"جو بیج میں نے 12 سال پہلے بویا تھا وہ آج برگد کا ایک بڑا درخت بن چکا ہے"
’’بھارت نہ رکنے والا ہے اور نہ تھکنے والا ہے‘‘
’’نئے ہندوستان کی ہر مہم کی ذمہ داری خود ہندوستان کے نوجوانوں نے لی ہے‘‘
"کامیابی کا ایک ہی منتر ہے - 'طویل مدتی منصوبہ بندی، اور مسلسل عزم'
"ہم نے ملک کی صلاحیتوں کو پہچاننا شروع کیا اور انہیں ہر طرح کی مدد فراہم کی"

 

نمسکار!

بھارت ماتا کی جے!

گجرات کے گورنر آچاریہ دیورت جی، یہاں کے ہردلعزیز  وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل جی، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی صدر سی آر پاٹل جی، حکومت گجرات  میں کھیل کود کے وزیر جناب ہرش وردھن سانگھوی جی، پارلیمنٹ میں میرے رفیق جناب ہنس مکھ بھائی پٹیل، جناب نرہری امین اور احمدآباد کے میئر بھائی جناب کریٹ کمار پرمار جی، دیگر معززین اور گجرات کے کونے کونے سے تشریف لائے میرے نوجوان دوستوں!

میرے سامنے نوجوانوں کے جوش و جذبہ کا سمندر ہے، یہ امنگ، یہ جوش و خروش کی موجیں، واضح طور پر بتا رہی ہیں کہ گجرات کا نوجوان آسمان چھونے کے لیے تیار ہے۔ یہ نہ صرف کھیلوں کا بڑا میلہ ہے بلکہ یہ گجرات کی نوجوان قوت کا بھی بڑا میلہ ہے۔ میں آپ تمام نوجوانوں کو 11ویں کھیل مہاکمبھ کے لیے بہت ساری نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ میں حکومت گجرات کو، خصوصاً مقبول عام وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر بھائی پٹیل کو بھی اس عظیم تقریب کے انعقاد کے لیے بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ کورونا کی وجہ سے دو برسوں تک کھیل مہاکمبھ پر روک لگی ہوئی تھی۔ تاہم بھوپیندر بھائی نے جس شاندار طریقہ سے اس تقریب کا انعقاد کیا ، اس نے نوجوان کھلاڑیوں کو نئے جوش سے بھر دیا ہے۔

دوستو،

مجھے یاد ہے، 12 برس قبل 2010 میں گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر، اُس مدت کار کے دوران کھیل مہاکمبھ کا آغاز ہوا تھا اور آج میں کہہ سکتا ہوں کہ جس خواب کا بیج میں نے بویا تھا، آج وہ برگد کا درخت بنتا نظر آرہا ہے۔ اس بیج کو میں آج اتنے بڑے برگد کے درخت کی شکل اختیار کرتے دیکھ رہا ہوں۔ 2010 میں پہلے کھیل مہاکمبھ میں ہی گجرات نے 16 کھیلوں میں 13 لاکھ کھلاڑیوں کے ساتھ اس کا آغاز کیا تھا۔ مجھے بھوپیندر بھائی نے بتایا کہ 2019 میں ہوئے کھیل مہاکمبھ میں یہ شراکت داری 13لاکھ سے 40 لاکھ نوجوانوں تک پہنچ گئی تھی۔ 36 کھیلوں، اور 26 پیرا کھیلوں میں 40 لاکھ کھلاڑی! کبڈی، کھو کھو اور ٹگ آف وار سے لے کر یوگ آسن اور مل کھمب تک! اسکیٹنگ اور ٹینس سے لے کر فیسنگ تک، ہر کھیل میں ہمارے نوجوان آج کمال کر رہے ہیں اور اب یہ اعدادو شمار 40 لاکھ سے تجاوز کرکے 55 لاکھ تک پہنچ رہے ہیں۔’شکتی دوت‘ جیسے پروگراموں کے ذریعہ کھیل مہاکمبھ کے کھلاڑیوں کو تعاون دینے کی ذمہ داری بھی حکومت اٹھا رہی ہے۔ اور یہ جو لگاتار کوششیں کی گئیں ، کھلاڑیوں نے جو محنت کی اور جب کھلاڑی ترقی کرتا ہے اس کے پس پشت ایک لمبی تپسیا ہوتی ہے۔ جو عزم گجرات کے عوام نے مل کر کیا تھا، وہ آج دنیا میں اپنا پرچم لہرا رہا ہے۔

میرے نوجوان ساتھیو،

گجرات کی اس نوجوان قوت پر آپ کو فخر ہے؟ گجرات کے کھلاڑی شجاعت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، آپ کو فخر کا احساس ہو رہا ہے؟ کھیل مہاکمبھ سے نکلنے والے نوجوان اولمپکس، دولت مشترکہ اور ایشیائی کھیلوں سمیت کھیلوں کے متعدد عالمی مقابلوں میں آج ملک اور گجرات کے نوجوان اپنے جلوے بکھیر رہے ہیں۔ ایسے ہی باصلاحیت کھلاڑی اس مہاکمبھ سے آپ کے درمیان سے ہی نکلنے والے ہیں۔ کھلاڑی نوجوان تیار کرتے ہیں۔ کھیل کے میدان سے ابھرتے ہیں اور پورے ہندوستان کا پرچم دنیا میں لہراتے ہیں۔

ساتھیو،

ایک وقت تھا جب کھیل کود کی دنیا میں بھارت کی شناخت محض دو کھیلوں پر منحصر تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو کھیل ملک کے افتخار اور اس کی شناخت سے مربوط تھے، انہیں بھی فراموش کر دیا گیا۔ اس کے لیے کھیلوں سے جڑے وسائل میں اضافہ کرنے، کھیل کود کے بنیادی ڈھانچہ کی تجدید کاری پر توجہ مرکوز کی جانی چاہئے تھی، جتنی اہمیت دینی چاہئے تھی، وہ ایک طرح سے رُک گئی تھی۔ اتنا ہی نہیں، جس طرح سیاست میں کنبہ پرستی گھر کر گئی ہے، اسی طرح کھیل کود کی دنیا میں بھی کھلاڑیوں کے انتخاب میں شفافیت کا فقدان ایک بہت بڑا عنصر تھا۔ کھلاڑیوں کی تمام صلاحیت پریشانیوں سے نبردآزمائی میں ہی صرف ہو جاتی تھی۔ مصیبت کے اس بھنور سے نکل کر بھارت کے نوجوان آج آسمان چھو رہے ہیں۔ طلائی اور نقرئی تمغات کی چمک دمک ملک کی خوداعتمادی کو روشن بھی کر رہی ہے اور معجزہ کا احساس بھی کرا رہی ہے۔ دنیا  کا سب سے نوجوان ملک کھیل کے میدان میں بھی ایک طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔ ٹوکیو اولمپکس اور پیرا لمپکس میں ہمارے کھلاڑیوں نے اس تبدیلی کو ثابت کیا ہے۔ ٹوکیو اولمپکس میں بھارت نے پہلی مرتبہ 7 تمغات جیتے ہیں۔ یہی ریکارڈ بھارت کے بیٹے بیٹیوں نے ٹوکیو پیرالمپکس میں بھی بنایا۔ بھارت نے اس عالمی مقابلہ میں 19 تمغات جیتے۔ لیکن ساتھیوں یہ تو شروعات ہے۔ ہندوستان نہ رکنے والا ہے، اور نہ تھکنے والا ہے۔مجھے میرے ملک کی نوجوان طاقت پر مکمل بھروسہ ہے، مجھے میرے ملک کے نوجوان کھلاڑیوں کی تپسیا پر بھروسہ ہے، مجھے میرے ملک کے نوجوان کھلاڑیوں کے خواب، عزم اور ایثار پر بھروسہ ہے۔ اور اس لیے آج میں لاکھوں نوجوانوں کے سامنے ہمت کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بھارت کی نوجوان طاقت اسے بہت آگے لے کر جائے گی۔ وہ دن دور نہیں جب متعدد کھیلوں میں، متعدد طلائی تمغات ایک ساتھ جیتنے والے ممالک میں ہندوستان کا ترنگا بھی لہرائے گا۔

ساتھیو،

اس بار یوکرین سے جو نوجوان واپس آئے ہیں، جنگ کے میدان سے آئے ہیں۔ بمباری کے بیچ سے آئے ہیں۔ یہاں آکر انہوں نے کیا کہا؟ انہوں نے کہا کہ ترنگے کی شان و شوکت کیا ہوتی ہے، اس کا احساس ہم نے یوکرین میں کیا ہے۔ لیکن ساتھیوں، میں ایک اور بات کی جانب آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ جب ہمارے کھلاڑی میڈل حاصل کرکے پوڈیم پر کھڑے رہتے تھے اور جب ترنگا جھنڈا دکھائی دیتا تھا، بھارت کا قومی ترانہ  گایا جاتا تھا، آپ نے ٹی وی پر دیکھا ہوگا، ہمارے کھلاڑیوں کی آنکھوں سے خوشی کے، فخر کے آنسو بہہ  رہے تھے۔ یہ ہوتی ہے دیش بھکتی۔

ساتھیو،

بھارت جیسے نوجوان ملک کی رہنمائی کرنے میں آپ تمام نوجوانوں کا بہت بڑا کردار ہے۔ آنے والے کل کی داستان نوجوان ہی لکھ سکتا ہے، اور وہی لکھ سکتا ہے جو اس کے لیے عزم کرتا ہے، اور عزم و ایثار کے ساتھ مصروف عمل ہو جاتا ہے۔ آج اس کھیل مہاکمبھ میں گجرات کے الگ الگ علاقوں سے، گاؤں سے، شہر سے، قصبات سے، آپ لاکھوں نوجوان یہاں ایک ساتھ جڑے ہیں۔ آپ اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ میں آپ کے خوابوں میں آپ کے علاقہ کا مستقبل دیکھتا ہوں۔ اور اس لیے آج اسٹارٹ اپ انڈیا سے لے کر اسٹینڈ اپ انڈیا تک! میک ان انڈیا سے لے کر آتم نربھر بھارت اور ’ووکل فار لوکل‘ تک! نئے بھارت کی ہر مہم کی ذمہ داری بھارت کے نوجوانوں نے خود آگے بڑھ کر اٹھائی ہے۔ ہمارے نوجوانوں نے بھارت کی اہلیت کو ثابت کر کے دکھایا ہے۔

میرے نوجوان ساتھیو،

آج سافٹ ویئر  سے لے کر اسپیس پاور تک، دفاع سے لے کر مصنوعی ذہانت تک، ہر میدان میں بھارت کا غلبہ ہے۔ دنیا بھارت کو ایک بڑی طاقت کے طورپر دیکھ رہی ہے۔ بھارت کی اس طاقت کو ’کھیل کود کا جذبہ‘ کئی گنا بڑھا سکتا ہے۔ یہی آپ کی کامیابی کا اصول ہے۔ اور اس لیے میں ہمیشہ کہتا ہوں جو کھیلے! وہی کھلے! میرا آپ تمام نوجوانوں کو مشورہ ہے، کامیابی کے لیے کبھی کوئی شارٹ کٹ راستہ نہ تلاش کریں! آپ نے ریلوے پلیٹ فارم پر دیکھا ہوگا، کچھ لوگ پل پر سے جانے کے بجائے پٹری پار کرکے جاتے ہیں، تو وہاں ریلوے والوں نے لکھا ہوتا ہے، Shortcut will cut you short ۔ شارٹ کٹ کا راستہ بہت مختصر ہوتا ہے۔

ساتھیو،

کامیابی کا صرف ایک ہی منتر ہے، طویل المدت منصوبہ بندی، اور ’مسلسل عہدبستگی‘۔ نہ ایک فتح ہماری آخری منزل ہو سکتی ہے، نہ ہی ایک شکست! ہم سب کے لیے ہمارے ویدوں نے کہا ہے، ’چرے ویتی۔ چرے ویتی‘۔ آج ملک بھی متعدد چنوتیوں کے درمیان، بغیر رُکے بغیر تھکے اور بغیر جھکے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہم سب کو مل کر لگاتار محنت کرتے ہوئے مسلسل آگے بڑھنا ہے۔

ساتھیو،

کھیل کود میں ہمیں جیت کے لیے 360 ڈگری مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اور پوری ٹیم کو مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ یہاں اچھے اچھے کھلاڑی موجود ہیں۔ آپ بتایئے، کیا کرکٹ میں کوئی ٹیم بلے بازی اچھی کرے، لیکن گیندبازی بالکل خراب کرے، تو وہ جیت پائے گی کیا؟ یا ٹیم کا ایک کھلاڑی بہت اچھا کھیلے، لیکن بقیہ تمام کھلاڑی اچھا مظاہرہ نہ کریں، تو بھی فتح حاصل کرنا ممکن ہوگا کیا؟ جیتنے کے لیے پوری ٹیم کو بلے بازی، گیندبازی اور فیلڈنگ سمیت کھیل کے تمام شعبوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

بھائیو بہنو،

بھارت میں کھیلوں کو کامیابی کی بلندی تک پہنچانے کے لیے بھی ملک کو آج ایسے ہی 360 ڈگری ٹیم ورک کی ضرورت ہے۔ اسی لیے، ملک ایک جامع نقطہ نظر کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ ’کھیلو انڈیا پروگرام‘ اسی کوشش کی ایک بڑی مثال ہے۔ پہلے ہمارے نوجوانوں کی صلاحیت دبی رہ جاتی تھی، انہیں موقع نہیں ملتا تھا۔ ہم نے ملک کی صلاحیتوں کی شناخت کرنا ، انہیں ہر ضروری تعاون دینا شروع کیا۔ صلاحیت ہونے کے باوجود ہمارے نوجوان تربیت کے فقدان کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے تھے۔ آج بہتر سے بہتر تربیتی سہولتیں کھلاڑیوں کو دی جا رہی ہیں۔ ملک اس امر کو یقینی بنا رہا ہے کہ کھلاڑیوں کو وسائل کی کمی نہ ہو۔ گذشتہ 7 سے 8 برسوں کے دوران کھیل کود کے بجٹ میں تقریباً 70 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ایک بڑی فکر کھلاڑیوں کے مستقبل کو لے کر بھی رہتی تھی۔ آپ تصور کیجئے، اگر کھلاڑی اپنے مستقبل کے لیے مطمئن نہیں ہوگا تو کیا وہ کھیل کے لیے اپنی صد فیصد قوت لگا سکے گا؟ اس لیے ، ہم نے کھلاڑیوں کو ملنے والی حوصلہ افزائی اور ایوارڈس میں بھی 60 فیصد سے زائد اضافہ کیا ہے۔ مختلف اسکیموں کے ذریعہ اب ان تمام کوچوں کو بھی انعام سے نوازا جا رہا ہے جنہوں نے تمغات جیتنے والے کھلاڑیوں کو تربیت دی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج دیہی علاقوں سے، پسماندہ طبقات سے، قبائلی معاشرے سے بھی وہ صلاحیتیں ملک کے لیے سامنے آر ہی ہیں، جس کے لیے ملک کو فخر کا احساس ہو رہا ہے۔

ساتھیو،

ہمار ے ملک میں کھلاڑیوں کو ایک اور عجیب سی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ پہلے آپ اگر کسی کو بتاتے تھے کہ میں ایک کھلاڑی ہوں، تو لوگ پوچھتے تھے کہ بھائی ٹھیک ہے، کھلاڑی ہو، ہر بچہ کھیلتا ہے۔ لیکن اصل میں کرتے کیا ہو؟ یعنی کھیل کو ہمارے یہاں عام طور پر قبولیت حاصل نہیں تھی۔

ساتھیو،

پریشان نہ ہوں۔ یہ پریشانی صرف آپ کے سامنے ہی نہیں آتی تھی۔ بلکہ ہمارے ملک کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کو بھی اس سے گزرنا پڑا ہے۔

میرے نوجوان ساتھیو،

ہمارے کھلاریوں کی کامیابی نے اب سماج کی اس سوچ کو تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ کھیل کود میں کرئیر کا مطلب محض دنیا کا سرفہرست کھلاڑی بننا ہی ہوتا ہے، ایسا نہیں ہے۔ کھیل کود سے وابستہ تمام شعبوں میں نوجوان اپنا کرئیر بنا سکتے ہیں۔ کوئی کوچ بن سکتا ہے۔ کوئی اسپورٹس سافٹ ویئر میں کمال کر سکتا ہے۔ اسپورٹس مینجمنٹ بھی کھیل کود سے وابستہ ایک بڑا شعبہ ہے۔ متعدد نوجوان اسپورٹس رائٹنگ میں شاندار کرئیر بنا رہے ہیں۔ اسی طرح، کھیلوں کے ساتھ ساتھ ٹرینر ، فزیوتھیرپسٹ اور ڈائیٹیشین جیسے تمام مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ ان تمام میدانوں کو نوجوان اپنے لیے کرئیر کے طور پر دیکھیں، آگے بڑھیں، اس کے لیے ملک پیشہ وارانہ ادارے قائم کر رہا ہے۔ مثال کے طو رپر 2018 میں ہم نے منی پور میں ملک کی پہلی نیشنل اسپورٹس یونیورسٹی قائم کی۔ اسپورٹس میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اترپردیش میں بھی میجر دھیان چند اسپورٹس یونیورسٹی شروع ہونے جا رہی ہے۔

ساتھیو،

آپ جب کھیلیں گے، فٹ رہیں گے، صحت مند رہیں گے، تبھی ملک کی قوت سے جڑیں گے۔ تبھی ملک کی قوت میں آپ بھی اضافہ کرنے والے ایک مہارتھی بن جائیں گے۔ اور تبھی آپ تعمیر قوم میں اپنا تعاون دیں گے۔ مجھے پورا یقین ہے، اس کھیل مہاکمبھ کے آپ سب اسٹار کھلاڑی اپنے اپنے علاقوں میں سرخرو ہوں گے، نئے بھارت کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر  کریں گے۔ میں نوجوانوں کے کنبہ اراکین سے بھی گذارش کرنا چاہتا ہوں۔ وقت بہت بدل چکا ہے۔ اگر آپ کی اولاد میں ، بیٹا ہو یا بیٹی، اگر کھیل کود میں اس کی دلچسپی ہے، آپ اسے تلاش کیجئے اور اس کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ اس کو آگے بڑھنے کے لیے ترغیب فراہم  کیجئے۔ آپ کتابوں کے لیے اس کو واپس مت کھینچئے۔ اسی طرح میں روزِ اول سے، جب کھیل مہاکمبھ شروع ہوا، تب سے کہہ رہا ہوں کہ گاؤں میں جب کھیل مہاکمبھ کا پروگرام چلتا ہو، اس وقت پورا گاؤں وہاں موجود رہنا چاہئے۔ تالیاں بجانے سے بھی کھلاڑی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ گجرات کے ہر شہری کو، کسی نہ کسی کھیل مہاکمبھ کے پروگرام میں فزیکل  طور پر جانا چاہئے۔ آپ دیکھئے، گجرات بھی کھیل کی دنیا میں اپنا پرچم لہرائے گا۔ ہندوستان کے کھلاڑیوں میں گجرات کے کھلاڑی بھی جڑ جائیں گے۔ اسی ایک امید کے ساتھ میں ایک مرتبہ پھر بھوپیندر بھائی اور ان کی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ تمام نوجوانوں کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ میرے ساتھ بولیے، بھارت ماتا کی جے!

بھارت ماتا کی جے!

بھارت ماتا کی جے!

بہت بہت شکریہ!

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
Ayushman driving big gains in cancer treatment: Lancet

Media Coverage

Ayushman driving big gains in cancer treatment: Lancet
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM’s address at Christmas Celebrations hosted by the Catholic Bishops' Conference of India
December 23, 2024
It is a moment of pride that His Holiness Pope Francis has made His Eminence George Koovakad a Cardinal of the Holy Roman Catholic Church: PM
No matter where they are or what crisis they face, today's India sees it as its duty to bring its citizens to safety: PM
India prioritizes both national interest and human interest in its foreign policy: PM
Our youth have given us the confidence that the dream of a Viksit Bharat will surely be fulfilled: PM
Each one of us has an important role to play in the nation's future: PM

Respected Dignitaries…!

आप सभी को, सभी देशवासियों को और विशेषकर दुनिया भर में उपस्थित ईसाई समुदाय को क्रिसमस की बहुत-बहुत शुभकामनाएं, ‘Merry Christmas’ !!!

अभी तीन-चार दिन पहले मैं अपने साथी भारत सरकार में मंत्री जॉर्ज कुरियन जी के यहां क्रिसमस सेलीब्रेशन में गया था। अब आज आपके बीच उपस्थित होने का आनंद मिल रहा है। Catholic Bishops Conference of India- CBCI का ये आयोजन क्रिसमस की खुशियों में आप सबके साथ जुड़ने का ये अवसर, ये दिन हम सबके लिए यादगार रहने वाला है। ये अवसर इसलिए भी खास है, क्योंकि इसी वर्ष CBCI की स्थापना के 80 वर्ष पूरे हो रहे हैं। मैं इस अवसर पर CBCI और उससे जुड़े सभी लोगों को बहुत-बहुत बधाई देता हूँ।

साथियों,

पिछली बार आप सभी के साथ मुझे प्रधानमंत्री निवास पर क्रिसमस मनाने का अवसर मिला था। अब आज हम सभी CBCI के परिसर में इकट्ठा हुए हैं। मैं पहले भी ईस्टर के दौरान यहाँ Sacred Heart Cathedral Church आ चुका हूं। ये मेरा सौभाग्य है कि मुझे आप सबसे इतना अपनापन मिला है। इतना ही स्नेह मुझे His Holiness Pope Francis से भी मिलता है। इसी साल इटली में G7 समिट के दौरान मुझे His Holiness Pope Francis से मिलने का अवसर मिला था। पिछले 3 वर्षों में ये हमारी दूसरी मुलाकात थी। मैंने उन्हें भारत आने का निमंत्रण भी दिया है। इसी तरह, सितंबर में न्यूयॉर्क दौरे पर कार्डिनल पीट्रो पैरोलिन से भी मेरी मुलाकात हुई थी। ये आध्यात्मिक मुलाक़ात, ये spiritual talks, इनसे जो ऊर्जा मिलती है, वो सेवा के हमारे संकल्प को और मजबूत बनाती है।

साथियों,

अभी मुझे His Eminence Cardinal जॉर्ज कुवाकाड से मिलने का और उन्हें सम्मानित करने का अवसर मिला है। कुछ ही हफ्ते पहले, His Eminence Cardinal जॉर्ज कुवाकाड को His Holiness Pope Francis ने कार्डिनल की उपाधि से सम्मानित किया है। इस आयोजन में भारत सरकार ने केंद्रीय मंत्री जॉर्ज कुरियन के नेतृत्व में आधिकारिक रूप से एक हाई लेवल डेलिगेशन भी वहां भेजा था। जब भारत का कोई बेटा सफलता की इस ऊंचाई पर पहुंचता है, तो पूरे देश को गर्व होना स्वभाविक है। मैं Cardinal जॉर्ज कुवाकाड को फिर एक बार बधाई देता हूं, शुभकामनाएं देता हूं।

साथियों,

आज आपके बीच आया हूं तो कितना कुछ याद आ रहा है। मेरे लिए वो बहुत संतोष के क्षण थे, जब हम एक दशक पहले फादर एलेक्सिस प्रेम कुमार को युद्ध-ग्रस्त अफगानिस्तान से सुरक्षित बचाकर वापस लाए थे। वो 8 महीने तक वहां बड़ी विपत्ति में फंसे हुए थे, बंधक बने हुए थे। हमारी सरकार ने उन्हें वहां से निकालने के लिए हर संभव प्रयास किया। अफ़ग़ानिस्तान के उन हालातों में ये कितना मुश्किल रहा होगा, आप अंदाजा लगा सकते हैं। लेकिन, हमें इसमें सफलता मिली। उस समय मैंने उनसे और उनके परिवार के सदस्यों से बात भी की थी। उनकी बातचीत को, उनकी उस खुशी को मैं कभी भूल नहीं सकता। इसी तरह, हमारे फादर टॉम यमन में बंधक बना दिए गए थे। हमारी सरकार ने वहाँ भी पूरी ताकत लगाई, और हम उन्हें वापस घर लेकर आए। मैंने उन्हें भी अपने घर पर आमंत्रित किया था। जब गल्फ देशों में हमारी नर्स बहनें संकट से घिर गई थीं, तो भी पूरा देश उनकी चिंता कर रहा था। उन्हें भी घर वापस लाने का हमारा अथक प्रयास रंग लाया। हमारे लिए ये प्रयास केवल diplomatic missions नहीं थे। ये हमारे लिए एक इमोशनल कमिटमेंट था, ये अपने परिवार के किसी सदस्य को बचाकर लाने का मिशन था। भारत की संतान, दुनिया में कहीं भी हो, किसी भी विपत्ति में हो, आज का भारत, उन्हें हर संकट से बचाकर लाता है, इसे अपना कर्तव्य समझता है।

साथियों,

भारत अपनी विदेश नीति में भी National-interest के साथ-साथ Human-interest को प्राथमिकता देता है। कोरोना के समय पूरी दुनिया ने इसे देखा भी, और महसूस भी किया। कोरोना जैसी इतनी बड़ी pandemic आई, दुनिया के कई देश, जो human rights और मानवता की बड़ी-बड़ी बातें करते हैं, जो इन बातों को diplomatic weapon के रूप में इस्तेमाल करते हैं, जरूरत पड़ने पर वो गरीब और छोटे देशों की मदद से पीछे हट गए। उस समय उन्होंने केवल अपने हितों की चिंता की। लेकिन, भारत ने परमार्थ भाव से अपने सामर्थ्य से भी आगे जाकर कितने ही देशों की मदद की। हमने दुनिया के 150 से ज्यादा देशों में दवाइयाँ पहुंचाईं, कई देशों को वैक्सीन भेजी। इसका पूरी दुनिया पर एक बहुत सकारात्मक असर भी पड़ा। अभी हाल ही में, मैं गयाना दौरे पर गया था, कल मैं कुवैत में था। वहां ज्यादातर लोग भारत की बहुत प्रशंसा कर रहे थे। भारत ने वैक्सीन देकर उनकी मदद की थी, और वो इसका बहुत आभार जता रहे थे। भारत के लिए ऐसी भावना रखने वाला गयाना अकेला देश नहीं है। कई island nations, Pacific nations, Caribbean nations भारत की प्रशंसा करते हैं। भारत की ये भावना, मानवता के लिए हमारा ये समर्पण, ये ह्यूमन सेंट्रिक अप्रोच ही 21वीं सदी की दुनिया को नई ऊंचाई पर ले जाएगी।

Friends,

The teachings of Lord Christ celebrate love, harmony and brotherhood. It is important that we all work to make this spirit stronger. But, it pains my heart when there are attempts to spread violence and cause disruption in society. Just a few days ago, we saw what happened at a Christmas Market in Germany. During Easter in 2019, Churches in Sri Lanka were attacked. I went to Colombo to pay homage to those we lost in the Bombings. It is important to come together and fight such challenges.

Friends,

This Christmas is even more special as you begin the Jubilee Year, which you all know holds special significance. I wish all of you the very best for the various initiatives for the Jubilee Year. This time, for the Jubilee Year, you have picked a theme which revolves around hope. The Holy Bible sees hope as a source of strength and peace. It says: "There is surely a future hope for you, and your hope will not be cut off." We are also guided by hope and positivity. Hope for humanity, Hope for a better world and Hope for peace, progress and prosperity.

साथियों,

बीते 10 साल में हमारे देश में 25 करोड़ लोगों ने गरीबी को परास्त किया है। ये इसलिए हुआ क्योंकि गरीबों में एक उम्मीद जगी, की हां, गरीबी से जंग जीती जा सकती है। बीते 10 साल में भारत 10वें नंबर की इकोनॉमी से 5वें नंबर की इकोनॉमी बन गया। ये इसलिए हुआ क्योंकि हमने खुद पर भरोसा किया, हमने उम्मीद नहीं हारी और इस लक्ष्य को प्राप्त करके दिखाया। भारत की 10 साल की विकास यात्रा ने हमें आने वाले साल और हमारे भविष्य के लिए नई Hope दी है, ढेर सारी नई उम्मीदें दी हैं। 10 साल में हमारे यूथ को वो opportunities मिली हैं, जिनके कारण उनके लिए सफलता का नया रास्ता खुला है। Start-ups से लेकर science तक, sports से entrepreneurship तक आत्मविश्वास से भरे हमारे नौजवान देश को प्रगति के नए रास्ते पर ले जा रहे हैं। हमारे नौजवानों ने हमें ये Confidence दिया है, य़े Hope दी है कि विकसित भारत का सपना पूरा होकर रहेगा। बीते दस सालों में, देश की महिलाओं ने Empowerment की नई गाथाएं लिखी हैं। Entrepreneurship से drones तक, एरो-प्लेन उड़ाने से लेकर Armed Forces की जिम्मेदारियों तक, ऐसा कोई क्षेत्र नहीं, जहां महिलाओं ने अपना परचम ना लहराया हो। दुनिया का कोई भी देश, महिलाओं की तरक्की के बिना आगे नहीं बढ़ सकता। और इसलिए, आज जब हमारी श्रमशक्ति में, Labour Force में, वर्किंग प्रोफेशनल्स में Women Participation बढ़ रहा है, तो इससे भी हमें हमारे भविष्य को लेकर बहुत उम्मीदें मिलती हैं, नई Hope जगती है।

बीते 10 सालों में देश बहुत सारे unexplored या under-explored sectors में आगे बढ़ा है। Mobile Manufacturing हो या semiconductor manufacturing हो, भारत तेजी से पूरे Manufacturing Landscape में अपनी जगह बना रहा है। चाहे टेक्लोलॉजी हो, या फिनटेक हो भारत ना सिर्फ इनसे गरीब को नई शक्ति दे रहा है, बल्कि खुद को दुनिया के Tech Hub के रूप में स्थापित भी कर रहा है। हमारा Infrastructure Building Pace भी अभूतपूर्व है। हम ना सिर्फ हजारों किलोमीटर एक्सप्रेसवे बना रहे हैं, बल्कि अपने गांवों को भी ग्रामीण सड़कों से जोड़ रहे हैं। अच्छे ट्रांसपोर्टेशन के लिए सैकड़ों किलोमीटर के मेट्रो रूट्स बन रहे हैं। भारत की ये सारी उपलब्धियां हमें ये Hope और Optimism देती हैं कि भारत अपने लक्ष्यों को बहुत तेजी से पूरा कर सकता है। और सिर्फ हम ही अपनी उपलब्धियों में इस आशा और विश्वास को नहीं देख रहे हैं, पूरा विश्व भी भारत को इसी Hope और Optimism के साथ देख रहा है।

साथियों,

बाइबल कहती है- Carry each other’s burdens. यानी, हम एक दूसरे की चिंता करें, एक दूसरे के कल्याण की भावना रखें। इसी सोच के साथ हमारे संस्थान और संगठन, समाज सेवा में एक बहुत बड़ी भूमिका निभाते हैं। शिक्षा के क्षेत्र में नए स्कूलों की स्थापना हो, हर वर्ग, हर समाज को शिक्षा के जरिए आगे बढ़ाने के प्रयास हों, स्वास्थ्य के क्षेत्र में सामान्य मानवी की सेवा के संकल्प हों, हम सब इन्हें अपनी ज़िम्मेदारी मानते हैं।

साथियों,

Jesus Christ ने दुनिया को करुणा और निस्वार्थ सेवा का रास्ता दिखाया है। हम क्रिसमस को सेलिब्रेट करते हैं और जीसस को याद करते हैं, ताकि हम इन मूल्यों को अपने जीवन में उतार सकें, अपने कर्तव्यों को हमेशा प्राथमिकता दें। मैं मानता हूँ, ये हमारी व्यक्तिगत ज़िम्मेदारी भी है, सामाजिक दायित्व भी है, और as a nation भी हमारी duty है। आज देश इसी भावना को, ‘सबका साथ, सबका विकास और सबका प्रयास’ के संकल्प के रूप में आगे बढ़ा रहा है। ऐसे कितने ही विषय थे, जिनके बारे में पहले कभी नहीं सोचा गया, लेकिन वो मानवीय दृष्टिकोण से सबसे ज्यादा जरूरी थे। हमने उन्हें हमारी प्राथमिकता बनाया। हमने सरकार को नियमों और औपचारिकताओं से बाहर निकाला। हमने संवेदनशीलता को एक पैरामीटर के रूप में सेट किया। हर गरीब को पक्का घर मिले, हर गाँव में बिजली पहुंचे, लोगों के जीवन से अंधेरा दूर हो, लोगों को पीने के लिए साफ पानी मिले, पैसे के अभाव में कोई इलाज से वंचित न रहे, हमने एक ऐसी संवेदनशील व्यवस्था बनाई जो इस तरह की सर्विस की, इस तरह की गवर्नेंस की गारंटी दे सके।

आप कल्पना कर सकते हैं, जब एक गरीब परिवार को ये गारंटी मिलती हैं तो उसके ऊपर से कितनी बड़ी चिंता का बोझ उतरता है। पीएम आवास योजना का घर जब परिवार की महिला के नाम पर बनाया जाता है, तो उससे महिलाओं को कितनी ताकत मिलती है। हमने तो महिलाओं के सशक्तिकरण के लिए नारीशक्ति वंदन अधिनियम लाकर संसद में भी उनकी ज्यादा भागीदारी सुनिश्चित की है। इसी तरह, आपने देखा होगा, पहले हमारे यहाँ दिव्यांग समाज को कैसी कठिनाइयों का सामना करना पड़ता था। उन्हें ऐसे नाम से बुलाया जाता था, जो हर तरह से मानवीय गरिमा के खिलाफ था। ये एक समाज के रूप में हमारे लिए अफसोस की बात थी। हमारी सरकार ने उस गलती को सुधारा। हमने उन्हें दिव्यांग, ये पहचान देकर के सम्मान का भाव प्रकट किया। आज देश पब्लिक इंफ्रास्ट्रक्चर से लेकर रोजगार तक हर क्षेत्र में दिव्यांगों को प्राथमिकता दे रहा है।

साथियों,

सरकार में संवेदनशीलता देश के आर्थिक विकास के लिए भी उतनी ही जरूरी होती है। जैसे कि, हमारे देश में करीब 3 करोड़ fishermen हैं और fish farmers हैं। लेकिन, इन करोड़ों लोगों के बारे में पहले कभी उस तरह से नहीं सोचा गया। हमने fisheries के लिए अलग से ministry बनाई। मछलीपालकों को किसान क्रेडिट कार्ड जैसी सुविधाएं देना शुरू किया। हमने मत्स्य सम्पदा योजना शुरू की। समंदर में मछलीपालकों की सुरक्षा के लिए कई आधुनिक प्रयास किए गए। इन प्रयासों से करोड़ों लोगों का जीवन भी बदला, और देश की अर्थव्यवस्था को भी बल मिला।

Friends,

From the ramparts of the Red Fort, I had spoken of Sabka Prayas. It means collective effort. Each one of us has an important role to play in the nation’s future. When people come together, we can do wonders. Today, socially conscious Indians are powering many mass movements. Swachh Bharat helped build a cleaner India. It also impacted health outcomes of women and children. Millets or Shree Anna grown by our farmers are being welcomed across our country and the world. People are becoming Vocal for Local, encouraging artisans and industries. एक पेड़ माँ के नाम, meaning ‘A Tree for Mother’ has also become popular among the people. This celebrates Mother Nature as well as our Mother. Many people from the Christian community are also active in these initiatives. I congratulate our youth, including those from the Christian community, for taking the lead in such initiatives. Such collective efforts are important to fulfil the goal of building a Developed India.

साथियों,

मुझे विश्वास है, हम सबके सामूहिक प्रयास हमारे देश को आगे बढ़ाएँगे। विकसित भारत, हम सभी का लक्ष्य है और हमें इसे मिलकर पाना है। ये आने वाली पीढ़ियों के प्रति हमारा दायित्व है कि हम उन्हें एक उज्ज्वल भारत देकर जाएं। मैं एक बार फिर आप सभी को क्रिसमस और जुबली ईयर की बहुत-बहुत बधाई देता हूं, शुभकामनाएं देता हूं।

बहुत-बहुत धन्यवाद।