نئیدہلی۔23؍اکتوبر۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کارپیٹ ایکسپو وارانسی سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے جو خطاب کیا تھا اس کا متن حسب ذیل ہے:
نمسکار!
وارانسی میں موجود میری وزارتی کونسل کی ساتھی اسمرتی ایرانی جی، کارپیٹ سیکٹر سے جڑے سبھی کاروباری حضرات ، میرے بُنکر بھائی بہن اور وہاں موجود دیگر سبھی حضرات۔ کاشی کی مقدس سرزمین پر ملک بھر سے آئے اور بیرون ملک سے تشریف لائے آپ سبھی کا میں دل کی گہرائیوں سے خیرمقدم کرتا ہوں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ دنیا کے قریب 38 ملکوں کے ڈھائی سو سے زائد مہمان اس ایکسپو کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ جموں وکشمیر ، مغربی بنگال اور ملک کی دیگر ریاستوں کے بھی کارپیٹ سیکٹر سے جڑے لوگ وہاں موجود ہیں۔ میں بنارس کے ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے آپ سبھی کا بنارس میں بہت بہت استقبال کرتا ہوں۔
ساتھیو، ملک میں آج کل تیوہاروں کا موسم ہے، دسہرے اور دُرگا پوجا کے بعد مجھے ٹیکنالوجی کے وسیلے سے بنارس سے جڑنے کا موقع ملا ہے۔ آپ سبھی لوگ دھن تیرس اور دیوالی کی تیاریوں میں مصروف ہوں گے، یہ سال کا وہ وقت ہوتا ہے جب آپ سبھی سب سے زیادہ مصروف ہوتے ہیں۔ ان دنوں عام دنوں کے مقابلے کام ذرا زیادہ ہوتا ہے کیونکہ مانگ زیادہ ہوتی ہے۔ آپ کی محنت کا ، آپ کے فن کا انعام کو ملے اس کے لئے بھی یہ سب سے بہتر وقت ہوتا ہے۔
ساتھیو، وارانسی اور یوپی کے بنکر اور کاروباری بھائی بہنوں کیلئے تو اس بار کے تیوہار دوہری خوشیاں لے کر کے آئے ہیں۔ دین دیال ہینڈی کرافٹ سینٹر میں پہلی بار انڈیا کارپیٹ ایکسپو کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ اس کے لئے آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد۔ اب دلّی کے ساتھ ساتھ وارانسی میں بھی ہندوستان کی قالین کی صنعت یعنی کارپیٹ انڈسٹری کو ہمارے بنکرو ں کو، ڈیزائنروں کو اور کاروباریوں کو اپنی ہنرمندی اور اپنی پیداوار دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع مل رہا ہے۔
ساتھیو، مجھے خوشی ہے کہ جن نشانوں کو لیکر دین دیال ہینڈی کرافٹ سینٹر کی تعمیر کی گئی تھی ، ان نشانوں کی تکمیل کی طرف ہم انتہائی تیزرفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ یہ شعبہ بنکروں کا اور کارپیٹ صنعت کا ہب ہے۔ یہاں ملک کے ہینڈی کرافٹ سے جڑے تقریباً ایک چوتھائی بنکر ، مزدور اور کاروباری بھائی بہن رہتے ہیں۔ وارانسی ہو، بھدوئی ہو یا مرزا پور ہو، یہ کارپوریٹ صنعت کے مرکز رہے ہیں اور اب مشرقی ہندوستان کا یہ پورا علاقہ ملک کے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کا بھی گلوبل ہب بن رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں دین دیال ہینڈی کرافٹ سینٹر بھی ہینڈی کرافٹ کے معا ملے میں بھی اس بین الاقوامی شناخت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔
ساتھیو، سرکار کی یہ مسلسل کوشش رہی ہے کہ ہینڈی کرافٹ چھوٹے اور اوسط درجے کی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے ٹیکنالوجی سے لیکر تشہیر اور توسیع تک پر زور دیا جائے۔ وہاں سہولیات بہم کرائی جائیں جہاں پر پیداوار ہوتی ہے۔ اس بار وارانسی میں منعقد یہ انڈیا کارپیٹ ایکسپو اسی کڑی میں ایک اور بڑا قدم تو ہے ہی، ساتھ ہی ٹیکسٹائل سیکٹر کیلئے ہمارے فائیو ایپ کے تصور کا بھی اہم ستون ہے اور جب میں فائیو ایپ کہتا ہوں، تو فائیو ایپ کا مطلب ہے فارم سے فائبر تک ، فائبر سے فیکٹری تک ، فیکٹری سے فیشن تک اور فیشن سے فارن تک یہ کسان اور بنکروں کو دنیا بھر کے بازاروں سے سیدھے طور پر جوڑنے کی ایک بہت ہی بڑی کوشش ہے۔
آنے والے چار دنوں کے دوران ان ایکسپو میں ایک سے ایک بہترین ڈیزائنوں کی نمائش کی جائے گی ، کروڑوں روپیوں کاکاروبار ہوگا ، معاہدے ہوں گے، بزنس کے نئے مواقع کھلیں گے اور بنکروں کو نئے آرڈر ملیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ یہاں بیرون ملک سے جو کاروباری بھائی آئے ہیں وہ بھی ہماری تہذیب ، کاشی اور ہندوستان کے بدلے ہوئے کاروباری ماحول کا تجربہ حاصل کرپائیں گے۔
ساتھیو، ہمارے ملک میں ہینڈی کرافٹ کی ایک طویل روایت رہی ہے۔ ہندوستان کے دیہی علاقوں میں آج بھی سوت کاتنے میں ہتھ کرگھے کی عظیم روایت رہی ہے۔ بنارس کی دھرتی کا تو اس میں اور بھی زیادہ اہم کردار رہا ہے۔ بنارس کی جتنی پہچان کبیر سے جڑی ہے اتنی ہی ہینڈی کرافٹ سے بھی جڑی ہے۔ سنت کبیر سوت بھی کاتتے تھے اور اس کے ذریعے زندگی کا پیغام بھی دیتے تھے۔ کبیر داس جی نے کہا ہے۔
کہی کبیر سنو ہو سنتو، چرخا لکھے جو کوئے
جو یہ چرخا لکھ بھئے ، تاکو آواگمن نہ ہوئے
یعنی چرخازندگی کا نچوڑ ہے اور جس نے اسے سمجھ لیا اس نے زندگی کا مفہوم بھی سمجھ لیا۔ جہاں ہینڈی کرافٹ یا دستکاری کو زندگی کے اتنے عظیم فلسفے سے جوڑا گیا ہو وہاں بنکروں کی زندگی کو آسان بنانے کیلئے جب اس طرح کے انتظامات کیے جاتے ہیں تو بڑی تشفی اور اطمینان کاا حساس ہوتا ہے۔
ساتھیو، ہمارے ملک میں دستکاری یعنی ہینڈی کرافٹ ، تجارت اور کاروبار سے بھی بالاتر حوصلہ افزائی کا، آزادی کیلئے جدوجہد کا اور خودکفالتی یعنی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا سب سے بڑاوسیلہ رہا ہے۔ گاندھی جی ،ستیہ گرہ اور چرخے کی ہماری تحریک آزادی میں کیا اہمیت رہی ہے اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔
دستکاری یعنی ہینڈی کرافٹ کے وسیلے سے خودکفالتی کے اس پیغام کو مضبوط بنانے کیلئے آپ سبھی کے تعاون سے سرکار مسلسل کوششیں کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ کارپیٹ یعنی قالین اور غالیچے تیار کرتا ہے۔ گزشتہ چار برسوں سے تو ہاتھ سے بنائے گئے قالین کے معا ملے میں تو ہم دنیا بھر میں ٹاپ پر ہیں یعنی سرفہرست ہیں۔ یہ لاکھوں بنکروں ، ڈیزائنروں ، کاروباریوں کی محنت اور سرکار کی پالیسیوں کے سبب ہی ممکن ہوسکا ہے۔
ساتھیو، آج دنیا بھر کے کارپیٹ بازار کا ایک تہائی سے زائد یعنی 35 فیصد حصہ ہندوستان کے پاس ہے اور آئندہ دو تین برسوں میں 50 فیصد تک ہوجانے کا امکان ہے۔ یعنی آئندہ برسوں میں دنیا میں کارپیٹ کا جتنا بھی کاروبار ہوگا اس کا نصف ہندوستان کے پاس ہوگا یعنی آپ سبھی کے پاس ہوگا۔
ہم نے پچھلے سال 9000 کروڑ روپئے کے قالین برآمد کیے تھے اس سال تقریباً 100 ملکوں کو ہم نے کارپیٹ برآمد کیے ہیں۔ یہ لائق ستائش کام ہے لیکن ہمیں اسے اور آگے بڑھانا ہے۔ ہمیں کوشش کرنی ہے کہ 2022 تک یعنی جب ہماری آزادی کے 75 سال پورے ہوں گے اس وقت تک ہم برآمدات کے اعداد وشمار کو ڈھائی گنا سے بھی زائد یعنی 25 ہزار کروڑ روپئے تک لے جائیں گے۔
برآمدات ہی نہیں بلکہ گزشتہ چار برسوں کے دوران ملک میں قالین کے کاروبار میں بھی تین گنا سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ چار برس پہلے جو بازار 500 کروڑ کا تھا وہ آج 1600 کروڑ روپئے کا بن چکا ہے۔
ملک میں قالین مارکٹ کا دائرہ وسیع ہورہا ہے اس کے پس پشت دو اہم اسباب ہیں ایک تو یہ کہ ملک میں درمیانہ درجے کے طبقے کا مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور دوسرا قالین کی صنعت کیلئے اور اس کی تشہیر و توسیع کیلئے زبردست سہولیات فراہم کرائی جارہی ہیں۔
ساتھیو، اس رجحان کو لیکر ہی ہم چلیں تو ملک میں قالین کی صنعت کے ساتھ ساتھ پورے ٹیکسٹائل سیکٹر کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ آج ہندوستان دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جو چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کارپیٹ بناتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہندوستان کے کارپیٹ فن اور دستکاری کے معاملے میں تو بے نظیر ہوتے ہی ہیں لیکن ساتھ ساتھ ماحول دوست بھی ہوتے ہیں۔ آپ سبھی کی صلاحیتیں اور آپ سبھی کی ہنرمندی کا ہی کمال ہے کہ آج دنیا بھر میں میڈ اِن انڈیا کارپیٹ ایک بڑا برانڈ بن کر اُبھرا ہے۔
ساتھیو، اس برانڈ کو اور مضبوط کرنے کیلئے سرکار ہر طرح کی کوششیں کرنے کے تئیں عہد بستہ ہے۔ کارپیٹ برآمدات کاروں کو پریشانی نہ ہواس کے لئے لاجسٹک سپورٹ کو اور مضبوط کیا جارہا ہے۔ ملک بھر میں گودام اور شو روموں کی سہولت دینے کی اسکیم پر تیزی سے کام جاری ہے۔ اس سے آپ ایک بڑے مارکٹ تک اپنے سامان کو آسانی سے پہنچا سکیں گے۔
یہی نہیں بلکہ ٹیکنالوجی اور کوالٹی کو لیکر بھی سہولیات فراہم کرائی جارہی ہیں۔ بھدوئی اور شری نگر میں قالین کی جانچ کیلئے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کارپیٹ ٹیکنالوجی یعنی آئی آئی سی ٹی قائم کیا گیا ہے ۔ اس میں ایک معتبر لیباریٹری قائم کی گئی ہے، کوشش یہ ہے کہ ہماری مصنوعات نقائص سے پوری طرح پاک یعنی زیر ڈیفیکٹ والے اور زیرو ایفیکٹ والے ہوں اس میں خامی بالکل نہ ہو اور ماحولیات کی تشویش بھی ہماری مصنوعات میں نہ جھلکے۔ اس کے علاوہ قالین کے ساتھ ساتھ دستکاری کے دوسرے سامان کی مارکیٹنگ اور بنکروں کو دیگر سہولتوں کی فراہمی کیلئے بھی متعدد انتظامات کئے گئے ہیں۔ یہاں وارانسی میں ہی 9 کامن فیسلٹی سینٹر اور کامن سروس سینٹر بنائے گئے ہیں ، ان سینٹروں کا فائدہ ہزاروں بنکروں کو حاصل ہورہا ہے۔
ساتھیو، معیار کے علاوہ بنکروں کو چھوٹے چھوٹے کاروباریوں کو پیسے کی کمی کا بھی سامنا کرنا نہ پڑے اس کے لئے بھی متعدد کوششیں کی جارہی ہیں۔ مدرا اسکیم کے تحت 50 ہزار روپئے سے لیکر 10 لاکھ روپئے تک کے گارنٹی قرض کی سہولت دی جارہی ہے جو اپنے آپ میں ایک بہت بڑی مدد ہے۔ بنکروں کیلئے تو مدرا اسکیم میں 10 ہزار روپئے کی مارجن منی کا بھی انتظام رکھا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں اب بنکروں کوجو بھی مدد یا قرض یا جارہا ہے وہ بہت ہی کم وقت میں ان کے کھاتوں میں پہنچ رہا ہے۔ ’’پہچان‘‘ کے نام سے جو شناخت نامہ بنکروں کو دیا گیا ہے اس سے بچولیوں کو درمیان سے ہٹانے میں بڑی مدد ملی ہے۔
اس کے علاوہ بھدوئی – مرزا پور میگا کارپیٹ کلسٹر اور شری نگر کارپیٹ کلسٹر میں بنکروں کو جدید لوم دیے گئے ہیں اور لوم چلانے کی ہنرمندی کیلئے تربیت بھی دی جارہی ہے۔ بنکروں کی ہنرمندی اور صلاحیت میں اضافے کیلئے اسکل ڈیولپمنٹ کے متعدد پروگرام چلائے جارہے ہیں۔
ساتھیو، میں پہلے جب بھی بنکر بھائی بہنوں سے بات کرتا تھا تو ایک بات ضرور سننے کو ملتی تھی وہ یہ کہ ہمارے بچے اب اس کام سے جڑنا نہیں چاہتے۔ اس سے سنگین صورتحال بھلا اور کیا ہوسکتی ہے۔ آج جب ہم کارپیٹ کے معاملے میں دنیا بھر میں سر فہرست ہیں تو ہماری آئندہ نسلوں کو راغب اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔
اسی نشانے کے تحت آئی آئی سی ٹی بھدوئی میں قالین ٹیکنالوجی میں بی ٹیک (B.tech) کا پروگرام چلایا جارہا ہے۔ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی تربیتی اداروں میں اس طرح کے پروگرام شروع کرنے کی اسکیم ہے ، بنکروں کی ہنرمندی کے ساتھ ساتھ ان کی اور ان کے بچوں کی تعلیم پر بھی توجہ دی جارہی ہے۔ غریب بنکر کنبوں کے بچوں کی اسکول فیس کا 75 فیصد حصہ سرکار کے ذریعے ادا کیا جارہا ہے۔
ساتھیو، آپ کا فن اور آپ کی محنت کو ملک کی طاقت بنانے کیلئے بھی سرکار عہد بستہ ہے۔ آنے والے دور میں ملک کے لئے ، بنارس کیلئے اس فن کا مظاہرہ کرنے کے بہت بڑے بڑے مواقع آنے والے ہیں۔
اگلے سال جنوری میں جو غیرمقیم ہندوستانی کانفرنس کا اہتمام کاشی میں ہونے والا ہے وہ بھی تشہیر کا ایک بہت بڑا وسیلہ ثابت ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ دنیا بھر سے آنے والے ہمارے کاروباری ساتھی ہماری دستکاری کے ساتھ ساتھ ہماری تہذیب کی یادوں اور بدلتی کاشی کا بھی لطف لے سکیں گے۔
میں ایک بار پھر آپ سبھی کو دھن تیرس، دیپا ولی چھٹ پوجا کی پیش گی مبارکباد دیتا ہوں اور اس کامیاب تقریب کیلئے کاشی کو بین الاقوامی وقار دلانے کی غرض سے میں متعلقہ وزارت کو ، میرے بنکر بھائیو -بہنوں کو ، ایکسپورٹ، امپورٹ سے جڑے سبھی حضرات کو کاشی آنے کیلئے کاشی کو مرکز وقار بنانے کیلئے پھر سے ایک بار بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
بہت بہت بشکریہ۔