Immense possibilities for festival tourism in India: PM Modi
Let us all celebrate achievements of India’s Nari Shakti on this Diwali: PM Modi
Sri Guru Nanak Dev Ji gave the message of ‘Sadbhaavna’ and ‘Samaanta’: PM
Sardar Vallabhbhai Patel, the ‘Iron Man of India’, united the country: PM Modi
Matter of joy that in just one year ‘Statue of Unity’ has become a major tourist hotspot: PM
‘Run for Unity’ symbolizes the country’s oneness: PM Modi

نئی دہلی،27 اکتوبر/        میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! آج دیوالی کا مقدس تہوار ہے۔ آپ سب کو دیوالی کی بہت بہت مبارکباد۔ ہمارے یہاں کہا گیا ہے۔

شبھم کروتی کلیانم آروگیم دھن سمپدا

شترو بدھی وناشیہ ، دیپا جیوتی نمستوتے

کتنا عمدہ پیغام ہے۔ اس شلوک میں کہا ہے — روشنی زندگی میں سکھ، صحت اور خوشحالی لے کر آتا ہے جو منفی سوچ  کو ختم کرکے ،مثبت سوچ کا باعث بنتا ہے۔ ایسی روشنی کو میرا سلام۔ اس دیوالی کو یاد رکھنے کے لیے اس سے بہتر فکر اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہم روشنی کو بڑھاوا دیں، اثباتیت کی تشہیر کریں اور دشمن کے جذبات کو ہی ختم کرنے کی دعا کریں۔ آج کل دنیا کے متعدد ملکوں میں دیوالی منائی جاتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس میں صرف ہندوستانی برادری شامل ہوتی ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ اب کئی ملکوں کی حکومتیں، وہاں کے شہری، وہاں کی سماجی تنظیمیں دیوالی کو پورے جوش وخروش کے ساتھ مناتی ہیں۔ ایک طرح سے وہاں ہندوستان کھڑا کردیتے ہیں۔

ساتھیو، دنیا میں فیسٹیول ٹورزم کا اپنی ہی کشش ہے۔ ہمارا ہندوستان، جو تہواروں کا ملک ہے، اس میں فیسٹیول ٹورزم کے بھی وسیع امکانات ہیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہولی ہو، دیوالی ہو، اونم ہو، پونگل ہو، بیہو ہو، ان جیسے تہواروں کو مشتہر کریں اور تہواروں کی خوشیوں میں، دیگر ریاستوں، دیگر ملکوں کے لوگوں کو بھی شامل کریں۔ ہمارے یہاں تو ہر ریاست، ہر علاقے کے اپنے اپنے اتنے مختلف تہوار ہوتے ہیں۔ دوسرے ملکوں کے لوگوں کی تو ان میں بہت دلچسپی ہوتی ہے۔ اس لیے، ہندوستان میں فیسٹیول ٹورزم کو فروغ دینے میں، ملک کے باہر رہنے والے ہندوستانیوں کا کردار بھی بہت اہم ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، پچھلے ‘من کی بات’ میں ہم نے طے کیا تھا کہ اس دیوالی پر کچھ الگ کریں گے۔ میں نے کہا تھا ۔ آیئے، ہم سبھی اس دیوالی پر ہندوستان کی ناری شکتی اور ان کی حصولیابیوں کو سیلیبریٹ کریں، یعنی ہندوستان کی لکشمی کا احترام۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر بیشمار ترغیبی کہانیوں کا انبار لگ گیا۔ وارنگل کے کوڈی پاکا رمیش نے نمو ایپ پر لکھا کہ میری ماں میری شکتی ہے۔ 1999 میں ، جب میرے والد کا انتقال ہوا تھا تو میری ماں نے ہی پانچوں بیٹوں کی ذمے داری اٹھائی۔ آج ہم پانچوں بھائی اچھے پروفیشن میں ہیں۔ میری ماں ہی میرے لیے بھگوان ہے۔ میرے لیے سب کچھ ہے اور وہ صحیح معنوں میں ہندوستان کی لکشمی ہے۔

رمیش جی، آپ کی ماتا جی کو میرا پرنام۔ ٹوئیٹر پر سرگرم رہنے والی گیتیکا سوامی کا کہنا ہے کہ  ان کے لیے میجر خوشبو کنور، ‘ہندوستان کی لکشمی ہے’ جو بس کنڈیکٹر کی بیٹی ہے اور انھوں نے آسام رائفل کی کُل خواتین دستے کی قیادت کی تھی۔ کویتا تیواری جی کے لیے تو ہندوستان کی لکشمی، ان کی بیٹی ہیں، جو ان کی طاقت بھی ہے۔ انھیں فخر ہے کہ ان کی بیٹی بہترین پینٹنگ کرتی ہے۔ اس نے سی ایل اے ٹی کے امتحان میں بہت اچھے رینک بھی حاصل کیے ہیں۔ وہیں میگھا جین جی نے لکھا ہے کہ 92 سال کی ایک بزرگ خاتون، سالوں سے گوالیار ریلوے اسٹیشن پر مسافروں کو مفت میں پانی پلاتی ہے۔ میگھا جی، اس ہندوستان کی لکشمی کی سادگی اور  ہمدردی سے کافی متاثر ہوئی ہیں۔ ایسے متعدد کہانیاں لوگوں نے شیئر کی ہیں آپ ضرور پڑھیے ، تحریک حاصل کیجیے اور خود بھی ایسا ہی کچھ اپنے آس پاس سے شیئر کیجیے۔ اور میں ہندوستان کی ان سبھی لکشمیوں کو  تہہ دل سے سلام کرتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنو، 17ویں صدی کی  مشہور شاعرہ سانچی ہونمّا، انھوں نے 17ویں صدی میں، کنّڑ زبان میں، ایک نظم لکھی تھی۔ وہ جذبہ، وہ الفاظ، ہندوستان کی ہر لکشمی، یہ جو ہم بات کر رہے ہیں نا، ایسے لگتا ہے جیسے کہ اس کی بنیاد 17ویں صدی میں ہی رکھ دی گئی تھی۔ کتنے اچھے الفاظ، کتنے عمدہ جذبے اور کتنے عمدہ خیالات، کنّڑ زبان کی اس نظم میں ہیں۔

(پینندہ پرمیگوندانو ہماونتانو

پینندہ بروہو پرچیدانو

پینندہ جنک رایانو جسوولیندانو)

اس کا مطلب ہیمونت یعنی پہاڑوں کے بادشاہ نے اپنی بیٹی پاروتی کے باعث، رشی بریگھو نے اپنی بیٹی لکشمی کے باعث اور راجا جنک نے اپنی بیٹی سیتا کے باعث شہرت پائی۔ ہماری بیٹیاں، ہمارے لیے باعث فخر ہیں اور ان بیٹیوں کےعظمت سے ہی ہمارے سماج کی ایک مضبوط شناخت ہے اور اس کا روشن مستقبل ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، 12 نومبر 2019 یہ وہ دن ہے، جس دن دنیا بھر میں، شری گرونانک دیو جی کا 550واں یوم پیدائش منایا  جائے گا۔ گرونانک دیو جی کا  اثر ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں ہمارے سکھ بھائی بہن بسے ہوئے ہیں جو گرونانک دیو جی کے فلسفوں کے تئیں پوری طرح سے  سرشار ہیں۔ میں وینکور اور تہران میں گرودواروں کے اپنے دوروں کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ شری گرونانک دیو جی کے بارے میں ایسا بہت کچھ ہے جسے میں آپ کے شیئر کرسکتا ہوں، لیکن اس کے لیے من کی بات کے کئی ایپی سوڈ لگ جائیں گے۔ انھوں نے، خدمت کو ہمیشہ سب سے پہلے رکھا۔ گرونانک دیو جی مانتے تھے کہ بے لوث جذبہ سے کی گئی خدمت کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی۔ وہ چھوا چھوت جیسی سماجی برائی کے خلاف مضبوطی کے ساتھ کھڑے رہے۔ شری گرونانک دیو جی نے اپنا پیغام دنیا میں، دو دور تک پہنچایا۔ وہ اپنے وقت میں سب سے زیادہ سفر کرنے والوں میں سے۔ کئی جگہوں پر گئے اور جہاں بھی گئے، وہاں اپنی سادگی، سادہ لوحی سے سب کا دل جیت لیا۔ گرونانک دیو جی نے کئی  اہم ترین مذہبی سفر کیے۔ جنھیں ‘اداسی’ کہا جاتا ہے۔ یکجہتی اور مساوات کا پیغام لے کر وہ شمال ہو یا جنوب، مشرق ہو یا مغرب، ہر سمت میں گئے، ہر جگہ لوگوں سے، سنتوں اور رشیوں سے ملے۔ مانا جاتا ہے کہ آسام کے مشہور سنت شنکر دیو بھی ان سے متاثر ہوئے تھے۔ انھوں نے ہریدوار کی مقدس سرزمین کا سفر کیا۔ کاشی میں ایک مقدس مقام، ‘گروباغ گرودوار’ ہے۔ ایسے کہا جاتا ہے کہ شری گرونانک دیو جی وہاں رکے تھے۔ وہ وہاں بودھ مذہب سے جڑی ‘راج گیر’ اور ‘گیا’ جیسی مذہبی جگہوں پر بھی گئے تھے۔ جنوب میں  گرونانک دیو جی، شری لنکا تک کا سفر کیا۔ کرناٹک میں بیدر کے سفر کے دوران، گرونانک دیو جی نے ہی وہاں پانی کی مشکلات کا حل نکالا تھا۔ بیدر میں‘ گرونانک جیرا صاحب’ نام کا ایک مشہور مقام ہے جو گرونانک دیو جی کی ہمیں یاد بھی دلاتا ہے، انھیں کے نام یہ منسوب ہے۔ ایک اداسی کے دوران، گرونانک جی نے جواب میں کشمیر اور  اور اس کے آس پاس کے علاقے کا بھی سفر کیا۔ اسے سکھ  پیروکاروں اور کشمیر کے بیچ کافی مضبوط رشتہ قائم ہوا۔ گرونانک تبت بھی گئے جہاں کے لوگوں نے انھیں گرو تسلیم کیا۔ وہ ازبیکستان میں بھی قابل پرستش ہیں جس کا انھوں نے سفر کیا تھا۔ اپنی ایک اداسی کے دوران، انھوں نے بڑے پیمانے پر اسلامی ملکوں کا بھی سفر کیا تھا۔ جس میں سعودی عرب، عراق اور افغانستان بھی شامل ہیں۔ وہ لاکھوں لوگوں کے دلوں میں بسے، جنھوں نے پوری عقیدت کے ساتھ ان کے پیغامات کی تعمیل کی اور آج بھی کر رہے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی،تقریباً 85 مکلوں کے سفیروں نے، دلّی سے امرتسر کا سفر کیا تھا۔ وہاں انھوں نے امرتسر سے گولڈن ٹیمپل کی زیارت کی اور یہ سب گرونانک دیو جی کے 550ویں پرکاش پرو کے تحت ہوا تھا۔ وہاں ان سارے سفیروں نے گولڈ ٹیمپل کی زیارت تو کی ہی۔ انھیں سکھ روایت اور ثقافت کے بارے میں بھی جاننے کا موقع ملا۔ اس کے بعد کئی سفیروں نے سوشل میڈیا پر وہاں کی تصویریں شیئر کیں۔ بڑے قابل فخر  اور اچھے تجربات کو بھی لکھا۔ میری تمنا ہے کہ گرونانک دیو جی کے 550ویں پرکاش پرو ہمیں ان کے خیالات اور فلسفوں کو اپنی زندگی میں اتارنے کی اور زیادہ تحریک دے۔ ایک بار  پھر میں سر جھکا کر گرونانک دیو جی کو سلام کرتا ہوں۔

میرے پیارے بھائیو اور بہنو، مجھے یقین ہے کہ 31 اکتوبر کی تاریخ آپ سب کو یقینا یاد ہوگی۔ یہ دن ہندوستان کے مردآہن سردار ولبھ بھائی پٹیل کا یوم پیدائش ہے جو ملک کو اتحاد کے دھاگے میں پرونے والے عظیم ہیرو تھے۔ سردار پٹیل میں جہاں لوگوں کو متحد کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی وہ لوگوں کے ساتھ بھی تال میل بٹھا لیتے تھے جن کے ساتھ فکری اختلاف ہوتے تھے۔ سردار پٹیل باریک سے باریک چیزوں کو بھی بہت گہرائی سے دیکھتے تھے، پرکھتے تھے، صحیح معنوں میں وہ ‘مین آف ڈیٹیل’ تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ ادارہ جاتی صلاحیت میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ منصوبوں کو تیار کرنے اور لائحہ عمل بنانے میں انھیں مہارت حاصل تھی۔ سردار صاحب کے طریقہ کار  کے موضوع پر جب پڑھتے ہیں، سنتے ہیں، تو پتہ چلتا ہے کہ  ان کی پلاننگ کتنی زبردست ہوتی تھی۔ 1921 میں احمد آباد میں کانگریس کے کنوینشن میں شامل ہونے کے لیے پورے ملک سے ہزاروں کی تعداد میں وفود پہنچنے والےتھے۔ کنونشن کے سارے انتظامات کی ذمہ داری سردار پٹیل پر تھی۔ اس موقع کا استعمال انھوں نے شہر میں پانی، سپلائی کے نیٹ ورک کو بھی سدھارنے کے لیے  کیا۔ یہ یقینی بنایا کہ کسی کو بھی پانی کی دقت نہ ہو۔ یہی نہیں انھیں اس بات کی بھی فکر تھی کہ کنونشن کے مقام سے کسی وفد کا سامان یا اس کے جوتے چوری نہ ہوجائیں اور اسے دھیان میں رکھتے ہوئے سردار پٹیل نے جو کیا وہ جانکر آپ بہت حیران ہوں گے۔ انھوں نے کسانوں سے رابطہ کیا اور ان سے کھادی کے بیگ بنانے کی درخواست کی۔ کسانوں نے بیگ بنائے اور نمائندگان کو فروخت کیے۔ اس بیگ میں جوتے ڈال کر اپنے ساتھ رکھنے سے وفود کے من سے جوتے چوری ہونے کی فکر ختم ہوگئی۔ وہیں دوسری طرف کھادی کے فروخت میں بھی کافی اضافہ ہوا۔ آئین ساز میں قابل ذکر کردار ادا کرنے کے لیے ہمارا ملک، سردار پٹیل کا ہمیشہ احسان مند رہے گا۔ انھوں نے بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کا اہم ترین کام انجام دیا، جس سے ذات اور فرقہ کے آدھار پر ہونے والے کسی بھی بھید بھاؤ کی گنجائش نہ باقی رہے۔

ساتھیو، ہم سب جانتے ہیں کہ ہندوستان کے پہلے وزیر داخلہ کی حیثیت سے سردار ولبھ بھائی پٹیل نے، ریاستوں کو ایک کرنے کا، ایک بہت بڑا اور تاریخی کام کیا۔ سردار ولبھ بھائی کی یہی خصوصیت تھی جن کی نظر ہر واقعے پر ٹکی تھی۔ ایک طرف ان کی نظریں حیدرآباد، جوناگڑھ اور دیگر ریاستوں پر مرکوز تھیں وہیں دوسری طرف ان کا دھیان دور دراز جنوب میں لکشدیپ پر بھی تھا۔ دراصل، جب ہم سردار پٹیل کی کوششوں کی بات کرتے ہیں تو ملک کے اتحاد میں کچھ خاص ریاستوں میں ہی ان کے رول کا ذکر ہوتا ہے۔ لکشدیپ جیسے چھوٹی جگہ کے لیے بھی انھوں نے اہم رول نبھایا تھا۔ اس بات کو لوگ شاید ہی یاد کرتے ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ لکشدیپ کچھ جزیروں کا مجموعہ ہے۔ یہ ہندوستان کے سب سے خوبصورت علاقوں میں سے ایک ہے۔ 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے فوراً بعد ہمارے پڑوسی کی نظر لکشدیپ پر تھی اور اس نے اپنے جھنڈے کے ساتھ جہاز بھیجا تھا۔ سردار پٹیل کو جیسے ہی اس بات کی جانکاری ہوئی انھوں نے بغیر وقت ضائع کیے، ذرا بھی دیر کیے بغیر فوراً سخت کارروائی شروع کردی۔ انھوں مدالیئر بھائیوں، آرکوٹ راماسامی مدالیئر اور آرکوٹ لکشمن سوامی مدالیئر سے کہا کہ وہ تراون کور کے لوگوں کو ساتھ  لے کر فوراً کوچ کریں اور وہاں ترنگا  لہرائیں۔ لکشدیپ میں  ترنگا پہلے لہرانا چاہیے۔ ان کے حکم کے فوراً بعد وہاں ترنگا لہرایا گیا اور لکشدیپ پر قبضہ کرنے کے پڑوسی کے ہر منصوبے دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو گئے۔ اس واقعے  کے بعد سردار پٹیل نے  مدولیئر بھائیوں سے کہا کہ وہ ذاتی طور پر یہ یقینی بنائیں کہ لکشدیپ کی ترقی کے لیے ہر ضروری امداد ملے۔ آج لکشدیپ ہندوستان کی ترقی میں اپنی اہم خدمات دے رہا ہے۔ یہ ایک پرکشش سیاحتی مقام بھی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ سب بھی اس کے خوبصورت جزیروں اور سمندری ساحلوں کا سفر کریں گے۔

میرے پیارے ہم وطنو، 31 اکتوبر 2018 کا دن، جس دن سردار صاحب کی یاد میں بنا ‘مجسمہ اتحاد’ ملک اور دنیا کے نام وقف کیا گیا تھا۔ یہ دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ ہے۔ امریکہ میں  ‘مجسمہ آزادی’ سے بھی اونچائی میں دوگنا ہے۔ دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ ہر ہندوستان کو فخر سے معمور کردیتا ہے۔ ہر ہندوستان کا سر شان سے اونچا اٹھ جاتا ہے۔ آپ کو خوشی ہوگی ایک سال میں 26 لاکھ سے زیادہ  سیاح ‘مجسمہ اتحاد’ کو دیکھنے کے لیے پہنچے۔ اس کا مطلب ہوا کہ یومیہ اوسطا ساڑھے آٹھ ہزار لوگوں نے ‘مجسمہ اتحاد’ کی عظمت  کا مشاہدہ کیا۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل کے تئیں ان کے دل میں جویقین ہے، عقیدہ ہے،  اس کا اظہار کیا اور اب تو وہاں کیکٹس گارڈن، بٹرفلائی گارڈن، جنگل سفاری،  چلڈرن نیوٹریشن پارک، ایکتا نرسری، ایسے متعدد پرکشش کے  مقامات مسلسل بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اور اس سے مقامی معیشت کو بھی فروغ مل رہا ہے۔ او رلوگوں کو روزگار کے نئے نئے مواقع بھی مل رہے ہیں۔ اور آنے والے سیاحوں کی سہولتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے کئی گاؤں والے اپنے اپنے گھروں میں ہوم اسٹے کی سہولت فراہم کروا رہے ہیں۔ ہوم اسٹے سہولتیں فراہم کرانے والے لوگوں کو پروفیشنل ٹریننگ بھی دی جارہی ہے۔ وہاں کے لوگوں نے اب ڈریگن فروٹ کی کھیتی بھی شروع کردی ہے اور مجھے یقین ہے کہ جلد ہی یہ وہاں کے لوگوں کی زندگی کا خاص ذریعہ بھی بن جائے گا۔

ساتھیو، ملک کے لیے، سبھی ریاستوں کے لیے سیاحت کی صنعت کے لیے، یہ مجسمہ اتحاد ایک مطالعہ کا موضوع ہوسکتا ہے۔ ہم سب اس کے گواہ ہیں کہ کیسے ایک سال کے اندر ایک مقام عالمی شہرت یافتہ سیاحتی مقام کے طور پر فروغ پاتا ہے۔ وہاں ملک اور بیرون ملک سے لوگ آتے ہیں اور ٹرانسپورٹ کی ٹھہرنے کی ، رہنمائی کرنے والوں کی، ماحول دوست انتظامات، ایک کے بعد ایک اپنے آپ بہت سارے انتظامات فروغ پاتے چلے جارہے ہیں۔ بہت بڑی اقتصادی ترقی ہو رہی ہے اور مسافرین کی ضرورتوں کے مطابق لوگ وہاں سہولتیں پیدا کر رہے ہیں۔ حکومت بھی اپنا رول ادا کر رہی ہے۔ ساتھیو کون ہندوستانی ہوگا جس کو اس بات کا فخر نہیں ہوگا کہ پچھلے دنوں ٹائم میگزین نے دنیا کے سو اہم ترین سیاحتی مقامات میں مجسمہ اتحاد کو  بھی اہم مقام دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ سبھی لوگ اپنے قیمتی وقت  سے کچھ وقت نکال کر مجسمہ اتحاد دیکھنے تو جائیں گے ہی، لیکن میری درخواست ہے کہ ہر ہندوستان جو سفر کرنے کے لیے وقت نکالتا ہے وہ ہندوستان کے کم سے کم 15 مقامات کا سفر اپنے خاندان کے ساتھ کرے جہاں جائے وہاں رات کو رکے، یہ میری درخواست تو برقرار ہی ہے۔

ساتھیو، جیسے کہ آپ جانتے ہی 2014 سے ہر سال 31 اکتوبر کو قومی ایکتا دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن ہمیں اپنے ملک کے اتحاد، سالمیت اور سلامتی کی ہر قیمت پر حفاظت کرنے کا پیغام دیتا ہے۔ 31 اکتوبر کو ہر بار کی طرح رن فار یونیٹی کا اہتمام  بھی کیا جارہا ہے۔ اس میں سماج کے ہر طبقے کے لوگ شامل ہوں گے۔ رن فار یونیٹی اس بات کی علامت ہے، یہ ملک ایک ہے، ایک سمت میں چل رہا ہے اور ایک مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایک مقصد، ایک ہندوستان، عظیم ہندوستان۔

پچھلے پانچ سال دیکھا گیا ہے نہ صرف دلّی لیکن ہندوستان کے سیکڑوں شہروں میں، مرکز کے زیر انتظام ریاستوں میں، راجدھانیوں میں ضلعی مراکز میں چھوٹی چھوٹی ٹیئر ٹو ٹیئر تھری سٹی میں بھی بہت بڑی تعداد میں مرد ہو ، عورت ہو  شہر کے لوگ ہوں ، گاؤں کے لوگ ہوں، بچے ہوں، نوجوان ہوں، عمر رسیدہ لوگ ہوں، معذور ہوں، سب لوگ بہت بڑی تعداد میں شامل ہو رہے ہیں۔ ویسے بھی آج کل دیکھیں تو لوگوں میر میراتھن کو لے کر ایک شوق اور جنون دیکھنے کو مل رہا ہے۔ رن فار یونیٹی بھی تو ایک ایسا ہی انوکھا پروویژن ہے۔ دوڑنا دل، دماغ اور جسم سب کے لیے مفید ہے۔ یہاں تو  دوڑنا بھی فٹ انڈیا کے جذبے کو سچ ثابت کرتا ہے۔ ساتھ  ساتھ، ایک ہندوستان، عظیم ہندوستان اس مقصد سے بھی ہم جڑ جاتے ہیں۔ اور اسی لیے صرف جسم نہیں، دل اور سنسکار ہندوستان کی  ایکتا کے لیے ہندوستان کو نئی بلندیوں پر پہنچانے کے لیے اور اس لیے آپ جس بھی شہر میں رہتے ہوں وہاں اپنے آس پاس رن فار یونیٹی کے  بارے میں پتہ کرسکتے ہیں اس کے لیے ایک پورٹل لانچ کیا گیا ہے۔ runforunity.gov.in اس پورٹل میں ملک بھر کی ان جگہوں کی جانکاری دی گئی ہے جہاں پر رن فار یونیٹی کا انعقاد ہونا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ سب 31 اکتوبر کو ضرور دوڑیں گے۔ ہندوستان کی ایکتا کے لیے، خود کی فٹنس کے لیے بھی۔

میرے پیارے ہم وطنو، سردار پٹیل نے ملک کو ایکتا کے دھاگے میں باندھا، ایکتا کا یہ منتر ہماری زندگی میں سنسکار کی طرح ہے اور ہندوستان جیسے تنوع سے بھرپور ملک میں ہمیں ہر سطح پر، ہر ڈگر پر، ہر موڑ پر، ہر پڑاؤ پر ایکتا کے اس منتر کو مضبوطی دیتے رہنا چاہیے۔ میرے پیارے ہم وطنو، ملک کی ایکتا اور آپسی بھائی چارہ کو مضبوط کرنے کے ہمارا سماج ہمیشہ سے بہت سرگرم   اور چوکنا رہا ہے۔ ہم  اپنے آپس پاس ہی دیکھیں تو ایسی کئی مثالیں ملیں گی جو آپسی بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے مسلسل کام کرتے رہے ہیں لیکن کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ سماج کی کوشش، اس کی خدمت، یادوں کی سطح سے بہت جلد اوجھل ہوجاتا ہے۔

ساتھیوں مجھے یاد ہے کہ ستمبر 2010 میں جب رام جنم  بھومی پر الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا۔ ذرا ان دنوں کو یاد کیجیے، کیسے ماحول تھا۔ طرح طرح کے کتنے لوگ میدان میں آگئے تھے۔ کیسے کیسے انٹرسٹ گروپ اس صورتحال کا اپنے اپنے طریقے سے فائدہ اٹھانے کے لیے کھیل کھیل رہے تھے۔ ماحول میں گرمی پیدا کرنے کے لیے  کس کس طرح کی زبان بولی جاتی تھی۔ مختلف آوازوں میں تیکھا پن بھرنے کی کوشش ہوتی تھی۔ کچھ بیان بازوں نے اور کچھ بڑبولوں نے صرف اور صرف خود کو چمکانے کے ارادے سے نہ جانے کیا کیا بول دیا تھا۔ کیسی کیسی غیر ذمہ دارانہ باتیں کی تھیں۔ ہمیں سب یاد ہے۔ لیکن یہ سب پانچ دن، سات دن، دس دن، چلتا رہا، لیکن جیسے ہی فیصلہ آیا، ایک لطف انگیز، حیران کن تبدیلی ملک نے محسوس کی۔ ایک طرف تو دو ہفتے تک گرماہٹ کے لیے سب کچھ ہوا تھا، لیکن جب رام جنم بھومی پر فیصلہ آیا تب حکومت نے، سیاسی جماعتوں نے سماجی تنظیموں نے، سول سوسائٹی نے، سبھی فرقوں کے نمائندوں نے سادھوں سنتوں نے بہت ہی متوازن اور صبر وتحمل سے بھر پور بیان دیئے۔ ماحول سے تناؤ کم کرنے کی کوشش کی، لیکن آج مجھے وہ دن برابر یاد ہے۔ جب بھی اس دن کو یاد کرتا ہوں من کو خوشی ہوتی ہے۔ عدلیہ کے وقار کو بہت ہی فخر سے احترام بخشا اور کہیں بھی گرماہٹ کا، تناؤ کا ماحول نہیں بننے دیا۔ یہ باتیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے۔ یہ ہمیں بہت طاقت دیتی ہے۔ وہ دن، وہ پل ہم سب کے لیے ایک  فرض شناسی کا لمحہ ہے۔ ایکتا کی آواز، ملک کو کتنی بڑی طاقت دیتا ہے اس کی یہ مثال ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، 31 اکتوبر ہمارے ملک کی سابق وزیر اعظم محترمہ اندرا جی کا قتل بھی اسی دن ہوا تھا۔ ملک کو ایک بہت بڑا صدمہ پہنچا تھا۔ میں آج ان کو بھی خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنو، آج گھر گھر کی اگر کوئی ایک کہانی سب دور سنائی دیتی ہے، ہر گاؤں کی کوئی ایک کہانی سنائی دیتی ہے— شمال سے جنوب، مشرق سے مغرب، ہندوستان کے ہر گوشے سے، ایک کہانی سنائی دیتی ہے تو وہ ہے سوچھتا کی۔ ہر شخص کو، ہر خاندان کو، ہر گاؤں کو، سوچھتا کے تعلق سے اپنے اچھے مشاہدات کو کہنے کا من کرتا ہے۔ کیونکہ، سوچھتا کی یہ کوشش سوا سو کروڑ ہندوستانیوں کی کوشش ہے۔ انجام کار بھی سوا سو کروڑ بھی ہندوستانی ہیں لیکن ایک اچھا تجربہ اور دلچسپ بھی ہے۔ میں نے سونا، میں سوچتا ہوں، میں آپ کو بھی سناؤ۔ آپ تصور کیجیے، دنیا کا سب سے اونچا میدان جنگ جہاں کا درجہ حرارت صفر سے پچاس ساٹھ ڈگری مائنس میں چلا جاتا ہے، ہوا میں آکسیجن بھی نام کا ہی ہوتا ہے۔ اتنی مخالف صورتحال میں، اتنے چیلنجوں کے بیچ رہنا بھا، کسی  کمال سے کم نہیں ہے۔ ایسی مشکل حالت میں ہمارے بہادر جوان نہ صرف سینا تان کر ملک کی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں بلکہ وہاں سوچھ سیاچین مہم بھی چلا رہے ہیں۔ ہندوستانی فوج کی اس غیر معمولی عہد بستگی کے لیے میں ہم وطنوں کی جانب سے ان کی ستائش کرتا ہوں۔  شکریے کا اظہار کرتا ہوں، وہاں اتنی سردی ہے کہ کچھ بھی ڈی کمپوز ہونا مشکل ہے۔ ایسے میں کوڑے کچرے کو الگ کرنا اور اس کا انتظام کرنا، اپنے آپ میں بہت اہم کام ہے۔ ایسے میں گلیشئر اور ان کے آس پاس کے علاقے سے 130 ٹن اور اس سے بھی زیادہ کچرا ہٹانا اور وہ بھی یہاں کے  کمزور ماحولیاتی نظام کے بیچ۔ کتنی بڑی خدمت ہے یہ۔ یہ ایک ایسا ماحولیاتی نظام ہے جو ہیم تیندوے جیسی نایاب نسل کا گھر ہے۔ یہاں آئی بیکس اور بھورے بھالو جیسے نایاب جانور بھی رہتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ سیاچین ایسا گلیشئر ہے جو ندیوں اور شفاف پانی کا  منبع ہے۔ اس لیے یہاں سوچھتا مہم چلانے کا مطلب ہے ان لوگوں کے لیے صاف پانی کو یقینی بنانا جو نچلے علاقوں میں رہتے ہیں۔ ساتھ ہی نبرا اور شیوک جیسے ندیوں کے پانی کا استعمال کرتے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، اتسو ، ہم سب کے جیون میں ایک نئے شعور کو جگانے والا تہوار ہوتا ہے۔ اور دیوالی میں تو خاص طور پر کچھ نہ کچھ نیا خریدنا بازار سے کچھ لانا ہر خاندان میں کم زیادہ مقدار میں ہوتا ہی ہوتا ہے۔ میں نے ایک بار کہا تھا کہ ہم کوشش کریں مقامی چیزوں کو خریدیں۔ ہماری ضرورت کی چیز ہمارے گاؤں میں ملتی ہے تو تحصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تحصیل میں ملتی ہے تو ضلع تک جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جتنا زیادہ ہم اپنی مقامی چیزیں خریدنے کی کوشش کریں گے ‘‘گاندھی 150’ اپنے آپ میں ایک عظیم موقع بن جائے گا۔ اور میری تو درخواستس رہتی ہی ہے کہ ہمارے بنکروں کے ہاتھ سے بنا ہوا ، ہمارے کھادی والوں کے ہاتھوں سے بنا ہوا کچھ نہ کچھ تو خریدنا ہی چاہیے۔ اس دیوالی میں بھی، دیوالی سے پہلے تو آپ نے بہت کچھ خرید کر لیا ہوگا۔ لیکن بہت لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں وہ سوچتے ہیں کہ دیوالی کے بعد جائیں گے تو تھوڑا سستا بھی مل جائے گا۔ تو بہت لوگ ہوں گے جن کی ابھی  خریداری باقی بھی ہوگی۔ تو دیوالی کی نیک خواہشات کے ساتھ ساتھ میں آپ سے اپیل کروں گا کہ آؤ ہم  مقامی چیزیں خریدنے کے  خریدار بنیں، مقامی چیزیں خریدیں، دیکھئے، مہاتما گاندھی کے خواب کو سچ کرنےمیں ہم بھی کتنا اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ میں پھر ایک بار اس دیوالی کے مقدس تہوار پر آپ کو بہت بہت  مبارکباد پیش کرتا ہوں، دیوالی میں ہم طرح طرح کے پٹاخے اس کا استعمال کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی بے احتیاطی میں آگ لگ جاتی ہے، کہیں زخمی ہوجاتے ہیں۔ میری آپ سب سے  درخواست ہے کہ خود کو بھی سنبھالیے اور تہوار کو بڑے امنگ سے منایئے۔ میری بہت بہت مبارکباد۔

بہت بہت شکریہ!

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...

Prime Minister Shri Narendra Modi paid homage today to Mahatma Gandhi at his statue in the historic Promenade Gardens in Georgetown, Guyana. He recalled Bapu’s eternal values of peace and non-violence which continue to guide humanity. The statue was installed in commemoration of Gandhiji’s 100th birth anniversary in 1969.

Prime Minister also paid floral tribute at the Arya Samaj monument located close by. This monument was unveiled in 2011 in commemoration of 100 years of the Arya Samaj movement in Guyana.