بھارت میں دستکاری کی ایک دیرینہ روایت رہی ہے اور وارانسی نے اس سلسلے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے: وزیر اعظم مودی
ہم چاہتے ہیں کہ قالین کی صنعت سے وابستہ ہمارے بنکر اور صناع خوشحال بنیں اور انہیں عالمی شہرت حاصل ہو: وزیر اعظم مودی
ہم چاہتے ہیں کہ قالین کی صنعت سے وابستہ ہمارے بنکر اور صناع خوشحال بنیں اور انہیں عالمی شہرت حاصل ہو: وزیر اعظم مودی

نئیدہلی۔23؍اکتوبر۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کارپیٹ ایکسپو وارانسی سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے جو خطاب کیا تھا اس کا متن حسب ذیل ہے:

نمسکار!

وارانسی میں موجود میری وزارتی کونسل کی ساتھی اسمرتی ایرانی جی، کارپیٹ سیکٹر سے جڑے سبھی کاروباری حضرات ، میرے بُنکر بھائی بہن اور وہاں موجود دیگر سبھی حضرات۔ کاشی کی مقدس سرزمین پر ملک بھر سے آئے اور بیرون ملک سے تشریف لائے آپ سبھی کا میں دل کی گہرائیوں سے خیرمقدم کرتا ہوں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ دنیا کے قریب 38 ملکوں کے ڈھائی سو سے زائد مہمان اس ایکسپو کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ جموں وکشمیر ، مغربی بنگال اور ملک کی دیگر ریاستوں کے بھی کارپیٹ سیکٹر سے جڑے لوگ وہاں موجود ہیں۔ میں بنارس کے ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے آپ سبھی کا بنارس میں بہت بہت استقبال کرتا ہوں۔

ساتھیو، ملک میں آج کل تیوہاروں کا موسم ہے، دسہرے اور دُرگا پوجا کے بعد مجھے ٹیکنالوجی کے وسیلے سے بنارس سے جڑنے کا موقع ملا ہے۔ آپ سبھی لوگ دھن تیرس اور دیوالی کی تیاریوں میں مصروف ہوں گے، یہ سال کا وہ وقت ہوتا ہے جب آپ سبھی سب سے زیادہ مصروف ہوتے ہیں۔ ان دنوں عام دنوں کے مقابلے کام ذرا زیادہ ہوتا ہے کیونکہ مانگ زیادہ ہوتی ہے۔ آپ کی محنت کا ، آپ کے فن کا انعام کو ملے اس کے لئے بھی یہ سب سے بہتر وقت ہوتا ہے۔

ساتھیو، وارانسی اور یوپی کے بنکر اور کاروباری بھائی بہنوں کیلئے تو اس بار کے تیوہار دوہری خوشیاں لے کر کے آئے ہیں۔ دین دیال ہینڈی کرافٹ سینٹر میں پہلی بار انڈیا کارپیٹ ایکسپو کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ اس کے لئے آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد۔ اب دلّی کے ساتھ ساتھ وارانسی میں بھی ہندوستان کی قالین کی صنعت یعنی کارپیٹ انڈسٹری کو ہمارے بنکرو ں کو، ڈیزائنروں کو اور کاروباریوں کو اپنی ہنرمندی اور اپنی پیداوار دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع مل رہا ہے۔

ساتھیو، مجھے خوشی ہے کہ جن نشانوں کو لیکر دین دیال ہینڈی کرافٹ سینٹر کی تعمیر کی گئی تھی ، ان نشانوں کی تکمیل کی طرف ہم انتہائی تیزرفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ یہ شعبہ بنکروں کا اور کارپیٹ صنعت کا ہب ہے۔ یہاں ملک کے ہینڈی کرافٹ سے جڑے تقریباً ایک چوتھائی بنکر ، مزدور اور کاروباری بھائی بہن رہتے ہیں۔ وارانسی ہو، بھدوئی ہو یا مرزا پور ہو، یہ کارپوریٹ صنعت کے مرکز رہے ہیں اور اب مشرقی ہندوستان کا یہ پورا علاقہ ملک کے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کا بھی گلوبل ہب بن رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں دین دیال ہینڈی کرافٹ سینٹر بھی ہینڈی کرافٹ کے معا ملے میں بھی اس بین الاقوامی شناخت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔

ساتھیو، سرکار کی یہ مسلسل کوشش رہی ہے کہ ہینڈی کرافٹ چھوٹے اور اوسط درجے کی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے ٹیکنالوجی سے لیکر تشہیر اور توسیع تک پر زور دیا جائے۔ وہاں سہولیات بہم کرائی جائیں جہاں پر پیداوار ہوتی ہے۔ اس بار وارانسی میں منعقد یہ انڈیا کارپیٹ ایکسپو اسی کڑی میں ایک اور بڑا قدم تو ہے ہی، ساتھ ہی ٹیکسٹائل سیکٹر کیلئے ہمارے فائیو ایپ کے تصور کا بھی اہم ستون ہے اور جب میں فائیو ایپ کہتا ہوں، تو فائیو ایپ کا مطلب ہے فارم سے فائبر تک ، فائبر سے فیکٹری تک ، فیکٹری سے فیشن تک اور فیشن سے فارن تک یہ کسان اور بنکروں کو دنیا بھر کے بازاروں سے سیدھے طور پر جوڑنے کی ایک بہت ہی بڑی کوشش ہے۔

آنے والے چار دنوں کے دوران ان ایکسپو میں ایک سے ایک بہترین ڈیزائنوں کی نمائش کی جائے گی ، کروڑوں روپیوں کاکاروبار ہوگا ، معاہدے ہوں گے، بزنس کے نئے مواقع کھلیں گے اور بنکروں کو نئے آرڈر ملیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ یہاں بیرون ملک سے جو کاروباری بھائی آئے ہیں وہ بھی ہماری تہذیب ، کاشی اور ہندوستان کے بدلے ہوئے کاروباری ماحول کا تجربہ حاصل کرپائیں گے۔

ساتھیو، ہمارے ملک میں ہینڈی کرافٹ کی ایک طویل روایت رہی ہے۔ ہندوستان کے دیہی علاقوں میں آج بھی سوت کاتنے میں ہتھ کرگھے کی عظیم روایت رہی ہے۔ بنارس کی دھرتی کا تو اس میں اور بھی زیادہ اہم کردار رہا ہے۔ بنارس کی جتنی پہچان کبیر سے جڑی ہے اتنی ہی ہینڈی کرافٹ سے بھی جڑی ہے۔ سنت کبیر سوت بھی کاتتے تھے اور اس کے ذریعے زندگی کا پیغام بھی دیتے تھے۔ کبیر داس جی نے کہا ہے۔

کہی کبیر سنو ہو سنتو، چرخا لکھے جو کوئے

جو یہ چرخا لکھ بھئے ، تاکو آواگمن نہ ہوئے

یعنی چرخازندگی کا نچوڑ ہے اور جس نے اسے سمجھ لیا اس نے زندگی کا مفہوم بھی سمجھ لیا۔ جہاں ہینڈی کرافٹ یا دستکاری کو زندگی کے اتنے عظیم فلسفے سے جوڑا گیا ہو وہاں بنکروں کی زندگی کو آسان بنانے کیلئے جب اس طرح کے انتظامات کیے جاتے ہیں تو بڑی تشفی اور اطمینان کاا حساس ہوتا ہے۔

ساتھیو، ہمارے ملک میں دستکاری یعنی ہینڈی کرافٹ ، تجارت اور کاروبار سے بھی بالاتر حوصلہ افزائی کا، آزادی کیلئے جدوجہد کا اور خودکفالتی یعنی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا سب سے بڑاوسیلہ رہا ہے۔ گاندھی جی ،ستیہ گرہ اور چرخے کی ہماری تحریک آزادی میں کیا اہمیت رہی ہے اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔

دستکاری یعنی ہینڈی کرافٹ کے وسیلے سے خودکفالتی کے اس پیغام کو مضبوط بنانے کیلئے آپ سبھی کے تعاون سے سرکار مسلسل کوششیں کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ کارپیٹ یعنی قالین اور غالیچے تیار کرتا ہے۔ گزشتہ چار برسوں سے تو ہاتھ سے بنائے گئے قالین کے معا ملے میں تو ہم دنیا بھر میں ٹاپ پر ہیں یعنی سرفہرست ہیں۔ یہ لاکھوں بنکروں ، ڈیزائنروں ، کاروباریوں کی محنت اور سرکار کی پالیسیوں کے سبب ہی ممکن ہوسکا ہے۔

ساتھیو، آج دنیا بھر کے کارپیٹ بازار کا ایک تہائی سے زائد یعنی 35 فیصد حصہ ہندوستان کے پاس ہے اور آئندہ دو تین برسوں میں 50 فیصد تک ہوجانے کا امکان ہے۔ یعنی آئندہ برسوں میں دنیا میں کارپیٹ کا جتنا بھی کاروبار ہوگا اس کا نصف ہندوستان کے پاس ہوگا یعنی آپ سبھی کے پاس ہوگا۔

ہم نے پچھلے سال 9000 کروڑ روپئے کے قالین برآمد کیے تھے اس سال تقریباً 100 ملکوں کو ہم نے کارپیٹ برآمد کیے ہیں۔ یہ لائق ستائش کام ہے لیکن ہمیں اسے اور آگے بڑھانا ہے۔ ہمیں کوشش کرنی ہے کہ 2022 تک یعنی جب ہماری آزادی کے 75 سال پورے ہوں گے اس وقت تک ہم برآمدات کے اعداد وشمار کو ڈھائی گنا سے بھی زائد یعنی 25 ہزار کروڑ روپئے تک لے جائیں گے۔

برآمدات ہی نہیں بلکہ گزشتہ چار برسوں کے دوران ملک میں قالین کے کاروبار میں بھی تین گنا سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ چار برس پہلے جو بازار 500 کروڑ کا تھا وہ آج 1600 کروڑ روپئے کا بن چکا ہے۔

ملک میں قالین مارکٹ کا دائرہ وسیع ہورہا ہے اس کے پس پشت دو اہم اسباب ہیں ایک تو یہ کہ ملک میں درمیانہ درجے کے طبقے کا مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور دوسرا قالین کی صنعت کیلئے اور اس کی تشہیر و توسیع کیلئے زبردست سہولیات فراہم کرائی جارہی ہیں۔

ساتھیو، اس رجحان کو لیکر ہی ہم چلیں تو ملک میں قالین کی صنعت کے ساتھ ساتھ پورے ٹیکسٹائل سیکٹر کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ آج ہندوستان دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جو چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کارپیٹ بناتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہندوستان کے کارپیٹ فن اور دستکاری کے معاملے میں تو بے نظیر ہوتے ہی ہیں لیکن ساتھ ساتھ ماحول دوست بھی ہوتے ہیں۔ آپ سبھی کی صلاحیتیں اور آپ سبھی کی ہنرمندی کا ہی کمال ہے کہ آج دنیا بھر میں میڈ اِن انڈیا کارپیٹ ایک بڑا برانڈ بن کر اُبھرا ہے۔

ساتھیو، اس برانڈ کو اور مضبوط کرنے کیلئے سرکار ہر طرح کی کوششیں کرنے کے تئیں عہد بستہ ہے۔ کارپیٹ برآمدات کاروں کو پریشانی نہ ہواس کے لئے لاجسٹک سپورٹ کو اور مضبوط کیا جارہا ہے۔ ملک بھر میں گودام اور شو روموں کی سہولت دینے کی اسکیم پر تیزی سے کام جاری ہے۔ اس سے آپ ایک بڑے مارکٹ تک اپنے سامان کو آسانی سے پہنچا سکیں گے۔

یہی نہیں بلکہ ٹیکنالوجی اور کوالٹی کو لیکر بھی سہولیات فراہم کرائی جارہی ہیں۔ بھدوئی اور شری نگر میں قالین کی جانچ کیلئے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کارپیٹ ٹیکنالوجی یعنی آئی آئی سی ٹی قائم کیا گیا ہے ۔ اس میں ایک معتبر لیباریٹری قائم کی گئی ہے، کوشش یہ ہے کہ ہماری مصنوعات نقائص سے پوری طرح پاک یعنی زیر ڈیفیکٹ والے اور زیرو ایفیکٹ والے ہوں اس میں خامی بالکل نہ ہو اور ماحولیات کی تشویش بھی ہماری مصنوعات میں نہ جھلکے۔ اس کے علاوہ قالین کے ساتھ ساتھ دستکاری کے دوسرے سامان کی مارکیٹنگ اور بنکروں کو دیگر سہولتوں کی فراہمی کیلئے بھی متعدد انتظامات کئے گئے ہیں۔ یہاں وارانسی میں ہی 9 کامن فیسلٹی سینٹر اور کامن سروس سینٹر بنائے گئے ہیں ، ان سینٹروں کا فائدہ ہزاروں بنکروں کو حاصل ہورہا ہے۔

ساتھیو، معیار کے علاوہ بنکروں کو چھوٹے چھوٹے کاروباریوں کو پیسے کی کمی کا بھی سامنا کرنا نہ پڑے اس کے لئے بھی متعدد کوششیں کی جارہی ہیں۔ مدرا اسکیم کے تحت 50 ہزار روپئے سے لیکر 10 لاکھ روپئے تک کے گارنٹی قرض کی سہولت دی جارہی ہے جو اپنے آپ میں ایک بہت بڑی مدد ہے۔ بنکروں کیلئے تو مدرا اسکیم میں 10 ہزار روپئے کی مارجن منی کا بھی انتظام رکھا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں اب بنکروں کوجو بھی مدد یا قرض یا جارہا ہے وہ بہت ہی کم وقت میں ان کے کھاتوں میں پہنچ رہا ہے۔ ’’پہچان‘‘ کے نام سے جو شناخت نامہ بنکروں کو دیا گیا ہے اس سے بچولیوں کو درمیان سے ہٹانے میں بڑی مدد ملی ہے۔

اس کے علاوہ بھدوئی – مرزا پور میگا کارپیٹ کلسٹر اور شری نگر کارپیٹ کلسٹر میں بنکروں کو جدید لوم دیے گئے ہیں اور لوم چلانے کی ہنرمندی کیلئے تربیت بھی دی جارہی ہے۔ بنکروں کی ہنرمندی اور صلاحیت میں اضافے کیلئے اسکل ڈیولپمنٹ کے متعدد پروگرام چلائے جارہے ہیں۔

ساتھیو، میں پہلے جب بھی بنکر بھائی بہنوں سے بات کرتا تھا تو ایک بات ضرور سننے کو ملتی تھی وہ یہ کہ ہمارے بچے اب اس کام سے جڑنا نہیں چاہتے۔ اس سے سنگین صورتحال بھلا اور کیا ہوسکتی ہے۔ آج جب ہم کارپیٹ کے معاملے میں دنیا بھر میں سر فہرست ہیں تو ہماری آئندہ نسلوں کو راغب اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔

اسی نشانے کے تحت آئی آئی سی ٹی بھدوئی میں قالین ٹیکنالوجی میں بی ٹیک (B.tech) کا پروگرام چلایا جارہا ہے۔ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی تربیتی اداروں میں اس طرح کے پروگرام شروع کرنے کی اسکیم ہے ، بنکروں کی ہنرمندی کے ساتھ ساتھ ان کی اور ان کے بچوں کی تعلیم پر بھی توجہ دی جارہی ہے۔ غریب بنکر کنبوں کے بچوں کی اسکول فیس کا 75 فیصد حصہ سرکار کے ذریعے ادا کیا جارہا ہے۔

ساتھیو، آپ کا فن اور آپ کی محنت کو ملک کی طاقت بنانے کیلئے بھی سرکار عہد بستہ ہے۔ آنے والے دور میں ملک کے لئے ، بنارس کیلئے اس فن کا مظاہرہ کرنے کے بہت بڑے بڑے مواقع آنے والے ہیں۔

اگلے سال جنوری میں جو غیرمقیم ہندوستانی کانفرنس کا اہتمام کاشی میں ہونے والا ہے وہ بھی تشہیر کا ایک بہت بڑا وسیلہ ثابت ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ دنیا بھر سے آنے والے ہمارے کاروباری ساتھی ہماری دستکاری کے ساتھ ساتھ ہماری تہذیب کی یادوں اور بدلتی کاشی کا بھی لطف لے سکیں گے۔

میں ایک بار پھر آپ سبھی کو دھن تیرس، دیپا ولی چھٹ پوجا کی پیش گی مبارکباد دیتا ہوں اور اس کامیاب تقریب کیلئے کاشی کو بین الاقوامی وقار دلانے کی غرض سے میں متعلقہ وزارت کو ، میرے بنکر بھائیو -بہنوں کو ، ایکسپورٹ، امپورٹ سے جڑے سبھی حضرات کو کاشی آنے کیلئے کاشی کو مرکز وقار بنانے کیلئے پھر سے ایک بار بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔

بہت بہت بشکریہ۔

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address to the Indian Community in Guyana
November 22, 2024
The Indian diaspora in Guyana has made an impact across many sectors and contributed to Guyana’s development: PM
You can take an Indian out of India, but you cannot take India out of an Indian: PM
Three things, in particular, connect India and Guyana deeply,Culture, cuisine and cricket: PM
India's journey over the past decade has been one of scale, speed and sustainability: PM
India’s growth has not only been inspirational but also inclusive: PM
I always call our diaspora the Rashtradoots,They are Ambassadors of Indian culture and values: PM

Your Excellency President Irfan Ali,
Prime Minister Mark Philips,
Vice President Bharrat Jagdeo,
Former President Donald Ramotar,
Members of the Guyanese Cabinet,
Members of the Indo-Guyanese Community,

Ladies and Gentlemen,

Namaskar!

Seetaram !

I am delighted to be with all of you today.First of all, I want to thank President Irfan Ali for joining us.I am deeply touched by the love and affection given to me since my arrival.I thank President Ali for opening the doors of his home to me.

I thank his family for their warmth and kindness. The spirit of hospitality is at the heart of our culture. I could feel that, over the last two days. With President Ali and his grandmother, we also planted a tree. It is part of our initiative, "Ek Ped Maa Ke Naam", that is, "a tree for mother”. It was an emotional moment that I will always remember.

Friends,

I was deeply honoured to receive the ‘Order of Excellence’, the highest national award of Guyana. I thank the people of Guyana for this gesture. This is an honour of 1.4 billion Indians. It is the recognition of the 3 lakh strong Indo-Guyanese community and their contributions to the development of Guyana.

Friends,

I have great memories of visiting your wonderful country over two decades ago. At that time, I held no official position. I came to Guyana as a traveller, full of curiosity. Now, I have returned to this land of many rivers as the Prime Minister of India. A lot of things have changed between then and now. But the love and affection of my Guyanese brothers and sisters remains the same! My experience has reaffirmed - you can take an Indian out of India, but you cannot take India out of an Indian.

Friends,

Today, I visited the India Arrival Monument. It brings to life, the long and difficult journey of your ancestors nearly two centuries ago. They came from different parts of India. They brought with them different cultures, languages and traditions. Over time, they made this new land their home. Today, these languages, stories and traditions are part of the rich culture of Guyana.

I salute the spirit of the Indo-Guyanese community. You fought for freedom and democracy. You have worked to make Guyana one of the fastest growing economies. From humble beginnings you have risen to the top. Shri Cheddi Jagan used to say: "It matters not what a person is born, but who they choose to be.”He also lived these words. The son of a family of labourers, he went on to become a leader of global stature.

President Irfan Ali, Vice President Bharrat Jagdeo, former President Donald Ramotar, they are all Ambassadors of the Indo Guyanese community. Joseph Ruhomon, one of the earliest Indo-Guyanese intellectuals, Ramcharitar Lalla, one of the first Indo-Guyanese poets, Shana Yardan, the renowned woman poet, Many such Indo-Guyanese made an impact on academics and arts, music and medicine.

Friends,

Our commonalities provide a strong foundation to our friendship. Three things, in particular, connect India and Guyana deeply. Culture, cuisine and cricket! Just a couple of weeks ago, I am sure you all celebrated Diwali. And in a few months, when India celebrates Holi, Guyana will celebrate Phagwa.

This year, the Diwali was special as Ram Lalla returned to Ayodhya after 500 years. People in India remember that the holy water and shilas from Guyana were also sent to build the Ram Mandir in Ayodhya. Despite being oceans apart, your cultural connection with Mother India is strong.

I could feel this when I visited the Arya Samaj Monument and Saraswati Vidya Niketan School earlier today. Both India and Guyana are proud of our rich and diverse culture. We see diversity as something to be celebrated, not just accommodated. Our countries are showing how cultural diversity is our strength.

Friends,

Wherever people of India go, they take one important thing along with them. The food! The Indo-Guyanese community also has a unique food tradition which has both Indian and Guyanese elements. I am aware that Dhal Puri is popular here! The seven-curry meal that I had at President Ali’s home was delicious. It will remain a fond memory for me.

Friends,

The love for cricket also binds our nations strongly. It is not just a sport. It is a way of life, deeply embedded in our national identity. The Providence National Cricket Stadium in Guyana stands as a symbol of our friendship.

Kanhai, Kalicharan, Chanderpaul are all well-known names in India. Clive Lloyd and his team have been a favourite of many generations. Young players from this region also have a huge fan base in India. Some of these great cricketers are here with us today. Many of our cricket fans enjoyed the T-20 World Cup that you hosted this year.

Your cheers for the ‘Team in Blue’ at their match in Guyana could be heard even back home in India!

Friends,

This morning, I had the honour of addressing the Guyanese Parliament. Coming from the Mother of Democracy, I felt the spiritual connect with one of the most vibrant democracies in the Caribbean region. We have a shared history that binds us together. Common struggle against colonial rule, love for democratic values, And, respect for diversity.

We have a shared future that we want to create. Aspirations for growth and development, Commitment towards economy and ecology, And, belief in a just and inclusive world order.

Friends,

I know the people of Guyana are well-wishers of India. You would be closely watching the progress being made in India. India’s journey over the past decade has been one of scale, speed and sustainability.

In just 10 years, India has grown from the tenth largest economy to the fifth largest. And, soon, we will become the third-largest. Our youth have made us the third largest start-up ecosystem in the world. India is a global hub for e-commerce, AI, fintech, agriculture, technology and more.

We have reached Mars and the Moon. From highways to i-ways, airways to railways, we are building state of art infrastructure. We have a strong service sector. Now, we are also becoming stronger in manufacturing. India has become the second largest mobile manufacturer in the world.

Friends,

India’s growth has not only been inspirational but also inclusive. Our digital public infrastructure is empowering the poor. We opened over 500 million bank accounts for the people. We connected these bank accounts with digital identity and mobiles. Due to this, people receive assistance directly in their bank accounts. Ayushman Bharat is the world’s largest free health insurance scheme. It is benefiting over 500 million people.

We have built over 30 million homes for those in need. In just one decade, we have lifted 250 million people out of poverty. Even among the poor, our initiatives have benefited women the most. Millions of women are becoming grassroots entrepreneurs, generating jobs and opportunities.

Friends,

While all this massive growth was happening, we also focused on sustainability. In just a decade, our solar energy capacity grew 30-fold ! Can you imagine ?We have moved towards green mobility, with 20 percent ethanol blending in petrol.

At the international level too, we have played a central role in many initiatives to combat climate change. The International Solar Alliance, The Global Biofuels Alliance, The Coalition for Disaster Resilient Infrastructure, Many of these initiatives have a special focus on empowering the Global South.

We have also championed the International Big Cat Alliance. Guyana, with its majestic Jaguars, also stands to benefit from this.

Friends,

Last year, we had hosted President Irfaan Ali as the Chief Guest of the Pravasi Bhartiya Divas. We also received Prime Minister Mark Phillips and Vice President Bharrat Jagdeo in India. Together, we have worked to strengthen bilateral cooperation in many areas.

Today, we have agreed to widen the scope of our collaboration -from energy to enterprise,Ayurveda to agriculture, infrastructure to innovation, healthcare to human resources, anddata to development. Our partnership also holds significant value for the wider region. The second India-CARICOM summit held yesterday is testament to the same.

As members of the United Nations, we both believe in reformed multilateralism. As developing countries, we understand the power of the Global South. We seek strategic autonomy and support inclusive development. We prioritize sustainable development and climate justice. And, we continue to call for dialogue and diplomacy to address global crises.

Friends,

I always call our diaspora the Rashtradoots. An Ambassador is a Rajdoot, but for me you are all Rashtradoots. They are Ambassadors of Indian culture and values. It is said that no worldly pleasure can compare to the comfort of a mother’s lap.

You, the Indo-Guyanese community, are doubly blessed. You have Guyana as your motherland and Bharat Mata as your ancestral land. Today, when India is a land of opportunities, each one of you can play a bigger role in connecting our two countries.

Friends,

Bharat Ko Janiye Quiz has been launched. I call upon you to participate. Also encourage your friends from Guyana. It will be a good opportunity to understand India, its values, culture and diversity.

Friends,

Next year, from 13 January to 26 February, Maha Kumbh will be held at Prayagraj. I invite you to attend this gathering with families and friends. You can travel to Basti or Gonda, from where many of you came. You can also visit the Ram Temple at Ayodhya. There is another invite.

It is for the Pravasi Bharatiya Divas that will be held in Bhubaneshwar in January. If you come, you can also take the blessings of Mahaprabhu Jagannath in Puri. Now with so many events and invitations, I hope to see many of you in India soon. Once again, thank you all for the love and affection you have shown me.

Thank you.
Thank you very much.

And special thanks to my friend Ali. Thanks a lot.