’’ کچھ لوگ وینکیا جی کو مبارکباد دے رہے ہیں ۔ ان کے کام کے لئے اور میں انہیں مبارکباد دے رہا ہو ں کہ انہوں نے اپنی عادتوں کے دائرے سے باہر نکل کرنئے کام کئے ۔میں وینکیا جی کو جب ایوان میں دیکھتا ہوں تو وہ اپنے آپ کو روکنے کے لئے کتنی مشقتیں کرتے ہیں ، اپنے آپ کو باندھنے کے لئے انہیں جو کوششیں کرنی پڑتی ہیں اور ان میں کامیاب ہونا ، میں سمجھتا ہوں بہت بڑا کام ہے ۔ایوان کی کارروائی اگر حسن وخوبی سے چلتی ہے تو کسی کی توجہ اس طرف نہیں جاتی کہ چئیر پر کون بیٹھا ہے ، اس کی کیا اہلیت ہے ، کیا خصوصیت ہے ، یہ باتیں بھی کسی کے ذہن میں نہیں آتیں ، اس کی طاقت کیا ہے ، ممبران کے خیالات کیا ہیں ۔ یہی سب باتیں سرفہرست رہتی ہیں ۔ لیکن جب ایوان کی کارروائی نہیں چل پاتی تو ایوان کی چئیر پر جو شخصیت فائز ہوتی ہے ،اسی پر سب کی توجہ مرکوز رہتی ہے ،وہ کیسے ایوان میں ڈسپلن کا نفاذ کررہے ہیں اورکیسے سب کو روک رہے ہیں ۔گزشتہ برس ملک کو وینکیا جی کو بھی اس منصب پر مصروف کار دیکھنے کا موقع ملا ہے۔اگر ایوان کی کارروائی ٹھیک سے چلی ہوتی تو شاید یہ خوش قسمتی نہ حاصل ہوتی ۔ مجھے وینکیا جی کے ساتھ برسوں کا م کرنے کا موقع ملا ۔ ہم ایک ایسی سیاسی تہذیب میں پلے بڑھے ہیں کہ جب میں اپنی پارٹی کا قومی سکریٹری ہوا کرتا تھا ،وہ آندھرا کے جنرل سکریٹری ہوا کرتے تھے اور جب وہ قومی صد ر بنے تو میں ان کی مدد کے لئے جنرل سکریٹری کے منصب پر کام کررہا تھا۔ یعنی اس طرح سے یہ ثابت کیا جارہا تھا کہ ٹیم میں کیسے کام کیا جاتا ہے ۔منصب کوئی بھی ہو ذمہ داریاں کبھی کم نہیں ہوتیں ۔ منصب سے زیادہ اہمیت کام کی ذمہ داریوں کی ہوتی ہے۔وینکیا جی انہی خطوط پر چلتے رہے ۔
ابھی بتایا گیا کہ وینکیا جی نے ایک سال کی مدت میں ملک کی سبھی ریاستوں کا سفر مکمل کرلیا ۔صرف ایک ریاست چھوٹ گئی ۔ لیکن وہ ریاست بھی اس لئے نہیں چھوٹی کہ اس کا پروگرام نہیں بنا تھا۔دراصل ہیلی کاپٹر نہیں جا پایا تھا ، موسم خراب تھا ورنہ وہ بھی ہوجاتا ۔ہم ایوان میں کام کرتے تھے ۔ کبھی میٹنگ کرکے نکلتے تھے ۔ اس وقت یہ خیال آتا تھا کہ ذرا ان سے رابطہ کریں ، تو معلوم ہوتا تھا کہ وہ تو نکل گئے ۔کیرل پہنچ گئے، تامل ناڈو پہنچ گئے ،آندھرا پردیش پہنچ گئے ۔ یعنی انہوں نے مسلسل جو بھی ذمہ داری انہیں تفویض کی گئی ، انہوں نے اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے اپنے آپ کو اہل بنایا ، اس کے لئے ضروری محنت کرکے اپنے آپ کو اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لائق بنایا ،اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ کامیابیاں حاصل کرتے رہے اور زیر کار علاقوں کو بھی کامیاب بناتے رہے ۔50 سال کی سیاسی زندگی کچھ کم نہیں ہوتی ۔دس سال عوامی زندگی کے طالبعلم کی حیثیت سے وہ بھی سرگر م کارکن کی حیثیت سے اور 40 سالہ راست سیاسی زندگی ،50 سال کی اس طویل مدت کار میں انہوں نے خود بھی بہت کچھ سیکھا ،ساتھیوں کو بھی بہت کچھ سکھایا ۔ ہم سب لوگ ان کے ساتھیوں کی حیثیت سے کام کررہے ہیں ۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی سے اس قدر قریب ہوکر کام کرتے ہیں کہ اس کو پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے ،جاننا ہی مشکل ہوجاتا ہے ۔اگر آپ کسی سے دس فٹ دورکھڑے ہیں تو پتہ چل جاتا ہے لیکن اگر گلے لگاکر بیٹھے ہیں تو پتہ ہی نہیں چل پاتا ۔ یعنی ہم قریب رہے ہیں ،اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہوتا ہے ۔لیکن جب سب لوگوں کے منھ سے یہ سنتے ہیں کہ ہمارے ساتھی میں یہ اہلیت ہے ، یہ صفات ہیں تو اتنا فخر ہوتا ہے ، اتنی خوشی حاصل ہوتی ہے کہ ہمیں ایک ایسی عظیم شخصیت کے ساتھ ایک کارکن کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا ہے ، یہ اپنے آپ میں ایک انتہائی قابل فخر بات ہے ۔
وینکیا جی ڈسپلن پر بہت زور دیتے ہیں ۔ ہمارے ملک ی صورتحال ایسی ہے کہ ڈسپلن کو غیر جمہوری کہنا آسان ہوگیا ہے ۔ کوئی تھوڑا سے بھی ڈسپلن پر زوردے تو سمجھ لو کہ وہ مرگیا۔ آٹو کریٹ ہے ۔معلوم نہہں ساری ڈکشنری کھول کر رکھ دیتے ہیں ، لیکن وینکیا جی جس ڈسپلن پر زور دیتے رہے ہیں ،اس ڈسپلن کی پابندی خود بھی کرتے رہے ہیں ۔وینکیا جی کے ساتھ کبھی دورہ کرنا ہوتو بہت محتاط رہنا پڑتا ہے ۔ وہ گھڑی کبھی نہیں رکھتے ، ان کے پاس قلم نہیں ہوتا ہے اور پیسے بھی نہیں ہوتے ۔کبھی آپ ان کے ساتھ گئے تو سمجھ لیجئے کہ آپ کے پاس ہونا چاہئے ۔لطف کی بات یہ ہے کہ گھڑی نہیں رکھتے لیکن انہیں پروگرام میں بروقت موجود دیکھا جاتا ہے ۔ ڈسپلن کی یہ پابندی قابل تعریف ہے ۔ پروگرام میں وقت پرپہنچنا اوراگر وقت پر مکمل نہیں ہو ا تو انہیں اسٹیج پر دیکھئے کہ وہ کیسے بے چین نظر آتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ اب جلدی کرو بھائی ۔یعنی ڈسپلن ان کی فطرت میں ہے ۔ یہی سبب ہے کہ انہیں جب بھی کوئی ذمہ داری دی گئی اس میں ہمیشہ ایک ویژن کے ساتھ کا م کرنا ،اس کا نقشہ کار بنانا ، اس کا لائحہ عمل طے کرنا اور اسٹریٹجی تیارکرنا اور اس کے لئے ذرائع اور وسائل حاصل کرکے اہل افراد کو جوڑ کر اسے کامیاب کرنا ، یہی ان کا ہالسٹک ویو رہتا ہے ۔
جب وہ پہلی بار وزیر بنے تو اٹل جی کے ذہن میں انہیں کوئی بڑا یا اہم محکمہ دینے کا ارادہ نہیں تھا ۔ انگریزی میں بھی وہ اہل تھے۔ جنوب کی نمائندگی کرتے تھے ،تو اٹل جی کے دل میں تھا کہ انہیں وزارتی کونسل میں حصہ لینا ہے۔ میں اس وقت جنرل سکریٹری ہوا کرتا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ بھائی مجھے کیوں ایسے پھنسارہے ہو ۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا تو بولے یہ میرا کام نہیں ہے ۔ میں نے پوچھا آپ کیا کام کریں گے تو بولے میں جاکر اٹل جی کو بتادوں گا ۔میں نے کہا کہ ضرور جائیے اور انہیں بتائیے ،لیکن آپ کو یہ جان کرحیرت ہوگی کہ انہوں نے اٹل جی کے پاس جاکر زوردیتے ہوئے کہا کہ مجھے ایسے بڑے بڑے محکمے مت دیجئے ، مجھے دیہی ترقی کا محکمہ دیجئے ۔ میں اس میں اپنی زندگی کھپانا چاہتا ہوں ۔ یعنی بڑے اچھے تام جھام والے اہم محکموں کے دائرے سے نکل کر مجھے دیہی ترقیات کا محکمہ چاہئے ۔وہ فطرتاََکسان ہیں ، زندگی اور رجحان سے بھی کسان ہیں کسان کے لئے کچھ کرنا ،کسان کے لئے کچھ ہونا ، یہ باتیں ان کے ذہن میں ایسی بھری ہوئی ہیں کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی اسی طرح گزاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دیہی ترقی میں دلچسپی لیتے ہیں ۔ جیسا کہ ارون جی نے کہا ،پردھان منتری گرام سڑک یوجنا سب سے زیادہ موثر پروگرام ہے اور سبھی سرکاروں میں جاری رہا ہے ۔اگر کسی ممبر پارلیمنٹ کے دماغ میں سب سے پہلے کوئی بات آتی ہے ، کوئی مطالبہ رہتا ہے تو وہ اپنے علاقے میں پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کی عمل آوری چاہتا ہے ۔یہ باتیں سبھی ممبران پارلیمنٹ کے ذہنوں میں داخل کرنے کا فخر اگر کسی کو حاصل ہوسکتا ہے تو وہ جناب ایم وینکیا نائیڈو جی ہیں ۔ ویسا ہی پانی ،دیہی زندگی میں پانی ، پینے کا پانی ، یہ کچھ ایسے کام ہیں جن کے تئیں وہ ہمیشہ عہد بستہ رہتے ہیں ، اس کے لئے وہ اپنا وقت اور طاقت دونوں کھپاتےرہتے تھے ۔آج بھی جب ایوان میں ایسے موضوعات پر بحث چل جاتی ہے تو وہ سب سے زیادہ پریشان ہوجاتے ہیں۔انہیں لگتا ہے کہ خارجہ پالیسی پر اگر ایک دن بحث نہ بھی ہوتو دیکھا جائے گا لیکن جب گاؤں کی بات آتی ہے ، کسان کی بات آتی ہے تو ایوان میں اس پر بحث ہونی چاہئے کہ کیا ہورہا ہے ۔یعنی ان کے داخل میں اضطراب پیدا ہوتا ہے وہ ملک کے عام انسان کی فلاح کے لئے ان کی جو آرزو ہے ،اس کے لئے ہے ۔
جن لوگوں نے انہیں مقرر کی حیثیت سے تیلگو زبان میں تقریر کرتے ہوئے سنا ہے تو آپ ان کی تقریر کی رفتار سے اپنے آپ کو مطابق ہی نہیں کرسکتے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ لوکل ٹرین میں بیٹھے ہیں اور وہ سپر فاسٹ ایکسپریس چلارہے ہیں ۔ اس قدر تیز رفتاری سے بولتے ہیں اور اس میں بھی نظریات کا اثر کیسے پیدا ہوتا ہے ، وہ دیکھتے ہی بنتا ہے ۔ ان کی تُک بندی بھی سہل ہوتی ہے ۔ یہ تک بندی ان کی عوامی تقریر میں بھی موجود ہوتی ہے ۔آس پاس بیٹھے لوگوں میں بھی تک بندی میں ہی بات کرتے ہیں ۔الفاظ کا جوڑ فوراََ آجاتا ہے ۔ایوان میں اس کا فائدہ سبھی کو مل رہا ہے ۔ میں اس بات کے لئے پوری ٹیم کو مبارکباددیتا ہوں کہ انہوں نے ایک سال کا حساب ملک کو دینے کی چھوٹی سی کوشش کی ہے ۔میں مانتا ہوں کہ اس سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس منصب اور اس ادارے کو بھی سماج کے مفاد کے لئے کس طرح کام میں لایا جاسکتا ہے ، کس طرح اس میں نیا پن پیدا کیا جاتا ہے ،کس طرح اس میں رفتار پیدا کی جاسکتی ہے ، یہ ادارہ اپنے آپ میں بھی ملک کے دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ کس طرح کوآپریٹ کرکے آگے بڑھ رہا ہے ،اس کا خاکہ اس تصنیف میں پیش کیا گیا ہے ۔
ایک طرح سے یہ لگتا تو ہے کہ نائب صدر جمہوریہ کی ایک سال کی مدت کار کی تفصیل یہ تصنیف ہے ، لیکن جب دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس فیملی البم میں ہم بھی کہیں نہ کہیں موجود ہیں ۔ کوئی ایم پی دکھائی دیتا ہے ،کوئی وائس چانسلر دکھائی دیتا ہے ،کوئی چیف منسٹر دکھائی دیتا ہے تو ان کے ساتھ بھی اس ریاست کے ساتھ بھی ،دور دراز کے علاقوں میں کس طرح سے کام کے تعلق سے بیداری کی کوششیں کی گئی ہیں۔ ان کوششوں کو بھی اس تصنیف میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ میں وینکیا جی کو بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں ۔ ان کی جو خواہش ہے کہ ایوان کی کارروائی بے روک اور حسن وخوبی سے چلے ، ایوان میں سنجیدہ بحث ہو ، ایوان میں بحث میں اس طرح کی باتیں نکلیں جو ملک کے کام آئیں ، مجھے یقین ہے کہ ان کا یہ خواب ان کی مسلسل کوششوں سے عملی شکل اختیار کرسکے گا ۔ وینکیا جی کوبہت بہت نیک خواہشات ۔ بہت بہت شکریہ !