نمسکار !
میں آپ سب کو، ملک کی تمام خواتین کو، خواتین کے عالمی دن کی بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس موقع پر ملک کی آپ خواتین سنتوں اور سادھویوں کے ذریعہ اس اختراعی پروگرام کا انعقاد کیا گیا ہے۔ میں آپ سب کو مبارکباد دیتا ہوں۔
ماؤں اور بہنوں،
کَچھ کی جس سرزمین پر آپ کی آمد ہوئی ، وہ صدیوں سے نسوانی طاقت اور صلاحیت کی علامت رہی ہے۔ یہاں ماں آشاپورا خود ماں کی شکتی کے روپ میں رہتی ہیں۔ یہاں کی خواتین نے پورے معاشرے کو سخت فطری چیلنجوں، ہر طرح کے مشکل حالات میں جینا سکھایا ہے، لڑنا سکھایا ہے اور جیتنا بھی سکھایا ہے۔ پانی کے تحفظ کے لیے کچھ کی خواتین نے جو کردار ادا کیے ، پانی کمیٹی بنا کر جو پروگرام، اسے بین الاقوامی ادارے نے بھی اعزاز سے نوازا ہے۔ کَچھ کی خواتین نے اپنی انتھک محنت سے کَچھ کی تہذیب و ثقافت کو زندہ رکھا ہے۔ کَچھ کے رنگ، خاص طور پر یہاں کی دستکاری اس کی بہترین مثال ہے۔ یہ فن اور یہ ہنر اب پوری دنیا میں اپنی ایک منفرد شناخت بنا رہے ہیں۔ آپ اس وقت ہندوستان کی مغربی سرحد کے آخری گاؤں میں ہیں، یعنی گجرات کی ، ہندوستان کی سرحدپر واقع آخری گاؤں ہے۔ اس کے بعد کوئی زندگی نہیں۔ پھر دوسرا ملک شروع ہوجاتا ہے۔ سرحدی گاؤں میں وہاں کے لوگوں پر ملک کی خاص ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ کَچھ کی بہادر خواتین نے ہمیشہ اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دیا ہے، اب آپ کل سے وہاں ہو،شاید ضرور آپ نے کسی نہ کسی سے سنا ہوگا، جب 1971 کی جنگ جاری تھی، 1971 کی جنگ میں دشمنوں نے بھج کے ایئرپورٹ پر حملہ کیا۔ فضائی پٹی پر بمباری کی اور ہماری جو فضائی پٹی تھی ، اسے تباہ کر دیا ۔ ایسے وقت میں، جنگ کے وقت ایک اور فضائی پٹی کی ضرورت تھی۔ آپ سب کو فخر ہو گا، تب اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر، کچھ کی خواتین نے راتوں رات فضائی پٹی بنانے کا کام کیا اور ہندوستانی فوج کی لڑائی کے لیے سہولیات فراہم کی تھیں۔ یہ تاریخ کا بہت اہم واقعہ ہے۔ اس میں سے بہت سی مائیں اوربہنیں آج بھی ہمارے ساتھ ہیں، اگر آپ معلومات حاصل کریں گے تو ان کی عمر بہت زیادہ ہو چکی ہے، لیکن پھر بھی مجھے ان سے کئی بار مل کر بات کرنے کا موقع ملاہے۔ پھر خواتین کی اتنی غیر معمولی ہمت اور طاقت کی اس سرزمین سے ہماری مادری طاقت آج معاشرے کے لیے خدمت کا آغاز کر رہی ہے۔
ماؤں بہنوں،
ہمارے ویدوں نے خواتین کو'پراندھی: یوشا' جیسے منتروں کے ساتھ آواز دی ہے۔ یعنی خواتین اپنے شہر، اپنے معاشرے کی ذمہ داری انجام دینے کے قابل ہوں، خواتین ملک کی قیادت کریں۔ ناری ، نیتی ، نشٹھا، نرنے شکتی اور نرنے (عورت، پالیسی، وفاداری، قوت فیصلہ اور قیادت) کی عکاس ہوتی ہے، اس کی نمائندگی کرتی ہے، اسی لیے ہمارے ویدوں نے، ہماری روایت نے یہ آواز دی ہے کہ خواتین اہل ہوں، قابل ہوں اور قوم کو سمت دیں۔ ہم لوگ ایک بات کبھی کبھی بولتے ہیں، ناری تو نارائنی۔ لیکن اور بھی ایک بات ہم نے سنی ہوگی ، بہت غور سے سننے جیسا ہے۔ ہمارے یہاں کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی مرد کارنامہ انجام دے تو نارائن بن جائے! یعنی مرد کو نارائن بننے کے لیے مرد کو کچھ کرنا پڑے گا۔ مرد کارنامہ انجام دے تو نارائن بن جائے! لیکن عورتوں کے لیے کیا کہا ہے، ناری تو نارائنی! اب دیکھیں کتنا بڑا فرق ہے۔ ہم بولتے رہتے ہیں، لیکن اگر ہم تھوڑا سوچیں تو ہمارے اسلاف نے کتنی گہرائی سے ہمیں مرد کے لیے کہا، مرد کارنامہ انجام دے تو نارائن ہوجائے ! لیکن ماؤں بہنوں کے لیے کہا، ناری تو نارائنی!
ماؤں بہنوں،
ہندوستان دنیا کی ایک ایسی فکری روایت کا علمبردار ہے، جس کا وجود اس کے فلسفے پرمرکوز ہے۔ اور اس فلسفے کی بنیاد اس کا روحانی شعور رہا ہے۔ اور یہ روحانی شعور اس کی نسوانی طاقت پر مرکوز رہا ہے۔ ہم نے خوشی سے ایک عورت کی شکل میں خدائی اقتدار قائم کی ہے۔ جب ہم خدائی طاقت اور خدا کی مخلوقات کو مرد اور عورت دونوں صورتوں میں دیکھتے ہیں تو فطرت کے اعتبار سے ہی ہم پہلی ترجیح نسوانی طاقت کو دیتے ہیں۔خواہ وہ سیتا رام ہوں، رادھا کرشن ہوں، گوری گنیش ہو ں یا لکشمی نارائن ہوں! ہماری اس روایت سے آپ لوگوں سے زیادہ کون واقف ہوگا؟ ہمارے ویدوں میں گھوشا، گودھا، اپالا اور لوپ مدرا بہت سے ودنام ہیں، جو ویسے ہی رشیکائیں رہی ہیں ہمارے یہاں۔ گارگی اور میتری جیسی فلسفیوں نے ویدانت کی تحقیق کی سمت دی ہے۔ شمال میں میرابائی سے لے کر جنوب میں سنت اکا مہادیوی تک، ہندوستان کی دیویوں نے بھکتی تحریک سے لے کر گیان کے فلسفے تک سماج میں اصلاح اور تبدیلی کے لیے آواز دی ہے۔ گجرات اور کَچھ کی اس سرزمین پر بھی ستی تورل، گنگا ستی، ستی لوین، رام بائی اور لیر بائی جیسی کئی دیویوں کے نام ، آپ سوراشٹر میں جائیں ، گھر گھر گھومتے ہیں، اسی طرح آپ ہر ریاست میں ہر علاقے میں دیکھئے ، اس ملک میں شایدہی ایسا کوئی گاؤں ہو ، شاید ہی ایسا کوئی علاقہ ہو جہاں کوئی نہ کوئی گرام دیوی، کل دیوی وہاں کے عقیدے کا مرکز نہ ہو۔ یہ دیویاں اس ملک کی اس عورت کے شعور کی علامت ہیں جس نے زمانہ قدیم سے ہمارے معاشرے کی تخلیق کی ہے۔ عورت کے اسی شعور نے تحریک آزادی میں بھی آزادی کے شعلے کو جلائے رکھا۔اور ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ 1857 کی جدوجہد آزادی اور جب ہم آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں، ہندوستان کی تحریک آزادی کی ریڑھ کی ہڈی اس کو تیار کرنے میں بھکتی تحریک کا بڑا کردار تھا۔ ہندوستان کے ہر کونے میں کوئی نہ کوئی رشی منی ، سنت، آچاریہ پیدا ہوئے جنہوں نے ہندوستان کے شعور کوروشن کرنے کا شاندار کام کیاتھا۔ اور اسی شعور کی روشنی سے ملک نے تحریک آزادی میں کامیابی حاصل کی۔ آج ہم ایک ایسے مقام پر ہیں کہ آزادی کو 75 سال ہو گئے ہیں، ہمارا روحانی سفر جاری رہے گا۔ لیکن سماجی شعور، سماجی قابلیت، سماجی ترقی، معاشرے میں تبدیلی، اس کا وقت ہر شہری کی ذمہ داری سے وابستہ ہو چکا ہے۔ اور پھر جب اتنی بڑی تعداد میں سنتوں کی روایت کی تمام مائیں بہنیں بیٹھی ہیں تومیں سمجھتا ہوں کہ مجھے بھی آپ سے وہ بات کرنی چاہیے۔اور آج میری خوش قسمتی ہے کہ میں خواتین کے شعور کے ایسے ہی بیدار گروپ سے بات کر رہاہوں۔
ماؤں بہنوں،
جو قوم اس دھرتی کو ماں مانتی ہے وہاں کی خواتین کی ترقی ہمیشہ اس قوم کو بااختیار بنانے میں معاون ہوتی ہے۔ آج ملک کی ترجیح خواتین کی زندگی کو بہتر بنانے پر ہے، آج ملک کی ترجیح ہندوستان کی ترقی کے سفر میں خواتین کی بھرپور شرکت میں ہے اور اسی وجہ سے ہم اپنی ماؤں بہنوں کی مشکلات کو کم کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ ہمارے یہاں تو یہ حالت تھی کہ کروڑوں ماؤں بہنوں کو کھلے میں رفع حاجت کے لیے گھر سے باہر جانا پڑتا تھا۔ گھر میں بیت الخلاء نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کتنی تکلیفیں اٹھانی پڑتی تھیں،اسے مجھے الفاظ میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ ہماری حکومت ہے جس نے خواتین کے اس درد کو سمجھا۔ 15 اگست کو لال قلعہ سے میں نے یہ بات ملک کے سامنے رکھی اور ہم نے سوچھ بھارت مشن کے تحت ملک بھر میں 11 کروڑ سے زیادہ بیت الخلاء بنائے، اب بہت سے لوگ سوچیں گے کہ کیا یہ کوئی کام ہے؟ لیکن اگر نہیں ہے تو اس سے پہلے کوئی ایسا کام نہیں کر سکا تھا، آپ سب نے دیکھا ہو گا کہ گاؤں میں ماؤں بہنوں کو چولہے پر لکڑی اور گوبر سے کھانا پکانا پڑتا تھا۔ دھوئیں کی تکلیف عورتوں کا مقدر سمجھ لیا گیا تھا۔ اس تکلیف سے نجات دلانے کے لیے ہی ملک نے انہیں 9 کروڑ سے زیادہ اجولا گیس دی،انہیں دھوئیں سے آزادی دلائی۔ پہلے خواتین خصوصاً غریب خواتین کے پاس بینک اکاؤنٹ بھی نہیں ہوتے تھے۔ اس کی وجہ سے ان کی معاشی طاقت کمزور رہتی تھی۔ ہماری حکومت نے جن دھن اکاؤنٹس کے ذریعہ 23 کروڑ خواتین کو بینک سے جوڑا ہے، ورنہ ہمیں پہلے معلوم تھا کہ کچن میں ، رسوئی میں گیہوں کا ڈبہ ہے تو خواتین اس میں پیسے رکھتی تھیں۔ چاول کا ڈبہ ہے تو نیچے دبا کر رکھتی تھی۔ آج ہم نے یہ انتظام کیا ہے کہ ہماری مائیں اور بہنیں بینک میں رقم جمع کریں، آج گاؤں گاؤںمیں خواتین سیلف ہیلپ گروپ بنا کر چھوٹی صنعتوں کے ذریعہ دیہی معیشت کو تقویت دے رہی ہیں۔ خواتین میں صلاحیتوں کی کبھی کوئی کمی نہیں رہی ہے۔ لیکن اب وہی ہنر ان کا اور ان کے خاندان کی طاقت بڑھا رہا ہے۔ ہماری بہنیں اور بیٹیاں آگے بڑھ سکیں، ہماری بیٹیاں اپنے خواب پورے کر سکیں، اپنی خواہش کے مطابق کچھ کام کر سکیں، اس کے لیے حکومت کئی طریقوں سے ان کی مالی مدد کر رہی ہے۔ آج 'اسٹینڈ اپ انڈیا' کے تحت 80 فیصد قرض ہماری ماؤں اور بہنوں کے نام پرہیں۔ مدرا اسکیم کے تحت تقریباً 70 فیصد قرض ہماری بہنوں اور بیٹیوں کو دیا گیا ہے اور یہ ہزاروں کروڑروپے کا معاملہ ہے۔ ایک اور خاص کام ہوا ہے جس کاذکر میں آپ کے سامنے ذکر کرنا چاہتا ہوں ۔ ہماری حکومت نے پی ایم آواس یوجنا کے تحت 2 کروڑ سے زیادہ مکانات دیے ہیں، کیونکہ ہمارا خواب ہے کہ ہندوستان میں ہر غریب کے پاس اپنا پکا مکان ہو۔ پکی چھت والا گھر ہو اور گھر بھی چاردیواری والانہیں، گھر ایسا جس میں بیت الخلاء ہو، گھر ایسا جس میں نل سے پانی آتا ہو، گھر ایسا جس میں بجلی کا کنکشن ہو، گھر ایسا جس میں انہیں بنیادی سہولیات میسر ہوں، گیس کنکشن سمیت، ان تمام سہولیات کے ساتھ گھر ملے، ہمارے آنے کے بعد دو کروڑ غریب خاندانوں کے لیے دو کروڑ گھر بنیں۔ یہ اعداد و شمار بہت بڑا ہے۔ اب دو کروڑ گھروں کی قیمت کیا ہوتی ہے، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کتنی ہوتی ہے، ڈیڑھ لاکھ، دو لاکھ ، ڈھائی لاکھ، تین لاکھ، چھوٹا سا گھر ہوگا تو اس کا مطلب دو کروڑ خواتین کے نام جو گھر بنے ہیں مطلب دو کروڑ غریب خواتین لاکھ پتی بنی ہیں۔ جب ہم لکھ پتی سنتے ہیں تو کتنا بڑا لگتا تھا۔ لیکن جب ایک بار غریبوں سے ہمدردی ہو ، کام کرنے کا ارادہ ہو تو پھر کام کیسے ہوتا ہے اور آج ان دو کروڑ میں سے ہماری بہت سی ہماری ماؤں بہنوں کو یہ مالکانہ حق ملا ہے۔ ایک وقت تھا جب عورتوں کے نام نہ زمین ہوتی تھی، نہ دکان ہوتا تھا اور نہ ہی گھر ، کہیں بھی پوچھ لیں کہ زمین کس کے نام ہے، یا تو شوہر کے نام پر یا بیٹے کے نام پر یا بھائی کے نام پر۔ دکان کس کے نام پر ، شوہر، بیٹا یا بھائی۔ گاڑی لائیں، سکوٹر لائیں، تو کس کے نام پر ، شوہر، بیٹا یا بھائی۔ عورت کے نام پر نہ کوئی گھر ہوتا ہے نہ گاڑی ہوتی ہے، کچھ نہیں ہوتاہے۔ پہلی بار ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہماری ماؤں اور بہنوں کے نام بھی جائیداد ہوں گی اور اسی لیے ہم نے اتنے اہم فیصلے لیے ہیں۔ اور جب ان کے پاس یہ طاقت ہوتی ہے تو ان کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے، تو گھر میں جب معاشی فیصلے لینے کی بات آتی ہے تو مائیں بہنیں اس میں شراکت دار بنتی ہیں، ان کی شراکت بڑھ جاتی ہے، ورنہ پہلے کیا ہوتاتھا، گھر میں بیٹا اور باپ، کچھ کاروبار اور تجارت کی بات کرتے ہیں اور کچن سےماں نکل کر تھوڑی دیر منڈی رکھتی ہے، تو وہ فوراً کہہ دیتے تھے ، جاؤ، جاؤ، تم کچن میں کام کرو، ہم بیٹے سے بات کر رہے ہیں۔ یعنی اس معاشرے کا حال ہم نے دیکھا ہے۔ آج مائیں بہنیں بااختیار ہو کر کہتی ہیں کہ نہیں، تم یہ غلط کر رہے ہو، یہ کرو۔ ایسا کرنے سے نقصان ہوگا، ایسا کرنے سے یہ فائدہ ہوگا۔ آج ان کی شرکت بڑھ رہی ہے، مائیں بہنیں، بیٹیاں پہلے اسی قابل تھیں، لیکن اس سے پہلے ان کے خوابوں کے سامنے پرانی سوچ اور بدنظمی کا بندھن تھا۔ بیٹیاں کچھ کام کرتی تھیں، نوکری کرتی تھیں تو کئی بار انہیں زچگی کے وقت نوکری چھوڑنی پڑتی تھی۔ اب اس وقت اس کو جب سب سے زیادہ ضرورت ہو، پیسے کی بھی ضرورت ہو، دیگر مدد کی جو اسی وقت نوکری چھوڑنی پڑے ، تو اس کے پیٹ میں جو بچہ ہے ، اس پر اثر پڑتا ہے۔بہت سی لڑکیوں کو خواتین جرم کے ڈر سے کام چھوڑنا پڑتا تھا۔ اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لئے ہم نے بہت سے اقدامات کیے ہیں۔ ہم نے زچگی کی چھٹی کو 12 ہفتوں سے بڑھا کر 26 ہفتے کر دیا ہے یعنی ایک طرح سے 52 ہفتوں کا وہ سال ہوتا ہے، 26 ہفتے کی چھٹی دیتے ہیں، ہم نے کام کی جگہ پر خواتین کی حفاظت کے لیے سخت قوانین بنائے ہیں۔ ہماری حکومت نے عصمت دری کے معاملے میں بہت اچھا کام کیا ہے اور ہمارے ملک میں اس نے عصمت دری جیسے گھناؤنے جرم کے لیے سزائے موت کا بھی انتظام کیا ہے۔ اسی طرح بیٹے اور بیٹی کو برابر سمجھتے ہوئے حکومت بیٹیوں کی شادی کی عمر 21 سال کرنے پر بھی غور کر رہی ہے، پارلیمنٹ کے سامنے ایک تجویز ہے۔ آج ملک فوج میں بیٹیوں کے بڑے رول کو فروغ دے رہا ہے، سینک اسکولوں میں بیٹیوں کے داخلے شروع ہو ئے ہیں۔
ماؤں اور بہنوں،
خواتین طاقت کو بااختیار بنانے کے اس سفر کو تیز رفتاری سے آگے بڑھانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ آپ سب کو مجھ سے اتنا پیار رہا ہے، آپ کے اتنے آشیرواد رہے ہیں، میں آپ کے درمیان ہی پلا بڑھا ہوں، میں آپ کے درمیان سے نکل کر آیا ہوں اور اسی لیے آج دل کرتا ہے کہ میں آپ سے کچھ درخواست کروں۔ کچھ باتوں کے لیے میں آپ کو کہوں گا ، آپ بھی میری کچھ مدد کیجئے ۔ اب کیا کام کرنا ہے؟ میں آپ کو کچھ کام بتانا چاہتا ہوں، ہمارے جو بھی وزیر وہاں آئے ہیں، ہمارے کچھ کارکنان بھی آئے ہیں، انہوں نے بھی شاید بتایا ہو گا یا شاید آگے بتانے والے ہوں گے۔ اب دیکھئے یہ غذائی قلت ، ہم کہیں بھی ہوں، ہم گرہست ہوں، یا سنیاسی ہوں، لیکن ہندوستان کا بچہ یا بچی غذائی قلت کا شکار ہے، کیا اس سے ہمیں کوئی تکلیف ہوتی ہے؟ درد ہونا چاہیے یا نہیں؟ کیا ہم اسے سائنسی طریقے سے حل کر سکتے ہیں یا نہیں؟کیا ذمہ داری نہیں لے سکتے ہیں اور اس لیے میں کہوں گا کہ ملک میں غذائی قلت کے خلاف جو مہم چل رہی ہے اس میں آپ بہت مدد کر سکتے ہیں۔ اسی طرح بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ مہم میں بھی آپ کا بڑا رول ہے۔ بیٹیاں نہ صرف زیادہ سے زیادہ تعداد میں اسکول جائیں بلکہ اپنی پڑھائی بھی مکمل کریں، اس کے لیے آپ کو ان سے مسلسل بات کرنی چاہیے۔ آپ کو بھی بچیوں کو بلا کر ان سے بات کرنی چاہیے۔ اپنے مٹھ میں میں، مندر میں، جہاں کہیں بھی ہو ، ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اب حکومت ایک مہم شروع کرنے جا رہی ہے جس میں بیٹیوں کے اسکول میں داخلے کا جشن منایا جائے گا۔ اس میں بھی آپ کی فعال شرکت سے بہت مدد ملے گی۔ ایسا ہی ایک موضوع ووکل فار لوکل کا ہے، آپ نے میری زبان سے بار بار سنا ہوگا، آپ مجھے بتائیں کہ مہاتما گاندھی ہمیں بتا کر گئے تھے، لیکن ہم سب بھول گئے۔ آج جو حالت ہم نے دنیا میں دیکھی ہے، دنیا میں وہی ملک چل سکتا ہے، جو اپنے پاؤں پر کھڑا ہو۔ جو باہر سے چیزیں لا کر گزارہ کرتا ہے وہ کچھ نہیں کر سکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ووکل فار لوکل ہماری معیشت سے متعلق ایک بہت اہم موضوع بن گیا ہے، لیکن اس کا خواتین کو بااختیار بنانے سے بھی بہت گہرا تعلق ہے۔ زیادہ تر مقامی مصنوعات کی طاقت خواتین کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ لہذا، اپنے رشتہ داروں ،یں اپنی بیداری مہم میں ، آپ لوگوں کو مقامی مصنوعات استعمال کرنے کی ضرور ترغیب دیں ۔لوگ اپنے گھر میں ، آپ کے جو بھکت ہیں، ان کو کہیں کہ بھائی تمہارے گھر میں غیر ملکی سامان کتنا ہے اور ہندوستان کی چیزیں کتنی ہیں، ذرا حساب لگائیں۔ چھوٹی چھوٹی جو غیر ملکی چیزیں ہمارے گھروں میں داخل ہو گئی ہیں ۔ میں نے چھتری دیکھی، کہا کہ چھتری تو غیر ملکی ہے۔ ارے بھئی ہمارے ملک میں صدیوں سے چھتری بن رہی ہے اور غیرملکی چھتری لانے کی کیا ضرورت ہے۔ہو سکتا ہے دو چار روپے زیادہ لگے گا، لیکن ہمارے کتنے لوگوں کو روزی روٹی ملے گی۔ اور اسی لیے میرا ماننا ہے کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو ہمیں باہر سے لانے کا شوق ہو گیا ہے۔ آپ لوگوں کو اس قسم کی زندگی کی طرف راغب کرسکتے ہیں ، آپ لوگوں کو سمت دے سکتے ہیں۔ اور اس کی وجہ سے ہندوستان کی مٹی سے بنی چیزیں، ہندوستان کی مٹی سے بنی چیزیں، ہندوستان کے لوگوں کا جس میں پسینہ ہو ، ایسی چیزیں اور جب میں ووکل فار لوکل کہتا ہوں تو لوگوں کو لگتا ہےدیوالی کے دیے ، دیوالی دیے نہیں بھائی ، ہر چیز کی طرف دیکھئے ، صرف دیوالی کے دیے پر مت جائیے۔ ایسے ہی آپ جب ہمارے بنکر بھائیوں اور بہنوں ، دستکاروں ملیں تو انہیں حکومت کا ایک جیم پورٹل ہے ، اس کے بارے میں بتائیں۔ دیاس نہیں سوچتے ہیں، بھائی ہر چیز کو دیکھو۔ صرف دیوالی کے چراغوں پر ہی نہ جائیں، اسی طرح، جب آپ ہمارے بنکروں، بھائیوں اور بہنوں، ہاتھ کے کاریگروں سے ملیں، تو انہیں GeM پورٹل کے بارے میں بتائیں۔ حکومت ہند نے اسے ایک ایسا پورٹل بنایا ہے، جس کی مدد سے دور دراز کے کسی بھی علاقے میں رہنے والا کوئی بھی اپنی بنائی ہوئی چیز حکومت کو بیچ سکتا ہے۔ایک بہت بڑا کام ہو رہا ہے۔میری ایک گزارش ہے کہ جب بھی آپ معاشرے کے مختلف طبقوں سے ملیں، ان سے بات کریں، شہریوں کے فرائض پر زور دینے والی بات کرنی چاہیے۔ ہمیں شہری مذہب کی روح کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔ اور آپ لوگ پدر دھرم، مادر دھرم، یہ سب کچھ بتاتے ہی ہیں۔ ملک کے لیے شہری مذہب بھی اتنا ہی اہم ہے۔ ہمیں مل کر آئین میں درج اس جذبے کو مضبوط کرنا ہے۔ اسی جذبے کو مضبوط بنا کر ہم نئے ہندوستان کی تعمیر کا ہدف حاصل کر سکیں گے۔ مجھے پورایقین ہے کہ ملک کو روحانی اور سماجی قیادت دیتے ہوئے آپ قوم کی تعمیر کے اس سفر میں ہر فرد کو جوڑیں گے، آپ کے آشیرواد اور رہنمائی سے ہم جلد ہی ایک نئے ہندوستان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں کامیاب ہوں گے اور پھر آپ لوگوں نے دیکھا ہے ہندوستان کا آخری گاؤں کا نظارہ آپ کو کتنا لطف دیتا ہوگا ؟ شاید آپ میں سے کچھ لوگ سفید رن دیکھنے گئے ہوں گے۔ کچھ لوگ شاید آج جا رہے ہوں گے۔ اس کی اپنی ایک خوبصورتی ہے۔ اور آپ اس میں ایک روحانی احساس بھی رکھ سکتے ہیں۔ تھوڑے فاصلے پر جانے کے بعد چند لمحے اکیلے بیٹھیں گے۔ آپ ایک نئے شعور کا تجربہ کریں گے کیونکہ ایک زمانے میں میرے لیے کسی زمانے میں اس جگہ کا بہت زیادہ استعمال ہوتاتھا۔ تو میں اس مٹی سے ایک طویل مدت تک جڑا ہوا انسان ہوں۔ اور جب آپ وہاں پہنچے تو آپ یہ ضرور دیکھیں کہ اس کا اپنا ایک خاص تجربہ ہوتا ہے، اس تجربہ کو آپ حاصل کریں۔ میں آپ سب کواپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ ہمارے کچھ ساتھی ہیں، ان سے بہت گہرائی سے بات کریں۔ آپ معاشرے کے لیے بھی آگے آئیں۔ سنت روایت نے تحریک آزادی میں بڑا کردار ادا کیاتھا۔ آزادی کے 75 سال بعد، سنت روایت ملک کو آگے لے جانے میں آگے آئی، سماجی ذمہ داری کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر پورا کریں۔ یہی میری آپ سے امید ہے۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ!