For 70 years, the Congress party thought only about its own welfare, betrayed the farmers and used them as a vote ban: PM Modi
NDA Government is committed to welfare of farmers and hence has fulfilled the promise regarding the Minimum Support Price: PM Modi in Punjab
Historic increase of 1.5 times in the MSP for kharif crops would significantly add to farmers’ income and empower them: PM Modi
Congress is spreading lies and rumours regarding Minimum Support Price: PM Modi
Initiatives like Jan Dhan Yojana, Ujjwala Yojana, Mudra Yojana and Fasal Bima Yojana have benefitted farmers immensely: PM Modi

وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے پنجاب کی کسان ریلی میں جو تقیر کی تھی اس کا متن حسب ذیل ہے:
وزیر اعظم نے کہا، ’’ہریانہ کے انتہائی مقبول عام وزیر اعلیٰ جناب منور لال کھٹّر، پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ اور ہم سب کے رہنما، صحیح معنوں میں کسانوں کے مسیحی عزت مآب جناب پرکاش سنگھ بادل، پنجاب بی جے پی کے صدر اور پارلیمنٹ میں میرے ساتھ جناب شویت ملک جی، پنجاب کے سابق نائب وزیر اعلی اور میرے دوست جناب سکھ دیو سنگھ بادل، بھارتی جنتا پارٹی کے قومی نائب صدر جناب اویناش کھنّا، مرکزی کابینہ میں میری ساتھی بہن ہرسمرت جی کور بادل، ممبر پارلیمنٹ جناب سکھدیو سنگھ ڈھینڈسا، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی جناب وجے سانپلا، ممبر پارلیمنٹ جناب پریم سنگھ چندو ماجرا بی جے کے قومی جنرل سکریٹری جناب ترون چگھ جی، رکن پارلیمنٹ جناب رنجیت سنگھ برہم پورا، ہریانہ بی جے کے صدر جناب سبھاش برالا جی، رکن پارلیمنٹ بلوندر سنگھ بھندر اور راجستھان سرکار میں وزیر جناب سریندر سنگھ ٹی ٹی جی۔‘‘

پنجاب دی نرمے دی بیلدے اک کھاس مکام ملوٹ دی۔ اے زمین تے موجود میرے دھاراؤں دی بیروں۔ گج کے فتح بلانی، واہے گروجی کا کھالسا، واہے گروجی فتح۔ مکوں کی دھرتی، اور قربانی اور ایثار کی اس مقدس سر زمین کو میں سر جھکا کر سلام کرتا ہوں۔ گرو گوبند سنگھ اور ان کے چالیس شاگردوں کی کہانی یہاں کے زرے زرے میں رچی بسی ہے۔ شجاعت اور ہمت یہاں کی روایت رہی ہے۔ اس پورے مالوا کو، پنجاب کو ملک اور دنیا میں آباد پوری سکھ روایت کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ سرحدوں کی حفاظت ہو، غزائی سلامتی ہو یا پھر محنت اور کاروبار کا میدان ہو، پنجاب نے ہمیشہ ملک کی حوصلہ افزائی کرنے کا کام کیا ہے۔ پنجاب نے ہمیشہ خود سے پہلے ملک کے بارے میں سوچا ہے۔

ساتھیو۔

آج بھی ملک ہی نہیں دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہو جہاں پنجاب کے بھائی بہن اپنی جفاکشی اور محنت کا لوہا نہ منوا رہے ہوں۔

ساتھیو۔

یہ میری خوش قسمتی رہی ہے کہ پنجاب کی جو روایتیں رہی ہیں، جس ماٹی کی مہک ہے، اس ماٹی سے طویل مدت تک جڑنے کی خوش نصیبی مجھے بھی حاصل رہی ہے۔ گذشتہ چار برسوں کے دوران بھی مجھے بار بار آپ کے درمیان آنے کا موقع ملا ہے۔ میں سبھی کسان بھائی بہنوں، پنجاب بی جے پی، این ڈی اے کے ہمارے بھروسے مند معاون، شرومنی اکالی دل خاص طور سے سردار پرکاش سنگھ جی بادل کا میں انتہائی ممنون ہوں جو آج انہوں نے آپ سب کسانوں کے درشن کرنے کا موقع دیا ہے۔ میں آج ملوٹ دی زمین پر آیا ہوں۔ ملوٹ کی زمین کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں کپاس کی سب سے زیادہ پیداوار ہوتی ہے۔ ملوٹ پنجاب کو راجستھان اور ہریانہ سے جوڑتا ہے۔ اور مجھے خوشی ہے کہ آج یہاں ہریانہ اور راجستھان سے بھی بہت بڑی تعداد میں میرے کسان بھائی۔ بہن پہنچے ہیں۔

ساتھیو۔

گذشتہ چار برسوں کے دوران جس طرح آپ سب اناج کے ذخیروں کو ریکارڈ پیداوار سے بھر رہے ہیں اس کے لئے میں، اپنے ملک کے کسانوں کو، آپ سب کو سر جھکا کر سلام کرتا ہوں۔ گیہوں ہو، دھان ہو، چینی ہو، کپاس ہو یا پھر دالوں کی پیداوار، ان تمام اجناس کی پیداوار کے سارے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔ اس سال بھی نئے ریکارڈ بنائے جانے کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔

محنت اور جفاکشی کے منتہائے عروج پر موجود میرے کسان بھائیو بہنو!

آپ نے کبھی بھی محنت کرنے میں کمی نہیں چھوڑی۔ صورتِ حال جیسی بھی ہو، قدرت نے جو بھی مشکل پیدا کی ہو، آپ نے محنت کی ہے، پسینہ بہایا ہے۔ لیکن اتنی محنت کے بعد جس کسان کی زندگی خوشحال ہونی چاہئے، اسے کئی دہائیوں تک مایوسی اور بے زاری کی زندگی جینی پڑی۔

اس کی وجہ یہی تھی کہ گذشتہ 70 برسوں میں زیادہ تر وقت جس پارٹی پر ملک کے کسانوں نے معیار زندگی اوپر اٹھانے کی ذمہ داری دی تھی، اس نے کسان کو ، اس کی محنت کو اور اسے کبھی عزت نہیں دی۔

کسانوں سے صرف وعدے کیے گئے۔ گذشتہ 70 سال کی تاریخ گواہ ہے کہ صرف اور صرف ایک ہی کنبے کی فکر کی گئی۔ اس کے دکھ سکھ کی ہی پرواہ کی گئی۔ کسانوں کے لئے غیر سائنسی طریقے سے بے سر پیر کی ایسی اسکیمیں بنائی گئیں، لیکن انتظاما خود اپنے کنبے کے لئے کیے گئے۔ کسانوں کے لئے اعلانات تو بہت کیے گئے، لیکن کانگریس نے صرف ایک ہی خواب دیکھا، وہ خواب بھی ایک ہی کنبے کو پورا کرنے کے لئے کام آتے گئے۔ پورا ملک اس سچائی سے بخوبی واقف ہے۔

بھائیو اور بہنو۔

میں جانتا ہوں کہ اتنے برسوں سے آپ کو لاگت کے لئے صرف دس فیصد کے فائدے تک ہی محدود رکھا گیا ہے۔ آخر کیوں؟ اس کے پیچھے کیا مفاد تھا۔

بھائیو بہنو۔

کسان ہمارے ملک کی روح ہے۔ کسان ہمارے ان داتا ہیں۔ کانگریس نے ہمیشہ کسان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے، جھوٹ بولا ہے۔ کانگریس نے کسانوں کو بااختیار بنانے پر نہیں بلکہ انہیں ووٹ بینک بنانے کے لئے سیاست کی ہے۔ لیکن مرکز کی قومی جمہوری اتحاد سرکار صورتِ حال کو بدلنے میں مصروف ہے۔ سرحد پر کھڑا جوان ہو، یا کھیت میں جفاکشی کرنے والا میرا کسان بھائی ہو، ہماری سرکار نے دونوں کو عزت دینے کا کام کیا ہے۔

ساتھیو۔

یہ ہماری ہی سرکار ہے جس نے ون رینک ون پینشن کا وعدہ پور کیا۔ یہ بھی ہماری ہی سرکار ہے جس نے ایم ایس پی پر اپنا وعدہ نبھایا ہے۔ جن کو چالیس سال تک ون رینک ون پینشن کے نفاذ کی فرصت نہیں رہی۔ جنہیں ستر سال تک کسانوں کا حق دینے کی فرصت نہیں تھی، وہ آج کسانوں کو گمراہ کرنے پر آمادہ ہیں۔ لیکن قیمت ڈیڑھ گنی کرنے کا کام آپ کے آشیرواد سے ہماری سرکار ہی کر پائی ہے۔

بھائیو اور بہنو۔

خریف کی چودہ فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت میں زبردست اضافہ کیا گیا ہے۔ کپاس ہو، مکہ ہو، باجرا ہو، تور ہو، اڑد ہو، مونگ پھلی ہو، سورج مکھی، سویا بین یا تل ہو امدادی قیمت میں 200 روپئے سے لے کر 1800 روپئے تک کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اور متعدد فصلوں میں تو تقریباً لاگت کا سو فیصد تک یعنی دوگنا تک دستیاب کرانا طے کیا گیا ہے۔

بھائیو اور بہنو

اس فیصلے سے پنجاب کو بہت زیادہ فائدہ ہونے والا ہے۔ پنجاب کے کسان ہوں، ہریانہ کے کسان ہوں، یا راجستھان کے کسان ہوں، انہیں سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہونے والا ہے۔ آپ کا ملوٹ، یعنی پنجاب کا یہ علاقہ تو سفید سونے کے لئے جانا جاتا ہے۔ آپ کا نرما، آپ کا کپاس ملک اور عالم میں مشہور ہے۔ اس کی امدادی قیمت میں بھی 1100 روپئے کا اضافہ کیا گیا ہے۔

کسان بھائیو بہنو۔

کپاس پر جو لاگت آتی ہے وہ تقریباً 3400 روپئے فی کوئنٹل مانی جاتی ہے۔ اب جو سرکاری بھاؤ طے کیا گیا ہے وہ چھوٹے ریشے کے لئے 5150 روپئے اور بڑے ریشے کے لئے 5450 روپئے طے کیا گیا ہے۔ یعنی اب تک جتنا سرکاری بھاؤ آپ کو ملتا تھا، اس سے اب آپ کو 1130 روپئے زائد حاصل ہونے کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔

ساتھیو۔

کپاس کی ہی طرح دھان کی امدادی قیمت میں بھی پہلے کے مقابلے میں 200 روپئے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ایک کوئنٹل دھان پر جو لاگت آتی ہے، وہ تقریباً 1150 روپئے ہے اور دھان کی جو امدادی قیمت طے کی گئی ہے وہ 1750 روپئے ہے۔ کہاں 1150 اور کہاں 1750 یعنی سیدھے سیدھے پچاس فیصد کا فائدہ طے ہے۔ اس سے پنجاب کے ساتھ ساتھ ہریانہ کے کسان بھائیو اور بہنو کو بھی بہت فائدہ ہونے والا ہے۔

ساتھیو۔

مکے دی روٹی تے سرسوں دا ساگ۔ یہ تو آج ساری دنیا میں برانڈ پنجاب کی نئی پہچان بن چکی ہے۔ مکے کی امدادی قیمت میں 275 روپئے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ تقریباً گیارہ سو روپئے فی کوئنٹل کی لاگت پر مکے کی امدادی قیمت 1700 روپئے مقرر کی گئی ہے۔

ساتھیو

مکے کے علاوہ جوار اور راگی جیسے طاقت ور اور فائبر سے مالامال اناج کے لئے بھی پچاس فیصد سے زائد کا فائدہ یقینی بنایا گیا ہے۔ باجرا اگانے والے چھوٹے چھوٹے کسان ہوتے ہیں۔ باجرا اگانے والے بھائیوں کے لئے تو لاگت کی تقریباً دوگنا قیمت طے کی گئی ہے۔ باجرے پر لاگت تقریباً ایک ہزار روپئے آتی ہے لیکن اس کی امدادی قیمت 1950 روپئے طے کی گئی ہے۔ اسی طرح راگی کی امدادی قیمت میں بھی تقریباً 1000 روپئے کا اضافہ کیا گیا ہے۔

بھائیو اور بہنو۔

یہ جو موٹا اناج ہے، جو کبھی ہمارے کھانے پینے کا اہم حصہ ہوا کرتا تھا۔ دواؤں کی خوبیوں کے سبب آج اس کی مانگ پھر بڑھنے لگی ہے۔ ملک مہیں ہی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی ہمارے اس طاقتور اناج کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں جو یہ قیمت مقرر کی گئی ہے۔ اس سے ان کا بازار امکانات سے لبریز ہو گیا ہے۔

بھائیو بہنو۔

یہ جو فیصلہ لیا گیا ہے اس سے اپنی زمین پر کھیتی کرنے والوں کو تو فائدہ ملنے والا ہی ہے، لیکن جو لوگ پٹے پر کھیتی کرتے ہیں، ان محنتی بھائی بہنو کو بھی پورا فائدہ حاصل ہونے والا ہے۔ کیونکہ جو لاگت جوڑی گئی ہے اس میں پٹے والے کسانوں کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ کھیتی میں جو بھی محنت لگی، وہ خواہ آپ کی ہو یا آپ کے کنبے کی، آپ نے جو مزدوری دی ہو، مویشیوں کی جو محنت ہو یا مشین کا کرایہ ہو، زمین کا پٹہ یا کرایہ ہو، بیج ۔ کھاد اور فرٹیلائزر کی قیمت ہو، یا سنچائی پر آنے والا خرچ ہو، ایسے سبھی خرچوں کو لاگت میں جوڑا گیا ہے۔

ساتھیو۔

جب سے سرکار نے یہ فیصلہ لیا ہے اس وقت سے کسان کی ایک بڑی فکر دور ہو گئی ہے۔ ان کو یقین ہو گیا ہے کہ انہوں نے جو سرمایہ کاری کی ہے، جو محنت کی ہے۔ اب ان کو اس کا پھل ملنے والا ہے۔ لیکن کانگریس اور ان کے حلیفوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔ کسان چین سے سو جائے یہ کانگریس کو منظور نہیں ہے۔ اسی لئے کانگریس کی نیند خراب ہو گئی ہے۔ انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آر ہی ہے کہ انہوں نے 70 سے ایسا فیصلہ لینے کی ہمت کیوں نہیں کی۔ ایسا نہیں کہ اس کا ذکر پہلے نہیں ہوا ہے۔ اس کا مطالبہ پہلے نہیں ہوا ہے، ایسا نہیں ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ کسانوں نے تحریک نہ چلائی ہو۔ سب نے کوشش کی لیکن کانگریس ان سارے مطالبات کو دبا کر بیٹھ جاتی تھی، فائلوں کو دباکر بیٹھ جاتی تھی۔ اتنے برسوں تک وہ جس مانگ کو دباکر بیٹھے ہوئے تھے، اس سرکار نے اس مانگ کو پورا کر دیا۔ یہ بات ان کے دماغ میں نہیں بیٹھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اب نئی نئی افواہیں پھیلا رہے ہیں اور غلط باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن یہ کتنی بھی کوششیں کر لیں۔ آپ سبھی کے لئے ملک اور گاؤں اور غریب کسانوں کے لئے ہمارے ارادے اس سے بھی زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ ہم کسانوں کی فلاح کے راستے کو کبھی چھوڑنے والے نہیں ہیں۔

ساتھیو۔

ہم نے ڈیڑھ گنا امدادی قیمت کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن ایک عزم کے طور پر ہم نے اس کی توسیع کی۔ آپ کی حمایت کے بعد مرکز میں این ڈی اے کی سرکار بنی، طے کیا گیا کہ 2022 تک ہمارے کسانوں کی آمدنی، آپ سبھی کی آمدنی، یعنی ملک کے کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ گذشتہ چار برسوں میں ساری کوششیں اسی سمت میں جاری ہیں۔ اور اس کے لئے بیج سے بازار تک ایک عظیم و عریض حکمت عملی کے تحت کام کیا جا رہا ہے۔ فصل کی تیاری سے مارکیٹ میں فروغ تک آنے والے ہر مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایک کے بعد ایک متعدد اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

کسان بھائیو اور بہنو۔

سوائل ہیلتھ کارڈ کی اسکیم سرکار کی اسی وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اب تک ملک کے 15 کروڑ کسانوں کو سوائل ہیلتھ کارڈ تقسیم کیے جا چکے ہیں، جس سے پنجاب میں بھی لاکھوں کسانوں کو فائدہ حاصل ہوا ہے۔ یہ سوائل ہیلتھ کارڈ دراصل آپ کی زمین، آپ کی مٹی کا ریکارڈ ہے۔ اس کی بنیاد پر آپ کو پتا چلتا ہے کہ آپ کو اس زمین پر کون سی فصل اگانی چاہئے، اس میں کون سا فرٹی لائزر ڈالنا چاہئے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مٹی کی ٹیسٹنگ میں بھی کسانوں کو دقت نہ ہو، اس کے لئے جانچ کے مراکز کا ایک نیٹ ورک تیار کیا گیا ہے۔

بھائیو بہنو۔

پچھلی سرکار نے۔۔۔۔ ۔ اتنا بڑا ملک ۔۔۔ ۔ سوائل ٹیسٹنگ کوئی سائنس نہیں تھی۔ لیکن پچھلی سرکار نے صرف 40-45 لیب بنائی تھی، 40-45۔ ہم نے ملک میں 9 ہزار سے زائد جانچ مراکز کو منظوری دی ہے۔ کانگریس نے جہاں اتنے برسوں میں محض 50-55 کروڑ روپئے خرچ کیے، وہیں قومی جمہوری اتحاد سرکارنے بائیس گنا اضافے کے ساتھ تقریباً 1200 کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ کسانوں کے کھیت کی مٹی کی جانچ کے لئے یہ کام کیا گیا ہے۔ مٹی کے ساتھ ساتھ بیج کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے۔ سرکار نے اس امر کو یقینی بنایا ہے کہ کسانوں کو اچھی کوائلٹی کے بیج ملیں۔ گذشتہ چار برسوں میں تقریباً پونے دو لاکھ سیڈ ولیج پروگرام چلائے گئے، جس کا سیدھا فائدہ کروڑوں کسانوں کو حاصل ہوا۔ پہلے کی سرکار کے دوران جہاں چار برسوں میں بیجوں کی تقریباً 450 قسمیں تھیں وہیں ہماری سرکار نے گذشتہ چار برسوں میں 800 سے زائد بیجوں کی اقسام کسانوں کو دستیاب کرائی ہے۔ اگر آج دھان کی پیداوار میں پہلے کے مقابلے میں 300 فیصد اضافہ ہوا ہے تو اس کے لئے نئے اور اچھی کوائٹلی کے بیجوں کے تعاون کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

بھائیو اور بہنو۔

پہلے کی سرکار کے یوریا کی کمی والے پرانے دنوں کا دور یاد دلانا چاہتا ہوں۔ ایک دور وہ تھا، جب یوریا کسانوں کی بجائے فیکٹریوں میں چلا جاتا تھا۔ کہیں اور چلا جاتا تھا۔ کسانوں کو یوریا کے لئے لاٹھیاں کھانی پڑتی تھیں۔ کالے بازاری سے یوریا خریدنی پڑتی تھی۔ لیکن یوریا کی صد فیصد نیم کوٹنگ کرکے اس بے ایمانی کو روک دیا گیا۔ اور آج آپ کو خاطر مقدار میں یوریا ستیاب ہے۔ کھیت میں فصل تب اور اچھی اگتی ہے جب آبپاشی کا معقول انتظام ہو۔ کسانوں کے کھیتوں تک پہنچے اس کے لئے پردھان منتری کرشی سنچائی یوجنا کے تحت ملک کے تقریباً پچیس لاکھ ہیٹئیر سے زائد رقبہ زمین کو مائکرو اریگیشن کے دائرے میں لایا گیا ہے۔ پنجاب میں بھی اس کی توسیع بادل صاحب کے زمانے میں کی گئی تھی۔

ساتھیو۔

جب فصل تیار ہو جاتی ہے تو اس کے لئے بازار ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ ملک کے تقریباً 22 ہزار دیہی ہاٹوں کو اپ گریڈ کرنے کا کام ہو رہا ہے۔ ایک متبادل نظام کی تیاری کی جا رہی ہے۔

آج پورے ملک میں ای ۔ نام، جن لوگوں نے ابھی تک اس کا استعمال نہیں کیا ہے۔ میں سبھی کسان بھائیوں کو بتا دوں کہ یہ انٹرنیٹ پر فصل بیچنے کا بہترین انتظام ہے۔ اس کے تحت ملک بھر کی 600 سے زائد منڈیوں میں آپ گھر بیٹھے اپنے موبائل فون سے یا نزدیکی کامن سروسز سینٹر پر جاکر اپنی فصل بیچ سکتے ہیں۔ یہ اسکیم کسانوں کو بچولیوں اور دلالوں سے بچانے والی اسکیم ہے۔

اس کے علاوہ کسان کی فصل اور خاص طور سے سبزیاں اور پھل برباد نہ ہو، اس کے لئے کسان سمپدا یوجنا جاری ہے۔ اس کے تحت ملک بھر میں جدید تکنالوجی سے لیس نئے گودام بنائے جا رہے ہیں۔ فوڈ پارک بنائے جا رہے ہیں۔ پوری سپلائی چین کو مضبوط کیا جا رہا ہے اور اس امر کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ کسان کو فصل برباد ہونے سے نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ اناج، پھلوں اور سبزیوں میں ویلیو ایڈیشن سے کسان کی آمدنی کو کیسے بڑھایا جا سکتا ہے، اس سمت میں بھی ہماری وزارتی کابینہ کی ساتھی ہرسمرت جی اور ان کی ٹیم لگاتار کوشش کر رہی ہے۔

فوڈ پراسسنگ کے شعبے میں سو فیصد راست سرمایہ کاری جو فیصلہ لیا گیا ہے، اس سے کسانوں کو اور زیادہ فائدہ ہونے والا ہے۔

کسانوں کو اپنی پیداوار منڈیوں تک لانے لے جانے میں کوئی دشواری نہ ہو، اس کے لئے کنکٹی وٹی پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ آپ کا جو این ایچ 54 ہے، اس کو بھارت مالا پروجیکٹ کے تحت فور لین کیا جا رہا ہے، وہیں ہسار میں ایک بڑا ایئر پورٹ بن رہا ہے۔ اس سے ہریانہ کے ساتھ ساتھ پنجاب کے حصے اور راجستھان کو بھی فائدہ ملنے والا ہے۔

ساتھیو۔

پنجاب میں تو ہمیشہ کھیتی کسانی کے میدان میں نئے نئے تجربے کیے ہیں۔ نئے نئے ماڈلوں کو فروغ دیا ہے۔ سبز انقلاب میں پنجاب کے کسانوں کا اہم کردار رہا ہے، ویسی ہی خدمت اور تعاون پنجاب کے کسانوں کی نئی نسل دے سکتی ہے۔ اب ملک میں دوسرے انقلاب کی بنیاد نیلگوں انقلاب یعنی مچھلی پالن، وائٹ ریولیشن یعنی دودھ کی پیداوار، سوئیٹ ریولوشن یعنی شہد کی مکھی پالنا ہو سکتا ہے۔ اس میں آپ کو سرکار کا پورا پورا ساتھ ملنے والا ہے۔ کیونکہ آمدنی دوگنی کرنے کے لئے صرف روایتی کھیتی پر ہی زور نہیں دیا جا رہا ہے بلکہ اس سے جڑے دوسرے پیشوں پر بھی زور دیا جا رہا ہے جن میں آرگینک فارمنگ، مویشی پروری، شہد کی مکھی پالنا، مچھلی پالنا یا مرغی پالنا، ان پر بھی خاص توجہ دی جا رہی ہے۔ اس کا ہی نتیجہ ہے کہ گذشتہ چار برسوں میں پہلے کے مقابلے میں دودھ کی پیداوار میں 21 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جبکہ یو پی اے سرکار کے دورِ اقتدار میں جتنا شہد پیدا ہوا کرتا تھا،اس تقریباً تیس فیصد زائد شہد گذشتہ چار برسوں میں پیدا ہوا ہے۔

ساتھیو۔

آج میں اس اسٹیج سے ایک اور انتہائی اہم موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ یہ پرالی جلانے کا مسئلہ ہے۔ مرکزی سرکار اس پر سنجیدگی سے کام کر رہی ہے تاکہ آپ کو فصل کاٹنے کے بعد اس کے بچے ہوئے حصے کو جلانے کے لئے مجبور نہ ہونا پڑے۔ اس کے لئے پنجاب، ہریانہ ، یوپی اور دہلی کے لئے پچاس کروڑ روپئے سے زیادہ کا سرمایہ مختص کیا گیا ہے۔ اس اسکیم کا نصف سے زائد بجٹ پنجاب پر مرکوز ہے۔ آپ کو پرالی نہ جلانی پڑے اس کے لئے جن مشینوں کی ضرورت ہے اس کی خریداری کے لئے پچاس فیصد امداد بھی سرکار دے رہی ہے۔

میری آپ سب سے اپیل ہے کہ پنجاب اور آس پاس کے لوگوں کی صحت و تندرستی کی فکر و تشویش کو دیکھتے ہوئے پرالی کو نہ جلائیں۔ ایک اندازے کے مطابق پرالی کو نہ جلاکر اسے کھیت میں ہی ملا دیں تو کھاد پر آنے والے خرچ میں تقریباً 2000 فی ہیکٹئیر کی بچت ہو سکتی ہے۔ میری آپ سے گذارش ہے کہ اس اسکیم کا فائدہ اٹھایا جائے۔ اس سے زمین کی زرخیزی کی طاقت میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور دھوئیں سے پھیلنے والی آلودگی سے بھی نجات حاصل ہوتی ہے۔

جب آلودگی کی بات آتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ پنجاب کو بہت زیادہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس علاقے میں تو کینسر کا سنگین مسئلہ ہے۔ اسی کو دیکھتے ہوئے بھٹنڈہ میں ایمس کھولنے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔ میں پنجاب سرکار سے گذارش کرتا ہوں کہ اس سے جڑے کاموں میں تیزی لائی جائے۔

ساتھیو۔

ہماری سرکار غریبوں کو سستی اور اچھی صحت خدمات دستیاب کرانے کا کام کر رہی ہے۔ جن اوشدھی کیندر ہو یا امرت فارمیسی۔ مرکزی سرکار کینسر جیسے سنگین مرض کی دوا پر پچاس فیصد تک چھوٹ دے رہی ہے۔ سرکار بہت جلد ایک ایسا انتظام کرنے جا رہی ہے کہ ملکے تقریباً پچاس کروڑ بھائی بہنوں کو ایک سال میں پانچ لاکھ روپئے تک کے مفت علاج کا انتظام ہو جائے۔

ساتھیو۔

ساتھیو، غریب اور کسان کی زندگی کو آسان اور خیر و خوبی سے چلانے کے لئے ہماری سرکار عہد بستہ ہے۔ اسی جذے میں تحت پورے ملک میں راشٹریہ گرام سواراج ابھیان چلایا جا رہا ہے۔ سب کے پاس جن دھن بینک کھاتے ہوں، اجولا کا گیس کنیکشن ہو، ہر گھر میں بجلی کا کنیکشن ہو، بیمے کی سلامتی ہو، سبھی کی ٹیکہ کاری ہو گئی ہو، ہر گھر میں ایل ای ڈی کا بلب ہو، اسے یقینی بنانے کے ایک بہت بڑی مہم چلائی جا رہی ہے۔

افادہ عامہ کی جو اسکیمیں جو بڑے منصوبے سرکار چلا رہی ہے ان سے پنجاب کو، گاؤں، غریب اور کسان کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ آج یہاں 60 لاکھ سے زائد جن دھن کھاتے کھولے جا چکے ہیں۔ اجولا کے تحت 7.5 لاکھ گیس کنیکشن مل چکے یہں۔ مدرا یوجنا سے 23.5 لاکھ لوگوں کو بغیر گارنٹی قرض مل چکا ہے، جس میں سے 13 لاکھ سے زائد تو پنجاب کی ہماری مائیں اور بہنیں ہیں۔ تقریباً 40 لاکھ لوگ جیون جیوتی اور سرکشا بیمہ یوجنا سے جڑے ہیں۔ اس کے تحت 50 کروڑ کا کلیم بھی مل چکا ہے۔ گاؤں کی عزت اور کسانوں کا وقار پھر سے قائم کرنے کی سمت میں ہم مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ حالانکہ مودی کو یہ سب کرتے دیکھ کر مخالفین کی نیندیں اڑتی ہی جا رہی ہیں۔ ان کی راتیں خراب ہو رہی ہیں۔ کسی بھی طرح جھوٹ پھیلاکر، افواہ پھیلا کر لوگوں کو بھڑکانے میں لگے ہوئے ہیں

بھائیو بہنو۔

اگلے برس گرونانک دیو جی کا 550واں پرکاش پرو ہے۔ اس پرکاش پرو کے ساتھ ہی ہم سبھی اہالیانِ وطن کے لئے پوری دنیا کی بنی نوع انسانی کے لئے گرونانک دیو جی کا پرکاش پرو ایک طرح سے حوصلہ افزائی کا تیوہار بھی ہے۔ انہوں نے انسانیت کو جو راستہ دکھایا ہے، کسانوں، غریبو، پچھڑے اور استحصال زدہ لوگوں کے حق میں جو آواز اٹھائی، وہ ہم سبھی کے لئے زندگی بھر رہنمائی کرتی رہے گی۔ وہ اس عظیم دھرتی کو جس عظیم اور مقدس شکل میں دیکھنا چاہتے تھے، غریب کو اور کسان کو جس طرح سے بااختیار دیکھنا چاہتے تھے، وہ نیو انڈیا کا اہم عزم ہے۔ آیئے اس عزم کو ساتھ مل کر پورا کریں، نئے ہندوستان کی تعمیر کریں۔

میں ہریانہ کے وزیر اعلی، ہریانہ کی سرکار اور خاص طور سے وہاں کی عوام کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ کل جو ایز آف ڈوئنگ بزنس ورلڈ بینک کےساتھ مل کر جو رپورٹ سامنے آئی ہے، اس میں ہریانہ کے صوبے نے بہت بڑی چھلانگ لگا کر تیسرے نمبر پر پہنچنے کی کامیابی حاصل کی ہے۔ میں اس کے لئے منوہر لال کھٹر جی کو، ان کی سرکار کو اور ہریانہ کی جنتا کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ میں پنجاب کے لوگوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ پنجاب کے لوگو، زرا سرکار سے پوچھو تو، کانگریس سے زرا پوچھو تو، ورلڈ بینک نے جو رپورٹ دی ہے، اس میں پنجاب کیوں پچھڑ گیا ہے۔ بادل صاحب جہاں چھوڑ کر گئے تھے، وہاں سے گرتا ہی چلا جا رہا ہے۔ پنجاب کی عوام ان سے بھی جواب مانگے کہ اتنے کم وقت میں کیا حال بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔

یہ میری خوش قسمتی ہے کہ جب بھی کسان کے موضوع پر مجھے کسی سے کچھ رہنمائی چاہئے ہوتی ہے تو میں کہہ سکتا ہوں کہ پرکاش سنگھ بادل صاحب ایک ایسے قائد ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی کسانوں کے لئے وقف کر دی ہے۔ جو کسانوں کی ہر مشکل کو بخوبی سمجھتے ہیں اور ان کے مسائل کے حل کے راستے جانتے ہیں۔ ہماری رہنمائی کرتے رہے ہیں۔ آج وقت نکال کر پرکاش سنگھ بادل صاحب بہ نفس نفیس یہاں آئے ہیں۔ میں اپنے دل کی گہرائیوں سے ان کے تئیں اپنی ممنونیت کا اظہار کرتا ہوں۔ میں اتنی گرمی میں یہاں آکر اپنا وقت دے کر ہمیں آشیرواد دینے کے لئے آپ سب کا ایک بار پھر دل کی گہرائیوں سے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جو بولے سو نہال، ست شریے کال۔ بہت بہت شکریہ۔

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report

Media Coverage

India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM’s address at the Odisha Parba
November 24, 2024
Delighted to take part in the Odisha Parba in Delhi, the state plays a pivotal role in India's growth and is blessed with cultural heritage admired across the country and the world: PM
The culture of Odisha has greatly strengthened the spirit of 'Ek Bharat Shreshtha Bharat', in which the sons and daughters of the state have made huge contributions: PM
We can see many examples of the contribution of Oriya literature to the cultural prosperity of India: PM
Odisha's cultural richness, architecture and science have always been special, We have to constantly take innovative steps to take every identity of this place to the world: PM
We are working fast in every sector for the development of Odisha,it has immense possibilities of port based industrial development: PM
Odisha is India's mining and metal powerhouse making it’s position very strong in the steel, aluminium and energy sectors: PM
Our government is committed to promote ease of doing business in Odisha: PM
Today Odisha has its own vision and roadmap, now investment will be encouraged and new employment opportunities will be created: PM

जय जगन्नाथ!

जय जगन्नाथ!

केंद्रीय मंत्रिमंडल के मेरे सहयोगी श्रीमान धर्मेन्द्र प्रधान जी, अश्विनी वैष्णव जी, उड़िया समाज संस्था के अध्यक्ष श्री सिद्धार्थ प्रधान जी, उड़िया समाज के अन्य अधिकारी, ओडिशा के सभी कलाकार, अन्य महानुभाव, देवियों और सज्जनों।

ओडिशा र सबू भाईओ भउणी मानंकु मोर नमस्कार, एबंग जुहार। ओड़िया संस्कृति के महाकुंभ ‘ओड़िशा पर्व 2024’ कू आसी मँ गर्बित। आपण मानंकु भेटी मूं बहुत आनंदित।

मैं आप सबको और ओडिशा के सभी लोगों को ओडिशा पर्व की बहुत-बहुत बधाई देता हूँ। इस साल स्वभाव कवि गंगाधर मेहेर की पुण्यतिथि का शताब्दी वर्ष भी है। मैं इस अवसर पर उनका पुण्य स्मरण करता हूं, उन्हें श्रद्धांजलि देता हूँ। मैं भक्त दासिआ बाउरी जी, भक्त सालबेग जी, उड़िया भागवत की रचना करने वाले श्री जगन्नाथ दास जी को भी आदरपूर्वक नमन करता हूं।

ओडिशा निजर सांस्कृतिक विविधता द्वारा भारतकु जीबन्त रखिबारे बहुत बड़ भूमिका प्रतिपादन करिछि।

साथियों,

ओडिशा हमेशा से संतों और विद्वानों की धरती रही है। सरल महाभारत, उड़िया भागवत...हमारे धर्मग्रन्थों को जिस तरह यहाँ के विद्वानों ने लोकभाषा में घर-घर पहुंचाया, जिस तरह ऋषियों के विचारों से जन-जन को जोड़ा....उसने भारत की सांस्कृतिक समृद्धि में बहुत बड़ी भूमिका निभाई है। उड़िया भाषा में महाप्रभु जगन्नाथ जी से जुड़ा कितना बड़ा साहित्य है। मुझे भी उनकी एक गाथा हमेशा याद रहती है। महाप्रभु अपने श्री मंदिर से बाहर आए थे और उन्होंने स्वयं युद्ध का नेतृत्व किया था। तब युद्धभूमि की ओर जाते समय महाप्रभु श्री जगन्नाथ ने अपनी भक्त ‘माणिका गौउडुणी’ के हाथों से दही खाई थी। ये गाथा हमें बहुत कुछ सिखाती है। ये हमें सिखाती है कि हम नेक नीयत से काम करें, तो उस काम का नेतृत्व खुद ईश्वर करते हैं। हमेशा, हर समय, हर हालात में ये सोचने की जरूरत नहीं है कि हम अकेले हैं, हम हमेशा ‘प्लस वन’ होते हैं, प्रभु हमारे साथ होते हैं, ईश्वर हमेशा हमारे साथ होते हैं।

साथियों,

ओडिशा के संत कवि भीम भोई ने कहा था- मो जीवन पछे नर्के पडिथाउ जगत उद्धार हेउ। भाव ये कि मुझे चाहे जितने ही दुख क्यों ना उठाने पड़ें...लेकिन जगत का उद्धार हो। यही ओडिशा की संस्कृति भी है। ओडिशा सबु जुगरे समग्र राष्ट्र एबं पूरा मानब समाज र सेबा करिछी। यहाँ पुरी धाम ने ‘एक भारत श्रेष्ठ भारत’ की भावना को मजबूत बनाया। ओडिशा की वीर संतानों ने आज़ादी की लड़ाई में भी बढ़-चढ़कर देश को दिशा दिखाई थी। पाइका क्रांति के शहीदों का ऋण, हम कभी नहीं चुका सकते। ये मेरी सरकार का सौभाग्य है कि उसे पाइका क्रांति पर स्मारक डाक टिकट और सिक्का जारी करने का अवसर मिला था।

साथियों,

उत्कल केशरी हरे कृष्ण मेहताब जी के योगदान को भी इस समय पूरा देश याद कर रहा है। हम व्यापक स्तर पर उनकी 125वीं जयंती मना रहे हैं। अतीत से लेकर आज तक, ओडिशा ने देश को कितना सक्षम नेतृत्व दिया है, ये भी हमारे सामने है। आज ओडिशा की बेटी...आदिवासी समुदाय की द्रौपदी मुर्मू जी भारत की राष्ट्रपति हैं। ये हम सभी के लिए बहुत ही गर्व की बात है। उनकी प्रेरणा से आज भारत में आदिवासी कल्याण की हजारों करोड़ रुपए की योजनाएं शुरू हुई हैं, और ये योजनाएं सिर्फ ओडिशा के ही नहीं बल्कि पूरे भारत के आदिवासी समाज का हित कर रही हैं।

साथियों,

ओडिशा, माता सुभद्रा के रूप में नारीशक्ति और उसके सामर्थ्य की धरती है। ओडिशा तभी आगे बढ़ेगा, जब ओडिशा की महिलाएं आगे बढ़ेंगी। इसीलिए, कुछ ही दिन पहले मैंने ओडिशा की अपनी माताओं-बहनों के लिए सुभद्रा योजना का शुभारंभ किया था। इसका बहुत बड़ा लाभ ओडिशा की महिलाओं को मिलेगा। उत्कलर एही महान सुपुत्र मानंकर बिसयरे देश जाणू, एबं सेमानंक जीबन रु प्रेरणा नेउ, एथी निमन्ते एपरी आयौजनर बहुत अधिक गुरुत्व रहिछि ।

साथियों,

इसी उत्कल ने भारत के समुद्री सामर्थ्य को नया विस्तार दिया था। कल ही ओडिशा में बाली जात्रा का समापन हुआ है। इस बार भी 15 नवंबर को कार्तिक पूर्णिमा के दिन से कटक में महानदी के तट पर इसका भव्य आयोजन हो रहा था। बाली जात्रा प्रतीक है कि भारत का, ओडिशा का सामुद्रिक सामर्थ्य क्या था। सैकड़ों वर्ष पहले जब आज जैसी टेक्नोलॉजी नहीं थी, तब भी यहां के नाविकों ने समुद्र को पार करने का साहस दिखाया। हमारे यहां के व्यापारी जहाजों से इंडोनेशिया के बाली, सुमात्रा, जावा जैसे स्थानो की यात्राएं करते थे। इन यात्राओं के माध्यम से व्यापार भी हुआ और संस्कृति भी एक जगह से दूसरी जगह पहुंची। आजी विकसित भारतर संकल्पर सिद्धि निमन्ते ओडिशार सामुद्रिक शक्तिर महत्वपूर्ण भूमिका अछि।

साथियों,

ओडिशा को नई ऊंचाई तक ले जाने के लिए 10 साल से चल रहे अनवरत प्रयास....आज ओडिशा के लिए नए भविष्य की उम्मीद बन रहे हैं। 2024 में ओडिशावासियों के अभूतपूर्व आशीर्वाद ने इस उम्मीद को नया हौसला दिया है। हमने बड़े सपने देखे हैं, बड़े लक्ष्य तय किए हैं। 2036 में ओडिशा, राज्य-स्थापना का शताब्दी वर्ष मनाएगा। हमारा प्रयास है कि ओडिशा की गिनती देश के सशक्त, समृद्ध और तेजी से आगे बढ़ने वाले राज्यों में हो।

साथियों,

एक समय था, जब भारत के पूर्वी हिस्से को...ओडिशा जैसे राज्यों को पिछड़ा कहा जाता था। लेकिन मैं भारत के पूर्वी हिस्से को देश के विकास का ग्रोथ इंजन मानता हूं। इसलिए हमने पूर्वी भारत के विकास को अपनी प्राथमिकता बनाया है। आज पूरे पूर्वी भारत में कनेक्टिविटी के काम हों, स्वास्थ्य के काम हों, शिक्षा के काम हों, सभी में तेजी लाई गई है। 10 साल पहले ओडिशा को केंद्र सरकार जितना बजट देती थी, आज ओडिशा को तीन गुना ज्यादा बजट मिल रहा है। इस साल ओडिशा के विकास के लिए पिछले साल की तुलना में 30 प्रतिशत ज्यादा बजट दिया गया है। हम ओडिशा के विकास के लिए हर सेक्टर में तेजी से काम कर रहे हैं।

साथियों,

ओडिशा में पोर्ट आधारित औद्योगिक विकास की अपार संभावनाएं हैं। इसलिए धामरा, गोपालपुर, अस्तारंगा, पलुर, और सुवर्णरेखा पोर्ट्स का विकास करके यहां व्यापार को बढ़ावा दिया जाएगा। ओडिशा भारत का mining और metal powerhouse भी है। इससे स्टील, एल्युमिनियम और एनर्जी सेक्टर में ओडिशा की स्थिति काफी मजबूत हो जाती है। इन सेक्टरों पर फोकस करके ओडिशा में समृद्धि के नए दरवाजे खोले जा सकते हैं।

साथियों,

ओडिशा की धरती पर काजू, जूट, कपास, हल्दी और तिलहन की पैदावार बहुतायत में होती है। हमारा प्रयास है कि इन उत्पादों की पहुंच बड़े बाजारों तक हो और उसका फायदा हमारे किसान भाई-बहनों को मिले। ओडिशा की सी-फूड प्रोसेसिंग इंडस्ट्री में भी विस्तार की काफी संभावनाएं हैं। हमारा प्रयास है कि ओडिशा सी-फूड एक ऐसा ब्रांड बने, जिसकी मांग ग्लोबल मार्केट में हो।

साथियों,

हमारा प्रयास है कि ओडिशा निवेश करने वालों की पसंदीदा जगहों में से एक हो। हमारी सरकार ओडिशा में इज ऑफ डूइंग बिजनेस को बढ़ावा देने के लिए प्रतिबद्ध है। उत्कर्ष उत्कल के माध्यम से निवेश को बढ़ाया जा रहा है। ओडिशा में नई सरकार बनते ही, पहले 100 दिनों के भीतर-भीतर, 45 हजार करोड़ रुपए के निवेश को मंजूरी मिली है। आज ओडिशा के पास अपना विज़न भी है, और रोडमैप भी है। अब यहाँ निवेश को भी बढ़ावा मिलेगा, और रोजगार के नए अवसर भी पैदा होंगे। मैं इन प्रयासों के लिए मुख्यमंत्री श्रीमान मोहन चरण मांझी जी और उनकी टीम को बहुत-बहुत बधाई देता हूं।

साथियों,

ओडिशा के सामर्थ्य का सही दिशा में उपयोग करके उसे विकास की नई ऊंचाइयों पर पहुंचाया जा सकता है। मैं मानता हूं, ओडिशा को उसकी strategic location का बहुत बड़ा फायदा मिल सकता है। यहां से घरेलू और अंतर्राष्ट्रीय बाजार तक पहुंचना आसान है। पूर्व और दक्षिण-पूर्व एशिया के लिए ओडिशा व्यापार का एक महत्वपूर्ण हब है। Global value chains में ओडिशा की अहमियत आने वाले समय में और बढ़ेगी। हमारी सरकार राज्य से export बढ़ाने के लक्ष्य पर भी काम कर रही है।

साथियों,

ओडिशा में urbanization को बढ़ावा देने की अपार संभावनाएं हैं। हमारी सरकार इस दिशा में ठोस कदम उठा रही है। हम ज्यादा संख्या में dynamic और well-connected cities के निर्माण के लिए प्रतिबद्ध हैं। हम ओडिशा के टियर टू शहरों में भी नई संभावनाएं बनाने का भरपूर हम प्रयास कर रहे हैं। खासतौर पर पश्चिम ओडिशा के इलाकों में जो जिले हैं, वहाँ नए इंफ्रास्ट्रक्चर से नए अवसर पैदा होंगे।

साथियों,

हायर एजुकेशन के क्षेत्र में ओडिशा देशभर के छात्रों के लिए एक नई उम्मीद की तरह है। यहां कई राष्ट्रीय और अंतर्राष्ट्रीय इंस्टीट्यूट हैं, जो राज्य को एजुकेशन सेक्टर में लीड लेने के लिए प्रेरित करते हैं। इन कोशिशों से राज्य में स्टार्टअप्स इकोसिस्टम को भी बढ़ावा मिल रहा है।

साथियों,

ओडिशा अपनी सांस्कृतिक समृद्धि के कारण हमेशा से ख़ास रहा है। ओडिशा की विधाएँ हर किसी को सम्मोहित करती है, हर किसी को प्रेरित करती हैं। यहाँ का ओड़िशी नृत्य हो...ओडिशा की पेंटिंग्स हों...यहाँ जितनी जीवंतता पट्टचित्रों में देखने को मिलती है...उतनी ही बेमिसाल हमारे आदिवासी कला की प्रतीक सौरा चित्रकारी भी होती है। संबलपुरी, बोमकाई और कोटपाद बुनकरों की कारीगरी भी हमें ओडिशा में देखने को मिलती है। हम इस कला और कारीगरी का जितना प्रसार करेंगे, उतना ही इस कला को संरक्षित करने वाले उड़िया लोगों को सम्मान मिलेगा।

साथियों,

हमारे ओडिशा के पास वास्तु और विज्ञान की भी इतनी बड़ी धरोहर है। कोणार्क का सूर्य मंदिर… इसकी विशालता, इसका विज्ञान...लिंगराज और मुक्तेश्वर जैसे पुरातन मंदिरों का वास्तु.....ये हर किसी को आश्चर्यचकित करता है। आज लोग जब इन्हें देखते हैं...तो सोचने पर मजबूर हो जाते हैं कि सैकड़ों साल पहले भी ओडिशा के लोग विज्ञान में इतने आगे थे।

साथियों,

ओडिशा, पर्यटन की दृष्टि से अपार संभावनाओं की धरती है। हमें इन संभावनाओं को धरातल पर उतारने के लिए कई आयामों में काम करना है। आप देख रहे हैं, आज ओडिशा के साथ-साथ देश में भी ऐसी सरकार है जो ओडिशा की धरोहरों का, उसकी पहचान का सम्मान करती है। आपने देखा होगा, पिछले साल हमारे यहाँ G-20 का सम्मेलन हुआ था। हमने G-20 के दौरान इतने सारे देशों के राष्ट्राध्यक्षों और राजनयिकों के सामने...सूर्यमंदिर की ही भव्य तस्वीर को प्रस्तुत किया था। मुझे खुशी है कि महाप्रभु जगन्नाथ मंदिर परिसर के सभी चार द्वार खुल चुके हैं। मंदिर का रत्न भंडार भी खोल दिया गया है।

साथियों,

हमें ओडिशा की हर पहचान को दुनिया को बताने के लिए भी और भी इनोवेटिव कदम उठाने हैं। जैसे....हम बाली जात्रा को और पॉपुलर बनाने के लिए बाली जात्रा दिवस घोषित कर सकते हैं, उसका अंतरराष्ट्रीय मंच पर प्रचार कर सकते हैं। हम ओडिशी नृत्य जैसी कलाओं के लिए ओडिशी दिवस मनाने की शुरुआत कर सकते हैं। विभिन्न आदिवासी धरोहरों को सेलिब्रेट करने के लिए भी नई परम्पराएँ शुरू की जा सकती हैं। इसके लिए स्कूल और कॉलेजों में विशेष आयोजन किए जा सकते हैं। इससे लोगों में जागरूकता आएगी, यहाँ पर्यटन और लघु उद्योगों से जुड़े अवसर बढ़ेंगे। कुछ ही दिनों बाद प्रवासी भारतीय सम्मेलन भी, विश्व भर के लोग इस बार ओडिशा में, भुवनेश्वर में आने वाले हैं। प्रवासी भारतीय दिवस पहली बार ओडिशा में हो रहा है। ये सम्मेलन भी ओडिशा के लिए बहुत बड़ा अवसर बनने वाला है।

साथियों,

कई जगह देखा गया है बदलते समय के साथ, लोग अपनी मातृभाषा और संस्कृति को भी भूल जाते हैं। लेकिन मैंने देखा है...उड़िया समाज, चाहे जहां भी रहे, अपनी संस्कृति, अपनी भाषा...अपने पर्व-त्योहारों को लेकर हमेशा से बहुत उत्साहित रहा है। मातृभाषा और संस्कृति की शक्ति कैसे हमें अपनी जमीन से जोड़े रखती है...ये मैंने कुछ दिन पहले ही दक्षिण अमेरिका के देश गयाना में भी देखा। करीब दो सौ साल पहले भारत से सैकड़ों मजदूर गए...लेकिन वो अपने साथ रामचरित मानस ले गए...राम का नाम ले गए...इससे आज भी उनका नाता भारत भूमि से जुड़ा हुआ है। अपनी विरासत को इसी तरह सहेज कर रखते हुए जब विकास होता है...तो उसका लाभ हर किसी तक पहुंचता है। इसी तरह हम ओडिशा को भी नई ऊचाई पर पहुंचा सकते हैं।

साथियों,

आज के आधुनिक युग में हमें आधुनिक बदलावों को आत्मसात भी करना है, और अपनी जड़ों को भी मजबूत बनाना है। ओडिशा पर्व जैसे आयोजन इसका एक माध्यम बन सकते हैं। मैं चाहूँगा, आने वाले वर्षों में इस आयोजन का और ज्यादा विस्तार हो, ये पर्व केवल दिल्ली तक सीमित न रहे। ज्यादा से ज्यादा लोग इससे जुड़ें, स्कूल कॉलेजों का participation भी बढ़े, हमें इसके लिए प्रयास करने चाहिए। दिल्ली में बाकी राज्यों के लोग भी यहाँ आयें, ओडिशा को और करीबी से जानें, ये भी जरूरी है। मुझे भरोसा है, आने वाले समय में इस पर्व के रंग ओडिशा और देश के कोने-कोने तक पहुंचेंगे, ये जनभागीदारी का एक बहुत बड़ा प्रभावी मंच बनेगा। इसी भावना के साथ, मैं एक बार फिर आप सभी को बधाई देता हूं।

आप सबका बहुत-बहुत धन्यवाद।

जय जगन्नाथ!