محترم چیئرمین،

آج پوری دنیا کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے۔ شاید ہی کسی نے سوچا ہوگا کہ انسانیت کو اتنے مشکل دور سے گزرنا پڑے گا۔ اس طرح کے چیلنجوں کے درمیان ، اس دہائی کے آغاز میں ہی ہمارے معزز صدر نے مشترکہ ہاؤس میں اپنا خطاب دیا ، جو اپنے آپ میں اس چیلنجنگ دنیا میں ایک نئی امید جگانے والا، نیا جوش پیدا کرنے والا اور نیا  اعتماد بحال کرنے والا صدر جمہوریہ کا خطاب رہا ، خود انحصار کرنے والے ہندوستان کی راہ دکھانے والا اور اس دہائی کے لیے ایک  راستہ ہموار کرنے والا صدر جمہوریہ کا خطاب رہا۔

محترم چیئرمین،

میں آج آپ سب کے درمیان صدر مملکت کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنے کے لیے کھڑا ہوں۔ راجیہ سبھا میں 13 سے 14 گھنٹوں تک ، 50 سے زائد معزز ممبران نے اپنے خیالات ، قابل قدر نظریاتپیش کیے ، بہت سے پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا۔ اور اس لیے میں اس بحث کو تقویت بخش بنانے کے لیے تمام معزز ممبران کا بھی دلی شکریہادا کرتا ہوں۔ بہتر ہوتا اگر صدر جمہوریہ کی تقریر سننے کے لیے سب موجود ہوتے تو جمہوریت کا وقار اور بڑھ جاتا اور ہم سب کو کبھی شکوہ نہ ہوتا کہ ہم نے صدر کی تقریر نہیں سنی تھی۔ لیکن صدر کی تقریر کی طاقت اتنی تھی کہ وہ نہ سننے کے باوجود بھی بہت کچھ بول پائے۔ یہ اپنے آپ میں اس تقریر کی طاقت تھی ، ان خیالات کی طاقت تھی ، ان نظریات کی طاقت تھی جس کی وجہ سے نہ سننے کے باوجود بھی بات پہنچ گئی۔ اور اسی وجہ سے میرے خیال میں اس تقریر کی قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

محترم چیئرمین،

جیسا کہ میں نے کہا، کئی چیلنجوں کے درمیان صدر جمہوریہ کی دہائی کی یہ پہلی تقریر تھی۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جب ہم پوری دنیا کی سطح پر دیکھتے ہیں ، ہندوستان کے نوجوان ذہنوں کو دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ آج ہندوستان صحیح معنوں میں مواقع کی سرزمین ہے۔ بہت سارے مواقع ہمارےمنتظر ہیں۔ اور اس لیے ایک ایسا ملک جو جوان ہو ، جو ملک جوش سے بھرا ہو ، جو ملک بہت سے خواب دیکھ کر عزم کے ساتھ تکمیل کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہو ، وہ ملک ان مواقع کو کبھی جانے نہیں دے سکتا۔ ہم سب کے لیے یہ بھی ایک موقع ہے کہ ہم آزادی کے 75 سال میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ بذات خود ایک متاثر کن موقع ہے۔ ہم جہاں بھی ہوں ، جس شکل میں ہوں ، ہمیں آزادی کے 75 ویں سال کو بھارت ماں کے بچے کی حیثیت سے اس تہوار کو منانا چاہیے۔ آنے والے سالوں کے لیے ملک کو تیار کرنے کے لیے  ہمارے اندر کچھ نہ کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہونا چاہیے اور جب 2047 میں ہم آزادی کی صدی منائیں گے تو ہم ملک کو کس حد تک لے جائیں گے ، ہمیں ان خوابوں کو بار بار دیکھنا چاہیے۔ آج پوری دنیا ہندوستان کی طرف دیکھ رہی ہے ، بھارت سے توقعات بھی وابستہ ہیں اور لوگوں میں ایک یقین بھی ہے کہ اگر ہندوستان ایسا کرتا ہے، تو وہاں سے دنیا کے بہت سارے مسائل حل ہوجائیں گے ، آج دنیا میں ہندوستان کے لیے یہ اعتماد بڑھا ہے۔

محترم چیئرمین،

جب میں مواقع کی بات کر رہا ہوں، تو عظیم شاعر میتھلی شرن گپت جی کی نظم کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ گپت جی نے کہا تھا:

موقع آپ کے لیے کھڑا ہے، پھر بھی تو چپ چاپ پڑا ہے،

تیرا میدان عمل بڑا ہےپل پل ہے انمول، ارے بھارت اٹھ، آنکھیں کھول۔

یہ میتھلی شرن گپت جی نے لکھا ہے۔ لیکن میں سوچ رہا تھا اس دور میں، اکیسویں صدی کے آغاز میں اگر ان کو لکھنا ہوتا تو کیا لکھتے۔ میں تصور کرتا تھا کہ وہ لکھتے-

موقع تیرے لیے کھڑا ہے، تو اعتماد سے بھرا پڑا ہے،

ہر رکاوٹ، ہر بندش کو توڑ، ارے بھارت، خود انحصار کی راہ پر دوڑ۔

محترم چیئرمین،

کورونا کے دوران کس طرح کے عالمی حالات پیدا ہوئے، کسی کے لیے کسی کی مدد کرنا ناممکن ہو گیا۔ ایک ملک دوسرے ملک کی مدد نہ کر سکے۔ ایک ریاست دوسری ریاست کی مدد نہ کرسکے ، یہاں تک کہ خاندان کا ایک فرد دوسرے فرد کی مدد نہ کرسکے؛ایسا ماحول کورونا کی وجہ سے پیدا ہوا۔ دنیا نے ہندوستان کے لیے تو بہت سے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ دنیا بہت پریشان تھی کہ اگر بھارت کورونا کی اس وبا میں خود کو سنبھال نہ سکا تو پھر نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری انسانیت کو ایک بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بہت سارے لوگ پھنس جائیں گے ، لاکھوں لوگ مریں گے۔ ہمارے یہاں بھی ڈرانے کے لیے بھر پور باتیں ہوئیں۔ اور یہ کیوں ہوا یہ ہمارا سوال نہیں ہے ، کیوں کہ کوئی نامعلوم دشمن کیا کرسکتا ہے ، کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ ہر ایک نے اپنے اپنے طریقے سے اندازہ لگایاتھا۔ لیکن ہندوستان کو ہمارے ملک کے شہریوں کو کسی نامعلوم دشمن سے بچانے کا کوئی خیال نہیں تھا اور جس کے پاس پہلے کی روایت نہیں تھی کہ ایسی چیز سے کیسے نپٹا جا سکتا ہے، اس کے لیے یہ پروٹوکول ہو سکتا ہے، کچھ پتہ نہیں تھا۔

ایک نئے انداز میں ، ہر ایک کو نئی سوچ کے ساتھ چلنا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ اسکالروں ، قابل لوگوں کا کوئی دوسرا خیال ہو، لیکن وہ نامعلوم دشمن تھا۔ اور ہمیں راستے بھی ڈھونڈنے تھے۔ راستے بنانے بھی تھے اور لوگوں کو بچانا بھی تھا۔ اس وقت ، خدا نے جو بھی دانشمندی ، طاقت اور صلاحیت دی ، اس ملک نے ایسا کرکے ملک کو بچانے کی پوری کوشش کی۔ اور اب دنیا اس حقیقت پر فخر محسوس کرتی ہے کہ واقعی ہندوستان نے دنیا کی نسل انسانی کو بچانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس جنگ کو جیتنے کاسہرا کسی حکومت کے سر نہیں جاتا ، اور نہ ہی کسی شخص کو ، بلکہ ہندوستان کو جاتا ہے۔ فخر کرنے میں کیاجاتا ہے؟ دنیا کے سامنے اعتماد کے ساتھ بات کرنے میں کیا جاتا ہے؟ اس ملک نے کیا ہے۔ غریب سے غریب شخص نے یہ کام کیا ہے۔ اس وقت  سوشل میڈیامیں دیکھا ہوگا فٹ پاتھ پر چھوٹی جھونپڑی لگا کر بیٹھی بوڑھی ماں ، وہ بھی گھر کے باہر ، جھونپڑی کے باہر دیا جلا کر اچھے ہندوستان کی خواہش مند تھی ، ہم اس کا مذاق اڑا رہے ہیں؟ اس کے جذبات کا مذاق اڑا رہے ہیں؟ وقت ہے ، جس نے کبھی اسکول کا دروازہ نہیں دیکھا  اس کے ذہن میں ، جو بھی ملک کے لیے چراغ جلا کر اپنے ملک کی خدمت کرسکتا ہے ، اس نے اس جذبات کے ساتھ یہ کام کیا۔ اور اس نے ملک میں ایک اجتماعی طاقت بیدار کی تھی۔ اپنی طاقت ، صلاحیت کو متعارف کرایا تھا۔ لیکن اس کا بھی مذاق اڑانے میں مزا آ رہا ہے۔ مخالفت کرنے کے لیے بہت سارے معاملے ہیں اور کرنا بھی چاہیے۔ لیکن ایسی چیزوں میں نہ الجھیں جو ملک کے حوصلے پست کرتے ہیں ، جو ملک کی طاقت کو مجروح کرتے ہیں ، اس کا کبھی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔

ہمارے کورونا جنگجو ، ہمارے فرنٹ لائن ورکرز ، آپ تصور کرسکتے ہیں کہ جب چاروں طرف خدشہ ہے کہ کسی سے کورونا ہو جائے گا ، تو ایسے وقت میں اپنا فرض ادا کرنا ، اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا  کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ اس پر فخر کرنا چاہیے ، ان کا احترام کرنا چاہیے اور ان سب کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ملک نے آج یہ کرکے دکھایا ہے۔ آئیے ہم ذرا ماضی میں دیکھیں ، یہ تنقید کا وقت نہیں ، ہم نے ان حالات کو جی کر دیکھا ہے۔ کبھی چیچک کی بات ہوتی تھی ، خوف کتنا بڑھ جاتا تھا۔ پولیو کتنا ڈراؤنا لگتا تھا ، اس کی ویکسین لینے کے لیے کیا کیامحنت کرنا پڑیں ، کتنی پریشانی اٹھانی پڑی۔ کب  ملے گا ، کتنا ملے گا ، ہم اسے کیسے حاصل کریں گے، یہ دن ہم نے بتائے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ، اگر ان دنوں کو یادکریں ، تب آپ جان لیں گے کہ وہ ممالک جن کا شمار تیسری دنیا کے ممالک میں ہوتا ہے ، انہیں انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے ویکسین لے کر آنا چاہیے۔ ہمارے سائنس دان بھی اتنے کم وقت میں مشن موڈ میں مصروف رہے ہیں ، یہ بنی نوع انسان کی تاریخ میں ہندوستان کے تعاون کی ایک قابل فخر داستان ہے۔ آئیے ہم اس پر فخر کریں اور اس سے نئے اعتماد کو تحریک بھی ملتی ہے۔ آج ملک اس طرح کی کوششوں پر فخر محسوس کرسکتا ہے کہ میرے ملک میں دنیا کی سب سے بڑی ویکسین مہم چل رہی ہے۔ آج دنیا میں ویکسینیشن اگر تیز رفتار سے کہیں ہورہی ہے تویہ ہم سب کی ماں ہندوستان کی گود میں ہو رہی ہے۔ اور ہندوستان کی یہ صلاحیت کہاں نہیں پہنچی ہے۔

آج کورونا نے دنیا کے ساتھ تعلقات میں ہندوستان کو ایک نئی طاقت دی ہے۔ جب ابتدا میں کون سی دوا کام کرے گی ، کوئی ویکسین نہیں تھی ، تب پوری دنیا کی توجہ ہندوستان کی دوائیوں پر گئی۔ ہندوستان دنیا میں فارمیسی کا مرکز بن کر ابھرا۔ اس مشکل دور میں اس ملک نے 150 ممالک میں دوائیں پہنچانے کا کام بھی کیا ہے۔ ہم بنی نوع انسان کی حفاظت کے لیے پیچھے نہیں ہٹے۔ صرف یہی نہیں ، اس وقت بھی ویکسین کے سلسلے میں ، دنیا فخر کے ساتھ کہتی ہے کہ ہمیں ہندوستان کی ویکسین مل گئی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا کے بڑے اسپتالوں میں بھی ، جب بڑے لوگ آپریشن کرانے جاتے ہیں ، کوئی بڑا آپریشن ہوتا ہے ، تو آپریشن تھیٹر میں جانے کے بعد ، عمل شروع ہونے سے پہلے ، ان کی نگاہیں تلاش کرتی ہیں کہ کوئی ہندوستانی ڈاکٹر موجود ہے یا نہیں۔ اور جیسے ہی ٹیم کے اندر چند ہندوستانی ڈاکٹر نظر آتے ہیں ، انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ اب آپریشن ٹھیک ہوجائے گا۔ ملک نے یہی کمایا ہے۔ ہمیں اس پر فخر کرنا چاہیے۔ اور اس لیے ہمیں اسی فخر کو لے کر آگے بڑھنا ہے۔

اس کورونا میں  جیسے ہندوستان نے عالمی تعلقات میں اپنی ایک الگ شناخت بنائی ہے ، اسی طرح بھارت نے ہمارے وفاقی ڈھانچے کو اس کورونا دور میں ہماری موروثی طاقت کیا ہے ، ہم کس طرح مشکل اوقات میں مل کر کام کرسکتے ہیں۔ ایک ہی سمت میں اپنی تمام طاقت لاگو کرکے کیسے کوشش کر سکتے ہیں؛یہ مرکز اور ریاست نے مشترکہ طور پر کرکے دکھایا ہے۔ میں ریاستوں کو بھی ، کیوں کہ ایوان میں ریاستوں کا اپنا ذائقہ ہوتا ہے ، اور اسی لیے اس ایوان میں خاص طور پر ریاستوں اور تعاون پر مبنی وفاق کو مستحکم کرنے کے کام کو مبارکباد دیتا ہوں ۔اس کورونا بحران کو موقع میں بدلنے کا کام ہم سبھی نے کیا۔ لہذا ، ہر ایک مبارکباد کا حقدار ہے۔ یہاں جمہوریت کے بارے میں بہت سی باتیں کی گئی ہیں۔ بہت کچھ کہا گیا ہے۔ لیکن مجھے یقین نہیں ہے کہ جو کچھ کہا گیا ہے ، ملک کا کوئی شہری اس پر اعتماد کرے گا۔ ہندوستان کی جمہوریت ایسی نہیں ہے کہ ہم اس کی جلد کو اس طرح پھاڑ سکتے ہیں۔ ہمیں ایسی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ اور میں مسٹر ڈیرک جی کی باتیں سن رہا تھا۔ اچھے اچھے الفاظ استعمال ہورہے تھے۔ بولنے کی آزادی ،دہشت ،ہاؤنڈنگ ، الفاظ سنتے ہی ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بنگال کی بات کررہے ہیں کہ ملک کے بارے میں بتا رہے ہیں؟یہ قدرتی بات ہے کہ اگر آپ  چوبیس گھنٹے وہی دیکھتے ہیںوہی سنتے ہیں تو  شاید آپ نے غلطی سے وہی کچھ یہاں بتا دیا ہوگا۔ کانگریس کے ہمارے باجوہ صاحب بھی اس بار بہت اچھے انداز میں کہہ رہے تھے اور اتنا لمباکھینچ کر بتا رہے تھے کہ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ ابھی وہ تھوڑی ہی دیر میں ایمرجنسی میں پہنچ جائیں گے۔ میں نے محسوس کیا کہ تھوڑی دیر میں ایک قدم باقی ہے ، وہ 84 تک پہنچ جائیں گے ، لیکن وہ وہاں نہیں گئے۔ ٹھیک ہے ، کانگریس ملک کو بہت مایوس کرتی ہے ، آپ نے بھی مایوس کر دیا۔

محترم چیئرمین،

میں ایک قول اس ایوان کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اور خاص طور پر وہ لوگ جو جمہوریت پر شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں ، وہ لوگ جو ہندوستان کی بنیادی طاقت پر شک کرتے ہیں ، میں خصوصی درخواست کے ساتھ کہوں گا کہ اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ ”ہماری جمہوریت کسی بھی طرح مغربی ادارہ نہیں ہے۔ یہ ایک انسانی ادارہ ہے۔ ہندوستان کی تاریخ جمہوری اداروں کی مثالوں سے بھری ہے۔ ہمیں قدیم ہندوستان میں 81 جمہوریہ کی تفصیل ملتی ہے۔ آج  ضروری ہے کہ ہندوستانیوں کو ہندوستان کی قوم پرستی پر چاروں طرف سے ہونے والے حملے سے خبردار کیا جائے۔ ہندوستان کی قوم پرستی نہ تنگ ہے ، نہ خود غرض اور نہ ہی جارحانہ۔ یہ”ستیم شیوم سندرم“ کی قدروں سے متاثر ہے“۔

محترم چیئرمین،

یہ قول آزاد ہند فوج کی پہلی حکومت کے پہلے وزیر اعظم نیتا جی سبھاش چندر بوس کا ہے۔ اور اتفاق سے ، ہم آج 125 ویں یوم پیدائش منا رہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم نیتا جی کے ان خیالات ، نیتا جی کے ان جذباتوں ، نیتا جی کے ان نظریات کو نادانستہ طور پر بھول گئے ہیں۔ اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہم نے ہی ہمیں کوسنا شروع کردیا ہے۔ میں تو کبھی کبھی حیران ہو جاتا ہوں ، دنیا ہمیں جو بھی لفظ  پکڑا دیتی ہے ، ہم اسے پکڑ کر چلدیتے ہیں۔ ہمیں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سننا بھی پسند ہے ، ہاں یار ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ لیکن ہم نے اپنی نوجوان نسل کو یہ نہیں سکھایا کہ ہندوستان جمہوریت کیماں ہے۔ وہ جمہوریت کی ماں ہیں۔ ہم صرف بڑی جمہوریت ہی نہیں ہیں ، یہ ملک جمہوریت کی ماں ہے۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو یہ سبق سکھانا ہے اور ہمیں اس کو فخر کے ساتھ کہنا چاہیے کیونکہ ہمارے باپ دادا نے ہمیں وراثت بخشی ہے۔ ہندوستان کے نظم و نسق کا نظام جمہوری ہے  صرف اسی وجہ سے ہم جمہوری ملک نہیں ہیں۔ ہندوستان کی ثقافت ، ہندوستان کی تہذیب ، ہندوستان کی روایت ، ہندوستان کا ذہن جمہوری ہے لہذا ہمارا نظام جمہوری ہے۔

ایمرجنسی کے ان دنوں کو یاد کیجیے ، عدلیہ کی کیا حیثیت تھی ، میڈیا کیسا تھا ، حکومت کی کیا حالت تھی۔ سب کچھ جیل میں تبدیل ہوچکا تھا ، لیکن اس ملک کی ثقافت ، ملک کے عوام ، جو جمہوریت کے رنگوں میں رنگے تھے ، اسے کوئی ہلا نہیں سکتا تھے۔ موقع ملنے پر انہوں نے جمہوریت کو فوراً ہی متاثر کیا۔ یہ عوام کی طاقت ہے ، یہ ہماری ثقافت کی طاقت ہے ، یہ جمہوری اقدار کی طاقت ہے ، مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کون اس کے بارے میں بات کررہا ہے، کون سی حکومت نے یہ کیا ہے ، نہ ہی ایسی چیزوں میں وقت گزارنے کے لیےآپ نے مجھے یہاں بٹھایا ہے۔ ہمیں جمہوری اقدار کا تحفظ کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ خود انحصار ہندوستان کے سلسلے میں بھی تبادلہ خیال ہوا۔ میرےساتھی دھرمیندر پردھان جینے ایک مفصل بیان دیا ہے کہ ایک خود انحصار کرنے والے ہندوستان کے لیے ہمارا کیا رخ ہے؟ لیکن ایک بات ٹھیک ہے کہ معاشی میدان میں بھی ہندوستان کی آج جو رسائی ہو رہی ہے۔ دنیا کے لوگ کورونا کے دور میں سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں۔ سب چیزیں سامنے آچکی ہیں۔ لیکن ہندوستان وہیں ہے جہاں ریکارڈ سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ تمام حقائق بتا رہے ہیں کہ بہت سارے ممالک کی معاشی صورتحال تباہ کن ہے۔ جبکہ دنیا ہندوستان میں ڈبل ڈیجیٹل نمو کی توقع کر رہی ہے۔ ایک طرف مایوسی کی فضا ہے ، تو ہندوستان میں امید کی کرن نظر آ رہی ہے ، یہ دنیا کی طرف سے آواز اٹھ رہی ہے۔

آج بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر ریکارڈ سطح پر ہیں۔ آج  ہندوستان میں خوراک کی پیداوار ریکارڈ سطح پر ہے۔ ہندوستان آج دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں انٹرنیٹ کے صارف موجود ہیں۔ ہندوستان میں آج  یو پی آئی کے توسط سے ہر مہینے 4 لاکھ کروڑ روپے کی لین دین ڈیجیٹل ہو رہی ہے۔ یادکیجیے ، میں اسی ایوان کی تقریر میں سن رہا تھا ... دو سال ، تین سال پہلے ... لوگوں کے پاس موبائل کہاں ہے ،  لوگ ڈیجیٹل کیسے کریں گے ، اس ملک کی طاقت دیکھیں ... ہر ماہ4 لاکھ کروڑو روپے موبائل فون بنانے والے کے طور پر ہندوستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔ ہندوستان میں ریکارڈ تعداد میں اسٹارٹ اپ ہیں ،یونی کارن اور جس کا پوری دنیا میں نام ہونے لگا ہے۔ ہماری نوجوان نسل بھی اس دھرتی پر یہی کام کر رہی ہے۔ تجدید توانائی کے شعبے میں ، ہم نے دنیا کے پہلے پانچ ممالک میں اپنی جگہ بنالی ہے اور ہم آنے والے وقت میں اوپر ہی چڑھتے جائیں گے۔ پانی ہو ، زمین ہو، آسمان ہو ، خلا ہو… ہندوستان اپنی حفاظت کے لیے ہر شعبے میں اپنی طاقت کے ساتھ کھڑا ہے۔ سرجیکل اسٹرائک ہو یا ہوائی حملے ، دنیا نے ہندوستان کی صلاحیت دیکھی ہے۔

محترم چیئرمین،

جب میں 2014 میں پہلی بار اس ایوان میں آیا تھا ، میں اس احاطے میں آیا تھا اور جب مجھے نیتا کے طور پر منتخب کیا گیا تھا ، تو میں نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ میری حکومت غریبوں کے لیے وقف ہے۔ میں آج دوبارہ آنے کے بعد بھیی ہی چیز دہرا رہا ہوں۔ اور ہم نے نہ تو اپنی سمت بدلی ہے اور نہ ہی اپنی بات سے پھرے ہیں ہم اسی مزاج کے ساتھ کام کر رہے ہیں کیونکہ اس ملک میں آگے بڑھنے کے لیے ہمیں غربت سے آزاد رہنا ہوگا۔ ہمیں کوششیں کرتے رہنا ہو گا۔ اگر پہلے کوششیں کی گئی ہوں گی تو پھر ہمیں اس میں مزید اضافہ کرنا ہوگا ، ہم رک نہیں سکتے۔ جتنا کر لیا بہت ہے ... نہیں رک سکتے ، ہمیں اور کرنا ہی ہوگا۔ آج  مجھے خوشی ہے کہ جو بنیادی ضرورت ہے وہ  زندگی کی آسانی کے لیے ہے اور جس سے اعتماد پیدا ہوتا ہے اور ایک بار غریبوں کے ذہن میں اعتماد بھر جاتا ہے ، تب غریب خود غربت کے چیلنج کو طاقت دینے کے ساتھ کھڑا ہوجائے گا ، غریب کسی کی مدد کامحتاج نہیںہوگا۔ یہ میرا تجربہ ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ 10 کروڑ سے زائد بیت الخلا تعمیر ہوچکے ہیں ، 41 کروڑ سے زیادہ لوگوں کے کھاتے کھولے گئے ہیں۔ 2 کروڑ سے زیادہ غریبوں کے مکانات تعمیر ہوئے ہیں۔ 8 کروڑ سے زیادہ مفت گیس کنکشن دیے گئے ہیں۔ پانچ لاکھ روپے تک کا مفت علاج غریبوں کی زندگی میں ایک بڑی طاقت بن کر آیا ہے۔ ایسی بہت ساری اسکیمیں جو غریبوں کی زندگیوں میں تبدیلی لا رہی ہیں۔ نیایقین پیدا کررہی ہیں۔

محترم چیئرمین،

چیلنجز ہیں ، اگر چیلنجز نہ ہوتے تو کہیں بھی کچھ نظر نہیں آئے گا ، ایک خوشحال سے خوشحال ملک ہو اس میں بھی چیلنجزہوتے ہیں ، اس کے چیلنج مختلف ہوتے ہیں ، ہمارے چیلنج  مختلف قسم کے ہیں۔ لیکن ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ آیا ہم مسئلے کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا ہم حل کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ بس یہ پتلی سی لکیر ہے اگر ہم مسئلے کا حصہ بن گئے تو سیاست تو چل جائے گی ، لیکن اگر ہم حل کا ذریعہ بن جائیں تو سیاست کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم موجودہ نسل کے لئے سوچیں ، ہمیں آنے والی نسل کے لئے بھی سوچنا ہے۔ مشکلات ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر ہم مل کر کام کریں گے، اعتماد کے ساتھ کام کریں گے ، توہم حالات کے ساتھ بھی بدلیں گے اور ہم مطلوبہ نتائج بھی حاصل کرسکیں گے۔یہ میرا پختہ یقین ہے۔

محترم چیئرمین،

ایوان میں کسانوں کی تحریک پر بہت زیادہ بحث ہوئی ہے ، زیادہ سے زیادہ وقت جو باتیں بتائی گئیں وہ تحریک کے بارے میں بتائی گئیں۔ ہر ایک اس پر خاموش ہے کہ یہ تحریک کس بات کو لے کر ہے۔ تحریک کیسی ہے ، تحریک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ ان سب چیزوں کو بہت بتایا گیا ہے ، یہ بھی ضروری ہے ، لیکن بنیادی چیز جو ہے… اچھا ہوتا کہ اس پر تفصیل سے بات کی جاتی۔ جس طرح ہمارے معزز وزیر زراعت نے جو سوالات بہت اچھے انداز میں پوچھے ہیں ، مجھے ان سوالوں کے جواب تو نہیں مل پائیں گے میں جانتا ہوں، لیکن انہوں نے اس موضوع پر بہت اچھی طرح سے گفتگو کی ہے۔  میں قابل احترام دیوگوڑا جی کا بہت شکر گزار ہوں۔ انہوں نے اس ساری گفتگو پر سنجیدگی سے غور کیا اور انہوں نے حکومت کی اچھی کاوشوں کو بھی سراہا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں کسانوں کے لیےکام کیا ہے اور انہوں نے حکومت کی کوششوں کو بھی سراہا ہے اورچھی تجاویز بھی پیش کی ہیں۔  میں محترم دیوگوڑا جی کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

محترم چیئرمین،

کھیتی کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟ اس کی جڑیں کہاں ہیں؟ میں آج سابق وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ نے جو تفصیل سے بتایا تھا اس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ بہت سارے لوگ ہیں جو چودھری چرن سنگھ کی میراث کو سنبھالنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ، وہ شاید اس کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ وہ اکثر 1971 میں جو زراعت سے مردم شماری ہوئی تھی اس کا ذکر ان کی زبان میں ضرور آتا تھا۔ چودھری چرن سنگھ جی نے کیا کہا تھا… ان کا قول ہے کہ اگر کسانوں کی مردم شماری کی جائے تو ، 33 فیصد کسان ایسے ہیں جن کے پاس زمین 2 بگھا سے کم ہے ، 2 بگھا نہیں ہے ، 2 بگھا سے بھی کم ہیں۔ 18 فیصدجوکسان کہلاتے ہیں ان کے پاس 2 بیگھا سے 4 بیگھا زمین ہے ، یعنی نصف ہیکٹر سے ایک ہیکٹر ... یہ 51 فیصد کسان ہیں ، یہ چاہے کتنی ہی محنت کریں اپنی چھوٹی سی زمین پر ان کا گزر ایمانداری سے نہیں ہو سکتا۔ یہ چودھری چرن سنگھ کا ایک حوالہ ہے۔ چھوٹے کاشتکاروں کی قابل رحم حالت نے ہمیشہ چودھری چرن سنگھ جی کو بہت تکلیف دی۔ انھیں ہمیشہ اس کی فکر رہتی تھی۔ اب ہم آگے دیکھیں گے۔ ایسے کاشتکار جن کے پاس ایک ہیکٹر سے بھی کم زمین ہوتے ہے، 1971 میں وہ 51 فیصد تھے ، آج وہ 68 فیصد ہیں۔ یعنی  ملک میں ان کسانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جن کے پاس بہت کم زمین ہے اور اگر ہم آج چھوٹے اور پسماندہ کسانوں کو ملا دیں تو 86 فیصد سے زیادہ کسانوں کے پاس 2 ہیکٹر سے بھی کم زمین ہے۔ اور ایسے کسانوں کی تعداد 12 کروڑ ہے۔ کیا ان 12 کروڑ کسانوں کے تئیں ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ، کیا ملک کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟ کیا ہمیں کبھی بھی ان 12 کروڑ کسانوں کو اپنی اسکیموں کے مرکز میں رکھنا پڑے گا یا نہیں رکھنا پڑے گا؟ اس سوال کا جواب ہمارے پاس چودھری چرن سنگھ جی  چھوڑ گئے ہیں ... ہمیں اس کا جواب ڈھونڈنا ہوگا۔ ہمیں اس کام کے لئے چودھری چرن سنگھ جی کو سچی خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جس کو جو موقع ملے ہر ایک کو کرنا ہوگا تب جا کر ہم یہ کرسکتے ہیں۔

اب کیا پہلے کی حکومتوں کی سوچ میں چھوٹا کسان تھا؟ اگر ہم ایک بار سوچیں تو دھیان آئے گا، میں تنقید کے لیے نہیں کہہ رہا بلکہ واقعی،  ہم سب کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم انتخابات آتے ہی ایک پروگرام کرتے ہیں قرض معافی وہ کسان کا پروگرام ہے… یہ ووٹوں کا پروگرام ہے جسے ہر ایک اچھی طرح جانتا ہے۔ لیکن جب قرض معافی کرتے ہیں… جب چھوٹا کسان اس سے محروم رہتا ہے۔ اس کی قسمت میں کچھ نہیں آتا۔ کیونکہ قرض معافی ... اس کے لئے ہے جو بینک سے قرض لیتا ہے .. غریب کسان کا بینک میں اکاؤنٹ نہیں ہوتا ... وہ قرض لینے کہاں جائے گا؟ ہم نے یہ چھوٹے کسان کے لئے نہیں کیا ہے ...بھلے ہی ہم نے سیاست کر لی ہو۔ ایک دو ایکڑزمین والا کسان جس کے پاس نہ تو بینک اکاؤنٹ ہے وہ نہ تو قرض لیتا ہے اور نہ ہی اسے قرض معافی کا فائدہ ملتا ہے۔ اسی طرح پہلے کی فصل انشورنس اسکیم کیا تھی ... ایک طرح سے وہ انشورنس جو بینک گارنٹی کے طور پر کام کرتا تھااور وہ بھی چھوٹے کسان کا مقدر نہیں تھا۔ وہ بھی ان ہی کسانوں کے لیے تھا جن کے پاس بینک کا قرض تھا ، انکا انشورنس تھا ، بینک والوں کو بھی یقین ہو جاتا تھا ، کام  چل جاتا تھا۔

آج 2 ہیکٹر سے کم کتنے کسان ہوں گے جو بیک سے قرض لیں گے... آب پاشی کی سہولت بھی چھوٹے کسان کے نصیب میں نہیں ہے ، بڑے کسان تو بڑا بڑا پمپ لگا دیتے تھے، ٹیوب ویل کر دیتے تھے، بجلی بھی لے لیتے تھے، اور بجلی مفت بھی مل جاتی تھی، ان کا کام چل جاتا تھا۔ چھوٹے کسان کے لیے تو سنچائی کی بھی دقت تھی۔ وہ تو ٹیوب ویل لگا ہی نہیں سکتا تھاکبھی کبھی تو اسے بڑے کسان سے پانی خریدنا پڑتاتھا۔ یوریا... بڑے کسان کو یوریا حاصل کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ چھوٹے کسان کو رات رات بھر لائن میں کھڑا رہنا پڑتا تھا۔ اس میں ڈنڈے چلتے تھے اور کبھی کبھی تو بیچارہ یوریا کے بغیر گھر واپس لوٹ جاتا تھا۔ ہم چھوٹے کسانوں کی حالت جانتے ہیں… 2014 کے بعد ہم نے کچھ تبدیلیاں کیں ، ہم نے فصلوں کی انشورنس اسکیم کے دائرہ کار میں توسیع کی تاکہ کاشتکار… چھوٹے کاشتکار بھی اس سے فائدہ اٹھاسکیں اور اس کام کو بہت معمولی رقم سے شروع کیا اور پچھلے 4 سے 5 سالوں میں ، فصل انشورنس اسکیم کے تحت ، اس کے دعویدار کسانوں کو 90 ہزار کروڑ روپے مل چکے ہیں۔ قرض معافی سے بھی اعداد و شمار بڑے ہو جاتے ہیں جی۔

پھر کسان کریڈٹ کارڈ دیکھیں۔ ہمارے یہاں کسان کریڈٹ کارڈ تھے ، لیکن بڑے کسانوں کے پاس جاتے تھے اور وہ بینک سے بہت ہی کم سود پر کچھ ریاستوں میں تو صفر فیصد سود پر ان کو مل جاتے تھے پیسے اور ان کے پاس کچھ کاروبار ہوتا تھا رقم وہاں بھی لگ جاتی تھی۔ یہ چھوٹے کسان کےنصیب میں نہیں تھا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم ہندوستان کے ہر کسان کو کریڈٹ کارڈ دیں گے ، نہ صرف یہ ، ہم نے اس کا دائرہ ماہی گیروں تک بڑھایا ہے تاکہ وہ بھی اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔ اور پونے دو کروڑ سے زیادہ کسانوں تک ان کریڈٹ کارڈوں سے فائدہ اٹھا چکے ہیں اور ہم دیگر ریاستوں سے بھی مستقل طور پر اس پر عمل پیرا ہونے کی تاکید کر رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ کسان اس سے مستفید ہوسکیں۔ اور ریاستوں کی مدد جتنی زیادہ ملے گی ، اتنا ہیزیادہ کام ہو جائے گا۔ اسی طرح ، ہم ایک اسکیم لے کر آئے…پردھان منتری کسان سمنان ندھی یوجنا۔ اس کے ذریعہ ، رقم براہ راست کسان کے کھاتے میں جاتی ہے۔ اور اس غریب کسان کے پاس جس کو کبھی اس قسم کی مدد نہیں ملی۔ ایسے دس کروڑ خاندان ہیں جنھوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔

اگر بنگال میں سیاست آڑے نہ آتی تو بنگال کے کاشتکار بھی اگر شامل ہوجاتے  تو یہ تعداد اور بھی زیادہ ہوجاتی، اور اب تک 1 لاکھ 15 ہزار کروڑ روپے ان کسانوں کے کھاتے میں جا چکے ہوتے۔ یہ غریب چھوٹا کسان ہے  اس کے پاس گیا ہے جو ہماری تمام اسکیموں کا مرکز نگاہ ہیں۔سوئل ہیلتھ کارڈ ہم نے سو فیصد سوئل ہیلتھ کارڈ  کے بارے میں بات کی ،تاکہ ہمارے چھوٹے کسان کو اس کی زمین کیسی ہے ، کس چیز کی پیداوار کے لیے ہے۔ ہم نے 100 فیصد سوئل ہیلتھ کارڈ کے لئے کام کیا، اسی طرح ہم نے یوریا کا نیم کوٹیڈ یوریا  ہم نے 100 فیصد دیا۔ 100 فیصد کے پیچھے ہمارا ارادہ یہی تھا کہ کہ غریب سے غریب کسان تک بھی یوریا پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ یوریا ڈائیورٹ  ہونا بند ہو اور اس میں ہم سمجھتے ہوئے پہلی بار چھوٹے اور پسماندہ کسانوں کے لئے پنشن کی سہولت کہ اسکیم لے کر آئےاور میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے چھوٹے کسان بھی آہستہ آہستہ آ رہے ہیں۔ اسی طرح پردھان منتری گرام سڑک یوجنا .... پردھان منتری گرام سڑک یوجنا ، یہ صرف ایک سڑک نہیں ہے ، کسانوں کی زندگی بدلنے کے لئے یہ ایک بہت بڑی چیز ہے۔ اور ہم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ  پہلی بار ہم نے کسان ریلکا تصور کیا۔ چھوٹے کسانوں کا سامان فروخت نہیں ہوتا تھا ، آج کسان ریل کی وجہ سے گاؤں کے کسان اپنے سامان کو ممبئی کے بازار میں فروخت کرنے لگے ، پھلوں اور سبزیوں کو بیچنا شروع کردیا ہے۔  اس کا فائدہ ہو رہا ہے۔ چھوٹا کسان فائدہ اٹھا رہا ہے۔ کسان اڑان اسکیم .... کسان اڑان اسکیم کے ذریعہ ، ہوائی جہاز سے جیسے ہمارےنارتھ ایسٹ جیسی بہترین چیزیں لیکن نقل و حمل کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے  وہاں کا کسان ہمارا فائدہ نہیں اٹھا پاتا تھا۔ آج اس کو کسان اڑان اسکیم کا فائدہ مل رہا ہے۔ سبھی چھوٹے کسانوں کی پریشانیوں سے واقف ہیں… وقتا فوقتا انھیں بااختیار بنانے کا مطالبہ بھی ہوتا رہا ہے۔

ہمارے قابل احترام شرد پوار جی اور کانگریس کے بھی ہر کسی نے… ہر حکومت نے زرعی اصلاحات کی وکالت کی ہے۔ پیچھے کوئی نہیں ہے کیونکہ سب کو لگتا ہے کہ ایسا کرنے سے قاصر رہنا الگ بات ہے، لیکن یہ ہونا چاہیے ، یہباتیں ہر ایک کی نکلی ہوئی ہیں اور آج ہی نہیں جب بھی جو جہاں تھے سب نے کی ہیں۔ اور شرد پوار جی نے تو ایک بیانبھی دیا کہ میں اصلاحات کے حق میں ہوں۔ ٹھیک ہے ، اس کے طریقہ کار کے بارے میں ان کے ذہن میں ایک سوال ہے لیکن انہوں نے اصلاحات کی مخالفت نہیں کی۔ اور اسی وجہ سے مجھے لگتا ہے کہ ہمارے ساتھی مسٹر سندھیا جی یہاں بہت سارے پہلوؤں پر اس قانون کو لے کر یہاں پر باتیں کی ہیں۔ یہ تمام چیزیں گذشتہ دو دہائیوں سے مسلسل جاری ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ ہمارے آنے کے بعد ہی ہوا ہے۔ سب نے کہا ہے اور اب وقت آگیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے یہ ٹھیک ہے کہ کوما فل اسٹاپ مختلف ہوسکتا ہے ، لیکن کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا ہے کہ ہمارے دور میں بہت اچھا تھا ، میں بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ ہمارے وقت کی سوچ بہت اچھی ہے اور دس سال بعدکوئی سوچ آ ہی نہیں سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے ، یہ معاشرہ تغیر پذیر ہے۔

آج کے وقت میں جو ہمیں صحیح محسوس ہواتو چلو ہم بھی وہاں بھی بہتری لائیں گے ... ہم نئی چیزوں کو شامل کریں گے ، یہ ترقی کا راستہ ہوتا ہے ... رکاوٹیں ڈال کر ترقی کہاں ہوتی ہے ، اور اسی لیےمجھے حیرت ہوئی کہ اچانک یوٹرن لے لیا، ایسا کیا ہو گیا۔  ٹھیک ہے  اب تحریک کے معاملے کو لے کر اس حکومت کو گھیر لیتے ہیں ، لیکن ساتھ ہی کسانوں کو بھی کہتے ہیں کہ بھائی تبدیلی بہت ضروری ہے، بہت سال ہو گئے اب نئی چیزیں لینی ہوں گی۔ تو ملک آگے بڑھتا ہے ، لیکن اب میں محسوس کرتا ہوں کہ سیاست اتنی حاوی ہو جاتی ہے کہ اپنے ہی نظریات چھوٹ جاتے  ہیں۔ لیکن یہ سب جو کررہے ہیں وہ اچھا ہے۔ محترم ڈاکٹر منموہن سنگھ جی یہاں موجود ہیں ، میں آج ان کا ایک اقتباس پڑھنا چاہتا ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ جو لوگ یو ٹرن کر رہے ہیں میری بات مانیں یا نہ مانیں منموہن سنگھ جی کی بات ضرور قبول کریں گے ۔

 

there are other rigidities because of the whole marketing regime setup in the 1930’s which prevent our farmers from selling their produce where they get the highest rate of return. It is our intention to remove.... It is our intention to remove all those handicaps which come in the way of India realizing its vast potential as one large common market.

 

یہ محترم منموہن سنگھ کا قول ہے۔ جناب منموہن سنگھ جی نے کسان کو پیداوار  بیچنے کی آزادی دلانے، اور ہندوستان کو زرعی منڈی بنانے کے متعلق اپنا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ اور یہی کام ہم کر رہے ہیں۔ اور آپ لوگوں کو فخر ہونا چاہیے ... دیکھیں ... محترم منموہن سنگھ جی نے کہا تھا ... وہ مودی کو کرنا پڑ رہا ہے۔ ارے فخر کیجیے…. اور مزے کی بات یہ ہے کہ جو لوگ سیاسی بیان بازی کرتے ہیں ، ان کی ریاستوں میں بھی جب انہیں موقع ملا ہے اسی میں سے آدھا ادھورا کچھ نہ کچھ کیا ہی ہے۔ یہاں مخالفت میں جو پارٹیاں شامل ہیں سب نے اپنی حکومتوں  میں کوئی نہ کوئی کام آدھا ادھورا کیا ہے کہ وہ بھی جانتے  ہیں کہ راستہ تو یہی ہے۔ اور میں نے دیکھا کہ اس بحث میں قانون کی روح پر بات نہیں کی گئی ہے ، شکایت یہی ہے کہ طریقہ ٹھیک نہیں تھا ، اس کو جلدی کر دیا گیا۔وہ تو جب خاندان میں شادی ہوتی ہے تو پھوپھی ناراض ہو کر کہتی ہیں کہ مجھے کہاں بلایاتھا ، وہ تو رہتا ہے۔ اگر آپ کا اتنا بڑا کنبہ ہے تو یہ تو رہتا ہی ہے۔

اب ہم کچھ اور باتوں پر بھی دھیان دیں۔ اب دیکھیے… دودھ کی پیداوار… کسی بھی طرح کے بندھن میں  نہیں بندھا ہے۔ نہ ہی مویشی پالنے والا بندھن میں بندھا ہوا ہے نہ دودھ ،لیکن مزہ دیکھیے، دودھ کے میدان میں  نجی یا کوآپریٹویا  دونوں نے مل کراتنی مضبوط زنجیر تشکیل دی ہے ، دونوں مل کر یہ کام کررہے ہیں۔ اور ہمارے ملک میں ایک بہت بڑا سپلائی چین بنایا گیا ہے۔ یہ جو کیا گیا ہے اچھا ہے ، اور ہم نے اسے اپنے دور میں نہیں کیاہے آپ کو اس پر فخر ہوسکتا ہے۔ میرے کام سے پہلے بنا ہوا ہے۔  ہمیں فخر کرنا چاہیے۔ زیادہ تر منڈیوں کا پھلوں اور سبزیوں کے کاروبار سے براہ راست رابطہ رہتا ہے ، منڈیوں میں مداخلت ہٹ گئی ہے ، اس سے فوائد مل رہے ہیں۔ کیا ڈیری والے پھل سبزی خریدنے والے، مویشی پالکوں یا کسان کی زمین پر قبضہ ہو جاتا ہے ان کے مویشیوں پر قبضہ ہو جاتا ہے۔ دودھ بکتا ہے ، مویشی نہیں بکتا ہے جی ، دودھ کی صنعت کا ہمارے ملک میںبڑا تعاون ہے ، زرعی معیشت کی کل مالیت کا 28 فیصد سے زیادہ یعنی ، ہم زراعت پر اتنی بات کرتے ہیں ، ہم اس پہلو کو بھول جاتے ہیں۔ اس میں 28 فیصد حصہ ہے۔ اور تقریباً آٹھ لاکھ کروڑ کا کاروبار ہے۔ جتنے  روپے کا دودھ ہوتا ہے اس کی قیمت اناج اور دال دونوں ملا دیں تو اس سے زیادہ ہے۔ ہم اس موضوع کو کبھی نہیں دیکھتے ہیں۔  مویشی پانے والوں کو پوری آزادی، اناج اور دال پیدا کرنے والے چھوٹے اور پسماندہ کسانوں کو… .جیسے مویشی پانے والوں کو آزادی ملی ہے ، تو انہیں آزادی کیوں نہیں ملنی چاہئے؟ اب اگر ہمیں ان سوالات کے جواب مل گئے تو ہم سیدھے راستے پر گامزن ہوں گے۔

محترم چیئرمین،

یہ بات سچ ہے کیونکہ جیسا ہم لوگوں کی فطرت رہی ہے کہ اگر ہمیں گھر میں بھی تھوڑی  سی تبدیلی کرنا پڑے  تو گھر میں بھی تناؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ یہاں کرسی کیوں رکھی ہے ، یہاں ٹیبل کیوں ہے… یہ گھر میں بھی ہوتا ہے۔ یہ اتنا بڑا ملک ہے اور جس طرح کیروایات کے ساتھ ہم بڑے ہوئے ہیں یہ فطری بات ہے کہ مجھے یقین ہے کہ جب بھی کوئی نئی چیز آتی ہے تو ہمیشہ تھوڑا سا کنفیوژن ہوتا ہے۔ لیکن ذرا ان دنوں کو یاد رکھیں جب گرین انقلاب کی بات ہو رہی تھی۔ یہاں تک کہ زرعی اصلاحات جو سبز انقلاب کے دوران رونما ہوئیں ، خدشات ، تحریکیں جو واقع ہوئیں ، اس کے دستاویزیثبوت موجود ہیں ، اور یہ دیکھنے جیسا ہے۔ زرعی اصلاحات کے لئے سخت فیصلے کرنے کے  اس دور میں ، شاستری جی کی حالت یہ تھی کہ ان کا کوئی ساتھی وزیر زراعت بننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ کیونکہ ایسا لگتا تھا کہ ہاتھ جل جائیں گے اور کسان ناراض ہوگئے تو سیاست مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ یہ شاستری جی کے وقت کے واقعات ہیں ، اور آخر کار شاستری جی کو مسٹر سبرامنیم جی کو وزیر زراعت بنانا پڑا  تھا اور انہوں نے اصلاحات کی بات کی ، پلاننگ کمیشن نے بھی اس کی مخالفت کی تھی ، مزے کی بات دیکھیے ...پلاننگ کمیشن نے بھی احتجاج کیا تھا ، جس میں وزارت خزانہ سمیت پوری کابینہ میں احتجاج کی آوازیں اٹھی تھیں۔ لیکن ملک کی بہتری کے لئے ، شاستری جی آگے بڑھے اور بائیں بازو کی جماعتیں جو آج زبان بولتی ہیں، وہ اس وقت بھی بولتی تھیں۔ وہ یہی کہتے تھے کہ شاستری جی امریکہ کے اشارے پر یہ کررہے ہیں۔ کانگریس یہ کام امریکہ کے کہنے پر کررہی ہے۔ سارا دن… آج میرے اکاؤنٹ میں جمع ہے ، اور نہ ہی اس سے پہلے آپ کے اکاؤنٹ میں تھا۔ ہمارے کانگریس کے نیتاؤں کو کو ہر چیزکے لیے امریکہ کا ایجنٹ کہا جاتا تھا۔ یہ سب جو بائیں بازو والے زبان بولتے ہیں ، وہ اس وقت بھی یہی زبان بولتے تھے۔ زرعی اصلاحات کو چھوٹے کسانوں کو تباہ کرنے والا بتایا گیا تھا۔  ملک بھر میں ہزاروں مظاہرے کیے گئے۔ بڑی تحریک ہوئی۔ اسی ماحول میں  لال بہادر شاستری جی اور اس کے بعد چلنے والی حکومت جو کرتی رہی اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم جو کبھی پی ایل-480  منگواکر کھاتے تھے ، آج ہمارے ملک کے کسان اپنی مٹی سے تیار کردہ چیزیں کھاتے ہیں۔ ریکارڈ پیداوار کے باوجود ہمارے زراعت کے شعبے میں مسائل موجود ہیں ، کوئی ان سے انکار نہیں کرسکتا  کہ پریشانی نہیں ہے ، لیکن ہم سب کو مل کر مسائل حل کرنا ہوں گے۔ اور مجھے یقین ہے کہ اب وقت زیادہ انتظار نہیں کرے گا۔

ہمارے رام گوپال جی نے بہت اچھی بات کہی ... انہوں نے کہا کہ ہمارے کسانوں نے کورونا لاک ڈاؤن میں بھی ریکارڈپیداوار کیا ہے۔ حکومت نے بھی کورونا دور میں بیجوں ، کھادوں ، ہر چیز کی فراہمی میں کوئی کمی نہیں ہونے دی ، کسی بحران کو آنے نہیں دیا اور اس کا اجتماعی نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں یہ ذخیرہ موجود تھا۔ پیداوار کی ریکارڈ خریداری بھی اس کورونا دور میں ہوئی۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں نئے اقدامات ڈھونڈ کر آگے بڑھنا ہے اور جیسا کہ میں نے کہا ، بہت سارے قوانین موجود ہیں ، ہر قانون میں دو سال بعد ، پانچ سال بعد ، دو ماہ ، تین ماہ کے بعد ، ترمیمات ہوتی ہیں۔ ہم صرف جامد صورتحال میں زندگی گزارنے والے نہیں ہیں۔  جب اچھی تجاویزآتی ہیں تو اچھی بہتری آتی ہے۔ اور حکومت نے بھی اچھی تجاویز کو قبول کیا اور نہ صرف ہماری ، ہر حکومت نے اچھی تجاویز کو قبول کیا ہے، یہی جمہوری روایت ہے۔ اور اس لیے ہم سب کو اچھا کرنے کے لیےاچھی تجاویز کے ساتھ اچھی تجاویز کی تیاری کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ میں آپ سب کو دعوت دیتا ہوں۔ آئیے ہم ملک کو آگے لے جانے کے لیے، زرعی شعبے کے مسائل کو حل کرنے کے لیے، آندولن کرنے والوں کو سمجھاتے ہوئے ہمیں ملک کو آگے لے جا نا ہوگا۔ ہوسکتا ہے ، اگر آج نہیں  تو کل جو بھی یہاں ہوگا ، کسی نہ کسی کو یہ کام کرنا پڑے گا۔ آج میں نے کیا ہے، گالیاں میرے حساب میں جانے دو ... لیکن یہ اچھا کام کرنے میں آج میرے ساتھ شامل ہوجائیں۔ برا ہو میرےحصے میں ،اچھا ہو وہ آپ کے حصے میں…آؤ مل کر ساتھ چلیں۔ اور میں مسلسل، میرے وزیر زراعت لگاتار کسانوں سے بات کر رہے ہیں۔ اکثر ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ اور ابھی تک کوئی تناؤ پیدا نہیں ہوا ہے۔ ایک دوسرے کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اور ہم تحریک سے وابستہ لوگوں سے مستقل دعا کرتے ہیں کہ تحریک کرنا آپ کا حق ہے۔ لیکن اس طرح سے  بزرگ لوگ وہاں بیٹھیں یہ ٹھیک نہیں ہے۔ آپ ان سب کو لے جائیے۔ تحریک کو ختم کیجیے ،آگے بڑھنے کے لیے اکٹھے بیٹھ کر بات کریں گے۔ راستے کھلے ہیں۔ یہ ہم سب نے کہا ہے اور میں آج بھی انہیں ایوان کے توسط سے دعوت دیتا ہوں۔

محترم چیئرمین،

یہ یقینی ہے کہ ہمارے کھیتی کو خوشحال بنانے کے لئے فیصلے کرنے کا وقت ہے ، یہ وقت ہمیں ضائع نہیںکرنا چاہئے۔ ہمیں آگے بڑھنا چاہیے .. ملک کو پیچھے نہیں لے جانا چاہئے۔ اپوزیشن ہو ، تحریک کے ساتھی ہوں ، ہمیں ان اصلاحات کو ایک موقع فراہم کرنا چاہئے۔ اور ایک بار یہ دیکھنا چاہئے کہ ہمیں اس تبدیلی سے فائدہ ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر کوئی کمی ہے تو اسے ٹھیک کریں گے ، اور اگر کہیں ڈھیلا پن ہے تو اسےمضبوط کریں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ تمام دروازے بند ہیں ... لہذا میں کہتا ہوں ... میں یقین دلاتا ہوں کہ منڈیاں مزید جدید بنیں، مسابقت بڑھے گی ، اس بار ہم نے بجٹ میں بھی اس کے لئے بندوبست کیا ہے۔ نہ صرف یہ کہ ایم ایس پی ہے ، بلکہ ایم ایس پی تھی ، اور ایم ایس پیرہے گی۔ آئیے ہم اس ایوان کے تقدس کو سمجھیں…جن  80 کروڑ سے زیادہ افراد کوسستے میں راشن دیا جاتا ہے وہ بھی جاری رہنا چاہئے۔ لہذا ، براہ کرم الجھن پھیلانے کے کام میں شامل نہ ہوں۔ کیونکہ ملک نے ہمیں ایک خاص ذمہ داری دی ہے۔ ہمیں کسانوں کی آمدنی میں اضافے کے لیے دوسرے اقدامات پر بھی زور دینے کی ضرورت ہے۔ آبادی بڑھ رہی ہے۔ کنبہ کے اندر ، ممبروں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ زمین کے ٹکڑے ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کاشتکاروں پر بوجھ کم کرنے کے لئے کچھ کرنا ہوگا ، اور ہم اپنے کسانوں کو روزگار کمانے کے مزید مواقع فراہم کرسکیں۔ ہمیں ان کی مشکلات پر قابو پانے کے لئے کام کرنا ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ اگر ہم تاخیر کریں گے۔ اگر ہم اپنی ہی سیاسی چالوں میں پھنسے رہیں گے تو ہم کسانوں کو اندھیروں کی طرف دھکیل دیں گے۔ براہ کرم  روشن کسانوں کے روشن مستقبل کے لیے ہمیں اس سے گریز کرنا چاہئے۔ میں سب سے درخواست کرتا ہوں۔ ہمیں اس بات  کی فکر کرنی ہوگی۔

محترم چیئرمین،

ہمارے زراعت کے شعبے کے ساتھ ساتھ ڈیری اور مویشی پالن کو بھی فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے کسان ترقی کریں۔ اسی طرح ہم نے فٹ اینڈ ماؤتھ ڈیزیز کے لئے ایک بہت بڑی مہم چلائی ہے جس سے مویشی پالنے والوں، کاشتکاروں اور کاشتکار سے جڑے ہوئے لوگوں کو فائدہ ہوگا۔ ہم نے ماہی گیری پر بھی زور دیا ہے ، علیحدہ وزارتیں تشکیل دیں اور ماہی گیری اسکیم کے لئے 20 ہزار کروڑ کی سرمایہ کاری کی ہے۔ تاکہ اس پورے شعبے کو ایک نئی قوت مل سکے۔ سوئیٹ ریو لوشن  میں بہت زیادہ صلاحیتیں موجود ہیں لہذا ہندوستان کو اس کے لئے زیادہ زمین کی ضرورت نہیں ہے ، یہاں تک کہ اگر اپنے ہی کھیت کے کونے میں اسے کرتے ہیں تو  وہ 40 سے 50 ہزار ، لاکھ روپے ، دو لاکھ روپے سال میں کما لیں گے سال اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس دنیا میں شہد کے لیے، اسی طرح موم کی مانگ ہے۔ بھارت موم برآمد کرسکتا ہے۔ ہم نے اس کے لئے ایک ماحول تیار کیا ہے اور اگر کسانوں کے کھیت میں کوئی چھوٹا کسان ہے تو وہ نئی آمدنی حاصل کرسکتا ہے ، ہمیں اسے شامل کرنا ہوگا۔ اور سیکڑوں ایکڑ اراضی مکھیوں کے پالنے کے لئے درکار نہیں ہے۔ وہ اپنےیہاں آرام سے کرسکتا ہے۔ شمسی توانائی پمپ ... شمسی توانائی سے ہم کہتے ہیں کہ اناج فراہم کرنے والا کسان اپنے کھیت میں شمسی توانائی سے توانائی پیدا کرسکتا ہے ، توانائی پیدا کرنے ، اپنے پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے شمسی پمپ چلا سکتا ہے۔ اس کے اخراجات ، بوجھ کو کم کریں۔ اور اگر فصل ایک لیتی ہے تو دو لے لو ، پھر تین لے لو۔ اگر آپ اسے تھوڑا سا انداز میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں تو آپ اسے تبدیل کرسکتے ہیں۔ ہم اس سمت جاسکتے ہیں۔ اور ایک چیز ہندوستان کی طاقت یہ رہی ہے کہ وہ اس طرح کے مسائل کا حل تلاش کرتا اور نئی راہیں تلاش کرتا ہے ،آگے بھیراستے کھلیں گے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ہندوستان کو غیر مستحکم ، بے چین رکھنے کے لئے مستقل کوششیں کر رہے ہیں۔ ہمیں ان لوگوں کو جاننے کی ضرورت ہے۔

ہم یہ نہ بھولیں کہ پنجاب کے ساتھ کیا ہوا۔ تقسیم ہونے پر پنجاب کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ جب 84 کے ہنگامے ہوئے، سب سے زیادہ آنسو پنجاب کے بہے ، پنجاب سب سے دردناک واقعات کا شکار ہوا۔ جموں و کشمیر میں جو ہوا ، بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ شمال مشرق میں بم بندوقوں اور گولیوں کا کاروبار جاری رہا۔ ان سب چیزوں نے کسی نہ کسی طرح ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے پیچھے کون طاقتیں ہیں، ہر وقت ، ہر حکومت نے اسے دیکھا ہے ، اسے جانا اور اسے آزمایا ہے۔ اور اس طرح ہم ان تمام مسائل کو اس جذبے کے ساتھ حل کرنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھے ہیں اور ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کچھ لوگ ، خاص طور پر پنجاب سے ، خاص طور پر سکھ بھائیوں کے ذہنوں میں ، غلط چیزیں بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ملک ہر سکھ کے لئے فخر کرتا ہے۔ انہوں نے ملک کے لئے کیا نہیں کیا جتنا ہم ان کا احترام کریں گے کم ہے۔ گرؤوں کی عظیم روایات میں سے… .مجھے پنجابی روٹی کھانے کا موقع ملا ہے۔ میں پنجاب میں اپنی زندگی کے اہم سال جانتا ہوں ، لہذا میں جانتا ہوں۔ اور اس طرح جو زبان ان کے لیے کچھ لوگ بولتے ہیں ، جو لوگ ان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اس سے ملک کو کبھی فائدہ نہیں ہوگا۔ اور اس لئے ہمیں اس سمت میں فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

محترم چیئرمین صاحب،

ہم لوگ کچھ الفاظ سے بہت واقف ہیں - مزدور ، دانشور ، ان تمام الفاظ سے واقف ہیں۔ لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ کچھ عرصے سے ، ملک میں ایک نئی برادری پیدا ہوئی ہے ، ایک نئی برادری ابھری ہے اور وہ ہیں آندولن جیوی۔ آپ کو یہ گروپ نظر آئے گا۔ چاہے وکلا کی تحریک ہو ، وہ وہاں نظر آئیں گے۔ طلباء کی تحریک ہے ،ووہ وہاں نظر آئے گا۔ کارکنوں کی تحریک ہو، وہ وہاں نظر آئیں گے، کبھی پردے کے پیچھے ، کبھی پردے کےآ گے۔ ایک پوری ٹیم ہے جو آندولن جیوی ہے۔ وہ تحریک کے بغیر نہیں جی سکتے اور تحریک کے ذریعے زندگی گزارنے کے طریقے تلاش کرتے رہتےہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں کی شناخت کرنی ہوگی ، جو ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں اور ایک بہت بڑا نظریاتی موقف دیتے ہیں ، گمراہ کرتے ہیں ، نئے طریقے بتاتے ہیں۔ اس کے لئے ملک کو ان آندولن جیویوں سے بچانا چاہئے ، اس کے لئے ہم سب… اور یہ ان کی طاقت ہے… ان کی کیا بات ہے ، چیزیں خود کھڑی نہیں کرسکتے ہیں ، اگر کسی کی چل رہی ہے تو جا کر بیٹھ جاتے ہیں… وہ اپنا جتنے دن چلے، چل جاتا ہے ان کا۔ ایسے لوگوں کی شناخت کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ یہ سب آندولن جیوی پرجیوی ہیں۔ اور یہاں سب میری باتوں سے لطف اٹھائیں گے کیونکہ جہاں بھی آپ حکومتیں چلائیں گے ، آپ کو بھی ایسے پرجیویآندولن جیویوں کا  سامنا ہوگا۔ اور اسی طرح ، میں اسی طرح سے ایک نئی چیز دیکھ رہا ہوں۔ ملک ترقی کر رہا ہے ، ہم  ایف ڈی آئی  کی بات کر رہے ہیں،  فورن ڈائریکٹ انویسٹ منٹ ۔ لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ ان دنوں میدان میں ایک نیاایف ڈی آئی  آگیا ہے۔ یہ ملک کو نئی ایف ڈی آئی سے بچانا ہے۔  فورن ڈائریکٹ انویسٹ منٹ کی ضرورت ہے۔ لیکن جو نئی ایف ڈی آئی دیکھنے میں آرہی ہے ، اس نئی ایف ڈی آئی سےلازمی طور پر گریز کرنا چاہئے ،اور یہ نیا ایف ڈی آئی ہے فورن ڈسٹریکٹیو آئیڈو لوجی ، اور اسی لئے ہمیں ملک کو اس ایف ڈی آئی سے بچانے کے لئے زیادہ سے زیادہ آگاہی لانے کی ضرورت ہے۔

محترم چیئرمین،

 ہمارے ملک کی ترقی کے لئے دیہی معیشت کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ دیہی معیشت ہمارے خود انحصار ہندوستان کا ایک اہم ستون ہے۔ خود پر منحصر ہندوستان ، یہ سرکاری پروگرام نہیں ہوسکتا اور نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ایک سو بیس کروڑ شہریوں کا عہد ہونا چاہئے۔ ہمیں فخر کرنا چاہئے اور  اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے۔ اور مہاتما گاندھی جیسے عظیم آدمی نے ہمیں اس طرح کا راستہ دکھایا۔ اگر ہم وہاں سے تھوڑا سا ہٹ گئے ہیں تو پھر ہمیں اس پٹری پر واپس آنے کی ضرورت ہے، اور ہمیں خود انحصار ہندوستان کی راہ پر گامزن ہونا پڑے گا۔ اگر گاؤں اور شہر کے مابین فاصلے کو دور کرنا ہے تو اس کے لئے بھی ہمیں خود انحصار ہندوستان کی طرف بڑھنا ہوگا۔ اور مجھے یقین ہے کہ جب ہم ان چیزوں کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں تو پھر ہمارے ملک کے عام آدمی کا اعتماد بڑھ جائے گا۔ جس طرح ابھی سوال جواب کے اندرآبی زندگی مشن پر تبادلہ خیال کیا جارہا تھا - اتنے کم وقت میں تین کروڑ کنبوں کو پینے کا پانی فراہم کرنے اور نلکیوں کے رابطے فراہم کرنے کا کام ہوچکا ہے۔ خود انحصاری اسی وقت ممکن ہے جب ہر شخص معیشت میں حصہ لے۔ ہماری سونل بہن نے اپنی تقریر میں بہنوں اور بیٹیوں کی شرکت پر خصوصی توجہ دی۔

کورونا دور میں ، چاہے وہ راشن ہو ، مالی امداد ہو،یا مفت گیس سلنڈر۔ حکومت نے ہماریماؤں اور بہنوں کا ہر طرح سے خیال رکھنے کی کوشش کی ہے کہ وہ تکلیف میں مبتلا نہ ہوں اور انھوں نے طاقت بن کر ان چیزوں کو سنبھالنے میں بھی مدد کی ہے۔ جس طرح اس مشکل صورتحال میںہمارے ملک کی خواتین کی طاقت نے بڑے صبر و تحمل سے کنبہ کو سنبھالا ہے ، حالات کو سنبھالا ہے، کورونا کی اس لڑائی میں ہر خاندان کی مادری طاقت نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اور جتنا میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اتنا ہی کم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ  خود انحصار کرنے میں بھی ہماری ماؤں اور بہنوں کا ایک اہم کردار ہوگا۔ آج ، ہماری بیٹیوں کی شرکت جنگ کے میدان میں بھی بڑھ رہی ہے۔ جو نئے لیبر کورٹ تشکیل دیے گئے ہیں ان میں بیٹیوں کو ہر شعبے میں کام کرنے کے مساوی حقوق دیے گئے ہیں۔ مدرا یوجنا سے لیا گیا 70 فیصد قرض  جو ہماری بہنوں نے لیا ہے ، یعنی ایک طرح سے یہ اضافہ ہے۔ تقریبا  7 کروڑ خواتین کی شرکت سے ، 60 لاکھ سے زیادہ سیلف ہیلپ گروپس آج خود انحصار ہندوستان کی کوششوں کو ایک نئی طاقت دے رہے ہیں۔

ہم ہندوستان کی نوجوانوں کی طاقت پر جتنا زیادہ زور دیں گے، ہم انھیں جتنے زیادہ مواقع فراہم کریں گے ، مجھے لگتا ہے کہ وہ ایک روشن مستقبل کے لئے ، ہمارے ملک ، مستقبل کے لئے ایک مضبوط بنیاد بنیں گے۔ قومی تعلیمی پالیسی جو آئی ہے ، قومی تعلیمی پالیسی نے ہماری نوجوان نسل کو بھی نئے مواقع دینے کی کوشش کی ہے۔ اور مجھے خوشی ہے کہ ایک طویل مدتی تعلیمی پالیسی پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے ، لیکن اس ملک میں جس طرح سے اسے تسلیم کیا گیا ہے اس سے ایک نیایقین پیدا ہوا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ یہ نئی تعلیمی پالیسی ، نئی قومی تعلیمی پالیسی ہمارے ملک میں ایک نئے انداز میں پڑھنے کے ایک نئے انداز کے خیال کی ابتدا ہے۔

ہمارا ایم ایس ایم ای  سیکٹر۔ ایم ایس ایم ای کو روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع مل رہے ہیں۔ اور جب کورونا دور میں ترغیب کی بات کی گئی تو ، ایم ایس ایم ای کو بھی پوری توجہ ملی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے ایم ایس ایم ای معاشی بحالی میں بڑا کردار ادا کررہے ہیں اور ہم اسے آگے لے جارہے ہیں۔

ہم شروعات سے ہی ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس‘ کے منتر پر عمل پیرا ہیں۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نارتھ ایسٹ ہویا نکسل سے متاثرہ علاقہ ، آہستہ آہستہ ہمارے مسائل کم ہوتے جارہے ہیں، اور کم پریشانیوں کی وجہ سے خوشی اور امن کا ایک موقع ملا ہے ، ترقی کے دھارے میں یہ ہمارے سبھی ساتھیوں کے آنےکا موقع مل رہا ہے اور ہندوستان کےروشن مستقبل میں مشرقی ہندوستان بہت بڑا کردار ادا کرے گا۔ اور ہم اسے مضبوطی سے لائیں گے۔

میں جناب غلام نبی جی کو سن رہا تھا۔ بہرحال ، بہت نرمی ، نرمی اور کبھی سخت الفاظ کا استعمال کرنا غلام نبی جی کی خصوصیت رہی ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ ہم سبھی ممبران پارلیمنٹ کو ان سے سیکھنےجیسی چیز ہے اور میں ان کا احترام کرتا ہوں۔ اور انہوں نے جموں و کشمیر میں ہونے والے انتخابات کی بھی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ بہت لمبے عرصے سے اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ جموں و کشمیر میرے دل میں بہت خاص ہے اور یہ فطری بات بھی ہے ، ان کے دل میں یہ بات ہونااور جموں و کشمیر پورے ہندوستان کے دل میں اسی جذبات سے بھرا ہوا ہے۔

جموں وکشمیر خود منحصر بنے گا ، اس سمت میں–وہاں پنچایت کے انتخابات ، بی ڈی سی انتخابات ، ڈی ڈی سی انتخابات ہوئے اور ان سب کو غلام نبی جی نے سراہا ہے۔ میں اس تعریف کے لئے آپ کا بہت مشکور ہوں۔ لیکن میں ڈرتا ہوں ، آپ نے تعریف کی۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی پارٹی کے ممبران اسے ایک مناسب جذبے سے لیں گے ، غلطی سے جی -23 کی رائے مان کرکے کہیں اسے الٹا نہ کر دیں۔

محترم چیئرمین،

کورونا کے چیلنجنگ مرحلے میں ، سرحد کو بھی چیلنج کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ ہمارے بہادر فوجیوں کی ہمت اور مہارت نے ایک درست جواب دیا ہے۔ ہر ہندوستانی کو اس پر فخر ہے۔ ہمارے فوجی مشکل حالات میں ڈٹ کر کھڑے رہے ہیں۔ تمام ساتھیوں نے بھی ہمارے فوجیوں کی بہادری کی تعریفکی ہے ، میں ان کا مشکور ہوں۔ ایل اے سی کے بارے میں ہندوستان کی پوزیشن بالکل واضح رہی ہے اور ملک اس کی طرف دیکھ رہا ہے اور اسے فخر بھی ہے۔ بارڈر انفراسٹرکچر اور بارڈر سیکیورٹی سے متعلق ہماری وابستگی میں کسی طرح کی نرمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور جو لوگ ہمارے خیالات ، ہمارے مقصد  کو دیکھتے ہیں وہ اس معاملے میں ہم سے کبھی پوچھ گچھ نہیں کریں گے ، وہ جانتے ہیں کہ ہم لوگ اس کے لئے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اور اسی وجہ سے ہم ان معاملوں  میں کہیں پیچھے نہیں ہیں۔

محترم چیئرمین،

میں اس ایوان کی بہترین گفتگو کے لئے سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آخر میں میں ایک منتر کا ذکر کرکے اپنی تقریر ختم کروں گا۔ ہمارےیہاں ویدوں میں ایک عمدہ خیال پایا جاتا ہے۔ یہ منتر خود ہی ہم سب کے لئے، 36 کروڑ شہریوں کے لیے بہت بڑا حوصلہ ہے۔ ویدوں کا یہ منتر کہتا ہے:

”آیوتو اہم آیوتو میں آتما اینت میں، اینت چچھو، اینت شروترما“

یعنی ، میں ایک نہیں ہوں ، میں تنہا نہیں ہوں ، میں اپنے ساتھ لاکھوں انسانوں کو دیکھتا ہوں اور تجربہ کرتا ہوں۔ لہذا میری روحانی طاقت کروڑوں میں ہے۔ میرے پاس لاکھوں افراد کا نظریہ ، سننے کی طاقت ، اور لاکھوں لوگوں کی عملی طاقت ہے۔

محترم چیئرمین ،

ویدوں کے اسی جذبے سے، اسی شعور کے ساتھ ، ہندوستان 130 کروڑ سے زیادہ شہریوں کے ساتھ سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔ آج 130 کروڑ وطن عزیز کے خواب ہندوستان کے اپنے خواب ہیں۔ آج  130 کروڑ وطن عزیز کی امنگیں اس ملک کی امنگیں ہیں۔ آج  130 کروڑ شہریوں کا مستقبل ہندوستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ اور اسی طرح ، جب ملک پالیسیاں بنا رہا ہے ، کوششیں کررہا ہے ،  تو یہ صرف فوری طور پر منافع یا نقصان کے لیے نہیں ہے بلکہ طویل مدتی اور 2047 کے لئے ہے جب ملک آزادی کی ایک صدی کا جشن منائے گا ، تب ملک کو نئی اونچائیوں پر لے جانے کے خواب کو لے کر کے یہ بنیاد رکھی جارہی ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ ہم یقینی طور پر اس کام کو مکمل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔

میں ایک بار پھر قابل احترام صدر جمہوریہ صاحب کے خطاب کے لئے ان کا احترام کے ساتھ شکریہ ادا کرتا اور ان کا استقبال کرتا ہوں اور جس طرح سے ایوان میں تبادلہ خیال کیا گیا، میں آپ کو سچ کہتا ہوں ، گفتگو کی سطح بھی اچھی تھی ، ماحول بھی اچھا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ کسے کتنا فائدہ ہوتا ہے ، مجھ پر بھی کتنا حملہ ہوا ، ہر طرح سے جو بھی کہا جاسکتا ہے کہا گیا ، لیکن مجھے بہت خوشی ہے کہ کم از کم میں آپ کے کام تو آیا ، دیکھیے ایک تو آپ کے من میں کورونا کی وجہ سے زیادہ کہیں آنا جانا نہیں ہوتا ہے ، پھنسے رہتے ہوں گے ، اور گھر میں بھی خلش رہتی ہوگی۔ اب جب یہ غصہ یہاں نکال دیا تو آپ کا دل کتنا ہلکا ہو گیا ہوگا۔ آپ گھر کے اندر بہت زیادہ وقت خوشی خوشی گذار رہے ہوں گے۔ تو یہ خوشی جو آپ کو ملی ہے ، میں اس کے لئے کام کرنے آیا ہوں ، میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں ، اور میں چاہوں گا کہ لطف مسلسل لیتے رہیے۔ بحث کرتے رہیں، مستقل بحث کرتے رہیں۔ ایون کو زندہ رکھیں ، مودی ہے ، موقع لیجیے۔

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
Cabinet approves minimum support price for Copra for the 2025 season

Media Coverage

Cabinet approves minimum support price for Copra for the 2025 season
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
سوشل میڈیا کارنر،21دسمبر 2024
December 21, 2024

Inclusive Progress: Bridging Development, Infrastructure, and Opportunity under the leadership of PM Modi