واہے گرو جی کا خالصہ،
واہے گرو جی کی فتح۔
ساتھیو، آج اس مقدس سرزمین پر آکر میں فخر محسوس کر رہا ہوں۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں آج ملک کو کرتار پور صاحب کوریڈور وقف کر رہا ہوں۔ جیسا احساس آپ سبھی کو کارسیوا کے وقت ہوتا ہے ابھی اس وقت مجھے بھی ویسا ہی محسوس ہو رہا ہے۔ میں آپ سبھی کو ، پورے ملک کو، دنیا بھر میں بسے سکھ بھائیوں اور بہنوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
آج شیرومنی گرودوارا پربندھک کمیٹی، انہوں نے مجھے ‘قومی سیوا پرسکار’ بھی دیا۔ یہ پرسکار، یہ اعزاز ، یہ شان ہمارے عظیم سنت روایت کے تیج ، تیاگ اور تپسیہ کا پرساد ہے ۔ میں اس پرسکار کو، اس اعزاز کو گرونانک دیو جی کے قدموں میں پیش کرتا ہوں۔
آج اس مقدس سرزمین سے گرونانک صاحب کے قدموں میں گرو گرنتھ صاحب کے سامنے میں انکسار کے ساتھ یہی پرارتھنا کرتا ہوں کہ میرے اندر کا خدمت کا جذبہ روز بہ روز بڑھتا رہے اور اُن کا آشیرواد مجھ پر ایسے ہی بنا رہے۔
ساتھیو، گرونانک دیو جی کے 550ویں پرکاش اتسو سے پہلے انٹی گریٹڈ چیک پوسٹ، کرتار پور صاحب کوریڈور اس کا آغاز ہونا ہم سبھی کے لیے دوہری خوشی لے کر کے آیا ہے۔ کارتک پورن ماسی پر اِس بار دیو دیوالی اور جگمگ کر کے ہمیں آشرواد دے گی۔
بھائیو اور بہنو، اس کوریڈور کے بننے کے بعد اب گرودوارا دربار صاحب کے درشن آسان ہو جائیں گے۔ میں پنجاب سرکار کا ، شرومنی گرودوارا پربندھک کمیٹی کا، اس کوریڈور کو معینہ مدت میں تیار کرنے والے ہر مزدور ساتھی کا بہت بہت شکرگزار ہوں۔
میں پاکستان کے وزیراعظم جناب عمران خان نیازی کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے کرتار پور کوریڈور کے بارے میں ہندوستان کے جذبات کو سمجھا ، احترام کیا اور اُسی جذبے کے مطابق کام کیا۔ میں پاکستان کے مزدور ساتھیوں کا بھی ممنون ہوں جنھوں نے اتنی تیزی سے اپنی طرف کے کوریڈور کو پورا کرنے میں مدد کی۔
ساتھیو، گرونانک دیو جی صرف سکھ پنتھ کی ہندوستان کی ہی وراثت نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیےمنبع تحریک ہیں۔ گرونانک دیو ایک گرو ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فلسفہ ہیں، زندگی کی بنیاد ہیں۔ ہمارے سنسکار ، ہماری تہذیب ، ہماری اقدار، ہماری پرورش ، ہماری سوچ ، ہمارے خیال ، ہمارے دلائل ، ہمارے بول، ہماری زبان یہ سب گرونانک دیو جی جیسی عظیم شخصیتوں کے ذریعے تیار کی گئی ہیں۔ جب گرونانک دیو یہاں سلطان پور لودھی سے سفر پر نکلے تھے تو کسے معلوم تھا کہ وہ عہد کو ہی تبدیل کرنے والے ہیں۔ اُن کی وہ اُداسیاں ، وہ یاترائیں، رابطے ، بات چیت اور تال میل سے ساماجک تبدیلی کی بہترین مثال ہے۔
اپنی یاتراؤں کا مقصد خود گرونانک دیو جی نے بتایا تھا –
بابے آنکھیا، ناتھ جی ، سچو چندرما کوڈو اندھارا
کوڈو اماوسی برتیا، ہؤں بھالن چڈھیا سنسارا
ساتھیو، وہ ہمارے ملک پر ، ہمارے سماج پر، نا انصافی، ادھرم اور مظالم کی جو اماوس جھائی ہوئی تھی تھی اس سے باہر نکالنے کے لیے نکل پڑے تھے۔ غلامی کے اس مشکل دور میں ہندوستان کی شعور کو بچانے کے لیے ، جگائے رکھنے کے لیے انہوں نے اپنی زندگی وقف کر دی۔
ساتھیو، ایک طرف گرونانک دیو جی نے سماجی فلسفے کے ذریعے سماج کو اتحاد، بھائی چارے اور میل جول کا راستہ دکھایا، وہیں دوسری طرف انہوں نے سماج کو ایک ایسےاقتصادی نظام کا تحفہ بھی دیا جو سچائی، ایمانداری اور خودداری پر ٹکا ہے۔ انہوں نے سکھایا کہ سچائی اور ایمانداری سے کی جانے والی ترقی سے ہمیشہ ترقی اور خوشحالی کے راستے کھلتے ہیں۔ انہوں نے سکھایا کہ دولت تو آتی جاتی رہے گی پر سچی اقدار ہمیشہ قائم رہتی ہیں۔ انہوں نے سکھایا ہے کہ اگر ہم اپنی اقدار پر قائم رہ کر کام کرتے ہیں تو خوشحالی مستقل ہوتی ہے۔
بھائیو اور بہنوں ، کرتار پور صرف گرونانک دیو جی کی کرم بھومی نہیں ہے ، کرتار پور کے ذرے ذرے میں گرونانک دیو جی کا پسینہ ملا ہوا ہے۔ اُس کی ہوا میں ان کی آواز گھلی ہوئی ہے۔ کرتار پور کی سرزمین پر ہی حل چلا کر انہوں نے اپنے پہلے اصول ‘‘کرت کرو’’ کی مثال پیش کی۔ اسی سرزمین پر انہوں نے ‘نام جپو’ کا طریقہ بتایا اور یہیں پر اپنی محنت سے پیدا کی گئی فصل کو مل بانٹ کر کھانے کی ‘ریت’ بھی شروع کی۔ ‘ونڈ چھکو’ کا منتر بھی دیا۔
ساتھیو، اس مقدس مقام کے لیے ہم جتنا بھی کچھ کر پائیں گے اتنا کم ہی رہے گا۔ یہ کاریڈور انٹی گریٹڈ چیک پوسٹ ہر دن ہزاروں عقیدت مندوں کی خدمت کرے گا، انہیں گرودوارا دربار صاحب کے قریب لے جائے گا۔ کہتے ہیں لفظ ہمیشہ توانائی بن کر ماحول میں موجود رہتے ہیں۔ کرتار پور سے ملی گرووانی کی توانائی صرف ہمارے سکھ بھائی بہنوں کو ہی نہیں بلکہ ہر ایک اہل وطن کو اپنا آشیرواد دیگی۔
ساتھیوں ، آپ سبھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ گرونانک دیو جی کے دو بہت ہی قریبی پیرو کار تھے، بھائی لالو اور بھائی مردانہ۔ اِن ہونہاروں کو چن کر نانک دیو جی نے ہمیں پیغام دیا کہ چھوٹے بڑے کا کوئی فرق نہیں ہوتا اور سب کے سب برابر ہوتے ہیں۔ انہوں نے سکھایا ہے کہ بغیر کسی تفریق کے جب ہم سب مل کر کام کرتے ہیں تو ترقی ہونا پکا ہو جاتا ہے۔
بھائیو اور بہنو ، گرونانک جی کا فلسفہ صرف نسل انسانی تک ہی محدود نہیں تھا، کرتار پور میں ہی انہوں نے قدرت کے خصوصیات کا گاین کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا –
پونو گرو، پانی پِتا، ماتا دھرتی مہتو۔
یعنی ہوا کو گرو سمجھو، پانی کو والد اور زمین کو ماں کے برابر اہمیت دو۔ آج جب قدرت کے استحصال کی باتیں ہوتی ہیں، ماحولیات کی باتیں ہوتی ہیں، آلودگی کی باتیں ہوتی ہیں تو گرو کی یہ وانی ہی ہمارے آگے کے راستے کی بنیاد بنتی ہیں۔
ساتھیو، آپ سوچیے، ہمارے گرو کتنے دوراندیش تھے کہ جس پنجاب میں پنچ – آب ، پانچ ندیاں بہتی تھیں، اُن میں بھرپور پانی رہتا تھا تب – یعنی پانی لبالب بھرا ہوا تھا، تب گرودیو نے کہا تھا اور پانی کو لے کر فکر ظاہر کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا –
پہلا ں پانی جیو ہے ، جت ہریا سب کوئے
یعنی پانی کو ہمیشہ اولیت دینی چاہیے ، کیونکہ پانی سے ہی ساری تخلیق کو زندگی ملتی ہے۔ سوچیے سینکڑوں سال قبل یہ نظر ، مستقبل پر یہ نظر۔ آج بھلے ہم پانی کو اولیت دینا بھول گئے، قدرت – ماحولیات کے تئیں لاپرواہ ہو گئے لیکن گرو کی وانی بار بار یہی کہہ رہی ہے کہ واپس لوٹو ۔ اُن سنسکاروں کو ہمیشہ یاد رکھو جو اس زمین نے ہمیں دیئے ہیں، جو ہمارے گروؤں نے ہمیں دیئے ہیں۔
ساتھیو ، گزشتہ پانچ برسوں سے ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ ہندوستان کو ہمارے خوشحال ماضی نے جو کچھ بھی سونپا ہے ، اُس کا تحفظ بھی کیا جائے اور پوری دنیا تک پہنچایا بھی جائے۔ گزشتہ ایک برس سے گرونانک دیو جی کے 550ویں پرکاش اتسو کی تقریب چل رہی ہے۔ وہ اسی خیال کا حصہ ہیں۔ اس کے تحت پوری دنیا میں ہندوستان کے ہائی کمیشن اور سفارتخانوں میں خصوصی پروگرام کیے جا رہے ہیں۔ سیمینار منعقد کیے جا رہے ہیں۔ گرونانک دیو جی اُن کی یاد میں یادگار سکّے اور ڈاک ٹکیٹ بھی جاری کیے گئے ہیں۔
ساتھیو ، گزشتہ ایک سال سے ملک اور بیرونی ممالک میں کیرتن، کتھا، پربھات پھیری، لنگڑ جیسے پروگراموں کے ذریعے سے گرونانک دیو کی تعلیمات کی تبلیغ کی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے گرونانک دیو جی کے 350 ویں پرکاش اتسو کو بھی اسی طرح شان کے ساتھ پوری دنیا میں منایا گیا تھا۔ پٹنہ میں ہوئے شاندار پروگرام میں تو مجھے خود جانے کا موقع ملا تھا ۔ اس خاص موقع پر 350 روپے کا یادگار سکہ اور ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیے گئے۔ گرو گووند سنگھ جی کی یاد اور ان کا پروگرام قائم رہے اس کے لیے گجرات کے جام نگر میں 750 بیڈ کا جدید اسپتال بھی انہیں کے نام سے بنایا گیا ہے۔
بھائیو اور بہنو، گرونانک جی کے بتائے گئے راستے سے دنیا کی نئی نسل بھی واقف ہو اس کے لیے گربانی کا ترجمہ دنیا کی علیحدہ علیحدہ زبانوںمیں کیا جا رہا ہے۔ میں یہاں یونیسکو کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جس نے مرکزی حکومت کی درخواست کو منظور کیا۔ یونیسکو کے ذریعے بھی گرونانک دیو جی کی تخلیقات کا الگ الگ زبانوں میں ترجمہ کرنے میں مدد کی جا رہی ہے۔
ساتھیو، گرونانک دیو اور خالصہ پنت سے منسلک ریسرچ کو فروغ ملے اس کے لیے برطانیہ کی ایک یونیورسٹی میں چیئر قائم کی گئی ہے۔ ایسی ہی کوشش کناڈا میں ہو رہی ہے۔ اسی طرح امرتسر میں انٹر-فیتھ یونیورسٹی قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ میل جول اور تنوع کے تئیں احترام کو بھی فروغ ملے۔
بھائیو اور بہنو، ہمارے گروؤں سے جڑے اہم مقامات میں قدم رکھتے ہی ان کی وراثت سے سامنا ہو ، نئی نسل سے ان کا جڑاؤ آسانی سے ہو، اس کے لیے بھی سنجیدہ کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہیں سلطان پور لودھی میں ان کوششوں کو آپ محسوس کر سکتے ہیں۔ سلطان پور لودھی کو وراثت شہر بنانے کا کام چل رہا ہے۔ ہیریٹیج کامپلیکس ہو ، میوزیم ہو، آڈیٹوریم ہو ایسے متعدد کام یہاں یا تو پورے ہو چکے ہیں یا پھر جلد ہی پورے ہونے والے ہیں۔ یہاں کے ریلوے اسٹیشن سے لےکر شہر کے دیگر علاقوں میں گرونانک دیو جی کی وراثت ہمیں دیکھنے کو ملے، یہ کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ گرونانک دیو جی سے جڑے تمام مقامات سے ہوکر گزرنے والی ایک خاص ٹرین بھی ہفتے میں پانچ دن چلائی جا رہی ہے، تاکہ عقیدتمندوں کو آنے جانے میں پریشانی نہ ہو۔
بھائیو اور بہنو، مرکزی حکومت نے ملک بھر میں واقع سکھوں کے اہم مقامات کے درمیان کنکٹیویٹی کو مضبوط کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ شری اکال تخت ، دمدما صاحب، کیش گڑھ صاحب، پٹنہ صاحب اور حضور صاحب کے درمیان ریل اور ہوائی کنکٹیویٹی پر زور دیا گیا ہے۔ امرتسر اور ناندیڑ کے درمیان خصوصی فلائٹ کی بھی خدمات شروع ہو چکی ہیں۔ ایسے ہی امرتسر سے لندن کے لیے جانے والی ایئر انڈیا کی فلائٹ میں ایک اونکار کے پیغام کو بھی درج کیا گیا ہے۔
ساتھیو، مرکزی حکومت نے ایک اور اہم فیصلہ کیا ہے جس کا فائدہ دنیا بھر میں بسے متعدد سکھ خاندانوں کو ہوا ہے۔ کئی برسوں سے کچھ لوگوں کو ہندوستان میں آنے پر جو دقت تھی اب ان دقتوں کو دور کر دیا گیا ہے۔ اس قدم سے اب بہت سے خاندان ویزا کے لیے، او سی آئی کارڈ کے لیے درخواست دے سکیں گے۔ وہ یہاں ہندوستان میں اپنے رشتے داروں سے آسانی سے مل سکیں گے اور یہاں گروؤں کے مقامات میں جا کر ارداس بھی کر پائیں گے۔
بھائیو اور بہنوں، مرکزی حکومت کے دو اور فیصلوں سے بھی سکھوں کو سیدھا فائدہ پہنچا ہے۔ آرٹیکل 370 کے ہٹنے سے اب جموں و کشمیر اور لداخ میں بھی سکھ خاندانوں کو بھی وہی اختیارات مل پائیں گے جو باقی ہندوستان میں انہیں ملتے ہیں۔ ابھی تک وہاں ہزاروں خاندان ایسے تھے جو بہت سے اختیارات سے محروم تھے۔ اسی طرح شہریت میں ترمیم کا بل ، اُس میں ترمیم کا بھی بہت بڑا فائدہ ہمارے سکھ بھائی بہنوں کو بھی ملے گا۔ انہیں ہندوستان کی شہریت ملنے میں آسانی ہوگی۔
ساتھیو، ہندوستان کا اتحاد ، ہندوستان کے تحفظ ، سلامتی کو لے کر ، گرونانک دیو جی سے لے کر گرو گووند سنگھ جی تک ہر گرو صاحب نے مسلسل کوششیں کی ہیں۔ متعدد قربانیاں دی ہیں۔ اسی روایت کو آزادی کی لڑائی اور آزاد ہندوستان کی حفاظت میں سکھ ساتھیوں نے پوری طاقت سے نبھایا ہے ملک کے لیے قربانی دینے والے ساتھیوں کے جذبے کا احترام کرنے کے لیے بھی متعدد مثبت اقدامات سرکار نے کیے ہیں۔ اسی سال جلیاں والا باغ قتل عام کے 100 سال پورے ہوئے ہیں۔ اس سے جڑی یادگار کو جدید بنایا جا رہا ہے۔ حکومت کے ذریعے سکھ نوجوانوں کے اسکول ، ہنرمندی اور خودروزگار پر بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں تقریباً 27 لاکھ سکھ طلبا کو علیحدہ علیحدہ وضائف دیئے گئے ہیں۔
بھائیو اور بہنو، ہمارے گرو کی روایت ، سنتوں کی روایت ، رشیوں کی روایت نے الگ الگ دور میں اپنے اپنے حساب سے چیلنجوں سے نمٹنے کے راستے بتائے ہیں۔ ان کے راستے جتنے اُس وقت بامعنی تھےاتنے ہی آج بھی اہم ہیں۔ قومی یکجہتی اور قومی شعور کے تئیں ہر سنت ، ہر گرو کا اصرار رہا ہے۔ توہم پرستی ، سماج کی برائیاں ہو، ذات پات کے بھید بھاؤ ہوں اس کے خلاف ہمارے سنتوں نے ، گروؤں نے مضبوطی سے آواز بلند کی ہے۔
ساتھیو ، گرونانک جی کہا کرتے تھے –
‘وچ دنیا سے وی کمایئے، تدرگیہ بیسن پایئے۔’
یعنی دنیا میں خدمت کا راستہ اختیار کرنے سے ہی نجات ملتی ہے، زندگی کامیاب ہوتی ہے، آیئے اس اہم اور مقدس مرحلے پر ہم عزم کریں کہ گرونانک جی کے وچنوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے، ہم سماج کے اندر میل ملاپ پید اکرنے کے لیے ہر کوشش کریں گے۔ ہم ہندوستان کا برا سوچنے والے طاقتوں سے ہوشیار رہیں گے۔ نشے جیسی سماج کو کھوکھلا کرنے والی عادتوں سے ہم دور رہیں گے ، اپنی آنے والی نسلوں کو دور رکھیں گے۔ ماحولیات کے ساتھ تال میل بٹھاتے ہوئے ترقی کی راہ کو ہموار کریں گے۔ گرو نانک جی کی یہی تحریک انسانیت کے مفاد کے لیے دنیا کے امن کے لیے آج بھی موزوں ہے۔
نانک نام چڑھ دی کلاں، تیرے بھانے سربت دا بھلا!!!
ساتھیو، ایک بار پھر آپ سبھی کو ، پورے ملک کو ، پوری دنیامیں پھیلے سکھ ساتھیو کو گرونانک دیو جی کے 550ویں پرکاش اتسو پر اور کرتار پور صاحب کاریڈور کی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ گرو گرنتھ صاحب کے سامنے کھڑے ہوکر کے اس مقدس کام کا حصہ بننے کا موقع ملا ، میں اپنے آپ کو ممنون مانتے ہوئے ، آپ سب کو سلام کرتے ہوئے –
ست نام شری واہے گرو!
ست نام شری واہے گرو!
ست نام شری واہے گرو!