وزیراعظم نے جل جیون مشن ایپ اور راشٹریہ جل جیون کوش کا آغاز کیا۔
’’جل جیون مشن بھی غیر مرکوزیت کی ایک بڑی تحریک ہے۔ یہ ایک گاؤں سے چلنے والی خواتین پر مبنی تحریک ہے۔ اس کی اصل بنیاد ایک عوامی تحریک اور عوامی شرکت ہے‘‘
’’گجرات جیسی ریاست سے آتے ہوئے، میں نے خشک سالی جیسے حالات دیکھے ہیں اور پانی کے ہر قطرے کی اہمیت کو سمجھتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ بطور وزیر اعلیٰ گجرات، پانی تک رسائی اور پانی کا تحفظ میری اہم ترجیحات میں شامل تھا“
’’آج ، ملک کے تقریبا 80 اضلاع کے تقریبا 1.25 لاکھ گاوؤں میں ہر گھر تک پانی پہنچ رہا ہے‘‘
’’خواہش مند اضلاع میں نل کنکشن کی تعداد 31 لاکھ سے بڑھ کر 1.16 کروڑ ہوگئی ہے‘‘
’’ہر گھر اور اسکول میں بیت الخلاء ، سستے سینیٹری پیڈ ، حمل کے دوران غذائیت کی مدد اور حفاظتی ٹیکوں جیسے اقدامات نے ’متر شکتی‘ کو تقویت بخشی ہے‘‘

نمسکار!

مرکزی کابینی میں میرے معاون جناب گجیندر سنگھ شیخاوت جی، جناب پرہلاد سنگھ پٹیل جی، جناب بشیشور ٹوڈو جی، ریاست کے وزیر اعلیٰ، ریاستوں کے وزراء، ملک بھر کی پنچایتوں سے جڑے ممبر، پانی سمیتیوں سے جڑے ممبر اور ملک کے کونے کونے میں ورچوئل طور پر اس پروگرام کے ساتھ جڑے ہوئے کڑوروں میرے بھائیوں اور بہنوں۔

آج 2؍ا کتوبر کا دن ہے، ملک کے 2 عظیم سپوتوں کو ہم بڑے فخر سے یاد کرتے ہیں۔ پوجیہ باپو اور لعل بہادر شاستری جی، ان دونوں عظیم شخصیتوں کے دل میں بھارت کے گاؤں ہی بسے تھے ۔ مجھے خوشی ہے کہ آج کے دن ملک بھر کے لاکھوں گاؤں کے لوگ گرام  سبھاؤں کی شکل میں جل جیون مکالمہ کررہے ہیں۔ایسے غیر معمولی اور ملک گیر مشن کو اسی حوصلے اور توانائی سے کامیاب بنایا جاسکتا ہے۔جل جیون مشن کا  وژن صرف لوگوں تک پانی پہنچانےکا نہیں ہے، بلکہ یہ غیر مرکزیت کی بھی ایک بڑی تحریک ہے۔ یہ ویلیج ڈرئیوین –ویمن ڈرائیوین موومنٹ ہے۔ اس کی اصل بنیاد عوامی تحریک اور عوامی شراکت داری ہے اور آج یہ ہم اس تقریب میں ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

بھائیوں اور بہنوں،

جل جیون مشن کو زیادہ طاقتور ، زیادی شفاف بنانے کے لئے آ ج  کئی اور قدم بھی اٹھائے گئے ہیں۔ جل جیون مشن ایپ پر اس مہم سے جڑی تمام معلومات ایک ہی جگہ پر مل جائیں گی۔ کتنے گھروں تک پانی پہنچا، پانی کی کوالٹی کیسی ہے، واٹر سپلائی اسکیم کی تفصیل، سب کچھ اِس ایپ پر ملے گا۔ آپ کے گاؤں کی معلومات بھی اس ایپ پر ہوگی۔ واٹر کوالٹی مانیٹرنگ اور سرویلانس فریم ورک سے پانی کی کوالٹی کو بنائے رکھنے میں بہت مدد ملے گی۔ گاؤں کے لوگ بھی اِس کی مدد سے اپنے یہاں کے پانی کی شفافیت پر باریک نظر رکھ پائیں گے۔

ساتھیوں،

اس سال پوجیہ باپو کا یوم پیدائش ہم آزادی کے امرت مہوتسو کے اس اہم مرحلے میں ساتھ ساتھ منا رہے ہیں۔ ایک خوبصورت احساس ہم سبھی کو ہے کہ باپو کے خوابوں کو تعبیر آشنا کرنے کے لئے ملک کے شہریوں نے مسلسل کوشش کی ہے، اپنا تعاون دیا ہے۔ آج ملک کے شہر اور گاؤں خود کو کھلے میں بیت الخلا ء سے آزاد اعلان کرچکے ہیں۔قریب قریب 2لاکھ گاؤں نے اپنے یہاں کچرا نظم کا شروع کردیا ہے۔40 ہزار سے زیادہ گرام پنچایتوں نے  سنگل یوز پلاسٹک کو بند کرنے کا بھی فیصلہ لیا ہے۔ طویل عرصے تک نظر انداز کی گئی کھادی ، دستکاری کی فروخت اب کئی گنا زیادہ ہو رہی ہے۔ ان تمام کوششوں کے ساتھ ہی آج ملک آتم نر بھر بھارت مہم کے عہد کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔

ساتھیوں،

گاندھی جی کہتے تھے کہ گرام سوراج کا حقیقی مطلب خود اعتمادی سے بھرا ہونا ہے۔اس لئے میری مسلسل کوشش رہی ہے  کہ گرام سوراج کی یہ سوچ کامیابی کی طرف آگے بڑھے۔گجرات میں اپنے طویل مدت کار کے دوران مجھے گرام سوراج کے وژن کو زمین پر اتارنے کا موقع ملا ہے۔ نرمل گاؤں کے عہد کے ساتھ کھلے میں بیت الخلاء سے آزادی، جل مندر مہم کے توسط سے گاؤں کی پرانی باوڑیوں کو از سر نو زندہ کرنا، جیوتر گرام  یوجنا کے تحت گاؤں میں 24 گھنٹے بجلی پہنچانا، تیرتھ گرام یوجنا کے تحت گاؤں میں دنگے فساد کے بدلنے میں خیر سگالی کی حوصلہ افزائی کرنا، ای-گرام اور برانڈ بینڈ سے تمام گرام پنچایتوں کو جوڑنا، ایسی متعدد کوششوں سے گاؤں اور گاؤں کے انتظامات کو ریاست کی ترقی کی اہم بنیاد بنایا گیا ہے۔گزری ہوئی دو دہائیوں میں ، گجرات کو ایسے منصوبوں کے لئے خاص طورپر پانی کے شعبے میں بہترین کام کرنے کےلئے قومی بھی اور بین الاقوامی اداروں سے ایوار ڈ ملے ہیں۔

ساتھیوں،

2014 میں جب ملک نے مجھے نئی ذمہ داری دی تو مجھے گجرات میں گرام سوراج کے تجربات کا ، قومی تجربات کو قومی سطح پر وسعت دینے کا موقع ملا۔ گرام سوراج کا مطلب صرف پنچایتوں میں چناؤں کرانا، پنچ –سرپنچ چننا اتنا ہی نہیں ہوتا ہے، گرام سوراج کا اصل فائدہ تبھی ملے گا ،جب گاؤں میں رہنے والوں کی گاؤں کے ترقیاتی کاموں سے جڑے منصوبوں اور انتظامات تک میں سرگرم شراکت داری ہو۔اسی ہدف کے ساتھ سرکار کے ذریعے خاص طورپر پانی اور صاف صفائی کے لئے سوا دو لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم براہ راست گرام پنچایتوں کو دی گئی ہے۔آج ایک طرف جہاں گرام پنچایتوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دیئے جارہے ہیں، دوسری طرف شفافیت کا بھی پورا خیال رکھا جار ہا ہے۔ گرام سوراج کو لے کر مرکزی سرکار کے عہد کا ایک بڑا ثبوت جل جیون مشن اور پانی سمیتیاں بھی ہیں۔

ساتھیوں،

ہم نے بہت سی ایسی فلمیں دیکھی ہیں، کہانیاں پڑھی ہیں، شاعری پڑھی ہیں، جن میں تفصیل سے یہ بتایا جاتا ہے کہ کیسے گاؤں کی خواتین اور بچے پانی لانے کے لئے میلوں میلوں دور چل کر جارہے ہیں۔کچھ لوگوں کے من میں گاؤں کا نام لیتے ہی ایسی ہی مشکلات کی تصویر ابھر تی ہے، لیکن بہت کم ہی لوگوں کے من میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر اِن لوگوں کو ہر روز کسی ندی یا تالاب تک کیوں جانا پڑتا ہے۔ آخر پانی اِن لوگوں تک کیوں نہیں پہنچتا؟ میں سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں پر طویل عرصے تک پالیسی طے کرنے کی ذمہ داری تھی، انہیں یہ سوال خود سے ضرور پوچھنا چاہئے تھا، لیکن یہ سوال پوچھا نہیں گیا، کیونکہ یہ لوگ جن جگہوں پر رہے، وہاں پر پانی کی اتنی دقت دیکھی نہیں تھی۔ پانی کے بغیر زندگی کا درد کیا ہوتا ہے، وہ انہیں پتا ہی نہیں ہے۔ گھر میں پانی ، سوئمنگ پول میں پانی ، سب جگہ پانی ہی پانی۔ ایسے لوگوں نے کبھی غربت دیکھی ہی نہیں تھی۔ اس لئے غربت ان کے لئے ایک کشش رہی ۔ لٹریچر اور دانشورانہ علم دکھانے کا ذریعہ رہی۔ ان لوگوں کو ایک آدرش گاؤن کے تعلق سے محبت ہونی چاہئے تھی، لیکن یہ لوگ گاؤں کی کمیوں کو ہی پسند کرتے رہے۔

میں تو گجرات جیسے ریاست سے ہوں، جہاں زیادہ تر خشک سالی کی حالت میں نے دیکھی ہے۔ میں نے یہ بھی دیکھاہے کہ پانی کی ایک ایک بوند کی کتنی اہمیت ہوتی ہے۔اس لئے گجرات کا وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے  لوگوں تک پانی پہنچانا اور پانی کا تحفظ میری اولیت میں رہے۔ ہم نے نہ صرف لوگوں تک ، کسانوں تک پانی پہنچایا، بلکہ یہ بھی یقینی بنایا کہ پانی کی سطح میں اضافہ ہو۔ یہ ایک بڑی وجہ رہی کہ وزیر اعظم بننے کے بعد میں پانی سے جڑے چیلنجز پر مسلسل کام کیا ہے۔ آج جو نتائج ہمیں مل رہے ہیں، وہ ہر ہندوستانی کو فخر سے بھر دینے والے ہیں۔

آزادی سے لے کر 2019ء تک ہمارے ملک میں صرف 3کروڑ گھروں تک ہی نل سے پانی پہنچتا تھا۔2019ء میں جل جیون مشن شروع ہونے کے بعد سے 5 پانچ کروڑ گھروں کو پانی کے کنکشن سے جوڑا گیا ہے۔آج ملک کے تقریباً 80 ا ضلاع کے قریب سوا لاکھ گاؤں کے ہر گھر میں نل سے پانی پہنچ رہا ہے،یعنی پچھلی سات دہائیوں میں جو کام ہوا تھا، آج کے بھارت نے صرف دو سال میں اس سے زیادہ کام کرکے دکھایا ہے۔وہ دن دور نہیں، جب ملک کی کسی بھی بہن بیٹی کو پانی لانے کےلئے ہر روز دور دور تک پیدل چل کر نہیں جانا ہوگا۔وہ اپنے وقت کا صحیح استعمال ، اپنی بہتری، اپنی پڑھائی لکھائی یا اپنے روزگار پر کرسکیں گی۔

 

بھائیوں اور بہنوں،

بھارت کی ترقی میں، پانی کی کمی رکاوٹ نہ بنے، اس کے لئے کام کرتے رہنا، ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ سب کی کوشش بہت ضروری ہے، ہم اپنی آنے والی نسلوں کے تئیں بھی جواب دہ ہیں۔ پانی کی کمی کی وجہ سے ہمارے بچے اپنی توانائی قومی تعمیر میں نہ لگاپائیں، ان کی زندگی پانی کی قلت سے نمٹنے میں ہی گزر جائے، یہ  ہم نہیں ہونے دے سکتے۔ اس کے لئے ہمیں جنگی پیمانے پر اپنا کام جاری رکھنا ہوگا۔آزادی کے 75 سال بہت وقت گزر گیا، اب ہمیں بہت تیزی  دکھانی ہے۔ ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ملک کے کسی بھی حصے میں ٹینکروں یا ٹرینوں سے پانی پہنچانے کی پھر نوبت نہ آئے۔

ساتھیوں،

میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ پانی کا استعمال ہمیں پرساد کی طرح کرنا چاہئے، لیکن کچھ لوگ پانی کو پرساد نہیں،بہت آسانی سے دستیاب مان  کر اسے برباد کرتے ہیں۔ وہ پانی کی قیمت ہی نہیں سمجھتے۔ پانی کی قیمت وہ سمجھتا ہے، جو پانی کی کمی میں جیتا ہے۔ وہی جانتا ہے ایک ایک بوند پانی جٹانے میں کتنی  محنت کرنی پڑتی ہے۔ میں ملک کے ہر اُس شہری سے کہوں گا، جو پانی کی زیادہ دستیابی میں رہتے ہیں۔ میری اُن سے درخواست ہے کہ آپ کو پانی بچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یقینی طور پر اس کے لئے لوگوں کو اپنی عادتیں بھی  بدلنی ہوں گی۔  ہم نے دیکھا ہے کئی جگہ نل سے پانی گرتا رہتا ہے، لوگ پروا نہیں کرتے۔ کئی لوگ تو میں نے ایسے دیکھے ہیں، جو رات میں نل کھلا چھوڑ کر اُس کے نیچے بالٹی الٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ صبح جب پانی آتا ہے، بالٹی پر گرتا ہے ، تو اس کی آواز ان کے لئے مارننگ الارم کا کام کرتی ہے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں، کہ دنیا بھر میں پانی کی صورتحال کتنی الارمنگ ہوتی جارہی ہے۔

میں من کی بات میں اکثر ایسے لوگوں کا ذکر کرتا ہوں، جنہوں نے آبی تحفظ ، پانی جمع کرنے کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا مشن بنا رکھا ہے۔ ایسے لوگوں سے بھی سیکھا جانا چاہئے، تحریک لینی چاہئے۔ملک کے الگ الگ کونوں میں  ، الگ الگ پروگرام ہوتے ہیں، اس کی جانکاری ہمیں اپنے گاؤں میں کام آسکتی ہے۔ آج اس پروگرام سے جڑی ملک بھر کی گرام پنچایتوں سے بھی  میری گزارش ہے  کہ گاؤں میں پانی کے ذرائع کا تحفظ  اور صفائی کے لئے جی جان سے کام کریں۔بارش کے پانی کو بچا کر گھر میں استعمال سے نکلے پانی کا کھیتی میں استعمال کرکے کم پانی والی فصلوں کو بڑھاوا دے کر ہی ہم اپنے اہداف کو حاصل کرسکتے ہیں۔

ساتھیوں،

ملک میں بہت سے علاقے ایسے ہیں، جہاں  آلودہ پانی کی دقت ہے، کچھ علاقوں میں پانی میں آرسینک کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے علاقوں میں ہر  گھر میں پائپ سے صاف پانی پہنچنا وہاں کے لوگوں کے لئے زندگی کو ملے سب سے بڑے آشیرواد کی طرح ہے۔ ایک وقت ، انسِفلائٹس –دماغی بخار سے متاثرہ61 اضلاع میں نل کنکشن کی تعداد 8 لاکھ تھی،  آج یہ بڑھ کر 1کروڑ 11 لاکھ سے زیادہ ہوگئی ہے۔ ملک کے جو اضلاع ترقی کے دوڑ میں  جو سب سے پیچھے رہ گئے تھے، اِن اضلاع میں ترقی کی ایک غیر معمولی صلاحیت ہے، وہاں اولیت کی بنیاد پر ہر گھر پانی پہنچایا جارہا ہے۔ متلاشی اضلاع میں اب نل کنکشن کی تعداد 31 لاکھ سے بڑھ کر 1ایک کروڑ 16 لاکھ سے زیادہ ہوگئی ہے۔

ساتھیوں،

آج ملک میں پینے کے پانی کی سپلائی ہی نہیں، پانی کے انتظام اور آبپاشی کا ایک وسیع بنیادی ڈھانچہ کھڑا کرنے کو لے کر بھی بڑے سطح پر کام چل رہا ہے۔پانی کے مؤثر انتظام کے لئے پہلی بار جل شکتی وزارت کے تحت پانی سے جڑے زیادہ تر ایشوز لائے گئے ہیں۔ ماں گنگا جی کے ساتھ ساتھ دوسری ندیوں کے پانی کو آلودگی سے پاک کرنے کےلئے واضح حکمت عملی کے ساتھ کام چل رہا ہے۔اٹل بھوجل یوجنا کے تحت ملک کی 7ریاستوں میں زیر زمین پانی کی سطح کو اُوپر لانے کے لئے کام ہورہا ہے۔پچھلے 7سات سالوں میں پردھان منتری کرشی سینچائی یوجنا کے تحت پائپ سے آبپاشی اور مائیکرو ایریگیشن پر بھی بہت زور دیا گیا ہے۔اب تک 13 لاکھ ہیکٹیئر سے زیادہ زمین کو مائیکرو ایریگیشن کے دائرے میں لایا جاچکا ہے۔’ پر ڈراپ، مور کراپ‘ اس عہد کو پورا کرنے کےلئے متعدد ایسی کوششیں چل رہی ہیں۔ طویل عرصے سے التوا میں پڑے آبپاشی کے 99 بڑے  پروجیکٹوں میں سے تقریباً نصف کو پورا کیا جاچکا ہے اور باقی پر تیزی سے کام چل رہا ہے۔ملک بھر میں باندھوں کی بہتر انتظام و انصرام اور ان کے رکھ رکھاؤ  کے لئے ہزاروں کروڑ روپے سے ایک خصوصی مہم چلائی جارہی ہے، جس کے تحت 200 سے زیادہ باندھوں کو بہتر کیا چکا ہے۔

ساتھیوں،

عدم تغذیہ کے خلاف لڑائی میں بھی پانی کا بہت بڑا رول ہے۔ ہر گھر پانی پہنچے گا تو بچوں کی صحت بھی بہتر ہوگی۔ابھی حال ہی میں سرکار نے پی ایم پوشن شکتی نرمان اسکیم کو بھی منظوری دی ہے۔ اس منصوبے کے تحت ملک بھر کے اسکولوں میں بچوں کی پڑھائی بھی ہوگی اور ان کے تغذیے کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔ اس منصوبے پر مرکزی سرکار 54 ہزار کروڑ سے زیادہ خرچ کرنے جارہی ہے۔ اس کا  فائدہ ملک کے قریب قریب 12کروڑ بچوں کو ہوگا۔

 ساتھیوں،

ہمارے یہاں کہا گیا ہے-

اُپ-کرتُم یتھا سو-اَلپم، سمرتھو نہ تتھا مہان؍

پرایہ:کوپہ:ترشام، ہنتی، ستتم نہ تو واریدھی:؍؍

یعنی، پانی کا ایک چھوٹا سا کنواں لوگوں کی پیاس بجھا سکتا ہے، جبکہ اتنا بڑا سمندر ایسا نہیں کرپاتا ہے۔یہ بات کتنی درست ہے،  کئی بار ہم دیکھتے ہیں کہ کسی چھوٹی سی کوشش بہت سے بڑے فیصلوں سے بھی بڑی ہوتی ہے۔ آج پانی سمیتی پر بھی یہی بات لاگو ہوتی ہے۔آبی انتظام کی دیکھ ریکھ اور آبی تحفظ سے جڑے بھلے ہی  پانی سمیتی اپنے گاؤں کے دائرے میں کرتی ہے، لیکن اس کی وسعت بہت ہے۔یہ پانی سمیتیاں، غریبوں ، دلتوں، محروم طبقات، قبائل کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی لارہی ہیں۔

جن لوگوں کو آزادی کے بعد 7دہائیوں تک نل سے پانی نہیں مل پایا تھا، چھوٹے سے نل نے ان کی دنیا ہی بدل دی ہے اور  یہ بھی فخر کی بات ہے کہ جل جیون مشن کے تحت بن رہی پانی سمیتیوں میں 50 فیصد ممبر لازمی طور سے خواتین ہی ہوتی ہیں۔ یہ ملک کی حصولیابی ہے کہ اتنے کم وقت میں قریب 3.5لاکھ  گاؤں میں پانی سمیتیاں بن چکی ہیں۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہم نے جل جیون مکالمے کے دوران بھی دیکھا ہے کہ ان پانی سمیتیوں میں گاؤں کی خواتین کتنی مہارت سے کام کررہی ہیں۔مجھے خوشی ہے کہ گاؤں کی خواوتین کو اپنے گاؤں  کے پانی کی جانچ کے لئے خصوصی طورپر ٹریننگ بھی دی جارہی ہے۔

 

ساتھیوں،

گاؤں کی خواتین کو با اختیار بنانا  ہماری سرکار کی اعلیٰ اولتیوں میں سے ایک ہے۔ گزرے ہوئے سالوں میں بیٹیوں کی صحت اور تحفظ پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ گھر اور اسکول میں بیت الخلاء، سستے سینٹیری پیڈ سے لے کر حمل کے دوران تغذیے کے لئے ہزاروں روپے کی مدد اور ٹیکہ کاری مہم سے ماؤں کی طاقت مزید مضبوط ہوئی ہے۔پردھان منتری ماتر وندنا یوجنا  کے تحت 2 کروڑ سے زیادہ حاملہ خواتین کو تقریباً8.5کروڑ روپے کی مدد دی جاچکی ہے۔گاؤں میں جو ڈھائی کروڑ سے زیادہ پختہ گھر بنائے گئے ہیں، ان میں سے زیادہ تر پر مالکانہ حق خواتین کا ہی ہے۔ اوجولا یوجنا نے گاؤں کی کروڑوں خواتین کو لکڑی کے دھوئیں سے آزادی دلائی ہے۔ مدُرا یوجنا کے تحت بھی تقریباً 70 فیصد قرض خاتون کاروباریوں کو  ملے ہیں۔ سیلف  ہیلپ گروں کے ذریعے بھی دیہی خواتین کو آتم نربھرتا کے مشن سے جوڑا جارہا ہے۔ پچھلے 7 سالوں کے دوران خود مدد کرنے والے گروپوں میں تین گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ تین گنا زیادہ بہنوں کی شراکت داری یقینی ہوئی ہے۔ راشٹریہ آجیویکا مشن کے تحت 2014ء سے پہلے کے 5 سالوں میں جتنی مدد سرکار نے بہنوں کے لئے بھیجی ، پچھلے 7سال میں اس میں تقریبا ً 13 گنا اضافہ کیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں تقریباً 3.75کروڑ روپے کا قرض بھی سیلف ہیلپ گروپس ، ان ماؤں بہنوں کو مہیا کرایا گیا ہے۔ سرکار نے سیلف ہیلپ گروپس کو گارنٹی کے بغیر قرض میں بھی کافی اضافہ کیا ہے۔

بھائیوں اور بہنوں،

بھارت کی ترقی ، گاؤں کی ترقی پر ہی منحصر ہے۔  گاؤں میں رہنے والے لوگوں ، نوجوانوں، کسانوں کے ساتھ ہی سرکار ایسے منصوبوں کو اولیت دے رہی ہے، جو بھارت کے گاؤں کو اور زیادہ اہل بنائیں۔ گاؤں میں جانوروں اور گھروں سے جو بایو ویسٹ نکلتا ہے، اسے استعمال کرنے کے لئے گووردھن یوجنا چلائی جارہی ہے۔ اس منصوبے کے توسط سے ملک کے 150 سے زیادہ اضلاع میں 300 سے زیادہ بایو گیس پلانٹ کا کام پورا ہو چکا ہے۔ گاؤں کے لوگوں کو گاؤں میں ہی بہتر بنیادی علاج مل سکے، وہ گاؤں میں ہی ضروری ٹیسٹ کرا سکیں ، اس  کے لئے1.5لاکھ سے زیادہ ہیلتھ اینڈ ویلنس سینٹر بنائے جارہے ہیں۔ان میں سے قریب 80 ہزار ہیلتھ اینڈ ویلنس سینٹر کا کام پورا کرلیا گیا ہے۔ گاؤں کی آنگن واڑ ی اور آنگن واڑی میں کام کرنے والی ہماری بہنوں کے لئے بھی مالی مدد بڑھائی  گئی ہے۔ گاؤں میں سہولتوں کے ساتھ سرکار کی خدمات بھی تیزی سے پہنچیں، اس کےلئے آج ٹیکنالوجی کا وسیع استعمال کیا جارہا ہے۔

پی ایم  سوامتویوجنا کے تحت ، ڈرون کی مدد سے میپنگ کراکر گاؤں کی زمینوں اور گھروں کے ڈیجیٹل پراپرٹی کارڈ زتیار کئے جارہے ہیں۔ سوامتو  یوجنا کے تحت 7 سال پہلے تک جہاں ملک کی 100 سے بھی کم پنچایتیں، برانڈ بینڈ  کنکٹی وٹی سے جڑی ہوئی تھی، وہیں آج ڈیڑھ لاکھ پنچایتوں میں آپٹکل فائبر پہنچ چکا ہے۔ سستے موبائل فون اور سستے انٹرنیٹ کی وجہ سے آج گاؤں میں شہروں سے زیادہ لوگ انٹرنیٹ کا استعمال کررہے ہیں۔ آج تین لاکھ سے زیادہ کامن سروس سینٹر(سی ایس سی)سرکار کے درجنوں منصبوں کو گاؤں میں ہی دستیاب کرا رہے ہیں اور ہزاروں نوجوانوں کو روز گار بھی دے رہے ہیں۔

آج گاؤں میں ہر طرح کے بنیادی ڈھانچے کےلئے ریکارڈ سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ پرھان منٹری گرامین سڑک یوجنا ہو، ایک لاکھ کروڑ روپے کا ایگری فنڈہو، گاؤں کے پاس کولڈ اسٹوریج کی تعمیر ہو، صنعتی کلسٹر کی تعمیر ہو یا پھر زراعتی منڈیوں کی جدید کاری۔ ہر شعبے میں تیز رفتاری سے کام جاری ہے۔ جل جیون مشن کے لئے بھی جو 3 لاکھ 60ہزار کروڑ روپے کا انتظام کیا گیا ہے، وہ گاؤں ہی میں خرچ کیا جائے گا، یعنی یہ مشن دیہی معیشت کو نئی مضبوطی دینے کے ساتھ ہی گاؤں میں روزگار کے متعدد نئے مواقع بھی پیدا کرے گا۔

ساتھیوں،

ہم نے دنیا کو دکھایا ہے کہ ہم بھارت کے لوگ پختہ عزم کے ساتھ اجتماعی کوششوں سے مشکل سے مشکل ہدف کو بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمیں متحد ہوکر اس مہم کو کامیاب بناناہے۔ جل جیون مشن جلد از جلد اپنے ہدف تک پہنچے ، اسی امید کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتاہوں۔

آپ سبھی کو بہت بہت نیک خواہشات!

شکریہ!

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
Snacks, Laughter And More, PM Modi's Candid Moments With Indian Workers In Kuwait

Media Coverage

Snacks, Laughter And More, PM Modi's Candid Moments With Indian Workers In Kuwait
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Prime Minister Narendra Modi to attend Christmas Celebrations hosted by the Catholic Bishops' Conference of India
December 22, 2024
PM to interact with prominent leaders from the Christian community including Cardinals and Bishops
First such instance that a Prime Minister will attend such a programme at the Headquarters of the Catholic Church in India

Prime Minister Shri Narendra Modi will attend the Christmas Celebrations hosted by the Catholic Bishops' Conference of India (CBCI) at the CBCI Centre premises, New Delhi at 6:30 PM on 23rd December.

Prime Minister will interact with key leaders from the Christian community, including Cardinals, Bishops and prominent lay leaders of the Church.

This is the first time a Prime Minister will attend such a programme at the Headquarters of the Catholic Church in India.

Catholic Bishops' Conference of India (CBCI) was established in 1944 and is the body which works closest with all the Catholics across India.