نئی دہلی،9؍ستمبر۔اقوام متحدہ کی انسداد بنجر کاری مہم سے متعلق اقوام متحدہ کنونشن برائے انسداد بنجر کاری کے 14ویں کوپ (سی او پی) اجلاس میں شرکت کے لئے آپ سب کی بھارت آمد کا میں خیرمقدم کرتا ہوں۔ میں اس کنونشن کے بھارت میں انعقاد کے لئے ایگزیکٹیو سکریٹری جناب ابراہیم جیو کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس کنونشن کے لئے ریکارڈ تعداد میں جو رجسٹریشن ہوئے ہیں، ان سے زمین کی بنجر کاری کو روکنے کے کام کے تئیں عالمی عہدبستگی کا اظہار ہوتا ہے۔
بھارت ایک مؤثر تعاون کا منتظر ہے، کیونکہ ہم دو سالہ مدت کی مشترکہ صدارت کی ذمہ داری سنبھالنے والے ہیں۔
ہمارے دیرینہ رفقائے کار، ہم نے بھارت میں ہمیشہ زمین کو اہمیت دی ہے۔ بھارتی تہذیب میں زمین کومقدس تصور کیا جاتا ہے اور اس سے ماں کی طرح سلوک کیا جاتا ہے۔
صبح میں جب ہم بیدار ہوتے وقت اپنے قدموں سے ز مین کو چھوتے ہیں، تو ہم پرارتھنا کے ذریعہ اپنی ماں جیسی زمین سے معافی کے طلب گار ہوتے ہیں۔
समुद्र वसने देवी पर्वत- स्तन-मंडले
विष्णु पत्नी नमस तुभियम पाद-स्पर्शं क्षमस्व-मे
دوستو!موسم اور ماحول کا حیاتیاتی تنوع اور زمین دونوں پر اثر پڑتا ہے۔ یہ بات وسیع پیمانے پر تسلیم کی گئی ہے کہ دنیا کو آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات کا سامنا ہے۔ یہ بات زمین اور پودوں اور جانوروں کی انواع کے ضیاں کی شکل میں دیکھی جا سکتی ہے، جس سے وجود کو ہی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے سبب مختلف طرح سے زمین کی زرخیزی بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ چاہے ایسا سطح سمندر میں اضافے کے سبب ہو یا لہروں کی کارستانی کے سبب ہو، چاہے غیر متوازن آندھی اور دھول بھری بارش کے سبب ہو، جو گرم درجۂ حرارت کا نتیجہ ہے۔
خواتین و حضرات! بھارت نے سبھی تین کنونشنوں کے لئے کوپ کے توسط سے عالمی اجتماع کی میزبانی کی ہے۔ اس سے ریوکنونشن میں نشانزد کئے گئے تینوں اہم مسائل کے تدارک کے تئیں ہماری عہدبستگی کا اظہار ہوتا ہے۔
آگے بڑھتے ہوئے بھار ت کو آب و ہوا کی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع اور زمین کی کم ہوتی زرخیزی جیسے مسائل کے حل کے لئے وسیع تر جنوب-جنوب تعاون کے لئے اقدامات کی تجویز پیش کرتے ہوئے خوشی ہوگی۔
دوستو! آپ کو یہ جان کر دکھ ہوگا کہ دنیا کے 23 سے زیادہ ملکوں پربنجر کاری کے اثرات ہیں۔ اس وجہ سے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم زمین کے محاذ پر کوئی کارروائی کریں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ دنیا کو پانی کے جس بحران کا سامنا ہے، ا س کا بھی تدارک ضروری ہو جاتا ہے، کیونکہ جب زمین کی کم ہوتی زرخیزی کے مسئلے کا حل کر رہے ہوتے ہیں، تو ہم پانی کی قلت کے مسئلے کا بھی حل نکال رہے ہوتے ہیں۔
پانی کی سپلائی میں اضافہ کرنا، پانی کے ریچارج کو بڑھانا، پانی کے یوں ہی ضائع ہونے کی رفتار کو کم کرنا اور زمین میں نمی کو بحال کرنا ، یہ سب زمین اور پانی سے متعلق جامع حکمت عملی کے اجزا ہیں۔ میں یو این سی سی ڈی دقیادت سے اپیل کروں گا کہ وہ ایک عالمی آبی کارروائی ایجنڈا تیار کریں، جو کہ زمین کی زرخیزی میں آ رہی کمی کو روکنے کی حکمت عملی کا انتہائی اہم حصہ ہے۔
دوستو! پائیدار ترقی کےلئے زمین کی صحت کو بحال کرنا انتہائی اہم ہے۔ آج مجھے بھارت کے ان اشاریات کی یاد دہانی کرائی گئی، جنہیں یو این ایف سی سی سی میں پیرس کوپ کے موقع پر پیش کیا گیا تھا۔ اس میں زمین، پانی، ہوا، پیڑ پودوں اور سبھی جانداروں کے درمیان ایک صحتمند توازن کو برقرار رکھنے سے متعلق بھارت کی گہری ثقافتی جڑوں کو نمایاں کیا گیا تھا۔
دوستو! آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ بھارت پیڑپودوں کے اپنے تناسب میں اضافہ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ 2015 سے 2017 کے دوران بھارت کے پیڑ پودوں اور جنگلات کے تناسب میں 0.8 ملین ہیکٹیئرکا اضافہ ہوا ہے۔
بھارت میں اگر ترقیاتی مقاصد کے لئے کسی جنگلاتی زمین کا رُخ تبدیل کیا جاتا ہے، تو اس کی بھرپائی پیڑ لگانے کےلئے اتنی ہی زمین دستیاب کرا کر کرنی ہوگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے جنگلاتی زمین کی لکڑیوں کی جو قیمت ہے، اس کی ادائیگی بھی کی جائے۔
مجھے آپ سے یہ بات مشترک کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ صرف گزشتہ ہفتہ تقریباً 6 بلین امریکی ڈالر یعنی 40 سے 50 ہزار کروڑ روپے ریاستی حکومتوں کو ایسے ڈائیورژن کے عوض جنگلاتی زمینوں کے فروغ کےلئے ادا کیا گیا۔
میری حکومت نے متعدد اقدامات کےذریعہ فصل کی پیداوارمیں اضافہ کر کے کسانوں کی آمدنی دو گنی کرنے کا ایک پروگرام شروع کیاہے۔ اس پروگرام میں زمین کی بازیابی اور چھوٹی سینچائی شامل ہیں۔ ہم ‘‘ پرڈراپ مور کراپ’’ یعنی ہر قطرے سے زیادہ سے زیادہ پیداوار کے اصول پر کام کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہم زیرو بجٹ والی قدرتی کاشتکاری پر بھی توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ ہم نے ہر قطعۂ اراضی کی مٹی کے معیار کے تعین کےلئے بھی ایک اسکیم متعارف کی ہے اور کسانوں کو مٹی صحت کارڈ جاری کر رہے ہیں۔ اس سے انہیں اس بات میں مدد ملتی ہے کہ وہ صحیح قسم کی فصل اُگائیں، صحیح کھادوں اور پانی کی صحیح مقدار کا استعمال کریں۔ اب تک تقریباً217 ملین مٹی صحت کارڈ تقسیم کئے جا چکے ہیں۔ ہم حیاتیاتی کھادوں کا استعمال بڑھا رہے ہیں اور جراثیم کُش ادویات اور کیمیاوی کھادوں کے استعمال میں کمی کر رہے ہیں۔
آبی بندوبست ایک ا ہم امر ہے۔ ہم نے پانی سے متعلق سبھی اہم امور کے حل کے لئے جل شکتی کی وزارت قائم کی ہے۔ ہر شکل میں پانی کی قدروقیمت کو تسلیم کرتے ہوئے ہم نے متعدد صنعتی اعمال میں زیرو لکویڈڈِسچارج کا نفاذ کیا ہے۔ ریگولیٹری نظام بے کار پانی کا اس حد تک ٹریٹمنٹ کرنے کا انتظام کرتا ہے کہ اسے پانی میں موجود جانداروں کی زندگی کو نقصان پہنچائے بغیر دریائی نظام میں واپس بھیجا جا سکے۔
دوستو! میں آپ کی توجہ زمین کی گرتی زرخیزی کی ایک اورقسم کی طرف مبذول کرانا چاہوں گا، جس کی اگر روک تھام نہ کی گئی، تو اسےدوبارہ زرخیز بنانا نا ممکن ہو جائے گا۔یہ پلاسٹک کچرےکا معاملہ ہے، جہاں اس کے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، یہ زمینوں کو غیر زرخیز اور نا قابل کاشت بنا دیتاہے۔
میری حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ہندوستان آنے والے برسوں میں ایک بار استعمال ہونے والے پلاسٹک پر پابندی عائد کر دے گا۔ ہم ماحولیات دوست متبادل کے فروغ اور پلاسٹک جمع کرنے اور اسے ٹھکانے لگانےکے ایک مؤثر نظام کی تخلیق کے تئیں پابند عہد ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ وہ وقت آ چکا ہے، جب دنیا ایک بار استعمال کئے جا سکنے والے پلاسٹک کے استعمال کو خداحافظ کہہ دے۔
دوستو! انسانوں کو بااختیار بنانے کا کام ماحولیات کی صورتحال سے گہرائی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ معاملہ چاہے پانی کے وسائل کو بڑھانے کا ہو یا ایک بار استعمال میں آنے والے پلاسٹک کے استعمال کو کم کرنے کا ہو، آگے ہمیں اس سلسلے میں اپنے رویے میں تبدیلی لانی ہوگی۔ یہ تبھی ممکن ہے، جب سماج کے سبھی طبقات مطلوبہ نتائج کو حاصل کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
ہم کوئی سابھی لائحہ عمل متعارف کرسکتے ہیں، لیکن حقیقی تبدیلی زمینی سطح پر ٹیم ورک سے ہی آئے گی۔ ہندوستان نے اسے سووچھ بھارت مشن کے معاملے میں دیکھا ہے۔ سماج کے سبھی شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اس میں شرکت کی اور اسے یقینی بنایا۔ 2014میں سینیٹیشن کوریج جہاں 38 فیصد تھا، وہ آج بڑھ کر 99 فیصد ہو گیا ہے۔
میں ایسا ہی جذبہ اس وقت بھی محسوس کر رہا ہوں، جب ایک بار قابل استعمال پلاسٹک کے خاتمے کویقینی بنانے کی بات آئے گی۔ نوجوان خاص طور پر اس معاملے میں زیادہ معاون ہیں اور مثبت تبدیلی لانےمیں قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ میڈیا بھی گراں قدر رول ادا کر رہا ہے۔
دوستو! میں گلوبل لینڈ ایجنڈے کے تئیں مزید عہدبستگی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ میں ان ملکوں کو ہندوستان کے تعاون کی پیشکش کرتاہوں، جو ایل ڈی ایم (لینڈ ڈیگریڈیشن نیوٹرالیٹی) حکمت عملی کو سمجھنااور برتنا چاہتے ہیں، جو ہندوستان میں کامیاب رہا ہے۔ اس فورم سے میں اعلان کرنا چاہتاہوں کہ ہندوستان زمین کی گرتی ہوئی زرخیزی سے متعلق اپنے کُل رقبے کے تئیں عزم کو بڑھاکر اب سے 2030 کے دوران 21 ملین ہیکٹیئر سے 26 ملین ہیکٹیئر کرے گا۔
اس سے پیڑ لگا کر اضافی کاربن سِن کے تئیں ہندوستان کے بڑے عزم کو بھی تعاون ملے گا۔ اسے 2.5 بلین ایم ٹی سے بڑھا کر 3 بلین ایم ٹی کرنے کا ہدف ہے۔
ہم ہندوستان میں زمین کی بازیابی سمیت کئی طرح کے کاموں میں ریموٹ سینسنگ اور اسپیس ٹیکنالوجی کے استعمال پر فخر محسوس کر رہے ہیں۔ ہندوستان سستے سیٹلائٹ اور اسپیس ٹیکنالوجی کے توسط سے لینڈ ریسٹوریشن اسٹریٹجی تیار کرنے میں دیگر دوست نواز ملکوں کی مدد کرنے میں خوشی محسوس کرے گا۔
زمین کی کم ہوتی زرخیزی کے مسئلے کو حل کرنے کے سلسلے میں سائنسی نقطۂ نظر اپنانے اور ٹیکنالوجی کاسہارا لینے کے لئے ہم نے انڈین کونسل فار فاریسٹ ریسرچ اینڈ ایجوکیشن میں ایک سینٹرآف ایکسلینس قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ خصوصی سرگرمی کے ساتھ ان لوگوں کے لئے، جو نالج، ٹیکنالوجی اور افراد کی تربیت کے سلسلے میں جنوب-جنوب تعاون کو فروغ دینے کا کام کرے گا۔
دوستو!میں سمجھ رہا ہوں کہ ایک انتہائی اہم نیو ڈیلہی ڈیکلیریشن پر غور کیا جار ہاہے۔ ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ پائیدار ترقیاتی اہداف کو 2030 تک حاصل کیا جانا ہے، جس کا ایل ڈی این بھی ایک حصہ ہے۔ آپ لینڈ ڈیگریڈیشن نیوٹرلیٹی کے سلسلے میں گلوبل اسٹریٹجی تیار کرنے کے سلسلے میں جو غوروخوض کرنے والے ہیں، اس کے تئیں میں نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔
میں اپنی بات کا اختتام ہماری قدیم ترین کتابوں میں سے ایک میں مذکور انتہائی مقبول دعاکے ساتھ کرنا چاہتا ہوں۔
ओम् द्यौः शान्तिः, अन्तरिक्षं शान्तिः
لفظ شانتی کا مطلب صرف امن یا تشدد مخالف نہیں ہے۔ یہاں اس کا مطلب خوشحالی سے ہے۔ ہر چیز کا اپنا ایک قانون ہے۔ ایک مقصد ہے اور ہر شخص کو اپنا مقصد پورا کرنا ہے۔
اس مقصد کی تکمیل خوشحالی ہے۔
ओम् द्यौः शान्तिः, अन्तरिक्षं शान्तिः
اس کا مطلب ہے آسمان، آفاق اور خلاء پھولیں پھلیں۔
पृथिवी शान्तिः,
आपः शान्तिः,
ओषधयः शान्तिः, वनस्पतयः शान्तिः, विश्वेदेवाः शान्तिः,
ब्रह्म शान्तिः
دھرتی ماں خوشحال بنے
اس میں وہ نباتات و حیوانات شامل ہیں، جو ہمارے کرہ پر موجود ہیں۔
وہ پھولیں پھلیں
پانی کی ہر بوند پھولے پھلے
دیوی دیوتا پھولیں پھلیں
सर्वं शान्तिः,
शान्तिरेव शान्तिः,
सा मे शान्तिरेधि।।
ہر شخص پھولے پھلے
میں بھی اس خوشحالی سے فیض یاب ہوں
ओम् शान्तिः शान्तिः शान्तिः।।
اوم خوشحالی، خوشحالی،
خوشحالی،
ہمارے آباو اجداد کی فکرو فلسفہ سب کو گلے لگانے اور عظیم خیالات سے پُر تھا۔ انہوں نے میں اور ہم کے درمیان کے حقیقی تعلق کو محسوس کیا۔ وہ جانتے تھے کہ میری خوشحالی، ہماری خوشحالی کے توسط سے ہی ہو سکتی ہے۔
جب ہمارے آبا و اجداد نے کہاہم ، تو اس سے ان کی مراد صرف اپنا خاندان یا اپنی برادری یا صرف انسان نہیں تھے۔
اس میں آسمان، پانی، پودے، درخت ہر چیز شامل تھی۔
وہ جس تسلسل کے ساتھ امن اور خوشحالی کی دعائیں مانگتے تھے، وہ بھی بہت اہم ہے۔
وہ آسمان کے لئے ، زمین کے لئے ، پانی کے لئے، پودوں کے لئے دعا مانگتے تھے۔یہ وہ چیزیں ہیں، جن پر ہماری زندگی کا دارومدار ہے۔ یہی وہ چیز یں ہیں، جنہیں ہم ماحول کہتے ہیں۔ اگر یہ چیزیں خوشحال بنیں گی، تب میں خوشحال بنوں گا۔ یہ ان کا منتر تھا۔ آج بھی یہ انتہائی موزوں خیال ہے۔
اسی جذبے کے ساتھ میں ایک بار پھر اس سربراہ اجلاس میں شرکت کے لئے آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔
شکریہ
آپ کا بہت بہت شکریہ