خواتین و حضرات!
بھگوان شیو جی کا پسیندیدہ مہینہ ساون شروع ہوچکا ہے۔ ملک کے الگ الگ حصوں میں بھولے کے بھکت کانوڑ لے کر کے نکل چکے ہیں۔ ایک طرح سے اب سے لے کر کے دیوالی تک تہوار کا ماحول ہوتا ہے اور آنے والے تہواروں کے لئے میں آپ سبھی کو اور ہم وطنوں کو بھی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
ساتھیوں!
تہوار کے ساتھ ساتھ ملک کے بڑے حصے میں اچھی برسات بھی ہورہی ہے۔ موسم کی مہربانی کھیتی کے لیے معیشت کے لیے امیدوں سے بھری ہوئی ہے۔ لیکن بھاری بارش کے دوران ملک کے کچھ حصوں میں لوگوں کو تکلیف بھی ہورہی ہے۔ حکومت ہر صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے،ریاستی سرکاروں کے ساتھ ملک کر پوری کوشش کررہی ہے کہ مصیبت میں گھرے ملک کے ہر باشندے تک مدد پہنچے۔
ساتھیو! ایک حساس حکومت ہونے کے ناطے عام آدمی کی زندگی کو مصیبت سے نکالنا اُسے آسان اور سادہ بنانا یہ میں مانتا ہوں کہ ریاست کی سب سے پہلی ذمہ داری ہے اور ہمارا بھی یہی واحد مقصد ہے۔ پچھلے چار برس میں لگاتار اسی خیال کے ساتھ ہم آگے بڑھتے رہے ہیں اور آج یہاں لکھنؤ کی اس تقریب گا ہ میں جمع ہونا بھی اسی سلسلے کا حصہ ہے۔ مجھےلکھنؤ سے یہاں شہری زندگی کواسمارٹ اور سہولتوں سے لیس بنانے کے لیے منعقدہ پروگرام میں آنے کا موقع ملا تھا۔ اترپردیش کے شہر اور شہروں سے متعلق کئی اہم پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد اور غریب بے گھر بھائیوں بہنوں کو ان کے اپنے گھر کی چابی سونپنے کا بھی مجھے موقع ملا۔ اور مجھے خوشی ہے کہ آج اترپردیش کے کونے کونی کی کایا پلٹ کرنے ، تبدیلی لانے کے لیے یہاں ہم سب مل کر عزم کر کے آگے بڑھنے کی سمت گامزن ہے۔
ساتھیوں، پانچ مہینے میں یہ دوسری بار جب صنعتی دنیا سے وابستہ ساتھیوں کے ساتھ میں یہاں لکھنؤ میں مل رہا ہوں۔ اس سے پہلے فروری میں یوپی سرمایہ کاروں کی چوٹی میٹنگ کے لیے بھی میں آیا تھا۔ اور مجھے جانکاری دی گئی ہے کہ اُس چوٹی میٹنگ کے دوران یوپی میں سوا چار لاکھ کروڑ سے زیادہ کی سرمایہ کاری کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا۔ اور مجھے خوشی ہے کہ میں عزم کو زمین پر اتارنے کی اس کڑی میں آج تک بہت بڑا قدم اٹھایا جارہا ہے۔
ہمارے ستیش جی، پتہ نہیں آج کیوں شک و شبہ میں بات کررہے ہیں۔ بڑی عاجزی اور انکسار سے ایسا کہہ رہے تھے جیسے ساٹھ ہزار صرف ساٹھ ہزار ہوں۔ آپ کو بھوک زیادہ ہو، مجھے لگ رہا تھا نا۔ لیکن میں لمبے عرسے تک وزیراعلیٰ رہ کر آیا ہوں اور صنعتی سرگرمیوں سے وابستہ ریاست سے آیا ہوں۔ ساٹھ ہزار کم نہیں ہوتا ہے۔ ساٹھ ہزار کروڑ بہت بڑا ہوتا ہے۔ آپ کو اندازہ ہی نہیں آپ نے کتنی بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔
میں یہاں کے افسروں کو بھی مبارکبار پیش کرتا ہوں۔ یہ آپ نے بہت ہی عمدہ کام کیا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ حصص کی فروخت میں کیسی کیسی چیزیں آڑے آتی ہیں جی۔ ایک کورٹ کچہری میں کاغذ چلا جائے، دو دو سال تک کام اٹک جاتاہے جی۔ ماحولیات والوں کے پاس چلا جائے تو اوپر بیٹھ جاتا ہے اور کسی اخبار والے کے ہتھے چڑھ گیا : سبھاش جی پھر تو سرکار بھی ڈر جاتی ہے، اس کو کام دیں یا نہ دیں۔ کرنے دیں نہ کرنے دیں۔ کیونکہ حریف گروپ کے لوگ طرح طرح کے کھیل کھیلتے ہیں۔ ان ساری مصیبتوں کو پاس کرتے ہوئے پانچ مہینے کے اندر اندر یہ رفتار لانا۔ 100 ہزار کروڑ روپے سرمایہ کاری کا کام شروع ہونا یہ عجیب و غریب کامیابی ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں تو کہہ رہا ہوں۔ کہ آپ کی پوری ٹیم پوری ٹیم بہت بہت مبارکباد کی مستحق ہے ۔ میں ان کسانوں کو بھی مبارکباد دوں گا، جنھوں نے، جہاں زمین کی ضرورت پڑی ہوگی، زمین دی ہوگی۔ میں ان چھوٹے چھوٹے ملازم، وہاں کا پٹواری بھی وہ بھی آڑے نہیں آیا ہوگا، تب ہوا ہوگا جی۔ ملک یا تو وزیراعظم چلا سکتا ہے یا پٹواری چلا سکتا ہے اور اس لیے یہ قیادت کی کامیابی ہے کہ اتنے کم وقت میں وزیراعلیٰ سے لے کرکے پٹواری تک ساری ٹیم برابر ملک میں سوچ کرکے آگے بڑھ رہی ہے۔
مجھے دوسری خوشی کی بات ہے کہ آپنے ان ساری چیزوں کو کسی فرد واحد کے بھروسے نہیں چھوڑ رکھا ہے۔ آپ نے الگ الگ شعبوں کے لیے پالیسی بنائی ہے۔ بلیک اینڈ وہائٹ میں چیزیں رکھی ہیں۔ آن لائن کوئی بھی اس کو دیکھ سکتا ہے اور جس کو وہ لگے گا، ہاں بھئی یہ میں اپنےآپ کو فٹ کرسکتا ہوں، ہاں وہ آئے گا۔ یہ پالیسیوں کی بنیاد پر چلائی جانے والی ریاست، یہ اترپردیش کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اور اس لیے مہربانی کرکے ان ساٹھ ہزار کو ساٹھ ہزار کروڑ کو کم مت مانئے۔ آپ نے عجیب و غریب کامیابی حاصل کی ہے جی۔ کیوں کہ میں اس کام کو لمبے عرصے تک کرکے آیا ہوں تو مجھے پتہ ہے کہ کتنی محنت لگتی ہے ان میں کتنے اقدامات کرنے پڑتے ہیں، کتنی پیروی کرنی پڑتی ہے اور کتنی گالیاں کھانی پڑتی ہیں، لیکن ریاست کے لیے پرعزم ہوتے ہیں تو راستے بھی نکلتے ہیں۔
دوسری خوشی کی بات ہے، دیکھئے سائیکل کی ٹیوب میں اتنے پوائنٹ ہوا بھرنے سے معقول ہوا بھر جاتی ہے تو سائیکل چلتی ہے، لیکن کبھی کبھی اس ٹیوب میں ایک کونے میں پھگگا ہوجاتا ہے، غبارہ ہوجاتا ہے۔ اب میٹر دیکھوگے تو میٹر تو ٹھیک لگے گا۔ ہاں اتنا پوائنٹ ہوا ہوگئی، لیکن وہ سائیکل چل نہیں پاتی، وہ ہوا ہی رُکاوٹ بن جاتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اترپردیش میں وزیراعلیٰ جی نے ہمہ گیر ترقی پر دھیان دیا ہے۔ اترپردیش کے سبھی زمینی حصوں کو موقع ملے، متوازن ترقی ہو، متوازن ترقی ہی اترپردیش کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ صرف نوئیڈا، غازی آباد کی ترقی سے نمبر تو اوپر جائے گا لیکن اترپردیش کی ضروریات کی تکمیل نہیں ہوگی۔ اس اُس کام کو جس طرح سے کیا ہے اور آج مجھے خوشی ہے کہ ساری چیزوں کو ب عوام کے سامنے باریکیوں سے یہاں بتایا گیا ہے ۔ ان سارے پہلوؤں کو میں سمجھتا ہوا، مبارکباد کے مستحق ہیں۔
کچھ لوگ اسے آغاز کی تقریب کہہ رہے ہیں۔ ویسے تو روایت وہ ہی ہے۔ لیکن یہ سب دیکھنے کے بعد میں کہتا ہوں۔ یہ ریکارڈ کو توڑنے والی تقریب ہے۔ اتنے کم وقت میں جس طرح سے ان سرگرمیوں کو تیزی سے بڑھایا گیا ہے، پرانے طور طریقوں کو تبدیل کیا گیا ہے، ایسے اترپر دیش میں، میں نہیں مانتا ہوں، پہلے کوئی بھی شخص اٹھ کر کہہ سکتا ہے، جو آج اعتماد پیدا ہوا۔ یہاں کے لیے تو یہ انتظامیہ کی بالکل نئی چیز ہے جی۔ اور مجھے خوشی ہے کہ یوگی جی کی قیادت میں حکومت نے سرمایہ کاروں سے مسلسل بات چیت قائم رکھی اور ارادے کو سرمایہ کاری میں تبدیل کرنے کا ماحول تیار کیا۔ آن لائن معاہدوں، ٹریکر ہو یا پھر منظوری کے لیے سرمایہ کاری دوست جیسی سنگل ونڈو ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہو، یہ بدلا ہوا طریقہ کار اور یو پی میں بزنس کے لیےبنےمناسب ماحول کا مظہر ہے۔ ایک وہ وقت تھا جب یوپی میں سرمایہ کاری کرنے کو لوگ چنوتی مانتے تھے۔ آج وہ چنوتی مواقع کی صورت میں ابھر کرکے آرہی ہے۔ مواقع روزگار کے ہوں، تجارت کے ہوں، اچھی سڑکوں کے ہوں، معقول بجلی کے ہوں ، بہتر مستقبل کے اور روشن مستقبل کے ہوں۔ آج کا یہ انعقاد یوپی پر بڑھتے بھروسے کی علامت ہے۔ پرواز کی علامت ہے۔ یوپی کی ترقی کی علامت ہے۔ مجھے امید ہے جس رفتار سے آپ آگے بڑھ رہے ہیں، اس سے اترپردیش کو ایک ٹریلین ڈالر کی معاشی چنوتی پار کرنے میں بہت وقت نہیں لگے گا۔ یہ میری روح کہتی ہے۔ اترپردیش سرکار کو صنعتی دنیا کے آپ صحیح ساتھیوں کو اس عزم کے لیے بہت بہت مبارکباد اور نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
ہم وہ لوگ نہیں ہیں جی، جو صنعت کاروں کی بغل میں کھڑے رہنے سے ڈرتے ہیں، ورنہ کچھ لوگوں کو آپ نے دیکھا ہوگا، ان کی ایک تصویر آپ نہیں کھینچ سکتے کسی صنعت کار کے ساتھ، لیکن ایک ملک کا صنعت کار ایسا نہیں ہو، جنھوں نے ان کے گھروں میں جاکرکے قدم بوسی نہ کی ہو۔ یہ امر سنگھ یہاں بیٹھے ہیں، اُن کے پاس سارا، وہ تاریخ نکال دیں گے۔ لیکن جب نیت صاف ہو، ارادے نیک ہوں، تو کسی کے بھی ساتھ کھڑے ہونے سے داغ نہیں لگتے ہیں جی۔ مہاتما گاندھی کی زندگی جتنی پاک تھی، ان کو برلا جی کے گھر خاندان میں، جاکر رہنے میں کبھی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی، برلا جی کے ساتھ کھڑے رہنے میں اُن کو کبھی جھجک نہیں ہوئی۔ نیت صاف تھی۔ جن لوگوں کو عوام میں تو ملنا نہیں ہے، پردے کے پیچھے سب کچھ کرنا ہے، وہ ڈرتے رہتے ہیں۔ اگر ہندوستان کو بنانے میں ایک کسان کی محنت کام کرتی ہے، ایک کاریگر ی محنت کام کرتی ہے، ایک بینکر فائنانسر کی محنت کام کرتی ہے، ایک سرکار کے ملازم کی محنت کام کرتی ہے، ایک مزدور کی محنت کام کرتی ہے ویسے ہی ملک کے صنعتکاروں کا بھی ملک کو بنانے میں رول ہوتا ہے۔ ہم ان کو بے عزت کریں گے، چور لٹیرے کہیں گے، یہ کونسا طریقہ ہے۔ ہاں جو غلط کرے گا، اس کو یا تو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑے گا یا جیلوں میں زندگی گزارنی پڑے گی۔ لیکن یہ بھی پہلے اس لیے نہیں ہوتا تھا ، کیونکہ پردے کے پیچھے پہلے بہت کچھ ہوتا ہے۔ کس کے جہاز میں لوگ گھومتے ہیں، پتہ نہیں ہے کیا۔
اور اس لیے ملک کو آگے بڑھانے کے لیے ہر کسی کے ساتھ اور تعاون کی ضرورت ہے اور ملک کے سوا سو کروڑ شہریوں کو وقار بخشنا یہ ہم سب ملک کے شہریوں کی ذمہ داری ہے۔ جو پروجیکٹ آج شروع ہوئے ہیں، ان میں آگے دو لاکھ سے زیادہ نوجوانو کو سیدھا روزگار ملنے والا ہے اور اس کے علاوہ جہاں یہ صنعتیں لگیں گی، فیکٹریاں لگیں گی ، وہاں کے لوگوں کو بلا مقابلہ روزگار بھی ملے گا۔ ان پروجیکٹوں سے کسان ہو، مزدور ہو، نوجوان ہو، ہر کسی کو فائدہ ہونے والا ہے۔
ساتھیو، میں یوپی کے 22 کروڑ عوام سے عہد کیا تھا کہ اُن کے پیار کو سود سمیت واپس کروں گا، آج یہاں جو پروجیکٹ شروع ہورہے ہیں، وہ اسی عہد بستگی کا ایک اہم جامع قدم ہے۔ یہ پروجیکٹ اترپردیش میں معاشی اور صنعتی عدم توازن کو دور کرنے میں بھی مددگار ہوں گے، کیونکہ یہ ریاست کے کچھ مخصوص علاقوں تک ہی محدود نہیں ہیں۔ ان کی توسیع نوئیڈا، گریٹر نوئیڈا، میرٹھ، مظفر نگر سے لے کر جھانسی، ہردوئی، امیٹھی، رائے بریلی اور جونپور، مرزا پور، گورکھپور تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ پروجیکٹ ڈیجیٹل انڈیا اور میک ان انڈیا مہم کو نئی شکل دینے کی سمت میں بھی بہت بڑے قدم ثابت ہونے والے ہیں۔
پورے اترپردیش میں تیز انٹر نیٹ سروس پہنچانے کے لیے آپٹیکل فائبر بچھانا ہو، یا پھر آئی ٹی سینٹر قائم کرنے کا کام یہ ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچہ یوپی کی ترقی کو نئی مہمیز ، نئی سمت اور نوجوانوں کو نیا موقع دینے والا ہے یہ ہماری سرکاری کے اُس جامع منصوبے کا حصہ ہے، جس کے تحت ہم ڈیجیٹلائزیشن کے ساتھ ساتھ عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی صورتحال کھڑی کرنا چاہتے ہیں، جہاں کسی طرح کی تفریق کی گنجائش نہ ہو۔ ردعمل میں رفتار بھی نظر آئے اور حساسیت بھی دکھائی دے۔ نہ اپنا نہ پرایا، نہ چھوٹا نہ بڑا، سب کے ساتھ مساوی رویہ یعنی کل ملاکر سب کا ساتھ سب کا وکاس۔
ساتھیو! سروسز کی تیز اور شفاف فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے ڈیجیٹل انڈیا مہم آج بھرپور کردار ادا کررہی ہے۔ گاؤں گاؤں میں پھیلے تین لاکھ سے زیادہ کامن سروس سینٹر آج ہماری گاؤں کی زندگی کو بدل رہے ہیں۔ ٹکٹ بکنگ، بجلی ، ٹیلی فون کے بل، ٹیلی میڈیسن، عام دوائیں آدھار خدمات جیسی سینکڑوں خدمات کے لیے اب گاؤں کے لوگ سرکاری دفتروں کے چکر لگانے کے لیے مجبور نہیں ہیں۔ گاؤں میں کامن سروس سینٹر، تو شہروں میں فری وائی فائی ہاٹ اسپاٹ، سستا موبائل انٹر نیٹ، غریب اوسط درجے کی زندگی کو آسان بنانے میں بہت بڑی مدد کررہا ہے۔
ساتھیوں! آئی ٹی صنعتیں برسوں سے ہماری طاقت رہی ہیں۔ آج آئی ٹی ایکسپورٹ ریکارڈ سطح پر ہے۔ 40 لاکھ سے زیادہ لوگ اس صنعت سے وابستہ ہیں، لیکن ملک کی یہ طاقت بڑے شہروں، میٹروں شہروں، وہاں تک محدود رہ گئی۔ ہماری سرکار اس طاقت کو ملک ے چھوٹے شہر اور گاؤوں تک پہنچانے کے عزم کے ساتھ کام کررہی ہے۔
ساتھیو! ٹکڑوں میں سوچنے کی سرکاری روایت اب ختم ہوچکی ہے۔ اب سیلوز کو ختم کرکے، حل نکالنے کے عمل کو اور تال میل کو فروغ دیا جارہا ہے۔ حکومت کا ایک نیا منصوبہ ایک ایکشن کا دوسرے سے سیدھا کنکشن ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا مہم اور میک ان انڈیا مہم اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ آج ڈیجیٹل انڈیا ڈیجیٹل لین دین کا جو اضافہ ہورہا ہے، اس کے پیچھے سستے ہوتے موبائل فون، بھی ایک سبب ہیں۔ موبائل فون اس لیے سستے ہوئے، کیونکہ اب بڑی تعداد میں بھارت میں فون کی مصنوعات سازی ہونے لگی ہے، بننے لگے ہیں۔ آزاد ملک دنیا کے لیے موبائل مصنوعات سازی کا مرکز بنتا جارہا ہے۔ آج ہم دنیا میں موبائل فون بنانے کے معاملے میں دوسرے نمبر پر پہنچ چکے ہیں۔ اور مجھے خوشی ہے کہ اس مصنوعات سازی کے انقلاب کی قیادت اترپردیش کررہا ہے۔
یوپی میں پچاس سے زائد موبائل فون بنانے والی فیکٹریاں آج کام کررہی ہیں۔ حال میں ہی دنیا کی سب سے بڑی مینوفیکچرنگ یونٹ کی شروعات بھی اسی اترپردیش میں ہوئی ہے۔ آج بھی یہاں جن نئی فیکٹریوں کی بنیاد رکھی گئی ہے، ان میں موبائل مینو فیکچرنگ سے تعلق رکھنے والی فیکٹریاں بھی شامل ہیں۔
ساتھیو! آج جو ماحول بنا ہے، اس کے لیے پچھلے چار سال میں بہت سے فیصلے سرکار نے کئے۔ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری سے متعلق فیصلے ہوں۔ ملک میں مینو فیکچرنگ کے لیے ترغیبات دینے کا فیصلہ ہو، یا پھر کام کرنے کےعمل کو آسان بنانے کا فیصلہ ہو، یہ سب روزگار کے لیے سازگار ماحول بنانے میں مددگار ثابت ہورہے ہیں۔ برسوں سے جو جی ایس ٹی اٹکا ہوا تھا، اُس نے ملک کو ٹیکس کے جال سے آزاد کیا اور اس کا بھی فائدہ صنعتی دنیا کو ہوا ہے۔
پچھلے برس ملک میں مصنوعات سازی کو فروغ دینے کے لیے ایک بہت اہم قدم اٹھایا گیا ہے۔ میک ان انڈیا میں سرکاری خریداری کی ترجیح کے حکم کے ذریعے سرکار کے تمام محکموں اور ادروں میں خریدی جارہی اشیا اور خدمات کے گھریلو وسیلے سے خریدنے پر زور دیا جارہا ہے۔ میڈ ان انڈیا کو تقویت دی جارہی ہے۔ اس حکم کا فائدہ ملک کی چھوٹی صنعتوں کو بھی مل رہا ہے۔ پچھلے ایک سال میں یہاں یوگی جی کی قیادت میں جو تبدیلی آئی، پالیسیاں بنیں، جرائم پر کنٹرول ہوا، اس سے یوپی کو دوہرا فائد ہ ہوا ہے۔ ساتھیو! بھاجپا حکومت مجموعی نظریے، شمولیت والی کارروائی، مجموعی نظریے اور شمولیت والی کارروائی اس طرز پر کام کررہ رہی ہے۔
اس اسٹیج سے یہاں موجود صنعتی دنیا کے سبھی ساتھیو! آپ سبھی کو اور تمام سرمایہ کاروں کو بھروسہ دلانا چاہتا ہوں کہ ترقی کی ہماری یہ جو دوڑ ہے نا میرے لیے تو یہ ایک شروعات ہے۔ بہت دوڑنا باقی ہے۔ تیز رفتار سے دوڑنا ہے، آپ قومی تعمیر کی ایک اہم اکائی ہیں اور آپ کے عزائم ملک کے کروڑوں نوجوانوں کے خوابوں سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ ان خوابوں کو پورا کرنے کے لیے جو بھی فیصلے کرنے پڑیں گے وہ مستقبل میں بھی پوری مضبوطی کے ساتھ لینا کا ہم میں ارادہ بھی ہے، طاقت بھی ہے۔
جیسے جیسے بنیادی ڈھانچے سے جڑے ہمارے بڑے پروجیکٹ تیار ہوجائیں گے، ملک میں حصص کی فروخت کرنا اور زیادہ آسان ہونے والا ہے۔ خاص طور پر لاجسٹک پر ہونے والا خرچ بہت کم ہونے والا ہے۔ اگلی پیڑھی کے بنیادی ڈھانچے سے عام آدمی کے ساتھ ساتھ صنعتی دنیا کو بھی بہت فائدہ ہونے والا ہے۔
ساتھیو! اطلاعاتی ٹیکنالوجی صارفین الیکٹرانک، الیکٹرانکس مینو فیکچرنگ کے لیے یو پی میں بہت امکانات ہیں۔ یہاں کے ایم ایس ایم ای شعبے کو بھی آنے والے وقت میں اس نئے بنیادی ڈھانچے کا فائدہ ملنے والا ہے۔ یہاں کے چھوٹے بیوپاریوں، چھوٹے اور درمیانے صنعتکاروں سے میری درخواست ہے کہ جو اب بھی نقد کے کاروبار کررہے ہیں، وہ ڈیجیٹل لین دین کی طرف ذرا آگے جائیں۔
ساتھیو! دیرپا ترقی اور لگاتار کوشش ہی سوا سو کروڑ ہندوستانیوں کے خوابوں کو پورا کرنے والی ہے۔ دیرپا ترقی کی جب ہم بات کرتے ہیں، تب بجلی کی صورتحال اس کا ایک بہت اہم حصہ ہوتی ہے۔ سستی اور لگاتار بجلی عام زندگی کی بھی بنایدی ضرورت ہے تو زراعت اور صنعت کے لیے بھی بجلی اُتنی ہی لازمی ہے۔ اور اس لیے بجلی پر اس حکومت کی بہت بڑی توجہ ہے۔ آج روایتی توانائی سے ملک سبز توانائی کی طرف تیزی سے برھ رہا ہے۔ خاص طور پر شمسی توانائی پر حکومت خصوصی دھیان دے رہی ہے۔ بین الاقوامی شمسی اتحاد کے قدم کو آج دنیا بھر میں حمایت حاصل ہورہی ہے۔ شمسی توانائی کے میدان میں بھی یو پی بہت بڑا مرکز بننے والا ہے۔ مرزا پور میں ہی کچھ مہینے پہلے ایک بہت بڑے پلانٹ کا افتتاح کیا گیا تھا۔ آج ایک اور پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔
بھائیو اور بہنو! آج بھارت ہی نہیں افریقہ سمیت دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ملکوں کو شمسی ٹیکنالوجی، شمسی پمپ، جیسی مشینوں کی ضرورت ہے۔ میری آپ سبھی سے یہ بھی درخواست ہے، کہ سبز اور صاف ستھری توانائی کے میدان میں بھارت میں بنتے ہوئے نہ ختم ہونے والے ماحول اور عالمی حالات کا فائدہ اٹھانے کے لیے ہماری صنعتی دنیا کے سب ساتھی آگے آئے ہیں۔
ساتھیو! بجلی کی پیداوار سے لے کر گھر گھر تک بجلی پہنچانے کا کام آج نہ رُکنے والی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ 14-2013 میں جہاں ہمارا توانائی کا خسارہ چار اعشاریہ دو فیصد تھا، چار سال کے اندر اندر آج ہمارا خسارہ ایک فیصد سے بھی کم ہوگیا ہے۔ جو کوئلہ ، کوئلے کا نام سنتے ہی ملک میں جو کوئلہ کبھی کالک کی وجہ بنا تھا، وہ آج ریکارڈ سطح پر پیدا ہورہا ہے۔ آج کوئلے کی کمی سے چلتے ہوئے پاور گرڈ فیل نہیں ہوتے۔
اتنا ہی نہیں بجلی کے شعبے میں بھی اصلاحات کی گئی ہیں۔اُن سے ملک اور ملک کے عوام کے ہزاروں کروڑ روپے کی بچت ہوئی ہے۔
اُدے اسکیم نے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو نئے سرے سے جلا بخشی ہے۔ اُجالا کے تحت گھر گھر میں جو ایل ای ڈی بلب لگائے گئے ہیں، اس سے تین برسوں کے دوران بجلی کے بل میں قریب ، اور یہ میرے خاص کرکے درمیانہ طبقے کے خاندان، جو بجلی کے خریدار ہیں، نگر پالیکا، مہانگر پالیکا، جو اسٹریٹ لائٹ کی بجلی کا بل بھرتے ہیں۔ بجلی کے بل میں پچھلے تین سال میں پچاس ہزار کروڑ روپے کی بچت ہوئی ہے۔ پچاس ہزار کروڑ روپے اور انہی پچاس ہزار کروڑ روپے کی کسی رعایت کا مودی نے اعلان کیا ہوتا تو شاید ہفتہ بھر سرخی بنی رہتی۔ واہ واہ مودی، واہ واہ۔ ہم نے اسکیم ایسی بنائی کہ لوگوں کی جیب میں پچاس ہزار کروڑ روپے بچے۔ دیش کیسے بدل رہا ہے۔ جب صاف نیت سے کام ہوتا ہے تو اسی طرح یہی ترقی بھی کرتا ہے۔
ساتھیو! آج ملک میں بجلی کی دستیابی بہت آسان ہوئی ہے۔ عالمی بینک کی بجلی کاری میں آسانی کی رینکنگ میں بھارت نے گذشتہ چار برسوں میں تقریباً 82 پائیدانوں کی چھلانگ لگائی ہے۔ اتنا بہتری ہوئی ہے۔ آج ملک کے ہر گاؤں تک بجلی پہنچائی جاچکی ہے۔ اگلے سال مارچ تک ہر گھر تک بجلی پہنچانے کا ہدف بناکر کے ہم تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
میں کبھی کبھی حیران ہوتا ہوں – کچھ لوگ ہمارے پیچھے پڑ جاتے ہیں، ہم کہتے ہیں ایساکیا تو وہ بس لگ جاتے ہیں۔ نہیں، نہیں کیا ہے۔ لیکن جو لوگ مودی کی تنقید کرتے ہیں ، وہ لکھ رکھیں- آپ جب مودی کی تنقید کرنے کے لیے چیزوں کی تلاش کررہے ہوں گے – تو جو 70 سے سال سے باقی پڑی تھیں، وہ ہی نکلیں گی۔ میرے کھاتے میں چار سال ہیں، دوسروں کے کھاتے میں 70 سال ہیں۔ اس کے بعد ہمارا ہدف ملک کو بلا رکاوٹ بجلی فراہم کرنے کا بھی ہے۔ اس کے لیے ٹرانسمیشن کےنیٹ ورک کو مضبوط کیا جارہا ہے۔
آج جو گھاٹم پور- ہاپوڑ ٹرانسمیشن لائن کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، وہ اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ یوپی میں پہلے کی حکومتوں کے دوران جس طرح ٹرانسمیشن کا انتظام و انصرام فرسودہ ہوچکا تھا، اس میں نئی روح پھونکنے کے لیے یوگی جی کی سرکار کو پوری تحریک دی جارہی ہے۔
ساتھیو! یوپی کے طویل عرصے تک ممبر پارلیمنٹ رہے اور ہمارے قابل احترام سابق وزیر اعظم جانب اٹل بہاری واجپئی جی کہتے رہتے ہیں کہ وہ ایسا بھارت دیکھنا چاہتے ہیں جو خوشحال ہو، باصلاحیت ہو اور حساس ہو۔ جہاں گاؤں اور شہروں کے درمیان کوئی کھائی نہ ہو۔ جہاں مرکز اور ریاست میں محنت اور اثاثے میں انتظامیہ اور شہری کے میں فرق نہ ہو۔
اٹل جی نے نہ صرف خواب دیکھا بلکہ عوام کو اس کو پورا کرنے کے لئے ان کا خاکہ بھی واضح کررہی ہے۔ اٹل جی نے کبھی کہا تھا کہ سڑکیں، ہاتھوں کی لکیروں کی طرح ہوتی ہیں۔ اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے بنیادی ڈھانچے پر توجہ دی ہے۔ اٹل جی کی سوچ کو 21ویں صدی کی ضروریات کے مطابق اگلی سطح پر لے جانے کی کوشش ہم پوری طاقت سے کررہے ہیں۔ یوپی میں پوروانچل ایکسپریس جیسے ملک کے سب سے بڑے ایکسپریس ہوں، بندیل کھنڈ میں ڈیفنس انڈسٹریل کوریڈور کا قیام ہو، ایسے تمام پروجیکٹو ں کو تیزی سے پورا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ساتھیو! دنیا میں کہیں بھی کوئی بھی بہترین طریقہ کوئی بھی بہتر سہولت، دستیاب ہے تو اس کو اپنے نوجوان ساتھیوں تک سوا سو کروڑ باشندوں تک پہنچانے کے لیے سرکار ہر ممکن کوشش کرر ہی ہے۔ جوق در جوق امنگوں کو عوام کی شراکت سے پورا کرنا ہی ہمارا راستہ ہے۔ نیو انڈیا کا خاکہ ہے۔اترپردیش کے لیے، دیش کے لیے، آپ سبھی جو کچھ کررہے ہیں، اس کے لیے میں آپ کو دل سے مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ کا خیرمقدم کرتا ہوں۔
میں پچھلے دو، ایک مہینے پہلے ممبئی گیا تھا۔ تو میں نے ممبئی میں صنعتی دنیا کے لوگوں کو مدعو کیا تھا۔ اور لوگ بلاتے ہیں ، لیکن بتانے کی ہمت نہیں کرتے، میں نے بلایا تھا۔ اور میں نے ان کے سامنے پرزنٹیشن دیا کہ آپ اتنے بڑے دھنوان لوگ ہیں، اتنی بڑی صنعت چلاتے ہیں، اتنے کاروبار کرتے ہیں، لیکن ہمارے ملک میں یہ جو صنعتی دنیا ہے۔ پوری اتنی بڑی دنیا میں اس کے زراعتی شعبے میں ، کارپوریٹ دنیا کی سرمایہ کاری صرف اور صرف ایک فیصد ہے، جو دنیا کے کسی ملک میں اتنا کم نہیں ہوتا۔ اور میں نے ان سے آدھا دن لگایا تھا کہ ہماری کارپوریٹ دنیا کی سرمایہ کاری زراعت میں کیسے آئے اور یہ ایک فیصد میں بھی کیا ہوتا ہے۔ ٹریکٹر بنانے والے یا یوریا بنانے والے، وہ ہی زیادہ ہیں۔ ظاہری طور پر کسان کو فائدہ ہو اور میں صنعتی دنیا کے لوگوں سے درخواست بھی کی ہے، شعبے بھی سمجھائے ہیں۔ ویلیو ایڈیشن کیسے ہو، زراعت میں ٹیکنالوجی کیسے لائیں، وئیر ہاؤسز، کولڈ اسٹوریج، پیکجنگ، کئی ایسے شعبے ہیں جو ہمارے کاشتکاروں کو بہت فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ اور اس سمت میں کام کرنے کے لیے میں نے ملک کے صنعت کاروں سے خصوصی درخواست کی ہے کہ آپ اپنے یہاں ایک چھوٹی سی غور و خوض کرنے والی ٹیم بنائیے۔ ایک ٹیم تشکیل دیجئے، کس شعبے میں کیا کام کرسکتے ہیں، سوچئے۔ ملک کے زرعی دنیامیں جتنا کارپوریٹ سرمایہ ہم لاپائیں گے، ہمارے کسان کی طاقت، جو پیداوار کبھی کبھی تو ہماری پیداوار اتنی ضائع ہوجاتی ہے، جیسا ابھی سوریہ جی بتا رہے تھے، کہ اب ہم اپنے ملک میں جو پھل پیدا ہوتے ہیں، اسی کے گودے سے جوس بناکرکے بیچنے کا ہم نے فیصلہ کیا، مطلب کسان کو فائدہ ہونے والا ہے۔ اور جو جوس پینے والا ہے وہ بھی مضبوط ہوگا۔ اور وہ مضبوط ہوگا تو ملک بھی مضبوط ہوگا۔
کہنے کا میرا مطلب ہے کہ ہمیں دیہی زندگی کے ساتھ اپنی ان صنعتوں کو کیسے لے جائیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزیں ، دیہی زندگی میں کیسے لے جائیں، یہ آنے والی زندگی میں بہت ضروری ہے، اور اس پر میں زور دے رہا ہوں۔۔ سب سے میں بات کررہا ہوں، مجھے یقین ہے کہ اس کا بھی نتیجہ ملے گا اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ آج جس طرح ساٹھ ہزار کروڑ روپے کے پروجیکٹ زمین پر اترے ہیں، باقی کے عزائم بھی جیسا یوگی جی کہہ رہے تھے کہ پچاس ہزار کروڑ روپے کا کام تو قریب قریب تکمیل پر ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑا کام آپ نے کیا ہے۔ پوری ٹیم آپ کی ایک بار پھر مبارکباد کی مستحق ہے۔
میری طرف سے آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔ اور اترپردیش کے ایم پی کے ناطے بھی اترپردیش کی ترقی کی خبریں مجھے بہت خوشی دیتی ہیں۔ اور میرا فرض بھی بنتا ہے، اترپردش کے لوگوں کا مجھ پر قرض بھی بنتا ہے اور اس لیے میں دو بار آؤں، پانچ بار آؤں، پندرہ بارآؤں، آپ ک ہی کاہوں، میں آتا نہیں ہوں، تو بھی آپ ہی کا ہوں