وینکیا نائیڈو جی کو جو بھی ذمہ داری سونپی گئی، اسے انہوں نے ازحد جاں فشانی سے انجام دیا اور اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے مطلوب کردار میں اپنے آپ کو باآسانی ڈھال لیا: وزیر اعظم مودی
جناب وینکیا نائیڈو میں سبھی طبقوں کے عوام کا دل جیتنے کی صلاحیت ہے۔ وہ نظم و ضبط کے بھی پابند ہیں : وزیر اعظم مودی
وینکیا نائیڈو جی کو جب بھی ذمہ داری سونپی جاتی ہے ، وہ ہمیشہ بصیرت پر مبنی قیادت پیش کرتے ہیں۔ سونپے گئے کام کو بہتر طریقے سے انجام دینے کو یقینی بنانے کے لئے وہ سب سے بہتر ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہیں: وزیر اعظم مودی
وینکیا جی دل سے کسان ہیں۔ وہ کاشتکاروں اور زراعت کی فلاح و بہبود کے لئے پرجوش ہیں : وزیر اعظم مودی
پردھان منتری گرام سڑک یوجنا ،وینکیا نائیڈو جی کی کوششوں کے نتیجے میں ہی وجود میں آئی: وزیر اعظم مودی

’’ کچھ لوگ وینکیا جی کو مبارکباد دے رہے ہیں ۔ ان کے کام کے لئے اور میں انہیں مبارکباد دے رہا ہو ں کہ انہوں نے اپنی عادتوں کے دائرے سے باہر نکل کرنئے کام کئے ۔میں وینکیا جی کو جب ایوان میں دیکھتا ہوں تو وہ اپنے آپ کو روکنے کے لئے کتنی مشقتیں کرتے ہیں ، اپنے آپ کو باندھنے کے لئے انہیں جو کوششیں کرنی پڑتی ہیں اور ان میں کامیاب ہونا ، میں سمجھتا ہوں بہت بڑا کام ہے ۔ایوان کی کارروائی اگر حسن وخوبی سے چلتی ہے تو کسی کی توجہ اس طرف نہیں جاتی کہ چئیر پر کون بیٹھا ہے ، اس کی کیا اہلیت ہے ، کیا خصوصیت ہے ، یہ باتیں بھی کسی کے ذہن میں نہیں آتیں ، اس کی طاقت کیا ہے ، ممبران کے خیالات کیا ہیں ۔ یہی سب باتیں سرفہرست رہتی ہیں ۔ لیکن جب ایوان کی کارروائی نہیں چل پاتی تو ایوان کی چئیر پر جو شخصیت فائز ہوتی ہے ،اسی پر سب کی توجہ مرکوز رہتی ہے ،وہ کیسے ایوان میں ڈسپلن کا نفاذ کررہے ہیں اورکیسے سب کو روک رہے ہیں ۔گزشتہ برس ملک کو وینکیا جی کو بھی اس منصب پر مصروف کار دیکھنے کا موقع ملا ہے۔اگر ایوان کی کارروائی ٹھیک سے چلی ہوتی تو شاید یہ خوش قسمتی نہ حاصل ہوتی ۔ مجھے وینکیا جی کے ساتھ برسوں کا م کرنے کا موقع ملا ۔ ہم ایک ایسی سیاسی تہذیب میں پلے بڑھے ہیں کہ جب میں اپنی پارٹی کا قومی سکریٹری ہوا کرتا تھا ،وہ آندھرا کے جنرل سکریٹری ہوا کرتے تھے اور جب وہ قومی صد ر بنے تو میں ان کی مدد کے لئے جنرل سکریٹری کے منصب پر کام کررہا تھا۔ یعنی اس طرح سے یہ ثابت کیا جارہا تھا کہ ٹیم میں کیسے کام کیا جاتا ہے ۔منصب کوئی بھی ہو ذمہ داریاں کبھی کم نہیں ہوتیں ۔ منصب سے زیادہ اہمیت کام کی ذمہ داریوں کی ہوتی ہے۔وینکیا جی انہی خطوط پر چلتے رہے ۔

ابھی بتایا گیا کہ وینکیا جی نے ایک سال کی مدت میں ملک کی سبھی ریاستوں کا سفر مکمل کرلیا ۔صرف ایک ریاست چھوٹ گئی ۔ لیکن وہ ریاست بھی اس لئے نہیں چھوٹی کہ اس کا پروگرام نہیں بنا تھا۔دراصل ہیلی کاپٹر نہیں جا پایا تھا ، موسم خراب تھا ورنہ وہ بھی ہوجاتا ۔ہم ایوان میں کام کرتے تھے ۔ کبھی میٹنگ کرکے نکلتے تھے ۔ اس وقت یہ خیال آتا تھا کہ ذرا ان سے رابطہ کریں ، تو معلوم ہوتا تھا کہ وہ تو نکل گئے ۔کیرل پہنچ گئے، تامل ناڈو پہنچ گئے ،آندھرا پردیش پہنچ گئے ۔ یعنی انہوں نے مسلسل جو بھی ذمہ داری انہیں تفویض کی گئی ، انہوں نے اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے اپنے آپ کو اہل بنایا ، اس کے لئے ضروری محنت کرکے اپنے آپ کو اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لائق بنایا ،اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ کامیابیاں حاصل کرتے رہے اور زیر کار علاقوں کو بھی کامیاب بناتے رہے ۔50 سال کی سیاسی زندگی کچھ کم نہیں ہوتی ۔دس سال عوامی زندگی کے طالبعلم کی حیثیت سے وہ بھی سرگر م کارکن کی حیثیت سے اور 40 سالہ راست سیاسی زندگی ،50 سال کی اس طویل مدت کار میں انہوں نے خود بھی بہت کچھ سیکھا ،ساتھیوں کو بھی بہت کچھ سکھایا ۔ ہم سب لوگ ان کے ساتھیوں کی حیثیت سے کام کررہے ہیں ۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی سے اس قدر قریب ہوکر کام کرتے ہیں کہ اس کو پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے ،جاننا ہی مشکل ہوجاتا ہے ۔اگر آپ کسی سے دس فٹ دورکھڑے ہیں تو پتہ چل جاتا ہے لیکن اگر گلے لگاکر بیٹھے ہیں تو پتہ ہی نہیں چل پاتا ۔ یعنی ہم قریب رہے ہیں ،اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہوتا ہے ۔لیکن جب سب لوگوں کے منھ سے یہ سنتے ہیں کہ ہمارے ساتھی میں یہ اہلیت ہے ، یہ صفات ہیں تو اتنا فخر ہوتا ہے ، اتنی خوشی حاصل ہوتی ہے کہ ہمیں ایک ایسی عظیم شخصیت کے ساتھ ایک کارکن کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا ہے ، یہ اپنے آپ میں ایک انتہائی قابل فخر بات ہے ۔

وینکیا جی ڈسپلن پر بہت زور دیتے ہیں ۔ ہمارے ملک ی صورتحال ایسی ہے کہ ڈسپلن کو غیر جمہوری کہنا آسان ہوگیا ہے ۔ کوئی تھوڑا سے بھی ڈسپلن پر زوردے تو سمجھ لو کہ وہ مرگیا۔ آٹو کریٹ ہے ۔معلوم نہہں ساری ڈکشنری کھول کر رکھ دیتے ہیں ، لیکن وینکیا جی جس ڈسپلن پر زور دیتے رہے ہیں ،اس ڈسپلن کی پابندی خود بھی کرتے رہے ہیں ۔وینکیا جی کے ساتھ کبھی دورہ کرنا ہوتو بہت محتاط رہنا پڑتا ہے ۔ وہ گھڑی کبھی نہیں رکھتے ، ان کے پاس قلم نہیں ہوتا ہے اور پیسے بھی نہیں ہوتے ۔کبھی آپ ان کے ساتھ گئے تو سمجھ لیجئے کہ آپ کے پاس ہونا چاہئے ۔لطف کی بات یہ ہے کہ گھڑی نہیں رکھتے لیکن انہیں پروگرام میں بروقت موجود دیکھا جاتا ہے ۔ ڈسپلن کی یہ پابندی قابل تعریف ہے ۔ پروگرام میں وقت پرپہنچنا اوراگر وقت پر مکمل نہیں ہو ا تو انہیں اسٹیج پر دیکھئے کہ وہ کیسے بے چین نظر آتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ اب جلدی کرو بھائی ۔یعنی ڈسپلن ان کی فطرت میں ہے ۔ یہی سبب ہے کہ انہیں جب بھی کوئی ذمہ داری دی گئی اس میں ہمیشہ ایک ویژن کے ساتھ کا م کرنا ،اس کا نقشہ کار بنانا ، اس کا لائحہ عمل طے کرنا اور اسٹریٹجی تیارکرنا اور اس کے لئے ذرائع اور وسائل حاصل کرکے اہل افراد کو جوڑ کر اسے کامیاب کرنا ، یہی ان کا ہالسٹک ویو رہتا ہے ۔

جب وہ پہلی بار وزیر بنے تو اٹل جی کے ذہن میں انہیں کوئی بڑا یا اہم محکمہ دینے کا ارادہ نہیں تھا ۔ انگریزی میں بھی وہ اہل تھے۔ جنوب کی نمائندگی کرتے تھے ،تو اٹل جی کے دل میں تھا کہ انہیں وزارتی کونسل میں حصہ لینا ہے۔ میں اس وقت جنرل سکریٹری ہوا کرتا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ بھائی مجھے کیوں ایسے پھنسارہے ہو ۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا تو بولے یہ میرا کام نہیں ہے ۔ میں نے پوچھا آپ کیا کام کریں گے تو بولے میں جاکر اٹل جی کو بتادوں گا ۔میں نے کہا کہ ضرور جائیے اور انہیں بتائیے ،لیکن آپ کو یہ جان کرحیرت ہوگی کہ انہوں نے اٹل جی کے پاس جاکر زوردیتے ہوئے کہا کہ مجھے ایسے بڑے بڑے محکمے مت دیجئے ، مجھے دیہی ترقی کا محکمہ دیجئے ۔ میں اس میں اپنی زندگی کھپانا چاہتا ہوں ۔ یعنی بڑے اچھے تام جھام والے اہم محکموں کے دائرے سے نکل کر مجھے دیہی ترقیات کا محکمہ چاہئے ۔وہ فطرتاََکسان ہیں ، زندگی اور رجحان سے بھی کسان ہیں کسان کے لئے کچھ کرنا ،کسان کے لئے کچھ ہونا ، یہ باتیں ان کے ذہن میں ایسی بھری ہوئی ہیں کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی اسی طرح گزاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دیہی ترقی میں دلچسپی لیتے ہیں ۔ جیسا کہ ارون جی نے کہا ،پردھان منتری گرام سڑک یوجنا سب سے زیادہ موثر پروگرام ہے اور سبھی سرکاروں میں جاری رہا ہے ۔اگر کسی ممبر پارلیمنٹ کے دماغ میں سب سے پہلے کوئی بات آتی ہے ، کوئی مطالبہ رہتا ہے تو وہ اپنے علاقے میں پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کی عمل آوری چاہتا ہے ۔یہ باتیں سبھی ممبران پارلیمنٹ کے ذہنوں میں داخل کرنے کا فخر اگر کسی کو حاصل ہوسکتا ہے تو وہ جناب ایم وینکیا نائیڈو جی ہیں ۔ ویسا ہی پانی ،دیہی زندگی میں پانی ، پینے کا پانی ، یہ کچھ ایسے کام ہیں جن کے تئیں وہ ہمیشہ عہد بستہ رہتے ہیں ، اس کے لئے وہ اپنا وقت اور طاقت دونوں کھپاتےرہتے تھے ۔آج بھی جب ایوان میں ایسے موضوعات پر بحث چل جاتی ہے تو وہ سب سے زیادہ پریشان ہوجاتے ہیں۔انہیں لگتا ہے کہ خارجہ پالیسی پر اگر ایک دن بحث نہ بھی ہوتو دیکھا جائے گا لیکن جب گاؤں کی بات آتی ہے ، کسان کی بات آتی ہے تو ایوان میں اس پر بحث ہونی چاہئے کہ کیا ہورہا ہے ۔یعنی ان کے داخل میں اضطراب پیدا ہوتا ہے وہ ملک کے عام انسان کی فلاح کے لئے ان کی جو آرزو ہے ،اس کے لئے ہے ۔

جن لوگوں نے انہیں مقرر کی حیثیت سے تیلگو زبان میں تقریر کرتے ہوئے سنا ہے تو آپ ان کی تقریر کی رفتار سے اپنے آپ کو مطابق ہی نہیں کرسکتے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ لوکل ٹرین میں بیٹھے ہیں اور وہ سپر فاسٹ ایکسپریس چلارہے ہیں ۔ اس قدر تیز رفتاری سے بولتے ہیں اور اس میں بھی نظریات کا اثر کیسے پیدا ہوتا ہے ، وہ دیکھتے ہی بنتا ہے ۔ ان کی تُک بندی بھی سہل ہوتی ہے ۔ یہ تک بندی ان کی عوامی تقریر میں بھی موجود ہوتی ہے ۔آس پاس بیٹھے لوگوں میں بھی تک بندی میں ہی بات کرتے ہیں ۔الفاظ کا جوڑ فوراََ آجاتا ہے ۔ایوان میں اس کا فائدہ سبھی کو مل رہا ہے ۔ میں اس بات کے لئے پوری ٹیم کو مبارکباددیتا ہوں کہ انہوں نے ایک سال کا حساب ملک کو دینے کی چھوٹی سی کوشش کی ہے ۔میں مانتا ہوں کہ اس سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس منصب اور اس ادارے کو بھی سماج کے مفاد کے لئے کس طرح کام میں لایا جاسکتا ہے ، کس طرح اس میں نیا پن پیدا کیا جاتا ہے ،کس طرح اس میں رفتار پیدا کی جاسکتی ہے ، یہ ادارہ اپنے آپ میں بھی ملک کے دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ کس طرح کوآپریٹ کرکے آگے بڑھ رہا ہے ،اس کا خاکہ اس تصنیف میں پیش کیا گیا ہے ۔

ایک طرح سے یہ لگتا تو ہے کہ نائب صدر جمہوریہ کی ایک سال کی مدت کار کی تفصیل یہ تصنیف ہے ، لیکن جب دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس فیملی البم میں ہم بھی کہیں نہ کہیں موجود ہیں ۔ کوئی ایم پی دکھائی دیتا ہے ،کوئی وائس چانسلر دکھائی دیتا ہے ،کوئی چیف منسٹر دکھائی دیتا ہے تو ان کے ساتھ بھی اس ریاست کے ساتھ بھی ،دور دراز کے علاقوں میں کس طرح سے کام کے تعلق سے بیداری کی کوششیں کی گئی ہیں۔ ان کوششوں کو بھی اس تصنیف میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ میں وینکیا جی کو بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں ۔ ان کی جو خواہش ہے کہ ایوان کی کارروائی بے روک اور حسن وخوبی سے چلے ، ایوان میں سنجیدہ بحث ہو ، ایوان میں بحث میں اس طرح کی باتیں نکلیں جو ملک کے کام آئیں ، مجھے یقین ہے کہ ان کا یہ خواب ان کی مسلسل کوششوں سے عملی شکل اختیار کرسکے گا ۔ وینکیا جی کوبہت بہت نیک خواہشات ۔ بہت بہت شکریہ !

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
India's Economic Growth Activity at 8-Month High in October, Festive Season Key Indicator

Media Coverage

India's Economic Growth Activity at 8-Month High in October, Festive Season Key Indicator
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address to the Indian Community in Guyana
November 22, 2024
The Indian diaspora in Guyana has made an impact across many sectors and contributed to Guyana’s development: PM
You can take an Indian out of India, but you cannot take India out of an Indian: PM
Three things, in particular, connect India and Guyana deeply,Culture, cuisine and cricket: PM
India's journey over the past decade has been one of scale, speed and sustainability: PM
India’s growth has not only been inspirational but also inclusive: PM
I always call our diaspora the Rashtradoots,They are Ambassadors of Indian culture and values: PM

Your Excellency President Irfan Ali,
Prime Minister Mark Philips,
Vice President Bharrat Jagdeo,
Former President Donald Ramotar,
Members of the Guyanese Cabinet,
Members of the Indo-Guyanese Community,

Ladies and Gentlemen,

Namaskar!

Seetaram !

I am delighted to be with all of you today.First of all, I want to thank President Irfan Ali for joining us.I am deeply touched by the love and affection given to me since my arrival.I thank President Ali for opening the doors of his home to me.

I thank his family for their warmth and kindness. The spirit of hospitality is at the heart of our culture. I could feel that, over the last two days. With President Ali and his grandmother, we also planted a tree. It is part of our initiative, "Ek Ped Maa Ke Naam", that is, "a tree for mother”. It was an emotional moment that I will always remember.

Friends,

I was deeply honoured to receive the ‘Order of Excellence’, the highest national award of Guyana. I thank the people of Guyana for this gesture. This is an honour of 1.4 billion Indians. It is the recognition of the 3 lakh strong Indo-Guyanese community and their contributions to the development of Guyana.

Friends,

I have great memories of visiting your wonderful country over two decades ago. At that time, I held no official position. I came to Guyana as a traveller, full of curiosity. Now, I have returned to this land of many rivers as the Prime Minister of India. A lot of things have changed between then and now. But the love and affection of my Guyanese brothers and sisters remains the same! My experience has reaffirmed - you can take an Indian out of India, but you cannot take India out of an Indian.

Friends,

Today, I visited the India Arrival Monument. It brings to life, the long and difficult journey of your ancestors nearly two centuries ago. They came from different parts of India. They brought with them different cultures, languages and traditions. Over time, they made this new land their home. Today, these languages, stories and traditions are part of the rich culture of Guyana.

I salute the spirit of the Indo-Guyanese community. You fought for freedom and democracy. You have worked to make Guyana one of the fastest growing economies. From humble beginnings you have risen to the top. Shri Cheddi Jagan used to say: "It matters not what a person is born, but who they choose to be.”He also lived these words. The son of a family of labourers, he went on to become a leader of global stature.

President Irfan Ali, Vice President Bharrat Jagdeo, former President Donald Ramotar, they are all Ambassadors of the Indo Guyanese community. Joseph Ruhomon, one of the earliest Indo-Guyanese intellectuals, Ramcharitar Lalla, one of the first Indo-Guyanese poets, Shana Yardan, the renowned woman poet, Many such Indo-Guyanese made an impact on academics and arts, music and medicine.

Friends,

Our commonalities provide a strong foundation to our friendship. Three things, in particular, connect India and Guyana deeply. Culture, cuisine and cricket! Just a couple of weeks ago, I am sure you all celebrated Diwali. And in a few months, when India celebrates Holi, Guyana will celebrate Phagwa.

This year, the Diwali was special as Ram Lalla returned to Ayodhya after 500 years. People in India remember that the holy water and shilas from Guyana were also sent to build the Ram Mandir in Ayodhya. Despite being oceans apart, your cultural connection with Mother India is strong.

I could feel this when I visited the Arya Samaj Monument and Saraswati Vidya Niketan School earlier today. Both India and Guyana are proud of our rich and diverse culture. We see diversity as something to be celebrated, not just accommodated. Our countries are showing how cultural diversity is our strength.

Friends,

Wherever people of India go, they take one important thing along with them. The food! The Indo-Guyanese community also has a unique food tradition which has both Indian and Guyanese elements. I am aware that Dhal Puri is popular here! The seven-curry meal that I had at President Ali’s home was delicious. It will remain a fond memory for me.

Friends,

The love for cricket also binds our nations strongly. It is not just a sport. It is a way of life, deeply embedded in our national identity. The Providence National Cricket Stadium in Guyana stands as a symbol of our friendship.

Kanhai, Kalicharan, Chanderpaul are all well-known names in India. Clive Lloyd and his team have been a favourite of many generations. Young players from this region also have a huge fan base in India. Some of these great cricketers are here with us today. Many of our cricket fans enjoyed the T-20 World Cup that you hosted this year.

Your cheers for the ‘Team in Blue’ at their match in Guyana could be heard even back home in India!

Friends,

This morning, I had the honour of addressing the Guyanese Parliament. Coming from the Mother of Democracy, I felt the spiritual connect with one of the most vibrant democracies in the Caribbean region. We have a shared history that binds us together. Common struggle against colonial rule, love for democratic values, And, respect for diversity.

We have a shared future that we want to create. Aspirations for growth and development, Commitment towards economy and ecology, And, belief in a just and inclusive world order.

Friends,

I know the people of Guyana are well-wishers of India. You would be closely watching the progress being made in India. India’s journey over the past decade has been one of scale, speed and sustainability.

In just 10 years, India has grown from the tenth largest economy to the fifth largest. And, soon, we will become the third-largest. Our youth have made us the third largest start-up ecosystem in the world. India is a global hub for e-commerce, AI, fintech, agriculture, technology and more.

We have reached Mars and the Moon. From highways to i-ways, airways to railways, we are building state of art infrastructure. We have a strong service sector. Now, we are also becoming stronger in manufacturing. India has become the second largest mobile manufacturer in the world.

Friends,

India’s growth has not only been inspirational but also inclusive. Our digital public infrastructure is empowering the poor. We opened over 500 million bank accounts for the people. We connected these bank accounts with digital identity and mobiles. Due to this, people receive assistance directly in their bank accounts. Ayushman Bharat is the world’s largest free health insurance scheme. It is benefiting over 500 million people.

We have built over 30 million homes for those in need. In just one decade, we have lifted 250 million people out of poverty. Even among the poor, our initiatives have benefited women the most. Millions of women are becoming grassroots entrepreneurs, generating jobs and opportunities.

Friends,

While all this massive growth was happening, we also focused on sustainability. In just a decade, our solar energy capacity grew 30-fold ! Can you imagine ?We have moved towards green mobility, with 20 percent ethanol blending in petrol.

At the international level too, we have played a central role in many initiatives to combat climate change. The International Solar Alliance, The Global Biofuels Alliance, The Coalition for Disaster Resilient Infrastructure, Many of these initiatives have a special focus on empowering the Global South.

We have also championed the International Big Cat Alliance. Guyana, with its majestic Jaguars, also stands to benefit from this.

Friends,

Last year, we had hosted President Irfaan Ali as the Chief Guest of the Pravasi Bhartiya Divas. We also received Prime Minister Mark Phillips and Vice President Bharrat Jagdeo in India. Together, we have worked to strengthen bilateral cooperation in many areas.

Today, we have agreed to widen the scope of our collaboration -from energy to enterprise,Ayurveda to agriculture, infrastructure to innovation, healthcare to human resources, anddata to development. Our partnership also holds significant value for the wider region. The second India-CARICOM summit held yesterday is testament to the same.

As members of the United Nations, we both believe in reformed multilateralism. As developing countries, we understand the power of the Global South. We seek strategic autonomy and support inclusive development. We prioritize sustainable development and climate justice. And, we continue to call for dialogue and diplomacy to address global crises.

Friends,

I always call our diaspora the Rashtradoots. An Ambassador is a Rajdoot, but for me you are all Rashtradoots. They are Ambassadors of Indian culture and values. It is said that no worldly pleasure can compare to the comfort of a mother’s lap.

You, the Indo-Guyanese community, are doubly blessed. You have Guyana as your motherland and Bharat Mata as your ancestral land. Today, when India is a land of opportunities, each one of you can play a bigger role in connecting our two countries.

Friends,

Bharat Ko Janiye Quiz has been launched. I call upon you to participate. Also encourage your friends from Guyana. It will be a good opportunity to understand India, its values, culture and diversity.

Friends,

Next year, from 13 January to 26 February, Maha Kumbh will be held at Prayagraj. I invite you to attend this gathering with families and friends. You can travel to Basti or Gonda, from where many of you came. You can also visit the Ram Temple at Ayodhya. There is another invite.

It is for the Pravasi Bharatiya Divas that will be held in Bhubaneshwar in January. If you come, you can also take the blessings of Mahaprabhu Jagannath in Puri. Now with so many events and invitations, I hope to see many of you in India soon. Once again, thank you all for the love and affection you have shown me.

Thank you.
Thank you very much.

And special thanks to my friend Ali. Thanks a lot.