ہرہرمہادیو، ہرہرمہادیو، ہرہرمہادیو!

کاشی کوتوال کی جے ،ماتاان پورناکی جے ، ماں گنگاکی جے ۔

جوبولے سونہال ، ست شری اکال !نموبُدھائے !

کاشی کے سبھی باشندوں کو ، سبھی ہم وطنوں کو کارتک پورنیما دیودیپاولی کی  تہہ دل سے نیک خواہشات ۔سبھی کو گورونانک دیو جی کے پرکاش پرو کی بھی بہت بہت مبارکباد۔

اترپردیش کے وزیراعلیٰ ، یوگی آدتیہ ناتھ  جی ،پارلیمنٹ میں میرے ساتھی جناب رادھاموہن سنگھ جی ، یوپی سرکارمیں وزیربھائی آشوتوش جی ، رویندرجیسوال جی ، نیل کنٹھ  تیواری جی ، ریاستی بی جے پی کے صدربھائی سوتنتردیوجی ، ایم ایل اے سوروسریواستوجی ، قانون ساز کونسل کے رکن بھائی اشوک دھون  جی ، مقامی بی جے پی کے مہیش چندشریواستوجی ، ودیاساگررائے جی ، دیگرسبھی آزمودہ کارحضرات اورمیرےکاشی کے پیارے بھائیواوربہنو!

نارائن کا خصوصی مہینہ مانے جانے والے مقدس کارتک ماہ کے آپن کاشی کے لوگ کتیکی پنواسی کہیلن ۔آورپنواسی پرانادی کال سے گنگامیں ڈبکی لگاوے ، دان پونیہ کامہتسورہل ہو ۔برسوں برس سے شردھالولوگن میں کوئی پنچ گنگاگھاٹ تو کوئی دشاشومیگھ ، شیتلاگھاٹ یا اسی پر ڈبکی لگاوت آئل ہو ۔ پوراگنگاتٹ اور گودولیاکا ہرسندری ، گیان واپی دھرم شالہ تو بھرل پڑت رہل ۔ پنڈت رام کنکر مہاراج پورے کارتک مہینہ بابا وشوناتھ کے رام کتھاسناوت رہلن ۔دیش کے ہرکونےسے لوگ انکرکتھاسنے آویں ۔

کوروناکال میں بھلے ہی کافی کچھ بدل دیاہو لیکن کاشی کی یہ توانائی ، کاشی کی یہ بھگتی ، یہ شکتی اس کو کوئی تھوڑے ہی بدل سکتاہے ۔ صبح سے ہی کاشی واسی سنان ، دھیان اوردان میں ہی لگے ہیں ۔ کاشی ویسے ہی جیونت ہے ۔ کاشی کی گلیاں ویسے ہی توانائی سے بھری ہیں ۔ کاشی کے گھاٹ ویسے ہی دویہ مان ہیں ۔ یہی تومیری لافناکاشی ہے ۔

ساتھیو،

ماں گنگا کے نزدیک کاشی روشنی کا تہوارمنارہی ہے ۔ مجھے بھی مہادیوکے آشیرواد سے اس پرکاش گنگا میں ڈبکی لگانے کا شرف حاصل ہواہے ۔آج دن میں کاشی کی 6لین کی شاہراہ کے افتتاح کے پروگرام میں موجود رہنے کا موقع ملا۔ شام کو دیو دیپاولی کا درشن کررہاہوں ۔ یہاں آنے سے پہلے کاشی وشوناتھ راہداری بھی جانے کا موقع مجھے ملااورابھی رات کو سارناتھ میں لیزرشوکابھی نظارہ کروں گا ۔ میں اس مہادیوکا آشیرواد اور آپ سب کاشی کے رہنے والوں کی  خصوصی محبت مانتاہوں ۔

ساتھیو،

کاشی کے لئے ایک اوربھی خاص موقع ہے ، آپ نے سنا ہوگا کل من کی بات میں بھی میں نے اس کا ذکرکیاتھااورابھی یوگی جی نے بڑی زوردارآواز میں اس بات کو بھی دوہرایا۔100سال سے بھی پہلے ماتا ان پورنا کی جو مورتی کاشی سے چوری ہوگئی تھی وہ اب پھرواپس آرہی ہے ۔ ماتا انّ پورنا پھرایک باراپنے گھرواپس آرہی ہیں ۔ کاشی کے لئے یہ خوش قسمتی کی بات ہے ۔ ہمارے دیوی دیوتاؤں کی  یہ قدیم مورتیاں ہماری عقیدت کی علامت کے ساتھ ہی ہماری بیش بہا وراثت بھی ہیں ۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ اتنی کوشش اگرپہلے کی گئی ہوتی توایسی کتنی ہی مورتیاں ملک کو کافی پہلے مل جاتیں ۔ لیکن کچھ لوگوں کی سوچ الگ رہی ہے ۔ہمارے لئے وراثت کا مطلب ہے ملک کا خزانہ ، جب کہ کچھ لوگوں کے لئے وراثت کا مطلب ہوتاہے اپنا کنبہ اوراپنے کنبے کا نام ۔ ہمارے لئے وراثت کامطلب ہے ہماری تہذیب ، ہماراعقیدہ ، ہماری اقدار۔ ان کے لئے وراثت کا مطلب ہے اپنی مورتیاں ، اپنے کنبے کی تصویریں ۔ اس لئے ان کی توجہ کنبے کی وراثت کوبچانے میں رہی ۔ ہماری توجہ ملک کی وراثت کو بچانے ، اسے تحفظ دینے پرہے ۔ میرے کاشی کے باشندوبتاومیں صحیح راستے پرہوں نا ؟میں صحیح کررہاہوں نا؟دیکھئے آپ کے آشیرواد سے ہی سب ہورہاہے ، آج جب کاشی کی وراثت جب واپس آرہی ہے تو ایسا لگ رہاہے جیسے کاشی ماتا انّ پورناکی آمدکی خبر سن کو سجی سنوری ہو۔

ساتھیو ،

لاکھوں جزیروں سے کاشی کے 84گھاٹوں کا جگ مگ ہوناانوکھی بات ہے ۔ گنگا کی لہروں میں یہ روشنی اس زیبائش کو اوربھی دلکش بنارہی ہےاورچشم دید کون ہے دیکھئے نا ۔ایسا لگ رہاہے جیسے آج پورنماپردیودیپاولی مناتی کاشی مہادیوکے ماتھے پرتشریف فرماں چاندکی طرح چمک رہی ہے ۔ کاشی کی خوبصورتی ہی ایسی ہے ۔ ہمارے شاستروں میں کہاگیاہے ‘‘کاشیاں ہی کاشتے کاشی سرو پرکاشیکا’’یعنی کاشی تو باطنی علم سے روشن ہوتی ہے اس لئے کاشی سب کو پوری دنیاکو روشنی دینے والی ہے ، راستے کو روشن کرنے والی ہے ،ہردورمیں کاشی کے اس نور سے کسی نہ کسی عظیم شخصیت کی ریاضت وابستہ ہوجاتی ہے اورکاشی دنیاکو راستہ دکھاتی رہتی ہے آج ہم جس دیودیپاولی کانظارہ کررہے ہیں ، اس کی تحریک پہلے پنچ گنگاگھاٹ پرخود آدی شنکر آچاریہ جی نے دی تھی بعد میں اہلیہ بائی ہولکرجی نے اس روایت کا آگے بڑھایا۔ پنچ گنگاگھاٹ پراہلیہ بائی ہولکر جی کے ذریعہ قائم کیاگیا 1000دیپوں کا روشنی ستون آج بھی اس روایت کا گواہ ہے ۔

ساتھیو،

کہتے ہیں کہ جب تریپورہ سور نام کے شیطان نے پوری دنیا کو دہشت زدہ کردیاتھا ، بھگوان شیونے کارتک کی پورنیماکے دن اس کا خاتمہ کیاتھا۔دہشت ، ظلم اوراندھیرے کے اس خاتمے پر دیوتاؤں نے مہادیو کی نگری میں آکر دیئے جلائے تھے ، دیوالی منائی تھی، دیوتاؤں کی وہ دیپاولی ہی دیودیپاولی ہے ۔ لیکن یہ دیوتاکون ہیں ؟یہ دیوتاتوآج بھی ہیں، آج بھی بنارس میں دیپاولی منارہے ہیں ۔ہماری عظیم شخصیتوں نے ، سنتوں نے لکھاہے ‘‘لوک بیدہ بیدت بارہ ناسی کی بڑائی ، باسی نرناری ، ایس امبیکاسوروپ ہیں ’’۔ یعنی کہ کاشی کے لوگ ہی دیوسوروپ ہیں ۔ کاشی کے نرناری تو دیوی اوردنیا کے سوروپ ہیں ، اس لئے ان 84گھاٹوں پر ان لاکھوں دیپوں کو آج بھی دیوتاہی روشن کررہے ہیں ، دیوتاہی یہ روشنی پھیلارہے ہیں۔ آج  بھی یہ دیپک ان معبودوں کے لئے بھی جل رہے ہیں جنھوں نے ملک کے لئے اپنی جانیں نثارکردیں ، جومادروطن کے لئے قربان ہوئے ۔ کاشی کا یہ جذبہ دیودیپاولی کی روایت کا یہ پہلو جذباتی کرجاتاہے ۔ اس موقع پر میں ملک کی حفاظت اپنی شہادت دینے والے ، اپنی جوانی کھپانے والے ، اپنے خوابوں کوماں بھارتی کے قدموں میں بکھیرنے والے، ہمارے جوانوں کو سلام کرتاہوں ۔

ساتھیو،

چاہے سرحدپر دراندازی کی کوشش ہو، قبضہ کرنے والی طاقتوں کی شرانگیزی ہویاپھرملک کے اندرملک کوتوڑنے کی کوشش کرنے والی سازشیں، بھارت ان سب کاجواب دے رہاہے ، اور منھ توڑ جواب دے رہاہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ملک اب غریبی ، ناانصافی اور نابرابری کے اندھیرے کے خلاف بھی تبدیلی کے لئے دیئے بھی جلارہاہے ۔ آج غریبوں کو ان کے ضلع میں ان کے گاوں میں روزگاردینے کے لئے پردھان منتری روزگارابھیان چل رہاہے ۔ آج گاوں میں سوامتویوجنا کے ذریعہ عام آدمی کو اس کے گھرمکان پرقانونی اختیاردیاجارہاہے ۔ آج کسانوں کو ان کے بچولیوں اور استحصال کرنے والوں سے آزادی مل رہی ہے ۔ آج ریہڑی ، پٹری اور ٹھیلے والوں کو بھی مدد اورپونجی دینے کے لئے بینک آگے چل کرآرہے ہیں ۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی میں سوندھی یوجنا کے مستفیدین سے کاشی میں بات بھی کی تھی ، اس کے ساتھ ہی آج آتم نربھرابھیان کے ساتھ چل کر ملک لوکل کے لئے ووکل ہورہاہے ، ہورہاہے یانہیں ہورہاہے ؟برابریاد رکھتے ہویابھول جاتے ہومیرے جانے کے بعد ؟میں بولوں گاووکل فارآپ بولیں گے لوکل ،بولیں گے ؟ووکل فارلوکل ۔ اس مرتبہ سے تہوار اس بارکی دیوالی جیسے منائی گئی ، جیسے ملک کے لوگوں نے لوکل مصنوعات ، لوکل تحفائف کے ساتھ اپنے تہوارمنائے ، وہ واقعی ترغیب دینے والے ہیں ،لیکن یہ صرف تہوارکے لئے نہیں ، یہ ہماری زندگی کا حصہ بنناچاہیئے ۔ ہماری کوششوں کے ساتھ ساتھ ہمارےتہواربھی ایک بارپھرغریب  کی خدمت کا وسیلہ بن رہے ہیں ۔

ساتھیو،

گورونانک دیو جی نے تواپنی پوری زندگی غریب ،استحصال کا شکار، محروم کی خدمت میں وقف کردی تھی ۔ کاشی کاتو گورونانک دیوجی سے روحانی تعلق بھی رہاہے انھوں نے ایک طویل عرصہ کاشی میں بسرکیاتھا ۔کاشی کا گوروباغ گورودوارااس تاریخی دورکی گواہ ہے جب گورونانک دیوجی یہاں تشریف لائے تھے اورکاشی کے باشندوں کو نئی راہ دکھائی تھی۔ آج ہم اصلاحات  کی بات کرتے ہیں لیکن سماج اورنظم ونسق میں اصلاحات کے بہت بڑے مظہرتو خود گورونانک دیوجی ہی تھے  اورہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جب سماج کے مفاد میں ، قوم کے مفاد میں تبدیلی ہوتی ہے توجانے انجانے مخالفت کی آوازیں ضروراٹھتی ہیں ۔ لیکن جب ان اصلاحات کی کامیابی سامنے آنے لگتی ہے تو سب کچھ ٹھیک ہوجاتاہے یہی سبق ہمیں گورونانک دیو جی کی زندگی سے ملتاہے ۔

ساتھیو،

کاشی کے لئے جب ترقی کے کام شروع ہوئے تھے ، مخالفت کرنے والوں نے صرف مخالفت برائے مخالفت تب بھی کی تھی ۔ کی تھی یانہیں کی تھی ؟کی تھی یانہیں کی تھی ؟آپ کو یاد ہوگا جب کاشی نے طے کیاتھا کہ باباکے دربارتک وشوناتھ راہداری بنے گی ، خوبصورتی اور تقدس کے ساتھ ساتھ عقیدتمندوں کی سہولتوں میں اضافہ کیاجائے گا۔ مخالفت کرنے والوں نے تب اس سلسلے میں بھی کافی کچھ کہاتھا۔ بہت کچھ کیابھی تھا لیکن آج بابا کی مہربانی سے کاشی کا فخربحال ہورہاہے ، صدیوں پہلے باباکے دربار کا ماں گنگاتک جو سیدھاتعلق تھا وہ پھرقائم ہورہاہے ۔

ساتھیو،

نیک نیت سے جب اچھے کام کئے جاتے ہیں تو مخالفت کے باوجود ان کی تصدیق ہوتی ہی ہے ایودھیامیں شری رام مندرسے بڑی اس کی مثال کیاہوگی ؟دھائیوں سے اس مقدس کام کو لٹکانے ، بھٹکانے کے لئے کیاکچھ نہیں کیاگیا؟کیسے کیسے ڈرپیداکرنے کی کوشش کی گئی لیکن جب رام جی نے چاہاتو مندربن رہاہے ۔

ساتھیو،

ایودھیا ، کاشی اورپریاگ کا یہ علاقہ آج روحانیت کے ساتھ ساتھ سیاحت کے  لامحدود امکانات کے لئے تیارہورہے ہیں ، ایودھیامیں جس تیز رفتارسے ترقی ہورہی ہے پریاگ راج میں جس طرح کمبھ کا انعقاد دیکھا ہے اورکاشی آج جس طرح ترقی کے راستے پرگامزن ہے اس سے پوری دنیا کی سیاحت آج اس علاقے کی طرف دیکھ رہی ہے ، بنارس میں کاشی وشوناتھ مندر علاقے کے ساتھ ساتھ درگاکنڈ جیسے سناتن اہمیت کے مقامات کی بھی ترقی کی گئی ہے ۔ دوسرے مندروں اورپری کرما راستے کو بھی بہتربنایاجارہاہے ۔ گھاٹوں کی تصویرتیز رفتار سے تبدیل ہورہی ہے اس نے صبح بنارس کوپھرسے زیبائش دی ہے ۔ ماں گنگاکاپانی بھی صاف ہورہاہے ۔ یہی توقدیم کاشی کا جدید سناتن اوتارہے ۔یہی تو بنارس کا سدا قائم رہنے والا رس ہے ۔

ساتھیو،

ابھی یہاں سے میں بھگوان بدھ کی سرزمین سارناتھ جاؤں گا ۔ سارناتھ میں شام کے وقت سیاحت کوفروغ دینے کے لئے اور عوامی تعلیم کے لئے بھی آپ سب کی جو لمبے عرصے سے مانگ تھی وہ اب پوری ہوگئی ہے ۔ لیزرشومیں اب بھگوان بدھ کے رحم ، کرم اورعدم تشدد کے پیغامات کامیاب ہوں گے ۔ یہ پیغامات آج اوربھی اہمیت کے حامل ہوجاتے ہیں جب دنیا تشدد ، بیچینی اوردہشت کے خطرے دیکھ کر فکرمند ہے ۔ بھگوان بدھ کہتے تھے –نہ ہی ویرین ویرانی سمّنتی دھ کداچن اویرین ہی سمنتی ایس دھمو سننتنویعنی ویرسے ویر کبھی شانت نہیں ہوتا۔اویرسے ویر شانت ہوجاتاہے ۔ دیودیپاولی سے دیوتاوں کی شخصیت کا تعارف کراتی ہوئی کاشی سے بھی یہی پیغام ہے کہ ہمارادل ان ہی دیپوں کی طرح جگمگااٹھے ۔ سب میں تعمیری جذبہ ہو ۔ ترقی کا راستہ اختیارکیاجائے ، ساری دنیا رحم ، ترس کے جذبے کو خود میں سمولے ۔مجھے یقین ہے کہ کاشی سے نکلتے یہ پیغامات روشنی کی یہ توانائی پورے ملک کے عزائم کوثابت کرے گی ۔ ملک نے آتم نربھربھارت کا جو سفرشروع کیاہے ، 130کروڑہم وطنوں کی طاقت سے ہم اسے پوراکریں گے۔

میرے پیارے ہم وطنو،

ان ہی نیک خواہشات کے ساتھ آپ سبھی کو ایک بارپھر دیو دیپاولی اورپرکاش پروکی بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتاہوں ۔ کورونا کے سبب سب کے لئے جو قوانین مقررہوئے تھے اس کے سبب میں پہلے تو باربار آپ کے درمیان آتاہوں لیکن اس بارمجھے آنے میں تاخیرہوگئی ، جب اتناوقت گذرگیا ، بیچ میں تومیں خود محسوس کرتاتھا کہ میں نے کچھ کھودیاہے ۔ایسا لگ رہاتھا کہ آپ کودیکھا نہیں ، آپ کے دیدارنہیں ہوئے ۔ آج جب آیا تو دل اتنا مطمئن ہوگیا۔ آپ کے دیدارکئے ،دل اتنا تونگرہوگیا ۔ لیکن میں اس کوروناکے بحران میں بھی ایک دن بھی آپ سے دورنہیں تھا۔ میں آپ کو بتاتاہوں کورونا کے کیس ، کیسے بڑھ رہے ہیں ۔ اسپتال کی کیاصورت حال ہے ، سماجی تنظیمیں کس طرح کام کررہی ہیں ، کوئی غریب بھوکا تونہیں رہتاہے ، ہربات میں میں راست وابستہ رہتاتھا ساتھیوں اورمیں ماں انّ پورنا کی اس سرزمین سے آپ نے جس جذبے سے کام  کیاہے کسی کو بھوکا نہیں رہنے دیاہے ، کسی کو دوا کے بغیررہنے نہیں دیاہے ، اس لئے میں اس خدمت خلق کے لئے اس پورے اوروقت بہت لمباچارچار، چھ چھ ، آٹھ آٹھ مہینے تک لگاتار اس کام کو کرتے رہنا ، ملک کے ہرکونے میں ہواہے ، میری کاشی میں بھی ہواہے اوراس کا میرے دل میں اتنا اطمینان ہے ، میں آج آپ کے اس خدمت خلق کے جذبے کے لئے آپ کے خود کو وقف کرنے کے لئے میں آج پھرماں گنگاکے کنارے سے آپ سب کاشی کے باشندوں کو سلام کرتاہوں ، آپ کے خدمت خلق کے جذبے کو سلام کرتاہوں اور آپ نے غریب سے غریب کی جو فکرکی ہے اس نے میرے دل کو چھولیاہے ۔ میں جتنا آپ کی خدمت کروں اتنی کم ہے ، میں آپ کو یقین دلاتاہوں ، اپنی طرف سے آپ کی خدمت میں ، میں کوئی کمی نہیں رہنےدوں گا ۔

میرے لئے آج فخرکاموقع ہے کہ آج مجھے جیسے جگمگاتے ماحول میں آپ کے بیچ آنے کا موقع ملاہے ۔ کوروناکو شکست دے کر ہم ترقی کے راستے پرتیز رفتارسے بڑھیں گے ۔ماں گنگاکی دھارا جیسے بہہ رہی ہے ۔رکاوٹوں ، پریشانیوں کے بعد بھی بہہ رہی ہے ، صدیوں سے بہہ رہی ہے ، وکاس کی دھارا بھی ویسے ہی بہتی رہے گی ۔اسی یقین کے ساتھ میں بھی یہاں سے دلی جاوں گا ۔ میں پھرایک بارآپ سب کا دل سے شکریہ اداکرتاہوں ۔

جے کاشی ، جے ماں بھارتی ۔

ہرہرمہادیو!

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address at the Parliament of Guyana
November 21, 2024

Hon’ble Speaker, मंज़ूर नादिर जी,
Hon’ble Prime Minister,मार्क एंथनी फिलिप्स जी,
Hon’ble, वाइस प्रेसिडेंट भरत जगदेव जी,
Hon’ble Leader of the Opposition,
Hon’ble Ministers,
Members of the Parliament,
Hon’ble The चांसलर ऑफ द ज्यूडिशियरी,
अन्य महानुभाव,
देवियों और सज्जनों,

गयाना की इस ऐतिहासिक पार्लियामेंट में, आप सभी ने मुझे अपने बीच आने के लिए निमंत्रित किया, मैं आपका बहुत-बहुत आभारी हूं। कल ही गयाना ने मुझे अपना सर्वोच्च सम्मान दिया है। मैं इस सम्मान के लिए भी आप सभी का, गयाना के हर नागरिक का हृदय से आभार व्यक्त करता हूं। गयाना का हर नागरिक मेरे लिए ‘स्टार बाई’ है। यहां के सभी नागरिकों को धन्यवाद! ये सम्मान मैं भारत के प्रत्येक नागरिक को समर्पित करता हूं।

साथियों,

भारत और गयाना का नाता बहुत गहरा है। ये रिश्ता, मिट्टी का है, पसीने का है,परिश्रम का है करीब 180 साल पहले, किसी भारतीय का पहली बार गयाना की धरती पर कदम पड़ा था। उसके बाद दुख में,सुख में,कोई भी परिस्थिति हो, भारत और गयाना का रिश्ता, आत्मीयता से भरा रहा है। India Arrival Monument इसी आत्मीय जुड़ाव का प्रतीक है। अब से कुछ देर बाद, मैं वहां जाने वाला हूं,

साथियों,

आज मैं भारत के प्रधानमंत्री के रूप में आपके बीच हूं, लेकिन 24 साल पहले एक जिज्ञासु के रूप में मुझे इस खूबसूरत देश में आने का अवसर मिला था। आमतौर पर लोग ऐसे देशों में जाना पसंद करते हैं, जहां तामझाम हो, चकाचौंध हो। लेकिन मुझे गयाना की विरासत को, यहां के इतिहास को जानना था,समझना था, आज भी गयाना में कई लोग मिल जाएंगे, जिन्हें मुझसे हुई मुलाकातें याद होंगीं, मेरी तब की यात्रा से बहुत सी यादें जुड़ी हुई हैं, यहां क्रिकेट का पैशन, यहां का गीत-संगीत, और जो बात मैं कभी नहीं भूल सकता, वो है चटनी, चटनी भारत की हो या फिर गयाना की, वाकई कमाल की होती है,

साथियों,

बहुत कम ऐसा होता है, जब आप किसी दूसरे देश में जाएं,और वहां का इतिहास आपको अपने देश के इतिहास जैसा लगे,पिछले दो-ढाई सौ साल में भारत और गयाना ने एक जैसी गुलामी देखी, एक जैसा संघर्ष देखा, दोनों ही देशों में गुलामी से मुक्ति की एक जैसी ही छटपटाहट भी थी, आजादी की लड़ाई में यहां भी,औऱ वहां भी, कितने ही लोगों ने अपना जीवन समर्पित कर दिया, यहां गांधी जी के करीबी सी एफ एंड्रूज हों, ईस्ट इंडियन एसोसिएशन के अध्यक्ष जंग बहादुर सिंह हों, सभी ने गुलामी से मुक्ति की ये लड़ाई मिलकर लड़ी,आजादी पाई। औऱ आज हम दोनों ही देश,दुनिया में डेमोक्रेसी को मज़बूत कर रहे हैं। इसलिए आज गयाना की संसद में, मैं आप सभी का,140 करोड़ भारतवासियों की तरफ से अभिनंदन करता हूं, मैं गयाना संसद के हर प्रतिनिधि को बधाई देता हूं। गयाना में डेमोक्रेसी को मजबूत करने के लिए आपका हर प्रयास, दुनिया के विकास को मजबूत कर रहा है।

साथियों,

डेमोक्रेसी को मजबूत बनाने के प्रयासों के बीच, हमें आज वैश्विक परिस्थितियों पर भी लगातार नजर ऱखनी है। जब भारत और गयाना आजाद हुए थे, तो दुनिया के सामने अलग तरह की चुनौतियां थीं। आज 21वीं सदी की दुनिया के सामने, अलग तरह की चुनौतियां हैं।
दूसरे विश्व युद्ध के बाद बनी व्यवस्थाएं और संस्थाएं,ध्वस्त हो रही हैं, कोरोना के बाद जहां एक नए वर्ल्ड ऑर्डर की तरफ बढ़ना था, दुनिया दूसरी ही चीजों में उलझ गई, इन परिस्थितियों में,आज विश्व के सामने, आगे बढ़ने का सबसे मजबूत मंत्र है-"Democracy First- Humanity First” "Democracy First की भावना हमें सिखाती है कि सबको साथ लेकर चलो,सबको साथ लेकर सबके विकास में सहभागी बनो। Humanity First” की भावना हमारे निर्णयों की दिशा तय करती है, जब हम Humanity First को अपने निर्णयों का आधार बनाते हैं, तो नतीजे भी मानवता का हित करने वाले होते हैं।

साथियों,

हमारी डेमोक्रेटिक वैल्यूज इतनी मजबूत हैं कि विकास के रास्ते पर चलते हुए हर उतार-चढ़ाव में हमारा संबल बनती हैं। एक इंक्लूसिव सोसायटी के निर्माण में डेमोक्रेसी से बड़ा कोई माध्यम नहीं। नागरिकों का कोई भी मत-पंथ हो, उसका कोई भी बैकग्राउंड हो, डेमोक्रेसी हर नागरिक को उसके अधिकारों की रक्षा की,उसके उज्जवल भविष्य की गारंटी देती है। और हम दोनों देशों ने मिलकर दिखाया है कि डेमोक्रेसी सिर्फ एक कानून नहीं है,सिर्फ एक व्यवस्था नहीं है, हमने दिखाया है कि डेमोक्रेसी हमारे DNA में है, हमारे विजन में है, हमारे आचार-व्यवहार में है।

साथियों,

हमारी ह्यूमन सेंट्रिक अप्रोच,हमें सिखाती है कि हर देश,हर देश के नागरिक उतने ही अहम हैं, इसलिए, जब विश्व को एकजुट करने की बात आई, तब भारत ने अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान One Earth, One Family, One Future का मंत्र दिया। जब कोरोना का संकट आया, पूरी मानवता के सामने चुनौती आई, तब भारत ने One Earth, One Health का संदेश दिया। जब क्लाइमेट से जुड़े challenges में हर देश के प्रयासों को जोड़ना था, तब भारत ने वन वर्ल्ड, वन सन, वन ग्रिड का विजन रखा, जब दुनिया को प्राकृतिक आपदाओं से बचाने के लिए सामूहिक प्रयास जरूरी हुए, तब भारत ने CDRI यानि कोएलिशन फॉर डिज़ास्टर रज़ीलिएंट इंफ्रास्ट्रक्चर का initiative लिया। जब दुनिया में pro-planet people का एक बड़ा नेटवर्क तैयार करना था, तब भारत ने मिशन LiFE जैसा एक global movement शुरु किया,

साथियों,

"Democracy First- Humanity First” की इसी भावना पर चलते हुए, आज भारत विश्वबंधु के रूप में विश्व के प्रति अपना कर्तव्य निभा रहा है। दुनिया के किसी भी देश में कोई भी संकट हो, हमारा ईमानदार प्रयास होता है कि हम फर्स्ट रिस्पॉन्डर बनकर वहां पहुंचे। आपने कोरोना का वो दौर देखा है, जब हर देश अपने-अपने बचाव में ही जुटा था। तब भारत ने दुनिया के डेढ़ सौ से अधिक देशों के साथ दवाएं और वैक्सीन्स शेयर कीं। मुझे संतोष है कि भारत, उस मुश्किल दौर में गयाना की जनता को भी मदद पहुंचा सका। दुनिया में जहां-जहां युद्ध की स्थिति आई,भारत राहत और बचाव के लिए आगे आया। श्रीलंका हो, मालदीव हो, जिन भी देशों में संकट आया, भारत ने आगे बढ़कर बिना स्वार्थ के मदद की, नेपाल से लेकर तुर्की और सीरिया तक, जहां-जहां भूकंप आए, भारत सबसे पहले पहुंचा है। यही तो हमारे संस्कार हैं, हम कभी भी स्वार्थ के साथ आगे नहीं बढ़े, हम कभी भी विस्तारवाद की भावना से आगे नहीं बढ़े। हम Resources पर कब्जे की, Resources को हड़पने की भावना से हमेशा दूर रहे हैं। मैं मानता हूं,स्पेस हो,Sea हो, ये यूनीवर्सल कन्फ्लिक्ट के नहीं बल्कि यूनिवर्सल को-ऑपरेशन के विषय होने चाहिए। दुनिया के लिए भी ये समय,Conflict का नहीं है, ये समय, Conflict पैदा करने वाली Conditions को पहचानने और उनको दूर करने का है। आज टेरेरिज्म, ड्रग्स, सायबर क्राइम, ऐसी कितनी ही चुनौतियां हैं, जिनसे मुकाबला करके ही हम अपनी आने वाली पीढ़ियों का भविष्य संवार पाएंगे। और ये तभी संभव है, जब हम Democracy First- Humanity First को सेंटर स्टेज देंगे।

साथियों,

भारत ने हमेशा principles के आधार पर, trust और transparency के आधार पर ही अपनी बात की है। एक भी देश, एक भी रीजन पीछे रह गया, तो हमारे global goals कभी हासिल नहीं हो पाएंगे। तभी भारत कहता है – Every Nation Matters ! इसलिए भारत, आयलैंड नेशन्स को Small Island Nations नहीं बल्कि Large ओशिन कंट्रीज़ मानता है। इसी भाव के तहत हमने इंडियन ओशन से जुड़े आयलैंड देशों के लिए सागर Platform बनाया। हमने पैसिफिक ओशन के देशों को जोड़ने के लिए भी विशेष फोरम बनाया है। इसी नेक नीयत से भारत ने जी-20 की प्रेसिडेंसी के दौरान अफ्रीकन यूनियन को जी-20 में शामिल कराकर अपना कर्तव्य निभाया।

साथियों,

आज भारत, हर तरह से वैश्विक विकास के पक्ष में खड़ा है,शांति के पक्ष में खड़ा है, इसी भावना के साथ आज भारत, ग्लोबल साउथ की भी आवाज बना है। भारत का मत है कि ग्लोबल साउथ ने अतीत में बहुत कुछ भुगता है। हमने अतीत में अपने स्वभाव औऱ संस्कारों के मुताबिक प्रकृति को सुरक्षित रखते हुए प्रगति की। लेकिन कई देशों ने Environment को नुकसान पहुंचाते हुए अपना विकास किया। आज क्लाइमेट चेंज की सबसे बड़ी कीमत, ग्लोबल साउथ के देशों को चुकानी पड़ रही है। इस असंतुलन से दुनिया को निकालना बहुत आवश्यक है।

साथियों,

भारत हो, गयाना हो, हमारी भी विकास की आकांक्षाएं हैं, हमारे सामने अपने लोगों के लिए बेहतर जीवन देने के सपने हैं। इसके लिए ग्लोबल साउथ की एकजुट आवाज़ बहुत ज़रूरी है। ये समय ग्लोबल साउथ के देशों की Awakening का समय है। ये समय हमें एक Opportunity दे रहा है कि हम एक साथ मिलकर एक नया ग्लोबल ऑर्डर बनाएं। और मैं इसमें गयाना की,आप सभी जनप्रतिनिधियों की भी बड़ी भूमिका देख रहा हूं।

साथियों,

यहां अनेक women members मौजूद हैं। दुनिया के फ्यूचर को, फ्यूचर ग्रोथ को, प्रभावित करने वाला एक बहुत बड़ा फैक्टर दुनिया की आधी आबादी है। बीती सदियों में महिलाओं को Global growth में कंट्रीब्यूट करने का पूरा मौका नहीं मिल पाया। इसके कई कारण रहे हैं। ये किसी एक देश की नहीं,सिर्फ ग्लोबल साउथ की नहीं,बल्कि ये पूरी दुनिया की कहानी है।
लेकिन 21st सेंचुरी में, global prosperity सुनिश्चित करने में महिलाओं की बहुत बड़ी भूमिका होने वाली है। इसलिए, अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान, भारत ने Women Led Development को एक बड़ा एजेंडा बनाया था।

साथियों,

भारत में हमने हर सेक्टर में, हर स्तर पर, लीडरशिप की भूमिका देने का एक बड़ा अभियान चलाया है। भारत में हर सेक्टर में आज महिलाएं आगे आ रही हैं। पूरी दुनिया में जितने पायलट्स हैं, उनमें से सिर्फ 5 परसेंट महिलाएं हैं। जबकि भारत में जितने पायलट्स हैं, उनमें से 15 परसेंट महिलाएं हैं। भारत में बड़ी संख्या में फाइटर पायलट्स महिलाएं हैं। दुनिया के विकसित देशों में भी साइंस, टेक्नॉलॉजी, इंजीनियरिंग, मैथ्स यानि STEM graduates में 30-35 परसेंट ही women हैं। भारत में ये संख्या फोर्टी परसेंट से भी ऊपर पहुंच चुकी है। आज भारत के बड़े-बड़े स्पेस मिशन की कमान महिला वैज्ञानिक संभाल रही हैं। आपको ये जानकर भी खुशी होगी कि भारत ने अपनी पार्लियामेंट में महिलाओं को रिजर्वेशन देने का भी कानून पास किया है। आज भारत में डेमोक्रेटिक गवर्नेंस के अलग-अलग लेवल्स पर महिलाओं का प्रतिनिधित्व है। हमारे यहां लोकल लेवल पर पंचायती राज है, लोकल बॉड़ीज़ हैं। हमारे पंचायती राज सिस्टम में 14 लाख से ज्यादा यानि One point four five मिलियन Elected Representatives, महिलाएं हैं। आप कल्पना कर सकते हैं, गयाना की कुल आबादी से भी करीब-करीब दोगुनी आबादी में हमारे यहां महिलाएं लोकल गवर्नेंट को री-प्रजेंट कर रही हैं।

साथियों,

गयाना Latin America के विशाल महाद्वीप का Gateway है। आप भारत और इस विशाल महाद्वीप के बीच अवसरों और संभावनाओं का एक ब्रिज बन सकते हैं। हम एक साथ मिलकर, भारत और Caricom की Partnership को और बेहतर बना सकते हैं। कल ही गयाना में India-Caricom Summit का आयोजन हुआ है। हमने अपनी साझेदारी के हर पहलू को और मजबूत करने का फैसला लिया है।

साथियों,

गयाना के विकास के लिए भी भारत हर संभव सहयोग दे रहा है। यहां के इंफ्रास्ट्रक्चर में निवेश हो, यहां की कैपेसिटी बिल्डिंग में निवेश हो भारत और गयाना मिलकर काम कर रहे हैं। भारत द्वारा दी गई ferry हो, एयरक्राफ्ट हों, ये आज गयाना के बहुत काम आ रहे हैं। रीन्युएबल एनर्जी के सेक्टर में, सोलर पावर के क्षेत्र में भी भारत बड़ी मदद कर रहा है। आपने t-20 क्रिकेट वर्ल्ड कप का शानदार आयोजन किया है। भारत को खुशी है कि स्टेडियम के निर्माण में हम भी सहयोग दे पाए।

साथियों,

डवलपमेंट से जुड़ी हमारी ये पार्टनरशिप अब नए दौर में प्रवेश कर रही है। भारत की Energy डिमांड तेज़ी से बढ़ रही हैं, और भारत अपने Sources को Diversify भी कर रहा है। इसमें गयाना को हम एक महत्वपूर्ण Energy Source के रूप में देख रहे हैं। हमारे Businesses, गयाना में और अधिक Invest करें, इसके लिए भी हम निरंतर प्रयास कर रहे हैं।

साथियों,

आप सभी ये भी जानते हैं, भारत के पास एक बहुत बड़ी Youth Capital है। भारत में Quality Education और Skill Development Ecosystem है। भारत को, गयाना के ज्यादा से ज्यादा Students को Host करने में खुशी होगी। मैं आज गयाना की संसद के माध्यम से,गयाना के युवाओं को, भारतीय इनोवेटर्स और वैज्ञानिकों के साथ मिलकर काम करने के लिए भी आमंत्रित करता हूँ। Collaborate Globally And Act Locally, हम अपने युवाओं को इसके लिए Inspire कर सकते हैं। हम Creative Collaboration के जरिए Global Challenges के Solutions ढूंढ सकते हैं।

साथियों,

गयाना के महान सपूत श्री छेदी जगन ने कहा था, हमें अतीत से सबक लेते हुए अपना वर्तमान सुधारना होगा और भविष्य की मजबूत नींव तैयार करनी होगी। हम दोनों देशों का साझा अतीत, हमारे सबक,हमारा वर्तमान, हमें जरूर उज्जवल भविष्य की तरफ ले जाएंगे। इन्हीं शब्दों के साथ मैं अपनी बात समाप्त करता हूं, मैं आप सभी को भारत आने के लिए भी निमंत्रित करूंगा, मुझे गयाना के ज्यादा से ज्यादा जनप्रतिनिधियों का भारत में स्वागत करते हुए खुशी होगी। मैं एक बार फिर गयाना की संसद का, आप सभी जनप्रतिनिधियों का, बहुत-बहुत आभार, बहुत बहुत धन्यवाद।