نمسکار،
سری اروبندو کے 150ویں یوم پیدائش کے موقع پر منعقدہ اس اہم پروگرام پر میں آپ سب کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس پر مسرت موقع پر میں تمام ہم وطنوں کو بھی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ سری اروبندو کی 150ویں یوم پیدائش پورے ملک کے لیے ایک تاریخی موقع ہے۔ ملک نے اس سال کو منانے کا تہیہ کیا تھا خاص طور پر ان کے خیالات اور نظریات کو ہماری نئی نسل تک پہنچانے کے لیے۔ اس کے لیے ایک خصوصی اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ وزارت ثقافت کی قیادت میں بہت سے مختلف پروگرام بھی منعقد کیے جا رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں، پڈوچیری کی سرزمین پر، جو مہارشی کی اپنی تپسیا بھی رہی ہے، آج ملک انھیں ایک اور شاندار خراج عقیدت پیش کر رہا ہے۔ آج سری اروبندو پر ایک یادگاری سکہ اور ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سری اروبندو کی زندگی اور تعلیمات سے تحریک لے کر قوم کی یہ کوششیں ہماری قراردادوں کو نئی توانائی اور طاقت دیں گی۔
ساتھیوں،
تاریخ میں کئی بار ایک ہی عرصے میں کئی حیرت انگیز واقعات ایک ساتھ وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ لیکن، انھیں عام طور پر محض ایک اتفاق سمجھا جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جب ایسے اتفاقات ہوتے ہیں تو ان کے پیچھے کچھ یوگک طاقت کام کرتی ہے۔ یوگا شکتی کا مطلب ہے ایک اجتماعی طاقت، ایک ایسی طاقت جو سب کو متحد کرتی ہے! آپ نے دیکھا کہ ہندوستان کی تاریخ میں ایسے بہت سے عظیم آدمی گزرے ہیں جنھوں نے آزادی کے جذبے کو تقویت بخشی اور روح کو زندہ کیا۔ ان میں سے تین، سری اروبندو، سوامی وویکانند اور مہاتما گاندھی، وہ عظیم آدمی ہیں جن کی زندگیوں میں سب سے اہم واقعات ایک ہی وقت میں رونما ہوئے۔ ان واقعات نے ان عظیم انسانوں کی زندگیاں بدل دیں اور قوم کی زندگی میں بھی بڑی تبدیلیاں لائیں ۔ سری اروبندو 14 سال بعد 1893 میں انگلینڈ سے ہندوستان واپس آئے۔ اسی سال 1893 میں سوامی وویکانند عالمی مذاہب کی پارلیمنٹ میں اپنی مشہور تقریر کے لیے امریکہ گئے تھے۔ اور، اسی سال، گاندھی جی جنوبی افریقہ گئے جہاں سے ان کا مہاتما گاندھی بننے کا سفر شروع ہوا، اور بعد میں اس ملک کو آزادی کا مجاہد ملا۔
بھائیو بہنوں،
آج ایک بار پھر ہمارا ہندوستان بیک وقت ایسے کئی اتفاقات کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ آج جب ملک نے اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کر لیے ہیں، امرت کال کی طرف ہمارا سفر شروع ہو رہا ہے، اسی وقت ہم سری اروبندو کی 150ویں یوم پیدائش منا رہے ہیں۔ اس عرصے میں، ہم نے نیتا جی سبھاش چندر بوس کی 125ویں یوم پیدائش جیسے مواقع کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔
ساتھیوں،
سری اروبندو کی زندگی ایک بھارت شریشٹھ بھارت کی عکاس ہے۔ وہ بنگال میں پیدا ہوئے تھے لیکن بنگالی، گجراتی، مراٹھی، ہندی اور سنسکرت سمیت کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ اگرچہ وہ بنگال میں پیدا ہوئے تھے، لیکن انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گجرات اور پڈوچیری میں گزارا۔ وہ جہاں بھی گئے انھوں نے اپنی شخصیت کے گہرے نقوش چھوڑے۔ آج آپ ملک کے کسی بھی حصے میں جائیں، مہا رشی اروبندو کے آشرم، ان کے پیروکار، ان کے مداح ہر جگہ ملیں گے۔ انھوں نے ہمیں دکھایا کہ جب ہم اپنی ثقافت کو جان لیتے ہیں اور جیتے ہیں تو ہمارا تنوع ہماری زندگی کا ایک بے ساختہ جشن بن جاتا ہے۔
ساتھیوں،
یہ آزادی کی لافانیت کے لیے ایک عظیم محرک ہے۔ ایک بھارت شریشٹھ بھارت کے لیے اس سے بہتر حوصلہ افزائی کیا ہو سکتی ہے؟ کچھ دن پہلے میں کاشی گیا تھا۔ وہاں کاشی تامل سنگم پروگرام کا حصہ بننے کا موقع ملا۔ یہ ایک شاندار واقعہ ہے۔ ہمیں اس تہوار میں یہ دیکھنے کو ملا کہ ہندوستان اپنی روایت اور ثقافت کے ذریعے کس طرح اٹوٹ، ثابت قدم ہے۔ آج کا نوجوان کیا سوچتا ہے، یہ کاشی تامل سنگم میں دیکھا گیا۔ آج پورے ملک کے نوجوان ایک بھارت، شریشٹھ بھارت کی قومی پالیسی سے متاثر ہو کر زبان اور لباس کی بنیاد پر تفریق کرنے والی سیاست کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔ آج جب ہم سری اروبندو کو یاد کر رہے ہیں، آزادی کا امرت کا تہوار منا رہے ہیں، تو ہمیں کاشی تامل سنگم کے جذبے کو آگے بڑھانا ہوگا۔
ساتھیوں،
اگر ہم مہا رشی اروبندو کی زندگی کو قریب سے دیکھیں تو ہمیں ہندوستان کی روح اور ہندوستان کی ترقی کے سفر کا بنیادی فلسفہ ملتا ہے۔ اروبندو ایک ایسی شخصیت تھے جن کی زندگی میں جدید تحقیق بھی تھی، سیاسی مزاحمت بھی تھی اور برہما بودھ بھی۔ انھوں نے انگلستان کے بہترین اداروں میں تعلیم پائی۔ انھیں اس دور کا جدید ترین ماحول ملا، عالمی شہرت ملی۔ انھوں نے خود جدیدیت کو مساوی کھلے ذہن کے ساتھ قبول کیا۔ لیکن، جب وہی اروبندو ملک واپس آتے ہیں، تو وہ برطانوی راج کے خلاف مزاحمت کا ہیرو بن جاتے ہیں۔ انھوں نے ملک کی آزادی کے لیے جدوجہد آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ ان پہلے آزادی پسندوں میں سے ایک تھے جنہوں نے کھل کر مکمل سوراج کی بات کی، کانگریس کی انگریز نواز پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ”اگر ہم اپنی قوم کی تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے روتے ہوئے بچے کی طرح التجا کرنا چھوڑنا ہوگا“۔
بنگال کی تقسیم کے وقت، اروبندو نے نوجوانوں کو بھرتی کیا، اور نعرہ دیا - کوئی سمجھوتہ نہیں! کوئی سمجھوتہ نہیں! انھوں نے ’بھوانی مندر‘ کے نام سے پمفلٹ چھاپے، مایوسی میں گھرے لوگوں کو ملک کی ثقافت کا نظارہ کرایا۔ ایسی نظریاتی وضاحت، ایسی ثقافتی پختگی اور ایسی حب الوطنی! یہی وجہ ہے کہ اس دور کے عظیم آزادی پسند جنگجو سری اروبندو کو اپنا سر چشمہ تصور کرتے تھے۔ نیتا جی سبھاش جیسے انقلابی انھیں اپنی قراردادوں کا محرک سمجھتے تھے۔ دوسری طرف جب آپ ان کی زندگی کی فکری اور روحانی گہرائی میں جھانکیں گے تو وہ آپ کو اتنے ہی سنجیدہ اور سنت نظر آئیں گے۔ وہ روح اور خدا جیسے گہرے موضوعات پر گفتگو کرتے تھے، برہما تتوا اور اپنشدوں کی وضاحت کرتے تھے۔ انھوں نے جیو اور ایش کے فلسفے میں سماجی خدمت کا فارمولا شامل کیا۔ آپ سری اروبندو کے الفاظ سے آسانی سے سیکھ سکتے ہیں کہ نار سے نارائن تک کیسے سفر کیا جائے۔ یہ ہندوستان کا پورا کردار ہے، جس میں دھرم یعنی فرض کے لیے شاندار لگن ہے، اور نجات ہے، یعنی روحانیت کا برہمن ادراک۔ اسی لیے، آج امرت کال میں، جب ملک ایک بار پھر اپنی تعمیر نو کے لیے آگے بڑھ رہا ہے، یہ تکمیل ہمارے ’پنچ پران‘ میں جھلکتی ہے۔ آج ہم ترقی یافتہ ہندوستان بنانے کے لیے تمام جدید نظریات، بہترین طریقوں کو قبول کر رہے اور اپنا رہے ہیں۔ ہم ’انڈیا فرسٹ‘ کے منتر کو سامنے رکھتے ہوئے بغیر کسی سمجھوتے کے کام کر رہے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ آج ہم فخر کے ساتھ اپنے ورثے اور اپنی شناخت کو دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔
بھائیو بہنوں،
مہا رشی اروبندو کی زندگی ہمیں ہندوستان کی ایک اور طاقت کا احساس دلاتی ہے۔ ملک کی یہ طاقت، ’یہ روح آزادی‘ اور غلامی کی ذہنیت سے آزادی! مہا رشی اروبندو کے والد، ابتدائی طور پر انگریزی کے زیر اثر انھیں ہندوستان اور ہندوستانی ثقافت سے مکمل طور پر دور رکھنا چاہتے تھے۔ وہ انگریزی ماحول میں ہندوستان سے ہزاروں میل دور ملک سے بالکل کٹ کر رہ گئے۔ لیکن، جب وہ ہندوستان واپس آئے، جب وہ جیل میں گیتا سے رابطہ میں آئے، تو یہی اروبندو تھے جو ہندوستانی ثقافت کی سب سے بلند آواز بن کر ابھرے۔ انھوں نے صحیفوں کا مطالعہ کیا۔ رامائن، مہا بھارت اور اپنشدوں سے لے کر کالیداس، بھاو بھوتی اور بھر تھری تک کے متون کا ترجمہ کیا۔ اروبندو جنھیں جوانی میں ہندوستانیت سے دور رکھا گیا تھا، اب لوگ ان کے خیالات میں ہندوستان کو دیکھنے لگے۔ یہ ہندوستان اور ہندوستانیت کی اصل طاقت ہے۔ کوئی اسے مٹانے کی کتنی ہی کوشش کرے، کیوں نہ اسے اپنے اندر سے مٹانے کی کوشش کرے! ہندوستان وہ لا فانی بیج ہے جو غیر مساعد حالات میں تھوڑا سا دب جائے، تھوڑا سا سوکھ جائے، لیکن وہ مر نہیں سکتا، وہ لا فانی ہے، لا فانی رہے گا۔ کیونکہ، ہندوستان انسانی تہذیب کا سب سے بہتر نظریہ ہے، انسانیت کی سب سے فطری آواز ہے۔ یہ مہا رشی اروبندو کے زمانے میں بھی لا فانی تھا، اور یہ آزادی کی لافانیت میں آج بھی لا فانی ہے۔ آج ہندوستان کا نوجوان اپنی ثقافتی عزت نفس کے ساتھ ہندوستان کی تعریف کر رہا ہے۔ آج دنیا میں سنگین چیلنجز ہیں۔ ان چیلنجوں کو حل کرنے میں ہندوستان کا کردار اہم ہے۔ اس لیے ہمیں مہا رشی اروبندو سے تحریک لے کر خود کو تیار کرنا ہوگا۔ ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کے لیے سب کی کوششیں ہیں۔ مہا رشی اروبندو کو ایک بار پھر سلام کرتے ہوئے، آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے بہت بہت شکریہ!