Innovation, integrity and inclusion have emerged as key mantras in the field of management: PM
Focus is now on collaborative, innovative and transformative management, says PM
Technology management is as important as human management: PM Modi

نئی دہلی،02 جنوری ،2021    /  

جئے جگناتھ!

جئے ماں سملیسوری!

اڈیشار بھائی بھؤنی مانکو مور جوہار

نوآ ورش سمستک پائین منگل مے ہوؤ۔

اڈیشہ کے گور نر عزت مآب  ، پروفیسر  گنیشی لال جی، وزیراعلیٰ اور میرے دوست جناب نوین پٹنائک جی، مرکزی کابینہ میں میرے رفقائے کار ، ڈاکٹر رمیش پوکھریال نشنک جی، اڈیشہ کے نگینے بھائی دھرمیندر پردھان جی  اور جناب پرتاپ چندر سارنگی جی، اڈیشہ سرکار کے وزرا ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی ، آئی آئی ایم سمبھل پور کی چیئر پرسن محترمہ ارون دھتی بھٹاچاریہ جی، ڈائریکٹر پروفیسر مہادیو جایسوال جی، اساتذہ اور میرے سبھی نوجوان رفقائے کار۔

آج آئی آئی ایم کیمپس کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے اڈیشہ کے باصلاحیت نوجوانوں کو ایک اور توانائی بخشنے کےلیے ایک نیا پتھر بھی رکھا گیا ہے۔ آئی آئی ایم سمبل پور کا مستقل کیمپس ، اڈیشہ کو مینجمنٹ کی دنیا میں ایک نئی شناخت عطا کرنے والا ہے۔  نئے سال کی شروعات میں اس آغاز سے ہماری خوشیاں دوگنی ہو گئی ہے۔

دوستو،

پچھلی کچھ دہائیوں میں ملک میں ایک رجحان رہا ہے، بڑے پیمانے پر کثیر ملکی کمپنیاں یہاں آئیں اور اس سرزمین سے پنپیں۔ یہ دہائی اور صدی بھارت میں نئی  کثیر ملکی کمپنیوں کی تشکیل سے تعلق رکھتی ہے۔ بھارت کے لےی یہ ایک بہترین وقت ہے کہ وہ دنیا میں اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرے۔ آج کے اسٹارٹ اپ کل کی کثیر ملکی کمپنیاں ہیں اور جن شہروں میں یہ اسٹارٹ اپ زیادہ تر قائم کیے جا رہے ہیں ان اسٹارٹ اپس کا اثر ان شہروں میں دیکھا جا سکتا ہے جنہیں ہم عام طور پر دوسرے درجے یا تیسرے درجے کا شہر کہتے ہیں۔ ان اسٹارٹس اپ کو آگے لے جانے کے لیے بہترین مینیجرس کی ضرورت ہے جو نئی کمپنیاں بھارتی نوجوانوں نے تشکیل دی ہیں۔ مینجمنٹ کے وہ ماہرین جو ملک کے نئے علاقوں سے ابھر رہے ہیں اور جن کے پاس نئے تجربات ہیں وہ بھارتی کمپنیوں کو نئی اونچائیاں بخشنے میں نیا رول ادا کریں گے۔

دوستو،

میں کہیں پڑھ رہا تھا کہ بھارت نے کووڈ بحران کے باوجود پچھلے برسوں کی بنسبت اس سال زیادہ کارنامے انجام دیے ہیں۔ آج اسٹارٹس اپ کی گنجائش بے مثال اصلاحات کی وجہ سے لگاتار اضافہ پا رہے ہیں۔ یہ اصلاحات زراعت سے لے کر خلا کے شعبے تک میں کی جا رہی ہے۔ آپ کو ان نئے امکانات کے لیے خود کو تیار کرنا ہے۔ آپ کو اپنی پیشہ ورانہ زندگی بھارت کی امیدوں کے مطابق بنانی ہے۔  برانڈ انڈیا کو ایک نئی عالمی شناخت کرنے کی ذمہ داری ساری کی ساری ہم  پر ہے اور خاص طور پر  ہمارے نوجوانوں پر ہے۔

دوستو،

آئی آئی ایم سمبل پور کا مشن منتر ہے نوسرجنم شچیتا سماویشتوم ۔  وہ ہے اخترا، دیانتداری اور شمولیت۔ آپ کو اس منتر کی طاقت کے ساتھ ملک کو اپنی مینجمنٹ کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا ہے۔ آپ کو نہ صرف نئی کمپنیوں کی ہمت افزائی کرنی ہے بلکہ سب کی شمولیت پر بھی زور دیا ہے۔  آپ کو اُن سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے  جو ترقی کی دوڑ میں پیچھے چھوٹ گیے ہیں۔  وہ جگہ جہاں آئی آئی ایم کا مستقل کیمپس تعمیر کیا جا رہا ہے وہاں پہلے سے ہی ایک طبی یونیورسٹی ، ایک انجینئرنگ یونیورسٹی ، تین مزید یونیورسٹیاں ، سینک اسکول  اور سی آر پی ایف اور پولیس کے تربیتی ادارے موجود ہیں۔ جو لوگ سمبل پور کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے وہ تصور کر سکتے ہیں کہ اس علاقے میں آئی آئی ایم جیسے ایک باوقار ادارے کے قیام کے بعد کتنا بڑا تعلیمی مرکز بننے والا ہے۔ آئی آئی ایم سمبل پور ، طلبا اور یہاں مطالعہ کرنے والے پیشہ ور افراد کے لیے سب سے زیادہ اہم بات یہ ہوگی کہ آپ کے لیے یہ  پورا علاقہ ایک طرح پریکٹیکل لیب کی طرح ہے۔ اپنی فطرت کے اعتبار سے یہ علاقہ بہت  شاندار ہے۔ اڈیشہ کی شان ہیرا کنڈ باندھ  - وہ آپ سے کچھ بہت دور نہیں ہے۔ باندھ کے قریب ڈیبری گڑھ سینکچری بھی اپنے اندر ایک خاصیت کی حامل ہے ، اور اس کے وسط میں ایک مقدس مقام بھی ہے جہاں ویر سریندر سائی جی نے اپنی بنیاد کی تعمیر کی تھی۔ اس علاقے کی سیاحتی صلاحیت نے مزیر اضافے کی غرض سے طلبا کے نت نئے خیالات اور مینجمنٹ کی صلاحیتیں کافی زیادہ قابل استعمال ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح سمبل پوری کپڑے بھی ملک اور بیرون ملک میں مقبول ہے۔ بندھا – اِکت  کپڑا  اور اس کا منفرد انداز ، ڈیزائن اور تانا بانا بہت خاص ہے۔ اسی طرح اس علاقے میں دستکاری کا کام بہت زیادہ ہے ۔ چاندی کی  پچّی کاری، پتھر کی کھودائی، لکڑی کا کام، پیتل کا کام اور ہمارے قبائلی بھائی اور بہن اس میں بہت ہی ماہر ہیں۔ یہ آئی آئی ایم طلبا کی ایک اہم ذمہ داری ہے کہ وہ سمبل پور کی لوکل مصنوعات کو ووکل بنائیں۔

دوستو،

آپ یہ بھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ سمبل پور اور اس کے نواحی علاقے اپنی معدنیات  اور ان کی طاقت کے لیے بھی جانے جاتے ہیں۔ اعلیٰ درجے کا خام لوہا ، باکسائٹ، کرومائٹ، مینگنیز، کوئلے کے پتھر سے لے کر سونے، نگینے اور ہیرے تک اس جگہ کی قدرتی دولت کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔ آپ کو نئے خیالات پر کام کرنا ہے جیساکہ ملک کے ان قدرتی اثاثوں کے بہتر بندوبست کو کیسے یقینی بنایا جائے اور پورے خطے کو کس طرح ترقی دی جائے  اور عوام کو ترقی دی جائے۔

دوستو،

میں نے آپ کے سامنے کچھ مثالیں پیش کی ہیں ۔ اڈیشہ میں کیا نہیں ہے ۔۔۔ جنگلات کی دولت، معدنیات، رنگابتی، موسیقی ، قبائلی آرٹ  اور دستکاری اور گندھار مہر قسم کے شاعر کی نظمیں؟ جب آپ میرے کئی رفقائے کار  سمبل پوری کپڑے یا کٹک کی پچی کاری کو ایک عالمی شناخت عطا کرنے کے لیے اپنے صلاحیتوں کا استعمال کریں گے تو اس سے آتم نربھر بھارت مہم کو ہی ایک نئی رفتار اور نئی اونچائیاں نہیں ملیں گی بلکہ اڈیشہ کی بھی مجموعی ترقی ہوگی۔

دوستو،

آئی آئی ایم کے سبھی نوجوان رفقائے کار کو لوکل مصنوعات کو گلوبل بنانے کے لیے نئے اور اختراعی طریقہ کار دریافت کرنے ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے آئ آئی ایم مقامی مصنوعات اور بین الاقوامی اشتراک کے درمیان ملک کے خود کفالت کے مشن کی  جانب کام کر سکتے ہیں۔ آپ کے سابق طلبا کا بڑا نیٹ ورک جو دنیا کے ہر کونے میں پھیلا ہوا ہے وہ بھی اس سلسلے میں مدد کر سکتا ہے۔ 2014 تک ہمارے پاس 13 آئی آئی ایم  ادارے تھے۔ اب ملک میں 20 آئی آئی ایم ادارے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں صلاحیت آتم نربھر بھارت مہم کو مدد دے سکتی ہے۔

دوستو،

اگر دنیا میں نئے موقعے ہیں  تو مینجمنٹ کی دنیا کے سامنے چیلنج بھی ہیں۔ آپ کو ان چیلنجز کو سمجھنا ہوگا۔ مثال کے طور پر، ایڈیٹیو  پرنٹنگ یا 3ڈی پرنٹنگ سے پیداوار کی پوری معیشت میں تبدیلی آرہی ہے۔ آپ نے نیوز میں سنا ہوگا کہ پچھلے مہینے چنئی کے قریب ایک پوری دو منزلہ عمارت 3ڈی پرنٹ کے ڈیزائن پر ہے۔  لاجسٹیکس اور سپلائی چین کے انتظامات سے بھی پیداوار کے طریقوں میں تبدیلی آجائے گی۔ اسی طرح آج ٹکنالوجی  ہر جغرافیائی حد کو ختم کر رہی ہے۔ اگر فضائی کنکٹیویٹی میں 20ویں صدی کی تجارت کو بلارکاوٹ بنایا تو ڈیجیٹل کنکٹیویٹی بھی 21ویں صدی کی تجارت کی کایاپلٹ کرنے والی ہے۔ پوری دنیا عالمی گاؤں سے عالمی کام کی جگہ میں تبدیل ہو گئی ہے۔ کیونکہ کسی بھی جگہ سے کام کا تصور پیدا ہو گیا ہے۔ بھارت نے پچھلے کچھ مہینوں میں اس سلسلے میں سبھی ضروری اصلاحات کی ہے۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ وقت کے ساتھ آگے بڑھا جائے بلکہ وقت سے پہلے ہی اس طرف پیش قدمی کی جائے۔

دوستو،

کام کے طریقوں میں تبدیلی آگئی ہے۔ مینجمنٹ کی صلاحیتوں کے لیے مانگ میں تبدیلی آرہی ہے۔ اب وقت ،اشتراک ، اختراع اور یکسر تبدیلی والے مینجمنٹ کا ہےنہ کہ ٹاپ ڈاؤن یا  ٹاپ  ہیوی مینجمنٹ کا ۔ یہ اشتراک ساتھیوں کےلیے اہم ہے۔ لیکن الگوریدم بھی ٹیم کے ارکان کے ساتھ ہے۔ لہٰذا اگر مزید انسانی بندوبست آج درکار ہے تو مزید ٹکنالوجیکل مینجمنٹ بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ میں آپ سے ملک بھر کے آئی آئی ایم اداروں اور دیگر بزنس مینجمنٹ اسکولوں کی اہمیت کو اجاگر کر رہا ہوں۔ کس طرح ملک میں ٹکنالوجی کے جذبے کےساتھ کام کیا اور کورونا انفیکشن کے پورے  دور میں  ٹکنالوجی کے جذبے اور ٹیم ورک کے ماحول میں کام کیا۔ کس طرح 130 کروڑ ہم وطنوں کے لیے کسی طرح حفاظتی اقدامات کیے۔ان سبھی موضوعات پر تحقیق ہونی چاہیے اور دستاویزات تیار کی جانی چاہئیں۔ ملک کے 130 کروڑ عوام وقتاً فوقتاً کس طرح اختراع کریں۔ کسی طرح بھارت نے ایک مختصر مدت میں اپنی صلاحیت میں اضافہ کیا ہے۔ مینجمنٹ کے لیے یہ ایک عظیم سبق ہے۔ ملک کو پی پی ای کٹس، ماسک اور کووڈ  - 19 کے درمیان وینٹیلیٹرس کا ایک مستقل حل ڈھونڈا ہے۔.

دوستو،

ہمارے یہاں مسائل کو سلجھانے کے لیے ایک مختصر مدت کا طریقہ اپنانے کی روایت ہے۔ لیکن اب ملک کو اس سوچ سے باہر آنا پڑے گا۔ اب ہمارا زور فوری ضرورتوں  کے آگے ایک طویل عرصے کے طریق کار پر ہے اور اس سلسلے میں مینجمنٹ کا کوئی اچھا سبق بھی مل سکتا ہے۔ ہمارے درمیان ارون دھتی جی بھی موجود ہیں۔ انہوں نے منصوبہ بندی ، عمل درآمد اور مینجمنٹ کے  پورے عمل کا مشاہدہ کیا ہے جو ملک کے غریبوں کے لیے جن دھن کھاتوں کے لیے کیا گیا تھا۔ کیونکہ اس وقت وہ بینک کی انچارج تھیں۔ یہ بات آسان نہیں ہے کہ 40 کروڑ سے زیادہ غریبوں کے بینک کھاتے کھولے جائیں، جن کا بینکوں سے کبھی کوئی تعلق نہیں تھا اور میں آپ کو یہ سب باتیں کیوں بتا رہا ہوں ، کیونکہ مینجمنٹ کا مطلب محض بڑی کمپنیوں کو سنبھال نا نہیں ہے ۔ بھارت جیسے کسی ملک کے لیے مینجمنٹ کا مطلب صحیح معنوں میں زندگیوں کو سنبھالنا ہے۔ میں آپ کو ایک اور مثال دیتا ہوں اور یہ اس لیے اہم ہے کہ اڈیشہ کی ایک باصلاحیت شخصیت دھرمندر پردھان جی نے اس میں ایک بڑا رول ادا کیا ہے۔

دوستو،

ہمارے ملک میں رسوئی گیس آزادی کے تقریباً 10 سال بعدآئی تھی لیکن بعد کی دہائیوں میں رسوئی گیس ایک عیش و آرام کی چیز بن گئی۔ یہ مالدار لوگوں کی عزت و وقار بن گئی۔ لوگوں کو ایک گیس کنکشن کے لیے بہت سے چکر لگانے پڑتے تھے اور پھر بھی یہ ان کو نہیں مل سکتی تھی۔ صورتحال ایسی تھی کہ ملک میں ایل پی جی چھ سال پہلے  2014 تک صرف 55 فیصد تھی۔ یہی بات اس وقت تھی جب کوئی  مستقل حل  نہیں نکالا جاتا تھا۔ 60 سال میں ایل پی جی کنکشن صرف 55 فیصد تھے۔ اگر ملک اسی رفتار سے آگے بڑھتا تو آدھی صدی ہر شخص کو گیس کنکشن کی یقین دہانی میں گزر جاتی۔ 2014 میں اپنی  حکومت بننے کے بعد  ہم نے فیصلہ کیا کہ کوئی مستقل حل ہونا چاہیے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ملک میں آج کتنے لوگوں کے پاس گیس ہے؟ 98 فیصد سے زیادہ اور آپ سبھی لوگ جو اس کے بندوبست میں شامل رہے ہیں جانتے ہیں کہ نیا کام شروع کرتے ہوئے تھوڑی سی پیش رفت زیادہ آسان ہوتی ہے ۔ اصل چیلنج یہ ہوتا ہے کہ 100 فیصد لوگوں کو شامل کر لیا جائے۔

دوستو،

تب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے یہ حصولیابی کس طرح کی؟ آپ کی طرح کے مینجمنٹ کے ساتھیوں کے لیے یہ مطالعے کا ایک بہت اچھا موضوع ہے۔

دوستو،

ہم ایک طرف پریشانی کو رکھتے ہیں اور دوسری طرف مستقل حل۔ چیلنج کا تعلق نئے ڈسٹریبیوٹر  سے تھا۔ ہم نے 10000 نئے گیس ڈسٹریبیوٹر کو شامل کیا۔ چیلنج تھا گیس بھرنے کے پلانٹ کی صلاحیت کا۔ ہم نے ملک بھر میں گیس کو سیلنڈروں میں بھرنے کے پلانٹ ملک بھر میں نصب کیے، جس سے ملک کی صلاحیت میں اضافہ ہو گیا۔ چیلنج تھا اہم ٹرمنل صلاحیت ۔ہم نے اسے بھی ٹھیک کیا۔ چیلنج تھا پائپ لائن کی صلاحیت۔  ہم نے اس پر بھی ہزاروں کروڑ روپے خرچ کیے اور آج بھی ہم خرچ  کر رہے ہیں۔  چیلنج تھا غریب مستفیدین کا انتخاب۔ ہم نے یہ بھی پوری شفافیت کے ساتھ کیا، خاص طور پر اجولا یوجنا کی شروعات کر کے۔

دوستو،

یہ ایک مستقل حل تلاش کرنے کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں 28 کروڑ سے زیادہ گیس کنکشن ہیں۔ 2014 سے پہلے ملک میں 14 کروڑ گیس کنکشن تھے۔ ذرا سوچیے 60 سال میں 14 کروڑ گیس کنکشن ۔ ہم نے پچھلے چھ سال میں ملک میں 14 کروڑ سے زیادہ گیس کنکشن فراہم کیے۔ اب لوگوں کو رسوئی گیس کے لیے بھاگنا اور چکر لگانا نہیں پڑے گا۔ اڈیشہ میں بھی تقریباً 50 لاکھ کنبوں کو اجولا یوجنا کے تحت گیس کنکشن فراہم ہوئے۔ ایسا ملک میں اس اسکیم کے تحت صلاحیت سازی کی وجہ سے ہوا کہ ملک کا گیس تقسیم کا نیٹ ورک اڈیشہ کے 19 ضلعوں میں جاری ہے۔

دوستو،

میں نے یہ مثالیں آپ کے سامنے اس لیے بھی رکھی ہیں کہ آپ جتنا ملک کی ضرورتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ملک کے چیلنجوں  کو سمجھتے ہیں آپ اچھے مینیجر بن جائیں گے اور بہترین طریق کار فراہم کر سکیں گے۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ اعلیٰ تعلیمی ادروں کے لیے ضروری  ہے کہ نہ صرف وہ اپنی مہارت پر توجہ دیں بلکہ وہ اپنی وسعت میں بھی اضافہ کریں۔ جو طلبا یہاں آئے ہیں ان کا اس سلسلے میں ایک بڑا رول ہے ۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی  میں وسیع بنیاد ، کثیر جہت اور مجموعے نظریے پر زور دیا گیا ہے۔ کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ ایسی صوتحال حال کو ختم کر دیا جائے جو پیشہ ورانہ تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہو۔ ہم ملک کی ترقی کے لیے ہر ایک شخص کو اصل دھارے میں لانا چاہتے ہیں۔ یہ ایک شمولیت والی نوعیت بھی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس نظریے کو سمجھیں گے۔ آپ کی اور آئی آئی ایم سمبل پور کی کوششیں خود کفیل بھارت کی مہم کو پورا کرے گی۔ ان نیک خواہشات کے ساتھ ، آپ کا بہت بہت شکریہ۔ نمسکار !

اعلامیہ : یہ وزیراعظم کی تقریر کا ایک قریبی ترجمہ ہے۔ اصل تقریر ہندی میں کی گئی ہے۔

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
Waqf Law Has No Place In The Constitution, Says PM Modi

Media Coverage

Waqf Law Has No Place In The Constitution, Says PM Modi
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM to participate in ‘Odisha Parba 2024’ on 24 November
November 24, 2024

Prime Minister Shri Narendra Modi will participate in the ‘Odisha Parba 2024’ programme on 24 November at around 5:30 PM at Jawaharlal Nehru Stadium, New Delhi. He will also address the gathering on the occasion.

Odisha Parba is a flagship event conducted by Odia Samaj, a trust in New Delhi. Through it, they have been engaged in providing valuable support towards preservation and promotion of Odia heritage. Continuing with the tradition, this year Odisha Parba is being organised from 22nd to 24th November. It will showcase the rich heritage of Odisha displaying colourful cultural forms and will exhibit the vibrant social, cultural and political ethos of the State. A National Seminar or Conclave led by prominent experts and distinguished professionals across various domains will also be conducted.