نئی دہلی ،12؍جنوری: نمستے! امار پریو بنگلار بھائی او بونیرا! اِنگریزی نابو بارسیر ہاردک شبھوکاموناایبانگ آسونو مکر سنکرانتی اوپولاککھے اپنا دیر شوبھیکچھا!!
مغربی بنگال کے گورنر جناب جگدیپ دھن کھڑ جی، مرکزی کابینہ کے میرے معاون منسکھ مانڈویا جی، یہاں موجود حکومت ہند کے دیگر وزرا، اراکین پارلیمنٹ اور بڑی تعداد میں یہاں تشریف فرما مغربی بنگال کی میری بہنوں اور بھائیوں۔
ماں گنگا کی قربت میں، گنگا ساگر کے قریب، ملک کی آبی قوت کی اس تاریخی علامت پر، اس تقریب کا حصہ بننا ہم سب کے لئے انتہائی خوش قسمتی کی بات ہے۔ آج کا یہ دن کولکاتا پورٹ ٹرسٹ کے لئے، اس سے وابستہ لوگوں کے لئے، یہاں کام کرچکے ساتھیوں کے لئے تو بہت ہی اہم موقع ہے۔ ہندوستان میں بندرگاہ پر مبنی ترقی کو نئی توانائی دینے کا بھی میں سمجھتا ہوں، اس سے بڑا کوئی موقع نہیں ہوسکتا۔قیام کے 150 ویں سال میں داخل کرنے کے لئے کولکاتا پورٹ ٹرسٹ سے وابستہ آپ سبھی ساتھیوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں، بے شمار نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو، تھوڑی دیر پہلے یہاں آج کے اس لمحے کی گواہی دینے والے ڈاک ٹکٹ جاری کئے گئے۔ اسی کے ساتھ اس ٹرسٹ کے ملازمین اور یہاں کام کرچکے ہزاروں سابق ملازمین کی پنشن کے لئے 500 کروڑ روپے کا چیک بھی سونپا گیا۔ خاص طور پر 100 سال سے زیادہ عمر کے بزرگ شخصیات کو نوازنے کا فخر مجھے حاصل ہوا ۔ کولکاتا پورٹ ٹرسٹ کے ذریعے سے ملک کی خدمت کرنے والے ایسے تمام معززین کو اور ان کے اہل خانہ کو میں سلام کرتا ہوں، ان کے بہتر مستقبل کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔
ساتھیو، اس بندرگاہ کی توسیع اور جدید کاری کے لئے آج سینکڑوں کروڑ روپے کے انفرااسٹرکچر پروجیکٹس کی نقاب کشائی اور سنگ بنیاد بھی رکھا گیا۔ آدی واسی بیٹیوں کی تعلیم اور فروغ ہنرمندی کے لئے ہوسٹل اور فروغ ہنر مندی سینٹر کا بھی سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ ترقی کی ان تمام سہولتوں کے لئے بھی مغربی بنگال کے سبھی شہریوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو، کولکاتا بندرگاہ صرف جہازوں کے آنے جانے کی جگہ نہیں ہے، یہ ایک پوری تاریخ کو اپنے آپ میں سمیٹے ہوئے ہے۔ اس بندرگاہ نے ہندوستان کو غیر ملکی حکومت سے سوراج حاصل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ستیہ گرہ سے لے کر سووچھا گرہ تک اس بندرگاہ نے ملک کو بدلتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ بندرگاہ صرف مال برداروں کی ہی جگہ نہیں رہی بلکہ ملک اور دنیا پر چھاپ چھوڑنے والے علم کے علمبرداروں کے قدم بھی اس بندرگاہ پر پڑے ہیں۔ متعدد منیشیوں نے متعدد مواقع پر یہیں سے دنیا کے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔
ایک طرح سے کولکاتا کی یہ بندرگاہ ہندوستان کی صنعتی، روحانی اور خود انحصاری کی آرزوؤں کی جیتی جاگتی علامت ہے۔ ایسے میں جب یہ بندرگاہ 150 ویں سال میں داخل ہورہی ہے، تب اس کو نیو انڈیا کی تعمیر کی بھی ایک توانا علامت بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
مغربی بنگال کی، ملک کے اسی جذبے کو سلام کرتے ہوئے میں کولکاتا پورٹ ٹرسٹ کا نام ہندوستان کی صنعت کاری کے نقیب، بنگال کی ترقی کا خواب لیکر جینے والے اور ایک ملک ، ایک قانون کے لئے قربانی دینے والے ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کے نام پر کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ اب یہ بندرگاہ ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی پورٹ کے نام سے جانی جائے گی۔
ساتھیو! مغربی بنگال کے سپوت ، ڈاکٹر مکھرجی نے ملک میں صنعت کاری کی بنیاد رکھی تھی۔ چترنجن لوکو موٹیو فیکٹری، ہندوستان ایئر کرافٹ فیکٹری، سِندری کھاد کارخانہ اور دامودر ویلی کارپوریشن، ایسے متعدد بڑے پروجیکٹوں کی ترقی میں ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کا بہت بڑا تعاون رہا ہے اور آج اس موقع پر میں بابا صاحب امبیڈکر کو بھی یاد کرتا ہوں، انہیں سلام کرتا ہوں، ڈاکٹر مکھرجی اور بابا صاحب امبیڈکر نے دونوں نے آزادی کے بعد کے ہندوستان کے لئے نئی نئی پالیسیاں دی تھیں، نیا تصور دیا تھا۔
ڈاکٹر مکھرجی کی بنائی پہلی صنعتی پالیسی میں ملک کے آبی وسائل کے مناسب استعمال پر زور دیا گیا تھا تو بابا صاحب نے ملک کی پہلی آبی وسائل پالیسی اور مزدوروں سے متعلق قوانین بنانے کے تعلق سے اپنے تجربات کا استعمال کیا۔ ملک میں ندی گھاٹی پروجیکٹوں ، باندھوں اوربندرگاہوں کی تعمیر تیزی سے ہوپائی تو اس کا بڑا سہرہ ان دونوں عظیم سپوتوں کو جاتا ہے۔ ان دونوں شخصیات نے ملک کے وسائل کی طاقت کو سمجھا تھا، اس کے ملک کی ضرورتوں کے مطابق استعمال پر زور دیا تھا ۔
یہیں کولکاتا میں 1944 میں نئی آبی پالیسی کے تعلق سے ہوئی کانفرنس میں بابا صاحب نے کہا تھا کہ بھارت کی آبی راہوں سے متعلق پالیسی وسیع ہونی چاہیے۔ اس میں سینچائی، بجلی اور آمد و رفت جیسے ہر پہلو کو شامل کیا جانا چاہئے۔ لیکن یہ ملک کی بدقسمتی رہی کہ ڈاکٹر مکھرجی اور بابا صاحب کے حکومت سے ہٹنے کے بعد ان کے مشوروں پر اس طرح سے عمل نہیں کیا گیا جس طرح سے کیا جانا چاہئے تھا۔
ساتھیو!بھارت کا عظیم سمندری ساحل تقریباً 7500 کلومیٹر طویل ہے۔ دنیا میں ساحل سمندر سے جڑا ہونا آج بھی بہت بڑی طاقت مانا جاتا ہے۔ لینڈ لاکڈ ممالک میں آپ کو کبھی کبھی بے بس محسوس کرتے ہیں۔ پرانے زمانے میں ہندوستان کی بھی ایک بڑی طاقت تھی۔ گجرات کی لوتھل بندرگاہ سے لیکر کولکاتا بندرگاہ تک دیکھیں تو ہندوستان کی طویل ساحلی لائن سے پوری دنیا میں تجارت ہوتی تھی اور تہذیب و ثقافت کی اشاعت بھی ہوتی تھی۔ سال 2014 کے بعد ہندوستان کی اس طاقت کو پھر سے مضبوط کرنے کے لئے نئے سرے سے سوچا گیا، نئی توانائی کے ساتھ کام شروع کیا گیا۔
ساتھیو! ہماری حکومت یہ تسلیم کرتی ہے کہ ہندوستان کی بندرگاہیں ، ہندوستان کی خوشحالی کے داخلے کے دروازے ہیں اور اس لئے حکومت نے ساحلوں پر کنکٹی وٹی اور وہاں کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کےلئے ساگر مالا پروگرام شروع کیا۔ ساگر مالا پروجیکٹ کے تحت ملک میں موجود بندرگاہوں کی جدید کاری اور ایک نئی بندرگاہ کے فروغ کا کام مسلسل کیا جارہا ہے۔ سڑک، ریلوے لائن، بین ریاستی آبی راہوں اور ساحلی ٹرانسپورٹ کو مربوط کیا جارہا ہے۔ یہ پروجیکٹ ساحلی نقل و حمل کے ذریعہ مال کی ڈھلائی میں اضافہ کرنے میں بہت اہم کردار ادا کررہا ہے۔
اس یوجناکے تحت قریب چھ لاکھ روپے سے زائد کے پونے چھ سو پروجیکٹ کی شناخت کی جاچکی ہے۔ ان میں سے تین لاکھ کروڑ روپے سے زائد کے 200 سے زیادہ پروجیکٹ پر کام چل رہا ہے اور لگ بھگ سوا سو مکمل بھی ہوچکے ہیں۔
ساتھیو! حکومت کی کوشش ہے کہ ٹرانسپورٹیشن (نقل و حمل) کا پورا فریم ورک جدید اور مربوط ہوں۔ ہمارے ملک میں ٹرانسپورٹ پالیسیوں میں جو عدم توازن تھا اسے بھی دور کیاجارہاہے ، اس میں بھی مشرقی ہندوستان اور شمال مشرق خطے کو اندرونی ملک آبی گزارگاہ یعنی جل مارگ پر مبنی یوجناؤں سے خصوصی فائدہ حاصل ہورہا ہے اور آنے والے وقت میں جل شکتی کے ذریعے پورے شمال مشرق کو جوڑنے کا نیٹ ورک ہندوستان کی ترقی میں ایک اہم باب کی شکل میں ابھر کر آنے والا ہے۔
بہنو اور بھائیو! کولکاتہ تو جل سے منسلک ترقی کے معاملے میں اور بھی خوش قسمت ہے۔ کولکاتہ پورٹ ملک کی سمندری چکر میں بھی ہے اور ندی کے متصل بھی واقع ہے۔ اس طرح سے یہ ملک کے اندر اور ملک کے باہر کے آبی گزرگاہوں کا ایک طرح سے سنگم ہے۔
آپ سبھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہلدیہ اور بنارس کے بیچ گنگا جی میں جہازوں کی آمدو رفت شروع ہوچکی ہے اور میں کاشی کا ایم پی ہوں، اس لیے فطری طور سے آپ کے ساتھ سیدھا جڑ چکا ہوں۔ ملک کی اس پہلی جدید اندرون ملک آبی گزرگاہ کو پوری طرح سے تیار کرنے کے لئے تیزی سے کام چل رہا ہے۔
اس سال ہلدیہ میں کثیر ماڈل ٹرمنل اورفرکّا میں نیویگیشنل لاک کو تیار کرنے کی کوشش ہے۔سال 2021 تک گنگا میں بڑے جہاز بھی چل سکے اس کے لئے بھی ضروری گہرائی بنانے کا کام جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گنگا جی کو آسام کے پانڈو میں برہمپتر سے جوڑنے والی اندرون ملک آبی گزرگاہ -2پر بھی کارگو ٹرانسپورٹیشن شروع ہو چکا ہے۔ندی میں آبی گزرگاہ کی سہولتوں کے تیار ہونے سے کولکاتہ بندرگاہ مشرقی ہندوستان کے صنعتی مراکز سے تو جڑ ا ہی ہے، نیپال ، بنگلہ دیش، بھوٹان اور میانمار جیسے ملکوں کے لئے تجارت اور آسان ہوگئی ہے۔
ساتھیو!ملک کی بندرگاہوں میں جدید ترین سہولتوں کی تعمیر ، کنکٹی ویٹی کا بہتر انتظام ، بندوبست میں اصلاحات، جیسے متعدد اقدامات کے سبب کارگو کے کلیئرنس اور اس کے ٹرانسپورٹیشن سے جڑی وقت میں کمی آئی ہے۔
ٹرن آراؤنڈ ٹائم پچھلے پانچ برس میں گھٹ کر لگ بھگ آدھا ہوگیا ہے۔یہ ایک بڑی وجہ ہے، جس کے سبب ہندوستان کی تجارت کرنے کی آسانی کی درجہ بندی میں 79درجے کی بہتری ہوئی ہے۔
ساتھیو! آنے والے وقت میں واٹر کنکٹی ویٹی کی توسیع کا بہت زیادہ فائدہ مغربی بنگال کو ہوگا،کولکاتہ ہوگا، یہاں کے کسانوں، صنعت کاروں اور محنت کش افراد کو ہوگا۔ یہاں کے میرے ماہی گیر بھائیوں بہنوں کو ہوگا۔
ہمارے ماہی گیر بھائی پانی کا پورا استعمال کرپائیں اس کے لئے حکومت بلیو ریوولوشن اسکیم(نیلے انقلاب کی اسکیم)چل رہی ہے۔ اس کے تحت انہیں اس شعبے میں ویلیو ایڈیشن کرنے کے ساتھ ساتھ ٹرالرس کے جدید کاری میں بھی مدد کی جارہی ہے۔ کسان کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ماہی گیروں کو اب بینکوں سے سستا اور آسان قرض بھی دستیاب ہورہا ہے۔ ایک طرف ہم نے الگ جل شکتی کی وزارت بنائی ہے، اسی کو طاقت دینے اور اسی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ لینے والی الگ ماہی گیری کی وزارت بھی بنائی ہے۔ یعنی ترقی کو ہم کہاں لے جانا چاہتے ہیں، کس سمت میں جانا چاہتے ہیں، اس کا اشارہ ان چیزوں میں بھی مخفی ہے۔
ساتھیو!بندرگاہ کی قیادت میں ترقی نے ایک وسیع ماحولی نظام تیار کیا ہے۔ یہ آبی دولت سیاحت، سمندری سیاحت، دریا کے پانی کی سیاحت کے لئے بھی استعمال ہورہی ہے۔آج کل لوگ سمندری سیر کے لئے بیرون ملک جاتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں ہمارے یہاں بہت آسانی سے تیار کی جاسکتی ہیں۔ یہ خوش آئند اتفاق ہے کہ مغربی بنگال کے فن و ثقافت سے متعلق بڑے مراکز کی جدید کاری کا آغاز کل ہو ا تھا اور آج یہاں آبی سیاحت سے متعلق ایک بڑی اسکیم کا آغاز کیاگیا ہے۔
ریور فرنٹ ڈیولپمنٹ اسکیم مغربی بنگال کی سیاحت کی صنعت کو ایک نئی جہت فراہم کرنے جارہی ہے۔یہاں کہ 32 ایکڑ اراضی پر جب گنگا جی کے درشن کے لئے آرام دہ سہولیات تیار کی جائیں گی ، تب اس سے سیاحوں کو بھی فائدہ ہوگا۔
بہنو اور بھائیو! صرف کولکاتہ میں ہی نہیں ، حکومت کے ذریعے پورے ملک میں بندرگاہوں سے متصل شہروں اور کلسٹرز میں ایکویریم، واٹر پارک، سمندری میوزیم، کروز اور واٹر اسپورٹس کے لئے ضروری بنیادی ڈھانچے تعمیر کی جارہی ہے۔
مرکزی حکومت کروز پر مبنی سیاحت کو بھی فروغ دے رہی ہے۔ ملک میں کروز جہازوں کی تعداد جو اس وقت ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہے ہم اسے بڑھا کر 1000تک پہنچانے کے مقصد کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ مغربی بنگال کو بھی اس توسیع کا یقینی طورپر فائدہ ملنے والا ہے۔ خلیج بنگال میں واقع جزائر کو بھی ملنے والا ہے۔
ساتھیو! مغربی بنگال کی ترقی کے لئے مرکزی حکومت کی جانب سے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ بالخصوص ، غریبوں ، دلتوں، محروم طبقات، استحصال کے شکار اور پسماندہ افراد کی ترقی کے لئے خصوصی کوششیں کی جارہی ہیں۔
مغربی بنگال میں لگ بھگ 90لاکھ غریب بہنوں کو اجولا یوجنا کے تحت گیس کا کنکشن میں ملا ہے۔ اس میں بھی 35 لاکھ سے زائد بہنیں دلت اور آدی واسی پریوار سے تعلق رکھتی ہیں۔
جیسے ہی ریاستی حکومت آیوشمان بھارت یوجنا، پی ایم کسان سمّان ندھی کے لئے منظوری دے دی گی ، میں نہیں جانتاہوں کہ دے گی یا نہیں دے گی، لیکن اگر یہ دے دے گی تویہاں کے لوگوں کو ان اسکیموں کا بھی فائدہ ملنے لگے گا۔
اور ویسے آپ کو بتاد وں کہ آیوشمان بھارت کے تحت ملک کے قریب قریب 75لاکھ غریب مریضوں کو سنگین بیماری کی صورتحات میں مفت علاج مل چکا ہے اور آپ تصور کرسکتے ہیں جب غریب بیماری سے جوجھتا ہے تب جینے کی بھی امید چھوڑ دیتا ہے۔ جب غریب کو بیماری سے بچنے کا سہارا مل جاتا ہے تو اس کے آشیرواد انمول ہوتے ہیں۔ آج میں چین کی نیند سوپاتاہوں، کیونکہ ایسے غریب پریوار لگاتار آشیرواد برساتے رہتے ہیں۔
اسی طرح پی ایم کسان سمّان ندھی کے تحت ملک کے 8کروڑ سے زیادہ کسان کنبوں کے بینک کھاتے میں لگ بھگ 43 ہزار کروڑ روپے سیدھے فوائد کی براہ راست منتقلی (ڈی بی ٹی) کے تحت ان کے بینک کھاتے میں جمع ہوچکے ہیں۔کوئی بچولیہ نہیں، کوئی کٹ نہیں، کوئی سنڈیکیٹ نہیں، جب براہ راست پہنچتا ہے، کٹ ملتا نہیں، سنڈیکیٹ کا چلتا نہیں، ایسی اسکیم کوئی کیوں لاگو کرے گا۔
ملک کے8کروڑکسانوں کو اتنی بڑی مدد ، لیکن میرے دل میں ہمیشہ درد رہے گا ، میں ہمیشہ چاہوں گا ، خدا سے دعا کروں گا کہ پالیسی بنانے والوں کو عقل عطا کرے اور غریبوں کو بیماری میں مدد کے لئے آیوشمان بھارت یوجنا اور کسانوں کی زندگی میں سکون اور شانتی کا راستہ پکا ہو، اس کے لئے پردھان منتری کسان سمان ندھی کا فائدہ میرے بنگال کے غریبوں کو ملے، میرے بنگال کے کسانوں کو ملے۔ آج بنگال کے عوام کا مزاج میں جانتا ہوں اچھی طرح جانتا ہوں۔ بنگال کے عوام کی طاقت ہے کہ اب ان اسکیموں سے لوگوں کو محروم کوئی نہیں رکھ پائے گا۔
ساتھیو!مغربی بنگال کے متعد بہادر بیٹے ، بیٹوں نے جس گاؤں اور غریب کے لئے آواز اٹھائی، ان کی ترقی ہماری ترجیح ہونی چاہئے۔ یہ کسی ایک فرد کی، کسی ایک حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ پور ے ہندوستان کا اجتماعی عزم ، اجتماعی ذمہ داری اور اجتماعی کاوش ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اکیسویں صدی کی نئی دہائی میں جب دنیا ایک شاندار ہندوستان کی منتظر ہے، ہماری اجتماعی کاوشیں دنیا کو کبھی مایوس نہیں کریں گی۔ یہ کوششیں یقیناً رنگ لائیں گی۔
اس اعتماد کے ساتھ 130 کروڑ ہم وطنوں کے عزم اور ان کی طاقت کے لئے بے پناہ عقیدت کے ساتھ میں اپنی آنکھوں کے سامنے ہندوستان کا روشن مستقبل دیکھتا ہوں ۔
اور اسی یقین کے ساتھ ایک بار آیئے ہم فرض کی راہ پر گامزن ہوں۔ اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے آگے آئیں، جب 130 کروڑ ہم وطن جب اپنے فرائض کی پاسداری کرتے ہیں تو ملک دیکھتے ہی دیکھتے نئی بلندیوں کو عبور کرلیتا ہے۔
اس اعتماد کے ساتھ ایک بار پھر کولکاتہ پورٹ ٹرسٹ کے 150 سالہ اور ترقیاتی منصوبوں کے لئے آج کے اس اہم موقع پر میں، آپ سب کو پورے مغربی بنگال کو ، یہاں کی عظیم روایت کو سلام کرتے ہوئے متعدد نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ بہت بہت مبارکباد۔
میرے ساتھ یہ سرزمین ، حوصلہ فراہم کرنے والی سرزمیں، ملک کی قوت کو جگانے والی سرزمین ہے۔ یہاں سے پوری طاقت کے ساتھ ہم خوابوں کو سمیٹتا ہوا نعرہ ہم بولیں گے۔ دونوں ہاتھ اوپر کرکے، مٹھی بند کرکے پوری طاقت کے ساتھ بولیں گے-
بھارت ماتا کی-جے
بھارت ماتا کی-جے
بھارت ماتا کی-جے
بہت بہت شکریہ