نئی دہلی، 24 اکتوبر، کابینہ کے میرے تمام رفقاء، بھارت کی صنعتی زندگی کو رفتار عطا کرنے والے، آئی ٹی پیشے کو تقویت دینے والے تمام تر تجربہ کار حضرات اور آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ ہماری نوجوان پیڑھی، گاؤوں میں سی ایس سی کے مرکز میں بیٹھے ہوئے بہت سی امیدوں کے ساتھ اپنے خوابوں کو جمع کرکے زندگی گزاررہے ہمارے اسکول، کالج کے طلبا، آئی آئی ٹی سمیت متعدد اداروں کے طلباء، میرے لئے مسرت کی بات ہے کہ جو مجھے سب سے پسندیدہ کام ہے، ایسے موقع پر آج آپ کے درمیان آنے کا موقع ملاہے۔
ہمارے وزیر جناب روی شنکر صاحب، سرکار کے کام کی تفصیلات پیش کررہے تھے، لیکن میں اس کام کے لئے نہیں آیا ہوں، کوئی بھی انسان اپنے کرئیر میں کتنا بھی آگے چلا جائے، کتنی ہی خوشحالی حاصل کرلے، عہدہ اور عزت کتنا ہی حاصل کرلے، ایک طرح سے زندگی میں جو خواب دیکھے ہوں، وہ سارے خواب اپنی آنکھوں کے سامنے اسے اپنی کوششوں سے شرمندہ تعبیر بھی کرلے، اس کے باوجود اس کے دل میں تسلی کے لیے تڑپ رہتی ہے کہ قلبی سکون کیسے حاصل ہو؟ اور ہم نے یہ تجربہ کیا ہے کہ سب کچھ حاصل کرنے کے بعد وہ کسی اور کے لیے کچھ کرتا ہے، کچھ جینے کی کوشش کرتا ہے، اس وقت اس کے سکون کی سطح بڑھ جاتی ہے۔
میں ابھی شروع میں فلم میں جناب عظیم پریم جی کو سن رہا تھا۔ 04-2003 میں جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا اور وہ میری مدت کار کے دوران مجھ سے ملنے آتے تھے، تو اپنے کاروبار کے متعلق حکومت کے ساتھ کسی کام کے سلسلے میں بات کرتے تھے۔ لیکن اس کے بعد میں نے دیکھا کہ گذشتہ دس پندرہ سال سے جب بھی ملنا ہوا ہے، ایک بار بھی وہ اپنا ،کمپنی کا ، اپنے کارپوریٹ کام کا، اس کے کام کا کبھی کوئی ذکر نہیں کرتے۔ ذکر کرتے ہیں تو وہ جس مشن کو لے کر وہ ان دنوں کام کررہے ہیں، وہ ہےتعلیم کا، اس کا ذکر کرتے ہیں اور اتنی گہرائی سے کرتے ہیں، جتنا کہ وہ اپنی کمپنی کے لیے نہیں کرتے تو میں محسوس کرتا ہوں کہ اس عمر میں، عمر کے اس پڑاؤ پر ، زندگی میں اتنی بڑی کمپنی بنائی، اتنی بڑی کامیابی کا سفر طے کیا۔ لیکن تسلی مل رہی ہے، ابھی جو کام کررہے ہیں، اس سے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک فرد کی زندگی میں ایسا نہیں ہے، کہ ہم جس پیشے میں ہیں، اگر مان لیجئے کہ ڈاکٹر ہیں تو کسی کی خدمت نہیں کرتے، کرتے ہیں، ایک سائنسداں ہے، تجربہ گاہ کے اندر اپنی زندگی کھپا دیتا ہے اور کوئی ایسی چیز تلاش کرکے لاتا ہے جو پیڑھی در پیڑھی لوگوں کی زندگی بدلنے والی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ سماج کے لیے کام نہیں کرتا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ خود کے لیے جیتا تھا، یا خود کے نام کے لیے کررہا تھا، جی نہیں۔ جو کررہا تھا، لوگوں کے لئے، لیکن اپنے ہاتھوں سے ، اپنی آنکھوں کے سامنے، اپنی موجودگی میں جو کرتا ہے، اس کی تسلی الگ ہوتی ہے اور آج وہ سکون آخر کار جو اصل ترغیب ہوتی ہے، ہر انسان آپ بھی اپنے آپ دیکھ لیجئے، اپنی خود کی زندگی سے دیکھ لیجئے، اطمینان قلب کے لیے کچھ لوگ یہی کرتے ہیں کہ مجھے سکون ملتا ہے، مجھے اندر سے لطف حاصل ہوتا ہے، مجھے توانائی حاصل ہوتی ہے۔
ہم رامائن میں سن رہے ہیں، کہ گلہری بھی رام سیتو (پل)کی تعمیر میں رام کے ساتھ جڑ گئی تھی۔ لیکن ایک گلہری نے تو ترغیب حاصل کرکے اس مقدس کام میں جڑنا اچھا مانا، لیکن دوسرا بھی ایک نظریہ ہوسکتا ہے کہ رام جی کو اگر کامیاب ہونا ہے، ایشوربھلے ہی ہوں، ان کو بھی گلہری کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب گلہری جڑ جاتی ہے تو کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ حکومت کتنے ہی اقدامات کرلے، حکومت کتنا ہی بجٹ خرچ کرتی ہو، لیکن جب تک عوام الناس کا اس میں حصہ نہیں ہو، شراکت داری نہیں ہوگی، تو ہم جو نتیجہ چاہتے ہیں، اس کا انتظار نہیں کرسکتا ہندوستان۔ دنیا بھی ہندوستان کو انتظار کرتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتی ہے، دنیا بھی ہندوستان کو، ہندوستان لیڈ کرے، اس توقع سے دیکھ رہی ہے۔ اگر یہ دنیا کی توقع ہے تو ہمیں بھی، ہمارے ملک کو اسی طریقے سے کرنا ہوگا۔ اگر وہ کرنا ہے تو ہندوستان کے عام انسان کی زندگی میں تبدیلی کیسے رونما ہو، میرے پاس جو ہنر ہے، اہلیت ہے، جو قوت ہے، جو تجربہ ہے، اس کا کچھ استعمال میں کسی کے لئے کرسکتا ہوں کیا؟ ایک بات طے ہے کہ کوئی ایسا مقام ہے، جہاں کوئی بھی غریب آئے، کوئی بھی بھوکا آئے، تو کھانا مل جاتا ہے۔ وہاں جو دینے والے لوگ ہیں، وہ بھی بڑے لگاؤ سے دیتے ہیں۔ کھانے والا جا تا ہے وہاں، ایک ایسی صورتحال آتی ہے، ایک ادارہ جاتی انتظام ہے، نظام ہے، میں جاؤں گا، مجھے مل جائے گا، جانے والے کو بھی ، اس کے تئیں خصوصی توجہ نہیں ہوتی ہے کہ دینے والا کون ہے۔ دینے والے کے دل میں بھی کچھ احساس نہیں ہوتا کہ آیا کون تھا۔ کیوں؟ کیونکہ اس کی ایک عادت بن جاتی ہے۔ کوئی آتا ہے تو کھاناکھلاتا ہے۔ وہ چل دیتا ہے۔ لیکن ایک غریب کسی غریب کنبے کے دروازے پر کھڑا ہے، بھوکا ہے، اور ایک غریب اپنی آدھی روٹی بانٹ کرکے دے دیتا ہے، دونوں کو زندگی بھر یاد رہتا ہے۔ اس میں سکون ملتا ہے۔ نظام کے تحت ہونے والی چیزوں کےبجائے از خود ترغیب سے ہونے والی چیزیں کتنی بڑی تبدیلی لاتی ہیں، یہ ہم سب نے دیکھا ہے۔ ہم کبھی ہوائی جہاز سے جارہے ہیں، بغل میں کوئی بزرگ بیٹھے ہیں، پانی پینا ہے، بوتل ہے لیکن کھل نہیں رہی ہے، ہماری توجہ مبذول ہوتی ہے، ہم فوراً اس کو کھول دیتے ہیں، ہمیں تسلی ملتی ہے۔ یعنی کسی کے لیے جینے کا لطف کچھ اور ہوتا ہے۔
میں نے ایک روایت قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد، جب میں وزیر اعلیٰ تھا، تب بھی کیا کرتاتھا، کسی یونیورسٹی کے کنووکیشن میں جاتا ہوں تو مجھے بلانے والوں سے میں اصرار کرتا ہوں کہ آپ اس یونیورسٹی کے نزدیک میں کہیں، سرکاری اسکول ہو، جھگی جھونپڑی کے غریب بچے پڑھتے ہوں، آٹھویں ، نویں، دسویں کے، تو وہ میرے 50 خصوصی مہمان ہوں گے اور اس جلسہ تقسیم اسناد میں اُن کو جگہ دیجئے، ان کو بٹھائیے،ان کو مدعو کیجیے۔ اگر وہ آتے ہیں۔ میرے دل میں رہتا ہے کہ بچے اپنا ٹوٹا ،پھوٹا جیسا بھی ہے اسکول ، پڑھ رہے ہیں، لیکن جلسہ تقسیم اسناد میں آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ کوئی بہت بڑا لبادہ پہن کر اوپر آرہا ہے، ٹوپی پہنی ہے اور سب لوگ اس کو کوئی سند دے رہے ہیں، اس کے اندر ایک خواب جاگ جاتا ہے۔ ایک بیج بویا جاتا ہےکہ ایک دن میں بھی وہاں جاؤں گا، اور میں بھی کبھی حاصل کروںگا۔ شاید نصابی درجے میں جتنا ہوتا ہے، اس سے زیادہ اس سے ہوتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری کچھ ایسی چیزیں ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے ہم بہت سی باتوں ، اس کو ہم کرسکتے ہیں، میں نے، ہمارے آنند جی یہاں بیٹھے ہیں۔ ایک بات ہمیشہ مارک کی ہے اور وہ بھی میری وزیر اعلیٰ کی مدت کار سے اب تک، میں کبھی گجرات کی ترقی کے لئے سرمایہ کاری کے لئے ملنے جاتا تھا، صنعت کاروں کی میٹنگ کرتا تھا، یہ حضرت کبھی بھی اس سلسلے میں نہ سوال پوچھتے تھے، نہ ذکر کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے، صاحب سماجی کاموں میں کیا کیا ہوسکتا ہے، اب یہ تو مزاج ہے، یہ مزاج سماج کی ، ملک کی بہت بڑی طاقت ہوتا ہے اور آج یہ آخر اس پروگرام میں جڑنے سے مجھے اطمینان اور لطف کیوں حاصل ہورہا ہے۔ میں سوشل میڈیا سے جڑا ہوا انسان ہوں، اس لئے مجھے جو اطلاع بہم پہنچائی جاتی ہے، میں اطلاع کا شکار نہیں ہوں، جو اطلاع مجھے چاہئے، میں کھوج کر کے لیتا ہوں، اور اسی کی وجہ سے مجھے نئی چیز ملتی ہے۔ اگر وہ آج ٹیکنالوجی کا پلیٹ فارم مجھے فراہم کرتا ہے، میں اس میں بھی، میں نے دیکھا ہے، کئی نوجوان اتنا کام کرتے ہیں، تین لوگوں کا گروپ ، چار لوگوں کاگروپ ، سنیچر اتوار چلے جائیں گے، گاؤں میں جائیں گے، کہیں بستی میں جائیں گے، عوام کے درمیان رہیں گے، کبھی بچوں کوپڑھائیں گے، کرتے رہتے ہیں۔ یعنی خاص کرکے بھارت کے زمانہ حال میں 25 سے 40 کے درمیان کی جو پیڑھی ہے، اس میں فطری جذبہ پیدا ہورہا ہے، نظر آتا ہے۔ لیکن اس میں اگر اجتماعیت جڑتی ہے تو وہ ایک طاقت کی شکل میں ابھر کرکے آتی ہے۔ اس کو ہم کہیں نہ کہیں ایک مشن کے ساتھ جوڑ دیں۔ ڈھانچہ جاتی نظام کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک مشن کے ساتھ جوڑدیں، ایک پلیٹ فارم ہو، وہ لچیلا ہو، ہر کوئی اپنی مرضی سے کرتاہو، لیکن جو کرتاہو، وہ کہیں نہ کہیں جمع ہوتا جائے، نتیجہ جمع ہوتا جائے، تو تبدیلی بھی نظر آنی شروع ہوجاتی ہے۔ اور یہ بات طے ہے – بھارت کی تقدیر، تکنیک میں ہے۔ جو ٹیکنالوجی آپ کے پاس ہے وہ ہندوستان کی تقدیر کو لے کر بیٹھی ہوئی ہے۔ ان دونوں کو ملاکر کیسے کام کرسکتے ہیں، کوئی ایک مالی ہو، کھلے میدان میں، ایسے ہی بیج چھوڑ دے، موسم ٹھیک ہوجائے گا تو پودھا بھی نکل آئے گا، پھول بھی نکل آئیں گے، لیکن کسی کو بھی وہاں جاکرکے اس کی طرف دیکھنے کا دل نہیں کرے گا۔ لیکن وہی مالی بڑے منظم انداز میں اس رنگ کے پھول یہاں، اتنے سائز کے یہاں ہوں گے، اتنی اونچائی کے یہاں ہوں گے، یہ یہاں ہوگا، یہ ایسا دِکھے گا، ایسا کرکرکے ان پھولوں کو کرتا ہے، تو وہ باغیچہ ہر کسی کے آنے جانے کی ترغیب کا موجب بن جاتا ہے۔ وجہ ؟ اس نے بڑے منظم طریقے سے کام کیا ہے۔ ایک نظام کے تحت کام کیا ہے۔ ہماری یہ جو منتشر قوت ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ان دنوں سوشل اسٹارٹ اپ کا ایک دور شروع ہوا ہے۔ اور جو بچے ملتے ہیں نہ تو پوچھتے ہیں کہ کیا کرتے ہوے، تو بولے ارے صاحب بس کرلیا۔ میں دیکھا تھا، بنگلورومیں ، ایک لڑکا وہ آئی ٹی پیشے میں تھا، کہیں میں نے سوشل میڈیا میں دیکھا تھا، وہ ڈرائیونگ کرتا ہے، بولا دن میں تین چار گھنٹے ڈرائیونگ کرتاہوں، کیوں؟ غریبوں کو لے جاتا ہوں، مدد کرتا ہوں، اسپتال لے جاتاہوں لوگوں کو، مجھے اچھا لگتا ہے۔
میں نے ایسے آٹو رکشا والے دیکھے جن کے آٹو کے پیچھے لکھا ہوتا ہے کہ اگر آپ کو اسپتال جانا ہے، تو مفت میں لے جاؤں گا۔ میرے دیش کا غریب آٹو رکشہ والا اگر مان لیجئے اس کو اس دن چھ لوگ ایسے مل گئے، جن کو اسپتال لے جانا ہے، تو اس کے بچے بھوکے مریں گے، لیکن اس کو فکر نہیں ہے، وہ بورڈ لگاتا ہے اور ایمانداری سےکرتا بھی ہے ، تو یہ فطری مزاج انسان کے اندر پڑا ہوا ہوتا ہے۔ کسی کے لیے کچھ کرنا ہے اور وہی ہے، ‘‘میں نہیں ہم’’ اس کا مطلب یہ نہیں ہےکہ میں کو ختم کردینا ہے۔ ہمیں، میں کو توسیع دینی ہے۔ انفرادیت سے اجتماعیت کی جانب سفر کرنا ہے۔ آخر کار فردِ واحد اپنا کنبہ کیوں بڑھاتا ہے۔ بڑے کنبے کے مابین لطف کیوں محسوس کرتا ہے ۔ یہ وسیع کنبے سے بھی وسیع تر کنبہ ،ا ورمیرا سماج، میرا پورا ملک، یہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن جاتا ہے۔ اسی جذبے کو لے کر کے آج خدمت کا جذبہ لے کرکے آئی ٹی 2 سوسائٹی کا سفر ہے یہ۔ ایک طرف آئی ٹی 2 سوسائٹی ہے تو آئی آئی ٹی سوسائٹی بھی ہے۔تو اس جذبے کو لے کر کے ہمیں چلنا ہے۔ میں چاہوں گا کہ سات آٹھ مقامات پر مجھے بات بھی کرنی ہے تو بات چیت شروع کریں۔
ہمارے ملک میں عام شبیہہ ایسی ہے، سرمایہ کاروں کو گالی دینا، تاجروں کو گالی دینا، صنعت کاروں کوگالی دینا فیشن ہوگیا ہے۔ پتہ نہیں کیوں ہوا، میں حیران ہوں اس سے اور میں اس کا زبردست مخالف ہوں، ملک کو بنانے میں ہرکسی کا تعاون ہوتا ہے۔ آج یہ دیکھا تو پتہ چلے گا کہ ان ساری کمپنیوں نے اپنے سی ایس آر کے توسط سے سارے نظام سے اپنے ہونہار اسٹاف سے کہا کہ پانچ دن تم کو خدمت کے لئے جانا ہے، تو جاؤ، تمہاری نوکری چالو رہے گی۔ چھوٹی چیزیں نہیں ہیں۔ عام زندگی میں بہت بڑا تعاون ہے، لیکن آج جب ایک پلیٹ فارم پر آیا تو سب کی آنکھیں کھل جائیں گی، آج ملک کے ہر کونے میں ہمارے ملک کے لوگ ایسا ایسا کام کررہے ہیں، یہ تو اجتماعیت کی طاقت ہے بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ جو ترغیب کی بنیاد ہے، ہم اس میں بھی یہ خود اور خدمت والا جو ہمارا زاویہ ہے، وہ بہت بڑا کردار ادا کرے گا۔ اور آپ مواصلات کی دنیا کے لوگ ہیں، ٹیکنا لوجی کی دنیا کے لوگ ہیں اور بڑی آسانی سے ان چیزوں کو تیار کرسکتے ہیں۔ تو اس کا اثر بھی بہت ہوسکتا ہے۔ دائرہ کار بھی بہت ہوسکتا ہے۔ اور آپ ان چیزوں سے جڑے ہیں، جو کم لاگت والی ہوتی ہیں۔ تو اس کو جتنا زیادہ ہم کریں گے، ہم ترغیب کی وجہ بنیں گے اور ہماری ان کوششوں سے بیشتر افراد کو ترغیب ملے گی۔ اور یسے ہی ، کتنے ہی پھول کہاں کہاں ملے ہیں، لیکن جب گلدستہ بنتا ہے تو اس کا لطف کچھ اور ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں آج ان جذباتِ خدمت کا گلدستہ بنانے کا کام ہوا ہے۔ آج یہاں پر اس کوشش سے ، جذبہ خدمت سے، اپنے آپ کو کھپانے والے، نئے نئے شعبوں میں کام کرنے والے لوگ اور وہ بھی ہماری نوجوان پیڑھی کررہی ہے۔ بھارت ماتا کو فخر ہوتا ہوگا کہ میرےملک کے اندر ایسے بھی پھول کھلے ہیں، جو خوشبو پھیلانے کا کام لگاتار کرتے رہتے ہیں۔ متعدد افراد کی زندگی بدلنے کا کام کرتے رہتے ہیں۔
میں سبھی ان نوجوانوں کو بدھائی دیتا ہوں، جنھوں نے اس کام کو بڑی توجہ سے کیا ہے، جی جان سے کیا ہے۔ میں ان سبھی کمپنیوں کا خیرمقدم کرتا ہوں کہ انھوں نے اپنی اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ سماجی ذمہ داریوں کے لئے بھی اپنے انتظامات کا استعمال کیا ہے، اپنی صلاحیت کا استعمال کیاہے۔ ہمارے ملک میں ، ملک کو آگے بڑھانے کے لئے، عوام الناس کی شراکت داری ضروری ہے۔ سوا سو کروڑ اہل وطن آگے بڑھنا طے کرلیں گے تو، دنیا کی کوئی طاقت نہیں کہ جو ہندوستان کو پیچھے رکھ سکتی ہے۔ ہندوستان کو آگے آنا ہے، سوا سو کروڑ اہل وطن کو طاقت سے آگے آنا ہے اور صحیح سمت میں آگے آنا ہے۔ ہر ایک کی اپنی اپنی سمت سے نتیجہ نہیں آتا ہے، سب ملاکرکے ایک سمت پر چلتے ہیں، تب جاکرکے نتیجہ آتا ہے اور میں بہت رجائیت پسند شخص ہوں، چار سال کے میرے چھوٹے سے تجربے سے میں کہہ سکتا ہوں کی ملک اب تک آگے کیوں نہیں ہوا؟ یہ میرے لیے ایک سوال ہے۔ میرے دل میں یہ سوال نہیں ہے کہ دیش آگے بڑھے گا یا نہیں بڑھے گا؟ میرا یقین ہے کہ ملک بہت آگے بڑھے گا۔ دنیا میں ساری چنوتیوں کو پار کرتے ہوئے ہمارا ملک اپنا مقام حاصل کرکے رہے گا، اس یقین کے ساتھ میں اس پروگرام کی منصوبہ بندی کے لیے سب کاشکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ سب بڑی تعداد میں آئے اور مجھے اتنے طویل عرصے تک آپ سب کو سننے کا آپ سے بات کرنے کا موقع ملا۔
بہت بہت شکریہ