نئی دہلی، 3جنوری 2020/دوستو، سب سے پہلے تو میں آپ کو2020 کے لئے مبارک با دپیش کرتا ہوں۔ یہ سال آپ کی زندگیوں میں خوشحالی اور آپ کی تجربہ گاہوں میں پیداواری صلاحیت لائے۔ مجھے خصوصی طور پر اس بات کی خوشی ہے کہ نئے سال اور نئی دہائی کے آغاز میں میرے پہلے پروگراموں میں سے ایک سائنس ٹکنالوجی اور اختراع سے جڑا ہے۔ یہ پروگرام سائنس اور اختراع سےجڑےایک شہر بنگلورو میں منعقد کیا جارہا ہے۔ پچھلی بار جب میں بنگلورو آیا تھا تو ملک کی نگاہیں چندریان-2 پر جمی تھیں۔ اس وقت ہمارے ملک نے جس طرح سائنس ہمارے خلائی پروگرام اور ہمارےسائنس دانوں اور کی صلاحیتوںکا جشن منایا وہ میری یاد میں ہمیشہ تازہ رہے گا۔
دوستو، باغوں کا شہر منگلورو اب اسٹارٹ اپس کے لئے ایک شاندار مقام ہے۔ دنیا اختراع کے لئے یہاں آرہی ہے۔ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کا ایک ایسا ایکو سسٹم اس شہر نے تیار ہے جس سے جڑنا ہرنوجوان سائنس داں ہر موجد ہر ایک انجینئر کا خواب ہوتا ہے۔ لیکن اس خواب کی بنیاد کیا صرف اپنی ترقی ہے، اپنا کریئر ہے؟نہیں، یہ خواب جڑا ہوا ملک کے لئے کچھ کر دکھانے کے جذبے سے ، اپنی کامیابی کو ملک کی کامیابی بنانے سے ۔
اور اس لئے جب ہم سال 2020 کو سائنس اور ٹکنالوجی کےذریعہ ہونے والی ترقی کےمثبت رویے اور پرامید طریقے سے شروع کریں گے تو ہم اپنا خواب پورا کرنے کی سمت میں ایک اور قدم اٹھائیں گے۔
دوستو، مجھے بتایا گیا ہے کہ ہندستان نے سائنس اور انجینئرنگ پبلی کیشنز کی تعداد کے معاملے میں عالمی سطح پر تیسرا مقام حاصل کرلیا ہے۔ یہ تقریباً 4 فی صد کے عالمی اوسط کے مقابلے میں تقریباً دس فی صد کی شرح سے ترقی کررہا ہے۔ مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی ہے کہ ہندستان کی اختراع کے عدد اشاریئے میں ہندستان کی درجہ بندی بڑھ کر 52 ہوگئی ہے۔ ہمارےپرگراموں نے گزشتہ 50 برسوں کے مقابلے میں پچھلے پانچ برسوں میں زیادہ ٹکنالوجی بزنس انکیوبیٹرس تیار کئے گئے ہیں۔ اس کامیابی کے لئے میں اپنے سائنس دانوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
دوستو، ہندستان کی ترقی کی داستان سائنس اور ٹکنالوجی کے شعبے میں اس کی حصولیابیوں پرمنحصر ہے۔ ہندستانی سائنس، ٹکنالوجی اور اختراع کے میدان میں انقلاب لانے کی ضرورت ہے۔ اس ملک میں کثرت سے موجود نوجوان سائنس دانوں کے لئے میرا اصول ہے ‘اختراع کرو ، پیٹنٹ حاصل کرو، پروڈکشن کرو اور خوشحال بنو’ ۔یہ چار اقدامات ہمارے ملک کو تیز رفتار ترقی کی طرف لے جائیں گے۔اگر ہم ایجاد کریں گے تو ہم پیٹنٹ بھی حاصل کریں گے اور اس سے ہمارا پروڈکشن آسان ہوجائے گا اور جب ہم ان مصنوعات کو اپنے ملک کے عوام تک لےکر جائیں گے تو وہ خوشحال بنیں گے۔ عوام کے لئے او ر عوام کے ذریعہ ایجاد ہمارے ‘نیو انڈیا ’کی رہنمائی ہے۔
دوستو، نیو انڈیا کو ٹکنالوجی بھی چاہئے اور لوجیکل ٹیمپرامنٹ بھی، تاکہ اپنی سماجی اور اقتصادی زندگی کو ہم نئی سمت دے سکیں۔ میری ہمیشہ سے یہ رائے رہی ہے کہ ہندستان کے معاشرے کو جوڑنے کے کام میں مواقع کی برابری لانے میں سائنس اور ٹکنالوجی کا بڑا رول ہے۔ اب جیسے اطلاعاتی اور مواصلاتی ٹکنالوجی کی ترقی میں ہندستان میں ہی بن رہے سستے اسمارٹ فون اور سستے ڈیٹا نے ایک بہت بڑی پریویلیج کو ختم کیا۔ اس سے آج عام سے عام شہری کو بھی یقین ہوا ہے کہ وہ الگ نہیں۔ وہ بھی سیدھا سرکار سے جڑا ہوا ہے۔ اس کی آواز سیدھے حکومت تک پہنچ رہی ہے۔ ایسی ہی تبدیلیوں کی ہمیں مزید حوصلہ افزائی کرنی ہے، انہیں مزید مضبوط کرنا ہے۔
ساتھیو، اس بات آپ نے دیہی ترقی میں سائنس اور ٹکنالوجی کے رول پر با ت چیت کا اہتمام کیا ہے۔ اس لئے میں اسی شعبے کی تھوڑی اور تفصیل سے بات کروں گا۔گزشتہ پانچ برسوں میں دیہی ترقی کو ملک کے عام لوگوں نے محسوس کیا ہے۔ سووچھ بھارت ابھیان سے لے کر آیوشمان بھارت تک دنیا کی سب سے بڑی اسکیمیں جن کی آج موثر نفاذ کے لئے تعریف کی جارہی ہے۔ ان کے پیچھے کی طاقت ہے ٹکنالوجی اور اچھی موثر حکمرانی کے لئے ہماری عہد بندی۔
ساتھیو، آج ملک میں حکمرانی کے لئے جتنے بڑے پیمانے پر سائنس اور ٹکنالوجی کا استعمال ہورہا ہے، اتنا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ کل ہی ہماری حکومت نے ملک کے چھ کروڑ کسانوں کو ایک ساتھ پی ایم کسان سمّان ندھی کا پیسہ ٹرانسفر کرکے ایک ریکارڈ بنایا ہے۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ آدھار انیبلڈ ٹکنالوجی کی مدد سے۔
ساتھیو، اگر ملک کے ہر گاؤں تک ، غریب خاندان تک ٹائلٹ پہنچا ہے، بجلی پہنچی ہے تو یہ ٹکنالوجی کی وجہ سے ہی ممکن ہوپایا ہے۔ یہ ٹکنالوجی ہی ہےجس کی وجہ سے حکومت ان 8 کروڑ غریب بہنوں کی شناخت کرپائی جن کی زندگی لکڑی کےدھوئیں میں برباد ہورہی تھی۔ ٹکنالوجی کے استعمال سے استفادہ کنندگان کی شناخت تو ہوئی ہی، ساتھ ہی نئے ڈسٹری بیوشن سینٹر کہاں اور کتنے بننے ہیں، اس کا بھی ہم بہت ہی کم مدت میں تعین کرپائے۔ آج گاؤں میں سڑکیں وقت پر پوری ہورہی ہیں۔ غریبوں کے لئے دو کروڑ سے زیادہ مکان اگر وقت پر تیار ہوپائے ہیں تو اس کے پیچھے ٹکنالوجی ہی ہے۔ جیو ٹیگنگ اور ڈیٹا سائنس کا استعمال ہونے سے اب پروجیکٹوں کی رفتار مزید تیز ہوئی ہے۔ ریئل ٹائم مانیٹرنگ کے انتظام سے اسکیم اور استفادہ کنندہ کے درمیان کی دوری اب ختم ہونے لگی ہے۔ وقت پر کام مکمل ہونے سے کاسٹ اوور رن اور ادھورے پروجیکٹوں کو ہی پاس کرنے کی جو شکایتیں ملتی تھیں،وہ بھی اب ختم ہورہی ہیں۔
دوستو، ‘ایز آف ڈوئنگ سائنس’ کو یقینی بنانے اور لال فیتہ شاہی کو کم کرنے کے لئے اطلاعاتی ٹکنالوجی کے استعمال کی ہم مسلسل کوشش کررہے ہیں۔ آج کسان بچولیوں کے رحم و کرم پرنہیں ہے بلکہ وہ سیدھے اپنی پیداوار بازار میں فروخت کرسکتےہیں۔ ڈیجیٹلائزیشن ، ای-کامرس ، انٹرنیٹ بینکنگ اور موبائل بینکنگ خدمات دیہی آبادی کی بہت مدد کررہی ہیں۔ آج بہت سے ای-گورننس اقدامات کے ذریعہ ۔ کسان موسم کے بارے میں مطلوبہ معلومات اور پیش گوئی اپنی انگلی کے اشاروں سے حاصل کررہے ہیں۔
ساتھیو، ہندستان کی ترقی میں خاص طور سے دیہی ترقی میں ٹکنالوجی کی اہمیت کو ہمیں مزید وسیع بنانا ہے۔ آنے والی دہائی ہندستان میں سائنس اور تکنالوجی پر مبنی حکمرانی کے لئے ایک فیصلہ کن مدت ہونے والی ہے ۔ خاص طور پر کم لاگت والی زراعت اور کھیت سے صارفین تک پیداوار پہنچانے کے درمیان کے سپلائی چین نیٹ ورک کو لے کر بالکل نئے امکانات ٹکنالوجی لانے والی ہے۔ اس کا سیدھا فائدہ گاؤں کو ہونے والا ہے، دیہی معیشت کو ہونےوالا ہے ۔ آپ سبھی کو یہ بھی علم ہے کہ ہندستان کے دیہی علاقوں میں ہر گھر جل پہنچانے کے لئے ایک بہت بڑی مہم – جل جیون مشن شروع کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس مہم کی طاقت بھی ٹکنالوجی ہے۔ اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ پانی کی ری سائیکلنگ اور اس کے دوبارہ استعمال کے لئےموثر اور سستی ٹکنالوجی کیسے تیار کریں۔ ایک طرح سے پانی کی حکمرانی آپ کے لئے ایک نیا مورچہ ہے۔ گھر کے اندسےنکلنے والے پانی کو کھیتوں میں آبپاشی کے لئے استعمال کرپائیں۔ اس کے لئے سستا اور موثر حل آپ کو تیار کرنا ہے۔ ہمیں ایسےبیچ بھی تیار کرنے ہوں گےجو تغذیہ سےبھرپور ہوں اور پانی کا استعمال کم کریں۔ ملک بھر میں جو سوائل ہیلتھ کارڈ دیئے گئے ہیں ، اس ڈیٹا کا استعمال روزانہ کی کھیتی باڑی کے کام میں کیسے ہو، اس پر بھی نئے سرے سے غور کرنا ہوگا۔ سب سے اہم یہ ہے کہ سپلائی چین میں جو نقصان ہمارے کسانوں کو ہوتا ہے اس سے بچنے کے لئے تکنکی حل بہت ضرور ی ہے۔
ساتھیو، گاؤ ں کی معیشت کی ایک اور اہم کڑی ہے۔ ہمارے چھوٹے اور اوسط درجے کی صنعتیں یعنی ایم ایس ایم ای بدلتے ہوئے وقت میں ان کی مضبوطی بھی آپ سبھی ساتھیوں سے جڑی ہوئی ہے۔ اب جیسے سنگل یوز پلاسٹک کی ہی بات لیجئے۔ ملک میں سنگل یوز پلاسٹک سے پاک ہونے کا عزم کیا ہے تاکہ اپنے ماحول کو، اپنے مویشیوں کو ، اپنی مچھلیوں کو، اپنی مٹی کو ہم بچا سکیں لیکن پلاسٹک کا سستا اور پائیدار کچھ نیا متبادل تو آپ کو تلاش کرنا ہی ہوگا۔ میٹل ہو ، مٹی ہو، یا پھر فائبر۔ پلاسٹک کا متبادل آپ کی تجربہ گاہوں سے ہی نکلے گا۔ پلاسٹک کے فضلے کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک فضلے سے میٹل کو نکالنے اور اس کے دوبارہ استعمال کو لے کر ہی ہمیں نئی تکنیک نئے حل کی ضرورت ہے۔
آپ جو حل فراہم کریں گے ، جو حل ہماری یہ چھوٹی صنعتیں ، ہمارے مٹی کے کلاکار ، لکڑی کے کلاکار، بازار میں اتار پائیں گے اس سے ماحول بھی بچے گا اور ہماری چھوٹی صنعتوں کی ترقی بھی ہوگی۔
ساتھیو،
گاؤں میں گرین ، سرکلر اور پائیدار معیشت کے لئے دیہی معیشت کے لئے پابند اسٹارٹ اپس کے لئے وسیع امکانات موجود ہیں۔ فصلوں کے باقیات اور گھروں سے نکلنے والا کچرا بھی آلودگی اور گندگی کا چیلنج پیش کررہے ہیں۔ اس فضلے کو بھی ہمیں دولت میں بدلنے کے لئے تیزی سے کوشش کرنی ہی ہوگی۔ ہماری کوشش ہے کہ سال 2022 تک ہم خام تیل کی درآمدات کو کم ا ز کم د س فی صد کم کرسکیں۔ لہذا بائیو فیول ، ایتھینول تیار کرنے کے میدان میں اسٹارٹ اپ کے لئے بہت امکانات ہیں۔
ایسے میں صنعت پر مبنی تحقیق کی ہمیں اور زیادہ حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ تمام متعلقین کے درمیان بات چیت کا ماحول ہمیں تیار کرنا ہوگا۔ یاد رکھئے آپ کا یہی تعاون ہندستان کو پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانے میں بہت بڑا رول ادا کرے گا۔
دوستو، زرعی طریقوں میں معاون ٹکنالوجی میں انقلاب لانے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر کیا ہم پرالی جلانے کے مسئلے کا کسانوں پر مرکوز حل تلاش کرسکتےہیں؟ کیا ہم اپنے اینٹوں کے بھٹوں کا ایسا ڈیزائن تیار کرسکتے ہیں جس سے ان سے کم از کم اخراج ہو اور انہیں زیادہ سے زیادہ توانائی میسر ہو؟ ہمیں ملک بھر میں پینے کے صاف پانی کی سپلائی کے مسئلے کا بھی بہتر اور تیزی سے حل تلاش کرنا ہوگا۔ آنے والے برسوں میں ہم کس طرح صنعتوں سے نکلنے والے سیال مادے اور اخراج کو ہم کس طرح روک سکتے ہیں کہ وہ ہمارے مٹی اور زیر زمین پانی کی سطح کو برباد نہ کرے؟
دوستو،
ایک اور اہم پوائنٹ جو میں واضح کرنا چاہتا ہوں وہ طبی آلات میں ‘میک ان انڈیا’ کی اہمیت کا ہے،جس سے کہ ہمارے عوام کو تشخیص میں ہونے والی ترقی کا فائدہ مل سکے۔
ایک بار مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ ‘سونے اور چاندی کے ٹکڑے نہیں بلکہ صحت مندی ہی ہمارے حقیقی دولت ہے’۔اس کے لئے نہ صر ف ہمیں اپنی جانچی پرکھی روایتی دانش مندی کو استعمال کرنا چاہئے بلکہ عصری بائیو میڈیکل ریسرچ کے جدید آلات اور خیالات کو شروع کرنے کے لئے اس کے دائرہ کو بھی مسلسل بڑھانا چاہئے۔
عوام کی خطرناک پھیلنے والےامراض مثلاً نیپاہ ، ایبولا وغیرہ کے خطرے سے عوام کو بچانا ہمارا ویژن ہونا چاہئے۔ ہمیں 2025 تک ٹی بی کو ختم کرنے کے وعدے کو پورا کرنے کے لئے معینہ مدت سے زیادہ کام کرنا ہوگا۔ عالمی سطح پر ہندستان ٹیکوں کی سپلائی کا لیڈر ہے۔ ہمیں 2024 تک ہندستان کو عالمی سطح کا 100 بلین امریکی ڈالر مالیت کا بائیو مینوفیکچرنگ ہب بنانے کا ہمارا نشانہ ہے۔ صحیح پالیسی پہل اور اختراعی تحقیق ،انسانی وسائل کے فروغ اور صنعت کاری کے ایکو سسٹم کی امداد سے ہی یہ کا م ہوپائے گا۔
دوستو
ہندستان کو ایک پائیدار اور ماحول موافق ٹرانسپورٹیشن اور توانائی کے ذخیرے کے متبادلوں کے لئے ایک طویل مدتی نقشہ راہ تیار کرنا ہوگا۔ جیسےجیسے ہم اپنی قابل تجدید توانائی کی سپلائی کو وسعت دیں گے ، گرڈ منجمنٹ کے لئے توانائی کے ذخیرے کی اہمیت بڑھتی جائے گی۔ ان کے لئے ہمیں ایسی نئی قسم کی بیٹریاں تیار کرنا ہوں گی جو زمین پر وافر مقدار میں موجود ماحولیاتی طور پر موافق ایسے میٹریل پر مبنی ہو جس پر اجارہ داری نہ ہو اور گرم آب و ہوا کے لئے مناسب ہو اور سینکڑوں گیگا واٹ اسکیل پر بھی سستی ہوں۔
دوستو،
موسم اور آب و ہوا کی بالکل صحیح پیش گوئی کے اقتصادی اور سماجی فائدے بہت زیادہ ہیں۔ خصوصی طور پر گرم ممالک میں طوفانوں کے معاملے میں موسم کی پیش گوئی اور وارننگ کی خدمات میں کافی بہتری آئی ہے۔ ان میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں میں آنے والی کمی سے بھی اس کا پتہ چلتا ہے۔ مقامات کی کھوج میں ہماری کامیابی کو اب گہرے سمندر کےنئے مورچوں میں دیکھا جانا چاہئے۔ ہمیں سمندر کے آبی توانائی کے خوراک اور معدنیات کے عظیم وسائل کو تلاش کرنے اور ذمہ دارانہ طریقے سے اس کا فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے گہرے سمندر میں کانکنی کے نظام افرادی قوت سے چلنے والے سبمرسیبل اور پانی میں نیچے چلنے والی خود کار گاڑیاں تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ کام ارضیاتی سائنس کی وزارت کے ذریعہ تیار کئےجارہے ‘ڈیپ اوشن مشن’ کے ذریعہ یہ کام ممکن ہوگا۔
دوستو، میں نے سائنسدانوں سے سنا ہے کہ امکانی توانائی خاموش شکل والی توانائی کو اگر حرکت کرنے والی حرکی توانائی میں تبدیل کردیا جائے تو ا سے پہاڑوں کو بھی ہلایا جاسکتا ہے۔ کیا ہم حرکت میں ایک سائنس تیار کرسکتے ہیں؟ ہمارے سائنسی امکانات کا موضوع ٹکنالوجی ، اختراع ، اسٹارٹ اپس اور صنعت کے ذریعہ سماجی ، اقتصادی ترقی میں بے مثال استعمال کے زبردست اثر کا ذرا تصور کیجئے ۔کیا ہم بہت زیادہ دباؤ والی اس بھاپ سے مواقع کے نیو انڈیا تک سفر کرنے اور اس سے جڑنے کے لئے سائنس اور ٹکنالوجی کے لئے تیز رفتار انجن کو چلا سکتے ہیں؟
ساتھیو، ٹکنالوجی، حکومت اور عام انسانوں کے درمیان کا پل ہے۔ٹکنالوجی، تیز رفتار ترقی اور صحیح ترقی میں توازن کا کام کرتی ہے۔ ٹکنالوجی کی اپنی کوئی جانبداری نہیں ہوتی وہ غیر جانبدار ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے جب انسانی احساس اور جدید ٹکنالوجی کا تال میل بڑھتا ہے تو بے مثال نتائج ملتے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے نئے سال میں، نئی دہائی میں، نیو انڈیا کے نئے رجحان ،نئے نظریئے کو ہم مل کر مزید مستحکم کرپائیں گے۔ ایک بار پھر آپ سبھی کو، پوری سائنس داں برادری کو اور آپ کے خاندان کو نئے سال کی نیک خواہشات ۔ بہت بہت شکریہ !