روزنامہ ہندستان ٹائمز کے زیر اہتمام آج یہاں منعقدہ‘ ہندستان ٹائمز لیڈر شپ سمٹ’وزیراعظم جناب نریندر مودی کے خطاب کا متن حسب ذیل ہے:
وزیراعظم جناب نریندر مودی نے اپنے خطاب میں کہا کہ
‘‘شوبھنا بھرتيا جی، ہندوستان ٹائمز کنبہ کے تمام سبھی معززین اور ملک اور بیرون ملک سے یہاں آئے خواتین و حضرات، کسی بھی ملک کو سمت دینے میں، کسی معاشرے یا شخص کو نئی توانائی کے ساتھ آگے بڑھنے میں کنورسیشن- ڈائیلاگ کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔اج کے یہ کنورسیشن ہی بہتر کل کی بنیاد بنتے ہیں آج ہی ہمارے آئین کےمعمار بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر جی کی برسی بھی ہے.
میں انہیں اپنے ہم وطنوں کی جانب سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں، سلام کرتا ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ بابا صاحب نے جس بہتر کل کا خواب دیکھا تھا، اسے ہمیں پورا کرنے کی طاقت عطا فرمائے اور ہمیں اس قابل بنائے۔
دوستو!
مستقبل میں ہم جس سمت میں جانا چاہتے ہیں، اس میں سب سے بڑا کردار آج کا ہے، ہمارے آج کے اور ابھی شوبھنا جی نے ایک سوال رکھا کہ آپ سب کو بتائیے کہ آپ کس طرح الیکشن جیتے، ملک کے عوام نے جتایا لہذا جیت گئے اور ملک عوام نے کیوں جتایا کیونکہ سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا وشواس منتر کے ساتھ کام کیا اس لئے جیت گئے اور بہت سے لوگوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا ہوا. ویسے بہتر کل کے لئے ہماری حکومت، موجودہ چیلنجوں پر، مسائل پر کام کر رہی ہےاور یہ چیلنجز، آج پیدا ہوئے ہیں ، ایسا نہیں ہے۔ یہ چیلنج کئی دہائیوں سے چلے آ رہے ہیں۔
دوستو!
آرٹیکل 370 کو ہٹانے کا فیصلہ سیاسی طور پر مشکل بھلے لگتا ہو، لیکن اس نے جموں و کشمیر اور لداخ کے لوگوں کی ترقی کی اور ان میں ایک نئی امید جگائی ہے۔ مسلم بہنوں کو تین طلاق کی لعنت سے نجات ملنے سے، ملک کے لاکھوں کنبوں کو بہتر مستقبل کا احساس ہوا ہے۔
پڑوسی ممالک سے آئے سینکڑوں خاندان، جن کے ساتھ ان ممالک میں ظلم ہوا ،جن کو ماں بھارتی پر یقین تھا۔جب ان کی شہریت کا راستہ کھل جائے گا، تو اس سے بھی ان کا بہتر مستقبل ہی یقینی ہوگا۔ دہلی کی غیر تسلیم شدہ کالونیوں کے تعلق سے جو فیصلہ ہوا ہے، اس نے بھی یہاں کے 40 لاکھ لوگوں کے بہتر مستقبل کا راستہ یقینی بنایا ہے۔ایسے متعدد فیصلے ہیں جو ماضی کی لگیسی ہے، لیکن نیو انڈیا کے لئے، بہتر کل کے لئے ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح رام جنم بھومی تنازعہ کا پرامن حل، صرف ایک تنازعہ کا حل نہیں ہے، بلکہ بھارت کے بہتر مستقبل کا ایک بڑا محرک بھی ہے.۔
اور ساتھیوں، ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ رام جنم بھومی کا فیصلہ آنے سے پہلے نہ جانے کیا کیا خدشات ظاہر کئے جارہے تھے۔ صبح میں فیصلہ آیا اور شام ہوتے ہوتے ملک کے لوگوں نے تمام خدشات کو غلط ثابت کر دیا۔ اس کے پیچھے کے تاثرات کیا تھے- بہتر مستقبل سماج اب پچھلی باتوں کی الجھنوں میں نہیں رہنا چاہتا، بلکہ ملک مستقبل کی طرف دیکھ رہا ہے. ملک کے بہتر مستقبل کے لئے، جن –من میں آئی اس بہت بڑے تبدیلی کو ہم کم نہیں سمجھ سکتے۔
بھائیوں اور بہنوں،
مسائل کو، چیلنجوں کو سنبھال کرتے رکھتے ہوئے، بہتر مستقبل کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور ہماری حکومت کی ایپروچ کیا ہے، اگر میں آسا ن لفظوں میں آپ کو ایک مثال دے کر بتانا چاہوں تو جیسے اگر آپ ہی کو دائرے میں بات کروں ایسا صرف ہندستان ٹائمز کو ہی پوچھ رہا ہوں ایسا نہیں۔ لیکن میں آپ کی دنیا سے پوچھ رہا ہوں، کیا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اگر ایڈیٹوریل پیچ کے لئے کالم نہیں آ پائے تو آپ لوگ کہتے ہیں کہ کیا ہوا، کل تو چھپا تھا تو آج بلینک چھوڑ دیتے ہیں؟
کبھی ایسا ہوا کیا؟ نہیں ہوا
یا کبھی ایسا ہوا ہو کہ اخبار کے آخری صفحے کے لئے کوئی خبر ہی نہیں بچی اور اسے بلینک چھوڑ دیا گیا ہو؟ یہ سوچ لیا گیا ہو کہ پہلے پیج سے جب ریڈر پڑھنا شروع کرتا ہے تو آگے پہنچتے پہنچتے تھک جائے گا وہ کہاں دیکھنے والا ہے چھوڑ دو اور آج آخری صفحہ کو خالی چھوڑ دو. مجھے پورا پتہ ہے کہ آپ لوگوں نے ہندستان ٹائمز کی تاریخ میں یا کسی بھی اخبار نے اپنی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں کیا ہوگا. اخبار کا ہر صفحہ اچھے سے اچھا بنے، اس کے لئے آپ رپورٹرز، نيوز روم کے لوگ جان لگا دیتے ہیں.
لیکن ساتھیوں، آپ جان کر حیران ہو جائیں گے کہ ہمارے یہاں تو حکومتوں نے ملک کے ایک بہت بڑے حصے کو ہی بلینک چھوڑ دیا تھا۔ ملک کے یہ وہ ضلع تھے جو سب سے پسماندہ تھے، تقریبا ہر پیمانے پر سب سے پسماندہ تھے۔
زچہ کی شرح اموات سب سے زیادہ کہاں تھیں؟ انہیں اضلاع میں تھیں۔
نوزائدہ بچے کی سب سے زیادہ اموات کہاں پر تھیں ؟ انہیں اضلاع میں تھیں۔
غذائی قلت کا سب سے زیادہ مسئلہ کہاں تھا؟ انہیں اضلاع میں تھا۔
ٹیکہ کاری سے سب سے زیادہ بچے کہاں چھوڑے ہوئے تھے۔؟ انہیں اضلاع میں تھے۔
پانی کا، بجلی کا، سڑکوں کا سب سے زیادہ فقدا ن کہاں تھا؟ انہی اضلاع میں تھا۔
پہلے کی حکومتوں کی سب سے کمزور کن اضلاع میں تھا؟ – انہیں اضلاع میں تھا۔
حکومت کے وزراء کی سب سے کم نشستیں کن اضلاع میں ہوتی تھیں ؟ – انہی اضلاع میں تھیں۔
حکومت کے سب سے کمزور افسروں کی پوسٹنگ کہاں ہوتی تھی؟ – انہی اضلاع میں ہوتی تھی۔
حکومت کی مانیٹرنگ سے سب سے زیادہ دور کون رہا؟ – یہی ضلع رہے. یعنی ترقی کی دوڑ میں آخری صفحے پر رہنے والے ان اضلاع کو بلینک چھوڑ دیا گیا تھا۔ اپنی قسمت پر اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا تھا۔
دوستو!
آج جب ہم بہتر مستقبل کی بات کر رہے ہیں تو میں آپ کو یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ ان اضلاع میں 5-10 لاکھ نہیں، ملک کے 15 کروڑ انتہائی غریب افراد رہتے ہیں. یہ لوگ بنیادی طور پر آدی باسی ، قبائلی ہیں، دلت ہیں، پسماندہ ہیں۔
کیا بہتر مستقبل کے لئے ان کے خواب کوئی معنی نہیں رکھتے تھے؟ کیا ان اضلاع کے غریبوں کو، اپنے روشن مستقبل کا خواب دیکھنے کا حق نہیں تھا؟
میں اس محفل میں بیٹھے لوگوں سے پوچھنا چاہتاہوں، آپ نے مامت کا نام سنا ہے کیا؟ نامساي نام سنا ہے کیا؟ كیفیرے کا نام سنا ہے کیا؟ تم میں سے کسی نے نہیں سنا ہو گا اور شاید کبھی ایک آدھ بار کسی نے سن لیا ہو. یہ کیا ہے یہ ہمارے ہی ملک کے اضلاع کے نام ہیں۔
لیکن کالا ہانڈی کا نام تو آپ جانتے ہوں گے؟ گملا تو آپ کو پتہ ہوگا ، یہ نام سنا ہوگا۔ بیگو سرائے تو آپ نے سنا ہوگا؟ گڑھ چرولی-بستر تو آپ نے سنا ہوگا؟
بھائیو اور بہنو!
ایسے 112 ضلعوں یعنی ہندوستان کے قریب 700 اضلاع دیکھیں، 112 ضلعوں کو اب ہماری سرکار اُمنگوں والے اضلاع کی طرح ترقی دے رہا ہے۔ترقی کے ہر پیمانے پر ، گورننس کے ہرپیمانے پر اب پوری توجہ مرکوز کرکے ہم ان ضلعوں میں کام کررہے ہیں۔
چاہے وہ ناقص غذائیت ہو، بچوں اور ماؤں کی شرح اموات ہو، بینکنگ کی سہولت ہو، بیما کا تحفظ ہو، بجلی کنکشن ہو، تعلیم کا انتظام ہو، صحت سے منسلک سہولتیں ہوں، ہم تمام پیمانوں پر لگاتار حقیقی وقت پر نگرانی کررہے ہیں۔
سیکڑوں افسروں کو خاص طورپر ان اُمنگوں والے اضلاع کی ترقی کے لئے لگایا گیا ہے۔ عام طورپر سرکاری ملازموں کے تئیں نفرت کا جذبہ، ان کے تئیں دیکھنے کا منفی نقطہ نظر ایک لمبے عرصے سے بنا ہوا ہے، لیکن آپ کو جان کر خوشی ہوئی کہ دہلی میں ایئرکنڈیشن کمروں میں بیٹھنے والے سیکڑوں افسر ان دنوں لگاتار مہینے دو بار ، تین بار ان دور دراز کے اضلاع میں جاکر کے بیٹھتے ہیں۔ دو- دو، تین- تین دن وہاں رہتے ہیں، اس ٹیم کے ساتھ بیٹھ کر پالیسی بناکر کے، نافذ کرکے چیزوں کو بدلنے کے لئے خود کوشش کررہے ہیں۔ حکومت ہند کے مرکزی دفتر کے سینکڑوں ملازموں کے ہندوستان کے دور دراز علاقوں میں دو-دو دن سفر کرنا پڑتا ہے۔ جارہے ہیں، ایک بہتر مستقبل کی تو گارنٹی ہے۔ آج میں ہندوستان ٹائمز کے اسٹیج سے کہہ رہا ہوں۔ ہندوستان کی مجموعی ترقی پیرامیٹرس کو سدھارنےکے لئے سب سے بڑا دھکا ان ہی 112امنگوںوالے اضلاع سے ملے گا۔ جب یہاں کے لوگوں کا مستقبل سدھرے گا تو بھارت کا مستقبل اپنے آپ سدھرے گا۔
ساتھیو!
ہم پیج چھوڑنے والوں میں سے نہیں ہیں، ہم نیا باب لکھنے والوں میں سے ہیں۔
ہم ملک کی قوت ، ملک کے وسائل اور ملک کے سپنوں پر بھروسہ کرنے والوں میں سے ہیں۔ ہم پوری ایمانداری کے ساتھ ، پورے عزم کے ساتھ ہم وطنوں کے بہتر مستقبل کے لئے، ملک میں دستیاب ہر وسائل کا استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم ملک کو وعدوں کی سیاست کے بجائے کارکردگی کی سیاست کی طرف لے جارہے ہیں۔
چناؤ ہے نئی ریل لائن کا اعلان کردو، چناؤ ہے تو نئی شاہراہ کا اعلان کردو، چناؤ ہے تو قرض معافی کا خواب دکھادو، چناؤ ہےتو غریبی ہٹاؤ کا نعرہ اچھال دو، یہ ملک بہت دیکھ چکا ہے۔
ساتھیو!
پہلے کی حکومتوں کے دور میں ہمارے یہاں سینکڑوں ایسی ٹرینوں کا اعلان کیا گیا اور پارلیمنٹ بولی گئی ہر بات کی عظمت ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ میں بولا گیا اور تالیاں ٹیبل تھپتھپائے گئے اور سب ایم پی نے بھی اپنے علاقے میں جاکر یہ اعلان کردیا کہ ہمارے علاقے میں ٹرین آنے والی ہے اور آپ حیران ہوں گے کہ بہت سارا اعلان کیاگیا، بہت ٹرینوں کا اعلان کیاگیا، لیکن ایک بھی ٹرین شروع نہیں ہوئی اور میں 40-30سال کا حساب دے رہا ہوں۔ میں نے آکر کچھ تو ایسے اعلانات دیکھے جو 30 سال 40 سال پہلے ہوئے ہیں، لیکن کاغذ پر وہ ریل لائن کی پٹری کہاں ہوگی، یہ کاغذ پر بھی پینٹ کیا ہوا نہیں ہے۔زمین کی بات چھوڑوں، آپ حیران ہوں گے آج مجھے 30-30، 40-40 سال پرانے لاکوں کروڑ کے ریلوے اور ہائی وے پروجیکٹس کو پورا کرنے کے لئے مشقت کرنی پڑ رہی ہے۔ اس وقت جو کیا گیا ، کیا وہ بہتر مستقبل کے بارے میں سوچ کر کیاگیا؟نہیں۔
کوئی سرکارہو، مرکز کی یاریاست کی، اس پر یہ دباؤ ہونا چاہئے کہ اسے پرفارم کرنا ہی پڑے گا۔
میں جانتاہوں کہ یہ دباؤ ہم نے خود آگے بڑھ کر اپنے اوپر لیا ہے۔ آج میڈیا میں جتنے معاملوں پر ہماری تنقید ہوتی ہے، وہ سارے معاملے ہم نے سیٹ کئے ہیں، ہم نے کہا کہ ہم یہ کرنا چاہتے ہیں تو کوئی ہمیں یہ پوچھے گا کہ بتاؤ یہ کیوں نہیں ہوا اور یہ اچھی بات یہ دباؤ ضروری ہے۔ ایک نئے کلچر کو ہم نے فروغ دیا ہے، لیکن اسی نے اور میں مانتاہوں نتائج دینے کا راستہ یہی ہے۔ دباؤبڑھے گا ، لوگوں کی امیدیں بڑھیں گی اور لوگوں کے بہتر مستقبل کو یقینی بنانے میں ان کی شراکت داری بھی بڑھے گی۔
ساتھیو!
ملک کے بہتر مستقبل کی فکر تھی، اس لئے ہی ہم نے ملک میں سووچھ بھارت ابھیان شروع کیا اور اب اتنی ہی قوت سے ہم جل جیون مشن کی شروعات کررہے ہیں۔ اب یہ ایسی چیزیں ہیں کہ پچھلے 50سالوں میں نہیں ہوا تو کسی نے پوچھا نہیں کہ کیوں نہیں ہوا، لیکن اب میں نےکہا ہے تو اب مجھ سے ہر دن پوچھا جائے گا کہ کہاں تک کیا۔ لیکن کیا یہ کرنا ضروری تھا یا نہیں تھا۔میں بھی ٹال سکتا تھا، میں بھی بچ کر نکل سکتا تھا، وہ راستہ مجھے منظور نہیں ہے۔
آنے والے برسوں میں قریب قریب 15کروڑ گھروں کو پانی کی سپلائی سے جوڑنے کے لئے ہم کام کررہے ہیں۔
اسی طرح آج بھارت پورے اعتماد کے ساتھ اپنی معیشت کو 5ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانے کے لئے جٹا ہوا ہے۔
یہ ہدف ملک کی معیشت کے ساتھ ساتھ 130کروڑ بھارتیوں کی اوسط آمدنی ، ان کی زندگی میں آسانی اور ان کے بہتر مستقبل سے جڑا ہوا ہے۔
اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے ہماری سرکار اہل بنانے والے، سہولت فراہم کرنے والے اور فروغ دینے والے کا کردار پوری طاقت کے ساتھ نبھا رہی ہے۔ ہم اصلاحات اور کارکردگی دکھانے کے ارادے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
ملک کے فزیکل اور فائناشیل انفراسٹرکچر میں اصلاح کرنے سے لے کر عالمی پلیٹ فارم پر ہندوستانی صنعت کو بڑھا وا دینے تک، ڈیڑھ ہزار سے زیادہ پرانے قوانین کو ختم کرنے سے لے کر قواعد اور طریقہ کار کی سہل کاری تک ہم ہر سمت میں ایک ساتھ کام کررہے ہیں۔
ساتھیو!
ترقی کی رفتار بڑھانے کے لئے اکثر چار چیزوں کی چرچا ہوتی ہے۔ ٹیکس ریٹ میں کمی، تجارت کرنے میں آسانی اور اس میں سدھار، لیبر کی اصلاحات اور عدم سرمایہ کاری ۔
ان سبھی پہلوؤں پر سرکار نے جو قدم اٹھائے ہیں وہ بہتر مستقبل کی امید جگانے والے ہیں۔
اسی سال پرسنل ٹیکس کو لے کر ہم نے بڑا فیصلہ کیا اور پانچ لاکھ روپے تک کی آمدنی کو ٹیکس سے آزاد کردیا۔
اس سے ہرمہینے 40روپے سے زائد تک کی آمدنی والے ایک بہت بڑے طبقے کو سیدھا فائدہ ہوا ہے، جبکہ بچت کے لحاظ سے 70 ہزار روپے تک ماہانہ آمدنی والے کو بھی بہت بڑی راحت ملی ہے۔
یہاں سے ہورہی بچت یقینی طور سے ان خاندانوں کے بہتر مستقبل میں مدد کرنے والی ہے۔
اسی طرح کارپوریٹ ٹیکس میں کی گئی تاریخی کٹوتی سے بھارت دنیا کی سب سے کم ٹیکس شرحوں والی معیشت تو بنی ہی ہے، سرمایہ کاری اور مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے لئے بھی ہماری حالت مستحکم ہوئی ہے۔
ٹیکس نظام کو سدھارنے کے لئے تاجروں اور شہریوں کے ساتھ پریشانی کے ہر امکان کو ختم کرنے کے لئے حال میں ای-اسسٹمنٹ اسکیم لاگو کی گئی ہے۔
اب کس افسر کے پاس آپ کی فائل جائے گی یہ نہ آپ کو پتہ ہوگا اور نہ افسر کو پتہ چلے گا کہ یہ فائل کس کی ہے۔
اتنا ہی نہیں، کیونکہ افسر کو یہ پتہ ہی نہیں ہو گا کہ اسے کس کا اسسٹمنٹ کرنا ہے، لہذا ٹرانسفر پوسٹنگ کو لے کر جو حساب کتاب ہوتا تھا، وہ بھی بند ہو جائے گا۔
یعنی مجموعی طور ہوگا یہ کہ ٹیکس اسسٹمنٹ کے درمیان جو کھیل ہوتے تھے، ان کھیلوں کے بہانے عام لوگوں کو جو دقتیں آتی تھیں، وہ اب ختم ہو جائے گی۔
ایز آف ڈوئنگ بزنس میں ہم اس سال بھی ٹاپ 10 بیسٹ پرفارمرس میں سے ایک ہیں۔ گزشتہ 5 سالوں میں ہم نے 79 رینک کی بہتری حاصل کی ہے۔ مجھے برابر یاد ہے پچھلی بار جب ایز آف ڈوئنگ بزنس کے رینک آئے تو ورلڈ بینک کے چیئرمین نے مجھے خصوصی طور پر فون کیا کہ رینکنگ تو آتے ہیں میرے لئے خوشی کی بات ہے کہ اتنا بڑا ملک وہ بھی ترقی پذیر ملک اور وہ اتنی بڑی اصلاح کرے اور مسلسل کرتا رہے ورلڈ بینک کے پاس ایسی کوئی تاریخ دستیاب نہیں ہے جو پہلی بار انڈیا نے کیاہے انہوں فون کرکے بتایا۔
جہاں تک لیبر ریفارم کی بات ہے تو دہائیوں پرانے درجنوں قوانین کو 4 قوانین میں کوڈی فائی کیا جا رہا ہے، جس سے ملازم اورمالک دونوں کو بہت فائدہ ہونے والا ہے۔
سرمایہ نکاسی کی بات کروں تو حال میں لئے گئے فیصلوں سے واضح ہے کہ اس سمت میں بھی ہم تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
بھائیو اور بہنو،
تین چار دہائی قبل جب ملک میں بینکوں کو قومیایا گیا تو خوب ڈھول نگاڑے بجواے گئے تھے کہ بہت بڑای اصلاح ہوئی ہے۔
پھر وقت کے ساتھ یہ پتہ چلا ہے کہ بہت سے بینکوں کے انتظام میں بھی اپنی خامیاں ہیں۔
آپ لوگوں کے یہاں ہی اداریئے لکھے جاتے تھے، اکنامی کے ماہر مطالبہ کرتے تھے کہ ملک میں بینک کم ہونے چاہئیں، تبھی ہماری بینکنگ مؤثر ہوگی۔
ہم نے بینکوں کا مرجر کرنے کے ساتھ ساتھ، ان کے ری کیپیٹلائزیشن کے لئے ڈھائی لاکھ کروڑ روپے کی رقم بھی دی ہے۔
دیوالیہ اور ادائے قرض کی معذوری کوڈ ۔ آئی بی سی نے قریب قریب 3 لاکھ کروڑ روپے کی واپسی یقینی بنایا ہے۔
اس طرح کی بہت سی اصلاحات کے بعد، بہت سے بڑے فیصلوں کے بعد آج ملک کا بینکنگ سیکٹر پہلے سے کافی مضبوط پوزیشن میں ہیں۔
میں آج پھر آپ کے ذریعے، ملک کے ہر بینک ملازم کو یہ بھروسہ دینا چاہتا ہوں کہ پرانے حالات سے ہم باہر نکل آئے ہیں۔ اب آپ کے حقیقی کاروباری فیصلوں پر سوال نہیں اٹھائے جائیں گے۔
کسی بھی طرح کی کارروائی سے پہلے کسی کام کرنے والے فائننس اور بینک ایکسپرٹ سے جانچ کرانے سے منسلک ہدایات بھی جلد ہی جاری کی جا رہی ہیں۔ آج جو بینکنگ سیکٹر پر دباؤ ہے، تناؤ ہے، اس سے نجات دلانا یہ بھی تو حکومت کا کام ہے اور ہم کریں گے، اگر بینک میں بیٹھا ہوا شخص فیصلے لینے میں ڈرتا ہے تو اس کو فکر رہتی ہے ،تو وہ فیصلہ نہیں کر پائے گا اور حکومت اس کو بے بس نہیں چھوڑ سکتی اس کی حفاظت کرنے کے لئے حکومت پوری ذمہ داری لیتی ہے اور تبھی تو ملک آگے بڑھتا ہے۔ اور میں ایسا ہوں میں ذمہ داریوں سے بھاگنے والا انسان نہیں ہوں۔ میں ذمہ داریاں خود لیتا ہوں۔
بھائیو اور بہنو،
آج یہاں اس ہال میں بہت سے لوگ ہیں جو دہلی-این سی آر میں رہتے ہیں۔ بلیک منی کے اندھا دھند بہاؤ نے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کی کیا حالت تھی، آپ سب کو معلوم ہے۔ آج بھی سینکڑوں،ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو برسوں سے ای ایم آئی دے رہے ہیں، کرائے کے گھر میں رہ رہے ہیں اور اپنے خوابوں کے گھر کا انتظار کر رہے ہیں۔
ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو اس صورت حال سے نکالنے کے لئے، ادھورے اور اٹکے ہوئے پروجیکٹس کو پورا کرنے کے لئے حکومت نے حال ہی میں ایک اسپیشل ونڈو بھی بنائی ہے۔ اس کے تحت 25 ہزار کروڑ روپے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ متوسط طبقے کے ایک بڑے حصے کا، اپنے گھر کا خواب پورا ہوگا۔
اس کے علاوہ حکومت اپنی اسکیموں کے تحت جو 2 کروڑ گھر بنوانے جا رہی ہے، جی ایس ٹی میں رعایت، سود میں چھوٹ جیسے فیصلوں سے بھی اس سیکٹر کو بہت مدد ملنے والی ہے۔
بھائیو اور بہنو،
بہتر کل کے ہمارے خواب میں ایک چیز اور بہت اہم رہی ہے۔ یہ ہے بھارت میں ورلڈ کلاس انفرااسٹرکچر۔ آنے والے چند سالوں میں اس خواب کو پورا کرنے کے لئے حکومت 100 لاکھ کروڑ روپے کے پروجیکٹ شروع کرنے جا رہی ہے۔
اس کے ساتھ ہی، ہماری کوشش انفرااسٹرکچر کے شعبے میں نجی سرمایہ کاری کو بھی بڑھانے پر ہے۔ حکومت اس بات بھی نظر رکھے ہوئے ہے کہ انفرااسٹرکچر اور انڈسٹری کو کریڈٹ فلو میں کسی طرح کی دقت نہ آئے۔
ساتھیو،
آج حکومت ریلوے کنیکٹی وٹی پر، روڈ کنیکٹی وٹی پر، ایئر کنیکٹی وٹی پر جتنی سرمایہ کاری کر رہی ہے، اتنی پہلے کبھی نہیں کی۔
اس کے ماحولیات پر، ایز آف لیونگ پر اثرات سے آپ واقف ہیں۔
لیکن ایک اور سیکٹر پر کنکٹی وٹی بہتر بنانے کا بہت بڑا اثر پڑا ہے۔
یہ سیکٹر ہے- ٹورازم۔
ساتھیو،
حکومت کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج بھارت ورلڈ اکونومک فورم کے ٹریول اور ٹوررزمسابقتی عدد اشاریہ میں 34 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ سال 2009 سے 2013 کے درمیان برسوں میں ہم 62 سے 65 ویں مقام کے درمیان تھے۔
اور میں آپ کو یہ بھی یاد دلادوں، ٹورزم بڑھنے کا سب سے زیادہ غریب کو فائدہ ہوتا ہے، غریب سے غریب کو روزگار ملتا ہے کم سے کم سرمایہ کاری سے زیادہ سے زیادہ روزگار ملتا ہے۔ جب ٹوررزم بڑھتا ہے، غیر ملکی سیاح آتے ہیں، تو یہاں خرچ بھی کرتے ہیں۔ سال 2014 میں بھارت کے لوگوں کو سیاحتی سیکٹر سے غیر ملکی کرنسی میں 1 لاکھ 20 ہزار کروڑ روپے کی کمائی ہوئی تھی۔ وہیں گزشتہ سال یہ غیر ملکی کرنسی بڑھ کر قریب قریب 2 لاکھ کروڑ روپے پہنچ گئی ہے۔
آخر یہ کمائی کس کی ہوئی۔ بھارت کی ہوٹل انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کی، سیاح گائڈز کی، ٹیکسی والوں کی، چھوٹے چھوٹے ڈھابے والوں کی۔ دست کاری کی اشیا فروخت کرنے والوں کی۔
بھائیواور بہنو،
ملک کے بہتر مستقبل کے لئے، آج وقت کا تقاضہ ہے کہ حکومت حکمرانی کے بنیادی شعبوں میں کام کرے۔
لوگوں کی زندگیوں میں حکومت کا دخل جتنا کم ہوگا، اور گڈ گورننس جتنی زیادہ ہوگی، اتنی ہی تیزی سے ملک آگے بڑھے گا۔ یہ میرا ماننا ہے کہ غریب کے لئے حکومت کی کمی نہیں ہونی چاہئے اور شہری کی زندگی میں حکومت کا دباؤ نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت جتنی زیادہ لوگوں کی زندگی سے نکل جائے ،اتنا ہی اچھا رہے گا۔
اس کے لئے بہت ضروری ہے کہ حکومت خود اپنے انسانی وسائل پر بھی توجہ دے۔
ساتھیو،
ہم نے 21 ویں صدی میں ایک ایسے گورننس ماڈل کے ساتھ انٹری لی جو 19 ویں اور 20 ویں صدی کی سوچ اور اپروچ سے چلتا تھا۔
اس سسٹم کے اہم ٹولز یعنی ہمارے افسر، ہمارے ملازم پرانی خیالات، پرانے طور طریقوں کے عادی ہو چکے تھے اور وہی وراثت وہ آگے پاس کرتے تھے۔
19 ویں، 20 ویں صدی کی ذہنیت والے گورننس ماڈل کے ساتھ 21 ویں صدی کے ہندوستان کی خواہشات کو پورا کرنا بہت مشکل تھا۔
لہذا گذشتہ 5 سالوں میں ہم نے اس نظام کو اور حکومت کے انسانی وسائل کی کایا پلٹ کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش کی۔
میں نے کبھی اس کے بارے میں عوامی پلیٹ فارم سے تفصیل سے بات نہیں کی ہے۔
لیکن بہتر کل کا یہ بہت پہلو ہے ، لہذا آج اس بارے میں بھی کچھ باتیں شیئر کرنا چاہتا ہوں۔
ساتھیو،
ایک اور پہل ہم نے کی ہے، سول سرونٹس کو لے کر، تقرری کے شروعاتی دنوں میں ہی انہیں اس بات کا تجربہ دیا جارہا ہے کہ پالیسی سطح پر کیسے کام کیا جاتا ہے، فلیگ شپ اسکیم کو کیسے فالو کیا جاتا ہے۔
پہلے انہیں ایسا تجربہ نہیں ملتا تھا۔ کئی آئی اے ایس – آئی پی ایس افسر ایسے ہیں کہ وہ جاب ملنے کے بعد اپنے اسٹیٹ کیڈر میں چلے گئے ، ان کو کبھی دہلی آنے کا موقع نہیں ملا، اتنا بڑا ملک کیسے کام کرتا ہے، کبھی خوش قسمتی ہی نہیں ملی اور وہ ریٹائر بھی ہوگئے ۔ ہم نے شروع کے دور میں ہی جب وہ میسوری سے نکلتے ہیں، تو تین مہینے بھارت سرکار کے مختلف نظاموں میں جوڑنا شروع کیا جاتا ہے۔ تاکہ وہ یہاں ایک سے ویژن لے کر جائیں، کہ ہاں دیش کے سامنے یہ مسائل ہوتے ہیں تو میں جہاں گراس روٹ لیول پر کام کروں گا تو بھی میں ملک کی ان باتوں کو دھیان میں رکھ کر فیصلے کے عمل کو چلاؤں گا۔ تا کہ ملک اور مقامی صورت حال میں کنٹراڈکشن ( اختلاف) پیدا نہ ہو اور اس ایک کامیاب تجربہ ہوا ہے اور ایک دوسرا فائدہ ہواہے کہ یہاں پر زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جو ریٹائرمنٹ کی تاریخ لکھ کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ مین ٹیم وہی ہوتی ہے ، وہ سوچتے ہیں کہ اب گیارہ مہینے باقی رہے ، نو مہینے باقی رہے، چھ مہینے باقی رہے۔ ایسے میں یہ 35 سال کا مستقبل باقی ہے، ایسے میں توانائی سے بھر پور نوجوان ان کے ساتھ جڑ جاتے ہیں تو آٹو میٹک توانائی ملنا ان کو بھی شروع ہو جاتی ہے۔ بدلاؤ شروع ہو جاتا ہے ، اتنا ہی نہیں اس سال ہم نے ایک اور شروعات کی ہے۔ اس بار ملک میں 20 سے زیادہ سول سروسز کے ٹرینی کا مشترکہ فاؤنڈیشن پروگرام ہم نے کیا۔
ابھی تک بہت بڑی شکایت یہ رہتی تھی اور میں نے ایک بار لال قلعہ سے نیا جب آ یا تو میں نے پہلے ہی سائی لاس کا ذکر کیا تھا۔ پہلی میری جو لال قلعہ سے جو تقریر تھی ، اب میں نے تو وہ بیماری تو بتادی ، سالو (حل) کرنا تو پڑے گا اور مجھے ہی کرنا پڑے گا اور ہم نے اسی مسئلے کے حل کے لئے جو سروسز آئسولیشن میں کام کرتی ہیں، اس میں بدلاؤ لانے کے لئے ایک قسم سے جوائنٹ فاؤنڈیشن کورس کی سمت میں ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ الگ الگ سروسز جیسے ریونیو ، فارسٹ ، ریلویز ، اکاؤنٹ اینڈ آڈٹ ، ان کے افسروں کو ان دنوں ہم نے بہت ذمہ داری والے کام دیئے ہیں۔ اہم جوائنٹ سکریٹری سطح کی پوسٹ بھی دی ہے تاکہ پالیسی میکنگ میں سبھی سروسز کا انٹگریشن ہوسکے۔
اور ہاں،
ان سب کے درمیان ہم نے 220 سے زیادہ سرکاری افسروں کو بدعنوانی کے الزام میں ، کام صحیح طریقے سے نہ کرپانے کے الزام میں ، پری مچیور ریٹائر منٹ بھی دیا ہے۔
ساتھیو!
پریلج کے بجائے ہم پروفیشنلزم کو پروموٹ کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
لیٹرل اینٹری ، آپ میں سے بہت لوگ ہیں جو اس بات کو مانتے ہیں، ٹھیک کوئی آئی اے ایس ہوگیا تو ساری دنیا وہی جانتا ہے، یہ سوچ ٹھیک نہیں ہے۔ سماج میں بہت قابل لوگ ہوتے ہیں۔ اتنا بڑا دیش چلانے کے لئے وہ بھی کنٹری بیوٹ (تعاون) کرنا چاہتے ہیں، ان کو موقع ملنا چاہئے اور ان کو موقع دینے کے لئے ہم نے ایک میکنزم موضوع ڈیولپ کیا ہے ، وہ بھی آرگنائزڈ وے میں۔ سرکار کے وِ م پر نہیں یوپی ایس سی کی پراسیز سے اور ملک سے میں نے دیکھا ہے ایک ایک دو دو کروڑ کے پیکج سے کام کرنے والے نوجوان معمولی تنخواہ لے کر کہ دو سال تین سال ملک کو دینے کے لئے سرکاری نظام میں آنے کے لئے تیار ہورہے ہیں۔ کچھ ہم نے شروعات کی ہے اور ان کے پاس کارپوریٹ دنیا کا تجربہ ہے۔ گورننس اور گورمنٹ کے ساتھ جڑنے کے سبب وہ زیادہ ایویلیو ایشن (تجزیہ) کرپارہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آنے والے دنوں میں ایک زیادہ اچھے آؤٹ کم ؍ نتیجے کے لئے یہ جو ہم کوشش کررہے ہیں وہ خوش آئند نتائج لائے گی اور ملک کا بہترین ٹیلنٹ ، بھلے ہی وہ سول سروسز کی طے شدہ عملوں کا حصہ نہیں ہیں، وہ ملک کے دوسرے بیسٹ اداروں کی ویلیوز کو انٹرڈیوز کرسکیں، یہ کوشش کی جارہی ہے۔
اب ڈیڈ لائن کو سرکاری نظام میں بھی سیکرو سینکٹ مانا جانے لگا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پورے ملک میں یہ نظام بن چکا ہے لیکن بہت سارے شعبوں میں اس بدلاؤ کو آپ محسوس کرسکتے ہیں۔
گورننس کے بنیادی ڈھانچے میں کیا جارہا یہ سدھار صرف پانچ یا دس برسوں کے لئے نہیں ہے۔ یہ صرف ہماری سرکار تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا فائدہ آنے والی دہائیوں تک ملک کو ملنے والا ہے۔
یہ سوچ اور ایپروچ ہماری رہی ہے۔
ہم صرف پانچ یا دس برسوں کے مدت کار کے لئے کام نہیں کررہے ہیں بلکہ بہتر کل (بیٹر ٹو مارو) کے لئے ، نیو انڈیا کے لئے ، پرماننٹ آر پرفارمنس اورینٹڈ نظام بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔
130 کروڑ ہندوستانیوں کے بہتر مستقبل کے لئے صحیح رائٹ انٹینشن، بیٹر ٹیکنالوجی اور ایفکیٹو امپلی منٹیشن ( صحیح نیت، بہتر ٹیکنالوجی اور مؤثر نفاذ) ، یہی ہمار روڈ میپ ہے۔
مجھے امید ہے کہ اس کانفرنس میں جو بات چیت ہوگی اس میں ہندوستان کے مفاد سے جڑی جتنی باتیں ابھر کر آئیں گی، وہ بھی بیٹر ٹو مارو (بہتر کل) کی گارنٹی لے کر آئیں گی۔
آپ سبھی کو کارآمد گفتگو کے لئے بہت بہت مبارک باد کے ساتھ، بہت بہت شکریہ!