نمسکار!
سب سے پہلے، میں صدر رحمن کو ایس سی او کونسل کی کامیاب صدارت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ تاجکستان کی قیادت نے انتہائی چیلنجنگ صورتحال کے درمیان عالمی اور علاقائی سطح پر تنظیم کی موثر انداز میں رہنمائی کی ہے۔اس سال تاجکستان کی آزادی کی 30 ویں سالگرہ کے کے موقع پر، میں ہندوستان کی جانب سے تمام تاجک بھائیوں اور بہنوں اور صدر رحمان کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد اور نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
معززسرکردہ شخصیات،
اس سال ہم ایس سی او کی 20 ویں سالگرہ بھی منا رہے ہیں۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ اس مبارک موقع پر نئے دوست ہمارے ساتھ جڑُ رہے ہیں۔ میں ایران کو شنگھائی تعاون تنظیم کے نئے رکن ملک کے طور پر خوش آمدید کہتا ہوں۔ میں تین نئے مذاکراتی شراکت داروں سعودی عرب ، مصر اور قطر کا بھی خیر مقدم کرتا ہوں۔ ایس سی او کی توسیع ہماری تنظیم کے بڑھتے ہوئے اثر ات کو ظاہر کرتی ہے۔ ایس سی او نئے اراکین اورمذاکراتی شراکت داروں کے ساتھ مضبوط اور قابل اعتماد بن جائے گا۔
قابل احترام شخصیات،
ایس سی او کی 20 ویں سالگرہ بھی ایس سی او کے مستقبل کے بارے میں سوچنے کا ایک مناسب موقع ہمیں فراہم کرا رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس علاقے میں سب سے بڑے چیلنج امن ، سلامتی اور اعتماد کی کمی سے متعلق ہیں اور ان مسائل کی بنیادی وجہ بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی ہے۔ افغانستان میں حالیہ پیش رفت نے اس چیلنج کو مزید واضح کردیا ہے۔ ایس سی او کو اس مسئلے پر پہل کرنی چاہیے۔
اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے کہ وسطی ایشیا کا خطہ اعتدال پسند اور ترقی پسند ثقافتوں اور اقدار کا گڑھ رہا ہے۔ صدیوں سے یہاں تصوف جیسی روایات پھل پھول رہی ہیں اور پورے خطے اور دنیا میں پھیل گئی ہیں۔ ہم اب بھی اس علاقے کے ثقافتی ورثے میں ان کے اثرات کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ وسطی ایشیا کے اس تاریخی ورثے کی بنیاد پر ایس سی او کو بنیاد پرستی اور انتہا پسندی سے لڑنے کے لیے ایک مشترکہ ٹیمپلیٹ تیار کرنا چاہیے۔
ہندوستان میں اور تقریباًتمام ایس سی او ممالک میں اعتدال پسند ، روادار اور جامع ادارے اور روایات اسلام سے وابستہ ہیں۔ ایس سی او کو ان کے درمیان مضبوط نیٹ ورک بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اس تناظر میں ، میں SCO-RATS کی طرف سے کئے جانے والے مفید کاموں کی ستائش کرتا ہوں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ ہمارے ایس سی او کے پارٹنرز اس تعلق سے ہر طرح کی سرگرمیوں میں اپنی فعال اور متحرک شراکت ضرور درج کراوائیں گے جو کہ ہندوستان کی ایس سی او-ریٹس کی صدارت کے لیے بنایا گیا ہے۔
محترم شخصیات،
بنیاد پرستی کا مقابلہ نہ صرف علاقائی سلامتی اور باہمی اعتماد کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ ہماری نوجوان نسلوں کے روشن مستقبل کے لیے بھی ضروری ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے ، ہمارے خطے کو ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز میں سٹیک ہولڈر بننا ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں اپنے باصلاحیت نوجوانوں کو سائنس اور عقلی سوچ کی طرف راغب کرنا ہوگا۔
ہم اپنے نوجوان کاروباریوں اور اسٹارٹ اپس کو جوڑ کر اس قسم کی سوچ اور جدید جذبے کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اس نقطہ نظر کے ساتھ ، ہندوستان نے گزشتہ سال پہلی ایس سی او اسٹارٹ اپ فورم اور نوجوان سائنسدانوں کی کانفرنس کا اہتمام کیا تھا۔ پچھلے برسوں میں ، ہندوستان نے اپنے ترقیاتی سفر میں ٹیکنالوجی کا کامیابی سے استعمال کیا ہے۔
خواہ یہ یو پی آئی اور روپے کارڈ جیسی ٹیکنالوجی ہو تاکہ مالی شمولیت میں اضافہ کیا جاسکےیا ڈیجیٹل پلیٹ فارم جیسے ہمارے آروگیہ سیتو اور کووِن،نےکووڈ-19 کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے ،کو ہم نے رضاکارانہ طور پر انہیں دوسرے ممالک کے ساتھ شیئر بھی کیا ہے۔ ہم اپنے ایس سی او شراکت داروں کے ساتھ ان اوپن سورس ٹیکنالوجیز کا اشتراک کرتے ہوئے اور اس کے لیے صلاحیت بڑھانے کی متعلقہ سرگرمیوں کا اہتمام کرتے ہوئے خوشی محسوس کریں گے۔
محترم سرکردہ شخصیات،
اس خطے کی وسیع اقتصادی صلاحیت بھی بنیاد پرستی اور عدم تحفظ کی وجہ سے غیر استعمال شدہ رہی ہے ، معدنی دولت ہو یا انٹرا ایس سی او تجارت ، ان سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں باہمی رابطے پر زور دینا ہوگا۔ تاریخ میں وسطی ایشیا کا کردار اہم علاقائی منڈیوں کے درمیان رابطہ پل کا رہا ہے۔ یہ بھی اس خطے کی خوشحالی کی بنیاد تھی۔ بھارت وسطی ایشیا کے ساتھ اپنا رابطہ بڑھانے کے لیے پرعزم ہے۔
ہم اس تعلق سے پوری طرح پرُیقین اور پرُاعتماد ہیں کہ وسطی ایشیائی ممالک (جن کے چاروں طرف سمندر کہیں نہیں ہے)ہندوستان کی وسیع مارکیٹ سے جڑ کر بے حد فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ، باہمی اعتماد کی کمی کی وجہ سے آج ان کے لیے رابطے کے بہت سے آپشنز کھلے نہیں ہیں۔ ایران کی چابہار بندرگاہ میں ہماری سرمایہ کاری اور بین الاقوامی شمالی - جنوبی گلیارے کی جانب کی جانے والی ہماری کوششیں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
محترم شخصیات،
رابطے سے متعلق کسی بھی طرح کی پہل یک طرفہ نہیں ہو سکتیں۔ باہمی اعتماد کو یقینی بنانے کے لیے رابطے سے متعلق پروجکٹس ، مشاورت سے منسلک، شفاف اور شراکت دار ہونے چاہئیں۔ اس سلسلے میں، تمام ممالک کی علاقائی سالمیت کا احترام لازمی ہونا چاہیے۔ ان ہی اصولوں کی بنیاد پر، ایس سی او کو خطے میں رابطے کے منصوبوں کے لیے مناسب معیارات وضع کرنے چاہئیں۔
اس کے ذریعہ سے ہم اس خطے کے روایتی رابطے کو بحال کر سکیں گے اور تب ہی رابطے سے متعلق بنائے جانے والے منصوبے ہمیں جوڑنے کے لیے کام کریں گے ، نہ کہ ہمارے درمیان فاصلے بڑھانے کے لیے۔ اس کوشش کے لیے، بھارت اپنی طرف سے کوئی بھی رول ادا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔
قابل احترام شخصیات،
ایس سی او کی کامیابی کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اس کی بنیادی توجہ خطے کی ترجیحات پر رہی ہے۔ بنیاد پرستی کے خاتمے ، روابط اور لوگوں سے لوگوں کے تعلقات پر میری تجاویز ایس سی او کے اس کردار کو مزید مضبوط کریں گی۔ اس سے پہلے کہ میں اپنی گفتگو مکمل کروں ، مجھے ایک بار پھر اپنے معززمیزبان صدر رحمن کا شکریہ ادا کرنے دیں۔
کورونا کی وبا کے مشکل ترین چیلنج کے باوجود ، انہوں نے اس اجلاس کو کافی منظم انداز میں اورپوری کامیابی کے ساتھ منعقد کیا ہے۔ میں ازبکستان کو ایس سی او کے اگلے چیئرمین کی حیثیت سے نیک خواہشات بھی پیش کرتا ہوں اور ہندوستان کے مکمل تعاون کی یقین دہانی کراتا ہوں۔
بہت شکریہ!