، جنم دینے والی ماں وِندھ واسنی کی گود میں آپ سب کو دیکھ کر ہمیں بہت خوشی ہورہی ہے۔ آپ سب بہت دیر سے ہمارا انتظار کررہے تھے ، اس لئے ہم آپ کے پیر چھو کر آپ کو سلام کرتے ہیں۔ آج اتنی بھیڑ دیکھ کر ہمیں یقین ہوگیا کہ ماں وِندھ واسنی کی مہربانی اور نگاہ لطف آپ لوگوں کی مہربانی سے آئندہ بھی بنی رہے گی۔

اترپردیش کے گورنر جناب رام نائیک صاحب ، وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی، نائب وزیراعلیٰ کیشو پرساد موریہ جی ، مرکزی کابینہ میں میری ساتھی بہن انوپریہ جی ، ریاستی سرکار کے وزیر جناب سدھارتھ ناتھ ، جناب گرب بال سنگھ جی، جناب آسوتوش ٹنڈن، راجیش اگر وال جی اور بھارتی جنتا پارٹی کے ریاستی صدر میرے پرانے ساتھی اور پارلیمنٹ میں میرے رفیق ڈاکٹر مہندر ناتھ پانڈے جی، رکن پارلیمان جناب ویریندر سنگھ جی، رکن پارلیمان بھائی چھوٹے لال اور یہاں اتنی بڑی تعداد میں آنے والے بھائیو اور بہنوں!

میں اسٹیج پر کب سے دیکھ رہا تھا ، دونوں طرف سے لوگ آ جارہے تھے، ابھی بھی لو گ آرہے ہیں، بھائیو، بہنوں یہ پورا علاقہ الٰہیانہ اور مافوق الفطرت تقدس سے مالامال ہے۔ کوہ وندھیانچل اور بھاگیرتی ندی کے وسط میں بسا ایک علاقہ صدیوں سے لامحدود امکانات کا مرکز رہا ہے، انہی امکانات کی جستجو اور یہاں ہونے والے ترقیاتی کاموں کے درمیان آج مجھے آپ کا آشیرواد حاصل کرنے کی خوش نصیبی حاصل ہوئی۔ پچھلی بار مارچ میں جب میں یہاں سولر پلانٹ کا افتتا ح کرنے آیا تھا اور میرے ساتھ فرانس کے صدر مملکت بھی آئے تھے، اس وقت ہم دونوں کا خیرمقدم ماتا کی تصویر اور چنری کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اس کی ستکار سے فرانس کے صدر مملکت جناب میکرو بیحد متاثر ہوئے تھے۔ وہ ماں کی عظمت اور جلال کو جاننا چاہتے تھے اور میں نے جب ان کو ماں کی عظمت اور جلال کے بارے میں بتایا تو ان کو اتنی حیرت ہوئی، وہ اتنے متاثر ہوئے، عقیدے اور روایت کی اس دھرتی کی چومکھی ترقی ہماری عہدبستگی ہے۔

جب سے یوگی جی کی قیادت میں قومی جمہوری اتحاد کی سرکار بنی ہے ، تب سے پوروانچل اور اترپردیش کی ترقی کی رفتار میں جو اضافہ ہوا ہے ، آج اس کے نتائج نظر آنے لگے ہیں، اس علاقے کے غریب، محروم ، استحصال زدہ اور مصیبت زدہ لوگوں کیلئے سون لال پٹیل جیسے سرگرم کارکنان نے جو خواب دیکھے تھے ان کی تکمیل کی سمت میں ہم سب مسلسل کوششیں کررہے ہیں، پچھلے دو دنوں کے دوران متعدد ترقیاتی اسکیموں کو پوروانچل کے عوام کو نذر کرنے کا یا پھر نئے کام شروع کرنے کا مجھے موقع حاصل ہوا ہے۔ ملک کا سب سے طویل پوروانچل ایکسپریس وے ہو، وارانسی میں کسانوں کیلئے شروع کیا جانے والا پیری فیرل کارگو سینٹر ہو، ریلوے سے جڑے منصوبے ہوں، یہ سب پوروانچل میں ہونے والی ترقی کو غیرمعمولی رفتار دینے کا کام کریں گے۔

ترقی کے اسی سلسلے کو آگے بڑھانے کیلئے آج میں یہاں پھر سے ایک بار آپ سبھی کے درمیان آیا ہوں، اب سے کچھ دیر قبل تاریخی باناساگر باندھ سمیت تقریباً 4000 کرو ڑ روپے کی اسکیموں کا سنگ بنیاد رکھا گیااور انہیں ملک و قوم کو نذر کیاگیا۔ آپ کا یہ علاقہ مرزا پور ہو، سون بھدر ہو، بھدوہی ہو ، بندولی ہویا الہ آباد، یہ علاقے ہمیشہ کھیتی کسانی کے رہے ہیں اور کاشتکاری یہاں کی زندگی کا اہم حصہ رہی ہے۔ کسانوں کے نام پر پہلے کی سرکاریں کس طرح آدھی ادھوری اسکیمیں بناتی رہیں، انہیں لٹکاتی رہی، آپ سب لوگ اس کے سزا وار رہے ہیں، آپ سب اس کے گواہ ہیں۔ ساتھیو، تقریباً ساڑھے تین ہزار کروڑ روپئے کے باناساگر پروجیکٹ سے صرف مرزا پورہی نہیں، بلکہ الہ آباد سمیت اس پورے خطے کے ڈیڑھ لاکھ ہیکٹیئر رقبہ زمین کو آبپاشی کی سہولت حاصل ہونے جارہی ہے۔ اگر یہ پروجیکٹ پہلے پورا ہوجاتا ، تو جو فائدہ اب آپ کو حاصل ہونے والا ہے، وہ فائدہ اب سے دو دہائی قبل ہی آپ کو حاصل ہونا شروع ہوگیا ہوتا۔ یعنی دو دہائیاں برباد ہوگئیں۔ لیکن بھائیو اور بہنوں، پہلے کی سرکاروں نے آپ کی، یہاں کے کسانوں کی فکر نہیں کی، اس پروجیکٹ کا خاکہ 40 سال پہلے تیار کیا گیا تھا ، 1978 میں اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا، لیکن حقیقی کام شروع ہوتے ہوتے 20 سال گزر گئے۔ اس کے بعد کے برسوں میں کئی سرکاریں آئیں ، گئیں لیکن اس پروجیکٹ پر باتوں اور وعدوں کے علاوہ یہاں کے عوام کو کچھ نہیں ملا۔

2014 میں آپ سب نے ہمیں خدمت کرنے کا موقع دیا ، ا س کے بعد ہماری سرکار نے جب اٹکی ہوئی ، لٹکی ہوئی اور بھٹکی ہوئی اسکیموں کو کھنگالنا شروع کیا تو ان میں اس پروجیکٹ کا نام بھی سامنے آیا۔ یہ نام فائلوں میں کھو چکا تھا، اور اس کے بعد باناساگر پروجیکٹ کو پردھان منتری کرشی سینچائی یوجنا کے تحت جوڑا گیا اور اسے مکمل کرنے کیلئے پوری توانائی لگا دی گئی۔ خاص طور سے گزشتہ برس یوگی جی اور ان کی ٹیم نے جس تیز رفتاری سے اس کام کو آگے بڑھایا اسی کا نتیجہ ہے کہ آج بانا ساگر کا یہ امرت آپ سبھی کی زندگی میں خوشحالی لانے کیلئے تیار ہوپایا ہے۔ باناساگر کے علاوہ برسوں سے ادھوری پڑی سریوندی نیشنل اسکیم اور سینٹرل گنگا ساگر پروجیکٹ پر بھی تیزی سے کام جاری ہے۔

ساتھیو، بانا ساگر پروجیکٹ اس نامکمل سوچ اور محدود قوت ارادی کی مثال ہے، جس کی ایک بہت بڑی قیمت آپ سبھی کو میرے کسانوں بھائیو اور بہنوں کو ، میرے غریب بھائیو اور بہنوں اور میرے اس علاقے کے لوگوں کو چکانی پڑی ہے۔ برسوں پہلے جو سہولت آپ کو ملنی چاہئے تھی وہ تو نہیں ملی اور ملک کو بھی اقتصادی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ تقریباً 300 کروڑ کے بجٹ سے شروع ہونے والا یہ پروجیکٹ اگر اس وقت مکمل ہوجاتا تو لاگت 300 کروڑ ہی رہتی۔ لیکن نہ ہونے کے سبب وقت گزرتا گیا ، قیمتیں بڑھتی گئیں اور 300 کروڑ روپئے کا پروجیکٹ 3000 کروڑ روپئے لگانے کے بعد مکمل ہوپایا ہے۔ آپ مجھے بتائیں یہ پرانی سرکاروں کی خطا ہے کہ نہیں ہے۔ آپ کے پیسے برباد کیے گئے یا نہیں کیے گئے؟ اور آپ کو آپ کے حقوق سے محروم رکھا گیا کہ نہیں۔ اسی لئے بھائیو بہنوں، جو لوگ آج کل کسانوں کیلئے گھڑیالی آنسو بہا رہے ہیں، آپ کو ان سے پوچھنا چاہئے کہ آخر کیوں انہیں اپنے دور اقتدار میں ملک بھر میں پھیلی اس طرح کی ادھوری آبپاشی اسکیمیں نظر کیوں نہیں آئیں۔ یہ صرف بانا ساگر کا معاملہ نہیں ہے، پورے ملک میں ہر ریاست میں ایسے لٹکے ، اٹکے ، بھٹکے کسانوں کی بھلائی کے پروجیکٹ اٹکے پڑے ہیں، کوئی پروا نہیں تھی ان لوگوں کو، کیوں ایسے کام ادھورے چھوڑ دیے گئے۔

بھائیو ، بہنوں! آج جب میں یہاں کے کسانوں کے قریب آیا ہوں، تو میں آپ سے کچھ مانگنا چاہتا ہوں، کیا آپ دیں گے۔ یہ ماں وِندھ واسنی کی دھرتی ہے، آپ نے وعدہ کیا ہے نبھانا پڑے گا، نبھائیں گے آپ؟ دیکھئے ساڑھے تین ہزار کروڑ روپئے صرف ہوئے ، 40 سال برباد ہوئے، خیرجو ہوا سو ہوا، اب پانی یہاں پہنچ پایا ہے، اب ان کسانوں کے کھیتوں میں یہ پانی پہنچ رہاہے، جن کے قریب یہ نہر ہے۔ کیا میرے کسان بھائی بہن، ٹپک سینچائی یا اسپرنکلر فوارے والی سینچائی اور قطرہ قطرہ پانی بچانے کی سمت میں کام کرسکتے ہیں؟ میں آپ سے یہی مانگ رہا ہوں۔ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ آپ مجھ سے وعدہ کیجیے کہ یہ جو پانی ہمارے لیے ماں وِندھ واسنی کا پرساد ہے ، جیسے پرساد کا ایک ذرّہ بھی برباد نہیں ہونے دیا جاتا اسی طرح ماں وِندھ واسنی کے پرساد کے روپ میں یہ جو پانی ہمیں ملا ہے اس کی بھی ایک ایک بوند برباد ہونےنہیں دی جائےگی۔ ہم بوند بوند پانی سے کھیتی کریں گے۔ ٹپک سینچائی سے ہر طرح کی کھیتی ہوسکتی ہے، پیسے بچتے ہیں، پانی بچتا ہے، مزدوری بچتی ہے اور فصل اچھی ہوتی ہے۔ اسی لئے میں آپ سے مانگتا ہوں کہ آپ طے کریں ، اگر آپ نے پانی بچا لیا تو آج لاکھ سوا لاکھ ہیکٹیئر میں پانی پہنچ رہا ہے۔ اسی پانی کا استعمال دو لاکھ ہیکٹیئر تک رقبہ زمین میں ہوسکتا ہے۔ اگر آج کچھ لاکھ کسانوں کو فائدہ ہوتا ہے تو اس سے دوگنی تعداد میں کسانوں کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ اگر آج یہ پانی کم پڑتا ہے ، اگر آپ بوند بوند پانی بچا کر کھیتی کریں تو یہ پانی برسوں تک چلے گا۔ آپ کی اولادوں کے کام آئے گا۔ اسی لئے میرے بھائیو اور بہنوں میں آج آپ سے یہ پروجیکٹ لانے کے بعد آپ کے خادم کی حیثیت سے ماں وِندھ واسنی کے بھکت کی حیثیت سے آپ سے کچھ مانگ رہا ہوں، دیں گے۔ پکاّ پورا کریں گے۔ سرکار اپنی ایک اسکیم کے تحت مائیکرو ایریگیشن کیلئے سبسیڈی دیتی ہے، آپ اس کافائدہ اٹھائیے ۔ میں آپ کی خدمت کیلئے آیا ہوں۔

میرے پیارے کسان بھائیو ، بہنوں! پہلے کے لوگ کسانوں کیلئے گھڑیالی آنسو بہاتے تھے، ایم ایس پی کی اسکیمیں ہوتی تھی ، خریداری نہیں ہوتی تھی، اخبارات میں امدادی قیمتوں کے اشتہار تو شائع کیے جاتے تھے ، فوٹو چھپوائے جاتے تھے، داد حاصل کی جاتی تھی، لیکن کسان کے گھر میں کچھ نہیں جاتا تھا۔ ان کے پاس ایم ایس پی کے دام بڑھانے کیلئے فائلیں آتی تھیں، پڑی رہتی تھیں، سالوں پہلے لاگت کی ڈیڑھ گنا امدادی قیمت دینے کی سفارش فائلوں میں ہوچکی تھی ، لیکن کسانوں کے نام پر سیاست کرنے والوں کو ایم ایس پی کی ڈیڑھ گنا قیمت کیلئے سوچنے کی فرصت نہیں تھی۔ کیوں کہ وہ سیاست میں اتنے ڈوبے ہوئے تھے کہ ان کو اس ملک کے غریب کسان کی پروا ہی نہیں تھی۔ سالوں فائلیں دبی رہیں، جس سے پرانی سرکاری کام کرنے سے ہٹی رہیں، بھائیو اور بہنوں! آپ کی خادم کی حیثیت سے ملک کے مواضعات، غریب کسان کی بھلائی کرنے کے ارادے کے ساتھ آج میں سر جھکا کر کہہ رہا ہوں، میرے بھائیو اور بہنوں، ہم نے امدادی قیمت یعنی ایم ایس پی ڈیڑھ گنا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ آج ہم نے اسے پورا کردیا۔ دھان ہو، مکئی ہو، تؤر ہو، اُرد ہو یا مونگ ہو، خریف کی 14 فصلوں کی امداد ی قیمت میں 200 روپئے سے لیکر 1800 روپئے تک کا اضافہ کردیا گیا ہے، ساتھ ہی یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ کسانوں کو ان فصلوں میں جو لاگت آتی ہے اس پر 50 فیصد راست فائدہ ملنا چاہئے۔

بھائیو ۔ بہنوں! اس فیصلے سے یوپی اور پوروانچل کے کسانوں کو زبردست فائدہ ہونے والا ہے۔ اس بار سے ایک کوئنٹل دھان پر 200 روپئے زائد ملنے والے ہیں، ساتھیو! ایک کوئنٹل دھان کی لاگت کی جو اندازہ کاری کی گئی ہے وہ ہے تقریباً 1100 سے 1200 روپئے تک، اب دھان کی امدادی قیمت 1750 روپئے یعنی سیدھے سیدھے 50 فیصد اضافے کی ساتھ طے کی گئی۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یوپی میں پچھلے سال پہلے کے مقابلے دھان کی چار گنا زائد خریداری طے کی گئی ہے۔ اس کے لئے میں یوگی جی اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں۔

بھائیو۔ بہنوں، دھان کے ساتھ ہی سرکار نے دال کی امدادی قیمت یعنی ایم ایس پی میں اضافہ کیا ہے، اڑہر کی سرکاری قیمت میں سو دو سو روپئے کا راست اضافہ کیا گیا ہے،یعنی اب طے کیا گیا ہے کہ اب اڑہر کی کھیتی پر جتنی لاگت آتی ہے، اس کا تقریباً 65فیصد اضافی فائدہ کسانوں کو حاصل ہوگا، ساتھیو ، ہماری سرکار مل کے کسانوں کی چھوٹی چھوٹی دشواریوں کو سمجھتے ہوئے ان کو دور کرنے کیلئے رات دن کام کررہی ہے، بیج سے لیکر بازار تک ایک تصدیق شدہ نظام وضع کی جارہا ہے تاکہ کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہو اور کھیتی پر آنے والا خرچ کم ہوسکے۔ یوریا کیلئے لائن لگائی جاتی تھی ، لاٹھی چارج ہوتا تھا، رات رات بھر لائن میں کھڑا رہنا پڑتا تھا، کالا بازاری سے یوریا کی خریداری کرنی پڑتی تھی، پچھلے چار برس میں یہ مصیبت دور ہوگئی ہے۔ یہ سبھی کام آپ کے آشیرواد اور آپ کے تعاون سے ممکن ہوپارہے ہیں۔

بھائیو۔ بہنوں! میں یہاں کے کسانوں سے ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں، ہم 2020 تک ملک کے کسانوں کی آمدنی دو گنی کرنا چاہتے ہیں، یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال میں آپ کو بتاؤں ، آج ہم اپنے کھیت کی میڑھ پر باڑھ لگادیتے ہیں، ہمیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ باڑھ کے اندر یہ جو کٹیلے تار لگا دیتے ہیں، یا پودھے لگا دیتے ہیں، اس سے کتنی زمین برباد ہوتی ہے۔ اب سرکار نے بانس کو گھانس قرار دیا ہے اور اس لئے آپ اپنے کھیت کی میڑھ پر بانس کی کھیتی کرسکتے ہیں۔ بانس کاٹ سکتے ہیں، بانس بیچ سکتے ہیں، سرکار آپ کو روک نہیں سکتی ہے۔ آج ہزاروں کروڑوں روپئے کا بانس بیرونی ملکوں سے درآمد کیا جاتا ہے جبکہ میرے کسان کے کھیت کی میڑھ پر یہ بانس اُگایا جاسکتا ہے۔ ہم نے قاعدہ بدل دیا ہے، قانون بدل دیا ہے، پہلے مانا جاتا تھا کہ بانس ایک درخت ہے، ہم نے کہا بانس ایک درخت نہیں ہے وہ تو گھانس ہے۔ ہمارے یہاں اگربتی بنانے اور پتنگ بنانے کیلئے بھی بانس بیرون ملک سے درآمد کرنے پڑتے تھے، میرے ملک کے کسان ایک سال کے اندر اس صورتحال کو تبدل کرسکتے ہیں اور اپنی آمدنی میں اضافہ کرتے ہیں جو آپ کے کام آئے گی۔ ایسے متعدد تجربات ہیں، میں اپنے کسان بھائیوں سے پُرزور گزارش کروں گا کہ آپ کھیتی کے علاوہ سرکار کی متعدد اسکیموں کا فائدہ اٹھائیے اور اپنی آمدنی کی اضافے کے سمت میں آگے بڑھیے۔ ہماری سرکار جَن جَن ، ذرّے ذرّے، کونے کونے تک ترقی کی روشنی پہنچانے اور گاؤں گاؤں کو بااختیار بنانے کے نشانے کو لیکر آگے بڑھ رہی ہے۔ آپ کی زندگی کو آسان بنانے کیلئے رابطہ کاری کو باہم کرانے کیلئے آج یہاں کچھ پلوں کا سنگ بنیاد اور انہیں ملک کو قوم کے نام وقف کیا گیا ہے۔ چنار پُل سے اب چنار اور وارانسی کی دوری کم ہوگئی ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ برسات کے موسم میں یہاں کے ہزاروں لوگ ملک کے باقی حصوں سے کٹ جاتے ہیں۔ اب اس نئے پل سے یہ مشکلیں دور ہوسکے گی۔ بھائیو۔ بہنوں، سستی اور بہتر صحت غریب سے غریب کو باہم کرانا بھی ہماری سرکار کے بڑے عزائم میں شامل ہے۔ یہاں بننے والے نئے میڈیکل کالجوں سے نہ صرف مرزا پور، سون بھدر، بھدوئی، چندولی اور آلہ آباد کے لوگوں کو زبردست فائدہ حاصل ہوگا بلکہ اب یہاں کا ضلع اسپتال 500 بیڈ کا ہوجائے گا۔ اس لئے سنگین بیماریوں کے علاج کیلئے آپ کو دور تک بھٹکنا نہیں پڑے گا۔ا سکے علاوہ آج یہاں 100 جن اوشدھی کیندروں کا بھی ایک ساتھ پورے اترپردیش میں آغاز ہوا ہے۔ یہ جن اوشدھی کیندر غریب، درمیانہ درجے اور نچلے درجے کے لیے بہت بڑا سہارا بن گئے ہیں۔ ان کیندروں میں 700 سے زائد دواؤں اور مریضوں کو سرجری کے بعد مطلوب ہونے والا ڈیڑھ سو سے زائد سامان دستیاب ہوسکے گا۔ ملک بھر میں اس طرح کے تقریباً ساڑھے تین ہزار سے بھی زیادہ جن اوشدھی کیندر کھولے جاچکے ہیں،800 سے زیادہ دواؤں کی قیمتوں کو نگرانی کے دائرے میں لانا ، امراض قلب کے دوران لگنے والے اسٹینٹس کی قیمت کو کم کرنا، گھٹنوں میں کیے جانے والے ایمپلانٹ کو سستا کرنا، ایسے متعدد کام ہماری سرکار نے کیے ہیں جن سے غریب اور درمیانہ درجے کے لوگوں کو زبردست راحت حاصل ہوئی ہے۔

ایک درمیانہ درجے کا کنبہ جس میں بزرگ رہتے ہوں، تو بیماری تو گھر کے یا کنبے کا حصہ بن جاتی ہے ، ذیابیطس ہو، بلڈ پریشر ہو، یا ایسا کنبہ جس کو ہر روز دوا لینی پڑتی ہے، کنبے کے ایک فرد کے لیے روزانہ دوا لانی پڑتی ہے اور مہینے بھر کا بل ہزار، دو ہزار ،ڈھائی ہزار، تین ہزار اور پانچ ہزار تک پہنچ جاتا ہے۔ اب جَن اوشدھی کیندر کی وجہ سے جس کی دوا کا بل ہزار روپئے آتا ہے، وہ اب مہینے بھر کیلئے ڈھائی تین سو سے زائد نہ ہوگا۔ آپ تصور کرسکتے ہیں، یہ کتنی بڑی خدمت ہے۔ یہ کام پہلے بھی سرکار کرسکتی تھی، لیکن وہ اپنی پارٹی، اپنا کنبہ اور اپنی کرسی سے آگے سوچنے کو تیار نہیں تھے۔ اسی وجہ سے ملک کے عام آدمی کی بھلائی کے کام کو ترجیحی حیثیت حاصل نہیں تھی۔

ساتھیو، ان دنوں ڈائلیسس ایک بہت بڑی ضرورت بن گئی ہے۔ متعدد مواضعات میں متعدد کنبوں کو ڈائلیسس کیلئے جانا پڑتا ہے۔ اس کے لئے ہم نے پردھان منتری نیشنل ڈائلیسس پروگرام شروع کیا ہے اور غریبوں کو جو سب سے بڑی فکر رہا کرتی تھی، اس کے تدارک کیلئے ہم نے مدد کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اس ڈائیلسس اسکیم کے تحت ہم اضلاع میں ڈائیلسس سینٹر بنارہے ہیں اور غریبوں، درمیانہ درجے کے کنبوں اور نچلے درمیانہ درجے کے کنبوں کو مفت ڈائیلسس کی سہولت فراہم کرائی جارہی ہے۔ اب تک ملک میں تقریباً 25 لاکھ مفت ڈائیلسس کے سیشن کیے جاچکے ہیں، ڈائیلسس کے ہر سیشن میں کسی نہ کسی غریب کے ڈھائی ، دو ہزار، پندرہ سو روپئے بچ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سوچھ بھارت مشن بھی بیماریوں کو روکنے میں مؤثر ثابت ہورہا ہے۔ پچھلے سال ایک رپورٹ آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ جن مواضعات میں بیت الخلاؤوں کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ وہاں کے لوگ اور خاص طور سے بچوں کی بیماریوں میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔ اتنا ہی نہیں ، جو مواضعات کھلے میں رفع حاجت کی وبا سے پاک ہوئے ہیں وہاں اوسطاً ہر کنبے کو سالانہ تقریباً 50 ہزار روپے کی بچت ہورہی ہے، ورنہ یہی پیسے پہلے تو اسپتال کے چکر لگانے میں ، دواؤں کے پیچھے بھاگنے میں اور نوکریوں کی چھٹیوں کے پیچھے خرچ کردیے جاتے تھے۔

ساتھیو، غریبی اور بیماری کے چکر کو توڑنے کیلئے سرکار بہت جلد ایک بہت بڑی اسکیم شروع کرنے والی ہے، کچھ لوگ اسے مودی کیئر کہتے ہیں، کچھ لوگ اسے آیوشمان بھارت کہتے ہیں، اس اسکیم کے تحت ملک کی تقریباً 50 کروڑ آبادی کو 5 لاکھ روپئے تک کا علاج مفت فراہم کرانے کا انتظام کیا جارہا ہے۔ اس اسکیم پر تیزی سے کام کیاجارہا ہے اور سرکار جلد ہی اس اسکیم کو ملک بھر میں شروع کرنے جارہی ہے۔ آپ تصور کیجیے کہ اگر کسی کنبے کا ایک فرد بیمار ہوجاتا ہے، سنگین بیماری ہوجاتی ہے، تو اس کے علاج کیلئے اگر سرکار پانچ لاکھ روپئے دے دے تو آپ تصور کیجئے اس کنبے کو نئی زندگی ملے گی کہ نہیں۔ وہ کنبہ مصیبت سے باہر آئے گا کہ نہیں۔ میرے ملک کے کروڑوں کنبے مصیبتوں سے باہر آئیں گے، تو میرا ملک بھی مصیبتوں سے باہر نکلے گا۔ اس لئے بھائیو۔ بہنوں، ہم آیوشمان بھارت اسکیم ملک کے روشن مستقبل کیلئے ، ملک کے صحتمند مستقبل کیلئے ، ہم یہ اسکیم لیکر آئے ہیں۔

بھائیو۔ بہنوں، غریب ، مصیبت زدہ، استحصال زدہ اور محروم، کنبوں کے درد اور فکر کو دور کرنا، مشکل وقت میں ان کے ساتھ رہنا، ان کی زندگی کو آسان بنانا، یہی ہماری سرکار کی ترجیح ہے اور ہم اسی پر مسلسل کام کررہے ہیں۔ اسی نظریے کے ساتھ اب ملک کے غریبوں کو سماجی سلامتی کی ایک مضبوط زرح فراہم کرائی جارہی ہے، ایک روپے ماہانہ اور 90 پیسے یومیہ کوئی بہت بڑا خرچ نہیں ہوتا، ایک دن کے 90 پیسے کسی غریب کے لئے بھی مشکل نہیں ہوں گے۔ اس شرح کے روزانہ پریمیئم پر زندگی بیمہ اور ایکسیڈنٹ بیمہ جیسی اسکیم لوگوں کی زندگی میں روشنی بن کر کام کررہی ہے ورنہ پہلے ہمارے ملک میں ایک سوچ تھی کہ بینک میں کھاتا کس کا ہوگا ؟ درمیانہ درجے کے پڑھے لکھے لوگوں کا یا امیر کا ، غریب کے لئے تو بینک ہو ہی نہیں سکتا۔ ہمارے ملک میں یہ عام سوچ تھی کہ گھر میں گیس کا چولہا تو امیر لوگوں کیلئے ہوسکتا ہے ، پڑھے لکھے لوگوں کے یہاں ہوسکتا ہے، بابو کے گھر ہوسکتا ہے، لیکن غریب کے گھر میں تو ہوہی نہیں سکتا، ہمارے ملک میں یہ عام سوچ تھی کہ روپے کارڈ ، کارڈ سے پیسے کا لین دین، یہ تو امیر کے گھر میں ہوسکتا ہے، بابو کے یہاں ہوسکتا ہے، کسی رئیس کے یہاں ہوسکتا ہے، غریب کی جیب میں تو روپے کارڈ ہوہی نہیں سکتا، ہمارے ملک میں یہی سوچ بنی ہوئی تھی ۔ بھائیو ۔ بہنوں، ہم نے امیر اور غریب کی اس سوچ کو توڑنا طے کیا ہے۔ ملک کے سوا سو کروڑ شہری برابر ہونے چاہئیں، غریب سوچتا تھا کہ اس کا بیمہ نہیں ہوسکتا، اس کا خیال تھا کہ بیمہ امیر کا ہوسکتا ہے، جس کی گاڑی ہے اس کا بیمہ ہوسکتا ہے، بھائیو۔ بہنوں، ہم نے امیر اور غریب کی اس سوچ کو توڑنے کا فیصلہ کیا ہے، غریب کا یہ سوچنا کہ آیا اس کا بیمہ ہوسکتا ہے، ان ساری غلط باتوں کو ہم نے توڑ دیا ہے اور ملک کے غریب کے لئے 90 پیسے والا بیمہ لیکر آئے ہیں۔ مہینے کے ایک روپئے والا بیمہ لیکر آئے ہیں، مصیبت کے وقت میں یہ بیمہ اس کی زندگی میں کام آرہا ہے، امیری اور غریبی ، بڑے اور چھوٹے کے فرق کو ختم کرنے والے پروگرام ہم یکے بعد دیگرے پیش کررہے ہیں، اس کے نتیجے آنے والے دنوں میں دکھائی دینے والے ہیں، میرے ملک کا غریب اب آنکھ سے آنکھ ملاکر بات کرنے والا ہے۔ ہم اس کے لئے کام کررہے ہیں۔

اترپردیش کے تقریباً ڈیڑھ کروڑ سے زائد لوگ ان دونوں اسکیموں سے جڑ چکے ہیں، ان اسکیموں کے وسیلے سے مصیبت کے وقت میں تقریباً 300 کروڑ روپئے، کے کلیمز کی رقم ان کنوں کو پہنچ چکی ہے۔ میں صرف اتر پردیش سے کہہ رہا ہوں، اگر میری سرکار نے 100 کروڑ روپئے کا بھی اعلان کیا ہوتا تو اخباروں میں پہلے صفحے پر ہیڈ لائن ہوتی، لیکن ہم نے اسکیم ایسی بنائی کہ 300 کروڑ روپئے باہم بھی کرادیے گئے اور کوئی بڑی مصیبت بھی سامنے نہیں آئی۔ کام کیسے ہوتے ہیں، نظام کیسے بدلتے ہیں، اس کی یہ جیتی جاگتی مثال ہے۔

ساتھیو، آپ لوگوں میں سے جن لوگوں نے ابھی تک ان اسکیموں سے فائدہ حاصل نہیں کیا ہے، میں ان سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ ان اسکیموں سے جڑیں، یہ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ ماں وِندھ واسنی کے آشیرواد سے آپ کے کنبے پر کوئی مصیبت آئے، لیکن وقت کے پس پشت کیا ہے کون جانتا ہے؟ اگر کوئی مصیبت آئی تو آپ کے لئے یہ اسکیم مددگار ثابت ہوگی، مصیبت کے وقت میں آپ کی زندگی کے کام آئے گی، ہم نے اسی مقصد سےیہ اسکیم شروع کی ہے۔ غریبوں کے مفاد کیلئے سرکار جو اسکیمیں چلارہی ہے، جو فیصلے لیے گئے ہیں، وہ غریبوں کو بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کی سطح کو بھی بدل رہے ہیں ۔

ساتھیو، غریب کو دورا، کسان کو سینچائی، بچوں کو پڑھائی اور جوانوں کو کمائی جہاں جہاں یقینی ہوگی، جہاں لاتعداد سہولتیں ہوں گی اور انتظامیہ ایماندار ہوگی ایسے نیو انڈیا کے عزم کو عملی شکل دینے میں ہم مصروف ہیں، آج جن اسکیموں کا آغاز اور سنگ بنیاد یہاں ہوا، ان کے لئے ایک بار پھر آپ سب کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں، یوپی ایسے ہی ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہے، اس کے لئے یوگی جی ، اترپردیش کی ان کی سرکار ، ان کے سارے ساتھی، ان کی ساری ٹیم میں ان کو بھی ایک ایک اسکیم کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھانے کیلئے صدق دل سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں، بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں اور میں ایک بار پھر ماں وِندھ واسنی کا وہ پرساد جو پانی کی شکل میں آپ تک پہنچ رہا ہے، اس کا قطرہ قطرہ استعمال کرنا نہ بھولیں، میں اپنی اسی امید اور آرزو کو ایک بار پھر دوہراتا ہوں، آپ لوگ اس قدر شدید گرمی میں اتنی بڑی تعداد میں یہاں آئے، ہم سب کو آشیرواد دیا، اس کے لئے میں آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں، میرے ساتھ مٹھ بند کرکے پوری طاقت سے بولیے، بھارت ماتا کی جئے۔ بھارت ماتا کی جئے، بھارت ماتا کی جئے ، بھارت ماتا کی جئے۔

بہت بہت شکریہ۔

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address at the Parliament of Guyana
November 21, 2024

Hon’ble Speaker, मंज़ूर नादिर जी,
Hon’ble Prime Minister,मार्क एंथनी फिलिप्स जी,
Hon’ble, वाइस प्रेसिडेंट भरत जगदेव जी,
Hon’ble Leader of the Opposition,
Hon’ble Ministers,
Members of the Parliament,
Hon’ble The चांसलर ऑफ द ज्यूडिशियरी,
अन्य महानुभाव,
देवियों और सज्जनों,

गयाना की इस ऐतिहासिक पार्लियामेंट में, आप सभी ने मुझे अपने बीच आने के लिए निमंत्रित किया, मैं आपका बहुत-बहुत आभारी हूं। कल ही गयाना ने मुझे अपना सर्वोच्च सम्मान दिया है। मैं इस सम्मान के लिए भी आप सभी का, गयाना के हर नागरिक का हृदय से आभार व्यक्त करता हूं। गयाना का हर नागरिक मेरे लिए ‘स्टार बाई’ है। यहां के सभी नागरिकों को धन्यवाद! ये सम्मान मैं भारत के प्रत्येक नागरिक को समर्पित करता हूं।

साथियों,

भारत और गयाना का नाता बहुत गहरा है। ये रिश्ता, मिट्टी का है, पसीने का है,परिश्रम का है करीब 180 साल पहले, किसी भारतीय का पहली बार गयाना की धरती पर कदम पड़ा था। उसके बाद दुख में,सुख में,कोई भी परिस्थिति हो, भारत और गयाना का रिश्ता, आत्मीयता से भरा रहा है। India Arrival Monument इसी आत्मीय जुड़ाव का प्रतीक है। अब से कुछ देर बाद, मैं वहां जाने वाला हूं,

साथियों,

आज मैं भारत के प्रधानमंत्री के रूप में आपके बीच हूं, लेकिन 24 साल पहले एक जिज्ञासु के रूप में मुझे इस खूबसूरत देश में आने का अवसर मिला था। आमतौर पर लोग ऐसे देशों में जाना पसंद करते हैं, जहां तामझाम हो, चकाचौंध हो। लेकिन मुझे गयाना की विरासत को, यहां के इतिहास को जानना था,समझना था, आज भी गयाना में कई लोग मिल जाएंगे, जिन्हें मुझसे हुई मुलाकातें याद होंगीं, मेरी तब की यात्रा से बहुत सी यादें जुड़ी हुई हैं, यहां क्रिकेट का पैशन, यहां का गीत-संगीत, और जो बात मैं कभी नहीं भूल सकता, वो है चटनी, चटनी भारत की हो या फिर गयाना की, वाकई कमाल की होती है,

साथियों,

बहुत कम ऐसा होता है, जब आप किसी दूसरे देश में जाएं,और वहां का इतिहास आपको अपने देश के इतिहास जैसा लगे,पिछले दो-ढाई सौ साल में भारत और गयाना ने एक जैसी गुलामी देखी, एक जैसा संघर्ष देखा, दोनों ही देशों में गुलामी से मुक्ति की एक जैसी ही छटपटाहट भी थी, आजादी की लड़ाई में यहां भी,औऱ वहां भी, कितने ही लोगों ने अपना जीवन समर्पित कर दिया, यहां गांधी जी के करीबी सी एफ एंड्रूज हों, ईस्ट इंडियन एसोसिएशन के अध्यक्ष जंग बहादुर सिंह हों, सभी ने गुलामी से मुक्ति की ये लड़ाई मिलकर लड़ी,आजादी पाई। औऱ आज हम दोनों ही देश,दुनिया में डेमोक्रेसी को मज़बूत कर रहे हैं। इसलिए आज गयाना की संसद में, मैं आप सभी का,140 करोड़ भारतवासियों की तरफ से अभिनंदन करता हूं, मैं गयाना संसद के हर प्रतिनिधि को बधाई देता हूं। गयाना में डेमोक्रेसी को मजबूत करने के लिए आपका हर प्रयास, दुनिया के विकास को मजबूत कर रहा है।

साथियों,

डेमोक्रेसी को मजबूत बनाने के प्रयासों के बीच, हमें आज वैश्विक परिस्थितियों पर भी लगातार नजर ऱखनी है। जब भारत और गयाना आजाद हुए थे, तो दुनिया के सामने अलग तरह की चुनौतियां थीं। आज 21वीं सदी की दुनिया के सामने, अलग तरह की चुनौतियां हैं।
दूसरे विश्व युद्ध के बाद बनी व्यवस्थाएं और संस्थाएं,ध्वस्त हो रही हैं, कोरोना के बाद जहां एक नए वर्ल्ड ऑर्डर की तरफ बढ़ना था, दुनिया दूसरी ही चीजों में उलझ गई, इन परिस्थितियों में,आज विश्व के सामने, आगे बढ़ने का सबसे मजबूत मंत्र है-"Democracy First- Humanity First” "Democracy First की भावना हमें सिखाती है कि सबको साथ लेकर चलो,सबको साथ लेकर सबके विकास में सहभागी बनो। Humanity First” की भावना हमारे निर्णयों की दिशा तय करती है, जब हम Humanity First को अपने निर्णयों का आधार बनाते हैं, तो नतीजे भी मानवता का हित करने वाले होते हैं।

साथियों,

हमारी डेमोक्रेटिक वैल्यूज इतनी मजबूत हैं कि विकास के रास्ते पर चलते हुए हर उतार-चढ़ाव में हमारा संबल बनती हैं। एक इंक्लूसिव सोसायटी के निर्माण में डेमोक्रेसी से बड़ा कोई माध्यम नहीं। नागरिकों का कोई भी मत-पंथ हो, उसका कोई भी बैकग्राउंड हो, डेमोक्रेसी हर नागरिक को उसके अधिकारों की रक्षा की,उसके उज्जवल भविष्य की गारंटी देती है। और हम दोनों देशों ने मिलकर दिखाया है कि डेमोक्रेसी सिर्फ एक कानून नहीं है,सिर्फ एक व्यवस्था नहीं है, हमने दिखाया है कि डेमोक्रेसी हमारे DNA में है, हमारे विजन में है, हमारे आचार-व्यवहार में है।

साथियों,

हमारी ह्यूमन सेंट्रिक अप्रोच,हमें सिखाती है कि हर देश,हर देश के नागरिक उतने ही अहम हैं, इसलिए, जब विश्व को एकजुट करने की बात आई, तब भारत ने अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान One Earth, One Family, One Future का मंत्र दिया। जब कोरोना का संकट आया, पूरी मानवता के सामने चुनौती आई, तब भारत ने One Earth, One Health का संदेश दिया। जब क्लाइमेट से जुड़े challenges में हर देश के प्रयासों को जोड़ना था, तब भारत ने वन वर्ल्ड, वन सन, वन ग्रिड का विजन रखा, जब दुनिया को प्राकृतिक आपदाओं से बचाने के लिए सामूहिक प्रयास जरूरी हुए, तब भारत ने CDRI यानि कोएलिशन फॉर डिज़ास्टर रज़ीलिएंट इंफ्रास्ट्रक्चर का initiative लिया। जब दुनिया में pro-planet people का एक बड़ा नेटवर्क तैयार करना था, तब भारत ने मिशन LiFE जैसा एक global movement शुरु किया,

साथियों,

"Democracy First- Humanity First” की इसी भावना पर चलते हुए, आज भारत विश्वबंधु के रूप में विश्व के प्रति अपना कर्तव्य निभा रहा है। दुनिया के किसी भी देश में कोई भी संकट हो, हमारा ईमानदार प्रयास होता है कि हम फर्स्ट रिस्पॉन्डर बनकर वहां पहुंचे। आपने कोरोना का वो दौर देखा है, जब हर देश अपने-अपने बचाव में ही जुटा था। तब भारत ने दुनिया के डेढ़ सौ से अधिक देशों के साथ दवाएं और वैक्सीन्स शेयर कीं। मुझे संतोष है कि भारत, उस मुश्किल दौर में गयाना की जनता को भी मदद पहुंचा सका। दुनिया में जहां-जहां युद्ध की स्थिति आई,भारत राहत और बचाव के लिए आगे आया। श्रीलंका हो, मालदीव हो, जिन भी देशों में संकट आया, भारत ने आगे बढ़कर बिना स्वार्थ के मदद की, नेपाल से लेकर तुर्की और सीरिया तक, जहां-जहां भूकंप आए, भारत सबसे पहले पहुंचा है। यही तो हमारे संस्कार हैं, हम कभी भी स्वार्थ के साथ आगे नहीं बढ़े, हम कभी भी विस्तारवाद की भावना से आगे नहीं बढ़े। हम Resources पर कब्जे की, Resources को हड़पने की भावना से हमेशा दूर रहे हैं। मैं मानता हूं,स्पेस हो,Sea हो, ये यूनीवर्सल कन्फ्लिक्ट के नहीं बल्कि यूनिवर्सल को-ऑपरेशन के विषय होने चाहिए। दुनिया के लिए भी ये समय,Conflict का नहीं है, ये समय, Conflict पैदा करने वाली Conditions को पहचानने और उनको दूर करने का है। आज टेरेरिज्म, ड्रग्स, सायबर क्राइम, ऐसी कितनी ही चुनौतियां हैं, जिनसे मुकाबला करके ही हम अपनी आने वाली पीढ़ियों का भविष्य संवार पाएंगे। और ये तभी संभव है, जब हम Democracy First- Humanity First को सेंटर स्टेज देंगे।

साथियों,

भारत ने हमेशा principles के आधार पर, trust और transparency के आधार पर ही अपनी बात की है। एक भी देश, एक भी रीजन पीछे रह गया, तो हमारे global goals कभी हासिल नहीं हो पाएंगे। तभी भारत कहता है – Every Nation Matters ! इसलिए भारत, आयलैंड नेशन्स को Small Island Nations नहीं बल्कि Large ओशिन कंट्रीज़ मानता है। इसी भाव के तहत हमने इंडियन ओशन से जुड़े आयलैंड देशों के लिए सागर Platform बनाया। हमने पैसिफिक ओशन के देशों को जोड़ने के लिए भी विशेष फोरम बनाया है। इसी नेक नीयत से भारत ने जी-20 की प्रेसिडेंसी के दौरान अफ्रीकन यूनियन को जी-20 में शामिल कराकर अपना कर्तव्य निभाया।

साथियों,

आज भारत, हर तरह से वैश्विक विकास के पक्ष में खड़ा है,शांति के पक्ष में खड़ा है, इसी भावना के साथ आज भारत, ग्लोबल साउथ की भी आवाज बना है। भारत का मत है कि ग्लोबल साउथ ने अतीत में बहुत कुछ भुगता है। हमने अतीत में अपने स्वभाव औऱ संस्कारों के मुताबिक प्रकृति को सुरक्षित रखते हुए प्रगति की। लेकिन कई देशों ने Environment को नुकसान पहुंचाते हुए अपना विकास किया। आज क्लाइमेट चेंज की सबसे बड़ी कीमत, ग्लोबल साउथ के देशों को चुकानी पड़ रही है। इस असंतुलन से दुनिया को निकालना बहुत आवश्यक है।

साथियों,

भारत हो, गयाना हो, हमारी भी विकास की आकांक्षाएं हैं, हमारे सामने अपने लोगों के लिए बेहतर जीवन देने के सपने हैं। इसके लिए ग्लोबल साउथ की एकजुट आवाज़ बहुत ज़रूरी है। ये समय ग्लोबल साउथ के देशों की Awakening का समय है। ये समय हमें एक Opportunity दे रहा है कि हम एक साथ मिलकर एक नया ग्लोबल ऑर्डर बनाएं। और मैं इसमें गयाना की,आप सभी जनप्रतिनिधियों की भी बड़ी भूमिका देख रहा हूं।

साथियों,

यहां अनेक women members मौजूद हैं। दुनिया के फ्यूचर को, फ्यूचर ग्रोथ को, प्रभावित करने वाला एक बहुत बड़ा फैक्टर दुनिया की आधी आबादी है। बीती सदियों में महिलाओं को Global growth में कंट्रीब्यूट करने का पूरा मौका नहीं मिल पाया। इसके कई कारण रहे हैं। ये किसी एक देश की नहीं,सिर्फ ग्लोबल साउथ की नहीं,बल्कि ये पूरी दुनिया की कहानी है।
लेकिन 21st सेंचुरी में, global prosperity सुनिश्चित करने में महिलाओं की बहुत बड़ी भूमिका होने वाली है। इसलिए, अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान, भारत ने Women Led Development को एक बड़ा एजेंडा बनाया था।

साथियों,

भारत में हमने हर सेक्टर में, हर स्तर पर, लीडरशिप की भूमिका देने का एक बड़ा अभियान चलाया है। भारत में हर सेक्टर में आज महिलाएं आगे आ रही हैं। पूरी दुनिया में जितने पायलट्स हैं, उनमें से सिर्फ 5 परसेंट महिलाएं हैं। जबकि भारत में जितने पायलट्स हैं, उनमें से 15 परसेंट महिलाएं हैं। भारत में बड़ी संख्या में फाइटर पायलट्स महिलाएं हैं। दुनिया के विकसित देशों में भी साइंस, टेक्नॉलॉजी, इंजीनियरिंग, मैथ्स यानि STEM graduates में 30-35 परसेंट ही women हैं। भारत में ये संख्या फोर्टी परसेंट से भी ऊपर पहुंच चुकी है। आज भारत के बड़े-बड़े स्पेस मिशन की कमान महिला वैज्ञानिक संभाल रही हैं। आपको ये जानकर भी खुशी होगी कि भारत ने अपनी पार्लियामेंट में महिलाओं को रिजर्वेशन देने का भी कानून पास किया है। आज भारत में डेमोक्रेटिक गवर्नेंस के अलग-अलग लेवल्स पर महिलाओं का प्रतिनिधित्व है। हमारे यहां लोकल लेवल पर पंचायती राज है, लोकल बॉड़ीज़ हैं। हमारे पंचायती राज सिस्टम में 14 लाख से ज्यादा यानि One point four five मिलियन Elected Representatives, महिलाएं हैं। आप कल्पना कर सकते हैं, गयाना की कुल आबादी से भी करीब-करीब दोगुनी आबादी में हमारे यहां महिलाएं लोकल गवर्नेंट को री-प्रजेंट कर रही हैं।

साथियों,

गयाना Latin America के विशाल महाद्वीप का Gateway है। आप भारत और इस विशाल महाद्वीप के बीच अवसरों और संभावनाओं का एक ब्रिज बन सकते हैं। हम एक साथ मिलकर, भारत और Caricom की Partnership को और बेहतर बना सकते हैं। कल ही गयाना में India-Caricom Summit का आयोजन हुआ है। हमने अपनी साझेदारी के हर पहलू को और मजबूत करने का फैसला लिया है।

साथियों,

गयाना के विकास के लिए भी भारत हर संभव सहयोग दे रहा है। यहां के इंफ्रास्ट्रक्चर में निवेश हो, यहां की कैपेसिटी बिल्डिंग में निवेश हो भारत और गयाना मिलकर काम कर रहे हैं। भारत द्वारा दी गई ferry हो, एयरक्राफ्ट हों, ये आज गयाना के बहुत काम आ रहे हैं। रीन्युएबल एनर्जी के सेक्टर में, सोलर पावर के क्षेत्र में भी भारत बड़ी मदद कर रहा है। आपने t-20 क्रिकेट वर्ल्ड कप का शानदार आयोजन किया है। भारत को खुशी है कि स्टेडियम के निर्माण में हम भी सहयोग दे पाए।

साथियों,

डवलपमेंट से जुड़ी हमारी ये पार्टनरशिप अब नए दौर में प्रवेश कर रही है। भारत की Energy डिमांड तेज़ी से बढ़ रही हैं, और भारत अपने Sources को Diversify भी कर रहा है। इसमें गयाना को हम एक महत्वपूर्ण Energy Source के रूप में देख रहे हैं। हमारे Businesses, गयाना में और अधिक Invest करें, इसके लिए भी हम निरंतर प्रयास कर रहे हैं।

साथियों,

आप सभी ये भी जानते हैं, भारत के पास एक बहुत बड़ी Youth Capital है। भारत में Quality Education और Skill Development Ecosystem है। भारत को, गयाना के ज्यादा से ज्यादा Students को Host करने में खुशी होगी। मैं आज गयाना की संसद के माध्यम से,गयाना के युवाओं को, भारतीय इनोवेटर्स और वैज्ञानिकों के साथ मिलकर काम करने के लिए भी आमंत्रित करता हूँ। Collaborate Globally And Act Locally, हम अपने युवाओं को इसके लिए Inspire कर सकते हैं। हम Creative Collaboration के जरिए Global Challenges के Solutions ढूंढ सकते हैं।

साथियों,

गयाना के महान सपूत श्री छेदी जगन ने कहा था, हमें अतीत से सबक लेते हुए अपना वर्तमान सुधारना होगा और भविष्य की मजबूत नींव तैयार करनी होगी। हम दोनों देशों का साझा अतीत, हमारे सबक,हमारा वर्तमान, हमें जरूर उज्जवल भविष्य की तरफ ले जाएंगे। इन्हीं शब्दों के साथ मैं अपनी बात समाप्त करता हूं, मैं आप सभी को भारत आने के लिए भी निमंत्रित करूंगा, मुझे गयाना के ज्यादा से ज्यादा जनप्रतिनिधियों का भारत में स्वागत करते हुए खुशी होगी। मैं एक बार फिर गयाना की संसद का, आप सभी जनप्रतिनिधियों का, बहुत-बहुत आभार, बहुत बहुत धन्यवाद।