اتراکھنڈ کی گورنر محترمہ بے بی رانی موریہ جی، وزیر اعلیٰ محترم تریویندر سنگھ راوت جی، مرکزی کابینہ میں میرے معاون محترم گجندر سنگھ شیخاوت جی، ڈاکٹر رمیش پوکھریال نشنک جی، محترم رتن لال کٹاریا جی، دیگر اہلکار اور اتراکھنڈ کے میرے بھائیوں اور بہنوں، چار دھام کے تقدس کو اپنے میں سمیٹے دیو بھومی اترا کھنڈ کی سرزمین کو میرا سلام عقیدت!
آج مہا گنگا کی شفافیت کو یقینی بنانے والے 6 بڑے پروجیکٹوں کاافتتاح کیا گیا ہے ۔اس میں ہری دوار، رشی کیش، بدری ناتھ اور منی کی ریتی میں سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹ اور میوزیم جیسے پروجیکٹ بھی شامل ہیں۔ ان تمام پروجیکٹس کے لئے اترا کھنڈ کے سبھی ساتھیوں کو میں بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔
ساتھیو! اب سے کچھ دیر پہلے جل جیون مشن کے خوبصورت لوگو کا اور مشن کی گائیڈ لائنس کا بھی افتتاح کیاگیا ہے۔ جل جیون مشن بھارت کے گاؤں کے ہر گھر تک صاف پانی پائپ سے پہنچانے کی یہ ایک بہت بڑی مہم ہے۔ مشن کا لوگو مسلسل اس بات کا حوصلہ فراہم کرے گا کہ پانی کی ایک ایک بوند کو بچانا ضروری ہے۔ وہیں یہ گائیڈ لائنس گاؤں کے لوگوں، گرام پنچایت کے لئے بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی سرکاری مشینری کے لئے ضروری ہے۔ یہ پروجیکٹ کی کامیابی کو یقینی بنانے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔
ساتھیو! آج جس کتاب کااجراء ہوا ہے اس میں بھی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ گنگا کس طرح ہمارے ثقافتی ورثہ، عقیدت اور وراثت تینوں کی ہی بہت بڑی علامت ہے۔اترا کھنڈ میں ہی ادگم سے لے کر مغربی بنگال میں گنگا ساگر تک گنگا، ملک کے تقریباً آدھی آبادی کی زندگی کو خوشحال بناتی ہیں اس لئے گنگا کی شفافیت ضروری ہے۔ گزشتہ دہائیوں میں گنگا کے پانی کی صفائی کو لے کر بڑی بڑی مہم شروع ہوئی تھی لیکن ان میں نہ تو عوامی رشتہ داری تھی اور نہ ہی دوربینی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گنگا کا پانی کبھی صاف ہی نہیں ہوپایا۔
ساتھیو! اگر گنگا کے پانی کی صفائی کو لے کر وہی پرانے طور طریقے اپنائے جاتے تو آج بھی حالات اتنے ہی برے رہتے۔ لیکن ہم نئی سوچ، نئی اپروچ کے ساتھ آگے بڑھے۔ ہم نے نمامی گنگے کو مشن کو صرف گنگا جی کی صاف صفائی تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ملک کا سب سے بڑا ندی کے تحفظ کا پروگرام بنایا۔ حکومت نے چاروں سمتوں میں ایک ساتھ کام آگے بڑھایا۔ پہلا- گنگا کے پانی میں گندا پانی گرنے سے روکنے کے لئے سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹوں کا جال بچھانا شروع کیا۔ دوسرا- سیویج پلانٹ ایسے بنائے جو اگلے 15-10 سال کی بھی ضرورتیں پوری کرسکے۔ تیسرا- گنگا ندی کے کنارے بسے 100 بڑے شہروں اور 5000 گاؤں کھلے میں حاجت سے پاک کرنا اور چوتھا- جو گنگا جی کی معاون ندیاں ہیں ان میں آلودگی روکنے کے لئے پوری طاقت لگانا ۔
ساتھیو! آج چوطرفہ کام کانتیجہ ہم سبھی دیکھ رہے ہیں۔ آج نمامی گنگے پروگرام کے تحت 30 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کے پروجیکٹوں پر یا تو کام چل رہا ہے یا پورا ہوچکا ہے۔ آج جن پروجیکٹس کا افتتاح کیاگیا ہے ان کے ساتھ ہی اترا کھنڈ میں اس مہم کےتحت چل رہے تقریباً سبھی بڑے پروجیکٹ پورے ہوچکے ہیں۔ہزاروں کروڑ کے ان پروجیکٹوں سے صرف 6 سالوں میں ہی اترا کھنڈ میں سیویج ٹریٹمنٹ کی استعداد تقریباً چار گنا ہوچکی ہے۔
ساتھیو! اتراکھنڈ میں تو حالت یہ تھی کہ گنگوتری، بدری ناتھ، کیدار ناتھ سے ہری دوار تک 130 سے زیادہ نالے گنگا جی میں گرتے تھے ۔آج ان نالوں میں سے زیادہ تر تو روک دیا گیا ہے۔ اس میں رشی کیش سے ملحق‘ منی کی ریتی’ کا چندیشورنگر نالا بھی شامل ہے۔ اس کی وجہ سے جہاں گنگا جی کے درشن کے لئے آنے والے، رافٹنگ کرنے والے ساتھیوں کو بہت پریشانی ہوتی تھی۔ آج سے یہاں ملک کا پہلا چار منزلہ سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹ شروع ہوچکا ہے۔ ہری دوار میں بھی ایسے 20 سے زیادہ نالوں کو بند کیاجاچکا ہے۔ ساتھیو! پریاگ راج کنبھ میں گنگا جی کی شفافیت دنیا بھر کے عقیدت مندوں نے محسوس کیاتھا۔ اب ہری دوار کنبھ کے دوران بھی پوری دنیا کو صاف گنگا اسنان کا تجربہ ہونے والا ہے اور اس کے لئے لگاتار کوششیں جاری ہیں۔
ساتھیو! نمامی گنگے مشن کے تحت ہی گنگا جی پر سینکڑوں گھاٹوں کی خوبصورتی بڑھائی جارہی ہے اور گنگا کی سیر کے لئے جدید ریور فرنٹ کی تعمیر کا کام بھی کیا جارہا ہے۔ ہری دوار میں تو ریور فرنٹ بن کر تیار ہے۔ اب گنگا میوزیم بننے سے یہاں کی دلکشی مزید بڑھ جائے گی ۔ یہ میوزیم ہری دوار آنے والے سیاحوں کے لئے گنگا سے جڑی وراثت کو سمجھنے کا ایک ذریعہ بننے والا ہے۔
ساتھیو! اب نمامی گنگے کو ایک نئی سطح پر لے جایا جارہا ہے۔ گنگا جی کی صفائی کے علاوہ اب گنگا سے ملحق پورے علاقے کی اقتصادیات اور ماحولیاتی ترقی پر بھی فوکس ہے۔ حکومت کے ذریعہ اترا کھنڈ سمیت تمام ریاستوں کے کسانوں کو آرگینک کھیتی، آیورویدک پودوں کی کھیتی کا فائدہ دلانے کے لئے ہمہ گیر اسکیم بنائی گئی ہے۔گنگا جی کے دونوں طرف پیڑ پودے لگانے کے ساتھ ہی آرگینک فارمنگ سے جڑا کوریڈور کو بھی تیار کیاجارہا ہے۔ گنگا جل کو بہتر بنانے کے ان کاموں کو اب میدانی علاقوں میں مشن ڈالفن سے بھی مدد ملنے والی ہے۔ اسی15 اگست کو مشن ڈالفن کااعلان کیاگیا ہے ۔ یہ مشن گنگا جی میں ڈالفن کی افزائش کے کام کو اور مضبوط کرے گا۔
ساتھیو! آج ملک اس دور سے باہر نکل چکا ہے جب کہ پانی کی طرح پیسہ تو بہہ جاتا تھا لیکن نتیجے نہیں ملتے تھے۔ آج پیسہ نہ پانی کی طرح بہتا ہے، نہ پانی میں بہتا ہے، مگر پیسہ پائی پائی پانی پر لگایا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں تو حالت یہ تھی کہ پانی جیسے اہم موزوں، متعدد وزارتوں اور محکموں میں بکھڑا پڑا تھا، بٹا ہوا تھا۔ ان وزارتوں میں، محکموں میں نہ کوئی تال میل تھا اور نہ ہی مشترکہ ہدف کے لئے کام کرنے کی کوئی واضح گائیڈ لائن۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں سینچائی کو یا پھر پینے کے پانی سے جڑا مسئلہ ،یہ لگاتار بدتر ہوتا گیا۔ آپ سوچئے، آزادی کے اتنے سالوں بعد بھی 15 کروڑوں سے زیادہ گھروں میں پائپ سے پینے کا پانی نہیں پہنچتا تھا۔یہاں اترا کھنڈ میں بھی ہزاروں گھروں میں یہی حال تھا۔ گاؤوں میں، پہاڑوں میں، جہاں آنا جانا تک مشکل ، وہاں پینے کے پانی کا انتظام کرنے میں سب سے زیادہ تکلیف ہماری ماؤوں کو، بہنوؤں کو، بیٹیوں کو اٹھانی پڑتی تھی، پڑھائی چھوڑنی پڑتی تھی۔ ان مسائل کو دور کرنے کے لئے ملک کی پانی سے جڑی تمام چنوتیوں پر ایک ساتھ توانائی لگانے کے لئے بھی جن شکتی وزارت قائم کی گئی۔
مجھے خوشی ہے کہ بہت ہی کم وقت میں جل شکتی وزارت نے تیزی سے کام سنبھالنا شروع کردیا۔ پانی سے جڑی چنوتیوں کے ساتھ ساتھ اب یہ وزارت ملک کے گاؤوں میں، ہر گھر تک پانی پہنچانے کے مشن میں مصروف ہے۔آج جل جیون مشن کے تحت ہر دن تقریباً 1 لاکھ خاندانوں کو پینے کے صاف پانی کی سہولت سے جوڑا جارہا ہے۔صرف ایک سال میں ہی ملک کے دو کروڑ سے زیادہ خاندانوں تک پینے کا پانی پہنچایا جاچکا ہے اور یہاں اتراکھنڈ میں تو ترویندر جی اور ان کی ٹیم نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے صرف ایک روپے میں پانی دینے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اتراکھنڈ سرکار نے سال 2022 تک ہی ریاست کے ہر گھر تک پانی پہنچانے کا ہدف طے کیا ہے۔ کورونا کے اس دور میں بھی اتراکھنڈ میں گزشتہ چار پانچ مہینے میں 50 ہزار سے زیادہ خاندانوں کو پانی کے کنکشن دیئے جاچکے ہیں۔ یہ اترا کھنڈ سرکار کے عزم کو ظاہر کرتا ہے، قوت ارادی کو دکھاتا ہے۔
ساتھیو! جل جیون مشن گاؤں اور غریب کے گھر تک پانی پہنچانے کی تو مہم ہے ہی، یہ ایک طرح سے گرام سوراج، گاؤں کی خود مختاری کو، اس کے لئے بھی ایک نئی توانائی، نئی طاقت، نئی بلندی بھی عطا کرنے والی ایک مہم ہے۔حکومت کے کام کرنے میں کیسے بہت بڑی تبدیلی آئی ہے، یہ اس کی بھی مثال ہے۔ پہلے سرکاری اسکیموں پر اکثردہلی میں ہی بیٹھ کر فیصلہ ہوتا تھا۔ کس گاؤں میں کہاں سورس ٹینک بنے گا، کہاں سے پائپ لائن بچھے گی، یہ سب فیصلے زیادہ تک راجدھانیوں میں ہی ہوتے تھے۔ لیکن جل جیون مشن نے اب اس پوری روایت کو ہی بدل دیا ہے۔ گاؤں میں پانی سے جڑے کون سے کام ہوں، کہاں کام ہوں ، اس کی کیا تیاری ہو،یہ سب کچھ طے کرنے کا ، فیصلہ لینے کا حق اب گاوں کے لوگوں کو ہی دے دیاگیاہے ۔ پانی کے پروجیکٹوں کی منصوبہ بندی سے لے کررکھ رکھااورآپریشن تک کاپوراانتظام گرام پنچایت کرے گی ، گرام کمیٹیاں کریں گی ۔ پانی کمیٹیوں میں بھی 50فیصد گاو ں کی بہنیں ہوں ، گاوں کی بیٹیاں ہوں یہ یقینی بنایاگیاہے ۔
ساتھیوآج جس رہنماہدایات پرمبنی کتابچہ کا اجراکیاگیاہے وہ ان ہی بہنوں ، بیٹیوں ، پانی کمیٹی کے اراکین ، پنچایت اراکین کے سب سے زیادہ کام آنے والا ہے ۔ یہ ایک طرح کی رہنما ہدایات ہیں اورمجھے پختہ یقین ہے کہ پانی کی دشواری کیاہوتی ہے ،پانی کی قیمت کیاہوتی ہے پانی کی ضرورت کیسے سہولت اوربحران دونوں لاتی ہے ۔ اس بات کوہماری مائیں اور بہنیں جتنا سمجھتی ہیں شاید ہی کوئی سمجھتاہے ۔ اوراس لئے جب اس کا پوراکاروبارماوں بہنوں کے ہاتھ میں جاتاہے تو بڑی حساسیت کے ساتھ ، بڑی ذمہ داری کے ساتھ وہ اس کا م کو نبھاتی ہیں اور اچھے نتائج بھی دیتی ہیں ۔
یہ گاوں کے لوگوں کو ایک راستہ دکھائے گا ، فیصلہ لینے میں ان کی مدد کرے گا ۔ میں سمجھتاہوں جل جیون مشن میں گاوں کے لوگوں کو ایک موقع دیا۔ موقع اپنے گاوں کو پانی کے مسائل کے آزادکرنے کا ،موقع اپنے گاوں کو پانی سے بھرپورکرنے کا ،مجھے بتایاگیاہے کہ جل جیون مشن اس 2اکتوبر ، گاندھی جینتی سے ایک اورمہم شروع کرنے جارہاہے ۔ 100دن کی ایک خصوصی مہم ، جس کے تحت ملک کے ہراسکول اور ہرآنگن واڑی میں نل سے جل کو یقینی بنایاجائے گا۔ میں اس مہم کی کامیابی کے لئے نیک خواہشات پیش کرتاہوں ۔
ساتھیو!نمامی گنگے مہم ہو ، جل جیون مشن ہو ، سووچھ بھارت مہم ہو، ایسے متعدد پروگرام گزشتہ چھ برسوں کی بڑی اصلاحات کا حصہ ہیں ۔ یہ ایسی اصلاحات ہیں جو عام لوگوں کی زندگی میں ، سماجی نظام میں ہمیشہ کے لئے بامعنی تبدیلی لانے میں معاون ہیں ۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ سال میں تو اس میں اورزیادہ تیزی آئی ہے ۔ ابھی جو پارلیمنٹ کا اجلاس ختم ہواہے ، اس میں ملک کے کسانوں ، محنت کشوں اور ملک کی صحت سے جڑی بڑی اصلاحات کی گئی تھیں ۔ ان اصلاحات سے ملک کا محنت کش بااختیاربنے گا ۔ ملک کا نوجوان بااختیاربنے گا ،ملک کی خواتین بااختیاربنیں گی ، ملک کا کسان بااختیاربنے گا ۔لیکن آج ملک دیکھ رہاہے کہ کیسے کچھ لوگ صرف مخالفت برائے مخالفت کررہے ہیں ۔
ساتھیو! اب سے کچھ دن قبل ملک نے اپنے کسانوں کو ، متعدد بندشوں سے آزاد کیاہے ۔ اب ملک کا کسان کہیں پربھی ، کسی کوبھی اپنی پیداوارفروخت کرسکتاہے ۔ لیکن آج جب مرکزی حکومت کسانوں کو ان کے حقو ق دے رہی ہے توبھی یہ لوگ مخالفت پراترآئے ہیں ۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ملک کا کسان کھلے بازارمیں اپنی فصل فروخت نہ کرپائے ۔یہ لوگ چاہتے ہیں کہ کسان کی گاڑیاں ضبط ہوتی رہیں ، ان سے وصولی ہوتی رہے ، ان سے کم قیمت پراناج خریدکربچولیے منافع کماتے رہیں ۔ یہ کسان کی آزادی کی مخالفت کرتے ہیں ۔ جن سامانوں کی ، آلات کی ، کسان پوجاکرتاہے ، انھیں آگ لگاکر یہ لوگ اب کسانوں کو بے عزت کررہے ہیں ۔
ساتھیو! برسوں تک یہ لوگ کہتے رہے ایم ایس پی نافذکریں گے ، ایم ایس پی نافذ کریں گے لیکن کیانہیں ۔ ایم ایس پی نافذکرنے کاکام سوامی ناتھن کمیشن کی خواہش کے مطابق ہماری ہی سرکارنے کیا۔ آج یہ لوگ ایم ایس پی پرہی کسانوں میں غلط فہمی پیداکررہے ہیں ۔ ملک میں ایم ایس پی بھی رہے گی اور کسانوں کو کہیں پربھی اپنی فصل بیچنے کی آزادی بھی ۔ لیکن یہ آزادی کچھ لوگ برداشت نہیں کرپارہے ۔ ان کی کالی کمائی کا ایک اورذریعہ ختم ہوگیاہے اس لئے انھیں پریشانی ہے ۔
ساتھیو ! کورونا کے اس دورمیں ملک نے دیکھا ہے کہ کیسے ڈیجیٹل بھارت ابھیان نے ، جن دھن بینک کھاتوں نے ، روپے کارڈنے ، لوگوں کی کتنی مدد کی ہے ۔ لیکن آپ کو یاد ہو گاجب یہی کام ہماری سرکارنے شروع کئے تھے تو یہ لوگ ان کی کتنی مخالفت کررہے تھے ۔ ان کی نظروں میں ملک کا غریب ، ملک کے گاوں کے ان پڑھ تھے ۔ملک کے غریب کا بینک کھاتہ جائے ، وہ بھی ڈیجیٹل لین دین کے اس کی ان لوگوں کی ہمیشہ مخالفت کی۔
ساتھیو ! ملک نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جب ون نیشن ، ون ٹیکس کی بات آئی ، جی ایس ٹی کی بات آئی تو پھریہ لوگ مخالفت کرنے لگے ۔ جی ایس ٹی کی وجہ سے ، ملک میں گھریلو سامانوں پرلگنے والاٹیکس بہت کم ہوگیاہے ۔زیادہ ترگھریلوسامانوں ، رسوئی کے لئے ضروری چیزوں پر ٹیکس اب یاتونہیں ہے یا پھر5فیصد سے بھی کم ہے ۔ پہلے ان ہی چیزوں پر زیادہ ٹیکس لگتاتھا لوگوں کو اپنی جیب سے زیادہ پیسے خرچ کرنے پڑتے تھے ۔ لیکن آپ دیکھیئے ان لوگوں کو جی ایس ٹی سے بھی پریشانی ہے ۔ یہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں ، اس کی مخالفت کرتے ہیں ۔
ساتھیو! یہ لوگ نہ کسان کے ہیں ، نہ نوجوان کے ساتھ اورنہ جوان کے ساتھ ۔ آپ کو یاد ہوگا جب ہماری حکومت ون رینک ، ون پنشن لائی ، اتراکھنڈ کے ہزاروں سابق فوجیوں کو بھی ان کا حق دیاتویہ لوگ مخالفت کررہے تھے ۔ ون رینک ۔ ون پنشن نافذ کرنے کے بعد سابق فوجیوں کو تقریبا 11ہزارکروڑروپے ایریئرکے طورپردے چکی ہے ۔ یہاں اتراکھنڈ میں بھی ایک لاکھ سے زیادہ سابق فوجیوں کا اس کا فائدہ ملاہے ۔ لیکن ان لوگوں کو ون رینک۔ ون پنشن نافذ کئے جانے سے ہمیشہ دقت رہی ہے ۔ ان لوگوں نے ون رینگ ۔ ون پنشن کی بھی مخالفت کی ہے ۔
ساتھیو! برسوں تک ان لوگوں نے ملک کی افواج کو ، ملک کی فضائیہ کو مضبوط بنانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ فضائیہ کہتی رہی کہ ہمیں جدید لڑاکا طیارے چاہیئے لیکن یہ لوگ فضائیہ کی اس بات کو نظرانداز کرتے رہے ۔ جب ہماری حکومت سیدھے فرانس کی حکومت سے رافیل لڑاکاطیاروں کے لئے معاہدہ کرلیاتوان کو پھردقت ہونے لگی ۔ بھارتی فضائیہ کے پاس رافیل آئے ، بھارتی فضائیہ کی طاقت بڑھی ، یہ اس کی بھی مخالفت کررہے ہیں ۔ مجھے خوشی ہے کہ آج رافیل بھارتی فضائیہ کی طاقت بڑھارہاہے ۔ امبالہ سے لے کرلیہہ تک اس کی گرج بھارتی جانبازوں کا حوصلہ بڑھارہی ہے ۔
ساتھیو! چار سال پہلے کا یہی وہ وقت تھا جب ملک کے جاں بازو نے سرجیکل سٹرائک کرتے ہوئے دہشت گردی کے اڈوں کو تباہ کردیا تھا۔ لیکن یہ لوگ اپنے جانبازوں کے حوصلوں کی ستائش کرنے کی بجائے ان سے ہی سرجیکل اسٹرائک کے ثبوت مانگ رہے تھے۔ سرجیکل اسٹرائک کی بھی مخالفت کرکے یہ لوگ ملک کے سامنے اپنی منشاء ، اپنی نیت واضح کرچکے ہیں۔ ملک کے لئے ہورہے کام کی مخالفت کرنا ان لوگوں کی عادت ہوگئی ہے۔ ان کی سیاست کا واحد طریقہ یہی ہے- مخالفت۔ آپ یاد کیجئے بھارت کی پہل پر جب پوری دنیا بین الاقوامی یوم یوگ منارہی تھی، تو بھارت میں ہی بیٹھے یہ لوگ اس کی مخالفت کررہے تھے۔ جب ملک کی سینکڑوں ریاستو کو جوڑنے کا تاریخی کام کرنے والے سردار پٹیل کے دنیا کے سب سے بلند مجسمے کی نقاب کشائی ہورہی تھی تب بھی یہ لوگ اس کی مخالفت کررہے تھے۔ آج تک ان کا کوئی بڑا لیڈر اسٹیچو آف یونیٹی کا دیدار کرنے نہیں گیا ہے، کیوں؟ کیونکہ انہیں مخالفت کرنی ہے۔
ساتھیو! جب غریبوں کو 10 فیصد ریزوریشن دینے کا فیصلہ ہوا تب بھی یہ اس کی مخالفت میں کھڑے تھے۔ جب 26 نومبر کو یوم آئین منانے کی بات آئی تب بھی یہ اس کی مخالفت کررہے تھے۔ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کی مخالفت کررہے تھے۔ ساتھیو! گزشتہ مہینے ہی ایودھیا میں شاندار رام مندر کی تعمیر کے لئے بھومی پوجن کیا گیا۔ یہ لوگ پہلے سپریم کورٹ میں رام مندر کی مخالفت کررہے تھے ، پھر بھومی پوجن کی مخالفت کرنے لگے۔ ہر بدلتی ہوئی تاریخ کے ساتھ مخالفت برائے مخالفت کرنے والے یہ لوگ ملک کے لئے ، سماج کے لئے، ناموزوں ہوتے جارہے ہیں۔ اسی کی چھٹپٹاہٹ ہے، بے چینی ہے ، مایوسی ہے۔ ایک ایسی پارٹی جس کے ایک خاندان کی چار چار نسلوں نے ملک پر حکومت کی، وہ آج دوسروں کے کندھوں پر سوار ہوکر ملک کے مفادات سے متعلق ہر کام کی مخالفت کروا کر اپنا مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ساتھیو! ہمارے ملک میں متعدد ایسی چھوٹی چھوٹی پارٹیاں ہیں جنہیں کبھی اقتدار میں آنے کا موقع نہیں ملا۔ اپنے قیام سے لے کر اب تک انہوں نے زیادہ تر وقت اپوزیشن میں ہی گزار ا ہے۔ اتنے برسوں تک اپوزیشن میں بیٹھنے کے باوجود انہوں نے کبھی ملک کی مخالفت نہیں کی، ملک کے خلاف کام نہیں کیا لیکن کچھ لوگوں کو اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے چند سال ہی ہوئے ہیں ، ان کا طور طریقہ کیا ہے، ان کا رویہ کیا ہے، وہ آج ملک دیکھ رہا ہے، سمجھ رہا ہے۔ ان کی خود غرضی کی پالیسی کے درمیان ، آتم نربھر بھارت کے لئے بڑی اصلاحات کا یہ سلسلہ ، ملک کے وسائل کو بہتر بنانے کایہ سلسلہ ملک کے مفاد میں ہے، ملک کی غریبی سے آزادی کی مہم کے لئے ہے، ملک کو طاقت ور بنانے کے لئے اور یہ مسلسل جاری رہے گا۔
ایک بار پھر آپ سبھی کو ترقی سے وابستہ سبھی پروجیکٹوں کے لئے بہت بہت مبارک باد۔
پھر سے میں یہی درخواست کروں گا کہ آپ اپنا خیال رکھیں۔ صحت مند رہیں، محفوظ رہیں۔ بابا کیدار کی مہربانی ہم سبھی پر بنی رہے۔
اسی خواہش کے ساتھ بہت بہت مبارک باد! جے گنگے!