ئی دہلی،  16  فروری 2021،         

نمسکار!

اترپردیش کی گورنر محترمہ آنند بین پٹیل جی، ریاست کے  مقبول اور  شہرت یافتہ وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ جی، یو پی حکومت  کے دیگر  معزز وزراء، پارلیمنٹ میں  میرے دیگر ساتھی،  ارکان اسمبلی اور میرے پیارے بھائیو اور بہنو!

اپنی بہادری سے مادر وطن  کا وقار بڑھانے والے قومی ہیرو مہاراجہ سہیل دیو کی جائے پیدائش اور رشی منیوں  نے جہاں  تپسیہ کی، بہرائچ کی ایسی  مقدس سرزمین کو میں احترام کے ساتھ نمن کرتا ہوں! بسنت پنچمی  کی آپ سبھی کو، پورے ملک کو بہت بہت نیک خواہشات!! ماں سرسوتی بھارت کو علم اور سائنس سے مزید مالا مال کریں۔ آج کا دن، تعلیم کی شروعات اور  حرفوں کی  تعلیم کے لئے بہت مبارکبا دن مانا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں کہا گیا ہے :

सरस्वति महाभागे विद्ये कमललोचने।

विद्यारूपे विशालाक्षि विद्यां देहि नमोऽस्तु ते॥

یعنی، ہے  مہا بھاگیہ وتی، گیان روپا، کمل  جیسی بڑی آنکھوں والی، علم دینے والی سرسوتی، مجھ کو  تعلیم دیجئے، میں آپ کو نمن کرتا ہوں۔ بھارت کی، انسانیت کی خدمت کے لئے ریسرچ اور انوویشن میں مصروف، قوم کی تعمیر میں مصروف ہر اہل وطن کو ماں سرسوتی کا  آشیرواد ملے، انہیں کامیابی ملے، یہی ہم سبھی کی پرارتھنا ہے۔

بھائیو اور بہنو،

رام چرت  مانسن  میں گوسوامی تلسی داس جی کہتے ہیں، رتو بسنت بہ تربھد بیاری۔ یعنی، بسنت  رُت میں شیٹل،  مند سوگندھ ایسی تین قسم کی ہوا بہہ رہی ہے، اسی موسم میں کھیت کلیان، باغ باغیچوں سے لیکر   زندگی کا ہر حصہ لطف حاصل کررہا ہے۔ واقعی، ہم جس طرف دیکھیں تو پھولوں کی بہار ہے، ہر جاندار بسنت رُت کے استقبال میں کھڑا ہے۔ یہ بسنت   عالمی وبا کی مایوسی کو پیچھے چھوڑکر آگے بڑھتے بھارت کے لئے نئی امید، نئی امنگ لیکر آیا ہے۔اس خوشی میں، ہندوستانیت، ہماری ثقافت، ہمارے سنسکاروں کے لئے ڈھال بن کر کھڑے ہونے والی عظیم  شخصیت، مہاراجہ سہیل دیو جی کے  یوم پیدائش  کا جشن ہماری خوشیوں میں اور اضافہ کررہا ہے۔

ساتھیو،

مجھے تقریباً دو سال قبل غازی پور میں مہاراجہ سہیل دیو کی  یاد میں ڈاک ٹکٹ جاری کرنے کا موقع ملا تھا۔ آج بہرائچ میں ان کے شاندار میموریل  کا سنگ بنیاد رکھنے کا فخر حاصل ہوا ہے۔ یہ جدید اور شاندار میموریل، تاریخی چتورا جھیل کی ترقی، بہرائچ  پر مہاراجہ سہیل دیو کے آشیرواد کو بڑھائیں گے، آنے والی نسلوں کو بھی اس سے تحریک ملے گی۔

ساتھیو،

آج مہاراجہ سہیل دیو کے نام پر بنائے گئے میڈیکل کالج کو ایک نئی اور عالیشان عمارت  ملی ہے۔ بہرائچ جیسے ترقی کے لئے خواہش مند ضلع میں  صحت کی سہولتوں میں اضافے سے یہاں کے لوگوں کی زندگی آسان ہوگی۔ اس  کا فائدہ آس پاس کے شراوستی، بلرام پور ، سدھارتھ نگر کو تو ہوگا ہی، نیپال سے  آنے والے مریضوں کی بھی یہ  مدد کرے گا۔

بھائیو اور بہنو،

بھارت کی تاریخ صرف وہ نہیں ہے جو ملک کو غلام بنانے والوں، غلامی کی ذہنیت کے ساتھ تاریخ لکھنے والوں نے لکھی ہے۔ بھارت کی تاریخ وہ بھی ہے جو  بھارت کے عام لوگوں نے  بھارت کی لوک گاتھاؤں میں  رچائی بسائی ہے، جس کو پیڑھیوں نے آگے بڑھایا ہے۔  آج جب بھارت اپنی آزادی کے  75 ویں سال میں داخل ہورہا ہے، ایسی  عظیم شخصیتوں کی خدمات ، ان کے ایثار و قربانی،  ان کی تپسیہ، ان کی جد وجہد ، ان کی بہادری، ان کی شہادت، ان سب باتوں کو یاد کرنا، ان کو احترام کے ساتھ نمن کرنا، ان سے تحریک حاصل کرنا، اس سے  بڑا کوئی موقع نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ افسوسناک ہے کہ ہندوستان اور ہندوستانیت کے تحفظ کے لئے  جنہوں نے زندگی وقف کردی، ایسے بہت سے  شجاعت کے پیکر مرد و خواتین   کو وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔  تاریخ  رقم کرنے والوں کے ساتھ، تاریخ  لکھنے کے نام پر ہیر پھیر کرنے والوں نے جو ناانصافی کی،اس میں اب آج کا بھارت اصلاح کررہا ہے۔ اس کو صحیح کررہا ہے۔ غلطیوں سے ملک کو پاک کررہا ہے۔ آپ دیکھئے نیتاجی سبھاش چندر بوس  جو آزاد ہند حکومت  کے پہلے وزیراعظم تھے،  کیا ان کی اس شناخت کو آزاد ہند فوج کی خدمات کو وہ اہمیت دی گئی، جو اہمیت نیتاجی کو ملنی چاہئیں تھی؟

آج لال قلعے سے لیکر انڈو مان  نکوبار  تک ان کی اس شناخت کو  ہم نے  ملک اور دنیا کے سامنے مستحکم کیا ہے۔ ملک کی پانچ سو  سے زیادہ ریاستوں کو ایک کرنے کا دشوار کام کرنے والے  سردار پٹیل جی کے ساتھ کیا  کیا گیا ، ملک کا ہر بچہ اس بو بخوبی جانتا ہے ۔ آج دنیا کا سب سے بڑا مجسمہ اسٹیچو آف یونٹی سردار پٹیل کا ہی ہے جو ہمیں تحریک دے رہا ہے ۔ ملک کو آئین دینے میں  اہم کردار نبھانے والے محروموں، مظلوموں ، استحصال کا شکار ہونے والوں کی آواز  بابا صاحب امبیڈکر کو بھی  صرف سیاسی چشمے سے دیکھا گیا۔ آج بھارت سے لیکر انگلینڈ تک   ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر سے متعلق مقامات کو  پنچ تیر تھ کی شکل میں فروغ دیا جارہا ہے۔

ساتھیو،

بھارت کے ایسے بہت سے مجاہدین آزادی ہیں جن کی خدمات کا متعدد وجوہات سے احترام نہیں کیا گیا۔ انہیں شناخت نہیں دی گئی۔ چوری چورا کے بہادروں کے ساتھ جو ہوا وہ کیا ہم بھول سکتے ہیں؟ مہاراجہ سہیل دیو اور ہندوستانیت کی حفاظت کے لئے ان کی کوششوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا۔

تاریخ کی کتابوں میں بھلے ہی مہاراجہ سہیل دیو کی شجاعت، بہادری کو وہ مقام نہیں ملا ، لیکن اودھ اور ترائی سے لیکر پوروانچل کی لوک گاتھاؤں  میں  لوگوں کے دل میں وہ ہمیشہ بنے رہے۔ صرف بہادری ہی نہیں  ایک حساس اور ترقی پسند حکمراں کے طور پر ان کی چھاپ کو مٹایا نہیں جاسکتا۔ اپنے حکومت کے دور میں  جس طرح انہوں نے  بہتر راستوں کے لئے  پوکھروں۔ تالابوں کے لئے، باغ باغیچوں اور  تعلیم کے شعبے میں کام کیا وہ بے مثال تھا۔ ان کی یہی سوچ، اس  میموریل کے مقام میں بھی نظر آنے والی ہے۔

ساتھیو،

ٹورسٹ مہاراجہ سہیل دیو جی کی زندگی سے تحریک حاصل کرسکیں، اس کے لئے  ان کا چالیس فٹ کا کانسے کا مجسمہ قائم کیا جائے گا۔ یہاں پر تعمیر ہونے والی میوزیم میں مہاراجہ سہل دیو سے متعلق تاریخی معلومات ہوں گی۔ اس کے اندر کی اور آس پاس کی سڑکوں کو چوڑا کیا جائے گا۔ بچوں کے لئے پارک بنے گا،  آڈیٹوریم ہوگا، سیاحوں کے لئے رہائش گاہ،  پارکنگ، کیفے ٹیریا جیسی  متعدد سہولتوں کی تعمیر ہوگی۔اس کے ساتھ ساتھ جو مقامی  دست کار ہیں، فنکار ہیں، وہ اپنا سامان یہاں آسانی ہے فروخت کرپائیں اس کے لئے دکانیں تعمیر کی جائیں گی۔ اسی طرح  چتورا جھیل پر گھاٹ اور سیڑھیوں کی تعمیر  اور  تذئین کاری سے اس تاریخی جھیل کی اہمیت اور بڑھ جائے گی۔ یہ تمام کوششیں  بہرائچ کی خوبصورتی میں ہی اضافہ نہیں کریں گے بلکہ  یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔’مری میا‘ کی کرپا سے یہ کام جلد مکمل ہوں گے۔

بھائیو اور بہنو،

گزشتہ کچھ برسوں سے ملک بھر میں  تاریخ،عقیدت، روحانیت، ثقافت سے متعلق  جتنی بھی یادگاروں کی تعمیر کی جارہی ہے، ان کا بہت بڑا مقصد  سیاحت کو فروغ دینے کا بھی ہے۔ اترپردیش تو سیاحت اور  تیرتھاٹن، دونوں کے معاملے میں مالا مال بھی اور اس کی صلاحیتیں بھی لا محدود ہیں۔ چاہے وہ بھگوان کی جائے پیدائش ہو یا  کرشن کا ورندا ون، بھگوان بدھ کا سارناتھ ہو یا  کاشی وشوناتھ، سنت کبیر  کا مگہر دھام ہو یا وارانسی میں سنت روی داس کی  جائے پیدائش کی جدید کاری، پوری ریاست میں بڑے پیمانے پر کام چل رہا ہے۔ ان کی ترقی کے لئے بھگوان  رام، شری کرشن اور بدھ کی زندگی سے متعلق مقامات  جیسے اجودھیا، چترکوٹ، متھرا، ورندا ون، گووردھن، کُشی نگر، شراوستی وغیرہ  تیرتھ مقامات پر  رامائن سرکٹ،  آدھیاتمنک سرکٹ، بودھ سرکٹ کو فروغ دیا جارہا ہے۔

بھائیو اور بہنو،

گزشتہ چند برسوں میں جو کوششیں کی گئی ہیں، ان کے اثرات بھی نظر آنے لگے ہیں۔جس ریاست میں دیگر ریاستوں سے  سب سے زیادہ سیاح آتے ہیں، اس ریاست کا نام اترپردیش ہے۔غیر ملکی سیاحوں کو راغب کرنے میں بھی  یو پی ملک کےٹاپ  تین ریاستوں میں شامل ہوچکا ہے۔ اترپردیش میں سیاحوں کے لئے  ضروری سہولتوں کے ساتھ ساتھ  جدید کنکٹی وٹی کے  ذرائع میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے۔ مستقبل میں اجودھیا کا ایئرپورٹ اور کُشی نگر کا انٹرنیشنل ایئر پورٹ ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کے لئے بہت کارآمد ثابت ہوں گے۔ اترپردیش میں چھوٹے بڑے درجن بھر ہوائی اڈوں پر کام چل رہا ہے، جن میں سے کئی پوروانچل میں ہی ہیں۔ اڑان یوجنا کے تحت یو پی کے کئی شہروں کو کم قیمت والی ہوائی خدمت سے جوڑنے کی مہم چل رہی ہے۔

اس کے علاوہ  پورانچل ایکسپریس وے، بندیل کھنڈ ایکسپریس وے ، گنگا ایکسپریس وے، گورکھپور لنک ایکسپریس وے، بلیا لنک ایکسپریس وے، ایسی جدید اور چوڑی سڑکیں  پورے یو پی میں بنائی جارہی ہیں اور یہ تو ایک طرح سے  جدید یو پی کے  جدید انفرا اسٹرکچر کی شروعات ہے۔ایئر اور روڈ کنکٹی وٹی کے علاوہ  یو پی کی  ریل کنکٹی وٹی بھی اب  جدید ہورہی ہے۔یو پی دو بڑے ڈیڈیکیڈٹ فریٹ کوریڈور کا جنکشن ہے۔ حال میں ہی ایسٹرن ڈیڈیکیٹ فریٹ کوریڈور کے ایک بڑے حصے  کو یو پی میں ہی قوم کے نام وقف کیا گیا۔ یو پی میں جس طرح آج جدید انفرا اسٹرکچر پر کام چل رہا ہے، اس سے  اترپردیش میں صنعت لگانے کے لئے  ملک اور دنیا کے سرمایہ کار  پرجوش ہیں۔ اس سے یہاں نئی صنعتوں کے لئے تو بہتر مواقع بن ہی رہے ہیں، یہاں کے نوجوانوں کو روزگار کے نئے مواقع بھی  دستیاب ہورہے ہیں۔

ساتھیو،

کورونا کے دور میں اترپردیش میں جس طرح سے کام ہوا ہے، وہ بہت اہم ہے۔تصور کیجئے اگر یو پی میں  حالات بگڑتے  تو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کس طرح کی باتیں کی جاتیں۔ لیکن یوگی جی کی حکومت نے  یوگی جی کی پوری ٹیم نے  بہترین طریقے سے  صورتحال کو سنبھال کو دکھایا ہے۔ یو پی نہ صرف  زیادہ سے زیادہ  لوگوں کی زندگی بچانے میں کامیاب رہا،  بلکہ باہر سے  لوٹنے والے مزدوروں کو  روزگار دینے میں بھی یو پی نے قابل تعریف کام کیا ہے۔

بھائیو اور بہنو،

کورونا کے خلاف  یو پی کی لڑائی میں گزشتہ تین چار برسوں میں کئے گئے کاموں کاموں کی بہت اہمیت رہی ہے۔ پوروانچل کو دہائیوں تک پریشان کرنے والے دماغی بخار کا اثر، یو پی نے بہت کم کرکے دکھایا ہے۔ یو پی میں 2014 تک  14 میڈیکل کالج تھے، جو آج بڑھ کر 24 ہوچکے ہیں۔ ساتھ ہی گورکھپور اور بریلی میں  ایمس کا بھی کام چل رہا ہے۔ان کے علاوہ 22 نئے میڈیکل کالج اور بنائے جارہی ہیں۔ وارانسی میں  جدید کینسر اسپتالوں کی سہولت بھی  اب پوروانچل کو مل رہی ہے۔ یو پی جل جیون مشن یعنی ہر گھر  پانی پہنچانے کے لئے بھی قابل تعریف کام کررہا ہے۔ جب صاف پینے کا پنی گھر پر پہنچے گا، تو ا سے بہت سی بیماریاں ویسی ہی کم ہوجائیں گی۔

بھائیو اور بہنو،

اترپردیش میں ہوتی  جارہی  بجلی، پانی ، سڑک اور  صحت کی سہولتوں کا  براہ راست فائدہ گاؤں ، غریب اور کسان کو ہورہا ہے۔ خاص طور پر چھوٹے کسان جن کے پاس بہت کم زمیں ہوتی ہے۔ انہیں  ان اسکیموں سے  بہت زیادہ فائدہ ہورہا ہے۔ اترپردیش کے ایسے تقریباً ڈھائی کروڑ کسان خاندانوں  کے بینک کھاتے میں  پی ایم کسان سمان ندھی کے ذریعہ سے  براہ راست پیسے جمع کئے جاچکے ہیں۔ یہ وہ کسان خاندان ہیں جو کبھی بجلی کا بل یا کھاد کی بوری خریدنے کے لئے بھی دوسروں سے قرض لینے کے لئے مجبور تھے۔ لیکن ایسے چھوٹے کسانوں کو  ہماری حکومت نے 27 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ  براہ راست منتقل کئے ہیں۔ ان کے کھاتے میں جمع کردیئے گئے ہیں۔ یہاں کسانوں کو  بجلی نہ ہونے کی وجہ سے جو دقتیں آتی تھیں،  رات رات بھر بورنگ کے پانی کے لئے جاگنا پڑتا تھا،  انتظار کرنا پڑتا تھا کہ میرا نمبر کب آئے گا، ایسی تمام دقتیں بھی  بجلی کی سپلائی بہتر ہونے سے اب دور  ہورہی ہیں۔

ساتھیو،

ملک کی  آبادی بڑھنے کے ساتھ  کھیتی کی زمین چھوٹی سے چھوٹی ہوتی جارہی ہے۔ اس لئے ملک میں کسان   پیداواری اداروں کی تشکیل بہت ضروری ہے۔ آج حکومت  چھوٹے کسانوں کے ہزاروں کسان پیداواری ادارے یعنی ایف پی او بنا رہی ہے۔ ایک دو بیگھا کے 500 کسان خاندان جب منظم ہوکر بازار میں اتریں گے تو وہ 500۔ 1000 بیگھا کسان سے بھی زیادہ طاقتور ہوں گے۔ اسی طرح  کسان ریل کے ذریعہ سبزیوں، پھلوں، دودھ، مچھلی اور ایسے کئی کاروبار  کرنے والے چھوٹے کسانوں کو اب بڑے بازاروں سے جوڑا جارہا ہے جو نئی زرعی اصلاحات کی گئی ہیں، ان کا فائدہ  بھی چھوٹے  اور بہت چھوٹی کسانوں کو  سب سے زیادہ ہوگا۔ اترپردیش میں ان نئے قوانین کے بننے کے بعد جگہ جگہ سے کسانوں کے بہتر تجربات سامنے آنے بھی لگے ہیں۔ ان زرعی قوانین  کو لیکر طرح طرح  کے غلط پروپیگنڈے کی کوشش کی گئی۔ یہ پورے ملک نے دیکھا ہے کہ جنہوں نے ملک کے زرعی بازار میں غیر ملکیوں کمپنیوں کو بلانے کے لئے قانون بنایا، وہ آج ملکی کمپنیوں کے نام پر کسانوں کو ڈرا رہے ہیں۔

ساتھیو۔

ریاست کے لئے جھوٹ اور غلط پروپیگنڈے کی یہ پول اب کھل رہی ہے۔ نئے قوانین نافذ ہونے کے باوجود یو پی میں اس بار پچھلے سال کے مقابلے میں دوگنے کسانوں کو دھان خریدا گیا۔

اس بار یو پی میں تقریباً 65 لاکھ میٹرک ٹن  کی خریداری کی جاچکی ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً دوگنی ہے۔ یہیں نہیں، یوگی جی کی حکومت گنا کسانوں تک بھی گزشتہ سالوں میں  ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ پہنچا چکی ہے۔ کورونا کے دور میں بھی گنا کسانوں کو دقت پیش نہ آئےاس لئے ہر ممکن مدد کی گئی ہے۔ چینی ملیں  کسانوں کو آدائیگی کر پائیں اس کے لئے  مرکز نے بھی ہزاروں کروڑ روپے ریاستی حکومت کو دیئے ہیں۔ گنا  کسانوں کی ادائیگ وقت پر ہوتی رہے اس کے لئے یوگی جی کی حکومت کی کوششیں جارہی ہیں۔

بھائیو اور بہنو،

حکومت کی یہ ہر ممکن کوشش ہے کہ گاؤں اور کسان کی زندگی بہتر ہو۔ کسان کو، گاؤں میں رہنے والے غریب کو پریشانی نہ ہو، اس کو اپنے مکان پر ناجائز قبضے کے خرچے سے نجات ملے، اس کے لئے مالکانہ حق کی اسکیم بھی آج پورے اترپردیش میں چلائی جارہی ہے۔ اس اسکیم کے تحت آج کل یوم پی تقریباً 50 ضلعوں میں  ڈرون کے ذریعہ سروے چل رہے ہیں۔ تقریباً 12 ہزار گاؤوں میں ڈرون سروے کا کام مکمل ہوچکا ہے اور ابھی تک 2 لاکھ سے زیادہ خاندانوں کو پراپرٹی کارڈ  یعنی  گھرونی مل چکا ہے۔ یعنی یہ خاندان اب ہر طرح کے خدشات سے نجات پاچکے ہیں۔

ساتھیو،

آج گاؤں کا غریب کسان دیکھ رہا ہے کہ اس کے چھوٹے سے گھر کو بچانے کے لئے، اس کی زمین کو بچانے کے لئے پہلی بار  کوئی  حکومت اتنی بڑی اسکیم چلا رہی ہے ۔ اتنا بڑا رکشا  کَوَچ،  ہر غریب کو، ہر کسان کو،  ہر ایک گاؤں والے کو دے رہا ہے۔ اس لئے جب کوئی زرعی اصلاحات کے ذریعہ کسانوں کی زمین چھینے جانے کا جھوٹ پھیلاتا ہے تو اس پر کوئی کیسے یقین کرسکتا ہے؟ ہمارا مقصد ملک کے ہر شہری کو  بااختیار بنانے کا ہے۔ ہمارا عزم ملک کو خود کفیل بنانے کا ہے۔ اس عزم کو پورا کرنے کے لئے سپردگی کے جذبے کے ساتھ ہم کام میں لگے رہیں گے۔ میں رام چرت مانس کی ایک چوپائی سے ہی اپنی بات ختم کروں ک گا:

प्रबिसि नगर कीजे सब काजा।

हृदयँ राखि कोसलपुर राजा॥

 

مفہوم یہ ہے کہ  دل میں بھگوان رام کا نام دھارن کرکے ہم جو بھی کام کریں گے، اس میں یقیناً کامیابی ملے گی۔

ایک بار پھر  مہاراجہ سہیل دیو جی کو نمن کرتے ہوئے، آپ کو ان نئی سہولتوں کے لئے بہت بہت مبارکباد دیتے ہوئے یوگی جی اور ان کی پوری ٹیم کا خیر مقدم کرتے ہوئئے بہت بہت شکریہ!!

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address at the Parliament of Guyana
November 21, 2024

Hon’ble Speaker, मंज़ूर नादिर जी,
Hon’ble Prime Minister,मार्क एंथनी फिलिप्स जी,
Hon’ble, वाइस प्रेसिडेंट भरत जगदेव जी,
Hon’ble Leader of the Opposition,
Hon’ble Ministers,
Members of the Parliament,
Hon’ble The चांसलर ऑफ द ज्यूडिशियरी,
अन्य महानुभाव,
देवियों और सज्जनों,

गयाना की इस ऐतिहासिक पार्लियामेंट में, आप सभी ने मुझे अपने बीच आने के लिए निमंत्रित किया, मैं आपका बहुत-बहुत आभारी हूं। कल ही गयाना ने मुझे अपना सर्वोच्च सम्मान दिया है। मैं इस सम्मान के लिए भी आप सभी का, गयाना के हर नागरिक का हृदय से आभार व्यक्त करता हूं। गयाना का हर नागरिक मेरे लिए ‘स्टार बाई’ है। यहां के सभी नागरिकों को धन्यवाद! ये सम्मान मैं भारत के प्रत्येक नागरिक को समर्पित करता हूं।

साथियों,

भारत और गयाना का नाता बहुत गहरा है। ये रिश्ता, मिट्टी का है, पसीने का है,परिश्रम का है करीब 180 साल पहले, किसी भारतीय का पहली बार गयाना की धरती पर कदम पड़ा था। उसके बाद दुख में,सुख में,कोई भी परिस्थिति हो, भारत और गयाना का रिश्ता, आत्मीयता से भरा रहा है। India Arrival Monument इसी आत्मीय जुड़ाव का प्रतीक है। अब से कुछ देर बाद, मैं वहां जाने वाला हूं,

साथियों,

आज मैं भारत के प्रधानमंत्री के रूप में आपके बीच हूं, लेकिन 24 साल पहले एक जिज्ञासु के रूप में मुझे इस खूबसूरत देश में आने का अवसर मिला था। आमतौर पर लोग ऐसे देशों में जाना पसंद करते हैं, जहां तामझाम हो, चकाचौंध हो। लेकिन मुझे गयाना की विरासत को, यहां के इतिहास को जानना था,समझना था, आज भी गयाना में कई लोग मिल जाएंगे, जिन्हें मुझसे हुई मुलाकातें याद होंगीं, मेरी तब की यात्रा से बहुत सी यादें जुड़ी हुई हैं, यहां क्रिकेट का पैशन, यहां का गीत-संगीत, और जो बात मैं कभी नहीं भूल सकता, वो है चटनी, चटनी भारत की हो या फिर गयाना की, वाकई कमाल की होती है,

साथियों,

बहुत कम ऐसा होता है, जब आप किसी दूसरे देश में जाएं,और वहां का इतिहास आपको अपने देश के इतिहास जैसा लगे,पिछले दो-ढाई सौ साल में भारत और गयाना ने एक जैसी गुलामी देखी, एक जैसा संघर्ष देखा, दोनों ही देशों में गुलामी से मुक्ति की एक जैसी ही छटपटाहट भी थी, आजादी की लड़ाई में यहां भी,औऱ वहां भी, कितने ही लोगों ने अपना जीवन समर्पित कर दिया, यहां गांधी जी के करीबी सी एफ एंड्रूज हों, ईस्ट इंडियन एसोसिएशन के अध्यक्ष जंग बहादुर सिंह हों, सभी ने गुलामी से मुक्ति की ये लड़ाई मिलकर लड़ी,आजादी पाई। औऱ आज हम दोनों ही देश,दुनिया में डेमोक्रेसी को मज़बूत कर रहे हैं। इसलिए आज गयाना की संसद में, मैं आप सभी का,140 करोड़ भारतवासियों की तरफ से अभिनंदन करता हूं, मैं गयाना संसद के हर प्रतिनिधि को बधाई देता हूं। गयाना में डेमोक्रेसी को मजबूत करने के लिए आपका हर प्रयास, दुनिया के विकास को मजबूत कर रहा है।

साथियों,

डेमोक्रेसी को मजबूत बनाने के प्रयासों के बीच, हमें आज वैश्विक परिस्थितियों पर भी लगातार नजर ऱखनी है। जब भारत और गयाना आजाद हुए थे, तो दुनिया के सामने अलग तरह की चुनौतियां थीं। आज 21वीं सदी की दुनिया के सामने, अलग तरह की चुनौतियां हैं।
दूसरे विश्व युद्ध के बाद बनी व्यवस्थाएं और संस्थाएं,ध्वस्त हो रही हैं, कोरोना के बाद जहां एक नए वर्ल्ड ऑर्डर की तरफ बढ़ना था, दुनिया दूसरी ही चीजों में उलझ गई, इन परिस्थितियों में,आज विश्व के सामने, आगे बढ़ने का सबसे मजबूत मंत्र है-"Democracy First- Humanity First” "Democracy First की भावना हमें सिखाती है कि सबको साथ लेकर चलो,सबको साथ लेकर सबके विकास में सहभागी बनो। Humanity First” की भावना हमारे निर्णयों की दिशा तय करती है, जब हम Humanity First को अपने निर्णयों का आधार बनाते हैं, तो नतीजे भी मानवता का हित करने वाले होते हैं।

साथियों,

हमारी डेमोक्रेटिक वैल्यूज इतनी मजबूत हैं कि विकास के रास्ते पर चलते हुए हर उतार-चढ़ाव में हमारा संबल बनती हैं। एक इंक्लूसिव सोसायटी के निर्माण में डेमोक्रेसी से बड़ा कोई माध्यम नहीं। नागरिकों का कोई भी मत-पंथ हो, उसका कोई भी बैकग्राउंड हो, डेमोक्रेसी हर नागरिक को उसके अधिकारों की रक्षा की,उसके उज्जवल भविष्य की गारंटी देती है। और हम दोनों देशों ने मिलकर दिखाया है कि डेमोक्रेसी सिर्फ एक कानून नहीं है,सिर्फ एक व्यवस्था नहीं है, हमने दिखाया है कि डेमोक्रेसी हमारे DNA में है, हमारे विजन में है, हमारे आचार-व्यवहार में है।

साथियों,

हमारी ह्यूमन सेंट्रिक अप्रोच,हमें सिखाती है कि हर देश,हर देश के नागरिक उतने ही अहम हैं, इसलिए, जब विश्व को एकजुट करने की बात आई, तब भारत ने अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान One Earth, One Family, One Future का मंत्र दिया। जब कोरोना का संकट आया, पूरी मानवता के सामने चुनौती आई, तब भारत ने One Earth, One Health का संदेश दिया। जब क्लाइमेट से जुड़े challenges में हर देश के प्रयासों को जोड़ना था, तब भारत ने वन वर्ल्ड, वन सन, वन ग्रिड का विजन रखा, जब दुनिया को प्राकृतिक आपदाओं से बचाने के लिए सामूहिक प्रयास जरूरी हुए, तब भारत ने CDRI यानि कोएलिशन फॉर डिज़ास्टर रज़ीलिएंट इंफ्रास्ट्रक्चर का initiative लिया। जब दुनिया में pro-planet people का एक बड़ा नेटवर्क तैयार करना था, तब भारत ने मिशन LiFE जैसा एक global movement शुरु किया,

साथियों,

"Democracy First- Humanity First” की इसी भावना पर चलते हुए, आज भारत विश्वबंधु के रूप में विश्व के प्रति अपना कर्तव्य निभा रहा है। दुनिया के किसी भी देश में कोई भी संकट हो, हमारा ईमानदार प्रयास होता है कि हम फर्स्ट रिस्पॉन्डर बनकर वहां पहुंचे। आपने कोरोना का वो दौर देखा है, जब हर देश अपने-अपने बचाव में ही जुटा था। तब भारत ने दुनिया के डेढ़ सौ से अधिक देशों के साथ दवाएं और वैक्सीन्स शेयर कीं। मुझे संतोष है कि भारत, उस मुश्किल दौर में गयाना की जनता को भी मदद पहुंचा सका। दुनिया में जहां-जहां युद्ध की स्थिति आई,भारत राहत और बचाव के लिए आगे आया। श्रीलंका हो, मालदीव हो, जिन भी देशों में संकट आया, भारत ने आगे बढ़कर बिना स्वार्थ के मदद की, नेपाल से लेकर तुर्की और सीरिया तक, जहां-जहां भूकंप आए, भारत सबसे पहले पहुंचा है। यही तो हमारे संस्कार हैं, हम कभी भी स्वार्थ के साथ आगे नहीं बढ़े, हम कभी भी विस्तारवाद की भावना से आगे नहीं बढ़े। हम Resources पर कब्जे की, Resources को हड़पने की भावना से हमेशा दूर रहे हैं। मैं मानता हूं,स्पेस हो,Sea हो, ये यूनीवर्सल कन्फ्लिक्ट के नहीं बल्कि यूनिवर्सल को-ऑपरेशन के विषय होने चाहिए। दुनिया के लिए भी ये समय,Conflict का नहीं है, ये समय, Conflict पैदा करने वाली Conditions को पहचानने और उनको दूर करने का है। आज टेरेरिज्म, ड्रग्स, सायबर क्राइम, ऐसी कितनी ही चुनौतियां हैं, जिनसे मुकाबला करके ही हम अपनी आने वाली पीढ़ियों का भविष्य संवार पाएंगे। और ये तभी संभव है, जब हम Democracy First- Humanity First को सेंटर स्टेज देंगे।

साथियों,

भारत ने हमेशा principles के आधार पर, trust और transparency के आधार पर ही अपनी बात की है। एक भी देश, एक भी रीजन पीछे रह गया, तो हमारे global goals कभी हासिल नहीं हो पाएंगे। तभी भारत कहता है – Every Nation Matters ! इसलिए भारत, आयलैंड नेशन्स को Small Island Nations नहीं बल्कि Large ओशिन कंट्रीज़ मानता है। इसी भाव के तहत हमने इंडियन ओशन से जुड़े आयलैंड देशों के लिए सागर Platform बनाया। हमने पैसिफिक ओशन के देशों को जोड़ने के लिए भी विशेष फोरम बनाया है। इसी नेक नीयत से भारत ने जी-20 की प्रेसिडेंसी के दौरान अफ्रीकन यूनियन को जी-20 में शामिल कराकर अपना कर्तव्य निभाया।

साथियों,

आज भारत, हर तरह से वैश्विक विकास के पक्ष में खड़ा है,शांति के पक्ष में खड़ा है, इसी भावना के साथ आज भारत, ग्लोबल साउथ की भी आवाज बना है। भारत का मत है कि ग्लोबल साउथ ने अतीत में बहुत कुछ भुगता है। हमने अतीत में अपने स्वभाव औऱ संस्कारों के मुताबिक प्रकृति को सुरक्षित रखते हुए प्रगति की। लेकिन कई देशों ने Environment को नुकसान पहुंचाते हुए अपना विकास किया। आज क्लाइमेट चेंज की सबसे बड़ी कीमत, ग्लोबल साउथ के देशों को चुकानी पड़ रही है। इस असंतुलन से दुनिया को निकालना बहुत आवश्यक है।

साथियों,

भारत हो, गयाना हो, हमारी भी विकास की आकांक्षाएं हैं, हमारे सामने अपने लोगों के लिए बेहतर जीवन देने के सपने हैं। इसके लिए ग्लोबल साउथ की एकजुट आवाज़ बहुत ज़रूरी है। ये समय ग्लोबल साउथ के देशों की Awakening का समय है। ये समय हमें एक Opportunity दे रहा है कि हम एक साथ मिलकर एक नया ग्लोबल ऑर्डर बनाएं। और मैं इसमें गयाना की,आप सभी जनप्रतिनिधियों की भी बड़ी भूमिका देख रहा हूं।

साथियों,

यहां अनेक women members मौजूद हैं। दुनिया के फ्यूचर को, फ्यूचर ग्रोथ को, प्रभावित करने वाला एक बहुत बड़ा फैक्टर दुनिया की आधी आबादी है। बीती सदियों में महिलाओं को Global growth में कंट्रीब्यूट करने का पूरा मौका नहीं मिल पाया। इसके कई कारण रहे हैं। ये किसी एक देश की नहीं,सिर्फ ग्लोबल साउथ की नहीं,बल्कि ये पूरी दुनिया की कहानी है।
लेकिन 21st सेंचुरी में, global prosperity सुनिश्चित करने में महिलाओं की बहुत बड़ी भूमिका होने वाली है। इसलिए, अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान, भारत ने Women Led Development को एक बड़ा एजेंडा बनाया था।

साथियों,

भारत में हमने हर सेक्टर में, हर स्तर पर, लीडरशिप की भूमिका देने का एक बड़ा अभियान चलाया है। भारत में हर सेक्टर में आज महिलाएं आगे आ रही हैं। पूरी दुनिया में जितने पायलट्स हैं, उनमें से सिर्फ 5 परसेंट महिलाएं हैं। जबकि भारत में जितने पायलट्स हैं, उनमें से 15 परसेंट महिलाएं हैं। भारत में बड़ी संख्या में फाइटर पायलट्स महिलाएं हैं। दुनिया के विकसित देशों में भी साइंस, टेक्नॉलॉजी, इंजीनियरिंग, मैथ्स यानि STEM graduates में 30-35 परसेंट ही women हैं। भारत में ये संख्या फोर्टी परसेंट से भी ऊपर पहुंच चुकी है। आज भारत के बड़े-बड़े स्पेस मिशन की कमान महिला वैज्ञानिक संभाल रही हैं। आपको ये जानकर भी खुशी होगी कि भारत ने अपनी पार्लियामेंट में महिलाओं को रिजर्वेशन देने का भी कानून पास किया है। आज भारत में डेमोक्रेटिक गवर्नेंस के अलग-अलग लेवल्स पर महिलाओं का प्रतिनिधित्व है। हमारे यहां लोकल लेवल पर पंचायती राज है, लोकल बॉड़ीज़ हैं। हमारे पंचायती राज सिस्टम में 14 लाख से ज्यादा यानि One point four five मिलियन Elected Representatives, महिलाएं हैं। आप कल्पना कर सकते हैं, गयाना की कुल आबादी से भी करीब-करीब दोगुनी आबादी में हमारे यहां महिलाएं लोकल गवर्नेंट को री-प्रजेंट कर रही हैं।

साथियों,

गयाना Latin America के विशाल महाद्वीप का Gateway है। आप भारत और इस विशाल महाद्वीप के बीच अवसरों और संभावनाओं का एक ब्रिज बन सकते हैं। हम एक साथ मिलकर, भारत और Caricom की Partnership को और बेहतर बना सकते हैं। कल ही गयाना में India-Caricom Summit का आयोजन हुआ है। हमने अपनी साझेदारी के हर पहलू को और मजबूत करने का फैसला लिया है।

साथियों,

गयाना के विकास के लिए भी भारत हर संभव सहयोग दे रहा है। यहां के इंफ्रास्ट्रक्चर में निवेश हो, यहां की कैपेसिटी बिल्डिंग में निवेश हो भारत और गयाना मिलकर काम कर रहे हैं। भारत द्वारा दी गई ferry हो, एयरक्राफ्ट हों, ये आज गयाना के बहुत काम आ रहे हैं। रीन्युएबल एनर्जी के सेक्टर में, सोलर पावर के क्षेत्र में भी भारत बड़ी मदद कर रहा है। आपने t-20 क्रिकेट वर्ल्ड कप का शानदार आयोजन किया है। भारत को खुशी है कि स्टेडियम के निर्माण में हम भी सहयोग दे पाए।

साथियों,

डवलपमेंट से जुड़ी हमारी ये पार्टनरशिप अब नए दौर में प्रवेश कर रही है। भारत की Energy डिमांड तेज़ी से बढ़ रही हैं, और भारत अपने Sources को Diversify भी कर रहा है। इसमें गयाना को हम एक महत्वपूर्ण Energy Source के रूप में देख रहे हैं। हमारे Businesses, गयाना में और अधिक Invest करें, इसके लिए भी हम निरंतर प्रयास कर रहे हैं।

साथियों,

आप सभी ये भी जानते हैं, भारत के पास एक बहुत बड़ी Youth Capital है। भारत में Quality Education और Skill Development Ecosystem है। भारत को, गयाना के ज्यादा से ज्यादा Students को Host करने में खुशी होगी। मैं आज गयाना की संसद के माध्यम से,गयाना के युवाओं को, भारतीय इनोवेटर्स और वैज्ञानिकों के साथ मिलकर काम करने के लिए भी आमंत्रित करता हूँ। Collaborate Globally And Act Locally, हम अपने युवाओं को इसके लिए Inspire कर सकते हैं। हम Creative Collaboration के जरिए Global Challenges के Solutions ढूंढ सकते हैं।

साथियों,

गयाना के महान सपूत श्री छेदी जगन ने कहा था, हमें अतीत से सबक लेते हुए अपना वर्तमान सुधारना होगा और भविष्य की मजबूत नींव तैयार करनी होगी। हम दोनों देशों का साझा अतीत, हमारे सबक,हमारा वर्तमान, हमें जरूर उज्जवल भविष्य की तरफ ले जाएंगे। इन्हीं शब्दों के साथ मैं अपनी बात समाप्त करता हूं, मैं आप सभी को भारत आने के लिए भी निमंत्रित करूंगा, मुझे गयाना के ज्यादा से ज्यादा जनप्रतिनिधियों का भारत में स्वागत करते हुए खुशी होगी। मैं एक बार फिर गयाना की संसद का, आप सभी जनप्रतिनिधियों का, बहुत-बहुत आभार, बहुत बहुत धन्यवाद।